Monday 25 December 2017

کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا

2 comments
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا


دور جدید کا ایک بڑا خسارہ برداشت کا جنازہ ہے۔ چند اہل علم و ہنر اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مروت، محبت اور رواداری قریب المرگ ضرور ہیں مگر ابھی جنازہ نہیں اٹھا۔ بعض کے ہاں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ سکرات طاری ہے مگر ممکن ہےکہ پھر سے صحت پائیں۔ میں ان پرامید لوگوں کی شمع امید گل کرنا نہیں چاہتا مگر ان سے یہ سوال ضرور پوچھ لیتا ہوں کہ قریب المرگ ہے تو کب تک سرہانے سے لگے اس کو دیکھو گے؟سکرات طاری ہے تو وینٹیلیٹرز کب تک کام کریں گے؟
موجودہ معاشرے میں جہاں ایک "فارورڈ" کے بٹن نے تحقیق کا گریباں چاک کیا ہے وہیں "کاپی پیسٹ" جیسی سہولت تعمیری اور مدلل گفتگو کے لیے پھانسی کا پھندا ثابت ہوئی ہے۔ آپ اپنا نکتہ نظر سمجھائیں۔ مخالف آپ کو پلوٹو ، سقراط یا پھر کسی اور ایسے ہی بڑے دانش ور کا قول ا س زور سے مارے گا کہ آپ کو دن میں تارے نظر آجائیں گے۔ آپ کہیں گے کہ میاں اس بات کے سیاق و سباق کچھ اور ہیں۔ تو وہ جواب میں کسی اور دانش ور کا کوئی اور اقتباس لا مارے گا۔ اب آپ اس سے کہیں گے کہ بھئی تمہاری رائے کیا ہے؟ تو وہ آپ کو جواب دے گا کہ "جب تم اتنے بڑے لوگوں کی بات سمجھنے سے قاصر ہو تو میری رائے کہاں سمجھو گے؟" یا حیرت! یعنی موصوف کی رائے ان دانش وروں سے بھی بڑی ہے؟ بزعم خود ذہین اور عالم ہونے کی جو غلط فہمی تیز رفتاری سے پرورش پارہی ہے وہ موجودہ صورتحال میں بڑی زہریلی اور مہلک ہے۔
پچیس دسمبر کو قائد کی سالگرہ مبارک کے پیغامات کے ساتھ ساتھ کفر کے کتنے فتوے بھی ہواؤں میں داغ دیے جاتے ہیں۔ سو ہمیشہ کی طرح آج بھی چند پیغامات رقصاں تھے کہ " میری کرسمس کا مطلب ہے۔ اللہ نے بیٹا جنا (نعوذ باللہ)۔ اور ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔ اور آگے ایک طویل اصلاحی مکالمہ" میں اس آدھے سچ اور آدھے جھوٹ میں سچ والے حصے سے متفق ہوں۔ کہ ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے، اور ترجمے سے اختلاف رکھتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے اور میرا ذاتی خیال ہے کہ تمام اہل اسلام عیسائیوں کو مسلمان سمجھتے بھی نہیں ہیں۔ تو پھر جھگڑا کیا ہے؟ ڈیڑھ چلو پانی میں آپ کا ایمان نہیں بہتا۔ جھوٹ بولنے سے آپ کو حیا نہیں آتی۔ ملاوٹ کرنے سے بھی ایمان میں خلل واقع نہیں ہوتا۔ کلمہ پڑھ کر دو نمبر چیزیں فروخت کرنے میں رتی برابر شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اور تو اور من گھڑت باتیں قرون اولیٰ کے لوگوں سے منسوب کر کے پھیلاتے وقت بھی آپ کا دل نہیں کانپتا۔ تو پھر یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کو ان کے عقائد کے مطابق ان کے تہوار کی مبارک دے دینا آپ کو خارج از اسلام کیسے کر دیتا ہے؟ ماسوائے یہ کہ آپ اس عقیدے کے باقاعدہ پیروکار ہوجائیں۔میں نے جب میسج بھیجنے والے سے استفسار کیا تو انہوں نے جواب میں ایک اور تصویر شکل کا اقتباس میرے منہ پر دے مارا۔ جو شاید کسی پرائمری پاس (اس حسنِ گماں پر معذرت) ماجھے گامے کا ڈیزائن کیا ہوا تھا۔میں نے عرض کی اگر تکفیری فتوی جات کی ہی بات ہو تو اہل اسلام میں کوئی مسلم نہ بچے۔ اس پر انہوں نے مجھ سے شدید بیزاری کا اظہار کیا۔
خدا را اپنے ذہنوں کو زحمت دیجیے۔ اس کا کچھ نہ کچھ حصہ دنیا میں استعمال کر لیجیے۔ اور اگر نیا غیر استعمال شدہ "ڈبا پیک" دماغ روز محشر میں لے جانے پر کوئی انعام و اکرام مقرر ہے تو ہمیں بھی بتائیے۔ اور اگر ایسا کوئی انعام مقرر نہیں تو اپنے اندر بھرتی نفرتوں کو ملک عدم کی راہ دکھائیے۔ معاشرتی اور سماجی سطح پر اس برداشت، رواداری اور مروت کا عملی مظاہرہ کیجیے جس کا اسلام آپ سے تقاضا کرتا ہے۔غور و فکر کرنے کی عادت ڈالیے۔ نہ کہ یاوہ گوئی اور خرافات بکنے تک محدود ہوجائیے۔ ورنہ یقین کیجیے کہ وہ دن دور نہیں جب اپنے لکھے کے نیچے لوگ "بقلم خود" کی جگہ "بگالم خود" لکھا کریں گے اور اس پر فخر محسوس کریں گے۔


از قلم نیرنگ خیال
25 دسمبر 2017

Thursday 21 December 2017

ایک شعر کی فکاہیہ تشریح

2 comments
شال پہنائے گا اب کون دسمبر میں تمہیں
بارشوں میں کبھی بھیگو گے تو یاد آؤں گا
فکاہیہ تشریح:
ہم اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتے کہ محبت کی داستان میں رنگ بھرنے کو مبالغہ آرائی اور لفاظی عام ہے۔ مگر مبالغہ آرائی اور لفاظی کو بھی کوئی بنیاد تو میسر ہو۔ شاعر اپنی اہمیت جتانے کے چکر میں زمینی حقائق بالکل ہی فراموش کر بیٹھا ہے۔ ایسی صورتحال تب ہوتی ہے جب آپ تیز تیز دلائل دینے کی کوشش میں مصروف ہوں اور پھر آپ کا تمام زور منطقی دلائل کی بجائے محض زور بیاں پر رہ جائے۔ ہم نے ساری عمر یہی دیکھا ہے کہ شال اوڑھائی جاتی ہے، پہنائی نہیں جاتی۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ وہ بھی بارش میں۔ یعنی صریح ظلم۔ ایک طرف تو محبوب کی نازکی کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے، دوسری طرف جب گرم وزنی شال پر بارش کا پانی پڑے گاتو اس کا وزن دس گنا بڑھ جائے گا۔ اور پھر بھیگنے کے بعد گیلی شال میں جو دسمبر کی ٹھنڈ مزا کروائے گی تو ایک بار محبوب بھی پکار اٹھے گا۔ "چس کرا دتی اے۔" درحقیقت شاعر نے اپنی لفاظی سے سرد موسم میں گیلی شال اوڑھانے کی منظر کشی میں محبوب کو جو ٹوپی پہنائی ہے وہ صحیح معنوں میں داد کی مستحق ہے۔ویسے ابھی مزاحیہ شرح لکھتے لکھتے مجھے راجندر ناتھ کا بڑا خوبصورت شعر یاد آیا ہے کہ

اک دن برسات میں بھیگے تھے ہم تم دونوں
اب کبھی برسات میں بھیگو گے تو یاد آؤں گا

شیلف میں رکھی ہوئی اپنی کتابوں میں سے
کوئی دیوان اٹھاؤ گے تو یاد آؤں گا
از قلم نیرنگ خیال
21 دسمبر 2017

Wednesday 20 December 2017

لو آج کی شب بھی سو چکے ہم

0 comments

شہر اقتدار سے دانہ پانی اٹھنے کے بعد ہم نے زندہ دلوں کے شہر کا رخ کیا۔ جس دوست کو بھی یہ خبر سنائی، اس نے قہقہہ لگا کر ایک ہی بات کی۔ “جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی”۔ ان دنوں دو باتوں پر ہماری زبان سے ہر وقت شکر ادا ہوتا تھا۔ ایک کہ یہ محاورہ مذکر نہیں۔ دوسرا اہلِ زبان اس میں مذکر کے لیے کچھ مناسب ترامیم کا ارادہ نہیں رکھتے۔ نئی ملازمت میں آتے ہی پتا چلا کہ شام کو آنا ہے۔ اور صبح سویرے منہ اندھیرے جانا ہے۔ چند دن گزارے تھے کہ منہ تو یوں بھی اندھیرے کا ہی حصہ بن گیا۔ لیکن بات اس منہ اندھیرے کی نہیں بلکہ بات ہے ہماری دکھتی رگ کی۔ یعنی کہ لیپ ٹاپ۔

یہاں پر ہمیں ایک بالکل نیا لیپ ٹاپ دیا گیا تھا۔لیکن بستہ پرانا تھا۔ یہ بڑی دلچسپ بات تھی۔ ہم دل پر لے گئے۔ کہا کہ بستہ بھی نیا دو۔ متعلقہ شعبے کا فرد متعلقہ شعبوں کے افراد کی طرح ہی ہنسنے لگا۔ ہم اس ہنسی سے خوب آشنا تھے۔ خیر یہ تو خود بہلا رہے تھے وگرنہ اصل بات یہ ہے کہ طبیعت بڑی مکدر ہوئی۔ ایک تو ہمیں اس عزت افزائی کی عادت نہ تھی۔ دوسرا اس کے کلیدی تختہ کی اکائیاں بہت نرم تھیں۔ اور ہماری سخت جاں انگلیاں ان کی نرمی کو کسی حسینہ کے لمس جیسا محسوس کرتی تھیں۔ اس کے دوبنیادی نقصانات تھے۔ ایک تو دوران کام ہمارا دھیان حسیناؤں میں الجھا رہتا۔ دوسرا ہم بلاوجہ اکائیاں دباتے رہتے۔ تاہم ہمارا لیپ ٹاپ مکمل طور پر مردانہ تھا۔ گلا پھاڑ کر چیخنا ہو تو حاضر۔ مگر جو سرگوشی کا کہو تو آنسو بہاتا تھا۔ متعلقہ شعبہ سے رابطہ پر معلوم ہوا کہ اس ماڈل میں نقص ہے۔ اور ہیڈ فون استعمال نہیں کرسکتے۔طمانیت کی ایک لہر پورے وجود میں دوڑ گئی۔ زندگی میں اگر ہم کو ایسا لیپ ٹاپ دے دیا جائے جس میں کوئی نقص نہ ہو تو شاید ہم کام ہی نہ کرپائیں۔ لیکن یہ بات سب کو بتانے کی تھوڑی تھی۔ سو ہم نے کلہاڑے پر پاؤں مارتے ہوئے کہا کہ میاں! کچھ اندازہ بھی ہے ہیڈ فون ہمارے کام کے لیے کتنا ضروری ہے۔ فون کس سے سنیں گے۔ کیا محلے والوں کو بتلائیں گاہک ہم سے جس زباں میں بات کرتا ہے۔ اس کے لیے تو شاعر مدتوں قبل شرح آرزو سے منع فرما گیا ہے۔ اب کیا کریں۔ پرانی کمپنی بہت یاد آئی۔ جہاں ہم چیزوں کے چلنے پر شکرادا کیا کرتے تھے۔ کہاں یہ کہ ہم چیزوں کے نہ چلنے پر نالاں ہیں۔ فلک کو بھی ہم سے کیا کیا دشمنیاں نکالنی تھیں۔

