Monday 13 May 2013

دھاندلی کیا ہے!!!

2 comments
دھاندلی ہے کیا؟ سب سے پہلے تو ہمیں اس کے لغوی مطلب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سنسکرت  کے لفظ دوند سے ماخوذ اردو میں دھاند "ل" اضافے دھاندل کے ساتھ "ی" بطور لاحقہ لگانے سے دھاندلی کا لفظ وجود میں آیا۔ اس کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔ لغت کے حوالوں سے شاید 1922 کو "گوشۂ عافیت" میں تحریرا مستعمل ملتا ہے۔ اور معانی ہیں۔۔ اصل بات کو چھپانے کا عمل، مکروفریب، بےایمانی، دھوکا

اب آپ سوچیں گے کہ یہ بات تو ہم سب پہلے سے جانتے تھے۔ عام سا لفظ ہے۔ ہمارے لیے اس میں کچھ بھی نیا نہیں۔ تو میں بھی یہی عرض کرنے والا تھا۔ کہ جی بالکل عام سا لفظ ہے۔ اور بالکل اسی عام سے انداز میں ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بھی ہے۔ جب رکشا والا ہم سے زیادہ کرایہ لیتا ہے تو وہ دھاندلی کا ہی مرتکب ہوتا ہے۔ جب سبزی والا مہنگے دام لگاتا ہے۔ تو وہ بھی دھاندلی ہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس طرح موچی، نائی  اور میٹر ریڈر سے شروع ہو کر معاشرتی تقسیم کے مطابق درجات بڑھاتے جائیں۔ کلرک، سیکرٹری، افسر سے لے کے صدارت کے عہدے تک۔ ہر آدمی کی عملی زندگی کی شبیہ اٹھاتے جائیں۔ اور دیکھتے جائیں کہ حقائق کو چھپانے کا عمل کہاں کہاں رائج ہے۔ مکروفریب کے کیسے کیسے جال بچھے ہیں۔ اور دھوکا دینے کی کونسی کونسی عملی شکلیں قوانین کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔

ہارنے والی جماعت یا ٹیم کا کسی بھی کھیل میں ہار کر دھاندلی کا الزام لگانا کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن ہمارا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ ہم  نے اس لفظ کو صرف اور صرف انتخابی مہم سے جوڑ رکھا ہے۔ ہار گئے تو دھاندلی۔ اور یہ بات نہیں کہ دھاندلی ہوتی نہیں۔ ظلم تو یہی ہے کہ دھاندلی ہوتی ہے۔ کھلم کھلا ہوتی ہے۔ لیکن اک پل کے لیے سوچیے۔۔ کہ یہ لفظ مہنگے پھل سبزی خریدتے وقت کیوں نہیں یاد آتا۔ اسے ہم کیوں نہیں کہتے کہ میاں تم دھاندلی کر رہے ہو۔ منڈی کا ریٹ یہ نہیں۔ یہ دھاندلی کا راگ ہمیں اس وقت کیوں یاد نہیں آتا۔۔۔۔ جب سوئی گیس کا میٹر لگوانے کے لیے سرکاری فیس 3ہزار کے علاوہ ہم سے اک بہت بھاری رقم کا تقاضا کیا جاتا ہے۔  جب چھوٹے چھوٹے سرکاری کاموں کے لیے کلرکوں افسروں کی جیبیں بھرنی پڑتی ہیں۔ تب ہم کیوں وہاں کھڑے ہوکر یہ نہیں کہتے۔۔ یہ لوگ کرپٹ ہیں۔۔ یہ لوگ دھاندلی کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ ہماری اندر کی منافقت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ دھاندلی اس لیے ہورہی ہے کہ جب ہم خود اختیار کی کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ تو انہی لوگوں کی کھال کھینچ اتارتے ہیں۔ اس لیے خاموشی ہمارے لبوں کی زینت بنی رہتی ہے۔

لیکن اس بار حالات مختلف ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگنا نئی بات ہے۔ نہ دھاندلی کا ہونا  ہی۔ "زبردست کا ٹھینگا سر پر"  یہ مقولہ قوم کو ہمیشہ ایسے موقعوں پر بھول جاتا ہے۔ جب اک انتہائی چھوٹے سے کاروبار سے منسلک آدمی اپنی دکان میں جو چاہے نرخ مقرر کرے۔ تو جس کو پورے پورے شہروں پر حکومت ہو۔۔ وہ وہاں اپنی مرضی کے کام کیوں نہ کروائے۔ اس سے اس دھاندلی کا حق چھیننے کا اختیار کس کو ہے۔ ان لوگوں کو جن کا خود کا اک اک لمحہ مکروفریب سے بھرا پڑا ہے۔

