Friday 29 January 2016

دھواں

7 comments
منظر بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی منظر انسان کو کھینچ کر ماضی میں لے جاتا ہے تو کبھی کوئی منظر اس کو واپس حال میں کھینچ لاتا ہے۔ لیکن کچھ منظر ایسے دلفریب ہوتے ہیں کہ انسان ان کو دیکھ کر یادوں میں اس قدر دھنس جاتا ہے کہ پھر اس کو واپس حال میں آنا تکلیف دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہیں وہ منظر ٹھہر جائے اور کسی طرح وہ وقت کو واپس موڑ لے۔  لیکن" دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو" شاعر کے تخیل میں تو ممکن ہے حقیقت   میں نہیں۔
صبح کے مناظر کی دلفریبی کا میں سدا سے اسیر ہوں۔ یہ وہ مناظر ہیں جو میرے دل کو چھو جاتے ہیں۔ میں ان لمحوں میں خود کو ہمیشہ تروتازہ محسوس کرتا ہوں۔  صبح ہوگئی تھی لیکن سورج ابھی  کہرے اور بادل کی چادر اوڑھے کچھ دیر اور سونا چاہتا تھا۔ اس کی انگڑائیاں کہرے اور بادل کی چادر کے پیچھے محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ بار بار بادل کی چادر اوپر کھینچتا لیکن فطرت اس کو روز مرہ کے معمولات کی طرف بادل ہٹا کر بلانے کی کوشش کرتی۔ ٹھنڈی ہوا سے بچنے کے لیے میں نے  گردن میں لپٹا مفلر  منہ کے اوپر بھی لپیٹ لیا۔ اسلام آباد میں سائیکل چلانا بھی کتنا مشکل ہے۔ ساری سڑکیں اونچی نیچی ہیں۔ کتنا زور لگتا ہے۔ میں  اپنی کاہل اور سست طبع کو کوسنے لگا۔  ایک میدان کے پاس سے گزر رہا تھا کہ کچھ کتوں کو لگا میری رفتار کم ہے۔ سو انہوں نے تیز سائیکل چلانے میں کچھ دور تک میری مدد کی۔ سائیکل چلاتے چلتے میں سیکٹر سے آگے نکل آیا۔
میدان کے ایک طرف چند جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ انہیں جھونپڑیوں میں سے ایک کے باہر سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ گاؤں سے تعلق ہونے کی وجہ سے میرے لیے یہ دھواں اجنبی نہ تھا۔ میں جانتا تھا کہ مٹی کے ایک چولہے میں چند لکڑیاں یا اپلے جل رہے ہوں گے۔ لیکن جب میں اس چولہے کے سامنے سے گزرا تو پاؤں رک گئے۔ ایک عورت چولہے پر توا رکھ کر روٹی بنا رہی تھی۔ اور اس چولہے کے سامنے ایک چھوٹا سا بچہ دھونکنی  لیے چولہے میں جلتی لکڑیوں کو مزید دھونکنے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کی اس حرکت سے شعلے بڑھک بڑھک کر توے کو چاروں طرف سے گھیر لیتے۔  اس کی ماں اسے منع کر رہی تھی۔ بچے کے سامنے ایک پلیٹ بھی رکھی ہوئی تھی۔ میں  نے میدان میں بڑے سے پتھر کے سہارے سائیکل کھڑی کی اور خود پتھر پر چڑھ  کر بیٹھ گیا۔  اس منظر نے مجھے بہت پیچھے دھکیل دیا تھا۔
یہ ایک گھر تھا چار کمروں پر مشتمل گھر۔ کچا گھر جس کی دیواریں مٹی سے لیپی ہوئی تھیں۔ کمروں کی چھتیں لکڑی کے بڑے بڑے تختوں اور اینٹوں کے سہارے کھڑی تھیں۔ صحن کے ایک کونے میں مٹی کا چولہا تھا۔ جس میں ایک عورت اپلے اور لکڑیاں اکھٹی کر کے جلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ بار بار تیلی جلاتی لیکن لکڑیاں اور اپلے آگ ہی نہیں پکڑ رہے تھے۔  چولہے میں  پڑی لکڑیوں کو دھونکتے دھونکتے اس کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔ اس کے پاس ہی ایک بچہ بیٹھا تھا۔ جو اپنی ماں کو بڑے انہماک سے دیکھ رہا تھا۔ بچے نے جب دیکھا کہ کہرے سے بھیگی لکڑیاں آگ پکڑنے پر رضامند نہیں تو اپنی ماں کو مخاطب کر کے کہا۔   "امی ! میں سامنے والی دکان سے مٹی کا تیل لے آؤں"۔ "ارے ہاں! جاؤ  بیٹا وہ سامنے مٹی کا تیل پڑا ہے۔ اٹھا کر لے آؤ"۔ ماں نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ مٹی کے تیل سے  لکڑیاں فوراً سلگ اٹھیں۔ بچہ بھی وہیں چولہے کے سامنے بیٹھ گیا۔ اور لکڑیاں ہلا ہلا کر دھونکنی سے لکڑیوں کو دھونکنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں لکڑیوں کا دھواں چڑھنے سے پانی بہنے لگا۔ ماں  نے ماتھے پر بوسہ دے کر اس کو ایسا کرنے سے منع کیا۔ 
سورج کی تمازت اب گالوں پر محسوس ہونے لگی تھی۔ شاید اس نے یہ  راز پا لیا تھا کہ طلوع ہوئے بغیر گزرا نہیں ہوگا۔ میں نے سائیکل اٹھائی اور گھر واپسی کی راہ لی۔واپسی کی راہ پر  نہ دھواں تھا نہ دھونکنی اور لکڑیاں۔ لیکن آنکھیں سرخ تھیں اور ان سے پانی بہہ رہا تھا۔ 

