Monday 15 January 2018

تتلیاں

0 comments

ہمارے گھر کے باہر کافی کثیر تعداد میں درخت اور پودے موجود تھے۔ انہی پودوں اور پھولوں پر رنگ برنگی تتلیاں منڈلایا کرتی تھیں، اور ہم انہیں پکڑا کرتے تھے۔ کبھی تتلی پکڑ کر چھوڑ دیتے۔ اور کبھی وہ ہماری گرفت کی تاب نہ لا کر چل بستی۔ گو کہ ہم بہت احتیاط سے کام لیتے تھے مگر اجل پر کس کا زور ہے۔ تتلیوں کے رنگ ہمارے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی پر رہ جایا کرتے تھے۔ اور وہی ہماری ٹرافی ہوا کرتی تھی۔ بدقسمتی سے لاہور شہر میں تتلیاں بہت کم نظر آتی ہیں۔ بلکہ شاید دھواں، آلودہ فضا اور کٹتے درختوں نے یوں بھی پرندوں اور ایسی خوبصورت مخلوق کو شہر سے باہر دھکیل دیا ہے۔ اسی سلسلے میں جلو بوٹینیکل گارڈن جانے کا پروگرام بنایا کہ کچھ تتلیاں اور کچھ پودے اکھٹے ایک جگہ دیکھ لیے جائیں۔

شدید حبس کا موسم تھا۔ آسمان بادلوں نے گھیر رکھا تھا مگر بارش کے قطروں کی پہلے آپ پہلے آپ کی بحث ابھی جاری تھی۔ درخت یوں ساکن تھے گویا بت ہوں۔ کبھی کسی درخت پر پرندوں کے بیٹھنے اور اڑنے سے کچھ پتے ہل جاتے، تو باقی پتے ان کو یوں حیرت سے تکتے محسوس ہوتے جیسے کسی ایک بچے کی شرارت پر باقی بچے اس کو دیکھتے ہیں، گویا کہہ رہے ہوں، اب تمہاری وجہ سے سب کو ڈانٹ پڑ سکتی ہے۔ اکا دکا منڈلاتی تتلیاں نظر آئیں تو کیا کیا زمانے یاد آئے۔ میں راہ میں چلتے ہوئے  دوسرے اور اپنے بچوں کو دیکھنے لگا۔جن کے لیے پھولوں پر تتلیوں کے بیٹھنے کے منظر میں کوئی دلچسپی و دلکشی نہ تھی۔ وہ بالکل بڑوں کی طرح وہاں سے گزرتے جاتے تھے۔ بغیر متوجہ ہوئے۔میں چاہتا تھا میرے بچے تتلیوں کے پیچھے بھاگیں۔ مگر یہ خواہش میرے گلے میں کہیں گھٹ گئی تھی۔ کتنی سنجیدگی بھرتی جاتی ہے۔ جاذبیت اب بےنام رنگوں اور جعلی مناظر تک محدود ہوگئی ہے۔

یوں ہی چھوٹے چھوٹے باغیچوں سے گزرتے گزرتے ایک چھوٹے سے بچے نے میری توجہ کھینچ لی۔ وہ ایک شوخ رنگ کی تتلی کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ایک بوڑھے بزرگ جو انداز سے اس کے دادا معلوم ہوتے تھے اس کے پیچھے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ وہ بچہ گردوپیش سے بےخبر اس تتلی کو پکڑنے میں مصروف تھا۔ تتلی کبھی ایک پودے پر بیٹھتی کبھی دوسرے پر۔ بچہ اس کے پیچھے گھات لگائے جاتا مگر قریب پہنچنے پر وہ اڑ جاتی۔ بچے کے دادا بچے کے کھیل سے شاید اکتاہٹ محسوس کرنے لگے تھے۔ آخر انہوں نے بچے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ “آؤ چلیں! اس بیکار کام سے کچھ حاصل نہیں۔ تم اگر اس کو پکڑ بھی لو گے تو ہاتھ پر ایک کچے رنگ کے سوا کچھ نہ رہے گا۔” بچہ مایوس سا ہو کر بزرگ کے پاس آگیا۔ اس کے معصوم منظر پر بزرگ کی اس بات نے سیاہ رنگ کر دیا ہوگا۔

ہم جب بوٹینیکل گارڈن سے باہر نکلنے لگے تو بارش چھما چھم برسنے لگی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے دل و دماغ کو ایک تازگی دے دی تھی۔ پودے اور درخت دھل رہے تھے۔ پتے بارش اور ہوا کا لمس پا کر دائیں بائیں شرارت سے جھوم رہے تھے۔ شاید برستی بارش نے ان پر مستی کی کیفیت طاری کر دی تھی۔ اور میں ان برستے قطروں میں سے وہ پہلا قطرہ ڈھونڈنا چاہ رہا تھا جو “پہلے آپ ” کی بحث سے اکتا کر نیچے کو چل پڑا تھا۔

آج نئے سال کے پہلے دن مجھے وہ بچہ یاد آرہا ہے جو رنگین تتلیوں کے پیچھے بھاگتا پھرتا تھا۔ ان کا لمس پا کر خوش ہوتا اور ان کے کچے رنگ کو اپنی پوروں پر دیکھتے پہروں نہیں تھکتا تھا۔ مگر پھر عمرِ رواں نے اس منظر میں مزید منہمک نہ رہنے دیا۔ نئی عمر کی تتلیاں، نئے رنگوں کے ساتھ آموجود ہوئیں۔ ان کا لمس، ان کے رنگ، بچپن کی تتلیوں سے کہیں زیادہ دلفریب لگتے تھے۔ ڈھلتی عمر اور بالوں میں بڑھتی چاندی لیے، میں اسی سوچ میں ڈوبا ہوا ہوں کہ ایک سال گزر گیا۔ کچھ رنگ پوروں پر جمے ہیں۔ کچھ ادھ موئی خواہشات طاقچوں میں دھری ہیں۔ کچھ تتلیاں دور کتنے خوبصورت باغ میں پھر رہی ہیں۔ خواہش ہے کہ آگے بڑھ کر ان کو چھو لوں۔ ان کو پکڑ لوں۔ ہر عمر، ہر دور کی اپنی تتلیاں ہیں۔ ان کے اپنے منظر ہیں، اور اپنی کشش ہے۔ مگر ان سارے مناظر میں، ان ساری تتلیوں میں سب سے خوبصورت اور دلفریب بچپن کی تتلیاں ہیں۔گزرتی عمر کے ساتھ ساتھ انسان جن تتلیوں کے پیچھے بھاگتا ہے وہ حاصل ہونے پر کریہہ الصورت اور بدنما محسوس ہوتی ہیں۔ ان کے رنگ پیشانی پر لکیروں کی صورت چمکنے لگتے ہیں۔ ہر کوئی حقیقت سے باخبر ہونے کے باوجود اپنے اپنے منظر میں اپنی تتلیوں کو چھو لینے کی آس لیے ان کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہے اور خود اس کے پاس ہر دوسرے شخص کے مناظر اور خواہشوں کے لیے ایک ہی فقرہ ہے۔ اسی بوڑھے کا فقرہ۔