Monday 22 December 2014

کوئی اس زخم کا مرہم نہیں ہے

5 comments
میں گزشتہ  دنوں سے غم و غصے کی جس کیفیت میں ہوں شاید میں اس کو الفاظ میں کبھی بھی نہ ڈھال سکوں۔ خدا گواہ ہے کہ جب میں سوشل میڈیا پر انا للہ و انا الیہ راجعون لکھ رہا تھا تو میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ایک لہر تھی جو میرے پورے وجود میں دوڑ رہی تھی۔ میں اس کو غم سمجھ رہا تھا۔ لیکن مجھے احساس ہوا  کہ یہ نفرت کی لہر تھی۔ جو میرے پورے احساسات اور وجود پر حاوی ہو گئی تھی۔ نفرت اور اس قدر شدید نفرت۔ مجھے اپنے آپ سے الجھن ہو رہی تھی۔ اپنی حلیم طبع مجھے بار محسوس ہو رہی تھی۔ میری مروت اخلاق لحاظ داری سب کچھ ایک جھٹکے میں اتر چکا تھا۔ میں ہذیان بک رہا تھا۔ اور بکے چلے جا رہا تھا۔ لعنت و ملامت کا جو دورہ مجھے پڑا تھا اس سے مجھے چھٹکارے کی کوئی صورت ابھی تک نظر نہیں آرہی۔ خود پر ملامت، ان اہلکاروں پر ملامت جو اپنی مصروفیتوں میں اس قدر مگن تھے کہ انہیں خبر نہ ہوئی۔
 لوگ کہتے ہیں کہ اور قیامت کس کو کہتے ہیں۔ کیسی ہوگی قیامت۔ مگر مجھے لگ رہا   کہ قیامت کہ دن تو کوئی کسی کو نہ مارے گا۔ کوئی بھی نہ مرے گا۔ سب زندہ کیے جائیں گے۔ تو پھر یہ کیسی قیامت ہے کہ جس میں لوگ مارے جا رہے ہیں۔ نہتے بچوں پر کچھ بیسواؤں کی اولادیں اپنی نشانہ بازی کی مشقیں کر رہی  ہیں۔ عورتوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے۔ شیطان کے پجاری ننگا ناچ رہے ہیں۔ 
دفتر میں روزمرہ کے معمولات میں مصروف تھے ہم کہ چائے پینے جب کیفے میں آئے تو سامنے ٹی وی پر دردناک مناظر نظر آنے لگے۔ اس کے بعد خبریں ملنا شروع ہوئیں۔ اور دل کا وہ عالم ہواکہ "اشکوں سے بحر ہوگیا صحرا نہیں رہا"۔ اس کے بعد کام میں دل نہ لگا۔ شام کو گھر آتے ہی نصف بہتر کو دیکھا جو اپنے باورچی خانہ  کے کاموں میں الجھی تھی۔ دونوں بچے سب سے بےفکر ایک دوسرے سے لڑائی میں مصروف تھے۔ کبھی ایک کھلونے پر لڑائی جاری ہے۔ تو کبھی دوسرے پر۔ میں نے نصف بہتر سے کہا کہ آج پشاور میں جو کچھ گزرا ہے۔ قیامت کا لفظ بھی مجھے چھوٹا لگ رہا ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ کیا ہوا۔ مجھے تو آج پورا دن ٹی وی دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا،  کیا ہوا ہے؟ تفصیل بتائیں۔ آپ بچوں کو سنبھالیں اب۔ یہ سن کر میرا درد اور بھی بڑھ گیا۔ کتنی ہی مائیں ہوں گی جو اپنے بچوں کو اس دن اسکول بھیج کر مطمئن ہو گئی ہوں گی۔ اپنے کام کاج میں پتا نہیں انہیں خبر بھی ملی ہوگی کہ نہیں کہ ان کا لخت جگر کچھ انسان صورت کتوں کے ہاتھوں شہید ہوچکا ہے۔ پتا نہیں کب انہوں نے بھی ٹی وی چلایا ہوگا۔ شاید کسی ہمسائے نے آکر بتایا ہو کہ آج اس اسکول پر یہ قیامت گزر گئی۔ لوگ کیسے بھاگے ہوں گے۔ باپ بھاگا ہوگا۔ میرا بچہ بھی تو وہیں پڑھتا ہے۔ میں دیکھوں۔ اللہ اکبر۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔
ساری رات آنکھوں میں کاٹ دی۔ کبھی ایک بچے کو دیکھتا۔ کبھی دوسرے کو۔ میری آنکھوں کی روشنی ان سے ہے۔ میرے والدین کی آنکھوں کی روشنی مجھ سے ہے۔ کیسے کوئی ظالم ہوگا جو ان روشنیوں کو بجھا دے گا۔ اولاد تو سرمایہ ہے۔ روشنی ہے۔ راستہ ہے۔   دل کٹتا جاتا ہے۔ جتنا سوچتا ہوں تلافی ممکن نہیں نظر آتی۔ کتابوں میں پڑھا تھا کہ فرعون بڑا ظالم تھا۔ بچے مار دیتا تھا۔ ہلاکو خان چنگیز خان نے سب کو مارا۔ لیکن یوں بھی کسی نے کبھی مارا ہوگا۔ مجھے تو ان طوائف زادوں میں سے کسی کا نام بھی نہیں آتا، کہ فرعون ، ہلاکو خان اور  چنگیز خان کے مقابل پیش کر سکوں۔ دیکھو اسی بات پر تم اتراتے تھے کہ تم سے زیادہ ظالم کوئی تاریخ میں نہ آئے گا۔ آج چند افراد اٹھے ہیں جنہوں نے تمہارے ظلم کو دھندلا دیا ہے۔ لیکن افسوس کہ مجھے ان کے نام نہیں آتے۔ وگرنہ میں لکھتا اور اپنی آنے والی نسلوں کو تاکید کر کے جاتا کہ دیکھو ان ناموں میں کوئی نام اپنے آنے والے بچوں کہ نہ رکھ دینا۔ کہ ان سے منسوب انسان نما جانوروں پر تمام قوم کی لعنت ہے۔ 
وقت تو یہ ہے کہ ہم سب ہتھیار اٹھا لیں   ان جنونی درندوں کتوں کی مخالفت میں۔ جو نہ صرف انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔ بلکہ جنہوں نے مذہب کو بھی اس قدر بدنام کر دیا ہے کہ لوگ اب خود کو مسلم کہتے ہوئے سر جھکا لیتے ہیں۔ ان پیسے کے لئے بکنے والے کتوں نے نہ انسانیت کا پاس رکھا اور نہ مذہب کا۔ مذہب سے تو خیر ان کا تعلق تھا ہی نہیں لیکن انسانیت تو سب کے لئے ایک جیسی رہتی ہے۔ اس سے بھی منہ موڑ لیا۔ 
ہمارا یہاں دل پھٹ گیا ہے۔ لوگ ابھی تک غم و غصے اور نفرت کی لہر سے باہر نہیں آئے۔ تو وہ گھرانے جن پر یہ قیامت بیت گئی۔ جو ان  خون آشام درندوں کی درندگی کا شکار ہوگئے۔ وہاں کیسی صف ماتم بچھی ہوگی۔ دیکھنے کی ہمت نہیں۔ سننے کی تاب نہیں۔ کاش شتر مرغ ہوتے ہم ۔ کاش ہم بھی ریت میں سر دبا لیتے۔ کاش۔ کاش کاش۔۔۔۔۔ اب تو بس ایک ہی خواہش ہےکہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے یہ تمام شیطان کے کارندے اپنے انجام کو پہنچیں۔ جتنی جلدی ممکن ہو سکے۔۔۔

Wednesday 10 December 2014

اوّلیں چند دسمبر کے (محترم و مکرم امجد اسلام امجد سے معذرت کے ساتھ)

8 comments
اوّلیں چند دسمبر کے 
(امجد اسلام امجد سے معذرت کے ساتھ)

اوّلیں چند دسمبر کے
ہربرس ہی عجب گزرتے ہیں
انٹرنٹ کے نگار خانے سے
کیسے کیسے ہنر گزرتے ہیں
بے تکے بےوزن کلاموں کی
محفلیں کئی ایک سجتی ہیں
میڈیا کے سماج سے دن بھر
کیسی پوسٹیں پکارتی ہیں مجھے
"جن میں مربوط بےنوا گھنٹی"
ہر نئی اطلاع پہ بجتی ہے 
کس قدر پیارےپیارے لوگوں کے 
بد شکل بد قماش کچھ مصرعے
ٹائم لائن پہ پھیل جاتے ہیں
شاعروں کے مزار پر جیسے
فن کے سوکھے ہوئے نشانوں پر
بدوضع شعر ہنہناتے ہیں 
پھر دسمبر کے پہلے دن ہیں اور
"ہر برس کی طرح سے اب کے بھی"
بے طرب صفیں باندھتے ہیں یہ
"کیا خبر اس برس کے آخر تک"
شعر اور بےوزن سے مصرعوں سے
کتنے دل اب کے کٹ گئے ہوں گے
کتنے شعراء اپنی قبروں میں
پھڑ پھڑا کر اکڑ گئے ہوں گے
بےبحر شاعری کے جنگل میں
کس قدر ظلم ہوگئے ہوں گے
"ہر دسمبر یہ سوچتا ہوں میں"
"اک دن ایسا بھی تو ہونا ہے"
شاعری کے ہنر کو سونا ہے
بےبحر بے طرب یہ سارے شعر
کب عروض و بحر سمجھتے ہیں
بس دسمبر کی رٹ لگائے ہوئے 
سماجی میڈیا کو بھر دیا ہوگا
اور کچھ بےتکے سےمصرعوں سے
ایک دیوان چھپ گیا ہوگا

+Muhammad Ahmed  بھائی کا خاص شکریہ اس کو نکھارنے میں مدد کرنے کا۔ :)

Wednesday 3 December 2014

پنجابی محاورات کی شرح۔۔۔ ایک عزیزی کے استفسار پر

3 comments


 آلکسیاں دے پنڈ وکھرے نئیں ہندے۔۔۔۔

یہ ایک ایسا محاورہ ہے جس میں زندگی کی بڑی حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے۔چاہے طنز ہی کی صورت ، کہ سست لوگ بھی دیکھنے میں عام لوگوں جیسے لگتے ہیں۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ یہ چنے ہوئے افراد ہوتے ہیں۔ جو کہ کسی بھی معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ سست اور کاہل لوگ سدا سے دوسروں کے لئے باعث حسد و رشک رہے ہیں۔ لوگ چاہ کر بھی سستی نہیں کر پاتے۔ کیوں کہ اس کے لئے جس حوصلہ برداشت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے عموماً وہ بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا جب جب کسی آلکسی سے آشنا ہوتی ہے اس کو سمجھتی ہے شاید یہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہے۔ وگرنہ اس قدر حوصلہ ہمت و برداشت اللہ اللہ۔۔۔ "یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔" دوسری طرف وہ لوگ جو اپنی برق رفتاری پر نازاں ہوتے ہیں وہ اس مصرعہ کی صورت "پہلے تھے تیزروی پر نازاں اب منزل پر تنہا ہیں" خود کو محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ سچا آلکسی کبھی بھی تنہائی کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ کاررواں کے اس معتبر اور ذمہ دار شخص کی طرح ہوتا ہے جو کہپیچھے پیچھے آتا کہ اگر کسی کی کوئی چیز رہ گئی ہو اور اپنی برق رفتاری میں کچھ عوامل کو نظرانداز کر گیا ہو تو اس کو احساس دلا سکے۔ لیکن بےلوث خدمت کے جذبے کودنیا کہاں سمجھتی ہے۔ امتیازی سلوک کر کے ہر قدم پر ان کو احساس دلاتی ہے کہ تم سست ہو۔ اور یہ بھول جاتی ہے کہ دنیا تو وجود ہی سستوں سے ہے۔ کیا ایک تیزرفتار مکھی ایک کچھوے کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ کہاں کچھوے کی عمر رواں، کہاں سمندر سمندر خشکی خشکی کے تجربات اور کہاں چند دنوں کی ایک زندگی جس کا ہرکام بنا سوچے عجلت میں۔
ہمارے ایک محترم دوست کا فرمانا ہے کہ کیا دنیا میں کاہلی سے بڑا بھی کوئی سچ ہے۔ حضور کی اس بات سے ہم اسقدر متاثر ہوئے تھے کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ایک کوچہ آلکساں کی بنیاد رکھیں گے۔جو کہ عرصہ پہلے ہم نے رکھ بھی دی تھی۔ اور اس محاورے کو غلط ثابت کریں گے۔ دنیا کو بتائیں گے کہ ہر آدمی سست نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ آپ کے درمیان رہتا ہے۔ تو قدر کیجیے کہ بجائے اس کے وہ کوچہ آلکساں میں جابسے اور تمہاری بستیاں محض عجلت کی تصویر بن کر رہ جائیں۔اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ عجلت کن لوگوں کا کام ہوتا ہے۔

