Friday 28 September 2018

نہ قاصد سے بیاں ہو گی نہ قاصد سے بیاں ہو گا

4 comments
شمارندی آغوشیے  (لیپ ٹاپ) کے مسائل حل ہو چکے تھے۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر بہت خوبصورتی سے چل رہی تھی اور ہمیں  یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ زندگی اب ان بدرنگ، بدہیئت اور بدصورت  شمارندی آغوشیوں سے آگے نکل چکی ہے۔ لیکن ہماری یہ خوشی دیرپا ثابت نہ ہو سکی۔ نہیں نہیں آپ بالکل غلط سمجھے ہیں، اس بار تو ہمیں ذہنی اذیت سے دوچار کرنے کے لیےقدرت نے ایک اور ہی رنگ اختیار کیا تھا۔
روزانہ کی طرح دفتری معاملات نبٹانے کی خاطر برقی خطوط  کا مطالعہ جاری تھا کہ ایک منفرد سے برقی خط پر نظر ٹھہر گئی۔ عنوان تھا "موبائل فون"۔ اللہ یہ کیسا برقی خط ہے۔ باہر ہمارے افسر اعلی کا نام جگمگا رہا تھا۔ کانپتے ہاتھوں سے خط کھولا اور اندر لکھی عبارت پڑھنے کی کوشش کی۔ 
"کچھ ایسے برقی خطوط ہوتے ہیں جو فوری توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں ،اور جواب میں تاخیر سے نقصان ہو سکتا ہے۔ اس معاملے کے حل کے لیے آپ کو ایک عدد "موبائل فون" دیا جائے گا تاکہ آپ ایسے تمام برقی خطوط پر نظر رکھ سکیں۔ مزید یہ کہ آپ سے اس پر ہر وقت رابطہ رکھا جا سکے۔"
ہم نے جواب لکھنا شروع کیا۔ 
"نہیں ہمیں  نہیں چاہیے۔ ہم  دفتری اوقات سے الگ جو وقت گزارتےہیں،  اس میں زہر مت گھولا جائے۔ "
صفحہ  پھاڑ دیا۔ 
نیا جواب لکھا۔ " یہ ہماری  ضرورت نہیں ہے۔ ہم اسے لیکر کیا کریں گے۔ "
پھر صفحہ پھاڑ دیا اور نیا جواب لکھنے لگے۔ 
"ہمارا یہ خیال ہے کہ ہم  ایسے تمام خطوط پر یوں بھی نظر رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ  دفتری لیپ ٹاپ ہمیشہ ہی موجود رہتا ہے۔ سو ذاتی نمبر پر رابطہ کیا جائے تو جلد یا بدیر جواب دیا ہی جا سکتا ہے۔ "
پھریہ لکھا مٹا دیا ، گہری سانس لی۔ ایک گلاس پانی حلق میں انڈیلا اور اس کے بعد لکھا۔ 
" ہم  بھی شدت سے اس چیز کی کمی محسوس کر رہے تھے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ کمپنی ضروریات کے تقاضے پورے کرنے کی خاطر ہمیں یہ سہولت مہیا کر رہی ہے۔ اس سے یقینی طور پر مراسلت میں برق رفتاری آئے گی۔ آپ کا بہت شکریہ۔"
جواب بھیج کر پیشانی پر سوچ کی لکیریں ابھر آئیں۔ پریشانی یہ نہیں تھی کہ فون ملے گا۔ پریشانی یہ تھی کہ کیسا ملے گا۔ عمومی طور پر ہمارے ہاتھ کوئی نایاب سی چیز ہی آتی ہے۔ 
