Wednesday 30 September 2015

تماشائی

6 comments
چند دن پہلے کی بات ہے  شہر سے باہر جاتی سڑک پر  ایک کار سے کتا ٹکر گیا۔کار والا بغیررکے نکلتا چلا گیا۔  کتا شدید زخمی حالت میں سڑک پر کراہ رہا تھا۔  ہم  جائے حادثہ سے کچھ فاصلے پر تھے۔ قبل اس کے ہم کتے تک پہنچتے۔ دو لڑکے موٹر سائیکل پر اس کے پاس رکے۔ جیب سے موبائل نکالا  اور مرتے کتے کی ویڈیو بنانے لگے۔ ایک آدھے منٹ کی ویڈیو بنانے کے بعد وہ دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھے اور یہ جا وہ جا۔ ہم  کتے کے پاس پہنچے تو وہ مر چکا تھا۔ میں نے اور میرے دو ست نے کتے کو گھسیٹ کر ایک طرف کیا۔ دو چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کی مدد سے  ایک گڑھا کھودا۔  اس میں کتے کو دفنا کر ہم دونوں پاس کے کھال پر بیٹھ کر ہاتھ پاؤں دھونے لگے۔ بات کچھ  ایسی  خاص نہ تھی کہ ذہن سے چپک جاتی۔

اس واقعے کے ایک یا دو دن بعد ایک واقف کار سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں معاشرے میں بڑھتی بےحسی  بھی زیرِ موضوع آگئی۔ ان کا فرمانا تھا کہ لوگ اب ظالم ہوگئے ہیں۔ ان کے اندر انسانیت نام کو نہیں رہی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جیب سے موبائل نکالا۔ اور واٹس ایپ پر مجھے ایک مرتے کتے کی ویڈیو دکھانے لگے۔ کتا تکلیف سے آوازیں نکال رہا تھا۔ اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ ہل سکتا۔ رفتہ رفتہ اس کی آوازیں مدہم ہوتی چلی گئیں۔ یہ ویڈیو ایک منٹ کی بھی نہ تھی۔ 

"دیکھا آپ نے جنااااب!"  انہوں نے مجھے سوچ میں گم پا کر کہا۔" کیسے وہ ظالم کار والا اس کو ٹکر مار کر نکلتا بنا۔ اس نے رکنے کی بھی زحمت نہیں کی۔"

"آپ کو کس نے بتایا کہ اس کو کار نے ٹکر ماری ہے؟" اگرچہ میں اس سوال کا جواب جانتا تھا لیکن پھر بھی  پتا نہیں کیوں میں نے پوچھ لیا۔ 

"میرے چھوٹے بھائی نے مجھے بتایا ہے۔ یہ ویڈیو اسی نے بنائی ہے۔" انہوں نے فخریہ انداز میں جواب دیا۔

"کار والے نے جان بوجھ کر ٹکر نہیں ماری تھی۔ کتے اکثر سڑک پر گاڑیوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ میں نے اسلام آباد میں خنزیروں کو بھی گاڑیوں سے ٹکرا کر مرتے دیکھا ہے۔ لیکن میری نظر میں زیادہ بےحس وہ لڑکے تھے  جو وہاں مرتے کتے کی ویڈیو بناتے رہے۔ اور مرنے کے بعد اس کی لاش  کو سڑک کے ایک طرف بھی نہ کیا اور اپنی راہ لیتے بنے۔ " میں نے اپنی سوچ ان کے سامنے بیان کرنے کی حماقت کردی۔

اوہ جاؤ  بھئی! انہوں نے انتہائی ترش لہجے میں کہا۔ لیکن اس کے آگے وہ کچھ بول نہیں پائے چند ثانیے بعد اٹھ کر چل دیے۔  مجھے   خدا حافظ کہنے کی زحمت بھی نہیں کی۔