لیکن اس بار حالات مختلف ہوگئے۔ کیوں؟ کیوں کہ اب دھاندلی کا الزام لگانے والی وہ نوجوان نسل سڑکوں پر آگئی۔ جن کے دامن ابھی اتنے داغدار نہیں۔ جن کے ضمیر ابھی اس قدر مردہ نہیں ہوئے ۔ کہ وہ اس کو ماضی کی اک روایت کہہ کر خاموش ہوجائیں۔ یا یہ سوچ کر خاموش ہوجائیں کہ ہمارے خود کے بھی یہی کرتوت ہیں عمومی زندگی میں۔ تو سب ٹھیک ہے۔ یہ نوجوان نسل ابھی اس حقیقت سے آشنا نہیں۔ کہ یہ دھاندلی تو وہ طاقت ہے جو خون بن کر رگوں میں دوڑا کرے گی۔ ان کی خون ابھی اس طاقت سے محروم ہیں۔ وہ ابھی برائی کو برائی اور اچھائی کو اچھائی سمجھتے ہیں۔ ان کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی کہ زبردست کا ٹھینگا سر پر ہوتا ہے۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ بازوؤں پر بندھی سیاہ احتجاجی پٹیاں شاید ان ناسوروں کے لیے شرم و حیا کا پیغام لائیں گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ جس کی رگ رگ میں دھاندلی ہو۔ اک دن کی مزید دھاندلی اس کے اندر احساس جرم پیدا نہیں کرسکتی۔ اس کے ضمیر کو جگا نہیں سکتی۔ ان نوجوانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے۔ کہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ اپنی  رگوں میں اس کینسر کو نہ بڑھنے اور پھلنے پھولنے دیں۔ قوموں کی تاریخ میں پانچ دس سال کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ لیکن اگر یہ دھاندلی کے خلاف احتجاج انفرادی سطح پر جاری رہا. اور ہم نے اس کو اپنے معمولات میں نہ پھلنے پھولنے دیا تو انشاءاللہ مستقبل میں ان نعروں کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ دھاندلی اپنی موت آپ مر جائے گی۔ سورج طلوع ہوگا۔ اور بیمار ذہنیت سے لتھڑے  بے ایمانی اور فریب کو  موروثی خزانہ سمجھ کر غندہ گردی، بدمعاشی اور لسانی و علاقائی تعصب کو فروغ دینے والے بادلوں کی طرح چھٹتے جائیں گے۔ اجلے لوگ اور روشن چہرے اس ملک کا مستقبل لکھیں گے،  جن کے درمیان لسانی و علاقائی منافرت نہ ہوگی۔ انشاءاللہ

خود احتسابی کیسے ہو!

0 comments
مراسلہ از دوست: میرے خیال میں خود احتسابی کا موقع ہر کسی کو ہی ملتا ہے۔ آپ نے ایک معصوم روح (بچے) سے فرعون بننے تک کا سفر بتا دیا، تو دیکھیں؛ فرعون کے پاس بھی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہدایت لے کر پہنچ گئے تھے۔ ہم لوگ تو فرعون سے بہت بہتر، ایک بہت عظیم امت کے اراکین ہیں۔ ہمیں تو جگہ جگہ ہدایت کے مواقع ملتے ہیں۔ ہاں، کچھ لوگوں کے دلوں پر مہر لگی ہو، تو وہ رب کا حکم! کوشش یہی کرنی چاہیے کہ خود احتسابی کی سولی پر سب سے پہلے خودی کو کھڑا کیا جائے۔ ہر عمل میں دیکھ لیا جائے کہ وہ ملک کے لیے نقصان دہ تو نہیں۔ جواب منفی ہو، تو سو بسم اللہ۔۔۔ ۔
آپ نے ایک آدمی کے بدلنے کی بات کی، تو ایک آدمی درحقیقت ایک خاندان کی اکائی ہوتا ہے، اور ایک خاندان معاشرے کی اکائی! یہی خوبصورتی ہے ہماری مشرقی تہذیب کی؛ یہاں خاندان معاشرے کی اکائی ہے۔ صرف میرا ہی بدل جانا، میرے ہونے والے خاندان کے بدل جانے اور پھر ایک معاشرے کے بدل جانے کے مترادف ہے۔

