Thursday 31 December 2015

اوستھا

11 comments
2015 اپنے اختتام کو پہنچا۔ نئے سال کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔ کتنے سالوں سے یہی عادت ہے کہ سالِ نو کے آغاز میں ارادے باندھنا اور سال کے آخر میں ان بوسیدہ  منصوبوں کو دفن کر دینا۔ آج بھی ایک ایسا ہی دن ہے۔ کتنے منصوبے دفنا رہا ہوں جو اس سال کے آغاز میں  بڑے جذبے سے بنائے گئے تھے۔ اس وقت یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کی تکمیل کرنے میں صرف چند دن کا فاصلہ ہے ۔  یہ چند دن کب چند ہفتے اور پھر مہینے سے ہوتے ہوئے سال میں ڈھل گئے اگر سوچنے بیٹھوں تو شاید کوئی وجہ نہ تلاش کر سکوں۔

چائے کا کپ ہاتھ میں لیے میں ہمیشہ کی طرح طلوع آفتاب کا منتظر ہوں۔اس منظر سے شاید مجھے یوں لگتا ہے کہ نئی صبح آگئی ہے۔ لیکن شام ثابت کرتی ہے کہ " وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں "۔ گزشتہ گزرے دس سالوں میں شاید یہ پہلا یا دوسرا سال ہے کہ میں صادق آباد اپنے امی ابو کے پاس بیٹھا ہوں۔ ابو اپنی عادت کے مطابق روز کی طرح اونچی آواز میں فارسی کے اشعار پڑھ رہے ہیں۔

كريما ببخشاي بر حال ما
كه هستيم اسير  كمند  هوا
نداريم غير از تو  فريادرس
تويي عاصيان را خطا بخش و بس
نگهدار ما را ز راه  خطا
خطا در گذار وصوابم نما.....

میرا ان اشعار سے تعلق بہت پرانا ہے۔ بچپن سے یہ اشعار اسی ترنم سے سنتا آرہا ہوں۔ ابو ان اشعار کا ورد بلند آواز میں بڑی دیر تک کرتے رہتے ہیں۔ خیر بات کدھر نکل گئی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ  کیا فائدہ اتنے ارادے باندھنے کا، جن کو سال کے آخر میں خود اپنے ہی ہاتھ سے دفنانا ہے۔ یہ سب آنے والے دن تو اس کے کرم کےمتلاشی  ہیں۔ ہماری ہستی کا جھونکا کب جانے گزر جائے  ۔ بس وہی منصوبے انجام کو پہنچتے ہیں جن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے  میں عمل کے ساتھ اس کریم کی رضا بھی شامل ہو۔ اس کے علاوہ کون ہے جو ہم گناہ کاروں خطاکاروں کی خطائیں بخشے۔  حضرت علی رضہ اللہ تعالیٰ عنہ  کرم اللہ وجھہ فرماتے ہیں کہ "میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔" میں کیسا کوتاہ نظر ہو ں مدتوں سے ارادوں کو دفنا رہا ہوں لیکن رب کو نہیں پہچان رہا۔ اور پہچانوں بھی کیسے کہ مقصود ہی  دنیا ہے۔

نہ گزرے شب و روز پر دل گرفتہ ہونے کا ارادہ ہے  اور نہ اس سال کے لیے کوئی باقاعدہ  منصوبہ  ہے۔ اس سال بس دعائیں ہیں کہ رب کریم پہلے سے الجھے معاملات کو سلجھا دے۔ ظالموں کی رسی کو اب اور دراز نہ کرے۔ جو کوئی جس جگہ جس حال و منصب میں ظلم کر رہا ہے۔ اب اس کی پکڑ ہوجائے۔ اب وہ  ذلیل و رسوا ہوجائے۔ وہ عناصر جو اس ملک کی جڑیں کاٹنے میں مشغول ہیں ان کی جڑیں خدا اس طرح کاٹ دے کہ وہ بے نام و نشاں ہوجائیں۔ حکمرانوں کو عقل عطا کردے۔ شعور عطا کر دے۔ ان ظالموں کے پالتو کتے جو اپنے ہی وطن کی  بیٹیوں کی عصمت دری میں مصروف ہیں۔ ان کے ہاتھ کٹ جائیں۔ میں یہ دعا چاہ کر بھی نہیں کر پا رہا کہ ان کی وکالت کرنے والوں کے خاندانوں کے ساتھ بھی یہی ہو لیکن یہ دعا ضرور ہے کہ وہ احمق و بےشعور لوگ جو آنکھوں دیکھی مکھی نگلتے ہیں۔ وہ جنہوں نے ظلم کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے۔ اب  بصارت کے ساتھ ساتھ ان پر بصیرت کے راز بھی آشکار کر دے۔ اللہ اس سال ہمارے امیدوں کے چراغوں کو بجھنے نہ دینا۔ ہم کو مایوس کرم نہ کرنا۔ اس صبح کو وہ صبح بنا دینا جس کا انتظار ہے۔ کہ نفس مطمئن ہوجائے۔ راضی بالرضا ہوجائے۔  جو احباب اس سال کچھ منصوبوں کو ترتیب دیے ہیں۔ ان کو کامیابی و کامرانی عطا کرنا۔  ہمارے نفس کو اپنے قابو میں رکھنا کہ ہم اس سرکش گھوڑے کے اچھے سوار کبھی بھی ثابت نہیں ہوئے۔ آمین

Wednesday 30 December 2015

ای میلز اُڑا دیجے

3 comments
ای میلز   اُڑا دیجے
(جون ایلیا سے معذرت کے ساتھ)
فاتح بھائی کی محبتوں نے اس نظم کو نکھار دیا ہے۔

تم نے مجھ کو لکھا ہے
"میلز سب اُڑا دیجے
مجھ کو فکر رہتی ہے
دفع آئی ڈی کیجے
آپ کا اکاؤنٹ گر
ہیک ہوا تو کیا ہو گا
دیکھیے میں کہتی ہوں، یہ بہت برا ہو گا"

"میں بھی کچھ کہوں تم سے!
فارحہ نگارینہ!
فیس بک کی شاہینہ
اردو ویب کی تہمینہ
شوخ تو تمھیں تھیں نا
میں تمھاری ای میلیں
کرتا آرکائو ہوں
ہے سوادِ بینائی، ان میں جو ہیں تصویریں
ارکئوز اڑا دوں کیا؟
جو بھی ان کے بیک اپ ہیں
ڈبلو ڈی ڈرائیو پر
ڈبلو ڈی ڈرائیو کو
فارمیٹ کر دوں کیا
اور کچھ کلاؤڈ پر
آسماں ڈرائیو پر
سب کی سب لٹا دوں کیا
ساری پکس اُڑا دوں کیا
جو بھی ان کاعنواں ہے
نقشِ جاں ہے جاناناں
نقشِ جاں مٹا دوں کیا؟


آسماں ڈرائیو کیا
اور کُل کلاؤڈ کیا
سب کی سب لٹا دوں کیا؟
ارکئوز اڑا دوں کیا؟
بیک اپ ہی مٹا دوں کیا؟
آئی ڈی گنوا دوں کیا؟

مجھ کو لکھ کے ای میلیں
اور بھیج کر اسنیپس
یونہی بےخیالانہ جرم کر گئی ہو تم
ای میل ہیک ہونے پر، سب سے ڈر گئی ہو تم
جو بغیر سوچے ہی
میلز میں کبھی تم نے
یوں اٹیچ کر ڈالیں
جب سنیپ چیٹ آٹو
وائپ ہی سے نہ بھیجیں
پھر تو میری رائے میں، جرم ہی کیے تم نے​

Monday 30 November 2015

قصہ پھر ایک اور دن کا

8 comments
مجھے آج تک اس بات پر حیرانی ہے کہ تاریخ کون لکھتا ہے۔ کیا تاریخ اسی وقت لکھی جاتی ہے جب کوئی واقعہ رونما ہو۔ یا اس کے صدیوں بعد کوئی مؤرخ اٹھ کر آدھے سچے آدھے جھوٹے واقعات اٹھا کر اپنے تخیل کو بروئے کار لا کر تاریخ مرتب کرتا ہے۔ خیر اگر مؤرخ نے تاریخ کو بعد میں لکھنا ہے تو ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم اس کو مناسب معلومات فراہم کرتے جائیں۔ ذیلی واقعے کا مطالعہ کرنے کے بعد مؤرخ جب تاریخ لکھے گا تو چھے نومبر2015 کا دن سنہرے حروف سے لکھے گا۔ خدا کی بےنیازی کے جن مظاہر کا مشاہدہ اُس دن اِس نگاہ رندی نے کیا بلا شبہ آنے والے دنوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

مولوی اور چوہدری ہمارے ایسے دوست ہیں جن کو صرف ہم اپنا دوست نہیں کہتے ، بلکہ باقی تمام لوگ بھی انہیں ہمارا دوست سمجھتے ہیں۔ یہ دو احباب دنیا میں کس طرح جلوہ افروز ہوئے ہمیں آج تک اس پر حیرت ہے۔ شانِ نزول اس خیال کی یہ ہے کہ دونوں آخری لمحات میں بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتے ہیں۔ کیا خبر عالمِ ارواح سے جو فرشتہ ان کو دنیا لانے کے لیے مقرر ہوا تھا اسی سے کوئی ساز باز کر کے وہیں سے واپس پلٹ جاتے کہ میاں ابھی اس دنیا میں جانے کا وقت نہیں ہوا ۔ ہماری ذاتی رائے یہی ہے کہ انہوں نے فرشتے سے کہا ضرور ہوگا کہ میاں واپس لے چل، پتا نہیں دنیا میں کیسا ماحول ہو۔ مگر اس نے فرشتہ خدا نے اپنے فرائض سے کوتاہی نہ کی اور ان کو عالم ناسوت میں لا پھینکا۔

ہم دوستوں نے گھومنے کا جب بھی کوئی منصوبہ بنایا ہے چوہدری اور مولوی نے آخری لمحات میں وہ حالات پیدا کیے ہیں کہ ہم خود گھوم کر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس منصوبے کو فی الوقت عملی جامہ پہنانے سے روک دیا جائے۔ ہر منصوبے کو ڈبونے کے بعد وہ دونوں فاخرانہ انداز میں باقی احباب پر رعب جماتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تنسیخ کا فیصلہ تو تم سب کا ہی تھا۔ ہم نے تو کہا تھا کہ ہمارے بغیر چلے جاؤ۔ ہم خود کو برف مزاج بھی اسی لیے کہتے ہیں کہ ہمارے سو فیصد منصوبے انہی دونوں کی ایسی کارستانیوں کے سبب کبھی عملی طور پر آگے نہیں بڑھتے۔

