Sunday 30 July 2017

اشعار کی فکاہیہ تشریح

1 comments
جون کے دو اشعار کی تشریح، ایک دوست کی فرمائش پر۔۔۔۔

آپ مجھ کو بہت پسند آئیں
آپ میری قمیص سیجیے گا
کہتے ہیں کہ چھپ کر محبت کرنا عورت کا کام ہے۔ مرد کو ببانگ دہل یہ کالک منہ پر ملنی چاہیے۔ یہاں پر شاعر نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ کوچہ جاناں میں جب رسوا و ذلیلہونے کے بعد دامن تار تار ہوگیا تو شاعر پھر بھی اپنی روش سے باز نہ آیا اور کہاکہ یہ جو مار کھاتے کھاتے میری قمیص پھٹ گئی ہے۔ اب یہ آپ کو ہی سینی پڑے گی۔ ایسا اعلی" پروپوز "کرنے کا اندازاور ایسی ڈھٹائی تو کبھی کسی فلم میں بھی نہیں دیکھا۔ کیا کہنے۔ شاعر چھا گیا ہے۔

مجھ سے میری کمائی کا سرِ شام
پائی پائی حساب لیجیے گا
شاعر نے اسی موضوع یعنی اپنے "پروپوزل" میں مزید کشش پیدا کرنے کی خاطر دلربا کو لالچ دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں جو بھی کما کر لاؤں گا ایک اچھے اور فرماں بردار شوہر کی طرحاس کا حساب پیش کروں گا۔ لیکن یہاں جس طرح شاعر کی بیویات کے موضوع پر کم علمی کھل کر سامنے آئی ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ شاعر مزدور آدمی ہے۔ اور دیہاڑی دار
ہے۔ اگر تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتا تو مہینے کی بات کرتا۔ شام کی نہیں۔ اس سے قبل کے کوئی دریدہ دہن شاعر کو "دکاندار" کہہ کر ہمیں خاموش کروانے کی کوشش کرے ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر شاعر "سیلف ایمپلائیڈ" ہوتا تو اس کی توجہ اپنی دکانداری میں ہوتی یوں کوچہ جاناں میں رسوا نہ ہو رہا ہوتا۔
اشعار کی فکاہیہ تشریح
از قلم نیرنگ خیال
28 جنوری 2016

Tuesday 25 July 2017

باکمال بزرگ - قسط ہفتم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

0 comments
گزشتہ سے پیوستہ:

شدید حبس کے موسم میں جب سانس لینا بھی دشوار ہوا تھا اور جسم سے پسینہ یوں خارج ہوتا تھا جیسے حکومت کے پانی کی ترسیل کے پائپ ہوں۔ جن میں چھوٹے چھوٹے جابجا سوراخوں کے سبب اتنا پانی پائپ کے اندر نہیں ہوتا جتنا باہر کی سطح پر ہوتا ہے اور اسی سبب  رسنے کی جگہ کا اندازہ لگانا بھی ناممکن رہتا ہے۔ ہمارا جسم بھی جب "لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشمہ" کی صورت اختیار کر گیا تو دوستوں کے ساتھ طے پایا کہ چل کر ٹیوب ویل پر نیم تلے پانی میں بیٹھا جائے۔ ایک دوست نے حقہ اٹھا لیا اور دوسرے نے آموں کا تھیلا۔

آموں کا تھیلا ٹیوب ویل کے سامنے بنی حودی میں پھینک دیا گیا تاکہ آم ٹھنڈے پانی سے نہا کر ٹھنڈے ہو رہیں۔ قمیصیں اتار کر نیم کی ٹہنیوں کے ساتھ ٹانک دی گئیں اور شلواریں کو گھٹنوں تک چڑھا کر جانگیے  بنا لیا گیا۔ پانی میں نہاتے اچھلتے کودتے، آم کھاتے ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ کب دونوں بزرگ اپنا حقہ اٹھائے ٹیوب ویل کے پاس ہی  پڑی چارپائی پر آبیٹھے۔ جب ہماری توجہ ان کی طرف گئی تو ہم نے حوض سے ہی ان کو بھی آم کھانے کی دعوت دی۔ انہوں نے شفقت اور پیار سے انکار کیا۔ اور آپس میں باتیں کرنے لگے۔ 