 آٹے دی بلی بناواں میاؤں کون کرے ۔۔۔۔

دھوکا دینا اور دھوکا کھانا انسان کی فطرت ہے۔ ہر دور انسانی میں انسان نے کچھ ایسے ہتھکنڈے ضرور ایجاد کئے رکھے ہیں جس سے وہ معصوم اور بھولے بھالے لوگوں کو بیوقوف بنا سکے۔ درج بالا محاورہ بھی ایک ایسے ہی دور کی ایجاد ہے جب انسانی عقل شعور کے کچھ مراحل طے کر چکی تھی۔ اور لوگ ظاہراً ہر بات دیکھ کر اس پر یقین نہ کیا کرتے تھے۔ بلکہ اس کے دیگر عوامل کے بارے میں سوالات کر لیا کرتے تھے۔ یہی وہ دور تھا جب نقادی کے فن نے زور پکڑا اور ہر قسم کے کام کے لئے اس کے کچھ اصول وضع کر لئے گئے تھے۔
جس دور میں محاورہ ایجاد ہوا اس دور میں ٹھگی بہت عروج پر تھی۔ اور لوگ بہت ہی چھوٹی سی چیز کو بھی بڑی بتا کر عوام کو ٹھگ لیا کرتے تھے۔ لیکن محاورہ بنانے والے کے ذہن کے پاس سے بھی یہ بات نہ گزری کہ بلی گونگی بھی ہو سکتی ہے۔ بعد کے لوگوں نے جب گونگی بلیوں پر تحقیق کی تو اس کے بعد سے اس محاورے کی شہرت میں خاطر خواہ کمی آئی۔ چونکہ یہ محاورہ ٹھگی کے بنیادی اصولوں کو بیان کرنے کے لئے بنایا گیا تھا کہ جب کچھ دھوکے کا کام کرو تو اس کے بنیادیلوازمات پورے کر لو۔ اور اس کا اطلاق عہد حاضر کی جدید ٹھگیوں پر نہیں ہوتا۔ جہاں پر ایک بات پر لوگ تیس تیس سال ایک ہی جماعت کو حکمران رکھتے ہیں۔ جبکہ نہ اس کے پاس بلی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ میاؤں کرتی ہے۔

 آئی موج فقیر دی لائی جھگی نوں اگ

عملی زندگی میں آپ کا بارہا ایسے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے جو خوشی ہو یا غم نقصان اپنا ہی کرتے ہیں۔ سیاست کی زبان میں ان کو عوام کہتے ہیں۔ جبکہ کتابی زبانمیں اس کو موج میں آیا فقیر کہتے ہیں۔ دونوں صورت میں بات ایک ہی رہتی ہے کہ عوام قرض و امداد کے ٹکڑوں پر پلتی ہے اور فقیر ان ٹکڑوں پر پلنے والوں کےٹکڑوں پر۔ لہذا دونوں جب خوش ہوں تو ایک ہوائی فائرنگ کر کر کے آتش بازی کر کر کے اپنے ہی گھر جلا لیتا ہے۔ دوسرا جس کے پاس کچھ خریدنے کو نہیں ہوتاوہ کہیں سے ماچس خرید کر آتش بازی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ گھاس پھونس ہی تو ہے دوبارہ جمع کر لوں گا۔ قصہ مختصر یہ ایک انتہائی عملی محاورہ ہے۔جس میںہمارے معاشرتی رویوں پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

 آدمیاں نوں آدمی ملدے نیں تے کھواں نوں کھو

اپنی طرف سے اس محاورے میں بہت ہی بڑا انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا مکافات عمل ہے۔ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ یہ تمام کتابیباتیں ہیں۔ بعض لوگ ساری عمر دھوکا دیتے ہیں اور پھر بھی وہ بیچارے جلاوطنی کی زندگی کے نام پر ہیرو رہتے ہیں۔کچھ بیویوں کے مقروض رہتے ہیں جبکہ ان کیبیوی کا کوئی کاروبار ہی نہیں ہوتا۔ بعض بیچارے اتنے غریب ہوتے ہیں کہ اپنے ملک میں مساجد میں بیٹھے رہتے ہیں۔ لیکن کاروبار باہر کے ممالک میں کرتے ہیںتاکہ اس ملک میں تبدیلی کا عمل شروع ہو سکے۔ اور تمام "آدمی" ان کنووں سے پانی نکلنے کی آس میں ان کے اردگرد جمع رہتے ہیں۔ الغرض یہ ایک ایسا بیکارمحاورہ ہے۔ جس کی عملی مثالیں عہد حاضر میں ڈھونڈنا بہت ہی مشکل ہے۔

Sunday 9 November 2014

عدل زنجیری

9 comments
عدل زنجیری
(عدل و انصاف کی تاریخ، مثالوں کے جھروکوں سے)

پرانے دور کی بات ہے۔جب ملوکیت کا رواج عام تھا۔ ویسے تو آج کل بھی ملوکیت ہے۔ خاندان در خاندان حکومت چلتی ہے۔ لیکن اس دور میں خاندان بھی نہ بدلا جاتا تھا۔ اور ایک ہی خاندان حکومت میں رہتا تھا۔ ملوکیت بڑی ظالم چیز ہوتی تھی۔شہزادوں کی چالاکی اور سازباز کاامتحان ہوتی تھی۔ چاہے بادشاہت میں کسی کو دلچسپی ہو یا نہ ہو۔ لیکن بادشاہ بننا بہت ضروری ہوتا تھا کیوں کہ یہ زندگی کی ضمانت تھا۔ یہ روایت بھی تھی اور ضرورت بھی، سو کوئی بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایکبار ایک شہزادے نے والد یعنی بادشاہ کے مرنے کے بعد اپنے بھائی سے بہت کہا کہ مجھے بادشاہت میں کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن بڑے بھائی نے کہا کہ دلچسپی ہو یا نہ ہو۔ میں پرکھو ں کی روایت سے منہ نہیں موڑ سکتا۔ اور یہ کہہ کر چھوٹے بھائی کا منہ اس کی کمر کی طرف موڑ دیا۔ جبکہ بعض روایات کے مطابق یہ کوئی سوچا سمجھا قتل نہ تھا بلکہ چھوٹا بھائی کمزور تھا۔ جب یہ بات سن کر بڑے بھائی نے خوشی سے اس کو بھینچا تو اس کی ناتواں پسلیوں نے بھی آپس میں معانقہ کر لیا۔ واللہ اعلم

ہاں تو روایت و ولایت پسندی کے اس دور میں ایک شہزادہ  تھا۔ بہت نیک، دیندار اور محنتی۔ حقوق العباد میں قرابت داروں اور والدین کے حقوق کو چھوڑ کر باقی سب پر انتہائی سختی سے عمل پیرا رہا کرتا تھا۔ بادشاہ بننے کا شوق تھا، اورچونکہ تاریخ کا یعنی اپنے ہی خاندان کا مطالعہ وسیع تھا؛ اس لیے اس بات سے بھی آشنا تھا کہ اگر لمبی عمر چاہتے ہو تو بھائیوں کی عمر مختصر کردو۔ لیکن اس کی زندگی میں ایک اور بڑا مسئلہ تھا۔ اور وہ تھا کہ اس کے باپ کے نہ مرنے کا۔ شہزادہ اس غم میں دبلا ہو رہا تھا کہ اگر باپ یوں ہی زندہ رہا تو وہ خود ضرور علیل ہو کر دنیا سے رخصت ہوجائے گا۔آخر دن رات کی عبادات رنگ لائیں اور خبر ملی کہ باپ بہت علیل ہے۔ دل غم سے اور ذہن باقی بھائیوں کے خاتمے کے متعلق منصوبوں سے بھر گیا۔ اُدھر  بڑا بھائی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے لگا، یہ دیکھ کر دل بھر آیا۔ اور اپنے ایک ہم نوا سے کہا کہ  دین کی سربلندی کے لئے اور بہتر امور مملکت چلانے کے لیے بھائی کو چند مشورے دینے بہت ضروری ہو گئے ہیں۔ چند احباب کے ساتھ جب بھائی کو ملنے پہنچا تو وہ کم فہم اسے کوئی سازش سمجھا اور اس کو خود پر لشکرکشی تصور کیا۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے اس نے صفیں درست کر لیں جس کی وجہ سے مجبوراً لڑائی کا ماحول بن گیا۔ احباب کچھ زیادہ تھے سو چھوٹے بھائی کو فتح نصیب ہوگئی۔ اس چھوٹی سی لڑائی کے بعد جب دارالحکومت پہنچا  تو کیا دیکھتا ہے کہ باپ تو ابھی زندہ سلامت ہے۔ جوان بھائی موت اخترامی کا زخم ابھی تازہ تھا کہ  باپ  کی  نربل حالت دیکھ کر دل اور آزردہ  ہوگیا۔ یہ رنجور غم سے مخمور  سہہ نہ پایا۔ اور کہا کہ باپ کو آنکھوں سے دور لے جاؤ۔ موقع پرستوں نے اس کو زندان میں ڈال دیا۔ اور اس کو کہہ دیا کہ اب وہ آپ کے سامنے نہ آئے پائے گا۔ بعد میں آنے والے مؤرخوں نے اس واقعے پر بہت زبان درازی کی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ بادشاہ کو تو معلوم بھی نہ تھا۔تاہم بعد میں جب اس کو باپ کے شغیل رکیک کی بابت علم ہوا تو موقع پرستوں کی دور اندیشی کی داد  دی۔

عوام کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے بھیس بدل کر سفید ہاتھی پر بازاروں میں گھوما کرتا تھا۔ بادشاہ سلامت ایک دن ایسے ہی بھیس بدل کر بازار میں گھوم پھر رہے تھے کہ کیا دیکھتے ہیں۔ ایک بڑھیا زاورقطار ہنس رہی ہے۔ بادشاہ نے ماجرا پوچھا۔ تو لوگوں نے بتایا کہ اس کا بیٹا مر گیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ زاروقطار ہنستی رہتی ہے۔ معاملے کی تحقیقات کرنے پر اس لڑکے کے قتل میں چند بااثر افراد ملوث پائے گئے۔ اور مزید پتا چلا کہ بڑھیا نے بہت کوشش کی دربار تک رسائی کی۔ لیکن نہ پہنچ سکی۔ یہاں تک کہ دماغی توازن کھو بیٹھی۔ اس واقعے کا بادشاہ پر بہت اثر ہوا۔ اور اس نے سوچا کہ ایسی ترکیب سوچی جائے کہ ہر عام و خاص کی رسائی بادشاہ تک ممکن ہو سکے۔ سو تاریخ کا دوبارہ مطالعہ کرنے سے پتا چلا کہ پہلے ایک بزرگ بادشاہ گزرے ہیں۔ جنہوں نے ایک زنجیر لٹکا رکھی تھی۔ اور اس تک ہر خاص وعام کی رسائی تھی۔ لہذا زنجیر کو جدت بخشتے ہوئے اس نے ایک ساڑھے تین کلومیٹر لمبی سونے کی زنجیر بنوائی۔ جس پر اہل دربار کو گماں گزرا کہ بادشاہ بھی توازن سے گزر گیا ہے۔ آج کا دور ہوتا تو روز دو دو کڑیاں چوری چوری ہوتے ہوتے زنجیر ساڑھے تین میٹر بھی نہ رہتی۔ لیکن وہ انصاف پسند بادشاہ کا دور حکومت تھا جس میں پرندہ پر اور درندہ در تک نہیں مار سکتا تھا۔ اب معاملہ تھا اس کو بجانے کا۔ عام آدمی بجانا تو درکنار اس کو ہلانے سے بھی قاصر تھا۔ لہذا انصاف کی راہ میں ایک تین کلومیٹر زنجیر حائل ہوگئی۔ لیکن بادشاہ بڑا سیانا تھا۔ اس نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ زنجیر کو بڑے بڑے ستون بنوا کر اس کے ساتھ معلق کر دیا گیا۔  بعض غیر مستند روایات کے مطابق یہ چھوٹی چھوٹی زنجیریں تھیں۔ جو ساڑھے تین کلومیٹر کے دائرہ میں لگائی گئی تھیں۔جب بھی کوئی شخص ہلاتا۔ ناقوس بج اٹھتے۔ لیکن اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ منطق کے پجاری کہتے کہ اس طرح تو گھنٹیاں دن رات ہوا سے بجتی ہوں گی۔ جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ "Chimes" کا رواج اس کے بعد ہی پڑا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ حسن دیکھنے والی کی آنکھ، سر سننے والے کے کان اور انصاف کرنے والے کی نیت میں چھپا ہوتا ہے۔ لہذا یہاں جملہ "اعمال کا نیتوں پر دارومدار" ہی سب کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے۔ بلندی کی خاص خیال رکھا گیا۔ تاکہ چھوٹے قد کے لوگ کسی احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر انصاف تک اپنی رسائی کو ممکن بنا سکیں۔ یہاں یہ پہلو بڑا قابل غور ہے کہ اس دور میں بچے شرارتی نہیں ہوتے تھے وگرنہ بادشاہ کا پورا دن تو گھنٹی بجانے والے کی تلاش ہی میں گزر جاتا۔مظلوم آتے اور اگر گھنٹی بجانے میں کامیاب ہوجاتے تو انصاف بھی پاتے۔ ایک دن بادشاہ سلامت محوِ استراحت تھے کہ زنجیر سے اٹھنے والا بےادب شور کسی بیگم مسلسل کی طرح بجنے لگا۔ بادشاہ سلامت فوراً بستر کو خیر آباد کہہ کر مظلوم کی داد رسی کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ چلتے چلتے ساڑھے تین کلومیٹر محل سے دور آگئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بیل کے سینگوں سے زنجیر الجھی ہے۔ اور بیچارہ اس سے جان نہیں چھڑا پا رہا۔ بیل کی حالت دیکھی تو دل غم و غصے سے بھر گیا۔ جس بیل سے ایک سونے کی زنجیر نہ ٹوٹے وہ کاہے کا بیل ہوا۔ فوراً اس کے مالک کو بلا بھیجا۔ اور جانوروں کے حقوق ادا نہ کرنے پر اس کی  خوب  درگت بنوائی۔ بیل کو چارہ پانی ڈالا۔ اور واپس آگئے۔ ایک انگریز شکاری جو اس وقت وہاں شکار کے لیے آیا ہوا تھا۔  یہ دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ کہتے ہیں کہ جانوروں کے تحفظ کی تنظیمیں بھی اس کے بعد وجود میں آئی تھیں۔

