Tuesday 24 June 2014

بے پر کی اَڑانا از قلم نیرنگ خیال

2 comments
لوگ اتنی اچھی بے پر کی لکھتے ہیں۔ ہم تو بے پر کی نہیں لکھ سکتے۔ ہماری تو پر والی نہیں اُڑتی تو بے پر کی کہاں اُڑے گی۔ ہم نے سوچا کہ اس بےپر میں ہم سے کچھ اُڑے نہ اُڑے ہم کچھ نہ کچھ اُڑائیں گے ضرور۔ لیکن جب ہم سے کچھ نہ اُڑا تو ہم ٹانگ اَڑانے کا سوچ لیا۔ کہ ٹانگ اَڑانا تو ویسے بھی اپنا قومی مشغلہ ہے۔ چاہے الف ب آتی ہو یا نہ ۔ لیکن اچھا کام ہم نے یہ کیا کہ ہم نے اپنی اس بے پر کی سے بے پر کی اصلی پری مارکہ والے دھاگے کو خراب نہیں کیا۔ تو میں آپ کو ایک بات سناتا ہوں۔ لیکن ظاہر ہے کہ ہے بے پر کی ہی۔
بھلے دنوں کی بات ہے۔ بقول مچھلی شہری شباب پر بہار تھی فضا بھی خوشگوار تھی۔ تو ہم بھی ایسے موسم میں مچل پڑے اورفلیٹ سے نکل پڑے۔
فلیٹ سے نکلتے ہی ہم کو خیال آیا کہ ہم کو تو زور کی بھوک لگی ہے۔ تمام بزرگوں کے اول طعام بعد کام والے سنہرے اقوال ذہن میں رقصاں ہوگئے۔ مگر کھایا کیا جائے۔ کسی اچھے ہوٹل سے جا کر چکن بروسٹ کھائیں۔ دیکھا تو جیب اجازت نہ دیتی تھی۔ بلکہ اجازت تو بہت دور میں نے صرف جیب کی طرف دیکھا ہی تھا کہ اس نے مجھے اتنے زور سے گھورا کہ میں فوراً اس خیال اور سوچ کو وہیں قبر کھود کر دفنانے لگ گیا۔ اگر میں چاول کھا لوں۔ جیب نے دوبارہ بہت برا سا منہ بنایا۔ اگر تم نے شام کو کچھ نہیں کھانا تو چاول کھا لو۔ ہممم۔۔۔ ہم نے جیب کی ہاں میں ہاں ملائی۔ بئی کون کافر اتنی کڑکی میں جیب کی بات ٹال سکتا ہے۔ جب کہ وہ ہماری واحد سپانسر بھی تھی۔سوچتے ہیں، ہم نے جیب کو تھپک کر پیدل سفر جاری رکھا۔ چلتے چلتے ایک ہوٹل کے باہر آپہنچے۔ ویسے تو جب بھی بھوک لگتی تھی ہمارے قدم خود بخود اس ڈھابے کی طرف اٹھتے تھے۔ جیسے گدھے کا رخ گھر کی طرف ۔۔۔ خیر چھوڑیں گدھے کو۔ یہ المعروف چھپڑ کانٹینٹل ہمارا پسندیدہ ہوٹل تھا۔ اورہم دونوں (ہم اور ہماری جیب) کو یہاں آنا بہت اچھا لگتا تھا۔ دال کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ہم نے جیب سے پوچھا۔ ایک دم فنٹاسٹک۔ بنا کسی جھڑک کے جواب پا کر ہمارے دل کو تسلی ہوئی۔ اور ہم نے ایک چارپائی پر قبضہ جما لیا۔
بیرا ہمیں مدتوں سے جانتا تھا۔ یوں تو آرڈر کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن اگر وہ بناء کہے دال روٹی اٹھا کر لے آتا تو ہم اسے اپنی شان کے خلاف سمجھتے۔ لہذا جب وہ پاس آیا تو ہم نے تمکنت سے اس کو دال اور روٹی لانے کا آرڈر دیا۔ اور ایک جگ سے پانی لے کر گلاس دھونے لگے۔ تاکہ پانی پیا جا سکے۔ جب وہ روٹی سالن ہمارے سامنے رکھ چکا تو ہم نے اس کو کہا کہ دال مرغی والے چمچ سے ہی ڈالی ہے نا؟ اس نے جواب دیا بالکل سر۔ بلکہ اوپر یہ جو شوربہ تیر رہا ہے یہ مرغی ہی کا ہے۔ یہ سن کر ہمارے دل کو ایک طمانیت کا احساس ہوا۔ کھانا کھانے کے بعد جب ہمارا دماغ بھر گیا تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت واپس آئی اور ہم سوچنے لگے کہ اصل میں ہم کس کام سے نکلے تھے۔ کافی دیر سڑک کنارے کھڑے رہنے کے بعد بھی جب یاد نہ آیا تو واپس فلیٹ کی راہ لی۔ وہاں پہنچ کر کیا دیکھتے ہیں کہ روم میٹ اپنے آبائی شہر سے واپس آچکا ہے۔ اور بریانی لایا ہے۔ جس کو درمیان میں رکھ کر تمام احباب سیاسی انصاف فرما رہے ہیں۔ یہ دیکھنا تھا کہ ہماری جیب ہم پر برس پڑی۔ تمہیں ہر کام کی بہت جلدی ہوتی ہے۔ کیا مصیبت پڑی تھی اتنی جلدی کی۔ اتنی سی بھوک سے آدمی مرجاتا ہے کوئی۔ لیکن ہم نے جیب کی ڈانٹ کو یکسر نظرانداز کر کے جونٹی رہوڈز کی طرح چھلانگ لگائی اور ڈبہ اٹھا کر کچن میں گھس گئے۔ اور گھستے ہی دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ دروازہ توڑنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ برے برے القابات کی آواز آتی رہی۔ لیکن ہم جب گلے تک نہ بھر گئے ہم نے دروازہ نہ کھولا۔