چند دن گزرے تھے کہ ایک نوجوان معصوم شکل ہمارے پاس آیا اور کہا کہ آپ کا لیپ ٹاپ بدلنا چاہتا ہوں۔ سو ڈیٹا کے بارے میں حکم کیجیے کہ کس طرح نئے والے میں منتقل فرماویں گے۔ اب اللہ جانتا ہے کہ معصوم شکل اس کی قدرتی تھی یا اس نے یہ ریاضت سے حاصل کی تھی۔ بہرحال ہم نے اس کی باتوں میں آکر لیپ ٹاپ اس کے حوالے کر دیا۔ جس کو وہ ایک اور نئے لیکن نسبتاً پرانے لیپ ٹاپ سے بدل لایا۔ اس لیپ ٹاپ کے ماتھے پر ابھرا گومڑ دیکھ کر دل کو یک گونہ تسلی ہوئی۔ سب سے پہلے ہیڈ فون لگایا۔ سرگوشیاں اچھی کرتا تھا۔ پنک فلائیڈ اورڈسٹی سپرنگ فیلڈ اسے زبانی یاد تھے۔ حق حق۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ میاں! کیا چیز لائے ہو۔ اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا۔

چند دن ہی گزرے تھے کہ اس نئے مگر پرانے لیپ ٹاپ نے اپنے رنگ ڈھنگ دکھانے شروع کیے۔ جب تک ہم اس سے نہ ملے تھے سمجھتے تھے کہ اٹھنے میں ہم سے زیادہ سست کوئی نہیں۔ کبھی پہلو بدلا، کبھی لیٹ رہے، آدھے بیٹھ گئے، دوبارہ لیٹ گئے۔ یوں اٹھنے کے بعد بستر سے نیچے پاؤں اتارتے اتارتے ہم کو بیس سے تیس منٹ لگتے ہیں۔ لیکن موصوف سے ملاقات پر اندازہ ہوا کہ ہم تو برق رفتار ہیں۔ہماری اڑان پر تو آہو بھی آہیں بھرتا ہوگا۔ پاور آف کرنے کا باقاعدہ برا مناتا تھا۔ شاید یہ بتانا چاہتا تھا کہ بھئی! ہم کوئی انسان تھوڑی ہیں جن کو آرام کی ضرورت ہو۔ ہم تو مشین ہیں۔ سو چلاؤ چلاؤ۔۔۔ یا پھر چلّاؤ۔ ہمارے حصے میں آخرالذکر ہی آیا۔

پاور آن کرنے پر تو موصوف کے نخرے کسی حسینہ سے کم نہ تھے۔ سیٹ اپ میں داخل ہونے والی سکرین جو ہم مدتوں سے بھول چکے تھے اسی نامعقول نے یاد کروائی۔ پھر جو بوٹ سکرین پر آتا تو دل کرتا کہ بوٹ اسے ہی دے ماریں۔ اس کے بعد یکدم سکرین غائب ہوجاتی۔سکرین پر تاریکی چھاجاتی۔ ہم بے چین ہو کر بار بار پہلو بدلنے لگتے۔ ہارڈ ڈسک کی جلتی بجھتی بتی ہمیں یقین دلاتی کہ پس پردہ کچھ کہانی چل رہی ہے۔ ایسے موقعوں پر ابھی ہم اتاؤلے ہو کر سوچ ہی رہے ہوتے کہ اب اس کو ایک بار پاور آف کر کے دوبارہ چلا لیں کہ یکدم جھماکے سے ایک نیلی سکرین آجاتی۔ نیلے رنگ سے ہماری محبت شاید اسی وجہ سے ہے۔ اس سکرین کو دیکھ کر ہم خدا کر شکر کرتے اور چائے بنانے کا رخ کرتے۔ چائے بنا کر واپس آتے آتے لاگ ان سکرین آچکی ہوتی تھی۔ اب ہمیں معلوم نہیں کہ یہ کب آیا کرتی تھی۔ کیوں کہ چائے بنانے کا عمل بھی طویل ہی ہوتا ہے۔ بہرحال لاگ ان کر چکنے کے بعد ہم آرام سے چائے نوش فرماتے۔ کبھی کبھار آخری چسکی سے پہلے یا اکثر آخری چسکی کے ساتھ ہی ڈیسک ٹاپ کام کے لئے تیار ہوا کرتا تھا۔

مدتوں ہم اقبال کے اس بیان کو بغیر سمجھے پیش کرتے رہے کہ “ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔” لیکن اس مصرعہ میں غوطہ زن ہونے کا سبب یہ شمارندی آغوشیہ ہی بنا۔ جب موصوف ایک بار کام کرنے کے لئے تیار ہوجاتے تو اس کے بعد اطلاقیے (ایپلیکشنز) چلانے کا مشکل مرحلہ درپیش آتا۔ اس مثال کو سمجھنے کے لیے آپ کا شادی شدہ ہونا بےحد ضروری ہے۔فرض کیجیے کہ کسی دن یوں ہی بےوقت آپ نے اپنی بیگم سے چائے کی فرمائش داغ دی۔ اور اس نے کہا۔ لیجیے۔ ابھی بنائے دیتی ہوں۔ تو بھئی۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ جب تک وہ چائے تیار ہو کر آپ کے سامنے آتی ہے۔ حقیقت میں چائے کا وقت ہوچکا ہوتا ہے۔ ہمارے اس شمارندی آغوشیے نے بھی ایسا ہی مزاج پایا تھا۔ ای میل اطلاقیہ اگر آپ نے بعد میں کھولا ہے اور پہلے کوئی اور اطلاقیہ چلانے کی جرأت کی ہے۔ تو بھی یہ مشین اپنے تیار کردہ سکرپٹ کے مطابق پہلے ای میل کا اطلاقیہ ہی چلائے گی۔ آپ کا دوسرا اطلاقیہ انتظار کرے۔ ایسے موقعوں پر ہم یہ کہہ کر دل کو سمجھا لیتے ہیں کہ اصول بھی تو یہی ہے۔قدرت خدا کی دیکھیے کہ ایک بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اطلاقیہ چلاتے جب کام کا ماحول بنتا تو ایک بار پھر ہماری چائے کا وقت ہوجاتا۔

چند دن گزرے تھے کہ ہماری کام چور طبیعت بھی خود سے بیزار نظر آنے لگی۔ کہاں ہم اپنے تئیں خود کو پیر آلکسی سمجھتے کہاں ایک مشین کے سامنے ہماری کاہلی بےبس نظر آنے لگی۔ دنیا کے ساتھ ساتھ اس کی ایجادات سے بھی اعتبار اٹھتا نظر آنے لگا۔ اپنے افسران کے سامنے عرض گزاری۔ حضور! آپ کی مردم شناسی کا جواب نہیں۔ واللہ آج سے قبل کوئی ہمارے مزاج کو اس طرح نہ سمجھ پایا تھا۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ “اور سے اور ہوئے سستی کے عنواں جاناں”۔ ہماری بات کو سمجھیے۔ ہمیں ایک بالائے لب تبسم سے مت ٹرخائیے۔ للہ کچھ کیجیے وگرنہ آنے والے شب و روز ہمارے لیے اس موضوع میں تحقیق کے وہ در وا کر جائیں گے کہ کروٹ لینے کو بھی فرصت نصیب نہ ہوگی۔انہوں نے مسکرا کر ٹالنا چاہا، مگر ہم نہ ٹلے۔آخر انہوں نے متعلقہ شعبہ کے نام رقعہ لکھ دیا۔ اب ہم نئے لیپ ٹاپ کی آس لئے متعلقہ شعبے کے چکر لگاتے رہتے۔ رفتہ رفتہ صورتحال بہ الفاظ پطرس یہ ہوئی جاتی تھی کہ ہم لیپ ٹاپ کا پتا کرنے متعلقہ شعبہ تک جاتے اور وہاں موجود افسران ہمیں ایک شفیق مسکراہٹ کے ساتھ چلے جانے کا اشارہ کرتے۔کبھی ہم دروازے کے باہر سے ہی اشارہ کر کے پوچھتے اور نفی میں جواب پا کر چلے آتے۔صورتحال جب اس نہج پر پہنچی کہ کبھی دروازے کے باہر سے گزرتے نادانستہ نگاہ بھی اندر پڑ جاتی تو ایک سر نفی میں ہلتا نظر آتا، ہم نے پوچھنا چھوڑ دیا۔ آخر چند مہینوں بعد وہی معصوم صورت نوجوان وہی مخصوص مسکراہٹ سجائے ہاتھ میں ایک بڑی بھاری سی پتھر نما چیز اٹھائے ہماری میز پر آن پہنچا۔
ہم نے استفہامیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا۔
لیپ ٹاپ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کچھ نہیں لکھیں گے اب ہم۔ اس موضوع پر دوبارہ قلم کشائی نہیں کریں گے۔ کبھی نہیں کریں گے۔کوئی کہے گا لکھو تو کہہ دیں گے قلم ٹوٹ گیا ہے۔ ہماری انگلیوں میں لکھنے کی قوت ہی نہیں رہی ہے۔ قدرت نے ہم کو لکھنے کی جس صلاحیت سے نوازا تھا وہ واپس لے لی ہے۔ ہاں سنا تم نے۔ کچھ نہیں لکھیں گے۔ کبھی بھی نہیں۔ وہ نہ سمجھنے والے انداز میں حیران نظروں سے ہم کو دیکھتا رہا۔ اور پھر لیپ ٹاپ میز پر رکھ زیرِ لب یہ کہتا ہوا واپس مڑ گیا۔ "ٹیسٹ کر لیجیے گا۔"