انصاف کا یہ عالم تھا کہ شہزادوں کو بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہ تھا۔ہر کوئی اپنے کیے کی سزا پاتا۔ایک دن بادشاہ کا بیٹا ہاتھی پر بیٹھ کر شہر کی گلیوں سے گزر رہا تھا کہ ایک چھت پر اسے ایک لڑکی نہاتی نظر آئی۔ شہزادے  نے جوانی کے نشے میں اس کو ایک پھول دے مارا۔ لڑکی نے روتے سارا ماجرا اپنے باپ کو سنایا۔ باپ بیچارہ اس زنجیر کے پاس پہنچا۔ اور ہلانے کی کوشش کرتا کرتا دہرا ہوگیا۔ آخر کار کسی صورت اس کو بجانے میں کامیاب ہوگیا۔ اور بادشاہ کے دربار تک رسائی ممکن ہوئی۔ وہاں سارا ماجرا بادشاہ کے سامنے کہا اور عرض کی۔ کہ حضور کا اقبال بلند ہو یہ حقیر اب انصاف کا طلبگار ہے۔ بادشاہ جو کہ پیکر انصاف تھا۔ اس واقعے کو سن کر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ درباری بھی حیران پریشان کہ یاخیر، اب کیا معاملہ ہوگا! آخر بادشاہ نے بڑی دیر بعد سر اٹھایا اور کہا کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان۔ لہذا اس معاملے کا فیصلہ بھی انصاف اور قصاص کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا۔ شہزادہ  اب اسی چھت پر نہائے گا۔ اور لڑکی ہاتھی پر بیٹھ کر وہاں سے گزرے گی۔ اور نہاتے شہزادے کو پھول مارے گی۔ عدل وانصاف کا یہ منظر دیکھ کر اس آدمی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اور اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ  میں بدلہ لینے سے انکار کرتا ہوں۔ بادشاہ نے اس پر اس کو انعام و کرام سے نواز کر رخصت کیا۔

متعصب مؤرخین نے اس واقعے کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ جب کہ حقیقت میں فیصلہ صرف انصاف کے اصولوں کو سامنے رکھ کر کیا گیا تھا۔

اخلاقی سبق: ہمیشہ انصاف کرنا ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔

Monday 27 October 2014

ہن تے ناپیا گیا اے

9 comments
بچپن سے پنجابی کا ایک لطیفہ سنتا آرہا ہوں۔ اس سے پہلے بات شروع کروں۔ ضروری ہے کہ احباب بھی اس لطیفے سے آشنا ہوجائیں۔

ایک آدمی تھا۔ اس کو بہت لمبی لمبی گپیں ہانکنے کا شوق تھا۔ وہ جب بھی کوئی قصہ سناتا  تو ایسا کہ ذی شعور تو ایک طرف ناداں بھی اس پر یقین نہ کرے۔ ایک دن اس کے ایک خیرخواہ نے سمجھایا  کہ یار تم ہاتھ ہلکا رکھا کرو۔ اتنی بڑی گپیں مارتے ہو۔ لوگ ہنستے ہیں۔ تمہارا مذاق بناتے ہیں۔ اس آدمی نے کہا۔ بات تمہاری ٹھیک ہے۔ اگلی بار جب میں کوئی کہانی یا قصہ شروع کروں۔ اور تمہیں لگے کہ یہ بات گپ ہے۔ تو ذرا سا کھانس لینا۔ وہ متفق ہوگیا۔

اب کسی دن یونہی  دوستوں کی مجلس میں بیٹھے ایک واقعہ سنانا شروع کیا کہ میں ایک بار جنگل میں جا رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بہت بڑا سانپ ہے۔ مجھے لگا کہ سانپ کوئی 140 فٹ لمبا ہے۔ اس پر اس کے خیر خواہ نے ذرا سا کھانسا۔ وہ آدمی بڑا جزبز ہوا۔ مگر اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ کہ میرے ذہن میں آیا اتنا بڑا سانپ تو ہوتا ہی نہیں ہے۔ قریب جا کر دیکھنا چاہیے۔ سو میں قریب پہنچ کر غور کیا تو اندازہ لگایا کہ کوئی 110 فٹ کے لگ بھگ ہوگا۔ اس پر دوست دوبارہ کھانسا۔

آدمی نے خشمگیں نگاہوں سے اس کو دیکھا اور قصہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 110 فٹ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس کو مار کر ہی اصل لمبائی کا پتا چل سکتا ہے۔ سو میں نے جب سانپ مارا  اور مرے کا بغور جائزہ لیا تو  خیال آیا کہ 90فٹ تو کہیں نہیں گئے۔ اس پر دوست دوبارہ زور سے کھانسا۔

آدمی نے بے چینی سے  پہلو بدلتے ہوئے کہا کہ بھئی دوستو! بات پرکھنے کو ضروری تھا کہ میں اس کی لمبائی ناپتا۔ مرا سانپ سامنے تھا۔ سو میں نے اپنے اندازے کی سچائی پرکھنے کو جب اس کو ناپا تو وہ 70 فٹ نکلا۔ اس پر خیرخواہ دوست زور سے کھانسا۔ تو وہ قصہ گو پلٹ کر کہنے لگا۔

"ہن کوئی فیدہ نئیں۔۔۔ ہن تے ناپیا گیا اے" (اب کوئی فائدہ نہیں۔ اب تو ناپا گیا ہے۔)

اس سمٹے فاصلوں کے دور میں میری سماعتیں جس صدا سے  زیادہ آشنا ہیں۔ وہ یہی بازگشت ہے۔ "ہن تے ناپیا گیا اے۔ہن تے  ناپیا گیا اے"۔

عہد حاضر کی ایجادات سے انسان جتنا زیادہ فیض یاب ہوا ہے اس کا نقصان بھی اتنا ہی اٹھایا گیا ہے۔ پرانے زمانے میں ایسے کردار خال خال ہوا کرتے تھے۔ لیکن سوشل میڈیا اور ترقی کے اس دور میں ہر صدا "ہن تے نپیا گیا اے" کی بازگشت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ادھورے علم، ادھورے سچ، ادھورے مشاہدے اور ادھورے بیانیوں نے ہم سے برداشت صبر اور تحمل چھین لیا ہے۔ ہم سب چوہدری ہیں۔ ہمارا حرف حرفِ آخر ہے۔ ہم جو بات کرتے ہیں۔ وہ اٹل ہے۔ اس کے آگے اب بہتری کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اب وہ لوح  پر محفوظ ہوگئی ہے۔ اگر کوئی اس لوح میں ردوبدل کی کوشش کرتا ہے تو وہ احمق ہے۔ بیوقوف ہے۔ نکتہ چین ہے۔ جاہل ہے۔ ایک آنکھ کا انسان ہے۔ جس کو نظر ہی نہیں آتا۔  وہ بہرا ہے کیوں کہ وہ اس "ہن تے ناپیا گیا اے" کی صدا پر کان نہیں دھر رہا۔ اور جب اس کے اعصاب شل ہوجائیں گے۔ وہ پکار پکار کر تھک جائے گا۔ تو پھر  پہلے سے آنے والی بازگشتوں میں ایک اور بازگشت کا اضافہ ہوجائے گا۔ یوں وہ بھی مکمل ہوجائے گا۔

ہمارا دوسرا مسئلہ ہر بار "ہن تے ناپیا گیا اے" کی صدا لگانے کے ساتھ اس میں کچھ اضافہ کرنے کا ہے۔ اس پر مجھے ایک اور لطیفہ یاد آگیا کہ "بات بڑھتی کیسے ہے"

محلے میں ایک  صاحب کے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس پر تعزیت کے لیے احباب کا مجمع لگا ہے۔ فاتحہ پڑھنے کے بعدکسی نے  پوچھا۔

جی کیا ہوا؟ کیسے  فوت ہوئے؟

بتانے والا۔  بس جی کیا بتائیں۔ اچھے بھلے دکان پر بیٹھے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ یار طبیعت بگڑ رہی ہے۔ میں نے فوراً ملازم کو "پندرہ روپے " دیے اور کہا کہ بھاگ کر جوس لاؤ۔ لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے چل بسے۔

کچھ اور لوگ آتے ہیں۔ فاتحہ کے بعد ایک پوچھتا ہے۔

جی کیا ہوا تھا؟ کیسے ایکا ایکی چل بسے؟

بتانے والا۔  بس جی کیا بتائیں۔ اچھے بھلے دکان پر بیٹھے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ یار طبیعت بگڑ رہی ہے۔ میں نے فوراً ملازم کو" تیس  روپے"  دیے اور کہا کہ بھاگ کر جوس لاؤ۔ لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے چل بسے۔

پھر کچھ لوگوں کی آمد اور وہی واقعہ۔ وہی روپے میں اضافہ۔ باقی ساری بات وہی۔ جب دوپہر کے قریب کچھ لوگ تعزیت کے لیے آئے۔ فاتحہ کے بعد ان میں سے پھر ایک بولا۔

اپنی تو سمجھ سے باہر ہے۔ ابھی کل صبح تو میری ملاقات ہوئی تھی۔ کہہ رہے تھے۔ حاجی اب ملاقات نہ ہوگی۔ میں سمجھا مذاق کر رہے ہیں۔ لیکن اللہ کے بندوں کو تو پتا ہی ہوتا ہے۔ معاملہ کیا ہوا؟

بتانے والا۔ بس جی کیا بتاؤں! دکان پر بیٹھے  تھے۔ طبیعت پر گرانی تھی مگر اتنی بھی نہیں۔ یکا یک کہنے لگے کہ یار طبیعت زیادہ خراب ہو رہی ہے۔ میں نے فوراً ملازم کو "تین سو روپے" دیے اور کہا بھاگ کر سامنے سے تازہ اناروں کو گلاس نکلوا کر لا۔ لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے ہی بس۔۔۔۔ تمام لوگوں پر سوگ طاری۔


اس لطیفے سے مجھے ایک سچا واقعہ بھی یاد آگیا۔ ذرا وہ بھی سنتے جائیں۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب  میں لاہور ایک دفتر میں ملازم تھا۔ میرا دفتر ایف آئی  اے کی بلڈنگ کے بہت پاس تو نہ تھا۔ لیکن بہرحال اس کے قریب ضرور تھا۔ ایک دن صبح  کو جب میں دفتر پہنچا تو تھوڑی دیر بعد بہت زور دار دھماکے کی آواز آئی اور ہماری پوری عمارت لرز کر رہ گئی۔ کچھ شیشے بھی ٹوٹے تھے یا نہیں۔ یہ مجھے یاد نہیں۔ خیر اس دھماکے نے ایف آئی اے کی بلڈنگ زمین بوس کر دی۔ اور گردونواح کی عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ جانی نقصان تو خیر ہوا ہی ہوا۔ لیکن اس کے دو دن بعد میں معمول کے مطابق بس سٹاپ سے  روٹ کی ویگن میں سوار ہوا۔ مجھے مزنگ تک جانا تھا۔ اور مزنگ سے میں دوسری بس پکڑ کر دفتر جایا کرتا تھا۔ کہ ویگن کے مسافروں کے درمیان اسی دھماکے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ میرے سے اگلی سیٹ پر جو صاحب تھے۔ وہ بڑے جوش و جذبے سے بتانے لگے کہ جناب کیا بتاؤں۔ کیسا وحشت ناک دھماکہ تھا۔ الاماں والحفیظ۔ بقیہ تفصیلات طوالت کے ڈر سے مختصر کر کے سیدھا مدعا کی بات پر آتا ہوں۔ وہ  یہ کہ "پوری پانچ منزلہ عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔" ابھی ایک سٹاپ ہی ویگن چلی ہوگی کہ کسی مسافر نے لقمہ دیا۔ کہ یہ دھماکہ کس وقت ہوا؟ وہی صاحب پھر نئے سرے سے شروع ہوئے۔ اور جملے کا اختتام کیا کہ "پوری چھے منزلہ عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔" آگے ایک سٹاپ سے سواری اتری اور دوسری بیٹھی۔ تو اس نے بھی پہلے سے جاری موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ابھی تک معلوم نہیں ہوا مجھے کہ دھماکہ کہاں ہوا تھا؟ کسی کو معلوم ہے؟ تو وہی صاحب نئے جذبے سے شروع ہوئے اور  اختتام تک تباہ عمارت  سات منزلہ ہو چکی تھی۔ جب اچھرہ سٹاپ پر عمارت آٹھ منزلہ ہوئی تو راقم الحروف کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اور عرض کی کہ جناب! قینچی سٹاپ سے اچھرہ تک عمارت آٹھ منزلہ ہو چکی ہے۔ کچھ تو رحم کریں۔ تو اس پر وہ صاحب تنک کر بولے۔ میں نے کون سا وہ عمارت دیکھی ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی پانچ کہتا ہے کوئی آٹھ۔ اب آدمی کس کی سنے کس کی نہ سنے۔ ان کے تیور دیکھ کر میری ہمت نہ ہوئی کہ کہوں جناب پہلے سٹاپ سے یہاں تک ایک ہی منہ ہے۔ لیکن باتیں بہت زیادہ کر رہا ہے۔

