Monday 20 June 2016

ملک (ایک نابغہ شخصیت) ہونا آشنا ہمارا۔۔۔ اپنی بسیار خور طبع سے​ (قسط دوم)

3 comments
ہونا آشنا ہمارا۔۔۔ اپنی بسیار خور طبع سے
یہ ایک روشن صبح تھی۔ ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آج قدرت ہم پر ہماری ہی بسیار خوری کا راز آشکار کر دے گی۔ عرفانِ ذات کا یہ مرحلہ اس قدر آسانی سے طے پا جائے گا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔ بے شک کاررواں کے درمیان آپ کی ذات کی کسی خامی کا یوں بیان کردینا کہ ماسوائے آپ کے کسی اور کو اس کی ہوا تک نہ لگے کسی ولی کامل ہی کا کام ہے۔ جمعہ کا مبارک دن اس کام کے لیے یوں بھی مناسب ہی تھا۔  ہم رند سرشت لہو و لعب میں ڈوبے دنیاوی وسائل کی فکر میں کھوئے تھے کہ ہمارے کانوں میں ملک صاحب کی شگفتہ آواز  نے رس گھول دیا۔
" آپ نے نماز جمعہ کے بعد کھانے کا کچھ مناسب انتظام کیا ہے؟" یہ ان بھلے دنوں کی یاد ہے جب ملک صاحب ہمیں اور ہم ان کو آپ آپ کر کے پکارا کرتے تھے۔
"جی! ابھی تک کچھ نہیں۔ آج کام کچھ زیادہ ہے۔ میں جمعہ پڑھ کر واپس آجاؤں گا۔" ہم نے تفصیلی جواب دینا ضروری خیال کرتے ہوئے کہا۔
"اوہ اچھا! ایسا ہے کہ میں جمعہ کے بعد کچھ احباب کے ساتھ باہر کھانا کھانے جاؤں گا۔ اگر آپ کچھ منگوانا چاہیں تو میں بخوشی لے آؤں گا۔" ملک صاحب نے ہم کو معلومات دینے  کے ساتھ ساتھ اپنی مہربان صفت سے بھی آشنا کرواتے ہوئے کہا۔
"زبردست! " ہمارے دل نے خوشی سے قلابازی لگائی۔ "آپ کھانا کھانے کدھر جا رہے ہیں؟ " ہماری بھوک صرف کھانے پر جانے کا نام سن کر چمک اٹھی تھی۔
"ہم سب کا پراٹھا رول کھانے کا  ارادہ ہے۔" ملک صاحب نے اپنے اور اپنے غائبانہ احباب کے منصوبے سے آگاہی دی۔
ہمیں بےاختیار لاہور یاد آگیا۔ لبرٹی کے مشہور پراٹھا رول۔ منہ میں پانی بھر آیا۔ فوراً جی میں آیا کہ کہیں تین پراٹھے رول میرے لیے بھی لے آئیے گا، لیکن ملک صاحب کی کرینہ کپور جیسی صحت دیکھ کر ہمیں خیال آیا کہ کہیں یہ تین پراٹھا رول کو خود پر طنز نہ سمجھ لیں اور وہاں پر کوئی پانچ چھے پراٹھے رول کھا کر ادھ  موئے ہو جائیں، تو کیوں نہ صرف دو ہی کہہ دیا جائے۔ سو دل پر پتھر رکھ کر کہا کہ "دو پراٹھا رول میرے لیے بھی لے آئیے گا۔"
"دو!" ملک صاحب نے زیر لب دہرایا۔ اور پھر ہمارے جثے پر نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ "آپ کے لیے دو زیادہ ہوجائیں گے۔ ایک جمبو رول لے آؤں گا۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے وہ کتنا بڑا ہوتا ہے۔ میرے جیسا بسیار خور بھی بمشکل ایک ہی کھا پاتا ہے۔ "
