Thursday 30 January 2014

پروگرامر کا خواب

6 comments
پروگرامر کا خواب
(گلزار سے معذرت کے ساتھ)


صبح صبح اک Email کی دستک پر Computer کھولا

دیکھا تو Testers نے کچھ Bugs بھیجے تھے

صورت سے منحوس تھے سارے

Description سارے سنے سنائے تھے

Code کھولا، Debugger لگائے

Process ساتھ Attach کروائے

ساتھ ہی کہیں کہیں، کچھ موٹے موٹے Message Box لگائے

Description میں وہ Bug میرے

کچھ ان دیکھے Environments کی Log لائے تھے

کوڈ لکھا، Compile کیا

پھر دیکھا تو Semicolon نہیں لگا تھا

آنکھ کھلی تو دیکھا کمپیوٹر پر کوئی نہیں تھا

Mouse ہلا کر دیکھا تو Auto Lock ابھی ہوا نہیں تھا

خواب تھا شاید

خواب ہی ہوگا

میٹنگ میں کل رات سنا ہے ہوئی تھی گوشمالی

میٹنگ میں کل رات سنا ہے

کچھ Bugs کی فہرست بنی ہے

Wednesday 29 January 2014

مشیراں مروا دتّا

5 comments
سکول دور دی وکھری یاد اے لطیفہ۔۔ تے جد وی کوئی پٹھا کم کر بیٹھاں یا بندہ اپنی اوقات بھل کے کوئی کم اچ ہتھ پا لئے تے مینوں اے لطیفہ بڑا یاد آندا اے۔۔۔ اج وی جس ویلے فلک شیر چیمہ ہوراں مینوں میری قد بت توں ود کم کرن واسطے اکسایا۔۔۔ تے مینوں اے لطیفہ بڑا یاد آیا۔۔۔ سوچیا۔۔۔ تہانوں وی لکھ کے سنائیے۔۔۔ گل او سنانڑ آلی تے نئیں۔۔۔ کہ لطیفہ لکھنا وی لطیفے نال لطیفہ اے۔۔۔ پر۔۔۔ خیر۔۔۔ تسی وی پڑھو۔۔۔ 


ایک گیڈر شیر کول جا پُجیا۔۔۔ تے آکھن لگا۔۔۔ 
جنگل دے بادشاہ!!
میں چاہندا واں کہ مینوں شکار کرن دی جاچ آجاوے۔۔۔ تے مینوں شکار کرن دا ول سکھن دا بڑا شوق اے۔۔۔ تسی مینوں شکار کرنا سکھا دیو۔۔۔ 
شیر کینڑ لگا۔۔۔ ۔ اوے گیدڑا۔۔۔ ایہہ کیہڑا کم اے۔۔ جیدے واسطے ترلے پاندا پھردا ایں۔۔۔ تے چل تینوں اج شکار دا ول سکھا دیندے آں۔۔۔ ۔

تے دوویں وچ جنگل دے آپہنچے۔۔۔ ۔ شیر نے اک تگڑا جیا بھینسا تاڑیا۔۔۔ تے گیدڑ نوں آکھن لگا۔۔۔ کیوں کاکا۔۔۔ تیار ایں فر۔۔۔ ۔ شکار دا ول سکھن لئی۔۔۔ 
گیدڑ کینڑ لگا۔۔۔ آہو۔۔۔ بادشاہ سلامت۔۔۔ ۔
ہن شیر نے اک مناسب جئے فاصلے توں گھات لائی۔۔۔ ذرا پشلیاں لتاں اوتے وزن پایا۔۔۔ ۔ تے نال ای گیدڑ نوں کینڑ لگا۔۔۔ 
ویکھیں ذرا۔۔۔ ۔۔ لوں کنڈے ہوگئے نیں کہ نئیں۔۔۔ ۔
گیدڑ نے جواب دتا۔۔۔ بادشاہ سلامت لوں کنڈے ہوگئے۔۔۔ 
شیر نیں فر پوچھیا۔۔ ہن ویکھ انّے رتّے ہوے کہ نئیں۔۔۔ 
گیڈر نے شیر دے نیناں اچ ویکھیا۔۔ تے کینڑ لگا۔۔۔ ۔۔
آہو بادشاہ سلامات۔۔۔ ۔ انّے رتّے ہوگئے نیں۔۔۔ 
شیر نے اک چھال ماری۔۔۔ بھینسے دی تونڑ تے پنجہ ماریا۔۔۔ تے سٹ لیا تھلے۔۔۔ ۔
ایس تو باد شیر نے گیڈر نوں کیا۔۔۔ ویکھ لیا۔۔۔ اینی جئی گل سی۔۔۔ 
گیڈر بڑا خش تے ہسدا کھیڈدا گھر آل تر پیا۔۔۔ 