اکثر سوشل میڈیا چینلز جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل پلس وغیرہ پر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ  "دیکھیں اصل چہرہ"، "یہ ہیں ہمارے معاشرے کے مکروہ چہرے "، "انسانیت کے نام پر دھبہ"  یا ان سے ملتے جلتے عنوانات کے ساتھ ویڈیوز شئیر کرتے ہیں۔ ان ویڈیوز میں عموماً بااثر افراد اپنے ملازمین یا دست نگر لوگوں پر ظلم و تشدد کرتے پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ویڈیو بنانے والے میں اتنا دم تو ہے کہ وہ اس کو یوٹیوب، فیس بک و دیگر چینلز پر اپلوڈ کر سکتا ہے۔ لیکن ویڈیو بنانے کے دوران وہ کبھی بھی کسی معاملے میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ چاہے کتنے ہی ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں۔ مظلوم مرتا مر جائے۔ لیکن اس ویڈیو بنانے والے کے ہاتھ نہیں کانپتے۔ دوران ویڈیو کیمرہ کی ہلکی سی لرزش بھی نظر نہیں آتی۔ وہ کبھی مظلوم کی داد رسی کی کوشش نہیں کرتا۔  کوشش تو ایک طرف پوری ویڈیو میں  اس کی طرف سے شاید ہی کوئی لفظ بھی اس کے خلاف نکلتا ہو۔ مزید  مشاہدہ یہ بھی ہے کہ یہ ویڈیوز چھپ کر نہیں بنائی جاتیں۔ کیوں کہ زیادہ تر ایسی ویڈیوز میں  کیمرے کا زاویہ ایک نہیں ہوتا۔ ہر زوایے سے گھوم پھر مظلوموں کی آہ و بکا ریکارڈ کی جاتی ہے۔ تاکہ وہ پتھر دل جو فیس بک، یوٹیوب یا ایسے دیگر چینلز پر اس ویڈیو کو دیکھیں۔ ان کے دل پگھل جائیں۔ اور وہ بھی عملی طور پر لعن طعن کرکے ایک صحت مندذہن رکھنے  کا ثبوت دے سکیں۔  کیا "خود نمائی" اور "لائکس" کے چکر میں ہم انسانیت کی بنیادی اقدار بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ 

بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر آگ کا درخت ہوتا تو شعلہ اس کا پھل ہوتا  ۔  "ظلم کی توفیق ہے ہر ظالم کی وراثت" کے مصداق ہر ظالم ظلم میں تو مصروف ہے۔ لیکن یہ جو بالکل ایک نئی طرز کی نسل دریافت ہوئی ہے۔ یہ کن میں شمار ہوتی ہے۔ یہ جو ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کر کے درد سمیٹتے ہیں۔ یہ کس کے طرفدار ہیں۔ ظالم کے یا مظلوم کے؟  میرا ذاتی خیال ہے کہ اب یہاں پر ایک تیسری درجہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔ 

Saturday 26 September 2015

ذرا سی بات تھی۔۔۔۔۔

4 comments
ہمیں یاد نہیں کہ آخری بار ہم نے کب اور کس عید کی آمد پر "ہرّا! عید آگئی۔۔۔۔ " قسم کا نعرہ مارا تھا۔ نیا جوتا پہن کر مسجد جانے کی رسم بھی ایک عقیدت مند نے چھڑوا دی تھی۔ گو کہ ہم سید نہیں لیکن جوتوں سے کس کو پتا چلتا ہے۔ واللہ اس کی نیت بری نہ رہی ہوگی۔ جذبات و عقیدت کے بہتے دھارے نے مہلت ہی نہ دی ہوگی کہ رک کر کھرا کھوٹا سمجھتا۔ ہائے لوٹا گیا ظالم۔۔۔ صحیح جوتی کی تلاش میں نجانے کتنی الماریاں بھر دیں ہوں گی۔ شاید اب مایوس ہوگیا ہوگا۔ اللہ اس کے دل کی مراد بر لائے۔ لیکن اس کی عقیدت مندی کی بدولت جو ہم پتھروں پر چل کے گھر آئے تو اپنے گھر کے بارے میں صحیح معنوں میں یہ بات سمجھ میں آئی۔

"انہی پتھروں پہ چل کے آسکو تو آؤ"

لہذا ایک پرانی خدمتگار جوتی جو خطا معاف ہونے کی امید لیے آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اس کو اسی کام کے لیے رکھ چھوڑا۔ ہر عید مسجد وہی پہن کر جانی شروع کر دی۔ جہاں اتارتے تھے۔ وہیں واپسی پر اسے منتظر پاتے۔ سوائے ایک بار کے جب ایک گستاخ نے برستی بارش سے بچنے کے لیے اس کے اوپر اپنی جوتی رکھ دی تھی۔ اس کی اس گستاخی سے دل میں ایسا طوفان اٹھا کہ جب تک اس جوتی کو نیچے رکھ کر اس کے اوپر دو چھلانگیں نہیں لگائیں۔ اور اس کو اچھی طرح مٹی اور گارے میں نہلا نہیں دیا۔ سکون نہ ملا۔

