Monday 30 November 2015

قصہ پھر ایک اور دن کا

8 comments
مجھے آج تک اس بات پر حیرانی ہے کہ تاریخ کون لکھتا ہے۔ کیا تاریخ اسی وقت لکھی جاتی ہے جب کوئی واقعہ رونما ہو۔ یا اس کے صدیوں بعد کوئی مؤرخ اٹھ کر آدھے سچے آدھے جھوٹے واقعات اٹھا کر اپنے تخیل کو بروئے کار لا کر تاریخ مرتب کرتا ہے۔ خیر اگر مؤرخ نے تاریخ کو بعد میں لکھنا ہے تو ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم اس کو مناسب معلومات فراہم کرتے جائیں۔ ذیلی واقعے کا مطالعہ کرنے کے بعد مؤرخ جب تاریخ لکھے گا تو چھے نومبر2015 کا دن سنہرے حروف سے لکھے گا۔ خدا کی بےنیازی کے جن مظاہر کا مشاہدہ اُس دن اِس نگاہ رندی نے کیا بلا شبہ آنے والے دنوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

مولوی اور چوہدری ہمارے ایسے دوست ہیں جن کو صرف ہم اپنا دوست نہیں کہتے ، بلکہ باقی تمام لوگ بھی انہیں ہمارا دوست سمجھتے ہیں۔ یہ دو احباب دنیا میں کس طرح جلوہ افروز ہوئے ہمیں آج تک اس پر حیرت ہے۔ شانِ نزول اس خیال کی یہ ہے کہ دونوں آخری لمحات میں بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتے ہیں۔ کیا خبر عالمِ ارواح سے جو فرشتہ ان کو دنیا لانے کے لیے مقرر ہوا تھا اسی سے کوئی ساز باز کر کے وہیں سے واپس پلٹ جاتے کہ میاں ابھی اس دنیا میں جانے کا وقت نہیں ہوا ۔ ہماری ذاتی رائے یہی ہے کہ انہوں نے فرشتے سے کہا ضرور ہوگا کہ میاں واپس لے چل، پتا نہیں دنیا میں کیسا ماحول ہو۔ مگر اس نے فرشتہ خدا نے اپنے فرائض سے کوتاہی نہ کی اور ان کو عالم ناسوت میں لا پھینکا۔

ہم دوستوں نے گھومنے کا جب بھی کوئی منصوبہ بنایا ہے چوہدری اور مولوی نے آخری لمحات میں وہ حالات پیدا کیے ہیں کہ ہم خود گھوم کر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس منصوبے کو فی الوقت عملی جامہ پہنانے سے روک دیا جائے۔ ہر منصوبے کو ڈبونے کے بعد وہ دونوں فاخرانہ انداز میں باقی احباب پر رعب جماتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تنسیخ کا فیصلہ تو تم سب کا ہی تھا۔ ہم نے تو کہا تھا کہ ہمارے بغیر چلے جاؤ۔ ہم خود کو برف مزاج بھی اسی لیے کہتے ہیں کہ ہمارے سو فیصد منصوبے انہی دونوں کی ایسی کارستانیوں کے سبب کبھی عملی طور پر آگے نہیں بڑھتے۔

گزشتہ چند دنوں سے موسم بےحد خوبصورت تھا۔ ایسے میں جب ہم دفتر کی خشکی میں دھنسے ہوتے تو کوئی دفتری ساتھی آکر بتاتا کہ آج وہ اس خوبصورت مقام پر گیا اور واللہ کیا مناظر تھے، دوسرے دن کوئی اور آکر کسی اور ہی خوبصورت و دلکش منظر کا نقشہ کھینچ رہا ہوتا تھا۔ موسم کی خوبصورتی اور احباب کی مہمیز کرنے والی داستانوں سے ہمارا برف مزاج اور " صنف بےانتہا کرخت" پر مشتمل گروپ بھی بھڑک اٹھا۔

"کل ہم کھانا پیر سوہاوہ کھائیں گے۔ " مولوی نے اپنی طرف سے حتمی انداز میں اعلان کرتے ہوئے کہا ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بقیہ برف مزاجوں نے اس کو سخت نظروں سے یوں گھورا جیسے آنکھوں سے ہی ایک آدھا برف کا تودہ اس جذباتیت پر گرا کر اس کو ٹھنڈا کرنا چاہتے ہوں۔ قریب تھا کہ محترم مولوی ان سرد نگاہوں سے گھبرا کر اپنا بیان بدل لیتے، کہ ملک صاحب ولن کے اس چھوٹے بھائی کی طرح میدان میں اترے جو ہیروئن کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہر میدان بےایمانی سے جیت رہا ہوتا ہے۔