گزشتہ چند دنوں سے موسم بےحد خوبصورت تھا۔ ایسے میں جب ہم دفتر کی خشکی میں دھنسے ہوتے تو کوئی دفتری ساتھی آکر بتاتا کہ آج وہ اس خوبصورت مقام پر گیا اور واللہ کیا مناظر تھے، دوسرے دن کوئی اور آکر کسی اور ہی خوبصورت و دلکش منظر کا نقشہ کھینچ رہا ہوتا تھا۔ موسم کی خوبصورتی اور احباب کی مہمیز کرنے والی داستانوں سے ہمارا برف مزاج اور " صنف بےانتہا کرخت" پر مشتمل گروپ بھی بھڑک اٹھا۔

"کل ہم کھانا پیر سوہاوہ کھائیں گے۔ " مولوی نے اپنی طرف سے حتمی انداز میں اعلان کرتے ہوئے کہا ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بقیہ برف مزاجوں نے اس کو سخت نظروں سے یوں گھورا جیسے آنکھوں سے ہی ایک آدھا برف کا تودہ اس جذباتیت پر گرا کر اس کو ٹھنڈا کرنا چاہتے ہوں۔ قریب تھا کہ محترم مولوی ان سرد نگاہوں سے گھبرا کر اپنا بیان بدل لیتے، کہ ملک صاحب ولن کے اس چھوٹے بھائی کی طرح میدان میں اترے جو ہیروئن کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہر میدان بےایمانی سے جیت رہا ہوتا ہے۔

"ہاں ہاں! زبردست تجویز مولوی۔ کل کس وقت نکلیں پھر یہاں سے۔" ملک صاحب نے اپنا بایاں انگوٹھا نئی نسل کے "Thumbs-up"والے انداز میں اٹھاتے ہوئے کہا۔ وہ ایسی حرکتیں کرتے رہتے تھے۔ بقول ان کے ، ایسی حرکات کرنے سے انسان خود کو نوجوان محسوس کرتا ہے۔ ان کا فرمانا تھا "اگر ہم ساری حرکات جوانوں والی نہیں بھی کر سکتے تو ایک آدھی جو کرسکتے ہیں وہ کر گزرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ "

"تم سب جانتے ہو کل جمعہ ہے۔" چوہدری کی مری مری سی آواز کسی کنویں سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔

"بالکل! اور یہی وجہ ہے کہ کل بعد از نماز جمعہ ہم سب دفتر سے کچھ لمحات کے لیے غائب ہو کر وہاں ضیافت اڑائیں گے۔" مولوی نے بڑے پرعزم لہجے میں کہا۔

"راقم جو ابھی مولوی کے اعلان پر حیرت کے جھٹکے سے نہیں نکلا تھا کہ یا اللہ! یہ سورج آج کدھر سے نکل آیا"نے بھی احباب کے جارحانہ عزائم دیکھتے ہوئے بلامشروط حمایت کا اعلان کر دیا جبکہ اس گفتگو کے دوران شاہ جی ایک طرف ٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھے سب کی طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے ان کا ہم سے کسی سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ ان کو کوئی شخص اپنے واپس آنے تک بیٹھے رہنے کا کہہ کر چھوڑ گیا ہے۔ یوں تو ہم جانتے تھے کہ مولوی اور چوہدری کسی بھی منصوبے کو آخری لمحات میں تباہ کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں، اس کے باوجود نجانے کیوں ہم پھر وہی دھوکا دوبارہ کھانے پر تیار ہوگئے ۔

چھے نومبر کی صبح بلاشبہ ایک خوبصورت صبح تھی۔ صبح فجر سے پہلے ہلکی ہلکی پھوار نے سڑکوں اور درختوں کو دھو دیا تھا۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا برف مزاجوں کے مزاج کے لیے آتش کا کام کر رہی تھی۔ دفتر پہنچنے پر پتا چلا کہ آج تو ہماری ٹیم کا نیم سرکاری ظہرانہ ہے۔ احباب کے علم میں یہ بات لانے پر مشاورت سے طے پایا کہ ہم یعنی راقم اپنی ٹیم کے ساتھ ظہرانے پر جائیں گے جبکہ باقی برف مزاج اپنے اس گرم منصوبے کو ہمارے بغیر ہی پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

ہمیں اس منصوبے سے باہر ہونے کا دلی قلق تھا۔ جمعہ کی نماز پڑھنے ہم اکھٹے مسجد تک گئے۔ راہ میں بھی مولوی اور شاہ جی راقم کے سامنے چشم تصور سے آنے والے پرکیف لمحات کا نقشہ کھینچتے رہے۔ اور اِدھر ہم اس سوچ میں گم تھے کہ آج اگر خدا خدا کر کے یہ گلیشئر پگھلا ہے تو حیف کہ ہم اس کا حصہ نہیں۔ نماز کے بعد راقم اپنی راہ ہو لیا اور بقیہ احباب اپنی راہ۔

ظہرانے سے واپسی جلد ہوگئی۔ راقم القصہ کا خیال تھا کہ برف مزاج ابھی واپس نہ آئے ہوں گے سو یوں ہی چائے کا کپ بھرنے کو کیفے کی طرف قدم اٹھا لیے۔ جوں ہی کیفے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سرد مزاجوں کا مکمل گروہ اپنی اصل حالت میں ایک میز کے گرد جمع کسی گرم کھانے سے انصاف کر رہا ہے۔ یا مظاہر للعجائب ! کہاں پیر سوہاوہ کے قریب ایک وادی اور کہاں کیفے کی وہی میز جس پر ایک وادی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ہم حیرت زدہ رہ گئے مگر کھانے کے دوران ان سب کو تنگ کرنا مناسب خیال نہ کیا۔

کچھ دیر بعد ہماری شاہ جی سے ملاقات ہوئی اور ہم نے آج کے اس سنہرے واقعے کے متعلق ہماری گفتگو کچھ یوں رہی ۔

راقم: شاہ جی کیسا رہا دن؟ سنا ہے بہت پھرتے رہیں ہیں آپ؟

شاہ جی: ہاہاہاہاااا! جی پورا کیفے چھان مارا ہے۔ آپ کو پتا ہے کیفے کا سب سے بلند مقام کون سا ہے؟

راقم: اتنی معلومات ہمارے پاس ہوتیں تو لوگ ہمیں کیفے میں بطور گائیڈ نہ رکھ لیتے۔ آپ ہی بتائیے؟

شاہ جی: آپ کی یہی اچھی بات ہے کہ آپ اپنی کم علمی کو کار شرمندگی نہیں سمجھتے اور کھل کر پوچھ لیتے ہیں۔ کیفے کا بلند ترین مقام وہ ہے جو آج دوپہر کا کھانا کھانے کے دوران ہم سے بالکل مختلف سمت میں تھا۔ جہاں ہم بیٹھے تھے، وہ وادی کا حصہ تھا۔

راقم: اوہ۔۔۔۔ میں سمجھ گیا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں پر ایک میز پڑی ہے جس پر ٹرک بنا ہوا ہے۔

شاہ جی: اب اتنے کھلے اشاروں کے بعد بھی آپ نہ سمجھتے تو میں آپ کی عقل کے حضور سات فرشی سلام کرنے ہی والا تھا۔

راقم: لیکن وہ جو صحرا مارگلہ ہلز (اسلام آباد) کے اوپر واقع ہے۔ وہاں کیوں نہیں گئے؟ کیا بادلوں کے پیچھے سے سورج کی تمازت نے درجہ حرارت اتنا بڑھا دیا تھا کہ ماؤں کے لعلوں کو رنگ سیاہ ہونے کا خطرہ ہو گیا تھا؟

شاہ جی: ہمارے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ آہ! آپ مدتوں سے چوہدری کے ساتھ منصوبے بنا رہے ہیں۔ اب اس سوال کو آپ کی سادہ دلی سمجھوں یا تجاہل عارفانہ؟

راقم: حیرت سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے۔ کیا آج کا منصوبہ بھی چوہدری ہی کی وجہ سے اسی قبرستان پہنچا جہاں پرانے منصوبے دفن ہیں؟

شاہ جی: نہیں۔ چوہدری صرف پچاس فیصد کا ذمہ دار ہے۔ بقیہ پچاس فیصد کی ذمہ داری ابھی مولوی نے قبول نہیں کی۔

راقم: آخر آپ بتلا کیوں نہیں دیتے کہ ایسا کیا معاملہ ہوا کہ آپ دوست آج بھی صرف چشم تصور کے آسرے پر رہ گئے۔

شاہ جی: ایک مجنوں آوارہ کی طرح سینے پر دو ہتھڑ رسید کر کے! سن اے انسان سن! اگر تیرے کانوں میں ہمت ہے تو سن۔ نمازِ جمعہ تک سب منصوبہ یہی تھا کہ کھانا پیر سوہاوہ (مارگلہ ہلز اسلام آباد) جا کر کھایا جائے گا۔ وہاں واقع وادی میں چشمے کنارے بیٹھا جائے گا۔ چوہدری کے ذمے کھانا خریدنا تھا۔ جب نماز کے بعد ہم باہر نکلے تو صرف مکئی کے دانے بیچنے والا اپنی ریڑھی کے ساتھ کھڑا تھا۔ ہم نے تلاشِ چوہدری میں سڑک کے دونوں طرف دیکھا۔ لیکن نگاہ نامراد لوٹ آئی۔ قریب تھا کہ انتظامیہ مسجد کے دروازے کو بھی تالا لگا دیتی۔ میں نے مولوی سے درخواست کی۔ جناب مولوی! باہر جانے کا منصوبے پر تو عالم نزع طاری ہے۔ اگر آپ کے موبائل شریف میں دمِ روپیہ ہے۔ تو ذرا اس چوہدری کو فون ملا کر پوچھیے تو سہی کہ "مانع وحشت خرامی ہائے لیلی کون ہے"۔ مولوی نے ایک نظر مجھے غور سے دیکھا۔ اور پھر کہا۔ "لیلیٰ کہنے پر وہ برا ہی نہ منا جائے۔" میں نے کہا، لیلیٰ کی جگہ چوہدری کر دو۔ مولوی نے فون کال ملائی اور پوچھا کہ بھئی کدھر ہو۔ تمہاری دید کو اکھیاں ترسے ہیں۔ میاں اجل رہ گئی کہاں آتے آتے۔ اس پر چوہدری (اپنی اردو سے کم شناسائی کے سبب)غصہ میں آگئے اور فرمانے لگے ؛ تو خود ہوگا اجل، ابھی تو میں گھر بیٹھا ہوں۔ یہاں سے فارغ ہوا تو آؤں گا۔ اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ یہ بات ان کے درمیان پہلے سے طے تھی یار پھر مولوی نے تاریخی غلطی کر دی اور کہا کہ ٹھیک ہے تم دفتر آؤ کھانا ہم لیتے آئیں گے۔ جبکہ کہنا یہ تھا کہ آتے ہوئے کھانا لیتے آنا۔ چوہدری جس کو کل سے ہر آدمی نے کہا تھا کہ کھانا تیرے ذمے ہے بھول نہ جانا۔ اس نے ایک بار بھی تصحیح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم دفتر پہنچ گئے۔ اور چوہدری بھی خالی پیٹ لٹکائے دفتر پہنچ گیا۔ جانا تو دور کی بات، اِدھر کھانا بھی ڈوبتا نظر آرہا تھا۔ منت سماجت کر کے ملک صاحب سے کھانا منگوایا۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ ملک صاحب سے کوئی کام کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مارگلہ ہلز کی چوٹی تو سر نہ ہوئی لیکن ملک صاحب کے سر ہو کر ہم کھانا منگوانے میں کامیاب ہوگئے اور وہی وادی کی تصویر والی میز کے گرد بیٹھ کر کھا لیا۔

