Friday 25 January 2013

عرق انفعال

4 comments
اک چھوٹی سی بٹیا رانی ہے گود میں۔ کب سے کھیل رہی ہے۔ میرے پیچھے چھپتی ہے۔ پھر ہنستی ہے۔ میں اسکو دیکھ دیکھ کرخوشی سے نہال ہوا جا رہا ہوں۔ ہنستا ہوں۔ یہ منہ پر اک دوپٹہ لے کر چھپ رہی ہے۔ جب میں چہرے سے دوپٹہ ہٹاتا ہوں۔ تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتی ہے۔ بولنا نہیں آتا۔ دفتر بیٹھا تھا کہ حکمران اعلی کی طرف سے پیغام موصول ہوا۔ آپکی بٹیا پاپا کی رٹ لگائے ہے۔ فون پر سننے کی کوشش کی۔ سمجھ نہیں آئی۔ وقت ٹھہر گیا۔ کب شام ہوگی۔ میں گھر جاؤں گا۔ دیکھو گا اپنے نور عین کو۔ سنو گا اس سے۔ گھر پہنچا تو بٹیا سو رہی۔ بڑا بیقراری میں وقت گزارا۔۔۔ کب اٹھے۔ آخر وہ لمحہ آیا جب میری بٹیا نے پاپا کہا۔ اس انبساط کی لہر کو الفاظ میں ڈھالنے سے قاصر ہوں۔ بار بار سنا۔ ویڈیو بنا لی۔ اس کی دادی، دادا، نانا، نانی کو فون کیا۔ سب کو بتایا۔ آج اس نے ہاتھ ملانا بھی سیکھ لیا۔ اب سلام کرنے پر ہاتھ ملاتی ہے۔ اور خدا حافظ کہنے پر ہاتھ ہلاتی ہے۔ کچھ دنوں بعد اس چندا کی پہلی سالگرہ ہے۔ طرح طرح کے خیالات میں ذہن گھرا ہے۔ یہ کروں گا۔ وہ کروں گا۔ کتنی محبت ہے اولاد کی۔ دوری کی آزمائش کتنی سخت ہوگی۔

رات کو اسی طرح کھیلتے کھیلتے ہم دونوں باپ بیٹی سو گئے۔ رات کے کسی پہر آنکھ کھلی۔ دیکھا بٹیا پر سے کمبل ہٹا ہوا ہے۔ کمبل دیا۔ ذہن کے نہاں خانے میں اپنا بچپن روشن ہوگیا۔ میری ماں۔۔ میرا باپ۔۔ آنکھو ں کے سامنے کے مناظر دھندلا گئے۔ اور اوجھل منظر واضح ہوتے چلے گئے۔ میری بہنیں کہتی ہیں۔ کہ تو وہ توتا ہے جس میں امی کی جان ہے۔ کیسا توتا ہے جو رات کے اس پہر اپنی ماں سے بےفکر ہے۔ اسے احساس ہی نہیں کہ جس کی جان اس میں مقید ہے۔ اسکا کیا حال ہے۔ ماں شائد جاگ رہی ہوگی۔ سوچ کر فون کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ پھر سوچا سوئی ہوئی تو نیند خراب ہوجائے گی۔ روک لیا خود کو۔۔۔ ۔ واقعات اک اک کر کے پردہ سکرین پر چلنے لگے۔ امی کہتی ہیں کہ تم میرے سے اک پل دور نہ ہوتے تھے۔ میں تمہیں اٹھا کر سارے کام کرتی تھی۔ پر تم کو ہٹانا ممکن نہ تھا۔ کاندھا اور بازو سوج جاتے ہونگے ماں کے۔تین سال کے قریب عمر تھی۔ جب پہلی بار بازو ٹوٹا۔ جب پلاسٹر چڑھایا ڈاکٹر نے تو میرا باپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میری طرف نہیں دیکھتے تھے۔ پھر اک دن میرا پلاسٹر اتروا دیا۔ میرا بازو کو پکڑ کر بیٹھے رہتے۔ کہ کہیں جوڑ خراب نہ ہوجائے۔ مگر پٹی نہ باندھنے دیتے کہ میرا بیٹا معذور نہیں۔ بےقراری حد سے بڑھنے لگی۔ صبح ہونے میں نہیں آرہی۔ وقت ٹھہر گیا ہے۔ بارہ سال گزر گئے۔ حساب لگا رہا ہوں۔ ان گزشتہ بارہ سالوں میں گنتی کے چند دن جو ملا کر کچھ مہینے بھی نہیں بنتے گھر میں گزارے ہونگے۔ اس میں بھی کتنا وقت اپنی ماں کے پاس بیٹھا۔ کتنا وقت باپ کے پاس بیٹھا۔ بہت سوچا مگر یوں لگا کہ چند گھنٹے سے زیادہ وقت نہ گزارا ہوگا۔وہ ماں جس کا آج بھی قلبی تعلق اس قدر زیادہ ہے۔ کہ جب بھی کسی پریشانی نے گھیرا ہے۔ سب سے پہلے فون آیا ہے ماں کا۔ پوچھتی ہے بیٹا طبیعت ٹھیک ہے نا۔ دل ڈوبا جاتا ہے میرا۔ کوئی پریشانی ہے تو بتاؤ۔ ندامت کا عرق آنکھو ں سے پھوٹ نکلا ہے۔ اور تاب نہیں اس عرق کو پونچھنے کی۔ بیگم جاگ گئی۔ بٹیا جاگ گئی۔ تو کیا سوچے گی۔ کہ کیسا آدمی ہے۔ کس لیئے رو رہا ہے۔ بتانا پڑے گا۔