ملک صاحب کا اپنی ذات کے لیے بسیار خور کالفظ استعمال کرنا دیکھ کر ایک بار تو ہمارا دل بھر آیا۔ عین ممکن تھا کہ ہم اٹھ کر کسی قریبی ستون سے لپٹ جاتے اور دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیتے ۔ بہرحال  کسی طرح ہم نے اپنے دل پر قابو پا ہی  لیا۔
"ٹھیک ہے جیسے آپ کو مناسب لگے۔" ہم نے شکرگزار انداز میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
جمعہ کی نماز کے بعد ہم دوبارہ آ کر کام میں جٹ گئے۔ لیکن ہائے یہ اشتہا۔ بار بار ذہن میں پراٹھے رول گھومنے لگیں۔  جوں جوں ہماری اشتہا بڑھتی گئی وقت کی نبض اور سست چلنے لگی۔ ہم بے چینی سے   اٹھ کر دوسرے کمروں کا چکر لگاتے اور کبھی واپس آ کر کام میں دھیان لگانے کی کوشش کرنے لگتے۔ وقت دیکھا تو چار بجنے والے  تھے۔ آخر   مایوس ہو کر ہم نے  جب اپنے پیٹ کا آخری تسلی دے دی کہ اب شام کو ہوٹل واپس جا کر کھانا ملے گا تو ملک صاحب کی آمد ہوگئی۔ اپنی مخصوص شگفتہ مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے کہا کہ آئیں چلیں کیفے چلتے ہیں۔ یہ ملک صاحب کا بڑا پن تھا۔ اگرچہ وہ کھانا کھا آئے تھے لیکن مروت میں ہمارے ساتھ بیٹھنے پر بھی ازخود  رضامند  تھے کہ کہیں ہم بوریت کا شکار نہ ہوجائیں۔  کیفے میں کرسی سنبھالتے ہی ہم نے بےچینی سے لفافہ کھولا جس میں ایک بوتل اور ایک جمبو سائز پراٹھا رول ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ لیکن لفافہ کھلنے پر ہمارے ارمانوں پر یوں اوس پڑ گئی ۔   کریم رول کے سائز کا کچھ ایک ریپر میں لپٹا تھا اور اس کے ساتھ ایک  چھوٹی سی کیچپ کی پڑیا اور ایک بوتل۔ ہم نے جمبو سائز پراٹھا رول اٹھایا  جائزہ لیا اور پھر اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔ شاید ہمارے ہاتھ کچھ بڑے ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے یہ پراٹھا رول چھوٹا لگ رہا ہے۔ لیکن جب کوئی بھی چیز ایسی نہ ملی جس پر الزام دھرا جائے تو ہم نے ملک صاحب کی طرف دیکھا۔ جو چہرے پر ایک سنجیدگی سجائے  ہمیں یوں دیکھ رہے تھے گویا ہم اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔  
"آپ نے جمبو سائز کا فرمایا تھا۔ " آخر ہم سے ضبط نہ ہو سکا۔
"جی یہی تو جمبو سائز ہے۔ اففف ! ایک کھا لے آدمی تو پھٹنے والا ہو جاتا ہے۔" ملک صاحب ہماری دلی کیفیات سے بےخبر اپنا تجربہ بیان کر رہے تھے اور ہم دل ہی دل میں خود کو موٹو، پیٹو اور پتا نہیں کن کن القابات سے نواز رہے تھے ۔