نئے کپڑے پہن کر عیدنماز پر جانے کی رسم البتہ ہنوز قائم ہے اور قائم رہے گی جب تک کوئی عقیدت مند ہمارے اس فضول رسم سے چھٹکارے کا بندوبست نہیں کرتا۔ شادی سے قبل ہم نئے کپڑوں میں ہی آکر دراز ہوجایا کرتے تھے۔ یہ دراز و نیم درازی کی کیفیت عشاء کے بعد رات کو سونے کی دعا پڑھنے پر ختم ہوا کرتی تھی۔ لیکن شادی کے بعد ہمارے اس مزاج میں ایک تبدیلی آگئی اور ہم عید نماز کے بعد کپڑے بدل کر دراز ہونے لگے۔ کیوں کہ امیر خانگی امور کا یہ فرمانا تھا کہ "جب لیٹنا ہی ہے تو نئے کپڑے برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔" البتہ باقی معمولات میں کچھ تغیر نہیں آیا۔

عید کے روز ہمارا زیادہ تر وقت بستر پر گزرتا ہے۔ زیادہ تر کا لفظ اس لیے کہ ہمارے سربراہان مملکت ِ خاندان ہنوز طرز کہن پر پرواز کر رہے ہیں اور لیٹ کر کھانے پینے کو سخت معیوب سمجھتے ہیں۔ کسی مہمان کی غیر متوقع آمد پر کبھی اس کے ساتھ بیٹھنا پڑ جاتا تو ہماری حالت یہ ہوتی تھی کہ تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر تھوڑا سا دراز ہوتے ہوتے بالکل لیٹ گئے۔ان حرکتوں کی وجہ سے کئی بار ہمیں آداب محفل پر طویل درس سننے پڑے تھے ۔لیکن اس بار بات بڑھ گئی اور دشمنوں کو ہمارے خلاف زہر اگلنے کا موقع مل گیا۔

ہوا یوں کہ عید نماز سے واپسی پر ہم سب سے چھپتے چھپاتے گھر پہنچے۔ دیکھا تو ٹی وی کے سامنے ایک بستر لگا ہوا تھا۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ ہمارا ہی منتظر تھا۔ ہم نے فوراً ٹی وی کے ریموٹ اور بستر پر قبضہ کر لیا۔

ابھی مؤذن نے دوپہر کا اعلان نہ کیا تھا کہ ایک عزیز عید ملنے آن پہنچے۔ عید ملنے کے بعد وہ ہمارے سامنے رکھے ایک صوفے پر تشریف فرما ہوگئے۔ اور ہمارا حوصلہ دیکھیے کہ ہم بغیر کسی سہارے کے بستر پر سیدھے بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر گزری کہ ہمیں خیال آیا اگر ہم تکیے کو موڑ کر گاؤ تکیے کی شکل دے لیں تو یقیناً آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان محترم سے گفتگو بھی جاری تھی۔ ابھی اس تکیے کے سہارے بیٹھے ہمیں زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ محسوس ہوا تکیہ اس انداز میں دہرا کیے جانے پر نوحہ کناں ہے۔ سو ہم نے اس کی مشکل آسان کرتے ہوئے اس کو اور خود کو سیدھا کر لیا۔ یہاں اس بات کی تکرار ضروری ہے کہ گفتگو جاری تھی اور شرکاء کی تعداد بڑھ رہی تھی۔

کچھ دیر بعد ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے کمرے میں اندھیرا ہوگیا ہے۔ ہم نے اس اندھیرے کو غیبی مدد سمجھتے ہوئے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کی تو ناکامی کا سامنا کرنے پر اندھیرے کا راز منکشف ہوگیا۔ ہم نے خود کو ٹی وی کی طرف یوں متوجہ کر لیا جیسے وہاں کوئی بہت ضروری چیز چل رہی تھی او رپھر بہانے سے کمرے میں موجود شرکاء کی گفتگو میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن گفتگو آگے نکل چکی تھی۔ اب یہ شغل سا بن گیا۔ ہم ٹی وی کی طرف رخ کرتے تو کمرے میں اندھیرا ہو جاتا اور پھر کمرے میں جاری گفتگو کی طرف رخ کرتے تو کچھ سمجھ نہ آتا۔ اب کی بار جو ٹی وی کی طرف رخ کیا تو اندھیرا بہت گہرا ہوگیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے اندھیرے میں کوئی ہم سے ہاتھ ملا رہا ہے۔ یا حیرت! جب ہم نےکمرہ روشن ہونے پر واپس شرکاء کی طرف دیکھا تو وہاں اس عزیز کے علاوہ سب لوگ موجود تھے۔

