Thursday 25 August 2016

ملک (ایک نابغہ شخصیت) جم۔۔۔۔ ورزش گاہ۔۔۔​ (قسط سوئم: حصہ دوم)

2 comments
جم۔۔۔۔ ورزش گاہ۔۔۔
حصہ دوم
ہم جب بھی ملک صاحب کے ساتھ کہیں جاتے تو اکثر بہت چوکنا  ہو کر بیٹھا کرتے تھے۔ کیوں کہ ملک صاحب دائیں کا اشارہ کرکے ہمیشہ بائیں کا لفظ استعمال کرتے۔ جنوب کا کہہ کر شمال کی طرف مڑ جاتے۔  اللہ تعالی کی طرف سے جو جی پی ایس  ڈیوائس لگی ہوئی آئی تھی وہ شاید ہم سے ملاقات سے قبل کام چھوڑ چکی تھی۔ لہذا جب ملک صاحب دائیں اشارہ کر کے کہتے اس طرف  تو تمام رمز شناس بائیں جانب ہی دیکھا کرتے تھے۔ ہم نے ان کو واللہ کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا ورنہ یہاں ہم لازما بتاتے کہ ملک صاحب کا مغرب کس طرف بنتا ہے۔ ایک مرتبہ ہم نے یوں ہی ازراہ تفنن پوچھ لیا۔ ملک صاحب آج جمعہ کس طرف پڑھا ہے تو برجستہ فرمایا کہ جس طرف سب نے منہ کر کے پڑھا ہے۔ ایک دن ایک مشہور سڑ ک کے اوپر کھڑے ہو کر ہم سے ایک گھنٹہ بحث کی کہ یہ وہ والی سڑک نہیں ہے جو کہ ہے۔ بلکہ یہ وہ والی سڑک ہے جو یہ نہیں ہے۔ آخر جب ہم نے تھک کر یہ کہا کہ جو سڑک کنارے بورڈ ہے اس پر لکھا نام پڑھ لیں تو تنک کر بولے کہ ایسا بورڈ تو اس سڑک کے دوسرے سرے پر بھی لگا ہے اور وہاں پر بھی یہی نام لکھا ہے۔ ہم نے ہار مان لی۔ اس دلیل کے بعد تو ہمارے پاس منطقی استدلال کی بھی کوئی وجہ نہ رہی تھی۔ خیر تو میں بات کر رہا تھا کہ ہم ملک صاحب کی کار میں بیٹھے دفتر سے نکلے۔ ابھی کچھ فرلانگ ہی کار چلی ہوگی کہ راستے میں ایک مارکیٹ آگئی۔ راستے میں کوئی بھی مارکیٹ آجائے تو ملک صاحب کار روک لیا کرتے تھے۔ اتر کر اِدھر  اُدھر دیکھتے اور پھر آگے جایا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوران ڈرائیونگ اِدھر اُدھر دیکھنا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن آج ملک صاحب نے نظریں سینکنے کی بجائے سامنے پھلوں کی دکان کا رخ کیا اور دو سیب خرید ڈالے۔ اس کے بعد گاڑی گھر کی طرف موڑ لی۔ گھر جا کر لباس تبدیل کیا۔ سیب  کا ملک شیک پیا۔ اس کے بعد کہا۔ اٹھو بھئی۔ جم جانے کا وقت ہو گیا ہے۔ ہم جو سوچ رہے تھے کہ آج شاید ملک صاحب ٹال مٹول کے چکر میں ہیں۔ خوش ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن یہ خوشی بھی زیادہ دیر نہ رہی جب ملک صاحب نے جم کے سامنے پہنچ کر اندر جانے کی بجائے ساتھ چائے سگریٹ کے سٹال  کا رخ کر لیا۔ وہاں سے ایک بوتل منرل واٹر خریدی۔ ہمارے استفسار پر انہوں نے وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میاں دوران ورزش ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لیے میں پانی کی بوتل ہمیشہ ساتھ رکھتا ہوں۔ اس سے ہمیں اتنا اندازہ تو بہرحال ہوگیا کہ ملک صاحب کم از کم اتنی ہل جل تو کر ہی لیتے ہیں کہ ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ ان کو لاحق ہے۔
جم کے اندر داخل ہونے کا راستہ ایسا تھا جیسے غلطی سے بن گیا ہو۔ دو دکانوں کے بیچ ایک نہ نظر آنے والا راستہ نیچے کی طرف جا رہا تھا۔ اور اس راستے کی لمبائی چوڑائی کو دیکھ کر ہمیں ان جاسوسی فلموں کے مناظر یاد آگئے جس میں اس طرح کی تنگ و تاریک گلیوں میں جرم کے بازار گرم ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ ملک صاحب کی "شر""آفت" پر ہمیں کوئی شبہ نہ تھا لہذا پریشان ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ دروازے سے گزرتے ہی خود کو ایک وسیع گودام نما ہال کے اندر کھڑے پایا جس میں ہر طرف جسمانی کسرت کی مشینیں  اور اوزار موجود تھے۔ ملک صاحب نے جاتے ہی  لگا تار دو چھلانگیں اس طرح ماریں کہ ہمیں جنگل کا وہ بادشاہ یاد آگیا جوکہا کرتا تھا۔ "کرنا میں نے کیا ہے۔ بس تم میری آنی جانی دیکھو"۔  اس کے بعد "PushUps"  لگانے شروع کر دیے۔ ملک صاحب کے پش اپس نکالنے کا انداز بہت حد تک تیراکی سے ملتا تھا۔ جس طرح ایک ماہر پیراک پیراکی کرتے ہوئے  بازو سے پانی ہٹا کر سر نیچے لے جاتا ہے۔ اور پھر اسی ترتیب سے واپس اوپر آ کر دوبارہ یہی عمل دہراتا ہے۔ ملک صاحب کے پش اپس نکالنے کا انداز بھی تقریبا سو نہیں تو ننانوے فیصد ایسا ہی تھا۔  البتہ اس میں فرق صرف یہ تھا کہ ملک صاحب کا صرف سر ہی نیچے آتا جاتا تھ جبکہ بقیہ جسم وہیں  کا وہیں جما رہتا تھا۔ اس کے بعد ملک صاحب نے  ایک ایک کلو کے باٹ اٹھا لیے۔ اور  بازوؤں کی مچھلیاں" پھڑکانے" لگے۔ اتنا  وزن اٹھاتے دیکھ کر تو سمندر کی مچھلیاں پھڑک جاتیں۔ "بائی سپ" کی خوب خبر لینے کے بعد ملک صاحب نے کاندھوں اور سینے کی  ورزش کی۔ کاندھوں والی ورزش تو کچھ ایسی تھی کہ جیسے پہلوان  اکھاڑے میں اترنے سے پہلے  ڈنڈ پیلتا ہے۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس کے ڈنڈ  پیلنے کا درمیانی وقفہ ہموار ہوتا  جبکہ  ملک صاحب کے ڈنڈ پیلنے کے درمیانی وقفے کا اگر گراف بنایا جاتا تو شاید بلند فشار خون رکھنے والے مریض کی ای سی جی جیسا بنتا۔
اس بےتحاشہ ورزش کے دوران انہوں نے آدھا لیٹر پانی کی بوتل بھی خالی کر دی۔ جم سے فارغ ہونے کے بعد ملک صاحب نے ہمیں بتایا کہ وہ روز اسی طرح کی ورزش کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم نے پوچھا کہ اگر ہم بھی اسی طرح ورزش کریں تو کیا ہمارا جسم بھی اتنا ہی دبلا اور پلپلا ہو جائے گا تو مسکرا دیے۔ ہم نے جب اپنا وار خالی جاتے دیکھا تو کہا کہ کل ہم نے اپنے دو دوستوں کو جب آپ کی جسمانی کسرتوں کے بارے میں بتایا تو وہ یقین نہیں کر رہے تھے۔ اس پر ملک صاحب  نے  استعجابیہ    انداز میں پوچھا۔ اچھا کیا  وہ کیا کہہ رہے تھے؟ ملک صاحب کے اس انداز معصومیت پر ہمیں پورا واقعہ ان کے گوش گزار کرنا پڑا۔
ہوا یوں کہ کل ہم دو دوستوں کے ساتھ تھے۔ باتوں باتوں میں کول مین اور آرنلڈ کا ذکر آگیا۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ باڈی بلڈر حضرات کا ذکر ہو اور ملک صاحب کا تذکرہ رہ جائے۔ سو ہم نے فوراً  کہا کہ باڈی بلڈنگ تو اپنے ملک صاحب بھی کرتے ہیں۔ اس پر بجائے وہ گستاخ یہ پوچھتے کہ کب سے کر رہے ہیں؟ اچھا! ہمیں تو پہلے ہی یقین تھا کہ ملک روز ورزش کرتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ گفتگو کچھ یوں آگے بڑھی۔
پہلا: "بکواس نہ کر! مذاق کر رہا ہے نا؟"
دوسرا: "واقعی؟  انہیں  دیکھ کر لگتا نہیں کبھی جم کے باہر سے بھی گزرے ہیں۔"
پہلا: "یہ بس ان کو بےعزت کرنے کے لیے ایسی ہانک رہا ہے۔"
دوسرا: "مذاق برطرف۔ تمہاری  کیا دشمنی ہے جو ان کے بارے میں ایسی افواہیں اڑا رہے ہو؟"
راقم: "بھئی! میں کیوں بےپر کی اڑاؤں گا۔ یہ بات درست ہے کہ ملک صاحب گزشتہ آٹھ برس سے کسرت کر رہے ہیں۔"
پہلا: ہاتھ جھٹک کر۔ "ابے چل! ہمیں الو سمجھا ہے۔ یا ہم نے کبھی آٹھ برس تک لگاتار باڈی بلڈنگ کرنے والے دیکھے نہیں ہیں۔"
دوسرا: "یار! دیکھ اگر تو جھوٹ بول رہا ہے تو میں سیدھا جا کر ملک صاحب کو کہہ دوں گا کہ آپ کے بارے میں اناپ شناپ بول رہا تھا۔"
راقم: "حد ہوگئی یار! تم لوگ اب خود ہی ملک سے پوچھ لینا۔"
ابھی ہم  مکالمہ سنا رہے تھے  کہ ملک صاحب نے ہاتھ اٹھا کر ہمیں بات کرنے سے روک دیا۔ فرمانے لگے۔ بس ! اب ان سے پنجہ لڑانا ہی پڑے گا۔ یہ لوگ ایسے نہیں مانیں گے۔