کچھ دیر بعد ہمیں ان بزرگوں کا قہقہہ سنائی دیا۔ ہم سب نے پلٹ کر دیکھا تو وہ دونوں بےاختیار ہنس رہے تھے۔ ہم سب نے بزرگوں کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ اور ہنسنے کی وجہ پوچھنے لگے۔ بزرگ فرمانے لگے۔ تم لوگوں کو نہاتا اور اٹکھیلیاں کرتا  دیکھ کر ہمیں اپنا ایک واقعہ یاد آگیا تھا۔ سو اس کو یاد کر کے ہنس رہے تھے۔ ہم نے عرض کی کہ یوں بھی مدت بیتی آپ نے کوئی پرانا واقعہ نہیں سنایا لہذا ہم کو بھی یہ واقعہ سنایا جائے۔ اس پر بزرگ نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور یوں گویا ہوئے۔

جس طرح آج تم لڑکے بالے یہاں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہو،اسی طرح یہ واقعہ بھی تب کا ہے جب ہم تمہاری عمر میں تھے۔ ہم چاروں،  میں، یہ (سامنے والے بزرگ کی طرف اشارہ کرکے)، زنگی اور فیضو(جسے ہم ڈھور کہا کرتے تھے) نہر سے نکلنے والے ایک چھوٹے کھال میں پاؤں ڈبوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ڈھور اپنے ابے کا حقہ چوری چھپے اٹھا لایا تھا  جب کہ زنگی کہیں سے کچھ مدک  چرا لایا تھا۔ مدک کو چلم پر دہکا کر حقے کے جو کش لگے تو   ملنگی ماحول بن گیا۔ جگہ ایسی چنی گئی جہاں سے ہم کسی کو نظر نہ آئیں لیکن کوئی بھی کھیتوں کا رخ کرے تو ہم باآسانی اسے دیکھ سکیں۔ طریقہ یہ طے پایا کہ ہر کوئی اپنے سامنے والی سمت کا خیال رکھے گا، تاکہ چاروں اطراف پر نظر رکھی جا سکے اور رنگے ہاتھوں پکڑے نہ جائیں۔ زمین و آسمان کی سمت کو ہم نے کاندھوں پر بیٹھے فرشتوں کے حوالے کر دیا کیوں کہ یہاں سے جو بھی آتا اس کو صرف وہی دیکھ پاتے۔ ہماری اتنی تاب کہاں تھی۔ چھوٹے چھوٹے قصوں سے شروع ہوئی یہ بیٹھک باقاعدہ بڑھک بازی تک جا پہنچی اور اب ہم چاروں مدک باز ایک جھوٹے قصوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