اتنے بےحسی کیوں آگئی مجھ میں۔۔۔ ۔۔ بٹیا رانی کے بناء تو چند دن نہیں گزرتے۔۔۔ پھر اپنے والدین کے ساتھ ایسا کیوں کر بیٹھا۔ احساس ندامت ذہن پر حاوی ہوتا جاتا ہے۔جسم مکمل عرق انفعال میں تر ہے۔ دماغ طرح طرح کے بہانے تلاش رہا ہے۔ کہ دیکھ یار پہلے پڑھائی اور پھر ملازمت۔۔۔ تیرے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا۔۔۔ ۔ عرق ندامت نے رخسار کے ساتھ ساتھ قمیص کے سامنے کا حصہ بھی بھگو دیا ہے۔ میں بیٹھا ہوں۔ رات سرد ہے۔ پر ٹھنڈ کا احساس نام کو نہیں۔ دل دماغ کے تمام حیلے بہانوں پر تردید کی مہر لگائے چلا جا رہا ہے۔ دماغ کا کہنا ہے کہ پڑھنے بھی تو انہوں نے ہی بھیجا تھا۔ پھر بہتر مستقبل۔۔۔ کیا کرتا تو۔۔۔ پھر دل کا ماننے سے انکار۔۔۔ اچھا اس میں تیرا قصور ہی نہیں۔ پر قصور تو واضح ہے۔ میرے نبی :pbuh: فرماتے ہیں کہ اگر حالت نماز میں مجھے میری ماں آواز دے تو میں فوراً لبیک کہتا ہوا جاؤں۔ مگرجب میری ماں کہتی ہے بیٹا تیرے بناء دل نہیں لگتا۔ تو ہنس پڑتا ہوں۔ امی اگلے مہینے آؤں گا۔ اگلہ مہینہ۔۔۔ کتنے اگلے مہینے گزرتے جاتے ہیں۔ دماغ کہتا ہے۔ بڑا بیٹا ہونے کی ذمہ داریاں ہیں تجھ پر۔ ان سے بھی عہدہ برآ ہونا ہے تو نے۔ پر دل ہے کہ بس انکی آواز سننے کو ترسا جاتا ہے۔ صبح ہو جائے۔ بس صبح ہوجائے۔
امی کی طبیعت خراب تھی تو چھوٹے بھائی کو ڈانٹا کہ ڈاکٹر کے پاس لے جانے میں کیوں تاخیر ہوئی۔ جیسے سب فرائض اسی کے ہیں۔ جیسے میرا کوئی فرض نہیں۔ اپنی ان کوتاہیوں کے لیئے بڑی دیر سے کوئی وجہ تلاش رہا ہوں۔ آخر ابلیسی داماغ وجہ تلاش کر ہی لایا۔ کہ والدین کی محبت میں قلت اس لیئے ہے کہ آدم و حوا کے والدین ہی نہ تھے۔ انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ والدین سے محبت کیسے کی جاتی ہے۔ کیسے ان کی خدمت کی جاتی ہے۔ وہ تو بس اولاد سے ہی محبت کرنا جانتے تھے۔ سو یہی وہ وراثت ہے جو مجھ تک پہنچی ہے۔ میں نے ثابت کر دیا ہے کہ میں صحیح وارث ہوں۔ اس دلیل سے دل کچھ مطمئن ہوگیا ہے۔ اب شائد نیند آجائے۔