Friday 20 June 2014

رائے صاحب اور مرزا از قلم نیرنگ خیال

2 comments
چوراہے کے ایک طرف مرزا اور رائے صاحب بیٹھے محو گفتگو تھے۔ کافی دیر سے صنف نازک کے موضوع پر بڑی ہی تفصیلی روشنی ڈالی جا رہی تھی۔ مرزا اپنے وسیع تر تجربے کی وجہ سے حاوی ہوتے جاتے تھے۔ جبکہ رائے صاحب بھی کسمسا کر اپنی شد بد ثابت کرنے کو کوشاں تھے۔ باتوں باتوں میں حسن بھی زیر بحث آگیا۔

میاں یہ حسن کو سمجھنا بھی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ یہ حس صدیوں میں بیدار ہوتی ہے۔ آجکل کے لونڈے لپاڑے کیا جانیں کہ حسن کو پرکھنے کا معیار کیا ہے۔مرزا نے فخریہ انداز میں کہا۔

رائے صاحب پہلو بدلتے ہوئے، آپ پھر بڑے مرزا (صاحبہ والے)کی طرف جا رہے  ہیں۔ یقین مانیے کہ وہ تاریخ میں ہوس انگیز مشہور ہے۔

نہیں رائے! تم جانتے نہیں۔ اہل ہند میں اگر کسی نے حسن کو سمجھا ہے تو وہ صرف مرزا ہیں۔  مرزا نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔

میں آپ کی بات سے اتفاق ضرور کر لیتا۔ اگر تاریخ کا ادنیٰ سا طالب علم نہ رہا ہوتا۔رائے صاحب نے اصرار کیا۔

مرزا نے  بھنویں اچکاتے ہوئے۔ تاریخ کس قسم کی تاریخ؟

چھوڑیے حضور! "سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ جانتے نہیں" رائے صاحب نے شرارتی انداز میں کہا۔

تم پھر اسلاف کی کردار کشی کی طرف جا رہے ہو۔ اس بار میں بالکل بھی برداشت  نہیں  کروں گا۔  مرزا بھڑک کر بولے۔

اس سے پہلے کہ دونوں میں بحث زور پکڑتی۔ گلی کی نکڑ سے ایک منحنی سا نوجوان، بکھرے بالوں اور شاعر نما چہرے سے اداسی مترشح، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ، ڈولتا، ڈگمگاتا، نمودار ہوا۔

یہ اناڑی عاشق ہے۔ مرزا نے رازدارانہ انداز میں رائے صاحب کو مخاطب کر کے کہا۔

عاشق اناڑی نہیں ہوتا۔ رائے صاحب نے فلسفیانہ اندا زمیں کہا۔

رائے یار  عاشق اناڑی ہوتا ہے۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ۔ جس طرح ہر چیز کے درجے ہوتے ہیں۔ اس طرح عاشقی کے بھی درجات ہیں ۔ مرزا نے یوں کہا۔ جیسے کسی ناسمجھ بچے کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہوں ۔