"ہاں ہاں! زبردست تجویز مولوی۔ کل کس وقت نکلیں پھر یہاں سے۔" ملک صاحب نے اپنا بایاں انگوٹھا نئی نسل کے "Thumbs-up"والے انداز میں اٹھاتے ہوئے کہا۔ وہ ایسی حرکتیں کرتے رہتے تھے۔ بقول ان کے ، ایسی حرکات کرنے سے انسان خود کو نوجوان محسوس کرتا ہے۔ ان کا فرمانا تھا "اگر ہم ساری حرکات جوانوں والی نہیں بھی کر سکتے تو ایک آدھی جو کرسکتے ہیں وہ کر گزرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ "

"تم سب جانتے ہو کل جمعہ ہے۔" چوہدری کی مری مری سی آواز کسی کنویں سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔

"بالکل! اور یہی وجہ ہے کہ کل بعد از نماز جمعہ ہم سب دفتر سے کچھ لمحات کے لیے غائب ہو کر وہاں ضیافت اڑائیں گے۔" مولوی نے بڑے پرعزم لہجے میں کہا۔

"راقم جو ابھی مولوی کے اعلان پر حیرت کے جھٹکے سے نہیں نکلا تھا کہ یا اللہ! یہ سورج آج کدھر سے نکل آیا"نے بھی احباب کے جارحانہ عزائم دیکھتے ہوئے بلامشروط حمایت کا اعلان کر دیا جبکہ اس گفتگو کے دوران شاہ جی ایک طرف ٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھے سب کی طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے ان کا ہم سے کسی سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ ان کو کوئی شخص اپنے واپس آنے تک بیٹھے رہنے کا کہہ کر چھوڑ گیا ہے۔ یوں تو ہم جانتے تھے کہ مولوی اور چوہدری کسی بھی منصوبے کو آخری لمحات میں تباہ کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں، اس کے باوجود نجانے کیوں ہم پھر وہی دھوکا دوبارہ کھانے پر تیار ہوگئے ۔

چھے نومبر کی صبح بلاشبہ ایک خوبصورت صبح تھی۔ صبح فجر سے پہلے ہلکی ہلکی پھوار نے سڑکوں اور درختوں کو دھو دیا تھا۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا برف مزاجوں کے مزاج کے لیے آتش کا کام کر رہی تھی۔ دفتر پہنچنے پر پتا چلا کہ آج تو ہماری ٹیم کا نیم سرکاری ظہرانہ ہے۔ احباب کے علم میں یہ بات لانے پر مشاورت سے طے پایا کہ ہم یعنی راقم اپنی ٹیم کے ساتھ ظہرانے پر جائیں گے جبکہ باقی برف مزاج اپنے اس گرم منصوبے کو ہمارے بغیر ہی پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

ہمیں اس منصوبے سے باہر ہونے کا دلی قلق تھا۔ جمعہ کی نماز پڑھنے ہم اکھٹے مسجد تک گئے۔ راہ میں بھی مولوی اور شاہ جی راقم کے سامنے چشم تصور سے آنے والے پرکیف لمحات کا نقشہ کھینچتے رہے۔ اور اِدھر ہم اس سوچ میں گم تھے کہ آج اگر خدا خدا کر کے یہ گلیشئر پگھلا ہے تو حیف کہ ہم اس کا حصہ نہیں۔ نماز کے بعد راقم اپنی راہ ہو لیا اور بقیہ احباب اپنی راہ۔

ظہرانے سے واپسی جلد ہوگئی۔ راقم القصہ کا خیال تھا کہ برف مزاج ابھی واپس نہ آئے ہوں گے سو یوں ہی چائے کا کپ بھرنے کو کیفے کی طرف قدم اٹھا لیے۔ جوں ہی کیفے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سرد مزاجوں کا مکمل گروہ اپنی اصل حالت میں ایک میز کے گرد جمع کسی گرم کھانے سے انصاف کر رہا ہے۔ یا مظاہر للعجائب ! کہاں پیر سوہاوہ کے قریب ایک وادی اور کہاں کیفے کی وہی میز جس پر ایک وادی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ہم حیرت زدہ رہ گئے مگر کھانے کے دوران ان سب کو تنگ کرنا مناسب خیال نہ کیا۔