اس پر ہمارے حلق سے فلک شگاف قہقہہ نکلا۔ چوہدری اور مولوی نے ایک بار پھر بنے بنائے پروگرام سے وہی سلوک کیا تھا جو اس ملک کے سیاسی رہنما عشروں سے عوام کے ساتھ کر رہے ہیں۔ لیکن اس دل کا کیا کریں کہ جب بھی کوئی منصوبہ ترتیب دیتے ہیں ۔ پھر سے چوہدری اور مولوی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں دیکھو میاں! اس بار اگر تم نے آخری لمحات میں اس منصوبے میں زہر گھولا تو آئندہ تم سے کوئی بات نہ کریں گے۔ اور وہ دونوں وہی میسنی سی ہنسی ہنس کر اکھٹے کہنے لگتے ہیں۔ ایسا بھی کبھی ہوا کہ تم نے کوئی منصوبہ ترتیب دیا ہو اور ہم نے پہلے قدم پر ہی تمہیں منع کر دیا ہو۔

Tuesday 3 November 2015

سامنے دھری

5 comments
بزرگ فرماتے ہیں کہ چھپی ہوئی تو سب ڈھونڈ لیتے ہیں۔ سامنے دھری اکثر نظر نہیں آتی۔ اس بات پر ہم بہت ہنسا کرتے تھے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی، "سامنے دھری نظر نہ آئے"، اندھے کو نظر نہ آتی ہو تو اور بات ہے۔ لیکن زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہم نے محسوس کیا کہ یہ بات کچھ ایسی بےمعنی نہیں۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ہم بےاختیار پکار اٹھتے۔ "اوہ! یہ پہلے کیوں نہ دیکھا۔ سامنے کی بات تھی۔" کبھی دل سے آواز آتی۔ "خاموش! اب سب کے سامنے اس بات کا تذکرہ کر کے خود کی عزت نہ کروا لینا۔ یہ تو کسی اندھے کو بھی نظر آجاتی۔"  زندگی ایسے کتنے ہی واقعات سے عبارت ہوتی چلی گئی جس میں ہم نے سامنے دھری کو کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا اور بعد میں خود کو ہی ہلکی سے چپت لگا کر سرزنش کر لی۔ اور کبھی  دائیں بائیں دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ کسی کو ہماری حماقت کا احساس تو نہیں ہوگیا۔ ایسے واقعات کے چند دن بعد تک ہمیں جو شخص مسکرا کر ملتا تو ہمارے دل  سے بےاختیار آواز آتی۔ " لگتا ہے اس کو ہماری حماقت کا پتا چل گیا  ہے۔  اسی لیے مسکرا رہا تھا۔ " اور کتنے ہی دن ہم اس مسکراہٹ میں طنز کا شائبہ ڈھونڈتے رہتے ۔  ایسے ہی لاتعداد واقعات میں سے ایک واقعہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

ملازمت کے دوران آٹو میٹڈ سسٹم میں ایک عجیب مسئلہ آگیا۔ دورانِ کوڈ کمپائلیشن اگر کوئی مسئلہ آجاتا تو ہمارے لکھے سکرپٹ  ای میل کرنے کی بجائے اجازت نامے کا رقعہ ہاتھ میں تھامے اس وقت تک انتظار کرتے رہتے تھے جب تک ہم آکر ان پر ماؤس کلک رنجہ نہ فرما دیتے۔  اس مسئلے کی وجہ سے روزانہ کا کام متاثر ہو رہا تھا۔ ٹیسٹنگ ٹیم انتظار میں رہتی کہ کب  ہم جناب دفتر میں قدم رکھیں اور اجازت نامے کو سرفراز فرمائیں۔ دفتر میں کچھ مصروفیات بھی ایسی تھیں کہ اس طرف مکمل توجہ کرنے سے قاصر تھے۔ نیٹ ورک ٹیم اور ٹیکنالوجی سپورٹ ٹیم کے لوگوں سے استدعا کی کہ کہ ہم نے اس سارے سسٹم میں مدتوں سے کوئی تبدیلی نہیں کی لہذا   کسی ونڈوز اپگریڈ کی وجہ سے یہ مسئلہ آنا شروع ہوگیا ہے  ۔ وہ بھی اپنے حصے کا سر پٹک چکے۔ سرور مشین ری سٹارٹ کر کر کے بھی معاملہ نہ سلجھا۔ وہ اطلاقیہ جس سے ہم ای میلز بھیجتے تھے۔ اس کی تنصیب کاری بھی دوبارہ کر لی لیکن  وہی  ڈھاک کے تین پات۔  ہم نے سرور کو  اپڈیٹس والی فہرست سے نکلوا دیا۔ تاکہکوئی اپڈیٹ  مزید معاملہ خراب نہ کردے اور  اس مسئلے کو مصروفیات کے اختتام پذیر ہونے تک  نہ کرنے والے کاموں کی فہرست کے حوالے کر دیا۔  متبادل حل کے طور پر کرنا یہ شروع کیا کہ بعد از نماز فجر گھر سے ہی مشین کنیکٹ کر کے دیکھ لیتے۔ اگر سکرپٹس اجازت نامے کے  منتظر ہوتے تو ہم اجازت  دے کر خود کو کوئی سرکاری افسر سمجھ لیتے۔ دن گزرتے رہے ہم نے اس مشق کو جاری رکھا۔ کمرشل ریلیز ہوجانے کے بعد جب ہماری مصروفیات میں خاطر خواہ کمی آگئی تو ہم نے سوچا کہ اب اس معاملے کو بھی سلجھا لینا چاہیے۔ 

ایک بار پھر نئے جذبے سے ہم  نے آغاز کیا۔ سب سے پہلے گزشتہ مہینوں میں آنے والی تمام اپڈیٹس کی تفصیلات پڑھیں۔ اطلاقیہ دوبارہ انسٹال کیا۔ جب اس کو چلانے کی خاطر رن کرنے لگے تو ایکا ایکی خیال آیا کہ کیوں نہ  "Elevated Privileges" کے ساتھ چلایا جائے۔ سو فوراً  بطور ایڈمنسٹریٹر چلایا۔ مسئلہ سلجھ چکا تھا۔ اگرچہ ہم اس بھید سے بخوبی آشنا تھے کہ  مائیکروسافٹ  آپریٹنگ سسٹم بھی پاکستانی معاشرت کی طرح افسر شاہی کا شکار ہے  لیکن اس کے باوجود یہ سامنے دھری ہم کو مہینوں تک نظر نہ آئی۔ 

Wednesday 30 September 2015

تماشائی

6 comments
چند دن پہلے کی بات ہے  شہر سے باہر جاتی سڑک پر  ایک کار سے کتا ٹکر گیا۔کار والا بغیررکے نکلتا چلا گیا۔  کتا شدید زخمی حالت میں سڑک پر کراہ رہا تھا۔  ہم  جائے حادثہ سے کچھ فاصلے پر تھے۔ قبل اس کے ہم کتے تک پہنچتے۔ دو لڑکے موٹر سائیکل پر اس کے پاس رکے۔ جیب سے موبائل نکالا  اور مرتے کتے کی ویڈیو بنانے لگے۔ ایک آدھے منٹ کی ویڈیو بنانے کے بعد وہ دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھے اور یہ جا وہ جا۔ ہم  کتے کے پاس پہنچے تو وہ مر چکا تھا۔ میں نے اور میرے دو ست نے کتے کو گھسیٹ کر ایک طرف کیا۔ دو چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کی مدد سے  ایک گڑھا کھودا۔  اس میں کتے کو دفنا کر ہم دونوں پاس کے کھال پر بیٹھ کر ہاتھ پاؤں دھونے لگے۔ بات کچھ  ایسی  خاص نہ تھی کہ ذہن سے چپک جاتی۔

اس واقعے کے ایک یا دو دن بعد ایک واقف کار سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں معاشرے میں بڑھتی بےحسی  بھی زیرِ موضوع آگئی۔ ان کا فرمانا تھا کہ لوگ اب ظالم ہوگئے ہیں۔ ان کے اندر انسانیت نام کو نہیں رہی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جیب سے موبائل نکالا۔ اور واٹس ایپ پر مجھے ایک مرتے کتے کی ویڈیو دکھانے لگے۔ کتا تکلیف سے آوازیں نکال رہا تھا۔ اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ ہل سکتا۔ رفتہ رفتہ اس کی آوازیں مدہم ہوتی چلی گئیں۔ یہ ویڈیو ایک منٹ کی بھی نہ تھی۔ 

"دیکھا آپ نے جنااااب!"  انہوں نے مجھے سوچ میں گم پا کر کہا۔" کیسے وہ ظالم کار والا اس کو ٹکر مار کر نکلتا بنا۔ اس نے رکنے کی بھی زحمت نہیں کی۔"

"آپ کو کس نے بتایا کہ اس کو کار نے ٹکر ماری ہے؟" اگرچہ میں اس سوال کا جواب جانتا تھا لیکن پھر بھی  پتا نہیں کیوں میں نے پوچھ لیا۔ 

"میرے چھوٹے بھائی نے مجھے بتایا ہے۔ یہ ویڈیو اسی نے بنائی ہے۔" انہوں نے فخریہ انداز میں جواب دیا۔

"کار والے نے جان بوجھ کر ٹکر نہیں ماری تھی۔ کتے اکثر سڑک پر گاڑیوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ میں نے اسلام آباد میں خنزیروں کو بھی گاڑیوں سے ٹکرا کر مرتے دیکھا ہے۔ لیکن میری نظر میں زیادہ بےحس وہ لڑکے تھے  جو وہاں مرتے کتے کی ویڈیو بناتے رہے۔ اور مرنے کے بعد اس کی لاش  کو سڑک کے ایک طرف بھی نہ کیا اور اپنی راہ لیتے بنے۔ " میں نے اپنی سوچ ان کے سامنے بیان کرنے کی حماقت کردی۔