"اک دوست نے تبدیلی والی تحریر کے جواب میں یہ مراسلہ کیا تو میں نے اس کے جواب میں یہ اک لمبا مراسلہ دوبارہ لکھ مارا۔۔۔ بلاگ پر لگانے کا مقصد یہ تحریر گم نہ ہوجائے۔"
جوابی مراسلہ از احقر: خوداحتسابی کا موقع ملنا اور خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کتنی راتیں گزری ہیں زندگی کی جن میں آپ نے سونے سے قبل محاسبہ کیا ہے۔ کہ آج کیا برا کیا۔ کیا اچھا کیا۔ جھوٹ، کو مذاق اور بےایمانی کو بازار میں رائج قانون کا نام دے کر ہم نے کس کس گرہ سے دامن نہیں چھڑا رکھا۔ جہاں موقع ملا وہاں ہم نے کب کسی سے رعایت برتی۔ اور اب آجاتے ہیں فرعون والی بات کی طرف۔ ۔۔
فرعون اک تھا۔ اس کے پاس طاقت تھی۔ دولت تھی۔ اقتدار تھا۔۔ اس کے باوجود بھی وہ ہدایت پر نہ آیا۔۔ حالانکہ اللہ کا رسول اس کے ہدایت لے کر آیا۔ تو پھر سوچیئے۔۔۔ اک ایسا آدمی جس کے پاس نہ مال ہے، نہ طاقت کی انتہا، اور نہ اقتدار۔۔۔ وہ کس برتے پر یہ سب کر رہا ہے۔۔ جب کہ اس کے پاس سب سے مقرب نبی کی کتاب موجود ہے۔ "الفرقان"۔۔ جس کو وہ بچپن سے پڑھ رہا ہے۔۔۔ لیکن اک لفظ بھی اس کے دل کے اندر آگ نہیں جلا پا رہا۔۔ کیوں کہ جو تاثیر ان الفاظ سے اس کے وجود میں آنی چاہیے تھی۔۔ اس کا سارا رس مسجد کا خطیب چوس گیا۔ اب اس کے لیے وہ اک کتاب،، قسمیں اٹھانے، اور ثواب دارین حاصل کرنے کے لیے رہ گئی ہے۔ وہ بھول گیا کہ اس کے اندر فلسفہ حیات ہے۔
اور اب ذرا آجائیں۔۔ ہدایت کی طرف۔۔ کہ جی ہدایت کے موقع ملتے ہیں۔ مغرب نے تحقیق کے علم کی بنیاد رکھی۔۔ شک پر۔۔ شک کرو۔۔ پرکھو۔۔ جانچو۔۔۔ سمجھو۔۔ اور پھر اگر سمجھ میں آئے عمل کرو۔۔ دین نے کہا تجسس نہ کرو۔۔ ہم نے دین کی بات نہ مانی۔۔۔ ہم نے تجسس کیا۔۔ ہم نے شک کیا۔۔۔ اور ہر چیز کی تاویل تلاشنے لگے۔۔ یوں رفتہ رفتہ وہ علم ہم سے کھنچتا چلا گیا۔ شعلہ نوائی رہ گئی۔ عمل کی دولت چھن گئی۔ کیوں کہ علم پر اعتبار نہ رہا تو عمل بھی خاک کی چادر تان کر سو گیا۔۔۔ 
اب آجائیں ملک کے معاملات کی طرف۔۔۔ اک ایسا آدمی جو ہمیشہ اعلی نمبروں سے پاس ہوا۔۔۔ لیکن در بدر ٹھوکریں۔۔۔ داخلے کے لیے۔۔۔ آخر باپ نے سفارش ڈھونڈی اور داخلہ کرا دیا۔۔ اب جو تعلیم کا یہ دور شروع ہوا۔۔ جو شاندار عمارت وجود میں آنی تھی۔۔ اس کی بنیاد میں اک اینٹ سفارش کی لگ گئی۔ اس اینٹ نے اب اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ تعلیم کے بعد ملازمت کے حصول کی باری آئی۔ وہ ہزاروں اینٹیں بیکار گئی۔۔ کیوں کہ انہوں نے پہلے مطلوبہ نتائج نہ دیے تھے۔ تو اب کی بار بھی سفارش کی اینٹ اٹھا لی گئی۔ عملی زندگی کے دور کا سنگ بنیاد بھی اس اینٹ کی بدولت رکھ دیا۔ یا پھر رشوت دی۔ جب رشوت دے دی تو سوچا کہ یہ جو روپیہ میں نے دیا ہے۔۔ یہ واپس بھی تو لینا ہے۔ وہی دوڑ شروع ہوگئی۔ آخر اک بڑے مرتبے پر جا پہنچا۔۔۔ اب جن لوگوں نے اس وقت سفارش کی تھی۔ ان کے بچے آنا شروع ہوگئے۔ بقیہ زندگی ان کی سفارش کرتے گزر گئی۔ ریٹائر ہوگیا۔۔ مسجد میں اللہ اللہ کرنے لگا۔۔ نیک ہوگیا۔۔ ایسے میں ہمسائے سے اک بندہ اٹھا اور کہا کہ چلیے قبلہ میرے بیٹے کے لیے کوئی حوالہ فراہم کیجیے۔۔ اب پھر ادھر چل پڑا۔۔۔ تو وہ جو دو سال کی کمائی تھی۔۔ وہ بھی مٹی میں مل گئی۔۔۔ 
مجھے صرف یہ بتائیں کہ اس پورے عمل کے دوران بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اس کو خود احتسابی کا لفظ کس کس نصاب میں پڑھایا گیا۔ ملک کا فائدہ کیا ہے نقصان کیا۔۔۔ یہ اسے کہاں سکھایا گیا۔ دین کیا ہے دنیا کیا۔۔۔ فانی کیا ہے باقی کیا۔۔ اس کا درس اس کو کس معلم نے دیا۔۔۔ 
اک فرد اس طرح نہیں بدلتا جس طرح آپ نے کہہ دیا کہ بدل جائے تو خاندان بدل جائے۔۔ جب یہ ساری چیزیں نصاب کا حصہ ہی نہیں تو پھر کیا آسمان سے فرشتے اتریں گے جو فطرت کو بدل دیں گے۔۔۔ ۔ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔ تبدیلی اک نسل سے نہیں آتی۔۔۔ اپنی بیویوں کی تربیت کرو۔۔ اولاد کی تربیت کرو۔۔ ان کو اچھا برا بھلا سکھاؤ۔۔ وقتی فائدے پر نیکی کو ذبح کرنے کا ہنر مت سکھاؤ انہیں۔۔ پھر کہیں جا کر اس جوہڑ سے کائی ہٹے گی۔۔۔ یہ دریا جو سست روی میں سوکھ رہا پھر تبدیل ہو کر کسی روشن اور صاف سمندر کا حصہ بنے گا۔۔ اور اک صاف اور اجلی قوم جنم لے گی۔۔۔ ۔