"ہیں! یہ کدھر چلے گئے۔" اس سوال کے ساتھ ہی ہمیں احساس ہوگیا کہ یہ پوچھے جانے والی بات نہ تھی لیکن ہمارے دشمنوں کو ہماری جگ ہنسائی کا موقع مل چکا تھا۔ 

Thursday 3 September 2015

ایک پرانی یاد (ماضی کے جھروکوں سے)

3 comments
راقم القصہ لاہور میں اپنے ۴ دوستوں سمیت اک کرائے کے فلیٹ پر رہتا تھا۔ ان دوستوں کیساتھ میں کوئی ۲۰۰۰ سے لیکر ۲۰۱۱ تک رہا ہوں۔ بے تکلف تو تھے ہی پر شرارتی بھی بہت تھے۔ یہ جو واقعہ ہے میں سنانے جا رہا ہوں کوئی ۲۰۰۳ کا ہوگا۔ کوئی بھی اس میں عبرت یا سبق تلاش کرنے کی غرض سے پڑھ رہا ہے تو یہی سے واپس ہو جائے کیوں کہ عبرت انگیز واقعات میرے ساتھ آج تک پیش نہیں آئے۔ 
لگے ہاتھوں اپنے دوستوں کا تعارف بھی کروا دیتا ہوں کہ واقعے میں آپ کو لطف آئے۔ اور سیاق و سباق سے آگاہی ہو۔ میں یعنی کہ میں اور میرے علاوہ ہمی، ماسٹر، شاہ جی اور نمو۔ جس فلیٹ میں ان دنوں آستانہ تھا وہ دو دکانوں پر بنا تھا۔ وہ دکانیں کمہاروں کی تھیں اور انکا مٹی کے برتنوں کا خاصہ بڑا کاروبار تھا۔ اوپر بھی اک فلیٹ تھا جو کہ ٹی-وی لائسنس بنانے والے انسپکٹر کے پاس تھا۔انکا نام تو سرفراز تھا۔ پر ہم انہیں وڈے شاہ جی کہتے تھے۔ کیوں کہ شاہ جی کے لقب پر ہمارے اک دوست کا قبضہ تھا۔ وڈے شاہ جی اسوقت کوئی ۵۰ کے قریب ہونگے عمر میں، اور انتہائی خوش مزاج آدمی تھے۔ ہمارا آستانہ ۲کمروں اور اک لاونج پر مشتمل تھا۔ لاونج اتنا کہ ۵آدمی اکھٹے کھڑے ہو جائیں۔ باقی دونوں کمروں میں ہم نے کارپٹ بچھا رکھا تھا۔ پر سوتے ہم اک کمرے میں تھے اور دوسرے میں ہم نے سارا سامان جمع کر رکھا تھا جو کسی کباڑ کا منظر پیش کرتا تھا۔ اب آتے ہیں قصے کی طرف
گرمیوں کی اک رات کا ذکر ہے۔ کوئی ڈھائی کے قریب کا وقت ہوگا۔ میں بےخبر سویا پڑا تھا۔ کہ مجھے احساس ہوا کسی نے میری قمیض میں برف ڈال دی ہے۔ ہڑ بڑا کر اٹھا تو دیکھا کہ ہمی نامی مخلوق کمپیوٹر پر بیٹھی الہ دین کھیل رہی ہے۔ ساتھ ہی بیرونی دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ دیکھا کہ ماسٹر لاونج میں کھڑا ہنس رہا ہے۔میں خاموشی سے واش روم میں گیا۔ وہاں سے اک جگ پانی بھرا اور لا کر ماسٹر پر الٹا دیا۔ ماسٹر نے کہا کہ برف تم پر نمو نے ڈالی ہے۔ اور اسکے بعد وہ اور شاہ جی باہر بھاگ گئے ہیں۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تو وہ دونوں فلیٹ کے نیچے کھڑے تھے۔ میں اک بالٹی پانی بھر کر لایا اور ان دونوں کے سروں پر الٹا دی۔ وہ دونوں بھی اوپر آگئے اور پانی کی جنگ شروع ہو گئی۔ہمی مطمئن ویڈیو گیم کھیلتا رہا۔ یہ ہم سے برداشت نہ ہوا اور ہم چاروں نے ملکر اسے اٹھایا اور لاونج میں لا کر خوب پانی اس پر پھینکا۔ صبح ۴بجے تک یہی تماشہ چلتا رہا۔ پانی ہماری سیڑھیوں سے بہتا ہوا نیچے کمہاروں کی دکان کے باہر جمع ہوگیا۔ جس سے ان کے باہر پڑے برتن خراب ہو گئے۔ پر ہم ان تمام باتوں سے بے خبر تھک کر میٹھی نیند سو گئے، جس میں روزگار کا کوئی غم نہ تھا۔ 