یاحیرت! رائے صاحب نے انگشت بدنداں کی عملی صورت پیش کرتے ہوئے کہا۔

ہمارے ساتھ رہو گے تو سیکھو گے۔ پہلے پہل اس عمر میں جس سے یہ نوجوان گزر رہا ہے۔ انسان ہر کسی پر عاشق ہی ہوا رہتا ہے۔ عاشقی کو روٹی کی جگہ استعمال کرتا ہے۔ دن کو عاشقی رات کو عاشقی۔ چلاتا ہے۔ گریبان چاک کیے رہتا ہے۔ "دل خود یہ چاہتا  تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں" کی عملی صورت ہوتا ہے۔ اس ابتدائی درجے میں حسن کی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ زیادہ تر عاشقی محض عاشق کہلانے اور عمر کا تقاضا سمجھ کر کی جاتی ہے۔ اس کے بعد کے عشق میں کچھ پختگی آتی ہے۔ محبوب کا معیار بھی نسبتاً بلند ہوجاتا ہے۔ البتہ  حال وہی ہوتا ہے کہ "ایک نام اور شام لے کر بیٹھ گئے۔" ۔ اس کے بعد کچھ مزید پختگی آتی ہے۔ انسان جب کوئی دس کے قریب عشق کر گزرتا ہے تو اس کو آہ کرنے کے آداب آتے ہیں۔ اور جب کوئی عاشق پختہ ہوجائے تو زمانہ اس کو ہوس انگیز کہنے لگتا ہے اس بات کو یکسر نظر انداز کر کے کہ اس نے کیسی کیسی نہریں کھود ڈالیں ہیں۔ مرزا نے عشق و عشاق کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا۔

یعنی بڑے مرزا (صاحبہ والے) پختہ عاشق تھے۔ اور  فرہاد بھی مرزا تھا۔ رائے صاحب نے استعجابی انداز میں پوچھا۔

کس کند ذہن سے پالا پڑ گیا ہے۔ مرزا جھلا کر بولے۔ میاں فرہاد ایک ہی نہر میں پار ہوگیا تھا۔

اوہ۔۔لیکن مجھے تو یہ عاشق کم شاعر زیادہ نظر آتا ہے۔ رائے صاحب نے اس لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئےکہا۔ جو اب بہت قریب پہنچ چکا تھا۔

مرزا اس لڑکے کا یوں جائزہ لینے لگے جیسے قصاب آنکھوں آنکھوں میں جانور کو تولتا ہے۔

"چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے" ہلکے سروں میں وہ لڑکا گنگناتا پاس سے گزرتا چلا گیا۔

دوندا ہے۔ مرزا نے انکشاف کیا۔

دوندا؟ دوندے سے کیا مراد ہے آپ کی۔ رائے صاحب نے حیرت سے مرزا کو دیکھا۔

دو عشق فرما چکا ہے۔ اناڑی پن سے دونوں کو کھو چکا ہے۔ مرزا نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ  رائے کو دیکھا۔ جو کسی کرامت پر مرید کی حیرانی سے کھلی آنکھیں  دیکھ کر پیر کے چہرے پر نمودار ہوتی ہے۔

لیکن یہ تو کوئی کاروباری آدمی لگتا ہے۔ رائے صاحب نے اپنی ہٹ قائم رکھی۔

یہ اندازہ تم نے کیسے لگایا۔ مرزا کے چہرے پر پہلی بار حیرت کے آثار دیکھے گئے۔

کچھ چلن اور کچھ غزل کے انتخاب سے۔ رائے صاحب  نے اپنی جہاں دیدہ رائے پیش کی۔

نہیں میاں! گلشن کا کاروبار محض مرزا یاروں کی وجہ سے قائم ہے۔ مرزا نے بڑے  تفاخر سے گردن اکڑا کر کہا۔

ہیں! رائے صاحب کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ لیکن مرزا تو مار کر کھانے کے عادی تھے۔"خراب کر گئی شاہین بچے کو صحبت زاغ" ۔ ایسا کب سے؟