Sunday 12 May 2013

تبدیلی کیوں نہیں آتی

0 comments
اندر کی تبدیلی چاہیے۔۔ مگر وہ کرپشن جو رگ رگ میں رچی ہے۔۔ آپ کو اک بات بتاتا ہوں
پرانے دور میں مغل بادشاہوں کے لیے اک کھانا بنا کرتا تھا۔۔۔ اس کا نام شاید دم پخت تھا۔ یا کچھ اور۔۔ لیکن اس کے نام سے کچھ ایسا خاص لینا دینا نہیں۔ وہ مرغے کو جب انڈے سے نکلتا تو اس کو زعفران، بادام اور پستے کھلائے جاتے۔۔ عرق گلاب میں ڈبو ڈبو کر خوراک دی جاتی۔۔ جب وہ مرغا بڑا ہوتا۔ تو اسکا پیٹ چیرچاول بھر کر ہلکی آنچ پر پکایا جاتا۔ تو زعفران اور عرق گلاب کی خوشبو سے وہ چاول مہک اٹھتے اور بادشاہ سلامت اس مرغے کے ذائقہ دار گوشت کے ساتھ تناول فرماتے۔۔
اب آتے ہیں اس بات سے تبدیلی کی طرف۔ بچپن سے اک بچہ کو کرپشن سکھائی جا رہی۔ ماں اسے کہہ رہی کہ ایسا کر لو۔۔ مگر دیکھو تمہارے باپ کو خبر ہوگئی تو بہت پٹو گے۔ باپ گھر پر ہے۔ وہ بچے کو کہہ رہا ہے کہ جاؤ۔۔۔ باہر جو بھی ہے اسے کہو کہ ابا گھر پر نہیں۔ اب وہ بچہ بڑا ہوا۔۔ اس نے دیکھا کہ تھوڑا سا جھوٹ بول کر بڑی مصیبتوں سے بچا جا سکتا ہے۔ استاد کو کہا سر کل پیٹ میں درد تھا۔ کام نہ کرسکا۔۔ معافی مل گئی۔۔ یہ کرپشن، جھوٹ اس کی رگوں میں رچتا بستا چلا گیا۔ بڑا ہوا یونیورسٹی میں داخلے کے لیے کرپشن۔۔۔ پھر جب ملازمت کے حصول کا وقت آیا تو کرپشن۔۔ اس نہج تک آتے آتے کرپشن، رشوت، جھوٹ اور دیگر بیماریاں اس طرح رگ و پے میں رچ بس گئیں، کہ ذات کا حصہ بن گئی۔ گناہ کا احساس ختم ہوگیا۔ برائی کو حق سمجھنا شروع ہوگیا۔
اب ایسے میں تبدیلی کی بات جب ہوگی تو اس سے مراد دوسروں کی تبدیلی ہے۔ کیوں کہ خود احتسابی کے عمل سے تو کبھی گزرا نہیں۔ ایمان کیا ہے۔ ایمانداری کیا ہے۔ دین کیا ہے۔ شریعت کیا ہے۔ طریقت کیا ہے۔ امامت کیا ہے۔ ان تمام الفاظ کے لغوی معنوں سے بھی ناآشنا۔۔ کجا یہ کہ ان سے وابستہ رمزوں کو سمجھ کر تبدیلی عمل میں لائی جائے۔
ان عوامل کی وجہ سے یہ سمجھ لیا جانا کہ ہاں تبدیلی کا عمل دوسروں سے شروع ہوتا ہے۔ اور کوئی دوسرا ہی آ کر سب سدھار سکتا ہے۔ اک فطری بات ہے۔ جب کوئی رشوت لے کر یہ سوچے کہ فلاں سیاسی سربراہ حکومت میں آئے گا تو یہ سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا۔ یا کوئی رشوت دیتے ہوئے سوچے کہ اگر فلاں کی حکومت ہوتی تو آج مجھے یہ نہ کرنا پڑتا۔ کسی دیوانے کا خواب ہی معلوم ہوتا ہے۔
اس تبدیلی کے عمل کو مدتیں لگیں گی۔ جذبہ چاہیے۔ پر وہ خطیب وہ جذبہ بیدار نہیں کر سکتا۔۔ جو خود اگر انتخابات کے عمل کا حصہ ہے تو کہہ رہا ہے کہ مجھے کامیاب کر کے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کریں۔ گویا دین کا ٹھیکیدار بنا ہے۔۔
باہمن بیٹھا ویکھ ریا واں
مسجد دے منمبر تے میں
ترجمہ:
برہمن بیٹھا دیکھ رہا ہوں
مسجد کے منمبر پر میں

پتا نہیں کیا کیا لکھتا جاتا ہوں۔ اوٹ پٹانگ باتیں کیے جا رہا ہوں۔ ذہن میں کیا کہانی ہے۔ آپ لوگوں کو بھی بور کر دیا۔۔ لیکن تبدیلی کا عمل شروع ہوگا۔ جس دن میں نے سوچ لیا کہ ہاں میں بدلوں گا۔ اس دن سے اس ملک میں اک آدمی بدل جائے گا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ تبدیلی صرف خود کو نیک کرنے سے نہیں آتی۔ برائی پر خاموش رہنے والا بھی برابر کا حصہ دار ہے۔ بقیہ اس ملک کے لوگوں کے لیے دو اشعار پر بات ختم۔۔۔۔