بات سچی ہو یا نہ۔ ہم لوگ اس میں زیب داستاں کے لیے، یا کسی اندر کے قصہ گو کی تسکین کے لیے ہر بار کچھ بڑھا دیتے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیوں ہم اپنی طرف سے بات بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ اور پھر اس کو ناپ بھی دیتے ہیں،  گویا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ کوئی خیال اگر ذہن میں آگیا ہے تو یہ سوچنا کہ میں ہی دنیا کو وہ واحد آدمی ہوں جو یہ سوچ سکتا ہے۔ اور کسی کی ذہنی اسطاعت نہ تھی۔ یہ کج بحثی و کج روی ہمارے اندر یوں سرایت کر گئی ہے کہ ہم اس کو عیب سمجھنے سے ہی قاصر ہوگئے ہیں۔ ہمارے لئے یہ فن ہے۔ گفتار کا ایک بہت اہم خاصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری عملیت پسندی  روایت پسندی، مروت، رواداری گزشتہ چند دہائیوں سے آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ اور جو حالات میں دیکھتا ہوں اس کے مطابق یہ زیادہ دیر زندہ رہتے نظر نہیں آتیں۔ چند ایک بنیادی چیزیں جن پر اسلاف کو فخر ہوتا تھا پہلے سے ہی عالم سکرات میں ہیں۔ اور جو چند ایک پر نزع کا عالم طاری ہے۔ معاشرے میں رائج اقدار ان کی مشکل بھی جلد ہی آسان کرتے نظر آتے ہیں۔ ہماری اخلاقی اقدار، روایات معاشرتی اکائیاں تنزلی کی طرف جا نہیں رہیں بلکہ دوڑ رہی ہیں۔ ہم کھائی میں اتر نہیں رہے گر رہے ہیں۔ اور اگر یہی رویے یہی تربیت آنے والی نسلوں کا بیج ٹھہری تو آنے والے  سالوں میں اس سرزمین سے صرف بانجھ، خود سر اور ضدی قوم اگے گی۔ جو علم و عمل اور مثبت مباحث کے نام سے بھی واقف نہ ہوگی۔ اور اس کے انجام کے بارے میں کسی کو بھی شکوک و شبہات نہ ہوں گے۔

Thursday 11 September 2014

آنکھیں کس نے بند کیں

0 comments
"صرف مشترکہ کوششوں اور مقدر پر یقین کے ساتھ ہی ہم اپنے خوابوں کے پاکستان کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔"
یہ آخری ریکارڈ شدہ الفاظ تھے اس عظیم لیڈر کے جس نے پاکستان کے قیام کے لیے چلنے والی تحریک کی قیادت کی تھی۔ جو اس تحریک آزادی کا  روح رواں تھا۔  ایک انگریز مفکر نے کہا تھاتم خوش قسمت ہو اگر بلند مقصد رکھتے ہو کہ اکثریت تو کوئی مقصد ہی نہیں رکھتی۔ خواب دیکھنا اور پھر خواب کی تعبیر بھی حاصل کر لینا بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اول تو بہت سے لوگ خواب ہی نہیں دیکھ پاتے۔ اور جو کچھ مثبت اور بلند خواب  دیکھ لیتے ہیں۔ ان کی تعبیر حاصل کرنے میں ہی فنا ہو جاتے ہیں۔

کسی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو فراموش کردے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسی اقوام زیادہ دیر تک سانس نہیں لے پائیں۔ وقت نے ان کو بری طرح کچل دیا۔ اور ان کا وجود تاریخ میں ایک ٹھٹول بن گیا۔ جب آپ اپنے محسنوں کو یاد نہیں رکھ سکتے۔ تو پھر آپ کس کو یاد رکھیں گے۔کوئی بھی رہنما ہو۔ قائد ہو۔ اس کو برا بھلا کہنے والے لوگ موجود رہتے ہیں۔ یہی تو وہ بادِ مخالف ہے جو ان  کی پرواز کو اور اونچا کر دیتی ہے۔ لیکن جب محبت کرنے والے لب بھی خاموش ہوجائیں۔ عظیم رہنماؤں  کا تصور ذہن سے محو ہوتا چلا جائے۔ پھر تنزلی کی منازل کہیں زیادہ برق رفتاری سے طے ہوجاتی ہیں۔

کسی قائد کو بھلا دینا یہ نہیں کہ اس کا نام لوگ بھلا دیں۔ یا اس کی تاریخ وفات و پیدائش بھلا دیں۔ بلکہ اس کو بھلانا یہ ہے کہ اس کے افکار کو بھلا دیا جائے۔ اس نے جس راہ پر لوگوں کی رہنمائی کی ہو اس راہ کو ترک کر دیا جائے۔ ان تمام خوابوں منصوبوں کو پس پشت ڈال دیا جائے جن پر وہ عمل پیرا تھا۔ اور ان تمام مقاصد کو بھلا دیا جائے جن کے لیے وہ دن رات کوشاں تھا۔

اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو ہم نے قائد کے آنکھیں بند کرتے ہی ان کی طرف سے ان کے افکار کی طرف سے ان کے خیالات کی طرف سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ ہم نے وہ تمام منصوبے وہ تمام کام اس وقت ہی پس پشت ڈال دیے تھے۔ جن پر عمل کر کے ہم دنیا میں بلند مقام حاصل کر سکتے تھے۔ ترقی کی راہ پر دنیا میں نام کما سکتے تھے۔ آنکھیں قائد نے نہیں ہم نے بند کی تھیں۔ اور قائد کی وفات سے لے کر اب تک ہماری چھیاسٹھ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ ہم پل پل مرے ہیں۔ ہم کبھی جیے ہی نہیں۔ ہم ابھی تک انہی مسائل میں الجھے ہیں جن میں ہم اس وقت الجھے تھے۔ کسی بھی بڑے رہنما کے افکار کو دفنا دینے سے وہ چھوٹا نہیں ہو جاتا۔ دفنانے والے چھوٹے ہوجاتے ہیں۔ وہ تو ان تمام باتوں سے بےنیاز ہوتا ہے۔ گیارہ سمتبر 1948 ہی وہ دن ہے جس دن اس ملک کے ایک عظیم رہنما، قائد محمد علی جناح ہم سے جدا ہو کر ابدی نیند سو گئے۔لیکن ان کے الفاظ ان کا کام تاریخ میں ان  کو ہمیشہ کے لیے امر کر گیا۔

جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں

Tuesday 9 September 2014

قوانینِ بحث برائے سوشل میڈیا

2 comments
کچھ عرصہ قبل شاید چند ماہ قبل میں نےاردومحفل کے قوانین  کا مذاق بنایا تھا۔ اور عہد حاضر میں رائج بحث کے طریقے بیان کیے تھے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے سیاسی تناؤ اور احباب کے انداز مباحث کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ یہ طریقے سب کے لیے متعارف کروا دینے چاہیے۔ سو مناسب ردّوبدل کے بعد  سوشل میڈیا کے کسی بھی گروپ، صفحے یا کسی بھی طرح کے مباحثے میں بحث کے اصول درج کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ اکثریت تو پہلے سے ہی ان پر عمل پیرا ہوگی۔ لیکن اگر نہیں ہے تو جلد از جلد ان اصولوں کو اپنا کربیمار اور غیر معیاری  مباحث کی فضا قائم کی جائے۔

قوانینِ بحث برائے سوشل میڈیا:
=================
  • آپ ایسا کوئی بھی مواد ارسال نہ کریں۔ جس سے کسی کی دل آزاری کا خدشہ نہ ہو۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے۔ اس کارخیر میں حصہ لیجیے۔ لوگ آپ کی علمی قابلیت کے سامنے ایک تنکے کی طرح ہیں۔ ان کی رائے اور ان کا ارسال کردہ مواد سب بیکار ہے۔ ایسے لوگوں کو روکنے کا بہترین حل ان کی طبیعت صاف کرنا ہی ہے۔ سو بےدھڑک دل آزاری کیجیے۔ 
  • آپ نے وہ مثال تو سنی ہوگی کہ لاتوں کے بھوت ہاتھوں سے نہیں مانتے۔ سو بلاوجہ تو ایک طرف وجہ کے ساتھ بھی کسی سے خوش اخلاقی سے بات نہ کیجیے۔ ایسے تمام مراسلات جو کسی بھی گالی یا دھمکی سے خالی ہوں۔ اثر نہیں رکھتے۔ سو خوب دل کی بھڑاس نکالیے۔ اس کو اپنے ہی گھر کا مہمان خانہ سمجھیے۔ 
  • اگر آپ کو کسی رائے سے اختلاف ہے۔ یا کسی کم ذات نے آپ کی عالمانہ رائے سے اختلاف کی جسارت کی ہے۔ اس کو ناکوں چنے چبوا دیں۔ گفتگو کا رخ سیدھا اس کی ذات پر لائیں۔ اور اس کے خاندان کی سات پشتوں کو بےنقاب کر دیں۔ یقین مانیے کہ اعلیٰ ظرفی دنیا میں ایک تخیل سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ سو اگر کوئی ناصح بننے کی کوشش کرے۔ تو اس کو ناصح سے نفرت پر اکساتے اشعار سنا کر اپنے علم دوست ہونے کا ایسا ثبوت دیجیے۔ جس کی استنادی حثیت ہر شک و شبہ سے بالا تر ہو۔ 
  • عزت لو اور عزت دو جیسے فرسودہ محاورات صرف کتابوں میں ملتے ہیں۔ ڈنڈے اور گالیوں کے زور پر عزت کروائیے۔ 
  • جملہ حقوق محفوظ ہونے کا جملہ علم پر بندش کا ایک طریقہ ہے۔ سو کسی بھی کاپی رائٹ کی کبھی پرواہ مت کیجیے۔ جو دل کرتا ہو ارسال کیجیے۔ علم پھیلائیے۔ یہ سب پھندے علم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ 
  • جس حد تک ممکن ہو کبھی اصل ارسال کرنے والے کا حوالہ مت دیجیے۔ اس سے ماحول خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔بلکہ دیگر شاعروں و ادیبوں کی تخلیقات کو اپنے نام سے پیش کیجیے۔ اور اگر کوئی کوتاہ بین آپ کو ادبی سرقے کی ملامت کرنے لگے۔ تو اس کےسامنے دل آزاری کے حوالے سے قرآن و سنت کے احکامات بیان کیجیے۔ یاد رکھیے کہ ایسی اکثر روایات بمعہ ترجمہ آسانی سے دستیاب ہیں۔ آپ کو اپنی عربی سے کم شناشائی کا غم نہیں ہونا چاہیے۔ 
  • یاد رکھیے کہ قرآن و احادیث پیش کرنے کے لیے خود کا ان پر عمل پیرا ہونا ضروری نہیں۔ سو بےدھڑک روایات پر روایات نقل کیجیے۔ اور اپنے عین اسلامی ہونے کا ثبوت رواداری اور تحمل جیسی غیر اسلامی روایات کی دھجیاں اڑا کر دیجیے۔ 
  • یہ بات یاد رکھیے کہ سب سے مزیدار اور چسکے دار مباحث مسلک وفرقے کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ سو جس حد تک ممکن ہو ان کا پرچار کیجیے۔ رسد کی خاطر پریشان مت ہوئیے۔ آپ جیسے علم دوستوں نے انٹرنیٹ ان دلائل سے بھر رکھا ہے۔ سو بس وہاں سے نقل کرتے آئیے۔ حسب ضرورت دوسروں کو کافر قرار دیتے رہیے یا ملعون۔ اور مسلکی ترویج میں خاطر خواہ حصہ ڈال کر عنداللہ ماجور ہوئیے۔ یعنی مذہب کی خدمت کے ساتھ ساتھ عاقبت بھی سنور جائے گی۔ 
  •  آپ کو احباب ملیں گے جو آپ کو کہیں گے کہ اس محفل کا کوئی مذہب نہیں۔ لیکن یہ مت بھولیے کہ محفلین کا ہے۔ سو گاہ گاہ لوگوں کے لیے مختلف عقائد کا تعین کرتے رہیے۔ یاد رکھیے کہ اسلام صرف اہل ہند اور خاص طور پر صرف اور صرف پاکستانیوں کا مذہب ہے۔ لہذا اگر کوئی اور دعوا کرے تو اس کو خوب رسوا کیجیے۔ اور اس کو یہودی، عیسائی، پارسی، دہریہ یا پھر فری میسن اور اس جیسے دیگر گروپس کی اعزازی رکنیت سے نوازتے رہیے۔ 
  • اپنے مطلب کی بات کے لئے " یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے" اور اختلاف کے لیے "ان کی کسی بھی بات سے خیر کا شاید ہی کوئی پہلو نکلے" جیسے محاورات کا ازبر ہونا نہایت ضروری ہے۔ 
  • جو موضوع پسند نہ ہو۔ اس کو برباد کر دیجیے۔ آخر کسی کو حق ہی کیا ہے کہ ایسا موضوع شروع کرے۔ جو کہ آپ جیسی علمی ہستی کو پسند نہیں۔ سو اس موضوع میں بھرپور کوشش سے ادھر ادھر سے مواد لا کر شامل کیجیے۔ بحث کو ہمیشہ ذاتی رخ دیجیے۔ اور اگر انتظامیہ کا کوئی رکن آپ کو روکنے کی جرات کرے۔ تو اس کو جانبدار اور منافق جیسے چھوٹے القابات دینے سے گریز نہ کیجیے۔ یقین مانیے ان القابات کے حصول کے لیے انتظامیہ دن رات کوشاں ہے۔ 
  • اگر کبھی احساس ہو کہ بحث مثبت رخ پر جا رہی ہے۔ اور بحث برائے بحث نہیں رہی تو ایسے دھاگوں میں مت جائیے۔ بلکہ ان لوگوں کو فارغ اور جاہل کہنے میں رتی بھر تامل مت کیجیے۔ یہ سوچیے کہ آپ کی رائے کے بغیر کوئی بھی علمی بحث کسی مثبت نتیجے پر کیسے پہنچ سکتی ہے۔ 
  • اگر کوئی گستاخ آپ کی علمی و ادبی کاوشوں پر اعتراض کی جرات کرے۔ تو اس کے منہ نہ لگیں۔ بلکہ قالو سلاما اور جواب جاہلاں جیسی زبان زد عام باتوں کا استعمال کریں۔ 
  • ایسا کوئی مراسلہ یا دھاگا جو کہ آپ دیگر اراکین یا محفل کی شان کے مطابق نہ پائیں۔ اس کے بارے میں انتظامیہ کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ آپ کون سا بولنا یا لکھنا نہیں جانتے۔ بس اوقات یاد دلا دیجیے ان لوگوں کو۔ اور ان کو دلائل و دیگر اراکین کے بارے میں رواداری ذرا انتہائی سخت لہجے میں سمجھائیے۔ جہاں ضرورت ہو پنجابی کی گالیوں کا بےدریغ استعمال کیجیے۔ 
  • ذاتی پیغامات کی سہولت صرف لڑکیوں سے گپ شپ کے لیے استعمال کیجیے۔ اگر کوئی مرد رکن آپ سے بات کا خواہاں ہے۔ تو اس کو کہیے کہ سب کے سامنے بات کرتے کیا موت پڑتی ہے۔ 
  • کسی بھی گروپ یا فورم   کی انتظامیہ کو کسی پیغام میں ردوبدل یا حذف کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تاکہ حق بات کا راستہ روکا جا سکے۔ سو ان کو منافق جھوٹے اور حق کو دبانے والے کہیے۔ جابجا ان کے خلاف زہر اگلئے۔ اور اگر پھر بھی وہ آپ سے معافی نہیں مانگتے۔ بلکہ آپ کو معطل کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ تو لعنت بھیجیے دنیا داری پر۔ اور کسی جنگل کی راہ لیجیے۔ ہاں جانے سے پہلے اس گروپ یا فورم کے تمام  اراکین پر تھوکنا مت بھولیے۔
اہم نوٹ: یہ تمام  قوانین محض تخیلاتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی مشابہت محض اتفاقیہ ہوگی اور راقم اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔

Tuesday 19 August 2014

مچھلی پیڈیا

2 comments
ان صاحب کا تعارف لکھنے بیٹھوں تو صبح سے شام ہو جائے۔ بزرگ صورت جوان سیرت بہت دلچسپ آدمی ہیں۔ فرماتے مجھے دہرا فائدہ ہوتا ہے۔ بزرگوں کے سامنے چھوٹا اور جوانوں کے سامنے تجربہ کار کی حیثیت ہے۔ ہم نے جب عرض کیا کہ جملے میں جوانوں کے مقابلے بزرگ کا لفظ آنا چاہیے  تو گرم ہوگئے۔غصے سے کہنے لگے ابھی تو میں کڑیل جوان ہوں۔  ہمارے لئے یہ لفظ نیا تھا۔ ہم نے اس سے پہلے اڑیل اور مریل جیسے الفاظ ہی سن رکھے تھے۔ شکریہ ادا کیا کہ اگر کبھی شاعر بنے اور ان قوافی کے ساتھ شعر کہنے کا ارادہ ہوا تو تین اشعار میں تو قوافی درست ہی رہیں گے۔ اس  پر کہنے لگے غزل میں کم از کم بھی پانچ اشعار ہوتے ہیں اور  دو اور ہم قافیہ الفاظ بتائے۔ ہم نے کہا سرکار! ادب کے نام پر کیا کیا پڑھ رکھا ہے؟ تو ہنسنے لگے۔ کہتے چھوڑو سب جوانی کی باتیں ہیں۔ ہم نے عرض کی یعنی ابھی ابھی کی باتیں ہیں۔ تو ناراض ہوگئے۔ اور کہنے لگے بزرگوں کی باتوں پر گرفت کرتے ہو۔ ہم نے کہاحضور اتنی جلدی تو گرگٹ رنگ نہیں بدلتا جتنی تیزی سے آپ جوان سے بزرگ اور بزرگ سے جوان ہوئے جاتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک معروف گانے کے بول آپ کو دیکھ کر لکھے گئے ہیں۔ تو کہنے لگے میاں! شرم کرو۔ ہم نے کبھی مجرا نہیں دیکھا۔ آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہماری یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ اگر دیکھا نہیں تو معلوم کیسے ہوا مجرے پر فلمایا گیا ہے۔ 
خیر یہ باتیں تو چلتی ہی رہیں گی لیکن موصوف کی زیادہ تر دلچسپی مچھلیوں میں دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ آج کے دور میں مچھلی اور اس کے شکار میں دلچسپی۔ بھئی جہاں لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کان کھجانے کو فرصت نہیں۔ اس کے لئے بھی الارم لگا رکھا ہے کہ کب کب کان کھجانا ہے۔ اس دور مصروف میں مچھلی کو تاڑنا ، پرکھنا  اور پھر شکار کھیلنا کافی وقت لینے والا کھیل ہے۔ ہم نے جب اس بابت استفسار کیا تو ہنس کر کہنے لگے۔ میاں یہ شکاری اور شکار کا رشتہ بڑا دلچسپ ہوتا ہے ۔ تم اس کو نہیں سمجھ سکتے جب تک شکار کرنا نہ جان لو۔ ہم نے کہا کہ دانہ ڈال کر چڑیاں تو ہم بھی پکڑتے رہے ہیں تو ہنس پڑے۔ کہتے میاں چڑیا کی عمر اور گوشت دونوں بہت کم ہوتے ہیں۔  ہم نے وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ ہم دو پروں والی چڑیا یہ جو اڑتی پھرتی ہے اس کی بات کر رہے ہیں۔ اس پر بھی مسکراہٹ میں کمی نہ ہوئی تو ہم نے مزید وضاحت کرنے سے گریز کیا۔ کہ اتنی وضاحتیں دینے سے ہمیں خطاوار ہی نہ سمجھ لیا جائے۔
سنا ہے جوانی میں آپ بہت شکاری طبع آدمی تھے۔ ہم نے معلومات کی غرض سے پوچھا۔
نہیں بچہ! جوانی نہیں۔ بچپن سے۔ پتا ہے آٹھ سال کی عمر میں پہلا شکار کیا تھا۔
ہم حیران رہ گئے۔ آٹھ سال کی عمر میں؟ واقعی! ہم نے انگوٹھا بدنداں ہوتے ہوئے کہا۔
ہاں! اور پرلطف بات یہ کہ پہلا شکار ہی کامیاب رہا ورنہ میں بھی شاعر ہوتا۔مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔
لیکن شادی تو آپ نے بہت  بعد میں کی تھی۔ ہمارا انداز استفہامیہ سا تھا۔
اس پر چونک اٹھے۔ کن خطوط پر سوچ رہے ہوں میاں! میں مچھلی کے شکار کی بات کر رہا ہوں۔
اوہ اچھا! ہم بھی اس انکشاف پر جوابی چونکے۔
موضوع پر واپس آتے ہوئے فرمانے لگے کہ مچھلی کو تاڑنا اور پرکھنا اضافی چیزیں ہیں۔ یہ شکاری کے بس میں نہیں ہوتیں۔ وہ عادت سے مجبور ہوتا ہے۔ اور اگر زیادہ دیر ہو جائے تو مچھلی کے نام پر کیکڑا پھنسنے  پر بھی  شکر بجا لاتا ہے۔ راقم نے عرض کی کہ اگر بس میں نہیں تو پھر شکار کیسے؟ کہنے لگے ارے بدھو! دیکھو! ایک ہوتی ہے کنڈی اور اس کے آگے لگانے کو بطور چارا کوئی کیچوا ہونا چاہیے۔ ہم نے عرض کی چارا تو ساگ ہونا چاہیے یا پھر پالک۔  کہنے لگے میاں! مچھلی پکڑنے اور پٹانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس کو ہم نے بیان سے زیادہ اعتراف سمجھا۔عرض کی کہ اگر کوئی مچھلی نہ پکڑ میں آئے۔ تو کہنے لگے پکڑ میں آئے نہ آئے، جس کے پاس کنڈی ہو وہ لگاتا ضرور ہے۔ میں تمہیں شکار اور مچھلیوں کے متعلق تھوڑی سی معلومات دیتا ہوں۔ پھر شکار پر چلیں گے۔ ہمارے اثبات میں سر ہلانے پر مچھلیات  کی پٹاری کھولی گئی۔
اکثر مچھلیاں گوشت خور ہوتی ہیں۔ اسی مسلم فطرت کو سامنے رکھ کر ان کو حلال نہیں کرنا پڑتا۔ یعنی وہ حلال ہی ہوتی ہیں۔ کیا تمام مچھلیاں ہلال ہوتی ہیں۔ ہم نے ابرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔ تمام کا شکار تم نہیں کر سکتے۔ مچھلیوں کی بےتحاشہ اقسام ہیں۔سو جن کا شکار تم کر سکو۔ سمجھو وہی حلال ہوتی ہیں، لیکن ہم ان چند کا ہی تذکرہ کریں گے جو یہاں پکڑی جا سکتی ہیں۔ ڈولا مچھلی بغیر ڈولوں کے ہوتی ہیں۔ گفتگو کا آغاز کرتے  ہوئے فرمایا گیا۔
تو پھر اس کو ڈولا کیوں کہتے ہیں۔ ہم نے حیرت سے استفسار کیا۔
یار تم خود کو موسیٰ اور مجھے خضر مت سمجھو۔ اور بار بار سوال مت پوچھو،  خاموشی سے پوری بات سنو۔
اس کو ڈولا اس لیے نہیں کہتے کہ اس کے  بڑے بڑے ڈولے ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ڈولتی رہتی ہے۔  اگر تمہاری مچھلیوں  سے سلام دعا نہیں ہے تو اس  مچھلی سے   بچا کرو۔ اگر یہ مچھلی کنڈی میں پھنس جائے تو بہتر ہے ڈوری توڑ کر کنڈی کا نقصان کر لیا کرو۔ لیکن اس مچھلی سے جتنا ممکن ہو دور رہو۔ اس کا شکار کبھی نہ کرو۔ اس میں گوشت زیادہ اور ٹھوس ہوتا ہے۔اور زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے ہی مفید رہتا ہے۔ ہم بغیر کچھ سمجھے اپنا سر دائیں بائیں پنڈولم کی طرح ہلاتے رہے۔
جبکہ اس کے مقابلے میں پری مچھلی اس بامسمیٰ ہوتی ہے لیکن اس  مچھلی میں گوشت نہیں ہوتا۔ بس ذرا پھرتی اور چلبلی سی ہوتی ہے۔ بس کانٹے ہی کانٹے۔   یوں سمجھو کہ اگر ڈولا مچھلی تھیٹر کی ہیروئن ہے تو پری انڈین کرینہ۔ کترینہ کر لیں۔ ہم نے مچل کر کہا۔ اچھا چلو کترینہ ہی سہی۔ کیا یاد کرو گے۔ حاتم طائی کی قبر پر دعائے خیر کرتے ہوئے فرمانے لگے۔
کبھی شادی میں اگر تم پہلے میٹھا زردہ پلیٹ میں ڈال لاؤ۔ تو ساتھ والا تمہیں ویسے ہی بار بار پوچھتا رہے گا۔ زردہ اچھا بنا ہوا ہے۔ گلفام مچھلی بھی بالکل  زردے کی پلیٹ کی طرح توجہ کھینچتی ہے۔ پیلا سا رنگ ہوتا ہے۔ کچھ بدذوق اس کو یرقان زدہ بھی کہہ دیتے ہیں۔ چال ڈھال پنجابی ہیروئن والی سمجھو۔ تازہ پلی ہوئی۔ لیکن جب منہ مارو۔ میرا مطلب ہے پکا کر کھاؤ تو مزا نہیں آتا۔ بس ایویں عادت پوری کرنے والی بات ہے۔
ذرا سانس لینے کو رکے اور پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بولے۔ کالکی صرف نام کی کالکی نہیں ہوتی۔ پکی حبشن ہے۔ کالے رنگ پر تو بڑے گانے ہیں ہم نے کہا۔ تو فرمانے لگے او بئی تم نے پنجابی کی مثل سنی ہے۔ "منہ نہ متھا، جن پہاڑوں لتھا"۔ بالکل اس پر صادق آتی ہے۔ بدصورت ایسی کہ بڑے تو بڑے بچے بھی ڈر جائیں۔ اور ایسا نہیں کہ صرف ظاہر کالا ہے۔ باطن بھی سیاہ۔ کاٹو تو گوشت ایسا سیاہ نکلتا ہے کہ الاماں ولحفیظ۔ اور زہریلی ایسی ظالم کہ اول تو کوئی کھاتا نہیں۔ اگر بیچارہ بھوک کا مارا تھوڑا بہت کھا بھی لے تو کئی کئی دن بخار ہی نہیں اترتا۔یا حیرت! جیسا نقشہ آپ نے کھینچا ہے اس کے بعد اس کو کوئی کھاتا بھی ہوگا۔ ہم نے حیرانی سے سوال کیا۔ چھوڑو یار! دنیا میں کیا نہیں ہوتا، بھوک بڑی ظالم چیز ہے۔ ہم نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے اپنا کدو جیسا سر ہلا دیا۔
کھگّا اپنے پہلوانوں کی طرح ہوتی ہے۔ بات بے بات دوسری مچھلیوں سے لڑائی کرنے پر تیار۔ کچھ بھی مل جائے کھا لیتی ہے۔ لیکن ہوتی بہت سست ہے۔ سوائے لڑائی کے اور کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ اس کی شوخی و طراوت دیکھنی ہو تو کسی دوسری مچھلی سے لڑا کر دیکھو۔گوشت بہت ہی عجیب سا ذائقہ رکھتا ہے۔ اور اگر کھا لو تو سمجھو میٹھی لسی پی لی۔ بس سوئے رہو۔ اس کا گوشت کھا کر طبع پر جو سستی چھاتی ہے اس کا اثر مہینوں نہیں جاتا۔ لڑائی بھڑائی پر تیار رہنے کے باوجود یہ کنڈی لگ جانے پربلا چون و چرا کیے کھنچی چلی آتی ہے جیسے آدمی غلطی نہ ہونے کے باوجود عورت سے تھپڑ کھا کر سر جھکا کر پتلی گلی سے نکل جاتا ہے۔ اس لیئے اگر یہ کنڈی کے دائیں بائیں نظر آئے تو کنڈی وہاں سے اٹھا کر کہیں اور لگا لینی چاہیے۔
اس قدر عارفانہ معلومات ملنے پر مچھلیوں میں ہماری دلچسپی بھی بڑھ چلی تھی۔ ہم تو ایکوریم والی نمائشی مچھلیوں سے ہی واقف تھے جو کسی خاص یا عام کام نہیں آتی تھیں۔لہذا ہم نے فوراً مچھلی پیڈیا کے ساتھ شکار کا پروگرام بنا لیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے حصے میں کوئی پری یا گلفام آتی ہے یا ہم بھی کھگّا یا کالکی پکڑ کر واپسی کی راہ سدھارتے ہیں۔