چند دن گزر گئے اور ہمارے ذہن سے یہ فون والا معاملہ محو ہوگیا۔ ایک دن کام کے دوران تھکاوٹ کا احساس ہوا۔ ذرا دیر کرسی کی پشت سے سر  ٹکا کر ٹانگیں دراز کر کے آنکھیں بند کیں۔ چند دقیقے بھی نہ گزرے ہوں گے کہ ہمیں اپنا نام سنائی دیا۔ آنکھیں کھولی ہی تھیں کہ بالکل سامنے "آئی ٹی  انتظامی امور" کے شعبے کا ایک نوجوان چہرے پر مسکراہٹ لیے کھڑا نظر آیا۔ 
کیسے ہو؟ ہم نے آغاز گفتگو کیا۔ 
اس کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔ ٹھیک ہوں۔ آپ کے لیے فون لایا ہوں۔ 
فون، کون سا فون؟ ہم نے چونکتے ہوئے پوچھا۔ 
دفتر کی طرف سے آپ کو فون دیا جا رہا ہے۔ وہی فون۔ وہ ہماری معلومات میں  کوئی اضافہ تو نہ کر سکا پر ہم کو وہ بھولا خط یاد آگیا۔ 
اوہ اچھا۔۔۔۔ ہاں میاں۔۔ دکھاؤ تو کیا لائے ہو۔ 
اس نے ہاتھ سامنے کیا تو اس پر  چاندی رنگ میں مستطیلی شکل کا ایک فون پڑا تھا۔ حیرت! ہم نے سنا ہے کمپنی سب کو "آئی فون" دیتی ہے۔ تو ہمارے ساتھ کیا معاملہ الٹ ہے؟ ہم نے حیرانی سے پوچھا۔ 
غور سے دیکھیے حضور! یہ آئی فون ہی ہے۔اور یہ رہا اس کا چارجر اور تار۔  اس نے پرسکون انداز میں سب  سامان میز پر دھرتے ہوئے کہا۔ 
اور ہاں۔ وہ میں ابھی آپ کو ایک برقی خط بھیجوں گا، اس پر تصدیق کر دیجیے گا کہ فون موصول ہوا۔ اس نے مڑتے ہوئے کہا۔ 
ابھی ہم میز پر پڑے اس فون کو میز پر پڑا پڑا ہی دیکھ رہے تھے کہ ایک دفتری ساتھی نے فون اٹھاتے ہوئے کہا۔
 ارے واہ!  یہ کیا چیز ہے؟
آپ کو کیا لگ رہا ہے؟ ہم  نے پوچھا۔
فون لگ رہا ہے۔ اس کے پیچھے ایک سیب بھی مٹ رہا ہے۔ آئی فون  ہے کیا؟
فون ہی ہے۔  واپس رکھو۔ ہم نے سنجیدگی سے کہا۔ "سیب بھی مٹ رہا ہے۔ بڑا آیا۔" ہم نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ 
اس کے جانے کے بعد ہم نے فون کو اٹھایا۔ تھا تو وہ فون ہی۔ اس پر پلاسٹک کا چڑھا کور بہت عجیب لگ رہا تھا۔ شکل پر جابجا زخموں کے نشان تھے۔ ایک طویل نشان پیشانی سے لیکر ٹانگ تک مطلب اوپر سے لیکر نیچے تک موجود تھا۔ یقینی طور پر یہ فون ، موبائل فونز کی دنیا کا بدمعاش رہا ہوگا۔  خیر چونکہ فون آچکا تھا،  سو اس پر برقی خطوط کی آمدورفت کے لیے قاصد بھی متعین کر دیا۔ 
 ایک دن   وہی نوجوان ہمیں   راہداری میں ملا جو دھوکے سے فون ہمیں دے گیا تھا۔ 
فون کیسا چل رہا ہے؟ اس نے پوچھا۔ ہم باوجود کوشش کے یہ اندازہ لگانے سے قاصر رہے یہ واقعتاً سنجیدگی سے پوچھ رہا ہے یا چسکے لے رہا ہے۔ 
اچھا چل رہا ہے۔ بڑا پیارا فون ہے۔ چھوٹا سا۔ ایسا آئی فون پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ کوئی "سپیشل ایڈیشن" لگتا ہے۔ ہماری بات سن کر وہ ہنسنے لگا۔ 
اچھا اس پر پلاسٹک کا کور کیوں چڑھایا ہے؟ ہم نے پوچھا۔ 
کون سا پلاسٹک کاکور؟ اس نے حیرانی سے پوچھا۔ ہم نے اس کو کور دکھایا۔ تو ہنسنے لگا۔ 