اوہ جاؤ  بھئی! انہوں نے انتہائی ترش لہجے میں کہا۔ لیکن اس کے آگے وہ کچھ بول نہیں پائے چند ثانیے بعد اٹھ کر چل دیے۔  مجھے   خدا حافظ کہنے کی زحمت بھی نہیں کی۔

اکثر سوشل میڈیا چینلز جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل پلس وغیرہ پر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ  "دیکھیں اصل چہرہ"، "یہ ہیں ہمارے معاشرے کے مکروہ چہرے "، "انسانیت کے نام پر دھبہ"  یا ان سے ملتے جلتے عنوانات کے ساتھ ویڈیوز شئیر کرتے ہیں۔ ان ویڈیوز میں عموماً بااثر افراد اپنے ملازمین یا دست نگر لوگوں پر ظلم و تشدد کرتے پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ویڈیو بنانے والے میں اتنا دم تو ہے کہ وہ اس کو یوٹیوب، فیس بک و دیگر چینلز پر اپلوڈ کر سکتا ہے۔ لیکن ویڈیو بنانے کے دوران وہ کبھی بھی کسی معاملے میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ چاہے کتنے ہی ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں۔ مظلوم مرتا مر جائے۔ لیکن اس ویڈیو بنانے والے کے ہاتھ نہیں کانپتے۔ دوران ویڈیو کیمرہ کی ہلکی سی لرزش بھی نظر نہیں آتی۔ وہ کبھی مظلوم کی داد رسی کی کوشش نہیں کرتا۔  کوشش تو ایک طرف پوری ویڈیو میں  اس کی طرف سے شاید ہی کوئی لفظ بھی اس کے خلاف نکلتا ہو۔ مزید  مشاہدہ یہ بھی ہے کہ یہ ویڈیوز چھپ کر نہیں بنائی جاتیں۔ کیوں کہ زیادہ تر ایسی ویڈیوز میں  کیمرے کا زاویہ ایک نہیں ہوتا۔ ہر زوایے سے گھوم پھر مظلوموں کی آہ و بکا ریکارڈ کی جاتی ہے۔ تاکہ وہ پتھر دل جو فیس بک، یوٹیوب یا ایسے دیگر چینلز پر اس ویڈیو کو دیکھیں۔ ان کے دل پگھل جائیں۔ اور وہ بھی عملی طور پر لعن طعن کرکے ایک صحت مندذہن رکھنے  کا ثبوت دے سکیں۔  کیا "خود نمائی" اور "لائکس" کے چکر میں ہم انسانیت کی بنیادی اقدار بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ 

بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر آگ کا درخت ہوتا تو شعلہ اس کا پھل ہوتا  ۔  "ظلم کی توفیق ہے ہر ظالم کی وراثت" کے مصداق ہر ظالم ظلم میں تو مصروف ہے۔ لیکن یہ جو بالکل ایک نئی طرز کی نسل دریافت ہوئی ہے۔ یہ کن میں شمار ہوتی ہے۔ یہ جو ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کر کے درد سمیٹتے ہیں۔ یہ کس کے طرفدار ہیں۔ ظالم کے یا مظلوم کے؟  میرا ذاتی خیال ہے کہ اب یہاں پر ایک تیسری درجہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔ 

Saturday 26 September 2015

ذرا سی بات تھی۔۔۔۔۔

4 comments
ہمیں یاد نہیں کہ آخری بار ہم نے کب اور کس عید کی آمد پر "ہرّا! عید آگئی۔۔۔۔ " قسم کا نعرہ مارا تھا۔ نیا جوتا پہن کر مسجد جانے کی رسم بھی ایک عقیدت مند نے چھڑوا دی تھی۔ گو کہ ہم سید نہیں لیکن جوتوں سے کس کو پتا چلتا ہے۔ واللہ اس کی نیت بری نہ رہی ہوگی۔ جذبات و عقیدت کے بہتے دھارے نے مہلت ہی نہ دی ہوگی کہ رک کر کھرا کھوٹا سمجھتا۔ ہائے لوٹا گیا ظالم۔۔۔ صحیح جوتی کی تلاش میں نجانے کتنی الماریاں بھر دیں ہوں گی۔ شاید اب مایوس ہوگیا ہوگا۔ اللہ اس کے دل کی مراد بر لائے۔ لیکن اس کی عقیدت مندی کی بدولت جو ہم پتھروں پر چل کے گھر آئے تو اپنے گھر کے بارے میں صحیح معنوں میں یہ بات سمجھ میں آئی۔

"انہی پتھروں پہ چل کے آسکو تو آؤ"

لہذا ایک پرانی خدمتگار جوتی جو خطا معاف ہونے کی امید لیے آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اس کو اسی کام کے لیے رکھ چھوڑا۔ ہر عید مسجد وہی پہن کر جانی شروع کر دی۔ جہاں اتارتے تھے۔ وہیں واپسی پر اسے منتظر پاتے۔ سوائے ایک بار کے جب ایک گستاخ نے برستی بارش سے بچنے کے لیے اس کے اوپر اپنی جوتی رکھ دی تھی۔ اس کی اس گستاخی سے دل میں ایسا طوفان اٹھا کہ جب تک اس جوتی کو نیچے رکھ کر اس کے اوپر دو چھلانگیں نہیں لگائیں۔ اور اس کو اچھی طرح مٹی اور گارے میں نہلا نہیں دیا۔ سکون نہ ملا۔

نئے کپڑے پہن کر عیدنماز پر جانے کی رسم البتہ ہنوز قائم ہے اور قائم رہے گی جب تک کوئی عقیدت مند ہمارے اس فضول رسم سے چھٹکارے کا بندوبست نہیں کرتا۔ شادی سے قبل ہم نئے کپڑوں میں ہی آکر دراز ہوجایا کرتے تھے۔ یہ دراز و نیم درازی کی کیفیت عشاء کے بعد رات کو سونے کی دعا پڑھنے پر ختم ہوا کرتی تھی۔ لیکن شادی کے بعد ہمارے اس مزاج میں ایک تبدیلی آگئی اور ہم عید نماز کے بعد کپڑے بدل کر دراز ہونے لگے۔ کیوں کہ امیر خانگی امور کا یہ فرمانا تھا کہ "جب لیٹنا ہی ہے تو نئے کپڑے برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔" البتہ باقی معمولات میں کچھ تغیر نہیں آیا۔

عید کے روز ہمارا زیادہ تر وقت بستر پر گزرتا ہے۔ زیادہ تر کا لفظ اس لیے کہ ہمارے سربراہان مملکت ِ خاندان ہنوز طرز کہن پر پرواز کر رہے ہیں اور لیٹ کر کھانے پینے کو سخت معیوب سمجھتے ہیں۔ کسی مہمان کی غیر متوقع آمد پر کبھی اس کے ساتھ بیٹھنا پڑ جاتا تو ہماری حالت یہ ہوتی تھی کہ تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر تھوڑا سا دراز ہوتے ہوتے بالکل لیٹ گئے۔ان حرکتوں کی وجہ سے کئی بار ہمیں آداب محفل پر طویل درس سننے پڑے تھے ۔لیکن اس بار بات بڑھ گئی اور دشمنوں کو ہمارے خلاف زہر اگلنے کا موقع مل گیا۔

ہوا یوں کہ عید نماز سے واپسی پر ہم سب سے چھپتے چھپاتے گھر پہنچے۔ دیکھا تو ٹی وی کے سامنے ایک بستر لگا ہوا تھا۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ ہمارا ہی منتظر تھا۔ ہم نے فوراً ٹی وی کے ریموٹ اور بستر پر قبضہ کر لیا۔

ابھی مؤذن نے دوپہر کا اعلان نہ کیا تھا کہ ایک عزیز عید ملنے آن پہنچے۔ عید ملنے کے بعد وہ ہمارے سامنے رکھے ایک صوفے پر تشریف فرما ہوگئے۔ اور ہمارا حوصلہ دیکھیے کہ ہم بغیر کسی سہارے کے بستر پر سیدھے بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر گزری کہ ہمیں خیال آیا اگر ہم تکیے کو موڑ کر گاؤ تکیے کی شکل دے لیں تو یقیناً آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان محترم سے گفتگو بھی جاری تھی۔ ابھی اس تکیے کے سہارے بیٹھے ہمیں زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ محسوس ہوا تکیہ اس انداز میں دہرا کیے جانے پر نوحہ کناں ہے۔ سو ہم نے اس کی مشکل آسان کرتے ہوئے اس کو اور خود کو سیدھا کر لیا۔ یہاں اس بات کی تکرار ضروری ہے کہ گفتگو جاری تھی اور شرکاء کی تعداد بڑھ رہی تھی۔

کچھ دیر بعد ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے کمرے میں اندھیرا ہوگیا ہے۔ ہم نے اس اندھیرے کو غیبی مدد سمجھتے ہوئے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کی تو ناکامی کا سامنا کرنے پر اندھیرے کا راز منکشف ہوگیا۔ ہم نے خود کو ٹی وی کی طرف یوں متوجہ کر لیا جیسے وہاں کوئی بہت ضروری چیز چل رہی تھی او رپھر بہانے سے کمرے میں موجود شرکاء کی گفتگو میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن گفتگو آگے نکل چکی تھی۔ اب یہ شغل سا بن گیا۔ ہم ٹی وی کی طرف رخ کرتے تو کمرے میں اندھیرا ہو جاتا اور پھر کمرے میں جاری گفتگو کی طرف رخ کرتے تو کچھ سمجھ نہ آتا۔ اب کی بار جو ٹی وی کی طرف رخ کیا تو اندھیرا بہت گہرا ہوگیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے اندھیرے میں کوئی ہم سے ہاتھ ملا رہا ہے۔ یا حیرت! جب ہم نےکمرہ روشن ہونے پر واپس شرکاء کی طرف دیکھا تو وہاں اس عزیز کے علاوہ سب لوگ موجود تھے۔

"ہیں! یہ کدھر چلے گئے۔" اس سوال کے ساتھ ہی ہمیں احساس ہوگیا کہ یہ پوچھے جانے والی بات نہ تھی لیکن ہمارے دشمنوں کو ہماری جگ ہنسائی کا موقع مل چکا تھا۔ 

Thursday 3 September 2015

ایک پرانی یاد (ماضی کے جھروکوں سے)