اہم نوٹ: یہ کوئی خاکہ نہیں ہے۔
دوسرا اہم نوٹ: یہ تحریر 18 سال سے کم عمر لوگوں کے لیئے ہے۔ بڑی عمر کے لوگ اگر اس کو پڑھیں تو اپنی طرف سے معانی اخذ کرنے سے گریز کریں۔

تیسرا اہم نوٹ: بقیہ اگلے سال (اگلا سال آنے پر یہی سطر دوبارہ پڑھیں)

Thursday 7 August 2014

منحوس

6 comments
یوں تو دنیا میں بڑے بڑے منحوس گزرے ہوں گے۔ لیکن ہماری تو بات ہی الگ تھی۔ پیدائش سے لے کرجوانی تک ایسا کون سا کارنامہ تھا جو ہم نے کر نہیں دکھایا۔ یا کون سا ایسا کارنامہ تھا۔ جو ہم نے ہونے دیا ہو۔ ہردوصورت میں ہم نے ہمیشہ ستاروں کو گردش میں دیکھا۔ اس بات پر اعتبار اس حد تک بڑھ گیا کہ کبھی کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ ستارے گردش نہیں کرتے تو ہم نے اس سے  زندگی بھر مہذب انداز میں بات نہ کی۔ بلکہ آغاز گفتگو ہی یوں کرتے جیسے کوئی پرانے  دوست مل گئے ہوں۔ یوں تو منحوس کہلائے جانا کوئی قابل فخر بات معاشرے میں نہیں گردانی جاتی۔ لیکن ہم نے اس شعبہ میں اس قدر تسلسل سے کامیابی حاصل کی کہ لوگ جہاں دستخط میں "ننگ اسلاف"  لکھا کرتے تھے وہاں ہم نے تیرہ بخت لکھنا شروع کر دیا۔ اس کے ہمیں بہت سے فوائد حاصل ہوئے۔ مقامی احباب اس کو زیر سے پڑھتے۔ اور امریکی احباب زبر سے۔ ہر دوصورت میں معانی  میں کوئی فرق نہ آتا۔ محض امریکی احباب کا تذکرہ یوں بھی کرنا مناسب ہے کہ فیشن میں "ان" ہے۔
زندگی میں جب بھی کسی کام کی ٹھانی ہے۔ تو یوں سمجھیے کہ زمین و آسماں اس کام کی تکمیل میں حائل ہوگئے۔ مجال ہے جو کبھی کسی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا پائے ہوں۔ اہل خانہ و دیگر احباب اس عمل کو ہماری بد نیتی پر محمول کرتے۔ جب کہ ہمارا اس بات پر ایمان کامل تھا کہ " برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے"۔ بارہا یہ رمز سب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم اپنی طرف سے بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بدگمانوں کو یقین نہ آنا تھا سو نہ آیا۔ اور وہ یہی کہتے پائے جاتے کہ ہمیں معلوم ہے تم کام نہ کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہو۔ مجبورا پرانے درویشوں کی طرح ہم کو بھی بےنیازی کا نعرہ مستانہ مارنا پڑتا۔ رفتہ رفتہ ان نعروں کی وجہ سے ہم نیازیوں میں بھی غیر مقبول ہوتے چلے گئے۔
ابتداء میں تو ہم اس کو محض قدرت کی ستم ظریفی سمجھتے رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پرانے واقعات کے تسلسل پر تجزیہ کرنے سے یہ حقیقت ہم پر عیاں ہوگئی کہ اگر کسی بھی کام کو کسی عبرت ناک انجام سے دوچار کرنا ہے تو ہمارا اس میں شامل ہونا ہی کافی ہے۔ یوں تو ہماری زندگی ان سیاہ کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن کچھ واقعات ایسے ہیں جن کے بعد ہم نے سوچا کہ اب ہم کو باقاعدہ ادارہ  بنا کر معاشرے میں نام کمانے کا سوچنا چاہیے۔ اور ایسے تمام لوگوں کی سرپرستی کرنی چاہیے۔ جو اپنی اس خوبی کو خامی سمجھتے آرہے ہیں۔ اور معاشرے کے ناروا سلوک کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم پر گاڑی سیکھنے کا بھوت سوار تھا۔ لیکن گاڑی تو بہت دور ہمیں کہیں سے مرزا کی سائیکل بھی میسر نہ تھی۔ طالبعلمی کا دور گزرنے کے بعد جب ہم کماؤ پوت بن گئے تو سوچا۔ اب ہی وہ دن ہیں۔ جب ہم اپنے اس شوق کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ ہمیں کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ بس کسی بھی ڈرائیونگ اسکول کا دورہ کرنا ہے۔ اور پھر سڑکیں ہماری کاریگری دیکھیں گی۔ صبح کو دفتر جاتے اور شام کو واپس آتے ہمارا کام یہی رہ گیا  تھا کہ مارکیٹ  میں کہیں ڈرائیونگ اسکول کا بورڈ نظر آئے تو بس جھٹ سے شاگرد ہوجائیں۔ لیکن لگتا  یہ تھا کہ دنیا کے تمام ایسے اسکول بند ہوچکے ہیں۔ یا سنہری تالاب میں سنہری پھول کی حفاظت پر مامور بلا کی مانند ہماری طرح کے خوش نحوستیوں کا شکار ہو چکے تھے۔ کبھی خواب میں خود کو ڈرفٹنگ کرتے دیکھتے۔ تو کبھی ڈریک ریسز میں اپنا نام سب سے اونچا لکھا نظر آتا۔ لیکن وائے قسمت کہ یہ تو بہت دور ہمیں تو ابھی تک انجن اسٹارٹ کرنے کا بھی موقع نہ ملا تھا۔  ایک دن گھر کے قریب والی مارکیٹ کچھ سامان لینے گئے کہ  واپسی پر ایکا ایکی آنکھوں نے عجب منظر دیکھا۔ ایک گھر کے باہر ڈرائیونگ اسکول کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اتنی قریب ڈرائیونگ اسکول۔ بچہ بغل میں اور ڈھونڈورا شہر میں۔ دل کیا کہ فوراً چار پانچ الٹی قلابازیاں لگائیں۔ لیکن  اس ڈر سے نہ لگائیں کہ اگر خدانخواستہ کوئی چوٹ لگ گئی تو ہمارا ڈرائیونگ سیکھنے کا کام اور لٹک جائے گا۔ بس فوراً فون نمبر نوٹ کیا اور وہیں کھڑے کھڑے کال ملا دی۔
دوسری طرف سے کسی لڑکے نے فون اٹھایا۔ ہیلو!
ہم نے اس کی سات پشتوں پر احسان کرتے ہوئے کہا۔ کہ وہ جس کی خاطر آپ نے بورڈ لگا رکھا تھا۔ وہ شاگرد خاص وہ خاقان کٹ مار آپ تک آپہنچا ہے۔
جی؟ دوسری طرف سے حیرت زدہ آواز سنائی دی۔
اوہ میاں! گاڑی چلانی سیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اب سادہ الفاظ میں اس کو بات سمجھائی۔
اوہ اچھا! سر ایسا ہے کہ میں اس وقت تو شہر سے باہر ہوں۔ واپس آتا ہوں تو میں خود آپ کو فون کروں گا۔ اس نے جواب دیا۔
"سر" کہنے پر ہم اس کی آواز شناسی کے قائل ہوگئے۔ دل میں سوچا۔ لڑکا سمجھدار ہے۔ اور صاحب ِسماعت بھی۔ 
دو دن گزر گئے۔ ہم نے دوبارہ اس کو فون کیا۔ اس نے کہا کہ کل اتوار ہے۔ میں گھر پر ہوں گا۔ تو آپ سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔ اور وہیں پر باقی معاملات بھی دیکھ لیں گے۔ لیکن اس کو کیا معلوم تھا کہ وہ ہم جیسی ہستی کے استاد ہونے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ یوں تو ہمیں معلوم تھا کہ کوئی چھوٹا موٹا سیہ بخت ہماری استادی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ لیکن ہم کسی کے حق میں اتنے زہر قاتل ثابت ہوں گے اس کا اندازہ ہمیں اتوار کو ہی ہوا۔
کوئی صبح سویرے 10 بجے کا وقت ہوگا۔ سورج آسمان پر انگڑائیاں لے رہا تھا۔ کبھی بادلوں کی چادر تان کر سو جاتا تو کبھی حالاتِ حاضرہ سے واقفیت کے لئے زمین پر نظر مار لیتا۔ ہم سورج کی اس آنکھ مچولی سے بےنیاز سرد موسم میں  نرم نرم دھوپ سینکنے کی نیت سے چھت پر کھڑے تھے۔  نیت کا واضح کرنا اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اور سورج کو ہماری اس نیت کا علم ہو چکا تھا تبھی   جب سےہم  چھت پر تھے۔ سورج صاحب بادلوں کی چادر تانے محو استراحت تھے۔ البتہ دائیں بائیں کی چھتوں سے کئی چاند دن کو آدھے آدھے نظر آرہے تھے۔ خدا گواہ ہے کہ اگر ہم چاند دیکھنے کی نیت اسی وقت کر لیتے تو اگلے کئی سال تک گرہن لگا رہتا۔ ابھی چھت پر اِدھر اُدھر دھوپ کی آس لئے کسی مناسب کونے کی تلاش میں تھے  کہ  کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے والے میدان میں ہجوم ہے۔ پولیس ہی پولیس۔  گاڑیاں ہی گاڑیاں۔ نظریں دوڑائیں کہ ہجوم کا مرکز معلوم کر سکیں۔ تو مرکز پر اسی اسکول والے گھر کا گماں گزرا۔ دل میں اندیشے جاگنے لگے۔
تو وہ نوجوان گزر گیا۔
افففف۔۔۔۔۔
دوسرا خیال آیا کہ پہلا خیال جھوٹ ہوگا۔ کچھ اور معاملہ ہوگا۔ اللہ رحم کرے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جنازہ لا کر میدان کے درمیان رکھا جا رہا ہے۔ فوراً  گھر سے نکلے ۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے جنازہ شروع ہونے والا تھا۔ خاموشی سے جنازہ پڑھا۔ اور بعد جنازہ ڈرتے ڈرتے ایک آدمی سے پوچھا۔ کس کا جنازہ ہے۔ اس نے کہا۔ رات سامنے ڈرائیونگ اسکول والوں کا لڑکا قتل ہوگیا ہے ۔وہ تو ہمیں اور بھی معلومات دینا چاہ رہا تھا۔ لیکن دل بجھ گیا تھا۔   خود کو مجرم سمجھتے ہم چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے میدان سے نکل آئے۔
اس واقعے کا ہم پر بہت اثر ہوا۔ ہم اپنے حق میں تو ہمیشہ ہی منحوس ثابت ہوتے تھے۔ لیکن اب تو ہماری نحوست کا دائرہ کار بہت بڑھتا جا رہا تھا۔ جس کام کا ارادہ کرتے تھے۔ اس سے جڑے لوگ بھی کسی نہ کسی مشکل میں گرفتار ہو جاتے تھے۔  ایک دن واپسی پر ہماری پک اینڈ ڈراپ والے نے ہم سے کہا کہ سر اگر آپ نے کل کہیں جانا ہے تو گاڑی اپنے پاس رکھ لیں۔ کیوں کہ  میچ کی وجہ سے میں نہیں آ سکوں  گا۔ میں نے کہا یار تم بےفکر رہو۔ میں اپنا بندوبست کر لوں گا۔ مجھے گاڑی چلانی نہیں آتی۔ اس پر اس نے کہا۔ یہ کون سا کام ہے۔ بس آج سے میں آپ کو گاڑی چلانی سکھاؤں گا۔ میں نے اسے ہمدردانہ نظروں سے دیکھا۔ میرے اس سے اچھے تعلقات تھے۔ اور میں واقعی نہیں چاہتا تھا کہ مجھے جلد ہی ایک نیا پک اینڈ ڈراپ والا ڈھونڈنا پڑے۔ لہذا میں نے اسے کہا۔ کہ پریشانی والی بات نہیں۔ میں جلد ہی کسی اسکول سے سیکھ لوں گا۔ لیکن اس نے کہا۔ نہیں۔ بس آج سے آپ کی کلاس شروع۔ اور ہمارے گھر کے باہر والی سڑک پر اتر کر  کہنے لگا۔ کہ ڈرائیونگ سیٹ پر آجائیں۔ میں ڈر رہا تھا۔ لیکن پھرسوچا کہ جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔ ابھی سیٹ پر بیٹھ کر انجن اسٹارٹ کیا۔ اس نے مجھے گاڑی کے گئیر، کلچ اور بریک کے متعلق ایک درس دیا۔ پھر اس نے کہا۔ کہ یہ سامنے والی گاڑیاں گزر جائیں تو ہم آرام آرام سے ڈرائیو کر کے گھر چلے جائیں گے۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ برے سے برا کیا ہو سکتا ہے۔ کہ ایسے میں پیچھے سے ایک کار آکر سامنے رکی۔جس کے اندر کوئی فیملی بیٹھی تھی اور بونٹ میں آگ لگی ہوئی تھی۔ ذرا تصور کیجیئے کہ بونٹ میں آگ۔ میرے لبوں پر ایک مسکراہٹ تیر گئی۔ بالکل ویسی جیسی شکار کو سامنے دیکھ کر شکاری کے ہونٹوں پر نمودار ہوتی ہوگی۔ ڈرائیور  اتر کر اس کی طرف بھاگا۔ اور ان سب کو نیچے اترنے کا کہہ کر فوراً آگ بجھانے لگا۔  میں فخریہ انداز میں اس گاڑی کو دیکھ کر یہ سوچ رہا تھا کہ کب سے گاڑی گرم ہوئی ہوگی۔ لیکن اس کو عین میرے سامنے آکر ہی رکنا تھا۔ ابھی اپنے اسی تیس فٹ کے نحوستی دائرہ پر سوچ رہا تھا کہ  اس فیملی میں سے ایک لڑکی میرے تک آئی اور کہنے لگی کہ آپ مجھے اپنا فون دیجیے۔ میں گھر فون کر سکوں۔ میں جیب سے فون نکال رہا تھا تو وہ کہنے لگی جلدی کرو۔ غالباً مجھے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا دیکھ کر اس نے مجھے ڈرائیور ہی سمجھا۔ میں نےبھی اس کے لیجے سے تاثر بھانپ کر مسکرا کے کہا۔  بی بی میں گاڑی ضرور چلاتا ہوں گا کرائے پر لیکن فون نہیں چلاتا۔ صبر کرو۔ فون دیکھ کر اس نے ایسی نظروں سے مجھے دیکھا گویا ابھی ابھی میں کسی کا فون چرا کر لایا ہوں۔ اس  کے بعد اس نے جب فون پکڑا تو اس کو آپریٹ کرنا بھی نہیں آتا تھا۔ آخر مجھے اتر کر اس کو نمبر ملا کر دینا پڑا۔ اور نحوست کی انتہا دیکھیے کہ اس نے بھی اپنے باپ کا نمبر ملایا۔ وائے حسرتا!
اس سے پہلے میں آپ کو کوئی اور واقعہ سناؤ ایک دوست کا تعارف کرواتا چلتا ہوں۔ ہمارے ایک بے حد محترم دوست ہیں۔ یہاں میں احباب کو بتاتا چلوں کہ ہمارے دوست بھی نحوست میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ اور کچھ چھوٹے موٹے کام نہیں کرتے۔ ان کی اس میدان میں گرفت ظاہر کرنے کو ذرا یہ واقعہ سنیے۔
موصوف  کا ایک جائز کام اٹکا ہوا تھا۔ اور کام نکالنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ آخر ان کو کسی نے مشورہ دیا کہ وہاں پر ایک آدمی ہے۔ جو کوئی عرصہ چالیس سال سے روپے لے کر لوگوں کے جائز و ناجائز کام کر رہا ہے۔ اور آج تک کسی کرپشن کے الزام میں نہیں پکڑ اگیا۔ اب ان کی بدقسمتی سمجھیے یا پھر اس بیچارے کی بدقسمتی۔ کہ یہ بذات خود اس کے پاس جا پہنچے۔ اور رقم اس کے ہاتھ تھما دی۔ اور مطمئن و شاداں گھر کو لوٹ آئے۔ الغرض قصہ مختصر کہ وہ آدمی چند دنوں میں ہی کرپشن کے الزام میں  معطل ہوگیا۔ شاید بات یہیں ختم ہوجاتی تو بھی بہتر ہوتا۔ لیکن اس کے بعد پتا چلا کہ وہ پاگل ہوگیا ہے۔ اور را ہ جاتی گاڑیوں کو پتھر مارتا ہے۔  ہنستے ہوئے فرمانے لگے کہ اگر یہ کام ہوجاتا تو میں حیرت سے مر جاتا۔ لہذا اس کی یاد تازہ رکھنے کو آج بھی ہم سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر پتھر پھینکتے ہیں اور اس جنتی راشی کے ایصال ثواب کا سامان کرتے ہیں۔
خیر ان کو ایک دن خیال آیا کہ  گبرئیل گارشیا   مارکیزکا آٹو گراف لینا چاہیے۔ میں نے ان سے عرض کی۔ یہ کون سا کام ہے۔ اس کے پرستار پوری دنیا میں ہیں۔ آخر بیرون ممالک والوں کے آٹو گراف کے لئے کوئی طریقہ تو ضرور وضع کیا ہوگا یار لوگوں نے۔ گوگل کا سہار لیا۔ اور اس پبلشر تک پہنچ گئے جس نے پورا طریقہ بتایا ہوا تھا۔ کہ کس طرح آٹو گراف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور اس میں کتنی دیر لگ سکتی ہے۔ بس جناب۔ ہمارے دوست جذباتی ہوگئے۔ اور کہنے لگے کہ بس ایک دو دن میں ہی میں یہ کام کرتا ہوں۔ یہاں ہم دونوں یہ بات بھول گئے کہ ہم تو اکیلے اکیلے ہی بہت بھاری ہیں۔ کجا یہ کہ دونوں ملکر کسی کام کو نبٹانے جائیں۔ الغرض قصہ  مختصرکہ دو ہی دن  بعد کہنے لگے کل انشاءاللہ یہ کام لازماً کر گزرنا ہے۔ اسی شام کو اکیلا بیٹھا تھا۔ یونہی ٹی وی پر مختلف چینل گھما  رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ گبرئیل گارشیا کی خبر چل رہی ہے۔ کہ کچھ دن سے علیل تھے۔ اور آج چل بسے۔ چند ثانیے تو افسوس سے خبر سنی اور اس کے بعد جب یہ خیال آیا شاید تب سے علیل ہیں۔ جب سے ہم نے آٹو گراف لینے کا طریقہ ڈھونڈا ہے۔ دوست نے کہا کہ یار آدمی ستاسی برس جیا۔ بس آٹو گراف کا سوچا تو دارِ فانی سے رخصت ہوگیا۔ اس کے بعد جو افسوس اور ہنسی کا ملاجلا دورہ پڑا ہے تو بس۔ 
اب احباب خود ہی بتائیں کہ ہم کو سست اور کام کو حیلے بہانوں سے ٹالنے والا کہنے والوں کو ہم کیا جواب دیں سوائے اس کے کہ اس نحوست کی دیوی کے چرنوں میں ہم نےاپنے  کتنے ہی  ارادوں  کا بلیدان دیا ہے۔  اب تو ادارہ ترقی منحوساں کا سنگ ِ بنیاد رکھے بنا چارہ نہیں۔