کچھ دیر بعد ہماری شاہ جی سے ملاقات ہوئی اور ہم نے آج کے اس سنہرے واقعے کے متعلق ہماری گفتگو کچھ یوں رہی ۔

راقم: شاہ جی کیسا رہا دن؟ سنا ہے بہت پھرتے رہیں ہیں آپ؟

شاہ جی: ہاہاہاہاااا! جی پورا کیفے چھان مارا ہے۔ آپ کو پتا ہے کیفے کا سب سے بلند مقام کون سا ہے؟

راقم: اتنی معلومات ہمارے پاس ہوتیں تو لوگ ہمیں کیفے میں بطور گائیڈ نہ رکھ لیتے۔ آپ ہی بتائیے؟

شاہ جی: آپ کی یہی اچھی بات ہے کہ آپ اپنی کم علمی کو کار شرمندگی نہیں سمجھتے اور کھل کر پوچھ لیتے ہیں۔ کیفے کا بلند ترین مقام وہ ہے جو آج دوپہر کا کھانا کھانے کے دوران ہم سے بالکل مختلف سمت میں تھا۔ جہاں ہم بیٹھے تھے، وہ وادی کا حصہ تھا۔

راقم: اوہ۔۔۔۔ میں سمجھ گیا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں پر ایک میز پڑی ہے جس پر ٹرک بنا ہوا ہے۔

شاہ جی: اب اتنے کھلے اشاروں کے بعد بھی آپ نہ سمجھتے تو میں آپ کی عقل کے حضور سات فرشی سلام کرنے ہی والا تھا۔

راقم: لیکن وہ جو صحرا مارگلہ ہلز (اسلام آباد) کے اوپر واقع ہے۔ وہاں کیوں نہیں گئے؟ کیا بادلوں کے پیچھے سے سورج کی تمازت نے درجہ حرارت اتنا بڑھا دیا تھا کہ ماؤں کے لعلوں کو رنگ سیاہ ہونے کا خطرہ ہو گیا تھا؟

شاہ جی: ہمارے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ آہ! آپ مدتوں سے چوہدری کے ساتھ منصوبے بنا رہے ہیں۔ اب اس سوال کو آپ کی سادہ دلی سمجھوں یا تجاہل عارفانہ؟

راقم: حیرت سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے۔ کیا آج کا منصوبہ بھی چوہدری ہی کی وجہ سے اسی قبرستان پہنچا جہاں پرانے منصوبے دفن ہیں؟

شاہ جی: نہیں۔ چوہدری صرف پچاس فیصد کا ذمہ دار ہے۔ بقیہ پچاس فیصد کی ذمہ داری ابھی مولوی نے قبول نہیں کی۔

راقم: آخر آپ بتلا کیوں نہیں دیتے کہ ایسا کیا معاملہ ہوا کہ آپ دوست آج بھی صرف چشم تصور کے آسرے پر رہ گئے۔