Saturday 2 December 2017

موسیا آداب داناں دیگر اند

3 comments
موسیا آداب داناں دیگر اند

زندگی ایک حیرت کدہ ہے ۔جہاں عجائب کی کمی نہیں۔ یہ دیکھنے والے کی آنکھ پر منحصر ہے کہ وہ کیا دیکھتا ہے۔ ایک منظر کسی کے لیے بار بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس جگہ پر وہی منظر کسی دوسرے کے لیے دلچسپی کا سامان ہو سکتا ہے۔ شوگران جاتے وقت ماسوائے برفیلے راستوں اور یخ بستہ ہواؤں کے اور کچھ ذہن میں نہ تھا۔ صبح سویرے آٹھ بجے جب واپسی کا سفر باندھا تو ذہن کے کسی گوشے میں  آنے والے تکلیف دہ حالات و واقعات کا ایک عکس تک نہ تھا۔ ہاں  جب مانسہرہ سے نکل کر ایبٹ آباد داخل ہونے سے پہلے راستے میں موٹر سائیکلوں پر نوجوان دین و ایمان کے جھنڈے اٹھائے ڈنڈے لہراتے نظر آئے تو توجہ اس طرف گئی۔ بےاختیار ساتھ والے سے پوچھا۔
وہ اسلام آباد دھرنا کہاں تک پہنچا؟
کوئی خبر نہیں۔ اس نے جواب دیا۔
مجھے خود اپنے بیوقوفانہ سوال پر حیرت ہوئی۔ نہ موبائل، نہ سگنل، نہ انٹرنیٹ، ظاہر ہے اس کے پاس بھی کیا خبریں ہوں گی۔ بہرحال شہر میں داخل ہوئے تو موبائل فون پر اطلاعات موصول ہونے لگیں۔ آپریشن شروع ہوگیا ہے۔ شیلنگ جاری ہے۔ ایسے میں انسان کا ذہن فطری طور پر سب سے پہلے منزل کی طرف جاتا ہے کہ جتنا جلد ہو سکتے منزل تک پہنچا جا سکے۔ کیوں کہ ایک تو انتشار اور پھر مذہبی انتشار، یہ ایک ایسی صف ہے جس میں محمود و ایاز کی تفریق نہیں۔ حسن ابدال سے موٹروے پر داخل ہوئے تو بظاہر کوئی مسئلہ نظر نہ آیا۔ ساڑھے چار کے قریب جب لاہور کے لیے ایم ٹو پر داخل ہونے لگے تو گاڑیوں کی ایک طویل قطار نظار آئی۔ داخلہ بند تھا۔ معلوم ہوا کہ ایک گروہ نے چکری پر موٹروے بند کر رکھی ہے۔ اور آنے جانے والی گاڑیوں پر پتھراؤ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں مشتعل گروہ کے پاس جانا تو کوئی عقلمندی کی بات نہ تھی۔ انتظار کرتے کرتے نصف رات ہوگئی۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ اب یہیں پر مزید رکا جائے۔ اور کچھ دیر میں موٹر وے کھل جائے گی۔ مشتعل ہجوم تھک ہار کر گھر کی راہ لے گا۔ تو ہم رات کے اندھیرے میں نکل جائیں گے۔ مگر یہ سب خیالات خیال ہی ثابت ہوئے۔
طے یہ پایا کہ حسن ابدال واپس جایا جائے جہاں ہمارے ساتھ کی باقی دو  کوسٹر  انتظار میں ہیں۔ اور ان کے ساتھ ملکر منصوبہ بنایا جائے۔ گو کہ میں اس منصوبے کا ظاہری و باطنی ہر حالت میں مخالف تھا مگر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ ہم وہاں سے نکل کر حسن ابدال آگئے۔ اور باقی افراد کے ساتھ چہلیں کرنے لگے۔ موٹر وے کا نہ کھلنا تھا نہ کھلی۔ رات  کوسٹر کی سیٹ پر کاٹی۔ صبح نکلتے نکلتے یار لوگوں نے پھر نو  بجا دیے۔ سب کچھ دوبارہ بند ہوچکا تھا۔ خبر ملی تھی کہ رات کسی لمحے موٹر وے کھلی رہی ہے۔ مگر اب وہ دوبارہ بند ہو چکی ہے۔ جی ٹی روڈ تو ظاہر ہے یوں بھی ایسے حالات میں مظاہرین کی رہائش گاہ کا  کام کیا کرتی تھی۔ فتح جنگ روڈ سے جانے کا ارادہ کیا۔ مگر وہ بھی بند تھا۔ ایسے میں خبر ملی  کہ ٹرین کا ٹریک کھلا ہے۔ اور وہاں سے جایا جا سکتا ہے۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ پاکستان میں ٹرین عام دنوں میں بھی ایک خطرہ مول لینے والی بات ہی ہے۔ اور پھر ایسے حالات میں۔ لیکن بظاہر کوئی اور صورت بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ سو چاروناچار ٹرین کی راہ تکنے لگے۔ عوام ایکسپریس صرف نام ہی کی نہیں ہر طرح سے عوامی ٹرین ہے۔ حسن ابدال کے چھوٹے سے سٹیشن پر جب ٹرین میں سوار ہونے کا مرحلہ آیا تو یہ ایک دشوار کام ثابت ہوا۔ کسی نہ کسی طرح ہم ٹرین میں سوار ہوگئے۔ اور دروازے کے اندر ہی ہم کو پاؤں ٹکانے کی جگہ بھی مل گئی۔ مگر اگلے سٹیشن سے لاتعداد مسافر اور سوار ہوئے۔ اور یوں ہمارا سانس لینا بھی محال ہوگیا۔ پنڈی تک یہ صورتحال تھی کہ میں صرف ایک پاؤں پر کھڑا تھا۔ اور دوسرا پاؤں دیوار کے ساتھ ہلکا سا ٹکا رکھا تھا۔ گرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
راولپنڈی سٹیشن سے ایک کثیر تعداد اور سوار ہوگئی۔ اور ہم لوگ یوں تھے جیسے مکئی کے دانے کسی جار میں بند کیے ہوں۔ کوئی ایک بھی نکلے تو اس کے پیچھے کئی لڑھک جائیں۔ ٹرین راولپنڈی سے چل تو پڑی اور محاورۃً نہیں حقیقتاً تل دھرنے کی جگہ باقی نہ رہی تھی۔ ہمیں یوسفی کا وہ معروف جملہ بےاختیار یاد آیا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ "اندرون لاہور کی کچھ گلیاں تو اتنی تنگ ہیں کہ ایک طرف سے مرد اور دوسری طرف سے عورت آجائے تو بیچ میں صرف نکاح کی صورت نکلتی ہے۔" یقینی طور پر یوسفی کا واسطہ ایسی صورتحال سے نہ پڑا ہوگا وگرنہ وہ ٹرین سے  اترنے والے ہر ایک کو ست رنگی جھنڈے اٹھانے کا مشورہ ضرور دیتے۔حالات یہ تھے کہ کسی سٹیشن پر ٹرین رکتی تو باہر سے اندر کسی نے خاک آنا تھا، اندر سے باہر جانا بھی معرکے سے کم نہ تھا۔اس معرکے میں وہی فتحیاب ہوتا جو دھکوں کے ساتھ ساتھ "دھرنے کی زبان" بھی استعمال کرنے میں ماہر ہوتا۔ ٹرین جہلم رک گئی۔ اور کافی دیر رکی رہی۔ سواریاں اتر کر دائیں بائیں دیکھنے لگیں۔ہم نے بھی جب اسٹیشن پر پاؤں رکھا تو احساس ہوا کہ دوسری ٹانگ ہنوز اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ شکرانے کا نعرہ مستانہ زبان سے بلند ہوا۔ اسٹیشن کی  انتظامیہ سے معلوم ہوا کہ تاحکم ثانی ٹرین یہیں رکی رہے گی۔ ہم اتر کر سامنے رکھے بینچ پر بیٹھ گئے۔ حالت یہ تھی کہ چائے پینے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ جو احباب ہمیں جانتے ہیں وہ ہمارے اس جملے سے ہماری حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ٹرین ایکا ایکی بغیر کوئی ہارن دیے چل پڑی۔بشمول ہمارے ایک خلقت دروازوں کی طرف لپکی۔  ٹرین پر سوار ہونا تیسری جنگ عظیم سے کم نہ تھا ۔  ٹرین پر سوار ہو کر ہمیں احساس ہوا  کہ اس طرح تو پانی بھی راستہ نہ بنا پایا ہوگا جس طرح ہم دروازے پر موجود دیوار انساں سے راستہ بنا کر نکلے ہیں۔ خود کو داد دی اور ان لمحات کو کوسا جب ہم  نے پیشہ سپہ سالاری پر شمارندی مہندس بننے کو ترجیح دی تھی۔ بلاشبہ دنیا کو ہم نے پیش قدمی کے لیے ایک بہترین حکمت عملی طے کرنے  والے سپہ سالار سے محروم کر دیا تھا۔ ہائے ہائے۔۔۔۔
ٹرین چلی ہی تھی کہ دوبارہ ٹھہر گئی۔ معلوم ہوا کہ لالہ موسیٰ کا اسٹیشن آگیا ہے۔ اسٹیشن پر اعلان جاری تھا کہ لاہور جانے والے مسافر اتر جائیں۔ ٹرین براستہ سرگودھا سیدھا خانیوال جائے گی۔ ٹرین سے اترے   اور سب سے پہلے چائے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ چائے پی کر احساس ہوا کہ کل رات سے بھوکے بھی ہیں۔ سو بھوکوں کی طرح  ایک نان پر ایک کباب رکھ کر نوش فرمایا گیا۔ اس کے بعدباقی احباب سے ملاقات پر معلوم ہوا  کہ اب چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر لاہور تک پہنچا جائے۔ اسٹیشن سے چند احباب کے ساتھ باہر نکلے اور ایک موٹرسائیکل رکشہ (چنگچی) کے ساتھ گجرات پہنچنے تک کے بارے میں بات کی۔ گجرات پہنچ کر جلوس سے گزر کر دوسری طرف پہنچے۔ جہاں سے اگلی منزل تک کے لیے کوئی اور سواری ڈھونڈنی تھی۔ جلسے میں اکثریت نوعمر لڑکوں کی تھی جن کی مسیں ابھی نہیں بھیگی تھیں۔ اور انہوں نے اپنے سے زیادہ بڑے ڈنڈے اٹھا رکھے تھے۔ تقریر کرتے ہوئے مولانا انتہائی  اخلاق سوز زبان میں حکومتی انتظامیہ کی شان بیان کر رہے تھے۔ وقفے وقفے سے "لبیک یا رسول اللہ" کے نعرے بھی جاری تھے۔ جلسے کے بیچوں بیچ کچھ لوگ "سیلفی" بنا رہے تھے۔ یہ منظر بےحد کربناک تھا۔گجرات سے ہمیں ایک ٹویاٹا گجرانوالہ تک لے آیا۔ گجرانوالہ پہنچ کر دوبارہ اک چنگچی  لیا۔ جو براستہ کامونکی اور مرید کے سے ہوتا ہوا ہم احباب کو امامیہ کالونی تک لے آیا۔ مرید کے اور کامونکی کے جلسے بھی ہم نے پیدل اتر کر پار کیے جبکہ رکشے والا کسی طرح سے گھما پھرا کر رکشہ جلوس کے دوسری طرف لے آیا۔
کامونکی کے جلسے میں ایک حضرت خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ "یہ چوہدری نسوار ، یہ پٹھانوں کی نسوار یہ مرنے لگا تھا کل۔ بکتر بند گاڑی والے بچا کر لے گئے اسے۔ کوئی بات نہیں۔ دوبارہ مار دیں گے۔"
مرید کے کے جلسے میں ایک حضرت جوش بیان میں "چند انتہائی اعلیٰ گالیوں" سے نوازنے کے بعد فرمانے لگے۔ ان "کتوں، خنریروں اور ڈیش ڈیش" نے عشاق رسول کو مذاق سمجھ رکھا ہے۔ پورا مجمع بہ آواز بلند چلایا۔ "لبیک یا رسول اللہ"۔ اللہ اکبر۔۔۔۔ مجھے لگا کہ یہ آزمائش مسلمانوں کی نہیں اسلام کی ہے۔ایک دلچسپ بات جس کا مشاہدہ میں نے کیا کہ لالہ موسیٰ سے لاہور تک کسی بھی جلسے اور جلوس کے پاس کوئی ایک پولیس والا بھی نہ تھا۔ یہ ایک بہت ہی عجیب بات تھی کیوں کہ میں نے جلوس کے دائیں بائیں پولیس کو ہمیشہ موجود پایا ہے چاہے ان  کی حثیت ایک تماشائی سے زیادہ نہ ہو۔ 
امامیہ کالونی سے دوبارہ ایک چنگچی پکڑا اور شاہدرہ موڑ تک آگئے۔ پل پیدل کراس کرنے کے بعد دوبارہ رکشہ لیا اور گھر پہنچے۔ یوں تقریباً چالیس گھنٹوں پر محیط یہ سفر اختتام پذیر ہوا۔ 