اوہ یار! ہمارا مطلب کہ چمن پر بہار ہم سے ہے۔ یعنی فصل عشق کی آبیاری ہم سے عمدہ کوئی نہیں کر سکتا۔ مرزا تڑپ کر بولے۔

اوہ اچھا! میں سمجھا۔ رائے صاحب نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ بات کاٹ کر کہنے لگے۔ تمہاری عقل کا ماتم بنتا ہے۔

ویسے یہ بچہ باذوق ہوگا۔ جو مہدی حسن کی غزل گنگنا رہا تھا۔ رائے صاحب نے بات کا رخ موڑنے کو کہا۔

میاں! یاد رکھو۔ عورت کی آواز ہی سر صحیح لگا سکتی ہے۔ گائیکی مردانہ کام نہیں۔ مرزا نے گائیکی کے اسرار و رموز بیان کرنے شروع کیے۔

لیکن یہ تو مہدی نے ہی گائی ہے۔ رائے صاحب نے اصرار کیا۔

بئی گائی مہدی نے ہو یا کسی چوراسی گھرانے کے فرد نے۔ لیکن کبھی تم اس کو فریدہ خانم کی آواز میں سنو۔

آپ ہمیشہ بوڑھی عورتوں کا ہی تذکرہ کرتے ہیں۔ رائے صاحب نے جھلا کہا۔

بھئی ہم  بے وفا نہیں۔ بچپن کے تمام عشق بازیوں کے قصے ابھی تک سینے سے لگا رکھے ہیں۔ مرزا نے پکے ٹوٹے عاشق کے انداز میں کہا۔

آپ کا ان سے معاشقہ رہا ہے۔ رائے صاحب نے سوالیہ نشان بنکر کہا۔

یکطرفہ۔ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر مرزا نے کہا۔

خیر۔ یہ بلونگڑا یہاں اس اڑن کھٹولے کے لئے آیا ہے۔ جو تین پہیوں پر نو جوان اٹھا کر لے جاتا ہے۔ میں اس کو کئی دن سے دیکھ رہا ہوں۔  مرزا نے پرانے زخموں کو کریدنے سے گریز کرتے ہوئے  کہا۔

لیکن بوڑھے اور بچوں کا کیا قصور ہے۔ رائے صاحب بھی خاموش کہاں ہونے والے تھے۔

اوہ بھائی!  "نو" "جوان"۔ ایک تو یہ زبان کی باریکیوں نے ہم کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ مرزا سٹپٹا کر بولے۔

اچھا وہ آیا تو تھا ایک۔ لیکن یہ اس پر بیٹھا کیوں نہیں۔رائے صاحب نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

بیٹھے کیسے۔ اس میں گلشن نہیں بیٹھی ہوئی میاں۔ جب تک گلشن نہیں آئے گی۔ یہ یہیں کھڑا دھوپ کو سزا دیتا رہے گا۔ مرزا شرارتی انداز میں ہنستے ہوئے بولے۔

مرزا آپ کے تجربے کے مطابق یہ دوسرا عشق ہے۔ رائے صاحب نے کہا۔

نہیں میاں۔ یہ نوجوان اب تیسرے کے لئے پر تول رہا ہے۔ لیکن حالات اس کے عشق اولیں والے ہی ہیں۔ یعنی کچھ سیکھ نہیں پایا ۔

اتنے میں ایک اڑن کھٹولے میں ایک دوشیزہ  جلوہ افروز نظر آئی۔ وہ نوجوان  اس کی طرف یوں لپکا۔ گویا  کسی عوامی مرکز پر آٹا ملنے لگا ہو۔ اور یہ جا وہ جا۔