Saturday 19 July 2014

شیف

1 comments
شام ڈھلنے کے قریب تھی۔ سامنے ٹی وی پر ایک ہی چینل بہت دیر سے چل رہا تھا۔ ہم کبھی ٹی وی پر نگاہ ڈالتے تو کبھی چند گز دور پڑے ریموٹ  پر۔ دل چاہ رہا تھا کہ اٹھ کر ریموٹ اٹھا   لیں۔  لیکن اس سے ہماری  سست طبع پر حرف آنے کا شدید امکان تھا۔اگرچہ گھر میں اور کوئی نہ تھا جو کہہ سکتا کہ اس نے خود اٹھ کر ریموٹ اٹھا یا ہے لیکن  کراماً کاتبین کو صرف اس کام کے لئے جگانا مناسب خیال نہ کیا۔ اورخود کوبھی  کیا جواب دیتے۔ کہ محض ایک ریموٹ اٹھانے کی خاطر ہی بستر سے جدائی اختیار کر لی۔ میاں کس بات پر خود کو امیرِ سستی کہتے ہو۔ کل یہی باتیں رہ جائیں گی۔ یہی مثالیں پیش کروں گے نوآموز پوستیوں کو۔ کیا منہ دکھاؤ گے باقی آلکسیوں کو۔ سستی کی معراج یہ ہے کہ یہ ریموٹ خود اٹھ کر تمہارے پاس آئے۔ ضمیر کی اس  متواتر پکار  سے سر میں بھی درد شروع ہوگیا تھا۔  لہذا سوچ کا محور ریموٹ سے بدل کر چائے کی طرف کیا۔ جو کہ  موجودہ صورت میں کے- ٹو سر کرنے سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھا۔  شام کی چائے بنانے کا منصوبہ ابھی ذہن میں ہی تکمیل پا رہا تھا کہ چائے ابھی  بنائی جائے یا کچھ دیر اور یونہی بستر سے محبت نبھائی جائےکہ دروازے پر دستک ہوئی۔
دروازہ کھلا ہے۔ ہم نے لیٹے لیٹے ہی اپنی لیٹی ہوئی آواز اٹھانے کی کوشش کی جو کسمساتی، رینگتی ہوئی باہر کھڑے شخص کے کانوں تک جا پہنچی۔ دستک دینے والا اندر آیا تو دیکھا کہ موٹا بھائی ہیں ۔ ہم نے فوراً لیٹے لیٹے مسکرا کر ان کا استقبال کیا۔ ہماری آلکسی بھلے معراج پر ہو لیکن اتنے بھی سست نہیں کہ چہرے کے تاثرات تک تبدیل نہ کر سکیں۔ مسکراتے ساتھ ہی  ہم نے ان سے عرض کی کہ جب ہاتھ ملانے کو ادھر آئیں تو راستے سے ریموٹ اٹھاتے لائیں۔ ہماری سستی کا یہ عالم دیکھ کر انہوں نے ایک بھرپور جمائی لی۔  اور ریموٹ اٹھا کر سامنے صوفے پر تشریف فرما ہوگئے۔ کہنے لگے۔تم سے ہاتھ ملانے کی حسرت کبھی بھی نہیں تھی۔ اور  ریموٹ کا بٹن دبانے سے عین ممکن ہے کہ تم میں چستی کی کوئی لہر دوڑ جائے۔ لہذا یہ کام میں خود ہی سرانجام دے لیتا ہوں۔ اور ہم جو موٹا بھائی کو فرشتہ و غیبی مدد اور پتا نہیں کون کون سے القابات سے نوازنے والے تھے۔' میر جعفر از بنگال صادق از دکن' کا مطلب پوچھنے لگے۔ موٹا بھائی ہماری اس گستاخی کو پس منظر کا شور گردانتے ہوئے ریموٹ کے بٹن دبا کر دیکھنے لگے کہ یہ کام بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ ہم نے ریموٹ کو بھلا کر واپس چائے کے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ خیال آیا۔ اگر موٹا بھائی بھی چائے پینے پر رضامند ہوجائیں تو لطف رہے گا۔ 
"آپ چائے پئیں  گے؟"  ہم نے اپنی ساری طاقت مسکرانے پر صرف کرتے ہوئے کہا۔
"نہیں! میں چائے نہیں بناؤں گا۔" موٹا بھائی نے پرسکون انداز میں جواب دیا۔
"عجب ہیں آپ! میاں ہم چائے پینے کا پوچھ رہے ہیں۔ اب گھر آئے مہمان سے کون چائے بنواتا ہے۔" ہم نے زبردستی حیرت اپنے اوپر طاری کرتے ہوئے کہا۔
"جو بھی ہے۔ میں چائے نہیں بناؤں گا۔" موٹا بھائی نے اسی لہجے میں جواب دیا۔
"حد ہوگئی! شرافت کا زمانہ ہی نہیں رہا۔  ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہیں کہ ہم چائے آپ سے بنوائیں گے۔" ہم نے موٹا بھائی پر آخری وار کرنے کی کوشش کی۔
"نہیں میاں! تم جو مرضی کہو۔ لیکن  اس بغیر کسی گوشے والے دماغ کے ہی تم کئی بار مجھ سے چائے بنوا چکے ہو۔ اور آج میں فیصلہ کر کے آیا ہوں کہ چائے نہیں بناؤں گا۔" موٹا بھائی  الزام تراشی پر اتر آئے تھے۔
"خودغرضی لوگوں کی رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہی ہے۔"  ہم نے ایک خبروں کے چینل پر ایک خبر دیکھ کر تبصرہ کیا۔
"ہاں بالکل! اب تو لوگ چائے بنانے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔" موٹا بھائی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"آپ کے اس رویے سے ہماری میزبان طبع کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔" ہم نے جذباتی حملہ کرنے کی کوشش کی۔
"ایسے ہی سہی۔" موٹا بھائی انتہائی بےرخی سے بولے۔
صبح سے کمر کو بستر سے جوڑ کر ہم نے طاقت جمع کی تھی ساری کی ساری صرف کر کےاٹھے  اور  کچن کا رخ کیا۔
"چائے پئیں گے آپ؟" ہم نے وہاں سے آواز لگائی۔
"بتایا تو ہے نہیں بناؤں گا۔" موٹے بھائی کی مسکراتی آواز  سنائی دی۔ غالباً انہیں اب تک اس بات پر یقین نہ آیا تھا کہ ہم واقعی چائے بنانے کی غرض سے باورچی خانے میں رونق افروز ہوچکے ہیں۔
ہم نے انتہائی تیزی اور پھرتی سے چائے بنائی۔ تاکہ بستر اور ہمارے درمیان ہجر کی گھڑیاں کم سے کم ہوں۔  موٹا بھائی کے سامنے ایک کپ دھرا اور دوسرا خود تھامے واپس اپنے بستر پر بیٹھنے ہی والے تھے کہ گھنٹی کی آواز نےہمارے چائے اور بستر کے درمیان کیدو کا کردار ادا کیا۔ باہر دیکھا تو  محلے کا اکلوتا چوکیدار فضلوکھڑا تھا۔
"کیسے ہو فضلو؟ کافی دن غائب رہے؟" ہم نے اس سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
ٹھیک ہوں صاحب!  بس وہ کچھ  کھا لیا تھا  بعد میں پتا چلا کہ وہ گلا ہوا ہے جس کی وجہ سے بہت بیمار رہا ہوں۔
فضلو کی عادت تھی کہ وہ اچھی بری ہر چیز بغیر پرواہ کئے  کھا جاتا تھا۔ صاف نظر آرہا ہوتا تھا کہ چیز خراب ہے لیکن وہ پھر بھی نگل جاتا۔ اپنی اسی عادت کی وجہ سے اکثر  و بیشتر بیمار رہتا  تھا۔ بارہا سمجھانے پر بھی جب اس پر کوئی اثر نہ ہوا تو اہل محلہ نے سمجھانا چھوڑ دیا۔
ہم فضلو کو اس کی تنخواہ دے کر واپس آئے  تو کیا دیکھتے ہیں کہ موٹا بھائی ٹی وی پر چند لڑکیوں کو بڑے انہماک سے دیکھنے میں مصروف ہیں  جو کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔
"تم کو کھانا بنانا آتا ہوگا؟  آخر کو ایک عمر تم نے گھر سے باہر گزاری ہے۔" موٹا بھائی نے لڑکیوں یا پھر کھانے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"جی نہیں۔" ہم نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
"بنانا کیوں نہیں سیکھا۔"  موٹا بھائی نے  نظریں لڑکیوں سے ہٹانا گناہ  سمجھتے ہوئے پوچھا۔
"ہم صرف اچھا کھانا کھانے کے شوقین ہیں۔ اور چونکہ ہم کو اچھا کھانا بنانا نہیں آتا لہذا ہم اپنا بنایا کھا کر اچھا کھانے والی صلاحیت بھی کھونا نہیں چاہتے۔  " ہم نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
"میاں انسان گاتے گاتے گویا ہو ہی جاتا ہے۔ بناؤ گے تو آہستہ آہستہ بنانا آجائے گا۔" انہوں نے  ٹی وی پرکھانا بناتی لڑکیوں میں سے ایک پر نظر جماتے ہوئے  ناصحانہ  انداز میں کہا۔
"ہم میں صبر کی شدید کمی ہے۔" ہم نے اس نوجوان کے انداز میں کہا۔ جو چند بزرگوں کے درمیان گھر گیاہواور جان بچانے کا راستہ ڈھونڈ رہا ہو۔
"ہمم! اچھا سنو میں سوچ رہا ہوں کہ   شیف بنوں  اور اس  مقابلے میں حصہ لوں۔"  موٹا بھائی نےہماری طرف متوجہ ہوئے بغیر کہا۔
"اگر  آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال ہے کہ آپ کو ان لڑکیوں کی معرفت میں کام کرنے کا موقع ملے گا تو یقین کریں آپ بہت بھولے ہیں۔" ہم نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے ان پر جملہ چست کیا۔
"ان لڑکیوں کو کون دیکھتا ہے۔ میں کھانا بنانا سیکھوں گا اور اس مقابلے میں حصہ لے کر جیتوں گا۔"  موٹا بھائی نے اپنی نظریں لڑکیوں پر گاڑے گاڑے جواب دیا۔
اس عزم پر ہم نے حیرانی سے اس جثہ رستم کو دیکھا جو  کچھ بھی نیا سیکھنے کی عمر سے گزر چکا تھا۔