Tuesday 22 January 2013

پابست سامعین

2 comments
تمام لوگ اس مقرر کی باتیں سنکر بوریت سے پہلو بدل رہے تھے جو بڑی دیر سے انسانی مسائل پرکتابی قسم کی گفتگو کر رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہر شخص کے ساٹھ فیصد مسائل اس کے خود کے پیدا کردہ ہیں۔ اور بقیہ انکا ردعمل ہیں۔حاضرین کی اک بڑی تعداد کے چہرے پر اکتاہٹ کے آثار واضح تھے۔بزرگ حضرات اک دوسرے کی طرف دیکھ کر آنکھوں آنکھوں میں مسکرا رہے تھے۔ گویا کہہ رہے ہیں کہ میاں یہ راگ برسوں سے سن رہے ہیں۔،ہم سب جانتے ہیں۔ اور نوجوان طبقہ کی اکثریت کافی دیر سے آپس میں سرگوشیو ںمیں مصروف تھی۔ دو نوجوان آپس میں کچھ یوں محو گفتگو تھے۔
پہلا؛ اگر ایسی تقاریب میں آنا فیشن نہ ہو تو میں کبھی پاؤں نہ رکھوں۔ جب کہ دوسرا کہہ رہاتھا اچھابھلا موج میں تھا۔ خدا غارت کرے تیری نہ ہونے والی بھابھی کو۔ بلوا لیا اس بکواس محفل میں۔ اب خود دو قطاریں آگے بیٹھی اپنے ابا حضور کے کاندھے پر سر رکھے سو رہی ہے۔
مقرر نے بھی سامعین کی عدم دلچسپی محسوس کر لی۔ چنانچہ اس نے ناظرین کی توجہ دوبارہ اپنی گفتگو میں لانے کے لیئے اک فنکاری کا مظاہرہ کرنے کا سوچا۔
اس نے سو ڈالر کا نیا کڑکڑاتا نوٹ جیب سے نکال کر حاضرین کےسامنے لہراتے ہوئے پوچھا، کون ہے جو یہ سو ڈالر کا نوٹ لینا چاہے گا؟ اس حرکت پر بزرگوں کے چہروں پرعارفانہ قسم کی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ نوجوان طبقے نے ایسی نظرو ں سے مقرر کو دیکھاجیسے اس کی ذہنی حالت پر شدید قسم کا شک ہے۔ لیکن مروتاً یا جانے انجانے سبھی نے ہاتھ کھڑا کر دیا۔ کہ دیکھیں تو سہی کرتا کیا ہے۔ مقرر نے کہا ٹھیک ہےنوٹ تو ایک ہی ہے اور میں صرف ایک ہی شخص کو دونگا مگر پہلے ذرا یہ دیکھیئے۔ اور ساتھ ہی اس نے نوٹ کو مسل کر چر مر کیا، ہتھیلی پر رگڑ کر گولا بنایا اور پھر پوچھا، کون ہے جو نوٹ کو اس حال میں بھی لینا پسند کرے گا؟ اس کی اس حرکت پر اک نوجوان دوسرے سے یوں مخاطب ہوا۔ میں اس کو جانتا ہوں جناب۔ اس نے تو کبھی کسی کو اپنا بخار نہیں دیا۔ ایویں بیوقوف بنا رہا ہے سب کو۔
مگر لوگوں کی طلب میں کوئی بھی کمی نہیں آئی تھی،الٹا لڑکے بالوں کے ہاتھ کھیل لگ گیا۔ اور وہ کہنے لگے۔ کہ جیسا بھی ہے چلے گا ۔ دوڑے گا۔ مقرر نے اپنا وار کارگر ہوتے دیکھا۔ تو کھیل جاری رکھنے کا سوچا۔اس بار مقرر نے نوٹ کو زمین پر پھینک کر اپنے جوتوں سے مسل دیا۔حاضرین کی اکثریت نے یہ بات نوٹ کی کہ جوتے مٹی سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ اس پر اک بزرگ نے پھبتی کسی۔ میاں پیدل آئے ہو۔ تمام حاضرین ہنس پڑے مگر مقرر بدمزا نہ ہوا۔ اس نے مٹی سے لتھڑے بے حال نوٹ کو واپس اٹھا کر حاضرین سے پوچھا کیا وہ نوٹ کو اس حال میں بھی لینا چاہیں گے؟
اور اس بار بھی طلبگاروں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اور لوگوں کے ہاتھ ویسے ہی اٹھے ہوئے تھے۔ اس پر اک آدمی ساتھ بیٹھے سے کہنے لگا۔ لکھوا لو میرے سے۔ یہ نوٹ کسی کو نہیں دے گا۔ شغل لگا رہا ہے۔ مقصد سب کو اٹھانا تھا۔ اب سب کی توجہ اس کی طرف لگی ہوئی ہے۔ دوسرے نے ہنس کر کہا۔ ڈالروں کی بھوک دیکھ کر تو لگتا ہےکہ تمام حاضرین کا تعلق سیاست سے ہے۔اک پلٹ کر کہنے لگا۔ نہیں کچھ فوج کے بھی ہیں۔ انکی یہ باتیں سنکر اردگرد کے لوگ بھی ہنسنے لگ پڑے اور ان سب نے شرمندہ ہو کر ہاتھ نیچے کر لیئے۔ اک آدمی کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگا۔ کہ ہاتھ تو صرف اس لیئے اٹھایا تھا کہ دیکھیں کرتا کیا ہے۔ اس پر قطار میں موجود باقی لوگ بھی تائیدی انداز میں سر ہلانے لگے۔ اور بات شروع کرنے والوں کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔جیسے کہنا چاہتے ہیں۔ عذر گناہ بد تر از گناہ

