Wednesday 28 November 2012

مظلوم غلام اور احمق دانا (شیخ سعدی کی روح سے معذرت کے ساتھ)

15 comments
ایک بادشاہ کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہا تھا۔ کشتی اس لیئے کہ کروز اور لانچ کا دور نہ تھا۔ آبدوز بھی ایجاد نہ ہوئی تھی۔ کچھ درباری اور چند غلام بھی ساتھ تھے۔ وہ ساتھ نہ ہوتے تو پروٹو کول کسطرح پورا ہوتا۔ سب کہتے کتنا غریب بادشاہ ہے۔ بغیر پروٹوکول کے پھرتا ہے۔ یہ سارے غلام ایسے تھے جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھے تھے اور شوق میں ساتھ چلے آئے تھے اور اب پچھتا رہے تھے۔ مگر اک ایسا تھا جو اپنا خوف نہ چھپا پا رہا تھا۔ اور ڈوب جانے کے خوف سے رو رہا تھا۔ موت برحق ہے والے مقولے پر اس کا ایمان بہت ناپختہ تھا۔ بادشاہ کو اس کی بھوں بھوں کر کے رونے کی آواز سے سخت الجھن ہو رہی تھی لیکن غلام پر منع کرنے اور ڈانٹنے ڈپٹنے کا بالکل اثر نہ ہوا اور وہ یونہی روتا رہا۔ بادشاہ سوچ رہا تھا کہ واپس جا کر اسکی گردن مار دینے کا حکم دے دے گا۔

کشتی میں ایک جہاندیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا ۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ اک مسافر کشتی تھی اور بادشاہ کو درباریوں نے مکمل کشتی کرائے پر لینے کی بجائے ضرورت کے مطابق ہی کرایہ ادا کر کے بقیہ رقم ڈکا ر لی تھی۔ کہ بادشاہ کو کونسا پتہ چلے گا۔ اور ملاح سے سازباز کر رکھی تھی کہ مسافر کو اپنا رشتےدار بتا دے اگر بادشاہ پوچھ بیٹھے۔دوسری مصلحت یہ بھی تھی کہ اگر اسکو بھی نکال دیتے تو حکایت آگے کیسے بڑھتی۔
اب دانا شخص نے فلمی انداز میں یکلخت کھڑے ہو کر کہا کہ اگر حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس خوفزدہ غلام کا ڈر دور کر دے؟ تو بادشاہ جو پہلے ہی شیخ سعدی کے دور کے عقلمندوں کو یاد کر رہاتھا خوش ہوگیا کہ لو آیا اک دانا۔ اور اجازت عطا فرمائی۔
دانشمند شخص نے اک نگاہ تکبرانہ سب بیوقوفوں مع بادشاہ پر ڈالی اور بقیہ غلاموں کو حکم دیا کہ اس والے غلام کو اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔ درحقیقت وہ اک اذیت پسند شخص تھا۔ وگرنہ غلام کی توجہ باتوں میں لگا کر بھی بٹائی جا سکتی تھی۔ مگر ان دنوں شائد اس قسم کے موضوعات پر تحقیق نہ ہوتی تھی۔ غلاموں نے حکم کی تعمیل کی اور رونے والے غلام کو اٹھا کر دریا کے اندر پھینک دیا ۔ جب وہ تین چار غوطے کھا چکا تو دانا شخص نے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکلا کر کشتی میں سوار کر لو. وہ غلام غوطے کھاتا کشتی سے دور جا چکا تھا۔ اب سب اک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ تیرنا تو کسی کو بھی نہیں آتا تھا۔ اب سب کی نظریں ملاح پر گڑ گئیں۔ مجبورا ملاح دل ہی دل میں بکتا جھکتا دریا میں چھلانگ لگا کر اسکو اوپر گھسیٹ لایا۔ اسکے پیٹ میں پانی بھی چلا گیا تھا۔ وہ بھی نکالا گیا۔ اب وہ غلام جو غوطے کھانے سے پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بڑی طرح رو رہا تھا بالکل خاموش اور پر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔بادشاہ جو یہ بیکار حرکت دیکھ کر بور ہو رہا تھا،قدرے غصہ ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھینکوا دیا تھا اور یہ بھی پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ کسی کو تیرنا آتا بھی ہے یا نہیں؟ لیکن دلچسپ امر جس نے تمہاری جان بچا لی وہ یہ ہے کہ یہ اب خاموش ہوگیاہے۔دانا شخص جو پہلے داد طلب نظروں سے بادشاہ کو دیکھ رہا تھا۔پریشان ہوگیا اور سوچنے لگا کہ اخلاقی سبق ایسا ہونا چاہیئے کہ اب اپنی جان بچ جائے۔ اور آخر کار اس نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب جب لگے غوطے تو عقل آگئی ٹھکانے۔ اور دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہوگئی تو یہ خاموش ہو گیا۔

حالانکہ غلام نے بعد میں اپنے دوستوں کو بتایا کہ میں اس وجہ سے چپ کر گیا کہ یہ آدمی پاگل ہے۔ اور تم لوگ احمق۔ اس بیوقوف کی اس حرکت سے اب میرا ڈر اور بڑھ گیا ہے۔

اخلاقی سبق: اگر آپ اپنے ڈر لوگوں کو بتائیں گے تو وہ نہ صرف آپ کو مزید ڈرائیں گے۔ بلکہ بعد میں آپکو اس میں اخلاقی سبق تلاشنے کا بھی کہیں گے۔ اور یہ کہ اگر کسی شخص نے کبھی کوئی مصیبت نہیں دیکھی تو اس کو اس مصیبت کا مزا چکھانا ضروری نہیں ہے۔ اس قسم کی حرکتوں سے اسکا دل بند ہو سکتا ہے۔ اور وہ مر بھی سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اس قسم کے کام کرتے وقت ساتھ موجود لوگوں کی صلاحیتوں سے آگاہی ضروری ہے۔ ورنہ یہ دانائی جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

15 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