Monday 3 December 2012

قحط دانائی

4 comments
پرانے زمانے میں عقلمند لوگ ناپید ہوتے تھے۔ اور گوگل ابھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ لوگوں کو دانا لوگوں سے ملنے کے لیئے کئی کئی میل کا سفر طے کرنا پڑتا۔ ہر کوئی اپنے گھر کو عقلمند ہوتا ہے۔ یہ مثال بھی اس وقت ایجاد نہ ہوئی تھی۔ دانائی کا معیار کیا ہوتا تھا۔ کس شخص کو دانا کہا جا سکتا اور کس کو نہیں۔ اس بات کا فیصلہ بھی وقت کے بیوقوف ہی کرتے تھے۔
اک اور پتے کی بات بتاتا چلوں کہ سوال کرنے والا کبھی بھی دانا نہ سمجھا جاتا تھا۔ چاہے کتنی ہی دانائی کا سوال نہ پوچھ لے۔ صرف جواب دینے والا ہی دانائی کی گدی پر رونق افروز ہو سکتا تھا۔
ایسے ہی اک دور میں جب دانائی کا قحط پڑا ہوا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ شیخ سعدی کے داناؤں کے دور کے آس پاس کا دور بھی نہ تھا۔ جہاں دانا لوگ یوں پائے جاتے تھے جیسے لال مرچ میں اینٹیں یا پھر چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے۔  اک آدمی سات سوال سوچ بیٹھا۔ سوچ کیا بیٹھا۔ عقلمند آدمی تھا۔ کچھ باتیں ذہن میں آئیں۔ گر کوشش کرتا تو جواب بھی مل جاتا۔ مگر روایت اور رسم و رواج کے مطابق دانا کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ پتہ چلا کہ قریبی قریبی دانا بھی سات سو میل کی مسافت پر ہے۔ 
یہ بات اس نے اپنے باپ کو بتائی کہ اب مجھے ان کے جوابات کے لیئے اس کے پاس جانا ہوگا۔ کیوں کہ اس سارے علاقے کو وہی اک عقلمند لگتا ہے۔ عہد حاضر کا کوئی باپ ہوتا تو اس کو ذاتی حملہ یا اسلاف پر ضرب گردانتا۔ مگر باپ نے بخوشی اسے کہا جا بیٹا جا۔ عقل سیکھ کر آ۔

اجازت ملنے پر سفر شروع کیا اور سارا راستہ طرح طرح کے حلئے ذہن میں بناتا گیا کہ ایسا ہوگا عقلمند آدمی۔ یا پھر ایسا۔ مگر جب اس کٹھن مسافت کو طے کرنے کے بعد جب وہ اس گاؤں میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ بھی اس کی سی شکل و صورت کا اک عام آدمی تھا۔ کسی بھی عقلمند آدمی سے ملے کا یہ پہلا اتفاق تھا سو آداب کو خیال رکھتے ہوئے بیوقوفانہ قسم کا سلام کیا۔ اور چھوٹتے ہی عرض کی
میں اتنی دور سے سات باتیں دریافت کرنے آیا ہوں۔ 

عقلمند نے جواب دیا۔ کاکا بیٹھ؛ پانی وغیرہ پی۔ کھانا کھا۔ اتنے لمبے سفر نے ویسے ہی تیری مت مار رکھی ہے۔ سوالی عقلمند کی عقلمندی کا قائل ہوگیا۔ آرام سے کھانا کھا کر چائے وائے پی کر جب اسکی تھکان اتر گَئی تو عقل مند آدمی نے کہا۔ اب میں تیرے سوالوں کے جواب دیتا ہوں۔ 

آسمان سے کون سی چیز زیادہ ثقیل ہے ؟
اوئے کاکا! پہلے تو یہ بتا کہ آسمان کو تو نے کب تولا؟ عقل کے ناخن تراشتے ہوئے عقلمند نے مزید کہا۔ اگر وزنی ہوتا تو نیچے نہ گرا پڑا ہوتا۔ جس چیز کو ہوا نے اوپر اٹھا رکھا ہے وہ کاہے کی وزنی۔ خیر تجھے اک پتے کی بات بتا دیتا ہوں تاکہ تیرا سفر اکارت نہ جائے۔ اور وہ یہ کہ مفت یعنی بناء پیسے لیئے کسی کا کام کرنا یا کسی پر الزام لگانا آسمان سے بھی زیادہ بھاری ہے۔ اک بہت ہی عقلمند آدمی نے کہا تھا کہ اگر تم کسی چیز پر دسترس رکھتے ہو تو کبھی بھی اسے مفت نہ کرو۔   

زمین سے کیا چیز وسیع ہے ؟
تیرے دوسرے سوال کا جواب ہے کہ بیگم کی خواہشات زمین سے زیادہ وسیع ہیں۔ ابن بطوطہ زمین کا طواف کرنے میں شائد کامیاب ہو گیا ہو۔ مگر بیگم کی خواہشات کے آگے وہ بھی بے بس ہو گیا ہوگا۔ 