(جاری ہے۔)

Saturday 20 August 2016

نوحہ

3 comments
بنسری توڑ دی گڈریے نے
اور چپکے سے شہر جا کر
کارخانے میں نوکری کر لی

کچھ احباب نے مجھ سے پوچھا کہ اسلم کولسری نے یہاں ایسی کیا بات کی ہے کہ آپ نے اس کو اپنا صفحے کی تفصیلات میں رکھا ہوا ہے۔ ایک آدھے سے بڑھ  کر بات جب چند لوگوں نے کی تو میں نے سوچا کہ اپنے تئیں اس کی تھوڑی سی وضاحت کر دی جائے۔ یوں تو خاکم بدہن کسی قابل نہیں اور پھر" المعانی فی البطن الشاعر" کہہ کر بھی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن جو میں سمجھتا ہوں۔ اس کو کہنے میں کیا ہرج ہے، اساتذہ موجود ہیں۔ کہیں کوئی کمی کوتاہی ہوئی تو وہ نشاندہی کر کے اور درستی فرما کر سرفراز فرمائیں گے۔

یہ جس کا عنوان نوحہ ہے۔ حقیقت میں نوحہ ہی ہے۔ یہ سادگی سے تصنع کی طرف منتقلی کا نوحہ ہے۔ آزادی سے غلامی کی طرف جانے کا نوحہ ہے۔ نخلستان چھوڑ کر سراب کے پیچھے بھاگنے کا نوحہ ہے۔ مضبوط اقدار سے فرار کا نوحہ ہے۔ الغرض ایک مکمل معاشرے کا دوسرے معاشرے میں ڈھل جانے کا نوحہ ہے۔شاعر کو بہت سہولت حاصل ہوتی ہے۔ وہ بہت کم الفاظ میں بہت زیادہ کیفیات، رشتے اور وقت بلکہ صدیوں کا سفر سمیٹ جاتا ہے۔