اوہی تاب تے اوہی کھنگاں
موسم کی سوا بدلے نیں
لکھاں وریاں تو ایہہ ریت ائے
ہوکے لوگ تباہ بدلے نیں
ترجمہ:
وہی غرور وہی تکبر
موسم کیا خاک بدلے ہیں
لاکھوں سالوں سے یہ ہے ریت
ہو کے لوگ تباہ بدلے ہیں

Thursday 9 May 2013

بھوک ڈھل نہیں سکتی۔۔۔

0 comments
یہ شہر سے باہر جانے والی سڑک تھی۔ شہر سے نکلتے ہی اسی سڑک کے ساتھ ساتھ خانہ بدوشوں کی بے شمار جھونپڑیاں تھیں۔ وہیں پر بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ کوئی کم سن بچہ کسی کار کے نیچے آکر کچلا گیا تھا۔ مغرب کے قریب کا وقت تھا۔ اور بچہ جھونپڑیوں سے نکل کر ایکا ایکی کار کے سامنے آگیا۔ نتیجہ کے طور پر جو ہوا سب کے سامنے تھا۔ کار والا بے بسی سے ہاتھ مل رہا تھا۔ وہ شکل و صورت سے کسی متمول گھرانے کا فرد لگتا تھا۔ بے انتہا کوشش کے باوجود وہ اس ننھے کی جان نہ بچا سکا تھا۔ سب لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ کار والے کا قصور نہیں۔ پر کسی کی جان لینے کا بوجھ اس کے دل پر سوار تھا۔ پولیس آگئی۔ اور فریقین کے درمیان کاروائی اور وہاں موجود لوگوں کے بیانات کے بعد کچھ معاملات طے پا گئے۔ کار والے نے بچے کے باپ کو دو لاکھ اپنی طرف سے ادا کیے کہ کچھ وہ اس کے غم کا مداوا کر سکے۔
دن گزر گئے۔ لوگ اس حادثہ کو بھول گئے۔ وقت نے صبح و شام کے پیراہن میں اپنا سفر جاری رکھا ۔
وہ اک بہت ہی سخت دن تھا۔ کم از کم اس جھونپڑی میں بسنے والوں کے لیے۔ دو دن سے فاقہ تھا۔ جھونپڑی کے اندر موجود چار بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔ اک سال کے قریب عمر کا بچہ ماں کی گود میں تھا۔ پر بھوک کو اس کی معصومیت پر کوئی ترس نہیں آ یا تھا۔ اور نقاہت کے سبب اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔
ماں کبھی اپنے بچوں کو دیکھتی اور کبھی سر جھکا کر رونا شروع کر دیتی۔ پر بچوں کو ان آنسووں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ان کا تقاضا تو روٹی تھا۔ جس کا وجود اس جھونپڑی سے عنقا تھا۔ آخر ماں کے جی میں کوئی بات سما گئی۔ اس نے بچوں سے کہا کہ اب سب خاموش ہو جاؤ۔ میں تمہارے کھانے پینے کے لیے روٹی کا کوئی بندوبست کرتی ہو۔ ماں کے تسلی کے چند الفاظ بھی بچوں کی بھوک کو کم نہ کر سکے۔ مگر اک امید سے ان کی آنکھیں جگمگا اٹھیں۔ ماں نے چھوٹا بچہ اٹھایا اور باہر نکل گئی۔ اور باقی سب جھونپڑی کے دروازے پر لٹکے پردے پر آنکھیں ٹکا کر بیٹھ گئے۔
سڑک کنارے ہجوم جمع تھا۔ موڑ کے ساتھ ہی اک حادثہ ہو گیا تھا۔ لوگوں کی آنکھیں پر نم تھیں۔ چھوٹا سا قریب ایک سال کی عمر کا بچہ پتا نہیں کہاں سے بیچ سڑک آگیا اور اک ٹرک کے نیچے آ کر کچلا گیا تھا۔
رات کو جھونپڑی سے بچوں کے رونے کی کوئی آواز نہیں تھی۔ ہاں اک ماں کی سسکاریاں کبھی کبھی بلند ہو کر سناٹا چیر رہی تھیں۔