مقرر نے نوٹ واپس اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ نوٹ تو میں تم لوگوں کو نہیں دیتا ۔ اس پر وہ نوجوان جس نے بخار والی بات کی تھی۔ اس نے اردگرد یوں فاخرانہ انداز میں نظر ڈالی کہ کیا سکندر نے فتوحات حاصل کر کے مفتوح قوموں پر ڈالی ہوگی۔
مقرر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ مگر ایک سبق ضرور دینا چاہتا ہوں جو ابھی ابھی میں نے اخذ کیا ہے اور وہ سبق یہ ہےمیں اک گھنٹے سے بول رہا تھا، مگر کوئی میری باتوں کو اہمیت دینے پر تیار نہ تھا۔ جیسے ہی میں نے اک نوٹ نکالا۔ سب کی توجہ ادھر مرکوز ہوگئی۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ پیسوں کےساتھ چاہے جو بھی سلوک کر لو اُن کی قدر میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اُن پیسوں کے طلبگار اور لینے والے ویسے ہی رہتے ہیں۔ میرا نوٹ نیا نکور اور کڑکڑاتا ہوا سو ڈالر کا میں نے ابھی اے-ٹی-ایم سے نکالا تھا، رگڑا ، جوتوں کے تلوے سے مسلا اور مٹی میں لتھڑا ہوا بھی سو ڈالر کا ہی ہے۔ اس کی قیمت میں کہیں سے کوئی کمی نہیں آئی۔ اس پر حاضرین میں سے اک منچلا بولا۔ اور سر جی! پرانا نوٹ تو اصل ہونے کی نشانی ہے۔ اس کو زیادہ پرکھنا نہیں پڑتا۔ اس پر محفل کشت زعفران بن گئی۔ اک اور بولا۔ یہ کونسی مشین ہے جس میں سے ڈالر نکلتے ہیں۔ اک بزرگ نے لقمہ دیا۔ بیٹا یہ سیاسی اے-ٹی-ایم ہے۔ اس پر حاضرین بڑی دیر تک ہنستے رہے۔
مقرر نے کہا کہ جناب یہاں جگتوں کا مقابلہ نہیں ہو رہا۔ براہ کرم موضوع سے نہ ہٹیں۔ اور میری آخری دو باتیں بھی سنتے جائیں۔
انسان بھی کئی بار نامساعد حالات، محدود اسباب، مستقل ناکامیوں اور معاشرتی رویوں سے دلبرداشتہ ہوجاتا ہے۔ مگر اس چیز کو سر پر سوار کرنے کی ضرورت نہیں۔ حالات جیسے بھی ہوں انسان کو اپنی قیمت کم نہیں کرنی چاہیئے۔ یہ تقریر کرتا کرتا مقرر جذباتی ہوگیا۔
اس پر حاضرین میں سے اک نے کہا۔ یار تو نے یہ بات کرنے کے لیئے ہمیں لالچ دیا تھا۔ یہ کتابی باتیں تو ہمیں ماں باپ بچپن سے سکھا رہے کہ اپنی قیمت میں کمی نہ آنے دو۔ مگر تجھے اک تلخ حقیقت کا درک نہیں کہ دنیا کہ اس میلے میں کسی کی قیمت اس انسان سے زیادہ دوسرے لوگ مقرر کرتے ہیں۔ اگر یہ سو ڈالر کا نوٹ میری جیب میں ہوتا تو میں بھی ایسی باتیں کر سکتا تھا۔ یہ سنکر وہ مقرر دم بخود رہ گیا۔ اور حاضرین نے اس آدمی کو بہت داد دی۔