انسان اصل میں کسی چیز کو جب توڑتا ہے تو وہ اس وقت،  جب وہ اس کے لیے بیکار ہوجاتی ہے۔ یہ ایک عام رویہ میرے مشاہدے میں ہے کہ ہم کسی چیز کو بیکار ہونے کے بعد اس کو اکثر یوں نہیں پھینک دیتے۔ بلکہ اس کو توڑ دیتے ہیں۔ کاغذ ہے تو اس کو پھینکنے سے پہلے پھاڑ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی کسی چھڑی کو پھینکتا ہے تو اس کو بھی پھینکنے سے پہلے توڑنا نہیں بھولتا۔ بانسری جو کہ ایک روایتی ثقافت کی امین ہے۔ اس سے کئی داستانیں منسوب ہیں۔ کئی قصے جڑے ہیں۔ کتنی ہیروں کے دلوں کے تار اس کی دھن سے کبھی چھڑا کرتے تھے۔ وہ اب متروک ٹھہری ہے۔ اب اس کی سریلی دھن کہیں سننے کو نہیں ملتی۔ اب قدم بانسری کی آواز سن کر رکتےنہیں ہیں۔ اب رات کے سناٹے میں کبھی کوئی سریلی دھنیں نہیں بکھیرتا ہے۔ گڈریا  سادگی کی علامت ہے۔ قناعت کی علامت ہے۔ تصنع سے پاک ہے۔ وہ اپنے دل کی دھڑکن، اپنی باتیں سروں کی صورت ہوا میں بکھیر دیتا ہے۔ سماعتیں ان سروں سے لطف لیتی ہیں۔ جتنی سندر بات اس کے من میں ہوتی ہے۔ اتنا سندر سر اس کی بانسری سے پھوٹتا ہے۔ لے پہچاننے والے جانتے ہیں کہ خوشی اور غم کے سر سب کیسے اس بانسری سے جنم لے کر ہوا میں بکھرتے چلے جاتے تھے۔ 
اور یہی سے اس نوحے کا ذکر ہوتا ہے جو کہ اوپر بیان ہوا ہے۔ اب ان سروں کو چھوڑ دیا ہے۔ وہ بانسری جس سے دل کی دھنیں ہوا میں بکھرتی تھیں۔ جن میں ایک تال میل ہوتا تھا۔ وہ ٹوٹ گئی ہے۔ بلکہ توڑ دی گئی ہے۔ وہ گڈریا جو کہ سادگی کی علامت تھا۔ جس میں تصنع نام کو نہ تھا۔ وہ بھی "چپکے" سے اس جگہ سے ہٹ گیا ہے۔ اس کوبھی چھپنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ کس سے چھپنے کی۔ اس معاشرے کی بدلتی قدروں نے اس کو احساس دلایا ہے کہ یہ اب دنیا تیری نہیں ہے۔ اگر جینا ہے رہنا ہے تو ان دھنوں کو  مشینوں کے شور سے بدلنا ہوگا۔ اس آزادی کو ساہوکار کے پاس گروی رکھنا ہوگا۔ اب سُر کی جگہ شور سننا ہوگا۔ اب دل کی آواز مشینوں کی آواز میں کہیں دب جائے گی۔ اب ہوا اس موسقیت سے محروم ہوجائے گی۔ اور یہی تو نوحہ ہے۔ جہاں بےساختگی چھین لی جائے۔ جہاں زمانے میں کامیابی کا تناسب تصنع و بناوٹ ہوجائے۔ رشتے کمزور ہو کر قریب المرگ ہوجائیں۔ چوپالین سنسان اور اقدار بےآبرو ہوجائے۔ تو پھر ایسے میں شام کے ڈھلتے سایوں میں گڈریے اپنے ریوڑ چھوڑ کر بانسری توڑ کر کارخانوں کے شور میں نہ دب جائیں تو کیا کریں۔ پورا معاشرہ اپنی مضبوط بنیادیں چھوڑ کر ریت پر بنی عمارتوں میں منتقل ہوجائے تو اس کو نوحہ نہ کہیں تو کیا کہیں۔ 

Monday 15 August 2016

ملک (ایک نابغہ شخصیت) جم۔۔۔۔ ورزش گاہ۔۔۔​ (قسط سوئم: حصہ اول)