شاہ جی: ایک مجنوں آوارہ کی طرح سینے پر دو ہتھڑ رسید کر کے! سن اے انسان سن! اگر تیرے کانوں میں ہمت ہے تو سن۔ نمازِ جمعہ تک سب منصوبہ یہی تھا کہ کھانا پیر سوہاوہ (مارگلہ ہلز اسلام آباد) جا کر کھایا جائے گا۔ وہاں واقع وادی میں چشمے کنارے بیٹھا جائے گا۔ چوہدری کے ذمے کھانا خریدنا تھا۔ جب نماز کے بعد ہم باہر نکلے تو صرف مکئی کے دانے بیچنے والا اپنی ریڑھی کے ساتھ کھڑا تھا۔ ہم نے تلاشِ چوہدری میں سڑک کے دونوں طرف دیکھا۔ لیکن نگاہ نامراد لوٹ آئی۔ قریب تھا کہ انتظامیہ مسجد کے دروازے کو بھی تالا لگا دیتی۔ میں نے مولوی سے درخواست کی۔ جناب مولوی! باہر جانے کا منصوبے پر تو عالم نزع طاری ہے۔ اگر آپ کے موبائل شریف میں دمِ روپیہ ہے۔ تو ذرا اس چوہدری کو فون ملا کر پوچھیے تو سہی کہ "مانع وحشت خرامی ہائے لیلی کون ہے"۔ مولوی نے ایک نظر مجھے غور سے دیکھا۔ اور پھر کہا۔ "لیلیٰ کہنے پر وہ برا ہی نہ منا جائے۔" میں نے کہا، لیلیٰ کی جگہ چوہدری کر دو۔ مولوی نے فون کال ملائی اور پوچھا کہ بھئی کدھر ہو۔ تمہاری دید کو اکھیاں ترسے ہیں۔ میاں اجل رہ گئی کہاں آتے آتے۔ اس پر چوہدری (اپنی اردو سے کم شناسائی کے سبب)غصہ میں آگئے اور فرمانے لگے ؛ تو خود ہوگا اجل، ابھی تو میں گھر بیٹھا ہوں۔ یہاں سے فارغ ہوا تو آؤں گا۔ اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ یہ بات ان کے درمیان پہلے سے طے تھی یار پھر مولوی نے تاریخی غلطی کر دی اور کہا کہ ٹھیک ہے تم دفتر آؤ کھانا ہم لیتے آئیں گے۔ جبکہ کہنا یہ تھا کہ آتے ہوئے کھانا لیتے آنا۔ چوہدری جس کو کل سے ہر آدمی نے کہا تھا کہ کھانا تیرے ذمے ہے بھول نہ جانا۔ اس نے ایک بار بھی تصحیح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم دفتر پہنچ گئے۔ اور چوہدری بھی خالی پیٹ لٹکائے دفتر پہنچ گیا۔ جانا تو دور کی بات، اِدھر کھانا بھی ڈوبتا نظر آرہا تھا۔ منت سماجت کر کے ملک صاحب سے کھانا منگوایا۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ ملک صاحب سے کوئی کام کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مارگلہ ہلز کی چوٹی تو سر نہ ہوئی لیکن ملک صاحب کے سر ہو کر ہم کھانا منگوانے میں کامیاب ہوگئے اور وہی وادی کی تصویر والی میز کے گرد بیٹھ کر کھا لیا۔

اس پر ہمارے حلق سے فلک شگاف قہقہہ نکلا۔ چوہدری اور مولوی نے ایک بار پھر بنے بنائے پروگرام سے وہی سلوک کیا تھا جو اس ملک کے سیاسی رہنما عشروں سے عوام کے ساتھ کر رہے ہیں۔ لیکن اس دل کا کیا کریں کہ جب بھی کوئی منصوبہ ترتیب دیتے ہیں ۔ پھر سے چوہدری اور مولوی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں دیکھو میاں! اس بار اگر تم نے آخری لمحات میں اس منصوبے میں زہر گھولا تو آئندہ تم سے کوئی بات نہ کریں گے۔ اور وہ دونوں وہی میسنی سی ہنسی ہنس کر اکھٹے کہنے لگتے ہیں۔ ایسا بھی کبھی ہوا کہ تم نے کوئی منصوبہ ترتیب دیا ہو اور ہم نے پہلے قدم پر ہی تمہیں منع کر دیا ہو۔

Tuesday 3 November 2015

سامنے دھری

5 comments
بزرگ فرماتے ہیں کہ چھپی ہوئی تو سب ڈھونڈ لیتے ہیں۔ سامنے دھری اکثر نظر نہیں آتی۔ اس بات پر ہم بہت ہنسا کرتے تھے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی، "سامنے دھری نظر نہ آئے"، اندھے کو نظر نہ آتی ہو تو اور بات ہے۔ لیکن زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہم نے محسوس کیا کہ یہ بات کچھ ایسی بےمعنی نہیں۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ہم بےاختیار پکار اٹھتے۔ "اوہ! یہ پہلے کیوں نہ دیکھا۔ سامنے کی بات تھی۔" کبھی دل سے آواز آتی۔ "خاموش! اب سب کے سامنے اس بات کا تذکرہ کر کے خود کی عزت نہ کروا لینا۔ یہ تو کسی اندھے کو بھی نظر آجاتی۔"  زندگی ایسے کتنے ہی واقعات سے عبارت ہوتی چلی گئی جس میں ہم نے سامنے دھری کو کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا اور بعد میں خود کو ہی ہلکی سے چپت لگا کر سرزنش کر لی۔ اور کبھی  دائیں بائیں دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ کسی کو ہماری حماقت کا احساس تو نہیں ہوگیا۔ ایسے واقعات کے چند دن بعد تک ہمیں جو شخص مسکرا کر ملتا تو ہمارے دل  سے بےاختیار آواز آتی۔ " لگتا ہے اس کو ہماری حماقت کا پتا چل گیا  ہے۔  اسی لیے مسکرا رہا تھا۔ " اور کتنے ہی دن ہم اس مسکراہٹ میں طنز کا شائبہ ڈھونڈتے رہتے ۔  ایسے ہی لاتعداد واقعات میں سے ایک واقعہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