ہنس کیوں رہے ہو؟ 
اتار کر دیکھ لو۔ اس نے کہا۔ اگر فون بکھر جانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں کب کے اتار چکے ہوتے۔ ہم نے کہا۔ اس پر وہ پھر کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔  ہم خاموشی سے وہاں کھسک لیے۔
 دن گزرتے گئے۔ فون کو ہم یا تو گھر ہی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ یا پھر وہ دفتر بھول جاتے تھے۔ اس پر آنے والی کالز اکثر ہم سنتے ہی نہ تھے اور نہ ہی اس فون کا نمبر ہمیں یاد تھا۔سوشل میڈیا اس پر استعمال ہو سکتا تھا لیکن ہوتا نہیں تھا۔ ۔   وٹس ایپ، فیس بک، یوٹیوب اور وقت ضائع کرنے والے ایسے تمام دیگر پھندے آپ کے پاس ہوتے ہوئے بھی آپ ان کو استعمال نہیں کر سکتے کیوں کہ جتنی دیر میں کھل کر سامنے آئیں گے آپ یقینی طور پر لاہور سے اسلام آباد پہنچ چکے ہوں گے۔ برقی خطوط اس پر پڑھنا مشکل اور ان کا جواب لکھنا زبان دکنی میں جواب لکھنے سے زیادہ مشکل تھا۔  کئی بار ایسا ہوا کہ بیٹری ختم ہونے کی صورت میں وہ فون بند ہوجاتا اور ہم کو پتا ہی نہ چلتا کہ فون بند ہوچکا ہے۔ ہمارے اتنا خیال رکھنے کے باوجود اس فون کی صحت روز بروز گرنے لگی تھی۔ ہم نے آج تک کوئی فون "بُھرتے" نہیں دیکھتا تھا۔ مگر اس فون کے ساتھ معاملہ کچھ اور ہی تھا۔ سکرین ایک طرف سے کٹاؤ کے عمل کا شکار تھی اور اس کے چھوٹے چھوٹے ذرے پکڑنے پر انگلیوں پر لگے رہ جاتے تھے۔  برق بذریعہ تار فون میں منتقل ہو رہی ہو تو کال سننے کی صورت میں آپ کو ایک زبردست قسم کا جھٹکا لگے گا۔ سکرین کے اوپر سے بنا چھوئے بھی ہاتھ گزاریں تو سکرین بند ہوجاتی تھی۔  "پراکسمٹی سنسر" کا خیال سائنسدانوں کو شاید اسی فون سے آیا ہوگا۔
ہمارے ایک دوست کا فرمانا تھا کہ جو شخص اپنی زندگی میں مطمئن ہے اس کو یہ فون تھما دینا چاہیے۔ چیز کے دسترس میں ہونے کے باوجود بھی اس سے بےنیاز ہوجانا درویشی صفت ہے اور یہ فون یہی صفت انسان میں بیدار کرتا ہے  اس فون کے زندگی میں آنے سے برقی مواصلات سے ایک طرح کی بیزاری سی چھا گئی تھی ۔ اب حالت یہ تھی کہ ہم اپنا فون بھی کم کم ہی استعمال کرنے لگے تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ  جو لوگ بہت زیادہ فون استعمال کرنے کے عادی ہیں ان کو کم سے کم ہفتہ بھر کے لیے یہ فون دیا جانا چاہیے۔ بلکہ اگر آئندہ مستقبل میں "ادارہ بحالی برائے مریضگان سوشل میڈیا" کا وجود عمل میں لایا گیا تو یہ فون ابتدائی "تھراپی" میں  ایسے مریضوں کو سوشل میڈیا سے   بیزار کرنے میں کافی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ 

