Wednesday 5 December 2012

دوا اور دعا

0 comments
ایک نوجوان کی شادی ہوتی ہے۔ اب کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ نوجوان کیوں۔ حکایت نہیں سننی تم لوگوں نے۔

شادی کے معاملات طے کرتے وقت تو اسکو باپ یاد نہ آیا۔ مگر جب وقت شہادت قریب آیا تو اک سیانے نے مشور ہ دیا 
کاکا بزرگوں کی دعا لے لے۔ بھلا ہو جائے گا۔

وہ اپنے والد کے پاس پہنچا کہ اس نئے ازدواجی سفر کے لیے برکت کی دعا کی جائے۔ 
باپ نے پہلے تو تیوری چڑھا کر کہا۔ آگئی پیو دی یاد۔ کدھر کمیوں میں تو رشتہ نہیں طے کر آیا۔ 

اس پر اس نوجوان نے ہونے والی شریک حیات کے حسب نسب سے آگاہی دی۔ باپ اس خاندان کو جانتا تھا۔ اور معلوم تھا کہ لڑکی بہت ہی زبان دراز ہے۔ لیکن اب پدرانہ شفقت سے مجبور ہو کر کوئی ایسی نصیحت سوچنے لگا جس پر عمل سے اسکا بیٹا خوش رہے۔ 

با پ کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر بیٹے نے انتہائی مودب لہجے میں پوچھا۔
ابا جی خیر ہوئے۔ طبیعت ٹھیک ہے۔
اس پر والدنے اُس سے ایک کاغذ اور قلم کا تقاضا کیا۔ 

بیٹے نے جھٹ سے اپنا ٹیبلٹ نکالا اور کہا ابا جی حکم کریں۔

باپ کو غصہ آگیا اور کہا کر دیا نہ اتنے خوبصورت خیال کا بیڑا غرق۔ جا کاپی پینسل لے کر آ۔ اور خیال آنے پر دوبارہ آواز دے کر کہا، کہ کہیں جیل والا یا کوئی اور سیاہی والا پین نہ اٹھا لائیں۔ ڈئیر والوں کی کچی پینسل ہی لے کر آنا۔ بیٹا جب تھوڑی دور اور پہنچا تو پھر آواز دی کہ ساتھ میں ربر بھی لے آنا۔

لڑکا تپ کر واپس آکر بیٹھ گیا اور بولا،
نئیں پیلے تسی یاد کر لو منگانا کی کی ائے (نہیں آپ پہلے یاد کر لو، چاہیئے کیا کیا۔ )
باپ کا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا
او جا کاکا، جو کام کہا ہے وہ کر۔

لڑکاکو پہلے ہی شک تھا کہ ابا حضور اب سٹھیا چکے ہیں۔ مگر صرف اس امید پر کہ شائد اب والد محترم کوئی کام کی بات کر لیں مطلوبہ سامان لینے نکل کھڑا ہوا۔ 
عرصہ دراز بعد پینسل کاپی ہاتھ میں لے کر وہ ماضی کی یادو ں میں کھو گیا۔ جب اسے بٹرفلائی کی پینسل پسند تھی اور باپ تب بھی ڈئیر کی پینسل ہی لا کر دیتا تھا۔

باپ نے اسے سوچوں میں ڈوبا دیکھکر کہا کاکا ارسطو نہ بن۔ لکھ 

بیٹا باپ کی جگت پر کھسیانہ ہوکر۔ کیا لکھوں 

باپ بیٹے کے لاجواب ہونے پر طنزیہ ادا کے ساتھ۔ جو تیرا دل کرے۔

نوجوان ایک جملہ لکھتا ہے
"انسان حسن پرست ہے"

باپ شرمندہ ہو کر: اسلاف کی روایات نہ چھوڑنا، چل مٹا اسے
اب نوجوان کے چہرے پر خوشی۔ اور مٹا دیتا ہے۔

باپ : کچھ اورلکھو 
بیٹا : خدارا آپ کیا چاہتے ہیں ؟
باپ کہتا ہے : ٹھیک ہے اب اسے بھی مٹا دے۔


باپ : چل اب کچھ اورلکھو
بیٹا: میں یہاں دعا لینے آیا ہوں۔ خوشخطی کی کلاس لینے نہیں۔
باپ: نظر انداز کرتے ہوئے، می نویس۔۔۔ ۔
نوجوان لکھتا ہے :
عقل کے اجزاء بیان کرو
باپ اس جملے میں چھپے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ اسے بھی مٹا دو اب۔

لڑکا مٹاتے ہوئے دل میں، یا اللہ میرا ابا پاگل ہو کر نہ مرے۔ آمین 

پھر باپ اُ س کی طرف دیکھتا ہے اور اُسے تھپکی دیتے ہوئے کہتا ہے :
بیٹا شادی کے بعد اریزر کی ضرورت ہوتی ہے 
اگر ازدواجی زندگی میں تمہارے پاس ربرنہیں ہو گا جس سے تم اپنی بیوی کی غلطیاں اور کوتاہیاں مٹا اور معاف کر سکو
اور اسی طرح اگر تمہاری بیوی کے پاس ربر نہ ہوا جس سے وہ تمہاری غلطیاں اور ناپسندیدہ باتیں مٹا سکے تو تم دونوں خود سوچو کہ کتنا باعث اذیت ہوگا۔ 
میں تمہاری ان بدتمیزیوں پر تمہیں کتنا مارتا تھا۔ اور نہیں چاہتا کہ اب بیگم سے بھی تم پٹو۔ 
بیٹا۔۔ اور اگر اس نے روز اک پینسل ختم کرنی شروع کر دی۔ یا پھر پارکر کی سیاہی کا استعمال ۔۔۔ 
والد غصے سے: ابھی میری بات نہیں ختم نہیں ہوئی۔ اگر تمہارے پاس ربر ہوگا تو ہی تم اسکی کوتاہیاں معاف کر سکو گے۔ وگرنہ تمہاری حیات کا صفحہ تمہارے مقدر اور منہ کی مانند تیرہ نصیب ہی رہے گا۔
بیٹا: اباجی وہ دعا کدھر گئی۔ جس کے لیئے میں نے اتنے پاپڑ بیلے ہیں۔
آپ کی یہ بیکار نصیحت تو آپ کی زندگی پر کارگر نہ ہوئی۔ اور ساری عمر ڈنڈا لیئے ہم لوگوں کو مارتے رہے۔ نتیجہ کے طور پر اب آپکی اولاد آپ سے دور ہے۔ اور جس ربر کی بات آپ کر رہے ہیں اس کی ہر انسان کو ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔ اور آپکو اس ربر کا استعمال بہت پہلے سیکھ لینا چاہیئے تھا۔ 

اخلاقی سبق: کسی ربر کی ضرورت نہیں ہے۔ ظرف ہونا چاہیئے بندے کا اور بس۔ زندگی کے لکھے نہیں مٹتے۔ بس ان کے ساتھ جینے کے فن پر دسترس ہونی چاہیئے۔ اور جب کوئی دعا کا کہے تو صرف دعا کرو۔ دوا کا بندوبست کر کے اپنا اور اسکا وقت ضائع مت کرو۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