Friday 17 June 2016

ملک (ایک نابغہ شخصیت)

5 comments
ملک (ایک نابغہ شخصیت)
تعارف:
====
السلام علیکم! "ہمارا نام لے کر" آپ ہی ہیں؟
وعلیکم السلام! جی میں ہی ہوں۔ ہم نے حیرانی سے اس نوجوان کو دیکھا جو ہماری میز کے پاس کھڑا  ہمارے علاوہ ہر طرف دیکھ رہا تھا۔
ملک : "میرا نام ملک ہے۔" آنے والے نے  ہماری طرف متوجہ ہو کر کہا۔
راقم: "اوہ! آپ ہیں۔ کیسے ہیں آپ؟"  کل آپ کا تذکرہ ہوا تھا۔  ہم نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ کھڑے ہو کرمصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ انہوں نے بھی ایک استخوانی پنجہ آگے بڑھا دیا۔   یہ ہماری ملک صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔
ملک کے لفظ سے ہمیں ہمیشہ ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ کالج کا پہلا دن تھا ۔ کلاس میں مستقبل کے سب مہندسین ایک دوسرے کو اجنبی اجنبی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ہر مدرس آتا کلاس سے اپنا تعارف کرواتا۔ طلباء کا تعارف سنتا۔ یوں یہ تعارفی دن اپنے اختتام کی طرف گامزن تھا کہ اردو کے پروفیسر صاحب کی کلاس میں آمد ہوئی۔ انہوں نے اپنا تعارف کروایا  اور اس کے بعد تمام لڑکوں سے کہا کہ باری باری اپنا تعارف کرواتے جائیں۔ ایک لڑکے نے کھڑے  ہو کر اپنا نام "ملک" کے لاحقے کے ساتھ بتایا۔ تو پروفیسر صاحب فوراً اس کی طرف منہ کر کے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں بولے۔ "پتر! ملک کوئی ذات نئیں ہندی، سیدھی طرح  دس، تیلی ایں کہ اعوان ایں؟"۔ اس پر پوری کلاس میں ایک فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا۔
یہاں بطور سند یہ بتانا چاہوں گا کہ راقم نے ملک صاحب سے کبھی یہ سوال نہیں کیا  ۔ یوں بھی "اعوان" گیارھویں صدی میں وجود میں آئے تھے۔ اس سے قبل  یہ کیا  کہلاتے تھے۔ اس پر مؤرخ خاموش ہے۔ اور جب مؤرخ خاموش ہوجائے تو دورِ جدید کے فتنہ سازوں کو ایسے نکات پر بحث نہیں کرنی چاہیے جن کے جوابات کے لیے  ان لوگوں سے تصدیق درکار ہو جو کسی بھی تصدیق و تردید  سے قبل  عیسیٰ سے مسیحائی چاہیں۔

ہمہ جہت شخصیت:
=========
یوں تو ہم نے شاید ہی کبھی زندگی میں جسمانی کھیلوں کے میدان میں کوئی کارہائے نمایاں سرانجام دیا ہو، لیکن خدا  گواہ ہے کہ ہم ان لوگوں کا دل سے احترام کرتے ہیں جو ایسے کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کام پر اکساتے ہیں۔ زندگی بھر ہم نے جس کو بھی دیکھا کسی ایک ہی کھیل میں مستعد پایا۔ جو  کوئی کرکٹ کا کھلاڑی ہے تو اس کا علم  و عمل بھی کرکٹ کی حد تک ہی محدود ہے۔ فٹ بال کا کھلاڑی یا شوقین کسی اور کھیل کے بارے میں معلومات رکھنا اپنی ہتک سمجھتا  ہے تو ٹینس کا کھلاڑی ٹینس کو دنیا کا سب سے مشکل کھیل سمجھتا ہے۔ جسمانی کسرت کے شوقین لوگوں کے آگے اس سے بڑھ کر اور کوئی چیز ہی نہیں اور باقی سب  کو وہ وقت کا ضیاع گردانتے ہیں۔  ہمارا بھی اول دن سے اس بات پر پختہ یقین تھا کہ کھلاڑی وہی ہے جو کسی ایک کھیل پر مکمل دسترس رکھتا ہے لیکن انسانوں  کے  غوروفکر اور تدبر کی صلاحیت کو جلا بخشنے کے لیے قدرت اپنے کرشمے دکھاتی رہتی ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو انسان کی سوچ میں یکسانیت آجائے۔ ہمارے اس خیال سے بھی شاید قدرت کو اختلاف تھا سو وسائل ایسے پیدا ہوئے کہ ہماری ملاقات ملک صاحب سے ہوگئی۔  صرف ملک صاحب کی  ذات بابرکات  سے ہی بےشمار کرامات منسوب نہ تھیں بلکہ زیادہ تر لوگوں کا فرمانا تھا کہ وہ خود ایک معجز نما ہیں۔
لیکن ان کے ذات نے ہمیں کن کن پہلوؤں سے متاثر کیا وہ ہم یقینی طور پر بیان کرنے میں فخر محسوس کریں گے۔ بلاشبہ آج اگر  ہم کھیلوں کے بغیر ایک صحتمند زندگی گزار رہے ہیں تو یہ ملک صاحب ہی کی نظر کرم کی کرامت ہے۔
"انسان بھی عجیب چیز ہے۔ جن خوبیوں  کو وہ خود اپنے اندر دیکھنا چاہتا ہے وہی کسی غیر میں نظر آ جائیں تو مرید ہو جاتا ہے۔  " ملک صاحب نے آئینے کے سامنے بیٹھے عکس کو گھورتے ہوئے کہا۔ ہم نے ایک نظر آئینے پر اور دوسری ملک صاحب پر ڈالی۔ "بے شک پس آئینہ ایسی ہی شخصیت ہے کہ مرید ہوا جائے"۔ ہم نے تائیدی انداز میں سر ہلاتے ہوئے اضافہ کیا۔