اخلاقی سبق: لوگوں کو اخلاقی اقدار اور نامساعد حالات پر غم زدہ ودلبرداشتہ نہ ہونے کا درس آپ صرف اس وقت دے سکتے ہیں۔ جب انکے پاس ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کو مناسب ذرائع میسر ہوں اور پھربھی وہ دل ہار بیٹھیں۔

Saturday 19 January 2013

تنہائی

3 comments
تنہائی اک بہترین ذریعہ ہے اپنے مفاہیم و محاسن کے درک کا ۔ ادراک کا نزول ہجوم میں گنجلک رہتا ہے۔ محسنین و مصاحب کے سخن موہومیت کی دلدل میں دھنسے رہتے ہیں اور انسان بےفکری کی سی کیفیت میں سفر رائیگاں پر گامزن رہتا ہے۔ مگر تنہائی ان تمام عقدوں سے تہہ در تہہ پردے اتار کر حقیقت کو منکشف کر دیتی ہے، اور انسان کی ممیّز حس کی آبیاری کرتی ہے۔ گرچہ آگہی کا یہ عذاب دل ناتواں کو راس نہیں آتا کہ جوں جوں سراب کا دلنشیں پردہ سرکتا ہے آنکھیں تلخ حقائق کی تاب نہ لا کر مثل دریا بندھ توڑ دیتی ہیں اور ایسے میں پند شکیبائی کا سبق مہمل معلوم ہوتا ہے۔ بسا اوقات ملمع سازی سے نمود پاتے جھوٹ کاکشف محب سے افتراق کا باعث بنتا ہے۔