اس کے بعد بڑی دیر تک خاموشی رہی۔ پھر جو لب ہلے تو موضوع عارفانہ ہو چلا تھا۔

Wednesday 11 June 2014

ٹھہراؤ از قلم نیرنگ خیال

10 comments
ٹھہراؤ

اُس کے سینے پر عجیب سا دباؤ تھا اور سانس رکتا محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے ہی آنکھ کھولی تو دیکھا کہ وہ ایک تالاب میں ڈوب رہا ہے۔ گھبراہٹ کا طاری ہونا ایک فطری  عمل تھا سو ڈوبنے سے بچاؤ کی  بڑی کوشش کی۔ بہت  ہاتھ پاؤں مارے۔لیکن جتنی کوشش کرتااتنا ہی دھنستا چلا جاتا۔ تالاب کا پانی کسی کہسار سے نکلتے دریا کی مانند بھپرا لگ رہا تھا۔اٹھا اٹھا کر بے رحمی سے پٹخ رہا تھا۔ کنارے پر پہنچنے کی ، ڈوبنے سے بچنے کی ہر کوشش ناکام ہوتی نظر آتی تھی۔ کوئی سہارا ہاتھ نہ آرہا تھا۔ ڈوبنے ابھرنے کے درمیان کیا دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ کنارے پر موجود ہیں۔ باہرسکون سے  کھڑے ہیں۔ سب سے بےنیاز۔ جیسے ان کو کوئی پرواہ ہی نہیں کہ کوئی ڈوب رہا ہے۔ ان کو مدد کے لیے پکارنے کی کوشش کی تو پانی حلق سے نیچے تک چلا گیا۔ آواز گھٹ گئی۔ اور منظر دھندلا سا گیا۔ اعصاب شل ہوتے جا رہے تھے۔ اور جسم ٹوٹ رہا تھا۔اس کی کوششیں دم توڑتی جاتی تھیں۔ اور ایسے میں جو عجب چیز اس کو محسوس ہوئی  جیسے کوششوں کے دم توڑنے کے ساتھ طغیانی بھی کم ہوئی جاتی ہے۔  اجل کسی بھی لمحے میزبانی کو آنے والا تھا۔ آخر تھک کر اس نے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اور خود کو تالاب کے حوالے کرتے ہوئے آنکھیں  بند کر لیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کو سکون سا محسوس ہوا۔ تالاب کی طغیانی بالکل ختم ہوگئی۔ اور ٹھہراؤ آتا چلا گیا۔ اس نےاپنی مایوس آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہ پانی کی سطح پر تیر رہا تھا۔ اس کا جسم ہلکے ہلکے دائروں پر ہچکولے کھا رہا تھا۔ اس کو یہ سکون رگ و پے میں اترتا محسوس ہونے لگا۔ اک عجب سکون کے إحساس نے ہر طرف سے گھیر لیا۔ اور گزشتہ تمام واقعات محض ایک ڈراؤنا خواب محسوس ہونے لگے۔  وہ تالاب کے اندر ہی تیرنے لگا۔ اس نے تالاب سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو تالاب نے واپس کھینچ لیا۔ لیکن آہستہ آہستہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ تالاب کے پانی پر اسکا مکمل کنڑول ہوگیا تھا۔ اب وہ جب چاہتا طغیانی لے آتا۔ جب چاہتا سمندر کی طرح سطح کو پرسکون کر لیتا۔اس نے یہ راز پا لیا تھا کہ اس تالاب کی مرضی کے خلاف جدوجہد طغیانی کو جنم دیتی ہے۔ اور اس کے بہاؤ کے ساتھ بہنا سکون لاتا ہے۔  پھر وہ باہر نکل آیا۔ اس نے دیکھا کہ کتنے ہی تالاب بنے ہوئے ہیں۔ ہر تالاب پر کسی نہ کسی کا نام لکھا ہے۔ بہت سے تالاب بپھرے پڑے ہیں۔ اور بہت سے ساکت ہیں۔ کچھ درمیانی کیفیات میں ہیں۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ جو لوگ تالاب میں مسلسل جدوجہد کر کے نکلنا چاہ رہے ہیں۔ اور طغیانی کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ اور نہ اس کا وجود ماننے کو۔ وہ ڈوبتے جاتے ہیں۔ جبکہ جو لوگ پرسکون ہیں۔ وہ اپنے اپنے تالاب پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ اس کی اپنے تالاب سے بہت دوستی ہوگئی۔ کوئی کام ہو نہ ہو۔ وہ اپنے تالاب کا چکر ضرور لگا لیتا۔ اور وہاں بیٹھ کر اپنی کیفیات سے لطف اندوز ہوا کرتا۔ جب وہ طغیانی سے لڑا کرتا تھا۔ کبھی مستی میں کچھ لہروں کو پیدا کر کے دیکھتا۔ اور پھر بھیگتا رہتا۔ زندگی کے اس تالاب میں ٹھہراؤ ہی اس کی سب سے بڑی فتح تھی۔


کچھ منتشر خیالات پیش خدمت ہیں۔ بے ربط جملوں اور غلطیوں سے چشم پوشی کی درخواست ہے۔