انہی بڑھک بازیوں میں سب کی توجہ اطراف سے بالکل ہٹ گئی اور ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ کب ڈھور کا باپ ہمارے سروں پر آن پہنچا۔ زمین تو پھٹی نہیں تھی ورنہ ہم لازمی باخبر ہوتے۔ شاید آسمان سے نازل ہوا  لیکن ان فرشتوں کا کیا کریں کہ یہ آج تک نہیں بتاتے وہ کہاں سے آیا تھا۔ بہرحال قصہ مختصر ہمیں ہوش تب آیا جب ڈھور کو چند گالیوں کے ساتھ اوپر تلے پانچ چھے اعلیٰ قسم کے تھپڑ پڑے۔ اُس دن ڈھور کو پتا نہیں کیا ہوا، وہ پہلے بھی ہمارے سامنے کئی بار پٹا تھا لیکن شاید آج اس کی انا آڑے آگئی اور وہ اپنے باپ سے الجھ پڑا اور کہتا اب میں یہاں نہیں رہوں گا، میں شہر چلا جاؤں گا۔ یہ دھمکی ڈھور پہلے بھی کئی بار اپنے باپ کو دے چکا تھا، مگر اس دن وہ  لاری  اڈےکی طرف چل پڑا۔ اس کا ابا اس کے پیچھے اور ہم اس کے ابے کے پیچھے پیچھے ہولئے۔ ہمیں یہ ڈر تھا کہ ڈھور  کا ابا کہیں لاٹھی سے اس کی ٹھکائی نہ شروع کر دے۔ جب اڈے پر پہنچے تو وہاں شہر جانے کے لئےلاری  تیار تھی۔ ڈھور ایک طرف ہو کر کھڑا ہوگیا۔ جب اس نے دیکھا کہ باپ پیچھے پیچھے آرہا ہے،  تو بس کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگیا مگر بس میں سوار نہ ہوا۔ ڈھور کا ابا اس کے پیچھے پہنچا تو وہ جیبیں ٹٹولنے کی اداکاری کرنے لگا۔ ہم بھی پاس پہنچ چکے تھے۔ ڈھور کی نظر جب ہم پر پڑی تو اور بھی مچل اٹھا اور  اپنے باپ سے یوں مخاطب ہوا۔
ڈھور: میں گھر کائی نہ ویساں (میں اب گھر نہیں جاؤں گا۔ )
اس کا باپ بہت پرسکون انداز میں: کتھاں ویسیں؟ (کہاں جاؤں گے؟)
ڈھورابرو اچکاتے ہوئے: شہر ویساں۔ (میں شہر جاؤں گا۔)
ڈھور کا باپ اسی پرسکون انداز میں: پیسے ہن ؟ (پیسے ہیں تمہارے پاس)
ڈھور سر نیچے جھکا کر: نہ سئیں، پیسے کائی نئیں (نہیں سائیں! پیسے نہیں ہیں۔ )
اس کے باپ نے  جیب میں ہاتھ ڈال کر مڑے تڑے کچھ نوٹ نکالے اور اس کو تھما کر کہنے لگا۔ ایہو گھن پیسے، تے ترے  مہینے گھر کائی نئیں آونا ورنہ لتاں بھن ڈے ساں۔ (یہ لو پیسے، اور تین مہینے گھر نہیں آنا، ورنہ ٹانگیں توڑ دوں گا۔)

Wednesday 19 July 2017

دوسرا رخ

3 comments
پس منظر:
میرے بھانجے خزیمہ (عمر تقریباً ایک سال) کی ہفتہ بھر کے لئے آمد۔ اس دوران زین العابدین اور عشبہ کی اس سے دوستی ہوگئی، اور تینوں بچے ملکر خوب کھیلتے تھے۔ ہفتہ بعد خزیمہ کی واپسی ہوگئی۔

منظر:
میں، بیگم اور بچے بیٹھے ہیں۔
مکالمہ:
بیگم: یہ خزیمہ ہمیں اداس کر کے چلا گیا ہے۔
زین العابدین: نہیں مما! وہ ہمیں اداس کر کے نہیں خوش کر کے گیا ہے۔