3 comments
راقم القصہ لاہور میں اپنے ۴ دوستوں سمیت اک کرائے کے فلیٹ پر رہتا تھا۔ ان دوستوں کیساتھ میں کوئی ۲۰۰۰ سے لیکر ۲۰۱۱ تک رہا ہوں۔ بے تکلف تو تھے ہی پر شرارتی بھی بہت تھے۔ یہ جو واقعہ ہے میں سنانے جا رہا ہوں کوئی ۲۰۰۳ کا ہوگا۔ کوئی بھی اس میں عبرت یا سبق تلاش کرنے کی غرض سے پڑھ رہا ہے تو یہی سے واپس ہو جائے کیوں کہ عبرت انگیز واقعات میرے ساتھ آج تک پیش نہیں آئے۔ 
لگے ہاتھوں اپنے دوستوں کا تعارف بھی کروا دیتا ہوں کہ واقعے میں آپ کو لطف آئے۔ اور سیاق و سباق سے آگاہی ہو۔ میں یعنی کہ میں اور میرے علاوہ ہمی، ماسٹر، شاہ جی اور نمو۔ جس فلیٹ میں ان دنوں آستانہ تھا وہ دو دکانوں پر بنا تھا۔ وہ دکانیں کمہاروں کی تھیں اور انکا مٹی کے برتنوں کا خاصہ بڑا کاروبار تھا۔ اوپر بھی اک فلیٹ تھا جو کہ ٹی-وی لائسنس بنانے والے انسپکٹر کے پاس تھا۔انکا نام تو سرفراز تھا۔ پر ہم انہیں وڈے شاہ جی کہتے تھے۔ کیوں کہ شاہ جی کے لقب پر ہمارے اک دوست کا قبضہ تھا۔ وڈے شاہ جی اسوقت کوئی ۵۰ کے قریب ہونگے عمر میں، اور انتہائی خوش مزاج آدمی تھے۔ ہمارا آستانہ ۲کمروں اور اک لاونج پر مشتمل تھا۔ لاونج اتنا کہ ۵آدمی اکھٹے کھڑے ہو جائیں۔ باقی دونوں کمروں میں ہم نے کارپٹ بچھا رکھا تھا۔ پر سوتے ہم اک کمرے میں تھے اور دوسرے میں ہم نے سارا سامان جمع کر رکھا تھا جو کسی کباڑ کا منظر پیش کرتا تھا۔ اب آتے ہیں قصے کی طرف
گرمیوں کی اک رات کا ذکر ہے۔ کوئی ڈھائی کے قریب کا وقت ہوگا۔ میں بےخبر سویا پڑا تھا۔ کہ مجھے احساس ہوا کسی نے میری قمیض میں برف ڈال دی ہے۔ ہڑ بڑا کر اٹھا تو دیکھا کہ ہمی نامی مخلوق کمپیوٹر پر بیٹھی الہ دین کھیل رہی ہے۔ ساتھ ہی بیرونی دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ دیکھا کہ ماسٹر لاونج میں کھڑا ہنس رہا ہے۔میں خاموشی سے واش روم میں گیا۔ وہاں سے اک جگ پانی بھرا اور لا کر ماسٹر پر الٹا دیا۔ ماسٹر نے کہا کہ برف تم پر نمو نے ڈالی ہے۔ اور اسکے بعد وہ اور شاہ جی باہر بھاگ گئے ہیں۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تو وہ دونوں فلیٹ کے نیچے کھڑے تھے۔ میں اک بالٹی پانی بھر کر لایا اور ان دونوں کے سروں پر الٹا دی۔ وہ دونوں بھی اوپر آگئے اور پانی کی جنگ شروع ہو گئی۔ہمی مطمئن ویڈیو گیم کھیلتا رہا۔ یہ ہم سے برداشت نہ ہوا اور ہم چاروں نے ملکر اسے اٹھایا اور لاونج میں لا کر خوب پانی اس پر پھینکا۔ صبح ۴بجے تک یہی تماشہ چلتا رہا۔ پانی ہماری سیڑھیوں سے بہتا ہوا نیچے کمہاروں کی دکان کے باہر جمع ہوگیا۔ جس سے ان کے باہر پڑے برتن خراب ہو گئے۔ پر ہم ان تمام باتوں سے بے خبر تھک کر میٹھی نیند سو گئے، جس میں روزگار کا کوئی غم نہ تھا۔ 
مجھے صبح اٹھنے کی بیماری ہے اور اٹھتے ہی چائے پینے کی۔ میں ۹ بجے کے قریب دوسری بار اپنے لیئے چائے بنا رہا تھا کہ دروازہ کسی نے یوں پیٹا جیسے توڑ ڈالے گا۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے کمہاروں کا سردار یعنی کے گرو کمہار کو کھڑا پایا۔ انتہائی اکھڑ لہجے میں اس نے پوچھا۔
"اوئے بالکے۔ شاہ جی کتھے نیں" اب اسکی مراد وڈے شاہ جی سے تھی۔
میں نے تقریباً اسی انداز میں جواب دیا 
"مینوں کی پتہ۔ میں کوئی اناں دا ملازم آں"
اور ٹھاہ دروازہ بند کر دیا۔ خوشی ہوئی کہ کیسا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ کہ دروازہ اسی انداز میں پھر کھڑکا۔ اب میں نے منہ پر انتہائی غصہ لا کر دروازہ کھولا اور اس سے پہلے وہ کچھ بولتا کہا۔ ہن کی ائے۔ اس نے بھی اپنی ہٹ نہ چھوڑی اور اسی انداز میں بیان داغا کہ 
"جداں ای شاہ جی آن۔ اناں نوں کئیں کی مینوں ملن" (جیسے ہی شاہ جی آئیں ان کو کہنا مجھ سے ملیں۔)
میں نے کہا اچھا۔
کوئی آدھے گھنٹے کے بعد دروازے پر بڑی نرم سی دستک ہوئی۔ میں نے دروازی کھولا تو وڈے شاہ جی تھے۔ پسینے میں ڈوبے ہوئے۔ پیشانی پر سلوٹیں۔ میں نے کہا شاہ جی اند ر تشریف لائیں اور چائے کا پوچھا۔ ان نے عجب بے بسی سے میری طرف دیکھا اور کہا ہاں بیٹا۔ ہم دونوں چائے بنا کر اپنے کباڑ روم میں آگئے۔ تھوڑی دیر بعدوڈے شاہ جی نے ڈرتے ہوئے انداز میں پوچھا۔ نین بیٹا۔ رات کو سیڑھیاں دھوتے رہے ہو۔ میں یہ سنکر بڑا خوش ہوا اور ذوق و شوق سے رات کی کارستانی سنانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد نوٹس کیاکہ وڈے شاہ جی اس قصے سے لطف اندوز نہیں ہو رہے تو کہا شاہ جی خیر اے۔ میں سمجھا کہ اس شور ہنگامے سے انکی نیند خراب ہوئی ہے۔ اور انکو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اپنے تئیں میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ شاہ جی آئندہ ہم ایسے شور ہنگامہ برپا نہ کریں گے۔ اس پر شاہ جی تڑپ کر بولے۔ نہ یار تم جو مرضی کرو۔ بس مجھے بتا دیا کرو۔ اور پھر انہوں نے مجھے کمہاروں نے جو ان سے سلوک کیا وہ سنایا۔ کہنے لگے بیٹا انہوں نے میری عمر کا لحاظ کیا۔ ورنہ توآج میں اک آدھی بازو کے بغیر آتا۔ 
کمہار اصل میں یہ سمجھے کہ پانی شاہ جی کیطرف سے آ یا ہے۔ بیوقوف اگر سیڑھیاں ہی دیکھ لیتے تو جان جاتے۔ آج بھی ہم سوچتے ہیں کہ شاہ جی اگر ہمارا نام لے دیتے تو سامان کے ساتھ ہم تو سڑک پر ہوتے ہی پر جو دھنائی ہوتی وہ الگ۔

یہ عرصہ قبل اردو محفل پر لکھی تھی۔ آج یاد آنے پر ادھر بھی پیش کر دی۔ 

Thursday 30 July 2015

کون اب پیار سے پوچھے گا، میاں کیسے ہو!

9 comments
اکادمی ادبیات میں شاکر القادری صاحب کے اعزاز میں دی گئی تقریب میں تلمیذ سر سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد فون پر رابطہ رہنے لگا۔ پنجابی کے حوالے سے مجھے جب بھی کسی مشکل کا سامنا ہوتا۔ میں فوراً اصغر صاحب سے رابطہ کرتا۔ اکثر فون آتا تو سلام کے بعد ان کے مخصوص انداز میں یہی جملہ ہوتا۔ "نین صااب کیہ حال نیں۔ عشبہ کیسی اے؟" پھر محمد زین العابدین کی پیدائش کے بعد اس کو بھی کبھی نہیں بھولے۔ گزشتہ تین سالوں میں مہینے میں کم سے کم بھی دو بار تو لازماً ان سے بات ہوا کرتی تھی۔

ایک بار کچھ عرصہ گزرا اور ان کا فون نہ آیا۔ مجھے کسی سبب سے پتا چلا کہ آنکھ کا آپریشن ہوا ہے۔ میں نے جب فون پر گلہ کیا تو ہنسنے لگ پڑے۔ کہتے "اوہ یار بس اے معاملات تے چلدے ای رہندے نیں۔ " جبکہ خود ہر وقت دوسروں کا خیال رکھتے۔ ایک دن مجھے فون کر کے کہنے لگے کہ آپ کی عاطف بٹ سے کتنا عرصہ ہوا بات نہیں ہوئی۔ میں نے عرض کیا سر، کافی عرصہ ہوگیا۔ بتانے لگے ، اس کا بیٹا بیمار ہے اور ہسپتال داخل ہے۔ ایک دوسرے کےحالات پوچھتے رہا کرو۔

اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قلم کی مشقت کو نہ چھوڑا اور کام کو جاری رکھا۔ کبھی برائی کی بات پر توجہ نہیں کی۔ ان سے کتنی ہی ملاقاتوں میں کبھی ان کے منہ سے کسی کی برائی نہیں سنی۔ ہمیشہ کسی کی مثبت بات کی تعریف کرتے ہی دیکھا۔ صاحب علم لوگوں کی قدر کرتے۔ اور خود بھی اس قدر علمی شخصیت ہونے کے باوجود اس پر کبھی غرور نہ کرتے تھے۔ یہ رسمی باتیں نہیں ہیں۔ یہ اس شخصیت  کے سچے پہلو ہیں۔ 