Tuesday 21 November 2017

شمارندی آغوشیے (لیپ ٹاپ) کے نفسیاتی علاج معالجے کے لیے درخواست

6 comments
کچھ دن قبل ایک عجیب مشاہدہ ہوا۔ لیپ ٹاپ کو ری سٹارٹ یا شٹ ڈاؤن کرو تو ری سٹارٹ یا بند نہیں ہوتا تھا۔ پاور کے بٹن سے ہی آف آن کرنا پڑتا۔ اس کیفیت میں مجھ سے یہ درخواست سرزرد ہوگئی۔


شمارندی آغوشیے (لیپ ٹاپ) کے نفسیاتی علاج معالجے کے لیے درخواست


السلام علیکم تیکنیکی بھائیو!
بعد از سلام بصد احترام آپ بھائیوں کی خیریت مطلوب ہے۔ بھائیو! میرا مسئلہ بہت پیچیدہ صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ وہ شمارندی آغوشیہ جس سے آپ مکرمین نے مجھے نواز رکھا ہے۔ مدتوں سے سو نہیں پاتا۔ جب کبھی نیند کی جھپکی دلانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تو ایک عدد ضرب اس کی سر پر لگانی پڑتی ہے۔ جس سے وہ بیہوشی کی حالت میں چلا جاتا ہے۔ اور پھر دوسری ضرب پر دوبارہ جاگ اٹھتاہے۔ نیند سے ایسی بیزاری یا تو عشاق کا خاصہ رہی ہے یا اس کو بزرگوں سے نسبت رہی ہے۔ اب اس روشنی میں شمارندی آغوشیے کو دیکھیں تو اس کو عاشق سے زیادہ بزرگ پاتے ہیں۔
عرض مدعا یہ ہے کہ اس کا مناسب نفسیاتی علاج کر کے اس نیند بیزاری کی کیفیت کو ہمیشہ کے لیےختم کیا جائے۔ تاکہ مناسب وقت پر نیند لینے سے کی جسمانی و روحانی حالت درست رہے اور یہ روزمرہ کے معمولات بروقت انجام دے سکے۔
نوازش ہوگی
العارض
ایک مہندس
از قلم نیرنگ خیال

Monday 14 August 2017

آزادی مبارک

0 comments
"صرف مشترکہ کوششوں اور مقدر پر یقین کے ساتھ ہی ہم اپنے خوابوں کے پاکستان کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔"
(محمد علی جناح)

 میں جانتا ہوں کہ آپ سب کو  لفظ آزادی کے مفہوم کی تجدید کی ضرورت  نہیں ہے ۔ میں اسی خوش گمانی کو قائم رکھنا چاہتا ہوں کہ  تمام افرادِ پاکستان آزادی کے تصور اور اس کی قدر و قیمت سے بخوبی آشنا ہیں۔ مگر کیا کروں کہ میرے سامنے جب سماجی، معاشرتی اور سیاسی واقعات آتے ہیں تو میں یہ بات سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ لفظ آزادی کے معانی اور قدروقیمت کا تو ذکر ہی کیا، شاید ابھی تک میرے ملک کے لوگ اس لفظ سے ہی آشنا نہیں۔ ہمارے  گزرے ستر برس اس بات کے  غماز ہیں کہ ہم نے اپنے لیڈر کے آخری الفاظ کو بھی سنجیدہ نہیں لیا۔ ان ستر برس کی داستاں یہ بتاتی ہے کہ ہم نے مشترکہ کوشش اور مقدر پر یقین تو کیا کرنا تھا، ہم نے خواب دیکھنے ہی چھوڑ دیے۔ ہماری گفتگو زبانی جمع خرچ تک محدود ہوتی چلی گئی اور عملی طور پر ہر آنے والا دن ہمارے لئے بےیقینی کا سورج لایا،  جس کی شامیں یاس و ناامیدی کی شفق لیے ہیں۔ ہر سال ہم بحثیت قوم اس دن ارادے تو باندھتے ہیں۔ خود سے وعدے بھی کرتے ہیں۔ اور ایسا نہیں کہ ان میں صداقت نہیں ہوتی۔ مگر گزرتے دن ان وعدوں پر وقت کی دھول ڈال دیتے ہیں اور یوں یہ سب طاق نسیاں میں دھرا رہ جاتا ہے۔ اگلے سال ان وعدوں اور ارادوں کو اٹھا کر جھاڑا جاتا ہے۔ انہی وعدوں ارادوں کی نئے لفظوں نئے لہجوں سے آرائش کی جاتی ہے۔

 میں مایوسی نہیں لکھنا چاہتا۔ میں قنوطیت کو خود پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتا   لیکن ذرا اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، کہ کیا واقعی سچ میں آپ نے کبھی اس معاشرے کی فکر کی ہے؟ ایسا کوئی کام کیا ہے جو معاشرے میں بہتری لانے کا سبب ہو۔  کبھی کسی غمگیں کے آنسو پونجھے ہو؟ کبھی کسی بھوکے کے منہ میں نوالا ڈالا ہو۔ یوں ہی کبھی آپ کسی انجان جنازے میں شامل ہوگئے ہوں۔ کبھی آپ نے سڑک کنارے کسی چھوٹے سے بچے کو ہاتھ میں غبارے و کھلونے لیے بیٹھا دیکھ کر اپنی سواری روکی ہو۔ اور اس سے پوچھا ہو کہ ہاں بیٹا! تم بیچنے لائے ہو تو ایک طرف اداس کیوں بیٹھے ہو۔ غربت اپنی جگہ، مگر ایسی اداسی نے کیوں آن گھیرا ہے؟ یوں چپ چاپ کیوں بیٹھے ہو؟کبھی یوں ہی بے سبب کسی ہسپتال میں جا کر آپ نے موت سے لڑتے ہوئے مریضوں کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی ہو یا پھر تھیلیسما کے مریض بچوں کے پاس جا کر کوئی دن گزارا ہو؟

ہاں میں جانتا ہوں کہ آپ   سب ایک اچھی زندگی کے خواہاں ہیں۔ ایک ایسی زندگی جس میں آپ کی ، آپ کے   بچوں کی اور  گھر والوں کی ہر خوشی شامل ہو۔ مگر بدقسمتی سے مجھے اس اچھی زندگی کی تعریف میں ملک کا نام نظر نہیں آتا۔ مجھے اس اچھی زندگی کی تعریف میں وہ اداس چہرے کہیں نظر نہیں آتے جو دن بھر کسی غیبی مدد کی آس لئے رات کے بوجھل قدموں تلے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ مجھے اس تصور آزادی میں آپ کی  سیاسی آزادی نظر نہیں آتی۔ مجھے اس تصور آزادی میں آپ کی  اخلاقی آزادی نظر نہیں آتی۔ آپ کی سمت دوسرے متعین کرتے ہیں۔ آپ کا معیارِ سچ جھوٹ کی تکرار ہے۔  ہاں میں جانتا ہوں کہ آپ دن میں دس اچھی پوسٹس بھی شئیر کرتے ہیں۔ حوصلہ بڑھانے والی ویڈیوز اور تصاویر  بہت خوشی سے سب کو دکھاتے ہیں۔ احادیث اور قرآنی آیات آگے بڑھانے میں بھی آپ کا  دامن تنگ نہیں۔ اور یوم آزادی پر تو جھنڈے بھی پہنے پھرتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد اور پاکستان کا مطلب کیا کہ نعرے بھی بخوشی لگا لیتے ہیں۔

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ گزشتہ عرصہ  سے،  میں محض  بکواس پڑھ اور سن رہا ہوں۔ ایک دوسرے کے لیے جو زبان استعمال کی جا رہی ہے اس کو کسی بھی طرح سے اشرافیہ کی زبان نہیں سمجھا جا سکتا۔ ایک دوسرے کے لیے زہر اگلا جا رہا ہے۔فضا نفرت سے تعفن زدہ ہے۔ رویوں نے اظہار کو مسموم کر رکھا ہے۔ ایسے میں اچھے کام، اچھے رویے اور اچھے لوگ خلائی مخلوق محسوس ہونے  لگے ہیں۔ کس کو سراہا جائے۔ کس کی تعریف کی جائے۔ کس کو مثال بنا کر پیش کیا جائے۔ معاشرے سے زندہ مثالیں ڈھونڈے نہیں ملتیں۔ اور اگر بدقسمتی سے کوئی اچھا شخص زندہ ہی ہے تو اس کے مرنے کا انتظار جاری ہے تاکہ بعد از مرگ اس کی تعریف کی جا سکے، اس کو سراہا جا سکے۔ اس ریا کے تماشے میں وہی افضل ہے جو ننگا ہے۔

مجھے مسائل کا حل پیش نہیں کرنا۔ دانشور چلا چلا کر اپنے گلے چھیل چکے ہیں۔ مجھے تم سے یہ نہیں کہنا خدارا محبتوں کو فروغ دو، کیوں کہ  کسی چیز کی ترغیب دینا اس کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے۔میں کیا کہوں، کیا لکھوں، کیا سمجھاؤں کہ میں خود اسی تعفن زدہ معاشرے کا جزو ہوں جس کے سوچ وخیالات نے اس فضا کو خوشگوار بنانے میں ابھی تک کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ 