الف نون اور الیکشن

2 comments
نون سیٹی بجاتا جیسے ہی گلی کا موڑ مڑا اسے الف اک سائیڈ پر کسی سند سافتہ نشئی کی طرح گلی میں تقریبا لیٹا دکھائی دیا۔ اس نے اپنی بے ڈھنگی اور بے تحاشہ لمبی ٹانگیں یوں پھیلا رکھی تھیں کہ راستہ آدھا بند ہوچکا تھا۔ اور اسکا سر اس کے شانوں پر ڈھلکا ہوا تھا۔ پہلی نظر میں تو نون کو گماں گزرا کہ شاید گماں کے گزرنے کے ساتھ ساتھ الف بھی گزر گیا۔ سیٹی رک گئی۔ ابرو اوپر چڑھائے۔۔ غور سے دیکھا۔۔ اور پھر اپنے منحوس خیال کو صحیح ثابت کرنے کو وہ بھاگا بھاگا الف کے پاس پہنچا۔ تین چار آوازیں دیں۔ پرالف کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ حالانکہ جوؤں کے معاملے میں وہ ہمیشہ سے خود کفیل تھا۔ پاؤں سے ٹھوکر لگانے پر بھی کچھ اثر نہ ہوا۔ اب نون نے اس کی اوپر والی جیب سے دس روپے نکالنے کی کوشش کی۔ جس پر الف فورا بولا۔۔۔
روپے مت نکال نون۔۔ مرا نہیں اداکاری کر رہا ہوں۔۔۔ ۔۔
نون اپنی چال ناکام جانے پر تلملا کر بولا۔۔۔ تو روپے کون نکال رہا تھا۔۔۔ اتنے سے تو اب پاپڑ بھی نہیں آتا۔۔۔ تیری تو قبر سے بھی کوئی کچھ نہیں چرا سکتا۔۔۔
الف اس پر مخصوص انداز میں اپنی ہنسی ہنسنے لگا۔۔۔ جسے نون نے دنیا کی بدترین ہنسی کا خطاب دے رکھا تھا۔۔۔
دونوں اٹھ کر گلی کے سرے کی طرف چل پڑے۔۔۔
راستے میں الف بولا۔۔ اداکاری دیکھی تو نے میری۔۔۔ کیسی کمال ہے۔۔
ہیں!!! کونسی اداکاری۔۔۔ نون حیران ہو کر بولا۔۔۔
اوئے مریں۔۔۔ یہ جو ابھی میں گلی میں لیٹا کر رہا تھا۔۔۔ الف غصے سے بولا
اس کو اداکاری نہیں ڈرامہ بازی کہتے ہیں۔۔۔ نون نے بلا توقف جواب دیا۔
یار تو نے دل توڑ دیا۔۔۔ الف بولا۔ تجھے معلوم ہے کہ میرے اندر اک سیاستدان کی تمام خوبیاں موجود ہے۔۔۔ میں اک ایسا لیڈر ہوں جس کی دنیا کو قدر نہیں ہے۔
اور تیرے گھر والوں کو بھی نہیں ہے۔۔۔ نون نے مطمئن انداز اضافہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ۔
الف کینہ توز نظروں سے نون کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ جس کے تیرے جیسے یار ہوں اس کو مرنے کے لیے بہانے کی کیا ضرورت ہے۔۔
تو پھر کیا ارادہ ہے تیرا۔۔ نون نے بھی کمینی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔۔۔
نہیں مروں گا۔۔۔ تیرے سر پر سوار رہوں گا۔۔۔ الف نے بھی جوابی کمینی مسکراہٹ سے حملہ کیا۔۔۔
جانتا تھا۔۔۔ میرے اتنے نصیب کہاں۔۔۔ نون نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا
اچھا میرے پاس اک بہترین خیال ہے۔۔ الف بولا
ہمیشہ کی طرح جو بعد میں بدترین ثابت ہوگا۔۔۔ نون نے متاثر ہوئے بغیر جواب دیا
یار اک تو تو شک بہت کرتا ہے۔۔۔ دیکھ پہلے جو گزر گیا گزر گیا۔۔۔ ۔ اسے بھول جا۔۔۔ ۔
کیسے بھول جاؤں۔۔ یارِ ماضی عذاب ہے یارب۔۔۔
یہ یار نہیں یاد ہے۔۔۔ الف نے تصحیح کرنے کی کوشش کی۔۔۔
تو یاد کی بات کون کر رہا۔۔ میں تو تیری بات کر رہا ہوں۔۔۔ نون نے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔
دیکھ یار۔۔۔ میری بات غور سے سن۔۔۔ ہم دونوں ہی اک دوسرے سے مخلص ہیں۔۔۔ سمجھ بات کو۔۔۔ الف نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔۔۔
تو اب تیرے خلوص کی خاطر ساری عمر جوتیاں کھاتا رہوں۔۔ نون چڑچڑے پن سے بولا۔۔۔
نہیں یار تو پہلے خیال تو سن لے۔ الف بولا۔۔ ناپسند آئے تو رد کردینا۔۔۔
اچھا سنا۔۔۔ نون نے الف کی گزری اور آنے والی تمام پشتوں پر احسان کرتے ہوئے۔۔ مابدولت ہمہ تن گوش ہیں۔۔
تجھے پتا ہے اک دو دن میں الیکشن ہونے والے ہیں۔۔ اور انتخابی مہمات اس وقت عروج پر ہیں۔۔
ہم م م م م م م م
اتنی لمبی ہمم کی ضرورت نہ تھی۔۔ الف چڑ کر بولا۔۔۔
کیا تو الیکشن سے پہلے اپنا خیال بیان کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔۔۔ نون اس کے چڑنے کو نظرانداز کر کے بولا۔۔۔
دیکھ وقت پر خیال نہیں آیا۔۔ ورنہ میں انتخابات کے لیے آزاد امیدوار اپنے کاغذات جمع کرا دیتا۔۔۔
اس بات پر نون چلتے چلتے رک گیا۔۔۔ سر سے پاؤں تک الف کو دیکھا۔۔۔ اور حیرت سے بھنویں اچکائیں۔۔
اس پر الف تلملا گیا۔ اور کہنے لگا۔۔ دیکھ یار۔۔ تجھے میری ذہنی حالت پر شک کرنے کا کوئی حق نہیں۔۔۔
میں شک کر بھی نہیں رہا۔۔ ۔
خیر۔۔ وقت گزر گیا۔۔ اب آگے؟ نون نے پوچھا۔۔۔
میرے پاس اک بہت زبردست خیال ہے۔۔ الف نے دوبارہ سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے۔۔