سید زبیر صاحب کے گھر ان سے دو بار ملاقات ہوئی۔ ان دونوں کی آپس کی گفتگو سے بہت کچھ سیکھا۔ اس بار بھی رمضان کے شروع میں فون آیا۔ تھوڑی سی گپ شپ ہوئی۔ عید پر سر کا فون نہیں آیا۔ مجھے انتظار تھا۔ لیکن کچھ مصروفیت ایسی ہوئی کہ میں چاہ کر بھی فون نہ کر سکا۔ ایک بار کوشش کی لیکن بھلا ہو ہمارے ملک میں اعلیٰ نیٹ ورک سروسز کا۔ دوسرے دن یہ خبر ملی کہ اصغر سر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ موت برحق ہے۔ ہم سب نے اس دنیا سے جانا ہے۔ لیکن اپنے پیاروں عزیزوں کی کمی سے جو خلا بن جاتا ہے۔ وہ کبھی پر نہیں ہوتا۔ تلمیذ سر کی محبت ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اب کبھی نہیں آئیں گے۔ اب ان کا کوئی بھی تبصرہ مجھے پڑھنے کو نہیں ملے گا۔ لیکن جانے کیوں ابھی تک اس بات پر یقین نہیں آرہا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے۔ اور ان کی آرام گاہ کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنا دے۔ آمین
انا للہ وانا الیہ راجعون

Sunday 5 July 2015

چوہدری اور افطار

0 comments
چوہدری اور افطار

احباب کے مابین رمضان کریم میں افطار پارٹیوں کا عروج نصف رمضان گزرنے کے بعد ہی شروع ہو تاتھا۔ لیکن چوہدری کو افطار  پر بلانے سے چڑ تھی۔ افطار پر جاتے تو سہی لیکن بلاتے کبھی نہ تھے۔ کہتے میاں میں ایک نیک آدمی ہوں۔ لہذا میری خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو بھی مجھے افطار کروائے میرے اس دن کے روزے کا ثواب جس کا کوئی شمار ہی نہیں ہوتا اس کو بھی ملے۔ یوں سمجھو کہ اگر میں افطار پر جاتا ہوں تو احسان کرتا ہوں۔ اپنے اس دن کی تمام نیکیاں ان لوگوں کے نامۂ اعمال میں لکھوا آتا ہوں جن کی زندگی میں شاید دو چار ہی نیکیاں ہوں۔ ہم نے دست بستہ عرض کی اگر آپ لوگوں کو افطار پر بلائیں گے تو ان  کی نیکیاں آپ کو ملیں گی۔ آخر آپ نیکیوں پر حریص کیوں نہیں۔ تو ایک عارفانہ مسکراہٹ ان کے چہرے پر نمو دار ہو گئی۔ یہ مسکراہٹ اکثر ان کے چہرے پر تب نمودار ہوتی تھی جب ان کے ذہن پر خون سوار ہو جاتا تھا۔ ایسے میں ہر چیز ان کو سرخ دکھائی دینے لگتی۔ کرسی پر بیٹھے بیٹھے بے چینی سے پہلو بدلا اور مکمل طور پر خاکسار کی طرف متوجہ ہو کر بولے کہ دیکھو! کیا تمہیں؟ کیا تمہیں افطار پر بلاؤں میں۔ اور اس کے بعد بقیہ  احباب کی طرف اشارہ کرکے فرمانے لگے یا پھر ان لونڈوں لپاڑوں کو بلاؤں ؟ کیاتمہیں لگتا ہے کہ تمہارے روزے قبول بھی ہوتے ہیں! تمہارے اندر نیکی کی کوئی رمق بھی باقی ہے؟  اور ملک کی طرف اشارہ کر کے فرمانے لگے ، یہ  اس کی طرف دیکھو؛  اس کی شکل دیکھ کر کیا تمہیں لگتا نہیں کہ یہ روزہ خور ہے۔ بخدا میں تمہیں بتاؤں کہ مجھے تو تمہارے روزوں پر ہی شبہ ہے کجا یہ کہ میں تم  کو افطار کروا کر کسی نیکی کی امید رکھوں۔

چوہدری کی اس بات سے ہمارا دل ٹوٹ گیا تھا۔ ہم نے احباب کے درمیان باہمی مشاورت سے منصوبہ بنایا کہ دنیا اِدھر سے اُدھر  ہو جائے لیکن اس رمضان میں چوہدری سے افطاری کھائے بغیر نہیں ٹلیں گے۔ اس سلسلے میں اگر ہمیں کوئی معتبر ہستی جس کی بات چوہدری نہ ٹال سکے کو بھی درمیان میں گھسیٹنا پڑا تو ہم گھسیٹ لیں گے۔ اب ان احباب کی فہرست تیار کرنی شروع کی جن کی بات کے آگے چوہدری  کوئی بات نہ کیا کرتے تھے، تو مرد حضرات میں سے ایک ہی نام برآمد ہوا۔  صنف مخالف کا ذکر کر کے ہم یہاں چوہدری کی دشمنی مول نہیں لینا چاہتے  سو فہرست جو کہ صرف ایک ہی نام پر مشتمل تھی اس کو کثیر اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔  باقی تمام باتیں جن کی وجہ سے چوہدری  آخرِکار ایک عدد دعوت نما افطاری کھلانے پر رضامند ہوگئے ان کو راقم الحروف بخوف طوالت زیر قلم لانے سے گریزاں ہے۔

لیکن چوہدری بھی کبھی کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے۔ لہذا جونہی چوہدری نے دیکھا کہ اب کی بار افطاری کروائے بغیر کوئی چارہ نہیں تو انہوں نے اپنا پرانا ہتھیار بیماری کو اوڑھا۔ چوہدری کو بیمار ہونے پر دسترس حاصل تھی۔  ان کی بیماری  سدا بہار تھی۔ آپ سال کے کسی دن کسی موسم میں کسی وقت ان سے حال پوچھیں۔ وہ اپناکوئی نہ کوئی کل پرزہ ضرور ایسا نکال لیتے تھے جس کو کسی دوا کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ عمومی طور پر گلا خراب کا بہانہ کر کے ایک چھوٹی  سی شیشی جس پر پہلی نظر میں کسی دوائی کا گمان ہوتا تھا اس میں الکوحل بھر کر رکھ لیا کرتے تھے۔ آنے جانے والوں کو خوب مغلظات بکتے اور اگر کوئی کافر پلٹ کر یہ کہہ دیتا کہ میاں کیا کہے جا رہے ہو تو فوراً اپنی شیشی اٹھا کر کہتے کہ ڈاکٹر نے دوائی کے نام پر دیکھ کیا دے رکھا ہے۔ خود بھی احساس نہیں رہتا کہ کس کو کیا کہہ رہا ہوں۔ البتہ قریبی احباب کو بغیر نشے کے بہانے کے بھی گالیوں سے نوازا کرتے تھے۔ اور وجہ وہی کہ سر پر خون سوار رہتا تھا جس کی لپیٹ میں ہمیشہ قریبی احباب ہی آیا کرتے تھے۔ لیکن  اس بار چوہدری نے بالکل نئی طرز  پر راہِ فرار اختیار کی۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی زندگی آسان بنانے کی کوشش کرتے ہوئے  کہا کہ آج ہی پاؤں کا ایک آپریشن ہوا ہے فصد کھلوا لایا ہوں۔ اور آپریشن سے پیداکردہ تفنگی سوراخ کی تصاویر  ارسال کر دیں۔ تاہم ان تصاویر میں زاویہ ایسا تھا کہ غور کرنے پر بھی پاؤں معلوم نہ ہوتا تھا۔ جب ایک دو گستاخوں نے اس بارے دبے دبے الفاظ میں اشارہ کیا تو پھر چوہدری کے سر پر خون سوار ہوگیا۔ بولے کل دفتر آؤں گا تو اپنی گناہگار آنکھوں سے دیکھ لینا۔

اگلے دن چوہدری جب دفتر تشریف لائے تو چال ہی بدلی ہوئی تھی۔ بایاں پاؤں اٹھاتے تو ایک عربی رقاصہ کی طرح لہرا جاتے جب کہ دایاں پاؤں اٹھاتے تو یوں لگتا کہ چلتے چلتے گاڑی کی ایک سائیڈ کی کمانی ٹوٹ گئی ہے۔ احباب کا خیال تھا کہ یہ چوہدری کی راہِ فرار حاصل کرنے کی آخری کوشش ہے۔ جبکہ ہمارا یہ ماننا تھا کہ پہلی بھی یہی ہے۔ چوہدری اس معاملے میں دو چالیں چل کر رسوا نہیں ہونا چاہتے۔ اس پر ایک دوست کا فرمانا تھا کہ چالیں تو وہ کئی چل رہے ہیں آپ ذرا ان کی چال تو دیکھیں۔ چال  کی اس لڑکھڑاہٹ پر اعتراض سن کر چوہدری آگ بگولا ہوگئے اور کہنے لگے کہ تم خود بتاؤ کہ اس حال میں کوئی بھی انسان کس طرح کہیں پر جا سکتا ہے۔ احباب کے دل پسیج گئے۔ قریب تھا کہ ایک دو گلے لگ کر رونا شروع کر دیتے کہ ایک گستاخ نے زبان کھولی ، یہاں دفتر تک کس طرح آئے ہو۔ اس کے جواب میں  فرمانے لگے؛  گاڑی ڈرائیو کر کے۔ اس پر وہی گستاخ دوبارہ بولا یہ کون سی گاڑی ہے جو آٹھویں منزل تک بےچوں و چراں کیے چلی آتی ہے۔ اس پر چوہدری  کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور تمام منظر انہیں دوبارہ سے سرخ نظر آنے لگا۔ کچھ دیر خود پر ضبط کی کوشش کرتے رہے اور آخر فرمانے لگے کہ میں کہیں بھاگا نہیں جا رہا۔ چند دن صبر کر لو۔ صحت یاب ہوتے ہی ایک بڑی سی افطار کا انتظام کروں گا گرچہ مجھے یقین کامل ہے کہ تم لوگوں کا روزہ کھلوا کر مجھے رتی برابر بھی ثواب نہ ملے گا۔

چوہدری کے اس لارے سے احباب خاموش ہوگئے۔  لیکن برا ہو چوہدری کا خود  کہ اسی شام اپنے گھر سے میلوں دور افطاری کرتے پائے گئے۔ قصہ یہی ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اس کے بعد ایک مشہور خریداری مرکز کے اندر کچھ ایسے کام کرتے بھی پائے گئے جو کہ اوائل بلوغت میں ہی اچھے لگتے ہیں۔ چوہدری کی اس حرکت سے دل دکھ گیا تھا۔ آخر ہمارے ساتھ ہی افطار کرتے کیا موت پڑتی تھی۔

تمام احباب شکوہ کناں تھے۔ موسم بہار میں خزاں کا مطلب ہم تمام اب سمجھے تھے۔ لیکن چوہدری نے ان تمام باتوں کے جوابات میں یہ ثابت کیا کہ وہ میلوں دور افطار کرنے پیدل نہیں گئے تھے اور خریداری مرکز کے اندر بھی وہ۔۔۔۔ ہمارے منہ میں خاک۔ دعا ہے کہ اللہ چوہدری کو صحت و تندرستی دے اور وہ جلد از جلد صحت یاب ہو کر ہمارے افطار کا بندوبست بھی کر سکیں گرچہ ان کے اس ضمن میں حالات و واقعات بالکل ویسے ہی ہیں جیسے قوم یہود کے گائے کی قربانی کرنے پر تھے۔