میں ناامیدی کی ناؤ میں  دہشت و خوف کے منجدھار میں پھنسی، نفرتوں کے بیج بوتی، محبتوں کے جنازے اٹھاتی، تشدد کے پھل کاٹتی اور زہر کے دریا بہاتی   قوم کو ملک کی سترھویں سالگرہ پر مبارک دیتا ہوں۔ اور اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اب غیب سے اسباب پیدا کر۔ اب اس رات کی سحر کر۔ اب بےیقینی کے سائے اٹھا دے مولا۔  اس گمان و یاس کی دھند سے امید کا سورج طلوع کر۔ ہم پر اپنی پہچان آسان کر دے۔
 آمین یا رب العالمین  

Sunday 30 July 2017

اشعار کی فکاہیہ تشریح

1 comments
جون کے دو اشعار کی تشریح، ایک دوست کی فرمائش پر۔۔۔۔

آپ مجھ کو بہت پسند آئیں
آپ میری قمیص سیجیے گا
کہتے ہیں کہ چھپ کر محبت کرنا عورت کا کام ہے۔ مرد کو ببانگ دہل یہ کالک منہ پر ملنی چاہیے۔ یہاں پر شاعر نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ کوچہ جاناں میں جب رسوا و ذلیلہونے کے بعد دامن تار تار ہوگیا تو شاعر پھر بھی اپنی روش سے باز نہ آیا اور کہاکہ یہ جو مار کھاتے کھاتے میری قمیص پھٹ گئی ہے۔ اب یہ آپ کو ہی سینی پڑے گی۔ ایسا اعلی" پروپوز "کرنے کا اندازاور ایسی ڈھٹائی تو کبھی کسی فلم میں بھی نہیں دیکھا۔ کیا کہنے۔ شاعر چھا گیا ہے۔

مجھ سے میری کمائی کا سرِ شام
پائی پائی حساب لیجیے گا
شاعر نے اسی موضوع یعنی اپنے "پروپوزل" میں مزید کشش پیدا کرنے کی خاطر دلربا کو لالچ دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں جو بھی کما کر لاؤں گا ایک اچھے اور فرماں بردار شوہر کی طرحاس کا حساب پیش کروں گا۔ لیکن یہاں جس طرح شاعر کی بیویات کے موضوع پر کم علمی کھل کر سامنے آئی ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ شاعر مزدور آدمی ہے۔ اور دیہاڑی دار
ہے۔ اگر تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتا تو مہینے کی بات کرتا۔ شام کی نہیں۔ اس سے قبل کے کوئی دریدہ دہن شاعر کو "دکاندار" کہہ کر ہمیں خاموش کروانے کی کوشش کرے ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر شاعر "سیلف ایمپلائیڈ" ہوتا تو اس کی توجہ اپنی دکانداری میں ہوتی یوں کوچہ جاناں میں رسوا نہ ہو رہا ہوتا۔
اشعار کی فکاہیہ تشریح
از قلم نیرنگ خیال
28 جنوری 2016

Tuesday 25 July 2017

باکمال بزرگ - قسط ہفتم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

0 comments
گزشتہ سے پیوستہ:

شدید حبس کے موسم میں جب سانس لینا بھی دشوار ہوا تھا اور جسم سے پسینہ یوں خارج ہوتا تھا جیسے حکومت کے پانی کی ترسیل کے پائپ ہوں۔ جن میں چھوٹے چھوٹے جابجا سوراخوں کے سبب اتنا پانی پائپ کے اندر نہیں ہوتا جتنا باہر کی سطح پر ہوتا ہے اور اسی سبب  رسنے کی جگہ کا اندازہ لگانا بھی ناممکن رہتا ہے۔ ہمارا جسم بھی جب "لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشمہ" کی صورت اختیار کر گیا تو دوستوں کے ساتھ طے پایا کہ چل کر ٹیوب ویل پر نیم تلے پانی میں بیٹھا جائے۔ ایک دوست نے حقہ اٹھا لیا اور دوسرے نے آموں کا تھیلا۔

آموں کا تھیلا ٹیوب ویل کے سامنے بنی حودی میں پھینک دیا گیا تاکہ آم ٹھنڈے پانی سے نہا کر ٹھنڈے ہو رہیں۔ قمیصیں اتار کر نیم کی ٹہنیوں کے ساتھ ٹانک دی گئیں اور شلواریں کو گھٹنوں تک چڑھا کر جانگیے  بنا لیا گیا۔ پانی میں نہاتے اچھلتے کودتے، آم کھاتے ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ کب دونوں بزرگ اپنا حقہ اٹھائے ٹیوب ویل کے پاس ہی  پڑی چارپائی پر آبیٹھے۔ جب ہماری توجہ ان کی طرف گئی تو ہم نے حوض سے ہی ان کو بھی آم کھانے کی دعوت دی۔ انہوں نے شفقت اور پیار سے انکار کیا۔ اور آپس میں باتیں کرنے لگے۔ 

کچھ دیر بعد ہمیں ان بزرگوں کا قہقہہ سنائی دیا۔ ہم سب نے پلٹ کر دیکھا تو وہ دونوں بےاختیار ہنس رہے تھے۔ ہم سب نے بزرگوں کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ اور ہنسنے کی وجہ پوچھنے لگے۔ بزرگ فرمانے لگے۔ تم لوگوں کو نہاتا اور اٹکھیلیاں کرتا  دیکھ کر ہمیں اپنا ایک واقعہ یاد آگیا تھا۔ سو اس کو یاد کر کے ہنس رہے تھے۔ ہم نے عرض کی کہ یوں بھی مدت بیتی آپ نے کوئی پرانا واقعہ نہیں سنایا لہذا ہم کو بھی یہ واقعہ سنایا جائے۔ اس پر بزرگ نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور یوں گویا ہوئے۔

جس طرح آج تم لڑکے بالے یہاں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہو،اسی طرح یہ واقعہ بھی تب کا ہے جب ہم تمہاری عمر میں تھے۔ ہم چاروں،  میں، یہ (سامنے والے بزرگ کی طرف اشارہ کرکے)، زنگی اور فیضو(جسے ہم ڈھور کہا کرتے تھے) نہر سے نکلنے والے ایک چھوٹے کھال میں پاؤں ڈبوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ڈھور اپنے ابے کا حقہ چوری چھپے اٹھا لایا تھا  جب کہ زنگی کہیں سے کچھ مدک  چرا لایا تھا۔ مدک کو چلم پر دہکا کر حقے کے جو کش لگے تو   ملنگی ماحول بن گیا۔ جگہ ایسی چنی گئی جہاں سے ہم کسی کو نظر نہ آئیں لیکن کوئی بھی کھیتوں کا رخ کرے تو ہم باآسانی اسے دیکھ سکیں۔ طریقہ یہ طے پایا کہ ہر کوئی اپنے سامنے والی سمت کا خیال رکھے گا، تاکہ چاروں اطراف پر نظر رکھی جا سکے اور رنگے ہاتھوں پکڑے نہ جائیں۔ زمین و آسمان کی سمت کو ہم نے کاندھوں پر بیٹھے فرشتوں کے حوالے کر دیا کیوں کہ یہاں سے جو بھی آتا اس کو صرف وہی دیکھ پاتے۔ ہماری اتنی تاب کہاں تھی۔ چھوٹے چھوٹے قصوں سے شروع ہوئی یہ بیٹھک باقاعدہ بڑھک بازی تک جا پہنچی اور اب ہم چاروں مدک باز ایک جھوٹے قصوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

انہی بڑھک بازیوں میں سب کی توجہ اطراف سے بالکل ہٹ گئی اور ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ کب ڈھور کا باپ ہمارے سروں پر آن پہنچا۔ زمین تو پھٹی نہیں تھی ورنہ ہم لازمی باخبر ہوتے۔ شاید آسمان سے نازل ہوا  لیکن ان فرشتوں کا کیا کریں کہ یہ آج تک نہیں بتاتے وہ کہاں سے آیا تھا۔ بہرحال قصہ مختصر ہمیں ہوش تب آیا جب ڈھور کو چند گالیوں کے ساتھ اوپر تلے پانچ چھے اعلیٰ قسم کے تھپڑ پڑے۔ اُس دن ڈھور کو پتا نہیں کیا ہوا، وہ پہلے بھی ہمارے سامنے کئی بار پٹا تھا لیکن شاید آج اس کی انا آڑے آگئی اور وہ اپنے باپ سے الجھ پڑا اور کہتا اب میں یہاں نہیں رہوں گا، میں شہر چلا جاؤں گا۔ یہ دھمکی ڈھور پہلے بھی کئی بار اپنے باپ کو دے چکا تھا، مگر اس دن وہ  لاری  اڈےکی طرف چل پڑا۔ اس کا ابا اس کے پیچھے اور ہم اس کے ابے کے پیچھے پیچھے ہولئے۔ ہمیں یہ ڈر تھا کہ ڈھور  کا ابا کہیں لاٹھی سے اس کی ٹھکائی نہ شروع کر دے۔ جب اڈے پر پہنچے تو وہاں شہر جانے کے لئےلاری  تیار تھی۔ ڈھور ایک طرف ہو کر کھڑا ہوگیا۔ جب اس نے دیکھا کہ باپ پیچھے پیچھے آرہا ہے،  تو بس کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگیا مگر بس میں سوار نہ ہوا۔ ڈھور کا ابا اس کے پیچھے پہنچا تو وہ جیبیں ٹٹولنے کی اداکاری کرنے لگا۔ ہم بھی پاس پہنچ چکے تھے۔ ڈھور کی نظر جب ہم پر پڑی تو اور بھی مچل اٹھا اور  اپنے باپ سے یوں مخاطب ہوا۔
ڈھور: میں گھر کائی نہ ویساں (میں اب گھر نہیں جاؤں گا۔ )
اس کا باپ بہت پرسکون انداز میں: کتھاں ویسیں؟ (کہاں جاؤں گے؟)
ڈھورابرو اچکاتے ہوئے: شہر ویساں۔ (میں شہر جاؤں گا۔)
ڈھور کا باپ اسی پرسکون انداز میں: پیسے ہن ؟ (پیسے ہیں تمہارے پاس)
ڈھور سر نیچے جھکا کر: نہ سئیں، پیسے کائی نئیں (نہیں سائیں! پیسے نہیں ہیں۔ )
اس کے باپ نے  جیب میں ہاتھ ڈال کر مڑے تڑے کچھ نوٹ نکالے اور اس کو تھما کر کہنے لگا۔ ایہو گھن پیسے، تے ترے  مہینے گھر کائی نئیں آونا ورنہ لتاں بھن ڈے ساں۔ (یہ لو پیسے، اور تین مہینے گھر نہیں آنا، ورنہ ٹانگیں توڑ دوں گا۔)

Wednesday 19 July 2017

دوسرا رخ

3 comments
پس منظر:
میرے بھانجے خزیمہ (عمر تقریباً ایک سال) کی ہفتہ بھر کے لئے آمد۔ اس دوران زین العابدین اور عشبہ کی اس سے دوستی ہوگئی، اور تینوں بچے ملکر خوب کھیلتے تھے۔ ہفتہ بعد خزیمہ کی واپسی ہوگئی۔