فرمودات نیرنگ خیال
۱۸  رمضان المبارک ۱۴۳۳ ھ – ۷ اگست  ۲۰۱۲

Friday 11 January 2013

علم میں دولت

1 comments
گرچہ کہا یہی جاتا ہے کہ پرانے دور میں سفارش نہ تھی۔ لیکن اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اکثر روایات میں سفارش کا حوالہ ملتا ہے۔ ایسی ہی سفارش پر مبنی حکایت پیش خدمت ہے۔
ایک شخص تھا۔ بہت نکما۔ علم کی دولت سے محروم اور کسی بھی ہنر سے عاری۔ کوئی کام دھندہ نہ کرتا تھا۔ پورا دن گلی کی نکڑ پر ٹنگا رہتا۔ گھر والے تو اک طرف محلے والے الگ تنگ تھے۔ آخر اس کے باپ نے سفارش ڈھونڈنی شروع کی۔ محلے کے حاجی صاحب نے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں۔ میری بادشاہ وقت کے دربار تک رسائی ہے۔ میں وہاں کچھ بات چیت کروں گا۔ اللہ کے کرم و فضل سے سبب بن جائے گا۔ سب لوگ اس سفارش کے قبول ہونے کی دعائیں کرنے لگے۔
مراد بر آئی اور وہ بادشاہ کے دربار میں جا پہنچا۔
بادشاہ کے پوچھنے پر اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپکا اقبال بلند ہو مجھے درباریوں میں شامل کر لیا جائے۔
بادشاہ نے پوچھا کس علم میں طاق ہو۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت طاق بنانے کے فن سے تو بالکل انجان ہوں۔ لیکن اگر آپ کے دربار میں رہا تو آپ کا علم جو بلندی میں ہمالہ کو شرمسار کر رہا اس سے فیض پا کر ہر علم میں طاق ہو جاؤں گا۔
بادشاہ سمجھ گیا کہ لڑکا آداب شہنشاہی سے خوب آگاہ ہے۔ اک آدھے درباری نے کہا کہ حضور یہ خوشامدی لگتا ہے۔ اس پر بادشاہ نے کہا کہ یہ خوشامد نہیں صاحب نظر ہونا ہے۔

بادشاہ نے اس کی درخواست منظور کرلی،لیکن ساتھ ہی شرط لگا دی کہ پہلے علم حاصل کرو،اس لیے کہ علم کے بغیر کوئی ہمارا درباری نہیں بن سکتا۔
بادشاہ کی مراد خوشامد کے علم سے تھی کہ اسے آداب اور وقت بے وقت چاپلوسی کی خوب تربیت دے دی جائے مگر کج فہموں نے اسے دین و دنیا کا علم حاصل کرنے پر لگا دیا۔
وہ سیدھا سب سے بڑی درسگاہ میں پہنچا۔ اور بادشاہ کی پرچی دکھا کر داخل مکتب ہوگیا۔ اپنی زباندانی کی بدولت جلد ہی اس نے اپنے ہم جماعتوں میں شہرت پا لی۔ اور درسگاہ میں چھوٹے موٹے مقابلے جیتنے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ عالم بن گیا۔ اب فروغ علم کے لیئے خود کی اک درسگاہ بنا لی اور خوب مالا مال ہوگیا۔
بادشاہ کا درباری بننے کی چنداں ضرورت نہ رہی تھی۔ لیکن اک دن بادشاہ نے خود اسے طلب کر لیا اور امتحان لیا۔ اس نے اپنی رطب اللسانی سے بادشاہ پر خوب دھاک بٹھائی اور باتوں باتوں میں بادشاہ کو اس دنیا کا نجات دہندہ ثابت کر دیا۔
اس پر بادشاہ بہت خوش ہوا اور کہا
اب تم میرا درباری بننے کے قابل ہوگئے ہو۔
اسپر وہ شدید پریشان ہو گیا کہ چلتا علم کا کاروبار ہے۔ دولت کی ریل پیل ہے۔ اور بادشاہوں کے مزاج کو تو ویسے ہی نہیں پتہ۔ کب گردن مار دے۔ بادشاہ نے اسے تذبذب میں دیکھا تو کہا۔ کیا سوچ رہے ہو۔
یہ سن کر اس نے کہا:
بادشاہ سلامت: اس سے زیادہ فخر کے لمحات میری زندگی میں نہیں آئے کہ آپ جیسا عالم آدمی مجھے اس قابل سمجھ رہا ہے کہ مجھے بھی کچھ علم ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ جیسی باعلم شخصیت کے سامنے میری کیا اوقات ہے۔ آپ شاہی درباریوں کو میری درسگاہ میں بھیجئے۔ انکی تربیت بھی ہو جائے گی اور آپکے ساتھ مشاورت سے میرے علم میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔
بادشاہ خوش ہوگیا اسکی درسگاہ کو شاہی درسگاہ بنوا دیا۔ سب امیر و کبیر لوگ وہاں داخلے کے لیئے سفارشیں ڈھونڈنے لگے۔

اخلاق سبق: علم میں بڑی دولت ہے۔