یہ بات ہم پچھلے دوگھنٹے سے کر رہے۔۔۔ نون تلملا اٹھا۔۔۔
تو اپنی زبان خاموش رکھے تو میں بات کروں۔۔ الف بھی جوابی تلملاہٹ کے ساتھ بولا
نون نے یوں ہونٹ بھینچ لیے جیسے اب قیامت تک نہ بولے گا۔۔۔
دیکھ یہ جتنے بھی سیاست دان ہیں۔ ان کو نعرے مارنے ، کارنر میٹنگز میں آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔
جواب میں نون نے صرف سر ہلایا۔۔۔
اگر ہم ایسے ہی کسی سیاستدان کے لیے اپنی خدمات مہیا کریں تو یقینا اچھی خاصی آمدن کا ذریعہ بن سکتا ہے۔۔۔
نون نے حیرانگی سے الف کو دیکھا
ایسے کیا دیکھ رہا ہے۔۔ الف نے کہا
میں سوچ رہا ہوں اتنی عقل کی بات اتنی کڑکی کے دور میں تیرے دماغ میں آئی کیسے۔۔۔
یار تو نے کبھی قدر نہیں کی ورنہ میرے زرخیز دماغ میں تو ایسے ایسے خیالات ہیں۔۔۔ کہ بس۔۔
اچھا بس بس۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن کس کے پاس جائیں۔۔۔ سوال یہ ہے۔۔۔ ۔ نون نے استعجابی انداز میں پوچھا
لو یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔۔۔ الف ہنس کر بولا
اپنا علاقے میں جو اس پارٹی کا نمائندہ ہے۔ اس سے بات کرتے ہیں۔۔۔ پڑھے لکھے لوگوں کی تو ان دنوں اشد ضرورت ہے۔۔۔
پڑھے لکھے!!! یاحیرت۔۔۔ نون کو دھچکا لگا۔۔۔ ۔ تیری طبیعت تو ٹھیک ہے یار۔۔۔ آج تو تو بالکل ہی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے۔۔۔
دیکھ یار اس کاروبار میں بڑا منافع ہے۔ تو حصہ دار بن رہا ہے یا میں اکیلا جاؤں۔ الف نے گویا دھمکی دی۔۔۔
اچھا رک ناں۔۔۔ ہر بات پر لڑنا نہ شروع ہوجایا کر۔۔۔ چل چلتے ہیں اکھٹے۔۔۔
دونوں اک پارٹی کے مرکزی دفتر جاپہنچے۔۔۔ جو گزشتہ عرصہ میں صاحب اقتدار تھی۔ کیوں کہ دونوں کا خیال تھا کہ ان لوگوں نے کافی حرام جمع کیا ہوگا۔ جو وہ بےدریغ لٹائیں گے۔
گیٹ پر موجود چوکیدار نے دونوں کو روک لیا۔۔۔ کدھر جا رہے ہوں منہ اٹھا کر۔۔۔ ۔
دیکھو بھئی ان ٹیلنٹ زدہ نوجوانوں کو تم نہیں روک سکتے۔۔۔ نون نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا
اتنی دیر میں الف شان بےنیازی سے اندر داخل ہوچکا تھا۔ نون نے بھی چھلانگ لگائی اور اندر داخل ہوگیا۔
دونوں منتظم کے کمرے میں جا پہنچے۔
منتظم ان کی آمد کا سبب سن کر خوشی سے پھولا نہ سمایا کیوں کہ ان کے پاس کوئی بھی ایسا آدمی نہ تھا۔ جو اس سیاسی جماعت کے نام پر کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہوتا۔
اس منتظم نے کہا کہ اگر تم ہمارے لیے نعرے لگاؤ۔ اور اپنے محلے میں پارٹی کے لیے سیاسی تحریک چلاؤ تو ہم تم کو ہزار روپیہ یومیہ دیں گے۔ دو دن میں تم دو دو ہزار کما لوگے۔ یہ سن کر دونوں خوشی سے پھولے نہ سمائے۔
امیدوار کا نام بوٹا تھا۔ اور اسکا ٹیوب ویل لگانے کا کاروبار تھا سیاست سے پہلے۔۔۔ الف نے فورا نعرہ بتایا کہ دیکھیں جی
زیادہ پانی کا ایک ہی حل
بوٹا ٹیوب ویل بوٹا ٹیوب ویل
اس پر وہ منتظم بولا ہمیں دکان کی مشہوری نہیں کرانی۔۔ سیاسی نعرے بناؤ نوجوانو۔۔۔ ۔ اب جاؤ اور کل تمہیں وہاں پر ٹینٹ لگا کر ضروری بیج اور جھنڈے دے دیں گے۔ تاکہ سیاسی تحریک زور پکڑے۔
اس پر نون نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ کہ اگر آپ آدھی اجرت پہلے دے دیں۔ کیوں کہ ہماری مہم چلانے کے بعد جیت پکی ہے۔ اور پھر آپ نے پہچاننا بھی نہیں۔
اس پر وہ منتظم مسکرا کر بولا۔۔۔ بڑے ہشیار ہوتے جار ہے ہیں آج کے نوجوان۔۔۔
اور دونوں کواک اک دن کی اجرات ادا کردی۔۔
دونوں خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ جا کر سیدھا فضلو کے کھوکھے پر چائے کا حکم جاری کیا۔ اس نے کہا کہ پہلے پرانا حساب چکتا کرو۔۔۔
اس پر دونوں نے بے ساختہ قہقہہ لگایا۔۔ اورکہا۔۔۔ جا چائے سے پہلے پرانا حساب لا۔۔۔ ۔
فضلو حیران رہ گیا۔۔ وہ کاپی اٹھا کر لایا۔۔۔ کیوں کہ دونوں اک اک چائے کا کپ گنا کرتے تھے۔۔ پر آج تو تیور ہی دونوں کے اور تھے۔۔۔ لاپرواہی سے اسکو روپے تھمائے اور کہا جا دو دودھ پتی لے کر آ۔۔۔ خبردار جو پانی کا اک قطرہ بھی ڈالا۔۔۔
چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دونوں پر امارت کا نشہ چھایا ہوا تھا۔۔۔ اک اک چائے اور پی گئی۔
اسکے بعد دونوں ریل کی پٹریوں کے پاس آکر اپنے مخصوص ٹھکانے پر آکر بیٹھ گئے۔ اور کل کے دن کے لیے پروگرام ترتیب دینے لگے۔