Wednesday 25 March 2015

بیمار کا حال اچھا ہے۔

8 comments
تیمار داری ہماری معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی اقدار میں بہت اہم درجہ رکھتی ہے۔ بچپن میں جب ہمارے بڑے کسی کی تیمارداری کرنے کو جایا کرتے تھے تو کبھی ہمیں بھی ساتھ لے جاتے۔ ہماری حاضری  اس پورے قصے میں ایک خاموش تماشائی سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔   مریض چاہے کوئی ہو،  منظر عمومی طور پر ایک جیسا ہی ہوتا تھا۔ موسم کے مطابق اس میں چند ضروری تبدیلیاں ہوتی تھیں،  باقی چیزیں یکسانیت کا ہی شکار ہوتی تھیں۔ مثال کے طور پر ہر منظر میں بیمار  لیٹا ہوا ہوتا  تھا۔آپ کہیں گے لیٹا ہی کیوں، بیٹھا ہوا کیوں نہیں؟ تو خدا لگتی یہی ہے کہ اوائل عمری میں ہم نے کبھی بیٹھا ہوا بیمار دیکھا ہی نہ تھا۔ یا شاید ہمارے ذہن میں یہ بات سما گئی تھی کہ جو اٹھ کر بیٹھا سکتا ہے وہ کاہے کا بیمار۔ سردیاں ہوتیں تو اس کی چارپائی کے نیچے ایک انگیٹھی دہک رہی ہوتی تھی۔ ایک آدھ آدمی اس کا سر یا پاؤں دبانے پر مامور ہوتا۔ گرمیاں ہوتیں تو پانی پٹی کا بندوبست ہوتا اور وہی خدمت پر مامور آدمی دبانے کا فریضہ چھوڑ کر پٹیاں کرنے پر مامو ر ہوتا تھا۔ مریض عمومی باتوں کے جوابات خود دیتا اور تشخیص کے متعلق جوابات کے لیے خدمت پر مامور آدمی کو زبان  ہلانے  کا اشارہ کر دیتا۔ درجہ حرارت چاہے سو ہی مشکل سے ہو مریض وقفے وقفے سے ہائے ہائے کے نعرے بلند کرتا رہتا۔ یہ ہائے ہائے بھی موسمی اثرات کے زیر اثر ہی ہوتی تھی۔ مثلاً اگر زکام یا کھانسی کا موسم ہے تو وقفے وقفے سے کھانسا جاتا رہے گا۔ ابکائی کو بہت اہمیت حاصل تھی تاہم اگر ابکائی کے لیے الٹا ہوجانے پر بھی ابکائی نہیں آتی تو خدمت پر مامور آدمی کا یہ بھی فریضہ ہوتا تھا کہ وہ کہتا رہے  کچھ کھایا تو ہے نہیں دو دن سے، ابکائی کہاں آئے گی۔ یرقان کی صورت میں مریض آپ کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھے گا کہ آپ اس کی آنکھوں کا پیلا پن دیکھ سکیں۔ جبکہ ضعفِ معدہ کی شکایت کی  صورت میں ایک ہاتھ مستقل طور پر پیٹ پر دھرا رہے گا۔   نیلی پیلی دوائیاں اکثر چارپائی پر سرہانے کے ساتھ ہی دھری ہوتی تھیں۔  کسی بھی تیمار دار کی آمد پر مریض یہ ضرور بتاتا تھا کہ فلاں دوا بےحد کڑوی ہے اور اس کے باعث اس کا حلق ایسا  کڑوا ہے کہ شہد بھی کڑوا محسوس ہوتا ہے۔ تیمار دار بزرگ ہر بیماری کو معدے کی خرابی کا ہی شاخسانہ سمجھتے اور چند دیسی نسخے  لازمی بتاتے جن کو اختیار کر کے معدے کی بیماریوں کو زیر زمین  دفنایا جا سکتا تھا۔ یاد رہے کہ بیماری دفنانے کی بات ہو رہی ہے یہ الگ بات ہے کہ اکثر ایسے نسخے ہی ہوا کرتے تھے جن کا نتیجہ "مریض رہے نہ رہے مرض نہیں رہے گا" کی صورت ہی نکلتا تھا۔  ہماری دلچسپی بزرگوں کی دوسروں کے لیے تجویز کردہ دوائیوں کی بجائے  ان کی اپنی دوائیوں میں ہوا کرتی تھی۔  کسی بزرگ کو حکیم نے خمیرہ گاؤ زبان صبح شام کھانے کی تاکید کی ہوتی تھی تو کوئی آلو بخارے کا شربت شکر گھول کر پیا کرتا تھا۔ کسی کے پاس گلقند سے گندھی ہوئی چاندی کے اوراق میں کوئی معجون ہوتی تو کوئی مزے دار قسم کی حریرہ جات کھا کر اپنی بیماری کو سکون پہنچایا کرتا تھا۔ اور ہم اکثر ان دوائیوں کی قزاقی اپنا فرض سمجھتے جن کی بزرگ  اپنے مرض سے بھی زیادہ حفاظت کیا کرتے تھے۔   ہمیں وہ ساری باتیں یاد نہیں رہیں جو بڑے اور مریض آپس میں کیا کرتے تھے۔ وہ ہوا لشافی کے نعرے اور رندھی ہوئی آواز میں دعائیں، سب کچھ ذہن  سے محو ہوتا گیا ،  البتہ تیمار داری کا جذبہ جوں کا توں قائم رہا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ہم نے محسوس کیا کہ ایک تیمار دار ہمارے اندر ناصرف زندہ ہے بلکہ انتہائی شدت سے زندہ ہے۔ اگر کبھی کچھ عرصہ کسی کی تیمارداری نہ کرتے تو یوں محسوس ہوتا کہ نشہ ٹوٹ رہا ہے، روزوشب میں ایک کمی سی ہے۔ لیکن دنیا نے اپنے طور طریقے بدل لیے ہیں۔ رویوں میں تبدیلی آنے کے سبب تیمارداری کی روایت بھی اپنی اکھڑی سانسوں کے ساتھ اپنے وجود کو قائم  رکھنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اوّل تو وہ بیماری کا بتانے اورتیمارداری کے لیے جانا ایک طرز کہن ٹھہرا تھا۔ تاہم اگرکبھی ہم  تیمارداری کرنے پر تل ہی جاتے تو مریض ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ وہ مریض نہ رہے تھے جو ہر بات میں تین سے چار بار کھانس کر اپنا حال بتلایا کرتے تھے۔ کسی کا بازو بھی ٹوٹا ہوتا تو اپنے بازو ٹوٹنے کا قصہ بلغم زدہ آواز ہی میں سنایا کرتا تھا۔ بلکہ اس کے برعکس عموماً مریض بھلا چنگا ہوتا تھا۔ بلکہ اکثر اوقات تو اس کی صحت اور آواز کا کڑک  پن ہمارے اپنے لئے بھی قابل رشک ہوا کرتا تھا۔ تیمارداری کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔ اکثر اوقات تو اللہ شفا دینے والا ہے کہہ کر ہی تیمارداری ختم ہو جایا کرتی ہے۔

ایسے میں وہ حکیم و ڈاکٹر سے ملاقات و مرض کی تشخیص کا مشکل مرحلہ سنے ہوئے بھی مدتیں گزر جاتیں ہیں۔ کہاں کوئی روایتی مریض ملے اور کہاں ہماری تیماردار حس کی تسکین کا کوئی وسیلہ بنے۔ اس چکر میں ہم نے ہر کسی سے حال و احوال دریافت کرنا شروع کیا۔ گلی میں سبزی بیچنے کے لئے آنے والے ریڑھی بان سے لے کر دفتر میں اعلی عہدیدار تک۔ لیکن ہر جگہ سے ایک ہی جواب اللہ کا کرم ہے یا پھر ہلکا سا گلا خراب تھا؛ اب بہتر ہوں کی صدائیں سن سن کر مایوسی  اور تیماردار حس کی تشنگی  بڑھتی چلی جاتی۔ ہائے وہ منظر وہ بیمار اور وہ تیماردار۔ کیسے مزے تھے ہمارے آباء کے۔

بچپن میں ہم  اگر کبھی خاندان کی ایک  بزرگ خاتون  جو کہ  جوڑوں کی مریضہ تھیں  سے ان کا حال و احوال پوچھتے تو  ان کا بیان اس قدر مفصل و جامع ہوا کرتا تھا کہ وہ اکثر اس درد سے گزرنے والی کیفیات اور پٹھوں کے درد سے دیگر عضلات کی کارگردگی متاثر ہونے کا بھی بیان فرمایا کرتی تھیں۔ لیکن وائے ستم ہائے روزگار کہ فکر معاش نے اس قدر دور لا کھڑا کیا مدتوں ان سے ملاقات نہ ہوتی اور تیماردار حس یوں ہی تشنہ رہتی ۔ بارہا  دل کرتا کہ سب مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کرہفتہ بھر کی چھٹیاں لے کر ان کے پاس جایا جائے اور تیمارداری حس کو ابدی نیند سلا کر ہی واپس آیا جائے مگر گردش زمانہ کہاں کس کو اتنا وقت دیتی ہے۔ سو یہ حسرت بھی حسرت ہی  رہی اور  دوسری وجہ جو اس سفر میں حائل رہی وہ یہ  کہ اگر اس سے بھی تیماردار حس کو افاقہ نہ ہوا تو آخری امید کی ڈوری بھی ٹوٹ جائے گی۔ سو یوں ہی جعلی قسم کے مریضوں کا حال پوچھ پوچھ کر اپنے اندر کے تیماردار کی تسکین کا سامان کرتے رہے۔

جعلی قسم سے مراد ہماری یہ نہیں کہ مریض خدانخواستہ جھوٹا ہوتا ہوگا بلکہ انداز مریضائی سے ہے۔ کسی کا حال پوچھنے جو گئے تو وہ ہٹا کٹا اپنے گھر کے لان میں بیٹھا موسمی پھلوں سے دل بہلا رہا ہوتا تھا۔ یا پھر ہمارے ساتھ ہی چائے نوش فرما لیتا جو کہ سراسر آدابِ مرض کے خلاف ہے۔