7 comments
جم۔۔۔۔ ورزش گاہ۔۔۔
حصہ اوّل​

رفتہ رفتہ ہم ملک صاحب سے اورملک صاحب ہم پر کھلتے چلے گئے۔ ہم ان کی مجلس میں بیٹھتے لیکن زبان نہ کھولتے، کیوں کہ ہمارے پیش نظر علم حاصل کرنا ہوتا تھا۔ ملک صاحب اپنی ترنگ میں اس دن کے کھیل پر روشنی ڈالا کرتے تھے۔ اب قبل اس کے کوئی گستاخ پوچھے کہ "اس دن کے کھیل" سے کیا مراد ہے؟ تو ہم خود ہی بتلائے دیتے ہیں کہ ملک صاحب ہمہ کھیل قسم کے کھلاڑی تھے۔ لہذا جو کھیل ایک بار کھیلتے کئی دن تک اس کی دوبارہ باری نہ آتی۔ لیکن سبحان اللہ ذرا دسترس ملاحظہ کیجیے کہ مہارت میں کوئی فرق نہ آتا۔ سوائے کسرت کے جو باقاعدگی سے فرمایا کرتے تھے۔ ان کا خود فرمانا تھا کہ باڈی بلڈنگ میری سرشت میں شامل ہے۔ میں چاہ کر بھی اس کو چھوڑ نہیں سکتا۔ یوں تو ہم زندگی میں بہت کم ہی گستاخی پر مائل ہوئے ہیں، اور اگر کبھی ہوئے بھی ہیں تو کوشش ہمیشہ یہی کہ ہے کہ جوان کو پیر کا استاد نہ کیا جائے۔ بڑے بوڑھے ہمیں باادب بانصیب کہہ کر بہت سے کاموں سے روک گئے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس دن ہماری زبان لڑکھڑا ہی گئی۔ وجہ اس کی یہ نہ تھی کہ ہمیں کسی کے باڈی بلڈر ہونے پر اعتراض تھا۔ بلکہ ملک صاحب کا ڈیل ڈول ہمارے لیے حیرانی کا باعث تھا۔ کیوں کہ ملک صاحب ایک اوسط مقامی آدمی جتنی طوالت رکھتے تھے۔ جسم چھریرا، بازو اتنے سیدھے اور دبلے تھے کہ کسی بھی حسینہ کو ان پر رشک ہو سکتا تھا۔ چھاتی اتنی تھی کہ صاف پتا چل جاتا تھا کہ چھاتی ہے۔ لیکن کمر کے بارے میں وہی زبان زد عام بات کہ سنتے ہیں کہ تمہاری بھی کمر ہے کہاں کدھر ہے۔ 
" کیا آپ واقعی باڈی بلڈنگ کرتے ہیں؟ "
"کرتا کیا مطلب؟ بھائی میرا جم جائے بنا گزاراہ نہیں۔" ملک صاحب نے ہم کو یوں گھورا جیسے ہمارے سر پر سینگ اگ آئے ہوں۔
"نہیں !جم جانا اور بات ہے اور ورزش کرنا دوسری بات"۔ ہم نے اپنی بے تکی بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
ملک صاحب کچھ دیر تو ہم کو گھورتے رہے کہ شاید ہم ان سے یہ تمام باتیں ازراہِ تفنن کر رہے ہیں۔ اور ابھی ہم طالبان کی طرح اعلان کر دیں کہ "میں مذاق کر رہا تھا۔ وگرنہ کول مین کے بعد دنیا میں کوئی باڈی بلڈر آیا ہے تو وہ ملک صاحب ہیں۔" لیکن جب ہم نے اپنا انداز نہ بدلا اور سوالیہ نگاہوں سے ملک صاحب کو جوابی گھورنا جاری رکھا۔ تو انہوں نے ایک لمبا سانس کھینچا۔ ایسا سانس وہ عموماً تب کھینچا کرتے تھے جب انہوں نے اپنی ذات کے ان رازوں سے پردہ اٹھانا ہوتا تھا جو عام طور پر لوگوں کو معلوم ہی ہوتے تھے۔
"میں گزشتہ آٹھ برس سے باڈی بلڈنگ کر رہا ہوں۔ جم میں ہر آدمی مجھے دیکھ کر رشک کرتا ہے۔ خاص طور پر جب میں بائی سپ اور سینے کی ورزش کرتا ہوں تو کچھ لوگوں کی آنکھیں تو پھٹنے والی ہوجاتی ہیں۔ ایک دن بائی سپ ٹرائی سپ اور سینہ کی ورزش کرتا ہوں۔ اگلے دن پیٹ اور کاندھوں کی اور اگلے دن۔۔۔۔۔ " ملک صاحب نے فخریہ انداز میں ہماری معلومات میں شدید قسم کا اضافہ کرتے ہوئے ہمیں مکمل شیڈول سے بھی آگاہی دی۔
ہم نے حیرت سے ان کے بائی سپ کو دیکھا جو سائز میں کسی حسینہ کے بائی سپ جتنا تھا، اور پھر ان کے سینے کو دیکھا جو کسی بھی حسینہ جیسا نہ تھا۔ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا۔ مگر پھر بند کر لیا۔​
تمہیں یقین نہیں آرہا۔ چلو آج میرے ساتھ جم چلنا۔ تمہیں اپنے کمالات دکھائیں گے۔ اور شام کو ہم ملک صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھے جم کی طرف روانہ ہوئے۔

(جاری ہے)