Friday 22 January 2016

محمداحمد بھائی کی غزلیہ داستان اور ہم۔۔۔۔۔

3 comments
آج صبح @محمداحمد بھائی کی ایک غزل آنکھوں کے سامنے آگئی۔ سنا ہے کہ صبح صبح انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عروج پر ہوتی ہے۔ سو ہم نے بھی جب اس غزل کو دوبارہ پڑھا تو ہم پر کئی راز آشکار ہوگئے۔ احمد بھائی کا ہی ایک شعر کہ
اس کے ساتھ ہی ہم پر یہ بھی راز کھلا کہ احمد بھائی نے یہ غزل بھی اہل محفل سے چھپا لی ہے۔ سو ہم نے فوراً سے پیشتر اس کو محفل میں شامل کیا تاکہ لوگ جان سکیں احمد بھائی کی کارستانیاں کیا ہیں۔ آخر یہ آبیاری نخل سخن میں کون کون سے عناصر معاون ثابت ہوتے ہیں۔  
درحقیقت یہ ایک ایسی غزل ہے جو کہ اصل میں ایک داستان ہے۔ مرصع اور مکمل داستان اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ۔ ۔۔۔۔ اس غزل کے اندر جو راز دفن تھے وہ آپ احباب کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ 

تعلق رکھ لیا باقی، تیّقن توڑ آیا ہوں
کسی کا ساتھ دینا تھا، کسی کو چھوڑ آیا ہوں​ 
شاعر نے اپنی دل پھینک طبعیت کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان  کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب ایک نئی دلربا پر نظر پڑی اور محسوس ہوا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پرانے والی  کو خدا حافظ کہا جائے تو میں نے بدگمانی کی ایسی فضا قائم کی کہ یقین کے تمام رشتے ٹوٹتے چلے گئے۔ نئی کا ساتھ دینے کے لیے پرانی سے کنارہ کشی ضروری تھی لیکن دور اندیشی کا تقاضا یہی تھا کہ تعلق باقی پھر بھی رکھا جائےتاکہ اگر وہاں سے ناکامی و نامرادی حصے میں آئے تو پرانے تعلق کو بحال کرنے کی کوئی سبیل نکالی جا سکے۔ شاعر معاملات عشق پر بہت گہری نظر رکھتا ہے۔ 
 
تمھارے ساتھ جینے کی قسم کھانے سے کچھ پہلے​ 
میں کچھ وعدے، کئی قسمیں، کہیں پر توڑ آیا ہوں​ 
پرانے والی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے بعد شاعر نے نئی دلربا کے نخرے دیکھے تو اس کو بھی اشاروں کنایوں میں اپنے کالے ماضی سے آگاہی دی ہے۔  اگر زیادہ بےرخی و نخرے    دکھائے تو یاد رکھو کہ تمہارے ساتھ دینے سے پہلے میں کچھ وعدے قسمیں جو  میں نے کسی اور سے کیے تھے،توڑ ے ہیں ، لہذا  مجھے کوئی ایسا شخص سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے جو بات کر کے لازمی نبھائے گا۔ سیدھے سیدھے میرے ساتھ چلو گی تو سب ٹھیک رہے گا ورنہ   یہی شعر میں کہیں اور پڑھتا نظر آؤں گا۔
 
محبت کانچ کا زنداں تھی یوں سنگِ گراں کب تھی​ 
جہاں سر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سر پھوڑ آیا ہوں​
پرانی محبتوں میں شاعر بڑی ہوشیاری سےتمام چالیں چلتا رہا اور اس کا کوئی عشق دنیا کی نظروں میں نہیں آیا لیکن اس بار شاعر کی نئی محبت کا راز فاش ہوگیا اور بات لڑکی کے گھر والوں تک پہنچ گئی۔ بعض اندرونی ذرائع سے معلوم ہوا کہ  نئی دلربا  کے بھائیوں نے شاعر کی گردن پر چھری رکھ کر اس کوکہا کہ چل کاکا۔ شادی کی تیاریاں کر۔ اس پر شاعر کے منہ سے بےاختیار نکلا کہ یہ میرے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔ یہ تو ہلکے نازک رشتے تھے۔ یہ ظالم لوگ اس کو کس موٹے لوہے کے سنگل سے باندھنے چلے ہیں۔ مصرعہ ثانی سے اندازہ ہوا کہ شاعر کی ایک نہ چلی اور اس کو سقراط کی پیروی کرنی پڑی۔  
 
پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے کہ اپنا آپ​ 
جہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں
شاعر نے کسی طریقے سے اپنی جان بچا تو لی لیکن اس کی قیمت اس کو بہت زیادہ ادا کرنی پڑی۔ خوب پٹنے کے بعد شاعر کسی طریقے سے جان بچا کر بھاگ تو آیا لیکن اس کے سر سے آئندہ عشق کا بھوت اتر گیا۔ اپنے طرز عمل میں واضح تبدیلی محسوس کرنے کے بعد شاعر نے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ تمہارے بچھڑنے کے ساتھ ہی میرا وہ ہر روز نئے عشق لڑانے والا شخص بھی ساتھ ہی بچھڑ گیا ہے۔ بعد میں شاعر مولوی ہوگیا اور لوگوں کو عشق و عاشقی سے باز رہنے کی تلقین کرنے لگا۔ خود اپنی ایک او رغزل میں شاعر نے اپنی ہی مثال یوں پیش کی ہے
لیکن شاعر یہ بھول گیا کہ ہر انسان اپنے تجربات سے سیکھتا ہے۔ ​ 
​ 
اُسے جانے کی جلدی تھی، سومیں آنکھوں ہی آنکھوں میں​ 
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہاں تک چھوڑ آیا ہوں​ 
چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں۔ یہی حال شاعر کا ہے۔ کچھ عرصہ گوشہ نشیں رہنے کے بعد وہ اپنی اسی روش پر پلٹ آیا۔ لیکن اس بار شاعر بےحد محتاط تھا۔ یقینی طور پر اس نے اپنے ماضی سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ سو اس کے بعد کبھی بھولے سے بھی نئی دلربا کی گلی میں پاؤں نہ رکھا۔ انہی دنوں میں ایک دن جب اس کافر ادا نے ناز سے کہا کہ آج آپ مجھے چھوڑ آئیے تو شاعر کی روح فنا ہوگئی۔ فوراً  لڑکھڑا کر گرنے کی اداکاری کی اور کہا، تمہیں ذرا جلدی جانا ہے جب کہ میرے پاؤں میں موچ آگئی ہے لہذا تم آرام سے جاؤ۔ میں یہاں کھڑا تمہیں دیکھ رہا ہوں۔ اگر کسی نے بدتمیزی کی تو میں اس کو دیکھ لوں گا۔ وہ معصوم اس بات پر مطمئن ہو کر چلی گئی اور شاعر بھی اس کے گھر کے اندر جانے کے بعد پلٹ آیا۔ 
 
کہاں تک میں لئے پھرتا محبت کا یہ اِکتارا​ 
سو اب جو سانس ٹوٹی، گیت آدھا چھوڑ آیا ہوں
شاعر اپنی محبوبہ کے روز روز کے تقاضائے شادی سے تنگ آتا جا رہا تھا۔ لہذا اس شعر میں وہ خود کو سمجھانے کی کوشش کررہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ یہ گیت بھی ادھورا ہی چھوڑا جائے۔  اپنے دل کو سمجھانے بجھانے کی کوشش  کہ اب کی بار اگر اس نے ایسا کوئی تقاضا کیا تو پھر میں بنا کچھ کہے، بات مکمل کیے بغیر ہی نکل آؤں گا۔ کچھ کہانیاں بنا انجام کے بھی ہونی چاہیے۔ اسی طرح کے سوچوں میں ڈوبا وہ کوچہ جاناں کے باہر جا پہنچا۔  
​ 
کہاں تک رم کیا جائے، غزالِ دشت کی صورت​ 
سو احمدؔ دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں​
جب شاعر گلی کے باہر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ کافرہ اپنے چھے بھائیوں کے ساتھ کسی جگہ جانے کے لیے گھر سے نکلی ہے۔ اس منظر کا دیکھنا تھا کہ شاعر کی ہوائیاں عقاب کے پر لگا کر اڑ گئیں۔ کچھ پرانی تلخ یادیں اعصاب پر اس طرح سوار ہوئیں کہ شاعر کو لگا کہ وہ زمیں میں گڑ گیا ہے۔ پھر جو ایکا ایکی وہ وہاں سے بھاگا ہے تو پلٹ کر نہیں دیکھا۔ اس منظر کے چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ وہ شخص جو چلنے سے بھی اوازار تھا ایسا دوڑا ہے کہ شہر کا شہر بھاگ کر عبور کر گیا اور پبلک ٹرانسپورٹ کا سہارا بھی نہیں لیا۔ اس شعر میں شاعر نے اپنی اسی کیفیت کا اظہار کیا ہے کہ میں تو پہلے ہی اس کوچے میں ہرن کی طرح ہمہ وقت بھاگنے کے لیے چوکنا رہتا تھا۔ لیکن اس دن جو منظر دیکھا ہے تو  توبہ کر لی کہ اتنے شکاریوں میں یہ ہرن بچ نہ پائے گا۔