ملازمت کے دوران آٹو میٹڈ سسٹم میں ایک عجیب مسئلہ آگیا۔ دورانِ کوڈ کمپائلیشن اگر کوئی مسئلہ آجاتا تو ہمارے لکھے سکرپٹ  ای میل کرنے کی بجائے اجازت نامے کا رقعہ ہاتھ میں تھامے اس وقت تک انتظار کرتے رہتے تھے جب تک ہم آکر ان پر ماؤس کلک رنجہ نہ فرما دیتے۔  اس مسئلے کی وجہ سے روزانہ کا کام متاثر ہو رہا تھا۔ ٹیسٹنگ ٹیم انتظار میں رہتی کہ کب  ہم جناب دفتر میں قدم رکھیں اور اجازت نامے کو سرفراز فرمائیں۔ دفتر میں کچھ مصروفیات بھی ایسی تھیں کہ اس طرف مکمل توجہ کرنے سے قاصر تھے۔ نیٹ ورک ٹیم اور ٹیکنالوجی سپورٹ ٹیم کے لوگوں سے استدعا کی کہ کہ ہم نے اس سارے سسٹم میں مدتوں سے کوئی تبدیلی نہیں کی لہذا   کسی ونڈوز اپگریڈ کی وجہ سے یہ مسئلہ آنا شروع ہوگیا ہے  ۔ وہ بھی اپنے حصے کا سر پٹک چکے۔ سرور مشین ری سٹارٹ کر کر کے بھی معاملہ نہ سلجھا۔ وہ اطلاقیہ جس سے ہم ای میلز بھیجتے تھے۔ اس کی تنصیب کاری بھی دوبارہ کر لی لیکن  وہی  ڈھاک کے تین پات۔  ہم نے سرور کو  اپڈیٹس والی فہرست سے نکلوا دیا۔ تاکہکوئی اپڈیٹ  مزید معاملہ خراب نہ کردے اور  اس مسئلے کو مصروفیات کے اختتام پذیر ہونے تک  نہ کرنے والے کاموں کی فہرست کے حوالے کر دیا۔  متبادل حل کے طور پر کرنا یہ شروع کیا کہ بعد از نماز فجر گھر سے ہی مشین کنیکٹ کر کے دیکھ لیتے۔ اگر سکرپٹس اجازت نامے کے  منتظر ہوتے تو ہم اجازت  دے کر خود کو کوئی سرکاری افسر سمجھ لیتے۔ دن گزرتے رہے ہم نے اس مشق کو جاری رکھا۔ کمرشل ریلیز ہوجانے کے بعد جب ہماری مصروفیات میں خاطر خواہ کمی آگئی تو ہم نے سوچا کہ اب اس معاملے کو بھی سلجھا لینا چاہیے۔ 

ایک بار پھر نئے جذبے سے ہم  نے آغاز کیا۔ سب سے پہلے گزشتہ مہینوں میں آنے والی تمام اپڈیٹس کی تفصیلات پڑھیں۔ اطلاقیہ دوبارہ انسٹال کیا۔ جب اس کو چلانے کی خاطر رن کرنے لگے تو ایکا ایکی خیال آیا کہ کیوں نہ  "Elevated Privileges" کے ساتھ چلایا جائے۔ سو فوراً  بطور ایڈمنسٹریٹر چلایا۔ مسئلہ سلجھ چکا تھا۔ اگرچہ ہم اس بھید سے بخوبی آشنا تھے کہ  مائیکروسافٹ  آپریٹنگ سسٹم بھی پاکستانی معاشرت کی طرح افسر شاہی کا شکار ہے  لیکن اس کے باوجود یہ سامنے دھری ہم کو مہینوں تک نظر نہ آئی۔