منظر:
میں، بیگم اور بچے بیٹھے ہیں۔
مکالمہ:
بیگم: یہ خزیمہ ہمیں اداس کر کے چلا گیا ہے۔
زین العابدین: نہیں مما! وہ ہمیں اداس کر کے نہیں خوش کر کے گیا ہے۔

نیرنگ خیال
#زینیات

Tuesday 4 July 2017

آپ نے آکر پشیمان تمنا کر دیا

4 comments
آپ نے آکر پشیمان تمنا کر دیا

پرانی بات ہے،  جب میری عمر کوئی دس سال کے قریب تھی۔ان دنوں    نیکی کا نشہ سا چڑھا رہتا تھا۔ یہ نیکی کا نشہ بھی عجیب تھا۔ فجر ہو کہ عشاء، کوشش ہوتی تھی کہ نماز مسجد میں پڑھی جائے اور اذان بھی خود دی جائے۔ کتنی ہی بار صرف اس لیے گھنٹہ پہلے مسجد پہنچ جاتا کہ اذان دوں گا۔ انہی دنوں مسجد میں ایک آدمی کا آنا شروع ہوا۔ اس کی شاید ایک آنکھ ضائع ہوچکی تھی۔ بہرحال اس کی آنکھ کے ساتھ کچھ مسئلہ تھا۔ اور مجھے اس سے بہت سارے مسائل تھے۔ ایک تو وہ مجھے  اذان نہیں دینے دیتا تھا۔ خود دیتا تھا۔ اور دوسرا جب نماز کے لیے صفیں باندھی جاتیں تو وہ ہم بچوں کو پچھلی صف میں کھڑا ہونے کا حکم دیتا۔ ہم جو اس مسجد کو اپنا سمجھا کرتے تھے۔ اس رویے سے بےحد شاکی تھے۔ اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھایا کرتے۔ پھر ایک دن کرنا یہ ہوا کہ امام صاحب کسی وجہ سے غائب تھے ، اور ان کے غائب ہونے کا ان موصوف نے فائدہ اٹھایا اور بھاگ کر امامت کی مسند پر جلوہ افروز ہوگئے۔ اس کے بعد تو یہ کھیل ہی بن گیا۔ امام صاحب کبھی نہ ہوتے یہ موصوف امامت کرواتے۔چونکہ یہ ہم بچوں کو شور کرنے پر ڈانٹتے اور نہ اذان دینے دیتے اور نہ ہی اگلی صف میں کھڑا ہونے دیتے تھے تو   وقت کے ساتھ  ہماری ان سے سرد جنگ بڑھتی چلی گئی۔ اچھا ایک دلچسپ بات جو میں نے نوٹ کی کہ جب موصوف امامت کرواتے تو رکوع و سجود میں جاتے وقت “اللہ اکبر” انتہائی گلوگیر سی آواز میں ادا کرتے گویا رو رہے ہیں۔

ایک دن ایسا ہوا کہ میں اذان دینے لگا تو اس شخص نے مجھے ہٹا دیا اور خود اذان دی۔ مجھے بہت برا لگا۔ تھوڑی دیر بعد جب جماعت کھڑی ہونے لگی تو  ہم سب بچوں کو پچھلی صف میں بھی کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا۔امام صاحب موجود نہیں تھے تو یہ صاحب بھاگ کر امامت کروانے کو بھی کھڑے ہوگئے۔ یوں تو مجھے شرارتی ہونے کا ایسا کوئی دعویٰ نہیں اور میں بڑا سیدھا اور شریف سا بچہ ہوتا تھا ۔تاہم ، ایک تو وہ یک چشم گُل دوسرا  ہم بالکل اور تیسرا ان کی روتی ہوئی آواز۔ ہمارے ذہن میں شیطان کا مجسم ہوجانا  کچھ اچھنبے کی بات نہ تھی۔  اب جو رکوع میں جانے لگے تو میں نے انتہائی روتے انداز میں بہ آواز بلند “اللہ اکبر” کا نعرہ بلند کر دیا۔ میرے ساتھ صف میں موجود بچے “کھی کھی کھی” کرنے لگے۔ میں نے رکوع سے دائیں بائیں دیکھا اور انہیں بلند آواز میں ہنسنے سے منع کیا۔ پھر سجدے کی باری آئی تو پھر یہی حرکت۔ عصر کی جماعت تھی۔ دوسری رکعت تک پہنچتے پہنچتے تمام نمازی حضرات بھی مسکرانے اور ہنسنے لگے۔ مسجد میں دبی دبی ہنسی گونجنے لگی۔ تیسری رکعت تک تو ہم باقاعدہ کھلکھلا کر ہنسنے لگے اور یوں ہی آوازیں لگانے لگے۔  ایسے بھی بچے نہیں تھے کہ یہ اندازہ نہ ہو کہ بعد از جماعت کیا ہوگا۔ سو تیسری رکعت سے جیسے ہی چوتھی کے لیے جماعت قیام میں کھڑی ہوئی۔ ہم تمام کے تمام بچے وہاں سے کھسک لیے اوراپنے اپنے  گھر آگئے۔ اس کے بعد کتنے ہی دن میں اس مسجد میں نہیں گیا۔ مسجد بدل لی۔ اور پھر کبھی جانا بھی ہوتا تو ابو کے ساتھ جاتا۔ یہ واقعہ میرے ذہن سے محو ہو ہی چلا تھا کہ ایف ایس سی کے دوران اسی مسجد میں جانا ہوا۔ جماعت کھڑی ہوچکی تھی۔ بھاگم بھاگ جو جماعت کے ساتھ ملا تو ایک مانوس سی روتی ہوئی آواز میں “اللہ اکبر”، “سمع اللہ لمن حمدہ” سنا۔ بےاختیار نماز میں ہی مسکراہٹ  نے آن گھیرا اور بقیہ نماز اسی واقعہ کی جزئیات یاد کرتے کرتے مکمل کی۔ چور آنکھوں سے حضرت کو دیکھا۔ اور پھر گھر آگیا۔ گھر والوں کو یہ قصہ سنایا۔ اور بہت لطف لیا۔

لاہور  کے ابتدائی قیام کے دوران ایک دن بابا نے بتایا کہ یار وہ فلاں شخص فوت ہوگیا ہے۔ میرے ذہن میں وہ آدمی موجود نہ تھا تو بابا نے نشانی کے طور پر بتایا کہ یار وہ کبھی کبھار امامت بھی کرواتا تھا ا وراذان بھی دے دیا  کرتا تھا۔ یہ سننا تھا کہ  سر شرمندگی سے جھک گیا۔ تو وہ یک چشم گُل گزر گیا۔ احساس ندامت نے آن گھیرا۔ پہلی بار  سوچ بیدار ہوئی ، اس سے معافی ہی مانگ لیتا۔ وہ بچپن کی نادانی سمجھ کر معاف کر دیتا۔ موقع گنوا دیا تو نے۔ دل نے بہت ملامت کی۔ اب آپ احباب اگر یہ سمجھیں کہ میں اس بات سے سدھر گیا اور جا کر اس کی قبر پر معافیاں مانگنے لگا تو آپ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ بس تبدیلی یہ آئی کہ جب میں کسی کو یہ واقعہ سناتا تو آخر میں ایک سنجیدہ سی شکل بنا کر یہ بھی کہتا ، یار، اور آج وہ زندہ ہوتے تو میں ان سے معافی مانگ لیتا۔ اگرچہ کبھی کبھار مجھے لگتا کہ اس شرارت پرمجھے  کوئی ندامت نہیں ہے۔

گزشتہ سال چھوٹی عید کی بات جب ہم سب عید نماز کے لیے مسجد پہنچے۔ بابا امام سے عید ملے بغیر مسجد سے نہیں نکلتے سو اس دن ہم ایک خلقت سے بغلگیر ہوتے ہیں۔ یہ بغل گیر ہونے کا عمل بھی ایسا ہوتا ہے کہ پتا نہیں چلتا کس کس سے عید مل لی ہے۔ سب سے ملتے ملتے جب  محراب تک پہنچے تو امام صاحب سے عید ملنے سے  پہلے مجھے ایک شخص بڑی گرمجوشی سے عید ملا۔ میں نے  بزرگ کو دیکھا تو ان کی آنکھ کو کوئی مسئلہ تھا۔ وہ بڑی گرمجوشی سے مجھے کہنے لگے۔ کیسے ہو؟ اسلام آباد ہی ہوتے ہو؟ میں ان سے کہا جی، ابھی چند دن قبل لاہور منتقل ہوا ہوں۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔ مسجد سے نکلتے ہی میرا اور بابا کا مکالمہ کچھ یو ں ہوا۔

میں: بابا! یہ شخص تو فوت ہو چکا تھا؟
بابا: یہ کب کی بات ہے؟
میں: آپ نے مجھے بتایا تھا۔
بابا: تمہیں دھوکا ہوا ہے۔
میں: میں اتنے عرصے سے ہر کسی کو کہہ رہا ہوں کہ یہ فوت ہوچکا ہے۔ اور اگر یہ زندہ ہوتا تو میں اس سے معافی مانگ لیتا۔
بابا: عجیب آدمی ہو تم۔۔۔۔۔ (ہنستے ہوئے) ۔۔۔ پتا نہیں کس کی قبر میں کس کو لٹا رکھا ہے۔
  چھوٹے بھائیوں کا ایک مشترکہ فلک شگاف قہقہہ۔
اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ اب کسی کو واقعہ سناتے وقت کیسے کہوں گا، "یار! اگر آج وہ زندہ ہوتے تو میں ان سے معافی مانگ لیتا۔"