آواز میں کھنک کسی عام صحت مند سے زیادہ ہوا کرتی اور چہرے پر ایک بشاشت کا تاثر پایا جاتا جو کہ ہر صورت میں تیماردار کے لئے ناقابل قبول ہے۔ موسمی پھلوں کے ہم مخالف نہیں لیکن ہمارے ہاں  دورانِ بیماری  پرہیزی روایات کے مطابق بیمار عموماً سیب ہی سے دل بہلاتا تھا یا بہت لطف لیا تو گاجر کے جوس میں ایک آدھا کینو مالٹا ڈال کر پی لیا۔ لیکن یہاں تو اس روایت کا پاس رکھنے والے بھی نہیں  رہ گئے۔ لاہور قیام کے دوران جب  ہم کچھ احباب کے ساتھ رہائش رکھتے تھے تو انہی دنوں ایک دوست بیمار ہوگئے۔ دل کو تسلی ہوئی کہ اب ہائے ہائے کے نعرے لگیں گے۔ گرمیوں کے دن تھے  سو موسم   کے حوالے سے دارو پٹی کا سامان مکمل کرنے کا سوچا۔ ایسے میں وہ مریض موصوف انتہائی گرج دار آواز میں بولے کہ میرا خیال ہے کہ فلاں و فلاں و فلاں دوائی کھانے سے مجھے آرام آجائے گا۔ اس بات سے ہماری بڑی دل شکنی ہوئی۔ کہاں وہ حکیم و ڈاکٹر کے پاس جاتے، کہاں خود کو یہ حکیم جالینوس سمجھ بیٹھے ہیں۔ ابھی یہ دھچکا ہی کم نہ تھا کہ دوبارہ حکم دیا مجھے آم لا کر دیے جائیں۔ بس معاملہ ہماری برداشت سے بہت اوپر ہو چلا تھا۔ ہم نے کہا یہ کون سا مریض ہے جو سیب کی بجائے آم کی فرمائش کر رہا ہے۔ اس کی بیماری ہی جھوٹی ہے اور اس کی نیت خراب ہے۔ گو کہ نیتوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے لیکن ایسے موقعوں پر ہم نیتوں کا حال پرکھنے کا اپنا فن ضرور استعمال کیا کرتے تھے۔ اس واقعے سے تیماردار طبع کو کافی زک پہنچی اور مدتوں کسی کی تیمارداری کرنے کو دل نہ چاہا۔

بعض اوقات ایسا ہوتا کہ کسی دفتری ساتھی کی ناسازی طبیعت کے بارے میں علم ہوتا تو ہم فوراً فون کر لیتے۔ لیکن دوسری طرف سے ایک ہشاش بشاش آواز  سن کر اپنی طبیعت کی ناسازی کا گمان  ہوجاتا۔ ایسے میں ایک بار ایک دفتری ساتھی جب ہفتہ بھر دفتر سے  غائب رہا  تو دل کو یک گونہ اطمینان ہوا کہ شاید اب ہی وہ موقع ہے،  اب تیمارداری بنتی ہے۔ سو  اس کو فون کیا تو دوسری طرف سے ایک کھانستی اور بلغم زدہ آواز سنائی دی۔ حال پوچھنے پر جواب ملا مر رہا ہوں۔ لیکن ہائے تف ہے اس دنیا دار دل پر۔  جس نے اس کو ایک تماشا سمجھا اور اس کی بیماری کو ڈھونگ۔ ایسی آواز تو میں بھی نکال سکتا ہوں۔ ہم نے بیماری کی حقیقت جاننے کو حملہ کیا۔ اس پر وہ غضب ناک ہوگیا۔ لیکن آواز میں بلغم و کھانسی بدستور قائم رہی۔ بہت ہی پکا ڈرامہ باز تھا۔ واللہ اعلم ۔

شانِ نزول ڈرامہ بازی والی بات کی یہ ہے  کہ مشار الیہ ایک دن بیمار تھے۔ دفتری احباب کے توسط پتا چلا کہ آج تو بےحد بیمار ہیں۔ ہم حیران ہوگئے کیوں کہ ہر چیز ایک حد میں اچھی لگتی ہے،  اور بےحد والی چیزو ں میں کہیں بھی بیماری  کا تذکرہ  ہم نے نہ سنا اور نہ کہیں کبھی پڑھا تھا۔ اسی  شام کو ایک محفلِ یاراں کا بھی بندوبست تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ عشائیہ کے ساتھ پتے کھیلے جائیں گے، فلم  دیکھی جائے گی اور دورِ جدید کا حقہ بھی دستیاب ہوگا۔ متعین مقام پر جب ہم پہنچے تو  حیرت کا جھٹکا  لگا کہ جن صاحب سے عشائیے کی میز پر سامنا ہوا وہ کوئی اور نہیں وہی "بےحد بیمار" تھے۔ بیماری پیشانی سے بہہ کر باہر  برآمدے  تک جا رہی تھی۔ کچھ دیر اور بہتی رہتی تو شاید ایک آدھا صحت مند بھی اس دھارے میں لڑھک جاتا۔ ہم نے مؤدبانہ عرض کی۔
سنتے تھے وہ جو  آپ کی بیماری کیا ہوئی
کہنے لگے کہ بعدِ سحر کچھ سنبھل گئی
ہم نے کہا کہ کھائیے گا کیا جنابِ من
کہنے لگے  منگائیے ، پرہیز کچھ نہیں

آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس اذیت ناک جواب سے ہماری تیماردارانہ حس کو جو ٹھیس پہنچی ہوگی۔ ہمارا اعتبار دنیا کے ہر مریض سے اٹھ گیا تھا اور  ہم نے سوچ لیا کہ اب کسی سے حال و احوال پوچھا نہ کریں گے،  لیکن  پھر وہی بات کہ  " جس کو ہوبےحسی عزیز تیماردار کہلائے کیوں"۔

اسی قحطِ  مریضاں کے پرآشوب دور میں جب ہمارے اندر کا تیماردار خود بیمار ہو کر اس حال میں آپہنچا تھا کہ "مریض ہو سچا یا جھوٹا" تو خبر ملی کے ایک عزیز دوست بےحد بیمار ہیں۔ گاؤں سے تعلق ہونے کی وجہ سے یقین واثق تھا کہ یہ بیمار اب بیماری سے جڑی روایات کی مکمل پاسداری کرے گا لیکن میلوں دور ہونے کی وجہ سے صرف  نادیدہ تیماردای ہی ممکن تھی، سو خط کی طرح فون کو بھی آدھی تیمارداری پر محمول کیا۔  تیماردار حس کو جگایا۔ وہ تمام باتیں ذہن پر زور دے کر دہرائیں کہ اب ایسے ایسے کیا کیا بات ہوگی، کیا منظر ہوگا۔  ہمارا دوست  ایک کمرے میں بستر پر ہائے وائے پکار رہا ہوگا۔ سردیاں ہیں تو ایک انگیٹھی بستر کے نیچے دہک رہی  ہوگی  یا پھر شاید کوئی گیس کا ہیٹر جل رہا ہوگا۔  سرہانے کچھ نیلی پیلی دوائیوں کا ہجوم لگا ہوگا، جن سے مریض کو شبہ رہتا ہے کہ ان دوائیوں کی وجہ سے وہ نہیں بخار تندرست ہو رہا ہے۔

ایک مکالمہ سا ذہن میں بنتا چلا گیا
راقم: السلام علیکم
رائے :  وع لی کم ال سل ام
راقم: تمہاری بیماری کے بارے میں  سُنا، کہو کیسی طبیعت ہے؟
رائے : مجھے  شک تھا کہ تمہارا ہی فون ہوگا۔ بس کچھ نہ پوچھو، مر رہا ہوں۔
راقم: اوہ تمہاری آواز سے بیماری کی شدت کا اندازہ ہورہا ہے۔ بخارکیا ٹوٹنے میں نہیں آرہا۔
رائے : بس کہتے ہیں کہ بیماری سے گناہ جھڑتے ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ ٹنڈ درخت ہی رہ جائے گا اور  سب گناہ جھڑ جائیں گے۔
راقم: گویا حاجی ہونے لگے ہو۔
رائے:  ہائے کافر۔۔۔ مجھے یہاں فرشتے نظر آرہے ہیں۔ اور تجھے شوخیاں سوجھ رہیں ہیں۔ اللہ دشمن کو بھی تجھ سا دوست نہ دے۔
راقم: دل چھوٹا مت کر، اللہ شفا دینے والا ہے۔
رائے: اللہ ہی شفا دے تو دے، ڈاکٹروں حکیموں کے بس کی بات تو نہیں لگتی۔
راقم: تم گئے تھے ڈاکٹر کے پاس؟ کیا کہتا؟
رائے:میاں وہ تو خود دوراہے کا شکار ہے۔ کبھی کہتا ٹائیفائیڈ ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ نمونیا ہے۔ اب اللہ ہی جانے۔ کبھی کوئی دوائی تھما دیتا ہے تو کبھی کوئی۔ ایک یہی فقیر ذات ملی تھی اس کلموہے کو اپنے تجربات کے لئے۔
راقم: پریشان نہ ہو  میں نماز جمعہ کے بعد واعظ کو خاص دعا کرنے کے لیے کہوں گا۔
رائے: ہاں  ضرور۔ لیکن بڑی مسجد سے ہی دعا کروانا،  وہ مینار والی سے۔ یہ چھوٹے محلے کی مسجد کا مولوی بھی چھوٹا ہے۔ جس دن سے دعا کا کہا ہے اور بیمار ہوگیا ہوں۔ لگتا  ہے اس کےگناہ بھی میری بیماری سے ہی جھڑیں گے۔
لیکن ہائے حوادثِ زمانہ۔ ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہمارے دوست کو بھی شہر کی شہری ہوا نے تمام پرانی قدروں کا باغی بنا دیا تھا ۔ آواز تو ایک طرف اس کافر نے تو ہمیں ایسا مایوس کیا کہ گویا آداب مریضاں سے بھی ناواقف  تھا۔ ہائے ہائے۔ دوڑو بیمار چال عزین بولٹ کی چل گیا۔

فون جو کیا تو دوسری طرف سے  کراری سی آواز سنائی دی۔
وعلیکم السلام:
راقم: حیران ہو کر! تمہاری  بیماری کے متعلق اطلاع ملی تھی۔
رائے ایک ہی سانس میں: ہاں وہ کچھ بیمار رہا تھا؛  اب ٹھیک ہوں،  تو سنا کدھر موجیں مار رہا ہے۔
راقم: کیا تشخیص کیا ڈاکٹر نے؟
رائے: چند ٹیسٹ لکھ کر دیے اور پھر کہا ٹائیفائیڈ ہے، کچھ سٹیرائیڈز بھی لکھ  کر دیے تھے۔ اب سب اللہ کا کرم ہے۔
راقم: کچھ نقاہت محسوس ہوئی یا پرہیز کر رہے ہیں؟
رائے : اوہ نہیں یار۔ میں تو یہاں گَلی میں لڑکوں کو گُلی ڈنڈا کھیلتے دیکھ رہا ہوں۔ اس کھیل کو دیکھنا بھی بہت صحت مندانہ اقدام ہے۔

ہمارے اندر کے تیماردار پر سکرات طاری ہو گئی۔