مجھے صبح اٹھنے کی بیماری ہے اور اٹھتے ہی چائے پینے کی۔ میں ۹ بجے کے قریب دوسری بار اپنے لیئے چائے بنا رہا تھا کہ دروازہ کسی نے یوں پیٹا جیسے توڑ ڈالے گا۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے کمہاروں کا سردار یعنی کے گرو کمہار کو کھڑا پایا۔ انتہائی اکھڑ لہجے میں اس نے پوچھا۔
"اوئے بالکے۔ شاہ جی کتھے نیں" اب اسکی مراد وڈے شاہ جی سے تھی۔
میں نے تقریباً اسی انداز میں جواب دیا 
"مینوں کی پتہ۔ میں کوئی اناں دا ملازم آں"
اور ٹھاہ دروازہ بند کر دیا۔ خوشی ہوئی کہ کیسا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ کہ دروازہ اسی انداز میں پھر کھڑکا۔ اب میں نے منہ پر انتہائی غصہ لا کر دروازہ کھولا اور اس سے پہلے وہ کچھ بولتا کہا۔ ہن کی ائے۔ اس نے بھی اپنی ہٹ نہ چھوڑی اور اسی انداز میں بیان داغا کہ 
"جداں ای شاہ جی آن۔ اناں نوں کئیں کی مینوں ملن" (جیسے ہی شاہ جی آئیں ان کو کہنا مجھ سے ملیں۔)
میں نے کہا اچھا۔
کوئی آدھے گھنٹے کے بعد دروازے پر بڑی نرم سی دستک ہوئی۔ میں نے دروازی کھولا تو وڈے شاہ جی تھے۔ پسینے میں ڈوبے ہوئے۔ پیشانی پر سلوٹیں۔ میں نے کہا شاہ جی اند ر تشریف لائیں اور چائے کا پوچھا۔ ان نے عجب بے بسی سے میری طرف دیکھا اور کہا ہاں بیٹا۔ ہم دونوں چائے بنا کر اپنے کباڑ روم میں آگئے۔ تھوڑی دیر بعدوڈے شاہ جی نے ڈرتے ہوئے انداز میں پوچھا۔ نین بیٹا۔ رات کو سیڑھیاں دھوتے رہے ہو۔ میں یہ سنکر بڑا خوش ہوا اور ذوق و شوق سے رات کی کارستانی سنانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد نوٹس کیاکہ وڈے شاہ جی اس قصے سے لطف اندوز نہیں ہو رہے تو کہا شاہ جی خیر اے۔ میں سمجھا کہ اس شور ہنگامے سے انکی نیند خراب ہوئی ہے۔ اور انکو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اپنے تئیں میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ شاہ جی آئندہ ہم ایسے شور ہنگامہ برپا نہ کریں گے۔ اس پر شاہ جی تڑپ کر بولے۔ نہ یار تم جو مرضی کرو۔ بس مجھے بتا دیا کرو۔ اور پھر انہوں نے مجھے کمہاروں نے جو ان سے سلوک کیا وہ سنایا۔ کہنے لگے بیٹا انہوں نے میری عمر کا لحاظ کیا۔ ورنہ توآج میں اک آدھی بازو کے بغیر آتا۔ 
کمہار اصل میں یہ سمجھے کہ پانی شاہ جی کیطرف سے آ یا ہے۔ بیوقوف اگر سیڑھیاں ہی دیکھ لیتے تو جان جاتے۔ آج بھی ہم سوچتے ہیں کہ شاہ جی اگر ہمارا نام لے دیتے تو سامان کے ساتھ ہم تو سڑک پر ہوتے ہی پر جو دھنائی ہوتی وہ الگ۔

یہ عرصہ قبل اردو محفل پر لکھی تھی۔ آج یاد آنے پر ادھر بھی پیش کر دی۔