نیرنگ خیال
#زینیات

Tuesday 4 July 2017

آپ نے آکر پشیمان تمنا کر دیا

4 comments
آپ نے آکر پشیمان تمنا کر دیا

پرانی بات ہے،  جب میری عمر کوئی دس سال کے قریب تھی۔ان دنوں    نیکی کا نشہ سا چڑھا رہتا تھا۔ یہ نیکی کا نشہ بھی عجیب تھا۔ فجر ہو کہ عشاء، کوشش ہوتی تھی کہ نماز مسجد میں پڑھی جائے اور اذان بھی خود دی جائے۔ کتنی ہی بار صرف اس لیے گھنٹہ پہلے مسجد پہنچ جاتا کہ اذان دوں گا۔ انہی دنوں مسجد میں ایک آدمی کا آنا شروع ہوا۔ اس کی شاید ایک آنکھ ضائع ہوچکی تھی۔ بہرحال اس کی آنکھ کے ساتھ کچھ مسئلہ تھا۔ اور مجھے اس سے بہت سارے مسائل تھے۔ ایک تو وہ مجھے  اذان نہیں دینے دیتا تھا۔ خود دیتا تھا۔ اور دوسرا جب نماز کے لیے صفیں باندھی جاتیں تو وہ ہم بچوں کو پچھلی صف میں کھڑا ہونے کا حکم دیتا۔ ہم جو اس مسجد کو اپنا سمجھا کرتے تھے۔ اس رویے سے بےحد شاکی تھے۔ اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھایا کرتے۔ پھر ایک دن کرنا یہ ہوا کہ امام صاحب کسی وجہ سے غائب تھے ، اور ان کے غائب ہونے کا ان موصوف نے فائدہ اٹھایا اور بھاگ کر امامت کی مسند پر جلوہ افروز ہوگئے۔ اس کے بعد تو یہ کھیل ہی بن گیا۔ امام صاحب کبھی نہ ہوتے یہ موصوف امامت کرواتے۔چونکہ یہ ہم بچوں کو شور کرنے پر ڈانٹتے اور نہ اذان دینے دیتے اور نہ ہی اگلی صف میں کھڑا ہونے دیتے تھے تو   وقت کے ساتھ  ہماری ان سے سرد جنگ بڑھتی چلی گئی۔ اچھا ایک دلچسپ بات جو میں نے نوٹ کی کہ جب موصوف امامت کرواتے تو رکوع و سجود میں جاتے وقت “اللہ اکبر” انتہائی گلوگیر سی آواز میں ادا کرتے گویا رو رہے ہیں۔

ایک دن ایسا ہوا کہ میں اذان دینے لگا تو اس شخص نے مجھے ہٹا دیا اور خود اذان دی۔ مجھے بہت برا لگا۔ تھوڑی دیر بعد جب جماعت کھڑی ہونے لگی تو  ہم سب بچوں کو پچھلی صف میں بھی کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا۔امام صاحب موجود نہیں تھے تو یہ صاحب بھاگ کر امامت کروانے کو بھی کھڑے ہوگئے۔ یوں تو مجھے شرارتی ہونے کا ایسا کوئی دعویٰ نہیں اور میں بڑا سیدھا اور شریف سا بچہ ہوتا تھا ۔تاہم ، ایک تو وہ یک چشم گُل دوسرا  ہم بالکل اور تیسرا ان کی روتی ہوئی آواز۔ ہمارے ذہن میں شیطان کا مجسم ہوجانا  کچھ اچھنبے کی بات نہ تھی۔  اب جو رکوع میں جانے لگے تو میں نے انتہائی روتے انداز میں بہ آواز بلند “اللہ اکبر” کا نعرہ بلند کر دیا۔ میرے ساتھ صف میں موجود بچے “کھی کھی کھی” کرنے لگے۔ میں نے رکوع سے دائیں بائیں دیکھا اور انہیں بلند آواز میں ہنسنے سے منع کیا۔ پھر سجدے کی باری آئی تو پھر یہی حرکت۔ عصر کی جماعت تھی۔ دوسری رکعت تک پہنچتے پہنچتے تمام نمازی حضرات بھی مسکرانے اور ہنسنے لگے۔ مسجد میں دبی دبی ہنسی گونجنے لگی۔ تیسری رکعت تک تو ہم باقاعدہ کھلکھلا کر ہنسنے لگے اور یوں ہی آوازیں لگانے لگے۔  ایسے بھی بچے نہیں تھے کہ یہ اندازہ نہ ہو کہ بعد از جماعت کیا ہوگا۔ سو تیسری رکعت سے جیسے ہی چوتھی کے لیے جماعت قیام میں کھڑی ہوئی۔ ہم تمام کے تمام بچے وہاں سے کھسک لیے اوراپنے اپنے  گھر آگئے۔ اس کے بعد کتنے ہی دن میں اس مسجد میں نہیں گیا۔ مسجد بدل لی۔ اور پھر کبھی جانا بھی ہوتا تو ابو کے ساتھ جاتا۔ یہ واقعہ میرے ذہن سے محو ہو ہی چلا تھا کہ ایف ایس سی کے دوران اسی مسجد میں جانا ہوا۔ جماعت کھڑی ہوچکی تھی۔ بھاگم بھاگ جو جماعت کے ساتھ ملا تو ایک مانوس سی روتی ہوئی آواز میں “اللہ اکبر”، “سمع اللہ لمن حمدہ” سنا۔ بےاختیار نماز میں ہی مسکراہٹ  نے آن گھیرا اور بقیہ نماز اسی واقعہ کی جزئیات یاد کرتے کرتے مکمل کی۔ چور آنکھوں سے حضرت کو دیکھا۔ اور پھر گھر آگیا۔ گھر والوں کو یہ قصہ سنایا۔ اور بہت لطف لیا۔