اگلی مژدہ صبح نشاط کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی لائی۔ دونوں تیار ہو کر گامے دہی والے کی دکان کے سامنے پہنچ گئے ۔ الف نے اپنا مخصوص مچھر مارکہ پرفیوم لگا رکھا تھا۔ شلوار قمیص کے ساتھ اک عدد واسکٹ بھی پہن رکھی تھی۔ جس پر نون کو شبہ تھا کہ اس کے داد نے کسی مرے انگریز سے اتروائی تھی۔ اور ادھر نون نے بھی اک اعلی نسل کا لنڈے کا ٹراؤزر جس کے بارے میں اسکا دعویٰ تھا کہ گورا صرف اک بار پہن کر ہی مر گیا تھا۔ اور یہ بکنے کے لیے برطانیہ سے سیدھا ادھر پاکستان آپہنچا۔۔ جبکہ الف کے تعصبانہ خیالات کچھ اور تھے۔ اور اس کے ساتھ اک ٹی شرٹ جو کئی جگہ سے پھٹ چکی تھی اور مختلف رنگوں میں سلوا کر فیشن کے نام پر پہن رکھی تھی۔ ساتھ میں اپنا پسندیدہ اگر بتی کی خوشبو والا سپرے کر رکھا تھا۔ دولت کی فراوانی کے سبب دونوں نے لسی کے وڈے گلاس آرڈر کیے۔ اور اک دوسرے پر فاتحانہ نظر ڈالتے بینچ پر براجمان ہوگئے۔
ان تمام تکلفات کے بعد دونوں مرکزی دفتر پہنچے۔ وہاں سے منتظم نے جھنڈے، بیجز اور منشور کے پرچہ جات ان کے حوالے کیے۔ ان کے لیے ٹینٹ لگوا دیے۔ اور کہا کہ شام کو بوٹا صاحب خود تمہارے اس ٹینٹ میں آئیں گے۔ تم اتنی دیر لوگوں کو جمع کرو۔ اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس پارٹی کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرو۔
دونوں بڑی خوشی خوشی اپنے محلے میں لگے پارٹی کے شامیانے میں آکر بیٹھ گئے۔ اور سارا نظم و نسق سنبھال لیا۔
ایسے میں الف بولا۔۔۔ یار تو نے اک بات نوٹ کی۔۔۔
وہ کیا۔۔ نون نے پوچھا
وہ یہ کہ ابھی تک کچھ برا نہیں ہوا۔۔۔
تو ہے ہی منحوس۔۔۔ کبھی اچھی بات منہ سے نہ نکالیں۔۔۔ ۔
اتنے میں دو محلے کے بزرگ وہاں سے گزرے۔ دونوں نے بھاگ کر ان کو بلایا۔ اور پارٹی کا منشور سمجھانا شروع کیا۔ لیکن انہوں نے بجائے کوئی بات سننے کے گالیاں دینی شروع کردیں۔۔۔
الف اور نون نے اک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اور کان لپیٹ کر واپس شامیانے کے نیچے آکر بیٹھ گئے۔۔
اس کے بعد تو جیسے تماشہ ہی شروع ہوگیا۔ جو بھی وہاں سے گزرتا۔۔ جاننے والا نہ جاننے والا۔۔۔ کچھ مغلظات بک کر جاتا۔۔۔
دونوں پریشان تھے کہ آخر ان کا کیا قصور ہے۔
پورا دن انہوں نے سب سے گالیاں کھاتے گزار دیا۔۔ گرچہ یہ کوئی پہلی بار نہ تھا۔۔۔ لیکن پھر بھی دوسروں کے کیے دھرے پر گالیاں کھانے کا یہ پہلا ہی تجربہ تھا۔۔۔
دیکھ یار یہ بوٹا تو بہت ہی نامراد ہے۔۔۔ نون آخر غصے سے بولا۔۔
کیوں ! الف نے یوں پوچھا جیسے کوئی بڑی عجیب بات کردی ہو۔۔۔
دیکھ یار۔۔۔ اس نے پانچ سال خوب لوٹا۔۔۔ اور اب لوگ گالیاں ہمیں دے رہے ہیں۔۔ یہاں بیٹھنے کی وجہ سے۔۔۔ میں تو کہتا ہوں نکلتے ہیں۔ شام میں آجائیں گے۔ گھوم پھر کر۔۔۔
تو ہم اس کو ووٹ نہ دیں گے۔۔ الف نے کہا۔۔۔ لیکن اس وقت تو ہم دونوں روزی کما رہے ہیں۔۔ اور رزق کو لات مارنا مناسب نہیں۔۔۔
ہمم م م م م ۔۔۔ ۔ لیکن اتنی مزدوری نہیں ملنی جتنے کی گالیاں پڑ رہی ہیں۔۔ نون نے دکھ سے کہا
کونسا پہلی بار پڑ رہی ہے۔۔ اور پھر ہم اس کام کی اجرت بھی وصول کرچکے ہیں۔ الف نے اپنی مخصوص ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
آج تجھے بڑی ایمانداری کا سبق یاد آرہا ہے۔۔ اور پھر دونوں ہنسنے لگے۔۔
شام کو بوٹا وہاں کافی لوگوں کو ساتھ لے کر آیا۔ اور ان دونوں کی محنت کو خوب سراہا۔۔ لوگوں سے ملا۔۔ اور وہ تمام لوگ جو صبح سے ان کو گالیاں دے رہے تھے۔ اس کے سامنے خاموش ہوگئے۔ بلکہ الٹا اس سے مطالبات کرنے لگے کہ یہ کام ہوجائے وہ ہوجائے تو اچھا ہے۔۔۔
الف نے نون کے کان میں کہا۔۔۔ تو دیکھ رہا ہے۔۔ منافقت کیسے لوگوں کی رگ رگ میں ہے۔ اس لیے ہم دونوں بھائی اس معاشرے میں ذلیل ہیں۔
ہاں ہار۔۔ الف نے بھی اپنا متیرے جیسا سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔ واقعی۔۔۔ اب کوئی دے سہی مجھے گالی اس کے جانے کے بعد۔۔۔ ۔
بوٹا کے جانے کے بعد نون اور الف کینہ توز نظروں سے محلے کے لوگوں کوگھورنے لگے۔
کہ یکایک الف کو خیال آیا کہ انہوں نے جس پارٹی کو ووٹ دینا ہے۔ اس کا لیڈر بھی تقریر کے لیے قریبی پنڈال میں جلسہ کر رہا ہے۔۔
وہ دونوں وہاں سے نکل کر سیدھا پنڈال پہنچے اور تقریر سننے لگے۔ ایسے میں اس لیڈر کے ساتھیوں کی نظر ان دونوں پر پڑ گئی۔۔ اور انہوں نے شور مچا دیا کہ یہ بوٹا کے جاسوس یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔ یہ سننا تھا کہ دونوں کے کان کھڑے ہوگئے۔۔ پرانی ماریں کھا کھا کر دونوں کو ہجوم کے ارادوں کا اندازہ ہو رہا تھا۔ چند لڑکے ان کی طرف بھاگے۔ مگر اس بار دو دونوں بجلی کی سی سرعت سے وہاں سے نکل لیے۔ اور سرپٹ اپنے مخصوص ٹھکانے کی طرف دوڑنے لگے۔ لڑکے کچھ دیر تک تو ان کے پیچھے آئے۔ لیکن پھر پلٹ گئے۔
ریل کی پٹریوں کے کنارے پہنچ کر دونوں نے پیچھے دیکھا۔۔ کسی کو نہ پا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اور سانس برابر کرنے لگے۔۔ پہلی بار وہ کسی ہجوم سے پٹے بغیر بچ نکلنے میں کامیا ب ہوئے تھے۔
دونوں نے وہاں بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ روپے کے لیے کسی سیاسی مہم کا ساتھ نہ دیں گے۔ بوٹا امیدوار کے مرکزی دفتر جا کر منتظم کو جتنی گالیاں سنی تھی پورا دن ساری بتائیں۔ اور کہا کہ اب اور گالیاں سننے کا حوصلہ نہیں۔۔۔ اس نے روپے بڑھانے کا لالچ دیا۔۔ لیکن دونوں اس کو سلام کر کے اپنے گھر کا راستہ ناپنے لگے۔
واپسی پر الف نے نون کو سوچ میں گم دیکھ کر کہا۔۔۔ ۔ تو بھی وہی سوچ رہا ہے جو میں سوچ رہا ہوں۔۔۔
ہاں۔۔۔ نون نے سر ہلاتے ہوئے کہا
پہلی بار ایمانداری سے کوئی کام کیا تھا۔۔۔ وہ بھی راس نہ آیا۔۔۔ اس لیے کہ پہلے ہم ایمانداروں کے ساتھ بےایمانی کرتے تھے۔ اور اب بےایمانوں کے ساتھ ایمانداری کی کوشش کر رہے تھے۔
اور دونوں اک پھیکی ہنسی ہنس کر سر جھکا کر چلنے لگے۔