پتھر سے کون سی چیز زیادہ سخت ہے ؟
تیرے تیسرے سوال کا بزرگانہ جواب یہ ہے کہ  عوام کی غیرت پتھر سے زیادہ سخت ہے۔ جتنا مرضی ظلم کر لو۔ جیسے مرضی ہانک لو۔ مگر نہ تو یہ غیرت کا بت ٹوٹتا ہے۔ اور نہ ہی اس میں سے پانی کا کوئی چشمہ بہہ نکلتا ہے۔ یہ پتھر اندھے پن میں لڑھک تو سکتا ہے۔ مگر پانی کی طرح خود راستہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ 

 کون سی چیز آگ سے زیادہ جلانے والی ہے؟
چوتھے سوال پر عقلمند نے اک مشفقانہ سا قہقہہ لگایا جیسا بچوں کے معصوم سوالوں پر لگایا جاتا ہے۔ اور کہا کہ آگ کے سوا کوئی اور چیز اتنا جلانے والی ہوتی تو جہنم اسی  چیز سے بنائی جاتی۔ نہ کہ آگ سے۔
سوالی نے کہا سرکار میرا سوال تھا کہ آگ سے جلنے کے علاوہ بھی کوئی ایسی کیفیت ہے کہ بندہ سمجھے وہ جل رہا ہے۔
اس بات پر دانا آدمی سوچ میں پڑ گیا۔ مگر اسی دوران سامنے سے کچھ خواتین کا گزر ہوا۔ تو دانا نے کہا کہ اگر بیٹا اپنی کمائی ماں کی بجائے بیگم کے ہاتھ پر رکھ دے۔ یا بیگم کی بجائے ماں کے ہاتھ پر۔ تو اس عورت کے لیئے اس سے زیادہ جلانے والی چیز کائنات میں کوئی نہیں۔ 

کون سے چیز زمہریر سے زیادہ سرد ہے ؟
پانچویں سوال پر اک بار تو دانا پریشان ہو گیا۔ پھر اٹھا بہانے سے اور ساتھ کمرے میں لغت تک جاپہنچا۔ وہاں سے زمہریر کا مطلب دیکھا۔ واپس آکر سکون سے بیٹھ گیا۔ اور کہنے لگا کہ اسکے دوجوابات ہیں۔ اک میری ذاتی رائے اور اک وہی نسل در نسل چلنے والا جواب۔
سوالی نے کہا کہ حضور دونوں جواب دے کر سرفراز فرمائیے۔
روایتی جواب یہ ہے کہ رشتے داروں کے پاس حاجت لے جانا اور کامیاب نہ ہونا زمہریر سے زیادہ سرد ہے۔ مگر رشتےداروں کے پاس جاتا کون ہے۔ اگر رشتے دار اتنے اچھے ہوتے تو ان سے اچھے سلوک کی بار بار تاکید کیوں کی جاتی۔ لہذا زمہریر سے زیادہ سرد وہ وقت ہے جب تم اپنے کسی دوست سے ادھار مانگنے جاؤ اور وہ تمہاری بات شروع کرنے سے پہلے تم سے ادھار مانگ لے۔ 
اس جواب پر سوالی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شائد کوئی پرانا واقعہ اسے یاد آگیا تھا۔

کون سی چیز سمندر سے زیادہ غنی ہے ؟
دانا اس پر ذرا بیزار سا ہو کر کہنے لگا۔ کہ اگر غنی کا مطلب سخاوت سے ہے تو سمندر تو صرف قربانی لیتا ہے۔ دریاؤں کی۔ ندی نالوں کی۔  اور اگر اپنی حدوں سے نکل آئے تو ملکوں کے ملک ڈبو دیتا۔ مگر جو میں سمجھا کہ تم اسکی وسعت سے غنا کو منسوب کر رہے ہو۔
رشوت دینے والے کا دل سمندر سے بھی بڑا ہوتا۔ کیوں کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی کمائی صرف اپنا کام نکلوانے کو ان راشیوں کے ہاتھ تھما دیتا جو ناسور بنے خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ 

یتیم سے زیادہ کون بدتر ہے ؟
 اس سوال پر اک بار تو دانا حیران رہ گیا۔ اس نے کہا نوجوان میری عمر ساٹھ کے قریب ہے۔ اور میں بھی یتیم ہوں۔ مگر میری حالت ہرگز قابل رحم نہیں۔ میں خوش باش زندگی گزار رہا ہوں۔
اس پر سوالی نے دل ہی دل میں اس دانا کو گالیاں دیتے ہوئے بظاہر بڑے ادب سے کہا۔ جناب اس سے مراد ایسا بچہ جس کے سر سے اس شفیق کا سایہ تب اٹھ جائے۔ جب وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ اب تو اگر آپ کے بچے بھی یتیم ہو جائیں تو انکی حالت اللہ کے کرم سے ٹھیک ہی رہے گی۔ 
اب دانا کو شرمندگی ہوئی کہ اتنی سی بات نہ سمجھ پایا۔ خیر اس نے جواب  تراشتے ہوئے کہا کہ اس بہو کی حالت یتیم سے بھی بدتر ہے جسکو چغلی کرنے کو کوئی ہمجولی میسر نہ ہو اور اسکی ساس کے پاس چغل خوروں کی روز محفل سجتی ہو۔ 

4 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