Tuesday 11 September 2018

خرگوش جادوگر

3 comments

خرگوش جادوگر
چنا اور منا بہت شرارتی بھائی تھے۔ یوں تو ان کی شرارتیں سب کو بھاتی تھیں مگر بعض دفعہ وہ ایسی شرارت بھی کر جاتے جس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا تھا۔ جیسے ایک دن کلاس میں گڑیا کی پینسل چھپا دی۔ جب معلم نے سب کو سبق لکھوایا تو گڑیا کے پاس پینسل نہ تھی۔ سزا کے طور پر معلم نے گڑیا کو کھڑا کر دیا۔ اور وہ رونے لگی۔ مگر یہ دونوں بہت خوش ہو رہے تھے۔ کبھی کسی کی کتاب چھپا دیتے۔ تو کبھی کسی کا لنچ نکال کر کھا جاتے۔ ان کے اساتذہ اور گھر والے ان کو بہت سمجھاتے کہ دیکھو بچو! شرارت ایسی ہو جس سے کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ دونوں یہ ساری باتیں ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے۔ کسی بھی سرزنش کا ان پر اثر نہ تھا۔ماں باپ کے سامنے توبہ کر لیتے۔ مگر اگلے ہی پل سے پھر وہی سب شروع۔
ان کے گھر کے پاس ایک جھیل تھی، جہاں دونوں اکثر شام کو کھیلنے جایا کرتے تھے۔ اس دن شام کو جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے وہاں ایک خرگوش کو دیکھا۔ جس کے ہاتھ میں دور بین تھی۔ دونوں گھبرا گئے اور چھپ کر خرگوش کو دیکھنے لگے۔ خرگوش جو اصل میں ایک جادوگر تھا وہاں ان کی موجودگی سے باخبر تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ دونوں بچے اس سے ڈر کر ابھی تک چھپے ہوئے ہیں تو وہ خود ہی چپکے سے اٹھ کر ان کے پیچھے پہنچ گیا۔ اور ان کو کہنے لگا۔ پیارے بچو! کیا بات ہے؟ تم مجھ سے گھبرا کیوں رہے ہو؟ خرگوش جادوگر کی شفقت اور پیار بھرے انداز نے دونوں کا خوف کم کرنے میں مدد کی۔ اور وہ خرگوش جادوگر سے باتیں کرنے لگے۔
چنا نے خرگوش جادوگر کی دوربین اٹھانے کی کوشش کی تو خرگوش جادوگر نے کہا، بیٹا! یہ عام دور بین نہیں ہے۔ یہ بہت خاص دور بین ہے۔ اس میں تم اپنی شرارتوں کا انجام دیکھ سکتے ہو۔ اور اپنا مستقبل بھی دیکھ سکتے ہو۔
منا نے خرگوش جادوگر سے کہا کہ وہ اس دوربین میں اپنی کچھ شرارتوں کا انجام دیکھنا چاہتا ہے۔
خرگوش جادوگر نے دور بین اس کے سامنے کر دی، تو انہوں نے دیکھا کہ گڑیا کو اس کی والدہ سے بہت زورکی ڈانٹ پڑ رہی ہے۔ اس کی والدہ کہہ رہی ہیں کہ تم روز پینسل گم کر کے آجاتی ہو۔ اب تم کو نئی پینسل نہیں ملے گی۔ تمہاری سزا یہی ہے کہ تمہیں روز معلم سے سزا ملے۔
اگلے منظر میں ببلو کو اس کی والدہ سے ڈانٹ پڑ رہی تھی ۔ یہ تیسرا لنچ باکس ہے جو تم نے اس مہینے گم کیا ہے۔ اب تم کو کل لنچ نہیں ملے گا۔ جب بھوکے رہو گے تو خود ہی حفاظت کرنے لگو گے۔
یہ مناظر دیکھ کر دونوں کے سر شرم سے جھک گئے۔ خرگوش جادوگر نے کہا بچو! کیا تم اپنا مستقبل دیکھنا چاہو گے۔
ان دونوں نے شرمندہ انداز میں اثبات میں سر ہلایا۔
خرگوش جادوگر نے دوربین پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور پھر ان کو منظر دیکھنے کا کہا۔
دونوں نے دیکھا کہ اسکول میں کوئی بھی ان کا دوست بننے پر تیار نہ تھا۔ سب ان کو آتا دیکھ کر وہاں سے کھسک جاتے۔ اساتذہ بھی ان کی شرارتوں سے تنگ آکر ایک رپورٹ گھر بھیجنے کی تیاری کر رہے تھے۔
خرگوش جادوگر نے سمجھایا کہ پیارے بچو! ابھی بھی وقت ہے۔ اپنی شرارتوں سے باز آجاؤ۔ ایسی شرارت جس میں کسی کا نقصان ہو اچھی نہیں ہوتی۔ اور پول کھلنے پر سب پر سے آپ کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ ان دونوں نے وعدہ کیا کہ وہ اب بہت اچھے بچے بن کر رہیں گے اور شرارت میں بھی کبھی کسی کا نقصان نہیں کریں گے۔
اگلے دن انہوں نے گڑیا کی سب پینسل اس کو واپس کر دی اور ببلو کا لنچ باکس بھی اس کو واپس کر دیا۔ اب وہ کلاس میں سب کے اچھے دوست بن چکے تھے اور اساتذہ کے پسندیدہ بچوں کی فہرست میں شامل تھے۔


از قلم نیرنگ خیال