(جاری ہے)

Friday 10 June 2016

کاہلی پر اشعار

0 comments
اس موضوع میں کاہلی پر اشعار پیش کیے جائیں گے۔ تمام آلکسیوں سے حسب توفیق حصہ ملانے کی درخواست ہے۔۔۔۔

پہلے پہل کاہلی کا تذکرہ اساتذہ کی زباں سے۔۔۔

میر تقی میر۔۔۔ موضوع کے لحاظ سے تھکی تھکی میر نہ پڑھا جائے۔۔۔ اپنی مثنوی شکار نامہ میں فرماتے ہیں۔۔۔۔
میری بھی خاطر نشاں کچھ تو کیا چاہیے
میؔر نہیں پیر تم کاہلی اللہ رے
(مثنوی)

اس کے بعد غالب کا ذکر ہی بنتا ہے۔۔۔۔ او ریہ ممکن نہیں کہ غالب نے کاہلی کا ذکر نہ کیا ہو۔۔۔
کیا ہے ترکِ دنیا کاہلی سے
ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے

پر افشاں ہوگئے شعلے ہزاروں
رہے ہم داغ اپنی کاہلی سے
(غیر مطبوعہ)

اب جو اسماعیل میرٹھی نے کاہلی کی یوں تعریفیں دیکھیں۔ تو پتا نہیں پرانے بزرگوں کی طرح کیا سوجھی۔ فورا پکارے۔۔۔۔
کرو گے بھلا کاہلی تم کہاں تک
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
صبح کی آمد (نظم)

اسماعیل میرٹھی کی پکار انور شعور پر کافی گراں گزری۔ پہلے پہل تو انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونسی ہوں گی۔ مگر آخر بےبس ہو کر اپنی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہنے لگے۔
کہاں تک کاہلی کے طعن سنتا
تھکن سے چور ہو کر گر پڑا ہوں
غزل

انور شعور بلاشبہ ان چند زیرک شعرا میں سے تھے جو جانتے تھے کہ کاہلی اور آلکسی ایک بار امانت ہے۔ اور کس و ناکس اس کا بار نہیں اٹھا سکتا۔ اسی موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کسی اور ترنگ میں کہا کہ
تساہل ایک مشکل لفظ ہے اس لفظ کےمعنی
کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں کسی سے پوچھ لوں گا میں

عہد حاضر کے محققین کیسے اس موضوع سے آنکھیں پھیر سکتے تھے۔ سو احمد جاوید صاحب نے بھی فی زمانہ رائج کاہلی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ
وہ کاہلی ہے کہ دل کی طرف سے غافل ہیں
خود اپنے گھر کا بھی ہم سے نہ انتظام ہوا

مزاحیہ شاعر اس قیمتی موضوع کو کیسے خالی جانے دے سکتے تھے۔ سو احمق پھپھوندی نے بھی اندرونی کاہلی اور خون کی گردش کے حسین تضاد پر روشنی ڈالی۔۔۔۔ (شاید شاعر کہنا چاہتا ہے کہ آلکسی کا خون بھی منجمد ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم)
نکما کر دیا ہے کاہلی نے گو ہمیں لیکن
رگوں میں ہے ہماری خون ابھی تک دوڑتا پھرتا

یوں تو یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ ہر شاعر کو اس پر لازماً شعر کیا پورا پورا دیوان کہنا چاہیے۔ تاہم اکثریت ایسی آلکس تھی / ہے کہ انہوں نے اس پر بھی شعر نہ کہا۔ اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ بوجہ سستی۔