لاہور  کے ابتدائی قیام کے دوران ایک دن بابا نے بتایا کہ یار وہ فلاں شخص فوت ہوگیا ہے۔ میرے ذہن میں وہ آدمی موجود نہ تھا تو بابا نے نشانی کے طور پر بتایا کہ یار وہ کبھی کبھار امامت بھی کرواتا تھا ا وراذان بھی دے دیا  کرتا تھا۔ یہ سننا تھا کہ  سر شرمندگی سے جھک گیا۔ تو وہ یک چشم گُل گزر گیا۔ احساس ندامت نے آن گھیرا۔ پہلی بار  سوچ بیدار ہوئی ، اس سے معافی ہی مانگ لیتا۔ وہ بچپن کی نادانی سمجھ کر معاف کر دیتا۔ موقع گنوا دیا تو نے۔ دل نے بہت ملامت کی۔ اب آپ احباب اگر یہ سمجھیں کہ میں اس بات سے سدھر گیا اور جا کر اس کی قبر پر معافیاں مانگنے لگا تو آپ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ بس تبدیلی یہ آئی کہ جب میں کسی کو یہ واقعہ سناتا تو آخر میں ایک سنجیدہ سی شکل بنا کر یہ بھی کہتا ، یار، اور آج وہ زندہ ہوتے تو میں ان سے معافی مانگ لیتا۔ اگرچہ کبھی کبھار مجھے لگتا کہ اس شرارت پرمجھے  کوئی ندامت نہیں ہے۔

گزشتہ سال چھوٹی عید کی بات جب ہم سب عید نماز کے لیے مسجد پہنچے۔ بابا امام سے عید ملے بغیر مسجد سے نہیں نکلتے سو اس دن ہم ایک خلقت سے بغلگیر ہوتے ہیں۔ یہ بغل گیر ہونے کا عمل بھی ایسا ہوتا ہے کہ پتا نہیں چلتا کس کس سے عید مل لی ہے۔ سب سے ملتے ملتے جب  محراب تک پہنچے تو امام صاحب سے عید ملنے سے  پہلے مجھے ایک شخص بڑی گرمجوشی سے عید ملا۔ میں نے  بزرگ کو دیکھا تو ان کی آنکھ کو کوئی مسئلہ تھا۔ وہ بڑی گرمجوشی سے مجھے کہنے لگے۔ کیسے ہو؟ اسلام آباد ہی ہوتے ہو؟ میں ان سے کہا جی، ابھی چند دن قبل لاہور منتقل ہوا ہوں۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔ مسجد سے نکلتے ہی میرا اور بابا کا مکالمہ کچھ یو ں ہوا۔

میں: بابا! یہ شخص تو فوت ہو چکا تھا؟
بابا: یہ کب کی بات ہے؟
میں: آپ نے مجھے بتایا تھا۔
بابا: تمہیں دھوکا ہوا ہے۔
میں: میں اتنے عرصے سے ہر کسی کو کہہ رہا ہوں کہ یہ فوت ہوچکا ہے۔ اور اگر یہ زندہ ہوتا تو میں اس سے معافی مانگ لیتا۔
بابا: عجیب آدمی ہو تم۔۔۔۔۔ (ہنستے ہوئے) ۔۔۔ پتا نہیں کس کی قبر میں کس کو لٹا رکھا ہے۔
  چھوٹے بھائیوں کا ایک مشترکہ فلک شگاف قہقہہ۔
اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ اب کسی کو واقعہ سناتے وقت کیسے کہوں گا، "یار! اگر آج وہ زندہ ہوتے تو میں ان سے معافی مانگ لیتا۔"