Thursday 15 June 2017

بلاعنوان

2 comments
کچھ عرصہ قبل لاہور ایکسپو سینٹر میں ایک عالمی کتاب میلے کا انعقاد ہوا۔ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے راقم کو بھی وہاں جانے کا اتفاق ہوا اور کافی سارے روپے ان کتابوں پر ضائع بھی کر بیٹھا۔ اللہ مجھے ہدایت دے۔ وہیں پر ان آنکھوں نے کچھ ایسے مناظر دیکھے کہ روح سرشار اور دل باغ باغ ہوگیا۔ داخل ہوا تو ہر طرف کتابیں ہی کتابیں اور ان کتابوں کے ساتھ سیلفیاں بناتے لوگ۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ ایک آدھی تصویر میں بھی کھینچوں گا مگر احساس ہوا کہ یہاں کتابوں کا نہیں سیلفیوں کا عالمی میلہ لگا ہے تو اپنے ارادے کو ترک کر دیا۔ دل کو تسلی دی کہ کسی نہ کسی کی سیلفی میں شاید پیچھے سے گزرتا ہوا یا کھڑا میں بھی آگیا ہوں گا۔ سو اب چنداں ضرورت نہیں رہی۔ خیر یہ قصہ نہ تو سیلفیوں کا ہے اور نہ ہی اس عالمی  میلے کی روداد لکھنا میرا  مقصد۔
ہوا یوں جب میں اس کتاب میلے سے واپس جانے کو تھا تو جناب امیر نے اپنی آمد کی اطلاع دی۔ اور پھر ان کے ساتھ  کتب سٹالز کا طواف نئے سرے سے شروع کیا۔اس طواف کے دوران امیر صاحب ایک سٹال کے اندر گھس گئے۔ اور لگے کتابیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے۔ میں چونکہ پہلے ہی طواف کر چکا تھا اور اپنی دلچسپی کی کتب خرید چکا تھا اس لیے سٹال کے سامنے کھڑا  اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ اسی اثناء میں اس سٹال پر ایک نازک اندام اپنی والدہ کے ہمراہ جلوہ افروز ہوئی۔ اور کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ سٹال پر سامنے ہی کشف المحجوب ایک مقدس کتاب کی طرح پلاسٹک کی تھیلی میں بند تھی۔ شاید صاحبِ سٹال کا خیال ہو کہ گھٹن کی وجہ سے یہ کتاب یہاں سے بھاگ نہ جائے۔ ورنہ باقی کتابوں کو اس طرح قید نہ کیا گیا تھا۔ کتاب پر واضح الفاظ میں "کشف المحجوب" لکھا نظر آرہا تھا۔ اور نیچے "حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ"  جگمگا رہا تھا۔ اس لڑکی نے کتاب کو اٹھایا  اور صاحب سٹال کی طرف کرتے ہوئے۔ کیا میں اس کو باہر نکال کر دیکھ سکتی ہوں۔ صاحبِ سٹال نے کمال فراخدلی سے کور سے باہر نکال کر محترمہ کے آگے کی۔ محترمہ نے اپنی والدہ سے کہا۔ "عجیب سا ہی نام ہے۔  " اور درمیان سے کھول کر دیکھنے لگی۔ اس کی والدہ نے جواباً کچھ کہا جو راقم کی سماعتوں کو سرفراز نہ کر سکا۔ بہرحال لڑکی نے بمشکل چند سیکنڈ کتاب دیکھی۔ اور پھرانتہائی حقارت بھرے انداز میں  کہا۔ "عجیب ہی کتاب لگ رہی  ہے۔" اورواپس رکھ کر  عہد حاضر کا ایک معروف تین کلوگرام وزنی ناول اٹھا لیا۔

Tuesday 30 May 2017

عدم دلچسپی

4 comments
منظر:
میں دفترجانے کے لیے جوتے پہن رہا ہوں۔
میرا بیٹا "محمد زین العابدین" صوفے پر بیٹھا اپنی نئی کھلونا کار کو انتہائی انہماک سے دیکھ رہا ہے۔

مکالمہ:
میں: زین بیٹا! کیا  کر رہے ہو؟
زین العابدین: صوفے سے اٹھ کر میرے پاس آتے ہوئے۔ پاپا! آپ کو پتا ہے؟
میں: کیا بیٹے؟
زین العابدین: ہم جو بھی چیز لیتے ہیں۔ وہ دو تین دن میں پرانی ہوجاتی ہے۔ 
مجھے اس  بات کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔ سو وقتی طور پر میں فوری جواب نہ دے سکا۔ 
مجھے خاموش دیکھ کر زین العابدین نے اپنی گاڑی میرے چہرے کے سامنے لہراتے ہوئے کہا۔ پاپا! میری ساری گاڑیاں پرانی ہوجاتی ہیں۔میں چاہتا ہوں  یہ کبھی پرانی نہ ہوں۔ 

22 مئی 2017


Tuesday 23 May 2017

سوشل میڈیائی لطائف اور ہم

0 comments
ایک کام میں مصروف تھے کہ میز پر پڑا فون کپکپا اٹھا۔ اب معلوم نہیں کہ کپکپاہٹ سے خوف نمایاں تھا کہ یہ خوشی کی لہر تھی۔ فون اٹھایا تو دیکھا ایک دوست نے وٹس ایپ پر ایک لطیفہ بھیجا تھا۔ لطیفہ اچھا تھا۔ سو ہم نے جواباً "ہاہاہاہاہا" کا میسج اس کو بھیج دیا۔ تاکہ سند رہے لطیفہ وصول پایا ہے اور پڑھنے والے نے اس سے حظ بھی اٹھایا ہے۔ ابھی چند ثانیے ہی گزرے تھے کہ فون دوبارہ کپکپا اٹھا۔ دیکھا وہی لطیفہ کسی نے ایک وٹس ایپ گروپ میں شئیر کر رکھا تھا۔ مروتاً ایک دانت نکالتا ہوا شتونگڑہ وہاں رسید کیا ۔ ابھی فون واپس نہ رکھا تھا کہ ایک اور گروپ ٹمٹما اٹھا۔ دیکھا تو اس گروپ میں ایک حسین و مہ جبیں نے وہی لطیفہ پھینکا تھا۔ حسن کونظر انداز کرنا جتنی بڑی گستاخی ہے اس کے ہم ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ سو فوراً سے پیشتر دو چار ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے شتونگڑے باقاعدہ اقتباس لے کر رسید کیے تاکہ کوئی اور بدمذاق یہ نہ سمجھے ہمیں اس کی بات پر ہنسی آئی ہے۔ ہنسی بہ حق دار رسید ۔
کام سے فارغ ہو کر سوچا کہ کچھ دیر آستانہ فیس بک پر حاضری دے لی جاوے۔ ابھی اطلاعاتی صفحہ پر لوگوں کی کارستانیاں ابھرنی شروع ہوئی تھیں کہ ایک پرانا لطیفہ نئے سنجیدہ لطائف کے درمیان جگمگاتا نظر آیا۔ اس لطیفے سے جڑی کئی یادیں آگئیں۔ ہم نے بےاختیار ہو کر "ہاہاہا" کا شتونگڑہ رسید کیا۔ اور آگے کو چل دیے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہی لطیفہ ایک اور پرانے دوست نے بھی شیئر کر رکھا ہے۔ فوراً  لعن طعن کی۔
"یہ کیا حرکت ہے؟ کبھی کوئی سنجیدہ بات بھی کر لیا کر۔ یہاں تم لوگوں نے تھیٹر لگایا ہوا۔ اور قبل مسیح کے لطائف سنا کر ہنسانے کی کوشش کرتے ہو۔"
اس کو ڈانٹ پلا کر ایک فخر کا احساس جاگا۔ شرم آرہی ہوگی اب اسے۔ دل میں شرمندہ ہو رہا ہوگا۔ کہ واقعی کتنا پرانا لطیفہ شئیر کیا ہے۔ اپنے آپ کو داد دیتے ہوئے ذرا سا صفحہ آگے بڑھایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ کسی انجان حسینہ نے ایک فیس بکی گروپ میں وہی لطیفہ تازہ تازہ ارسال فرمایا ہے۔ تصویریں دھوکا ہیں۔ ان پر اعتبار مت کیجیو۔ مگر ہائے۔۔۔۔ دل ہی تھا پگھل گیا۔ کئی الٹے سیدھے شتونگڑے بنائے۔ اور عرض کی۔
" کیا کمال لطیفہ شریک کیا ہے۔ واہ واہ۔۔۔ بھئی لوگ بھی کیا سوچتے ہیں۔۔۔ ہاہاہاہا۔ آج ہی پڑھا۔ بلے بلے۔۔۔"
داد و تحسین کے ڈونگرے برسا کر ابھی واپس بھی نہ پلٹے تھے کہ انہی موصوفہ نے ہمارے تبصرے پر ایک لال سرخ سہاگن قسم کا  "دل" ارسال کر دیا۔ بس بےارادہ ہی  آئندہ سے ہمیشہ اس حسینہ کے لطیفوں پر ہنسنے کا ارادہ فرما لیا تھا۔
فیس بک سے فارغ ہو کر سوچا پیر ٹوئٹر شریف کے درشن کیے بھی مدتیں بیت گئی ہیں۔ وہاں قدم رکھا ہی تھا کہ ایک دوست نے وہی لطیفہ تصویری شکل میں لگا رکھا تھا۔ ہنہ۔ ہم نے ہنکارہ بھرا۔ نظرانداز کر کے آگے بڑھے تو پھر ایک حسینہ کی طرف سے وہی تصویر نظر آئی۔۔۔۔۔۔اطلاعاتی صفحہ وہیں ٹھہر گیا۔۔۔۔۔۔  و علی ہذا لقیاس