"آپ سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں!" ہم نے حیرت سے استفسار کیا۔
"ہاں! میں شیف بن کر رہوں گا۔ اور مقابلے میں حصہ بھی لازمی لوں گا۔" موٹا بھائی نےپلٹ کر  ہم کویوں  گھورتے ہوئے کہا۔  گویا اگر آج  تک وہ شیف نہیں تھے تو ہمارا ہی قصور تھا۔
"لیکن جہاں تک اس خاکسار کا خیال ہے کہ آپ کچھ بھی بننے کی عمر سے گزر چکے ہیں۔ "
"ہنہہ! نہیں میاں! تم کو معلوم نہیں کہ میرے اندر کتنا ٹیلنٹ چھپا ہے۔ "
ہم نے ایک نظر دوبارہ ان کے ٹیلنٹ زدہ جثے پر ڈالی۔ اور انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔" مشکل ہے!"
غصہ سے دوبارہ لڑکیوں پر نظریں جما لیں۔ کہنے لگے۔" کیا مشکل ہے! کسی کے جسامت دیکھ کر تم اندازہ لگاؤ گے کہ وہ اچھا شیف ہے یا نہیں۔ "
"نہیں۔ میری معلومات ذرا کم ہیں۔ شیف کا کام کیا ہوتا ہے۔"
فخر سے گردن اکڑا کر کہنے لگے۔ "میاں! بڑے بڑے ہوٹلوں میں شیف ہی ہوتا ہے۔ "
"اس کو باورچی بھی کہہ سکتےہیں؟ "
ذرا غصہ سے پہلو بدلتے ہوئے۔" تم نے کبھی کسی بڑے ہوٹل میں کھانا نہیں کھایا؟"
"کھایا ہے۔" ہم نے جلدی جلدی ہوٹلوں کے نام گنوانے شروع کر دیے۔
"بس بس! آگیا یقین کہ تمہیں بھی کسی نے اندر گھسنے دے دیا ہوگا۔ خیر وہ کھانا جو تم کھا آئے ہو۔ وہ شیف بناتا ہے۔" فخر سے بولے۔
"اوہ! اچھا۔ وہ اتنا بیہودہ اور مہنگا کھانا شیف بناتا ہے۔ ویسے تو آپ بن سکتے ہیں۔ اگر ذائقہ شرط نہ ہو تو آپ میں بھی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ "
بھڑک کر بولے۔ " کھانا بنانا آرٹ ہے۔ "
"کل تک تو عشق بھی آپ کی نظر میں آرٹ تھا۔ لیکن اس عمر میں اچھا بنانا کہاں سے سیکھیں گے۔ اچھا تو ایک طرف برا بنانا بھی کچھ ایسا سہل نہیں۔ کیا مخلوق خدا کے ہاضمے پر تجربات کے لئے کسی ادارے سے کوئی مالی امداد ملی ہے۔ یا  کسی امراض معدہ کے ڈاکٹر سے دوستی گانٹھ لی ہے۔ " موٹا بھائی کو مایوس کرنا ہماری گفتگو کا مقصد ہوچلا تھا۔
میری تمام تر گستاخیوں کو نظرانداز کر کے رازدارانہ انداز میں بولے۔ "باقاعدہ درس لینے کا ارادہ ہے۔ "
"کہاں سے؟" ہم نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا۔
انتہائی خوشی سے ایک بڑے ہوٹل کا نام بتاتے ہوئے۔ "  میں نے فیس، کلاسز کے اجراء اور داخلہ کی شرائط بھی پتا کر لی ہیں۔"
"ہیں!! تو گھر کھانا بناتے کیا موت پڑتی ہے۔بچت بھی ہوگی اور بھابھی کا بھی بھلا ہوجائے گا۔ " ہم نے حیرت زدہ انداز میں کہا۔
"تم نہیں سمجھو گے۔ کتنے لوگوں کے لئے کتنا بنانا ہے۔ پیش کیسے کرنا ہے۔ یہ سب وہیں سکھایا جاتا ہے۔ " موٹا بھائی نے ہمیں دنیا کا آخری بیوقوف سمجھ کر سمجھانے کی کوشش کی۔
"تو آپ زیادہ لوگوں کے لئے کھانا بنانا چاہتے ہیں؟ ہوٹل کھولیں گے؟" ہمارے لہجے میں حقیقی حیرت عود کر آئی تھی۔
"نہیں۔ میں یہ مقابلہ جیت کر ملک کا بہترین شیف بنوں گا۔" وہ ہماری جہالت پر برہمی سے بولے۔
"کیا آپ اس عزت افزائی کے متحمل ہو سکتے ہیں جو مقابلے میں شریک لوگ برداشت کرتے ہیں۔ " ہماری حیرت کا سلسلہ جاری تھا۔
"ہاں! تنقید اگر مثبت ہو تو نکھار لاتی ہے۔" انہوں نے اپنا سر یوں ہلایا جیسے کسی ہانڈی میں ڈوئی ہلائی جا رہی ہو۔
"یہ کتابی باتیں ہیں۔ عملاً ان لوگوں کے چہروں پر اذیت کبھی محسوس نہیں کی آپ نے۔" ہم نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
"نہیں میاں۔ یہ تو سننے والے منحصر ہے کہ وہ تنقید کو مثبت لیتا ہے یا منفی۔ ظاہر ہے اصلاح کا عمل ضروری ہے۔ "
"ہمم۔۔۔بفرض محال آپ جیت گئے۔ اس کے بعد؟" ہم نے  بھولپن سے پوچھا۔
"بفرض محال ہی کیوں؟ تمہیں کیوں لگتا ہے کہ میں نہیں جیت پاؤں گا۔" موٹا بھائی تیزی سے بولے۔
"چلیں جی یقیناً آپ جیت جائیں گے۔ اس کے بعد؟" ہم نے آگے کی منزل جاننے کو بحث سے بچنے کی کوشش کی۔
"اس کے بعد کسی بڑے ہوٹل میں ملازمت کروں گا۔" فخریہ انداز میں بولے۔
"یاحیرت! یعنی باورچی بن جائیں گے؟ "  ہم نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا جو اب سائبریا سے درآمد شدہ لگ رہی تھی۔
"شیف میاں شیف! تمہیں معلوم ہے کبھی کسی  ہوٹل میں جا کر کھانا بنانا تو کبھی کسی میں۔ کبھی کوئی گاڑی لینے آرہی ہے تو کبھی چھوڑنے۔ وقت پر وقت دیے جا رہا ہوں گا۔ اس وقت ممکن نہیں۔ آج اس وقت تک میسر ہوں۔ دولت کی ریل پیل۔ الغرض کتنے ہی فوائد ہیں جن کا تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ اور سب سے بڑا لطف مرکز توجہ ہونے کا۔ بئی واہ۔" انہوں نے خیالی پلاؤ کی دیگ میں زور زور سے چمچ ہلاتے ہوئے کہا۔
"مصالحے بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ ہاتھ ہلکا رکھیں۔ "ہم نے دست بستہ عرض کی۔
"پورے ملک میں میرا نام ہوگا۔ عزت ہوگی۔" انہوں  نے اسی کیفیت میں بات جاری رکھی۔
"تو کیا اب آپ کی عزت نہیں ہے۔" ہم نے بھی مسکراتے  ہوئے جملہ کسا۔
"تم اس طرح کی باتوں سے مجھے مایوس نہیں کرسکتے۔اس وقت سے ڈرو جب تمہیں اپنے خاص مہمانوں کے لئے میری خدمات کی ضرورت ہوگی اور میرے پاس تمہاری بات سننے کا بھی وقت نہیں ہوگا۔" انہوں نے ہماری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے پرغرور لہجے میں کہا۔
"شادی بیاہ کا بھی بنا لیں گے؟ " ہم نے شرارت سے پوچھا۔
ہمارے لہجے کی شرارت نظر انداز کر کے فرمانے لگے۔ "ہاں! شادی بیاہ پر بھی پکا سکوں گا۔ "
"مطلب خاندان میں شادی پر نائی کا خرچہ نہیں ہوگا۔ " ہم نے اسی شرارتی انداز میں کہا۔
چراندے ہو کر کہنے لگے۔" کیا اول فول بک رہے ہو۔"
عرض کی۔" ہمارے تو شادی بیاہ کا کھانا نائی ہی بناتے ہیں۔" .
"تم لوگ جاہل ہو۔ اجڈ ہو۔ پرانے خیالات کے مالک ہو۔ " موٹا بھائی انتہائی برہمی سے بولے۔
"اگر نام بدل دیں۔ اور نائی یا باورچی کو شیف کہیں تو آپ کو اعتراض نہ ہوگا۔" ہم بھی شرارت پر تلے تھے۔
سخت غصہ سے ہونٹ بھینچ لئے۔ کوئی جواب نہیں۔
"اچھا چھوڑیں نائی کو۔ ہمارے لوگ ذرا پرانے خیالات کے مالک ہیں۔ اگر آپ کسی جگہ سج دھج کر جائیں۔ اور لوگ سوال کر بیٹھیں کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ تو کیا جواب دیں گے؟"
کہنے لگے۔ "تمہاری سب شیطانی  سمجھ رہا ہوں۔ کہوں گا کہ فلاں بڑے ہوٹل میں بڑا شیف ہوں۔ " زور بڑے پر تھا۔
"مطلب اگلا سوال کہ شیف کیا ہوتا ہے کا جواب کیا دیں گے؟"
"کہہ دوں گا وہاں کھانا بناتا ہوں۔ "
"یعنی نائی ہوں۔ یا باورچی۔ "
"حد ہوگئی۔ تمہاری سوئی اس  سے آگے کیوں نہیں بڑھتی۔ " بھڑک کر بولے۔ چائے کا کپ بھی واپس رکھ دیا۔ ختم جو ہوگئی تھی۔
"اصل میں بات یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک بار شادی پر سردار کے برابر کرسی پر نائی بیٹھ گیا تھا۔ تو سردار وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ کہ آئندہ کبھی ان کی شادی میں نہیں آؤں گا۔ میرے برابر میں نائی کو بٹھا دیا ہے۔ " ہم نے ان کی معلومات میں اضافہ کرنے کی غرض سے کہا۔
"تم کچھ بھی کہہ لو ۔ لیکن یہ میرا شوق ہے۔ اور اب سے جنون بھی" ان کا لہجہ اٹل تھا۔
"آپ کو کتنا یقین ہے کہ آپ ایک اچھے شیف بن سکتے ہیں۔ " ہم نے ان کے عزم کو دیکھ کر موضوع بدلنے کی نیت سے پوچھا۔
"لو !  کیسی بات کی۔ ابھی کل ہی میں نے کھانا بنایا تھا۔ فضلو چوکیدار کو کھلایا تھا۔ وہ تو بلے بلے کر رہا تھا۔  اور کہہ رہا تھا کہ آپ بہت اچھے کھانے بناتے ہیں۔ "
ہم اپنی سائبرین چائے کو حلق میں انڈیلنے  لگے۔ بحث ختم ہوچکی تھی۔ ظاہر ہے  اب فضلو کی مہر کے بعد تو  نامور شیف بننے میں کوئی رکاوٹ ہی باقی نہیں رہی  تھی۔