Wednesday 3 May 2017

یکے از خواجگان

3 comments
شہرِ اقتدار سے شہر زندہ  دلان بسلسلہ روزگار منتقلی نے مجھے  شب کا مسافر بنا دیا تھا۔ اور اس شاہراہ پر میرے ساتھ بہت کم ہی مسافر تھے۔ یوں سمجھیے ،  راقم القصورہی ان اولیں لوگوں میں سے تھا جنہوں نے ادارہ مذکورہ میں شب بیداری کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ اور سفرِ شب کے رموز و فوائد  آشکار کیے۔ طلب سچی اور راہ سیدھی ہو تو کارواں بنتے دیر کب لگتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان شب بیداری کے اس سفر میں ہمسفر بننے لگے۔ رات کو دن کا سماں رہنے لگا۔ انہی دنوں میری  ملاقات خواجہ صاحب سے ہوگئی۔" خواجہ" لفظ سے میری  عقیدت کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔بزرگان دین کے ناموں کے ساتھ لگے اس لفظ نے  ذہن پر ایک ان دیکھی سی چادر تان رکھی تھی۔ پردہ تصور اس لفظ سے   ہمیشہ   سادگی و انکساری کا  پیکر ابھرتا۔ چشم تصور میں اس لفظ کے ساتھ ہی نیکی، انسانیت اور محبت کے ایک ایسے وجود کی تصویر ابھرتی، جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ لیکن بھلا ہو یکے بعد دیگرے ملنے والے خواجوں کا۔ جنہوں نے اس تصور کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ پہلے پہل تو ایک آدھے "خواجہ" کو اپنے خیالی تصور سے یکسر مخالف سمت میں پایا تو یہ کہہ کر دل کو تسلی دی  "پسر نوح بابداں بہ نشست خاندان نبوتش گم شد" ۔ لیکن بات جب ایک دو سے بڑھ چلی تو محسوس ہوا ،  جانے انجانے یہ عقیدت اس لفظ سے کم سے ہو چلی ہے۔
چھوٹے قد، چھوٹے بالوں میں، چھوٹا  چہرہ لیے،چھوٹے سے  خواجہ صاحب کو جب راقم نےپہلی بار  دیکھا تو دل میں یہ خیال آیا کہ وہ "خواجہ" جن کا وجود آج کے گمراہ دور میں خیال ٹھہرا ہے؛ مجسم ہو کر ہمارے سامنے آگیا ہے۔پرانے چند ناخوشگوار واقعات کے سبب  عقیدت نے ہماری آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی لیکن دل نے ایک تھپکی ضرور دی۔ مورکھ! دیکھ کیا رہا ہے۔ پائے لاگو کر لے۔ دل کو کسی طور سمجھا لیا۔ کہ چند دن، چند دن ۔ خواجہ صاحب سے کچھ دل کی باتیں کریں۔ مرشد کامل ہوا تو ہم نے پلہ کیوں چھوڑنا۔ ارادت مندوں میں تو زبردستی شامل ہوجائیں گے۔ ہائے۔۔۔۔ یہ گناہ گار ذہن اور معاشرے کا چلن۔ کیسے نیک نیک لوگوں کے بارے میں کیسے کیسے گمان ذہن  میں آجاتے ہیں۔
خواجہ صاحب تشریف لاتے۔ ایک چادر میز کے کونے پر ٹکاتے۔ ایک ٹوپی بھی تھی شاید۔ جو کسی نے خواجہ صاحب کو بھلے وقتوں میں پہنا دی تھی اور خواجہ صاحب اس یاد کو سر پر سجائے رکھتے تھے۔ سیٹ پر تشریف رکھتے۔ ایک ادائے بےنیازانہ سے اپنے کام کا آغاز کرتے۔ ہم جیسے راندہ درگاہ قسم کے لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے ہیڈ فون لگا لیتے۔ کچھ منقبت وغیرہ سنتے ہوں گے۔ اللہ لوگوں کے بھید کون کھول پایا ہے۔ رات کا پہلا پہر ڈھلنے کے بعد تشریف لاتے۔ اور دوسرا پہر ڈھلنے سے قبل   غائب ہوجاتے۔ چادر بھی غائب ہوجاتی۔ کیا منظر ہوتا تھا۔ اللہ اللہ ۔ مدتوں  اسی کافرانہ گمان کا شکار رہے کہ کسی خالی کمرے میں جا کر چادر اوڑھ کر سوجاتے ہوں گے۔ یہ خیال ایسا کوئی ذاتی بھی نہ تھا۔ لوگ کہتے ہیں تو کیا بے سبب کہتے ہوں گے مصداق ہم نے اس پر کچھ کچھ یقین بھی کر لیا مگر بغیر تحقیق کیے ایسے کافرانہ خیالات رکھنا یقینی طور پر ایک قابل گرفت عمل ہے۔ اور راقم الحروف تو بزرگی کے منصب پر بھی  فائز نہیں تھا کہ یہی کہہ کر جان چھڑا لے خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔
یوں تو خواجہ صاحب سے آتے جاتے ہم چونچیں لڑایا ہی کرتے تھے مگر جب وہ مصروف ہوں تو اس وقت ان کو چھیڑنے کا ایک الگ سے لطف ہوتا تھا۔ ایک دن جب خواجہ صاحب کام میں گھٹنوں گھٹنوں مصروف تھے راقم نے ہمت کر کےگفتگو کا آغاز کیا ا ور خواجہ صاحب سے ان کی دنیااور اس کے بعد پھر اس ادارے میں آمد کے متعلق سوال پوچھا۔ جواب میں خواجہ صاحب نے پنجابی ایک فصیح و بلیغ گالی سے نوازا۔ایسا نہیں کہ زندگی میں مجھے کسی نے گالی نہیں دی مگر مسئلہ یہ تھا کہ یہ کام بہت بےتکلف دوست ہی کیا کرتے  تھے۔ ٹھنڈے دل سے  جملے میں جب الفاظ و گالیوں کے تناسب پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ یہ گالیاں جملے میں اثر انگیزی کے لیے ٹانکی گئی ہیں۔ تاہم کچھ اس قدر زیادہ تعداد میں ٹانک دی گئی تھیں کہ اصل جملہ قریب غائب ہو چکا تھا اور صرف اثر انگیزی رہ گئی تھی۔ مجھے احمد اقبال صاحب کا جملہ بےاختیار یاد آگیا۔ کہ "اگر بھورے ماموں کی دھوتی کے سوراخوں کا رقبہ جمع کیا جائے تو دھوتی غائب ہوجاتی ہے۔" مختصر گفتگو فرماتے۔ مختصر سے مراد یہ ہے کہ جملہ تو کافی طویل ہوتا۔ تاہم اس میں اصل عبارت بےحد مختصر ہوا کرتی تھی۔   ہر قسم کے قومی نظریے کے مخالف تھے اور خود کو قوم پرست بھی سمجھتے تھے۔ یہ ایک عجیب تضاد تھا جس کا راز آج تک راقم پر نہیں کھلا۔ خود ہی نیشنلزم، کیپٹلزم  اور سوشلزم پر درس دیتے۔ خود ہی سوال کر کے جواب دیا کرتے تھے۔ اور پھر خود ہی ان نظریات کو رد کر کے کہہ دیا کرتے تھے کہ خطیب کیسا بیوقوف آدمی ہے۔ اور ہمارے پاس سوائے  ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا۔رفتہ رفتہ میں خواجہ صاحب کو اور خواجہ صاحب  مجھے سمجھنے لگے۔
ایک دن جوش خطابت میں مسلم حملہ آوروں کو برا بھلاکہہ رہے تھے۔ دورانِ خطاب فرمانے لگے یار دیکھو ہمارے اسلاف کی معصومیت۔ اچھے بھلے اونچی ذات کے برہمن تھے۔ مسلم ہو کر شودر ہوگئے۔ ہم نے عرض کی حضور، آپ کے اسلاف کو بھی چاہیے تھا کہ بحث کرتے۔ کہتے ادھر سے مندر چھوڑیں گے تو ادھر پیری کی مسند پر بیٹھیں گے۔ سر جھٹک کر فرمانے لگے۔ اس وقت یہ راز کب کھولے تھے انہوں نے۔ یہ رمزیں تو کہیں بعد جا کر پتا چلیں۔ دھوکے سے لٹ گئے۔اس سے احباب اگر یہ اندازہ لگائیں کہ خواجہ صاحب پرانے مذہب کے لیے کوئی نرم جذبات رکھتے تھے تو آپ سراسر غلطی پر ہوں گے۔ مذہب و غیر مذہب الغرض تمام حلقوں کے لیے ان کا رویہ ایک ہی تھا۔ ایک دن عالم وجد میں راقم سے فرمانے لگے۔ بھلے مانس! زندگی میں کبھی کسی مولوی کی بات پر اعتبار نہ کرنا۔ عرض کی۔ سیدی! آپ کے بارے میں کیا حکم ہے۔ تو ایک عارفانہ ہنسی کے ساتھ بولے۔ خدا گواہ ہے کہ تم میری کسی بات کا یقین نہیں کرتے۔ راقم نے عقیدت میں اس بات سے بھی انکار نہ کیا۔لیکن مدعا عرض کیا کہ روحِ سوال یہ تھی "خودرافصیحت، دیگران رانصیحت"۔ تو ہنستے ہوئے کہنے لگے "ہرکس سلیقہ ای دارد" ۔ ہم کج فہم بھی ہنس پڑے۔ بھید نہ پا سکے۔
خواجہ صاحب ہر اس بات کے خلاف تھے جو ایک عامی کےمعیارِ عقل و شعور   پر پوری اترتی تھی۔ پہلے پہل راقم کو خیال گزرا کہ شاید یہ مخالفت بہت زیادہ علم و عملیات کے سبب ہے۔ تاہم خواجہ صاحب نے اس خوش فہمی میں بھی زیادہ عرصہ نہ رہنے دیا۔ ایک دن گفتگو کے دوران ایک معروف کتاب پر بحث چھڑ گئی۔ لائبریری میں وہ الماری، جس میں کتاب دھری تھی،  اس کے سامنے سے راقم کا بارہا گزر ہوا تھا۔ ادھر خواجہ صاحب  کے ایک دوست نے وہ کتاب باقاعدہ پڑھ رکھی تھی۔ الغرض دونوں ان مسائل پر بہت دیر تک بات کرتے رہے جن کا اس مصنف کو کما حقہ ادراک نہ تھا۔  ایک دن فرمانے  لگے۔ مجھے دو قسم کے لوگ بہت برے لگتے ہیں۔ ایک وہ جو سرِورق دیکھ کر کتاب کے بارے میں ثقیل و طویل تبصرے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ  سوشل میڈیائی  جو قول کا ذائقہ چکھ کر کتاب کے بارے میں بےلاگ تبصرہ فرماتے ہیں۔ راقم نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ درحقیقت آپ ایک ہی قسم کے لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ تو کہنے لگے۔ نہیں میاں! دو مختلف باتیں ہیں۔ تم کو غور و فکر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے کافی غور کیا مگر کوئی خاص فرق معلوم کرنے سے قاصر رہے۔ تادم است غم است۔
مالِ دنیا کے مآل سے واقف تھے سو ظاہری ہیئت کی چنداں پرواہ نہ کیا کرتے۔ ایک جینز اور ٹی شرٹ جو میلی ہوتی تو الٹی کر کے پہن لیتے۔ فرماتے میاں ! مالِ دنیا چرک دست است۔ راقم نے عرض کی تو ساری میل ہاتھ پر ہی جمع رکھیں گے۔ کچھ اتار بھی پھینکیے۔ اس پر غصہ میں آگئے۔ بڑی دیر غصہ رہے۔ لیکن اگلے دن بھی اسی حلیے میں دیکھ کر عرض کی کل کے غصے کا کیا ہوا۔ فرمانے لگے کہ تمہارا غصہ ان بےجان چیزوں پر کیوں اتاروں۔ ان کو خود سے دور کیونکر کروں۔ شاعر آدمی تھے اور پیٹر تخلص کرتے تھے ۔ مخطوطات بھی زبانِ فرنگ ہی میں تھے۔ جن میں اکثریت بنیادی اخلاقیات کے لیے زہر قاتل تھے۔ خود فرماتے تھے کہ میری گزارشات  ناپختہ ذہن کے لیے موت ہیں  اور پختہ کے لیے مخطور۔ واللہ کیا کیا راز کھولا کرتے تھے۔ ایک دن راقم نے پوچھ ہی لیا کہ "پیٹر" ہی کیوں۔ کہنے لگے ایک تو اس سے "انٹیلکچوئل پُنے" کا گمان ہوتا ہے دوسرا اس لیے کہ دیار فرنگ کے بےشمار ناموں سے ہمارے ہاں یہی معروف ہے۔ توجیہ اچھی تھی راقم نے بھی اعتراض نہ کیا۔ خود اپنی جان سے ہاتھ دھونے  کا اندیشہ نہ ہوتا تو ان کا کوئی مخطوطہ  "فی سبیل اللہ فساد" کے لیے ضرور شریک کرتے۔ بلکہ تحریر کیا۔ ان کا تو ایک آدھا قول ہی ہمیں وجود سے عدم کی طرف منتقل کرنے کو کافی ہے۔ 
خواجہ صاحب کی ذات باکمال کے متعلق بالا گفتگو تو مشے نمونے از خروارے ہے۔  زندگی رہی تو خواجہ صاحب کی رمز بھری زندگی سے کچھ سنہرے واقعات عوام کی ہدایت اورعبرت کے لیے کبھی پیش کیے جائیں گے۔

نوٹ: اس خاکے کے تمام کردار تخیلاتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی سو فیصد مشابہت محض اتفاقیہ ہوگی۔