شام نوں گیدڑاں دی چوپال اچ جدوں حقے پانڑی دا ٹیم ہویا تے ساریاں نوں آکھن لگا۔۔۔ کاکا اے شکار شکور کوئی کم نئیں اے۔۔۔ میرے کھبے ہتھ دا کھیل اے۔۔۔ تے تسی کسی دے ٹکڑیاں تے پلنا چھڈ دیو۔۔۔ ۔ تہاڈے واسطے شکار میں کر دیا کراں گا۔۔۔ 
سارے گیدڑ بڑے خش ہوئے تے اوہدی خدمتاں اچ لگ پئے۔۔۔ 
اگلے دن گیدڑ صاب ہوراں نے انگڑائی لئی۔۔۔ تے بڈی اپنی نوں آکھن لگا۔۔۔ ۔ نیک بختے۔۔۔ پانڈے پونڈے سانبھ رکھیں۔۔۔ میں ذرا شکار تے چلیاں۔۔ تے فر اج ول ای گوشت ہوے گا۔۔۔ ۔

ہن گیدڑ ہوراں نیں باقی سنگیاں نوں نال لیا۔۔۔ ۔ تے جاپجے شکار واسطے۔۔۔ اک تگڑا جیا بھینسا تاڑیا۔۔۔ تے گھات لا لئی۔۔۔ 
فر بڑے فخر نال اوہی شیر آلی کار جسم اکڑا۔۔۔ باقیاں نوں پچھیا۔۔
ہاں بئی کاکا۔۔۔ دسو۔۔۔ ۔
لوں کنڈے ہوگئے۔۔۔ ۔
باقی گیدڑ کینڑ لگے۔۔ آہو ہوگئے۔۔۔ 
فر اونے دوبارہ پچھیا۔۔ ہن دسو بئی۔۔۔ انّے رتّے ہوئے کہ نئیں۔۔۔ 
باقی سارے کینڑ لگے۔۔ آہو ہوگئے ۔۔۔ ۔
گیڈر ہوراں نے چھال ماری۔۔۔ اگوں بھینسے نے سینگ کڈ ماریا۔۔ اڈدا ٹالی نال جا وجا۔۔۔ تے نالے اکھ پھٹ گئی۔۔۔ 
اکھ تے ہتھ رکھ گھر آل پجا۔۔۔ 
جس ویلے گھر پہنچیا۔۔۔ تے بڈی آکھن لگی۔۔۔ 
ہاے او ربّا۔۔۔ ۔
تسی تے شکار تے گئے سو۔۔۔ ۔ اے کی کانے ہو کے ول آئے او۔۔۔ ۔

گیدڑ ہوراں کینڑ لگا۔۔۔ 
کی دساں نیک بختے۔۔۔ 
نہ لوں کنڈے ہوے۔۔۔ تے نہ انّے رتّے ہوے
مشیراں مروا دتاّ قسمیں۔۔۔ ۔

Friday 24 January 2014

قصہ دوسرے آدمی کا

0 comments

دوسرا آدمی
مؤرخہ 16 جون 2013

یہ دوسرا آدمی بھی کمال چیز ہے۔۔۔ جہاں اپنے سے بات ہٹانی ہو۔۔۔ جہاں کسی انجان کی طرف اشارہ کرنا ہو۔۔۔ یا پھر ایویں ہی کسی کا ذکر کرنا ہو۔۔۔ تو دوسرا آدمی کا لفظ لگا دیجیے۔۔۔ زندگی آسان بنائیے۔۔۔ لیکن ہماری اس تحریر میں یہ دوسرا آدمی وہ والا دوسرا آدمی نہیں ہے جس کے بارے میں لوگ کہا کرتے ہیں کہ وہاں اک دوسرا آدمی بھی تھا۔۔۔ یار وہ جو دوسرا تمہارے ساتھ تھا۔۔۔ یا پھر یار یہ دوسرا کون ہے۔۔۔ بلکہ یہ دوسرا آدمی تو وہ آدمی ہے جس کو محفل کا ہر رکن بہت اچھے طریقے سے جانتا ہے۔۔۔ ۔ لیکن یہ پھر بھی پہلا آدمی بننے پر تیار نہیں۔۔۔ اور دوسرا آدمی کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔۔۔ میں نے جب پوچھا کہ سرکار یہ دوسرا آدمی دوسرا آدمی جب لوگ کہتے ہیں تو آپ کہتے کیوں نہیں کہ میرا نام ۔۔۔ ۔ ہے۔ تو ہنس کر کہنے لگے کہ میاں تم کیا جانو دوسرا آدمی ہونے میں کیا مزا ہے۔۔۔  پوچھو جو کبھی ہوئے ہو۔۔۔ ۔ میرے خیال میں اتنی دوسرے دوسرے کی گردان بہت ہے۔۔۔

آتے ہیں اصل قصے کی طرف

جمعہ کے روز دوسرے آدمی کا فون آیا کہ آپ نے آج لاہور آنا تھا۔ میں نے فون پر ہی دست بستہ عرض کی کہ آنا تو تھا۔ لیکن کچھ مصروفیات کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکے گا۔۔۔ تو فرمانے لگے میں آرہا ہوں۔۔ میں نے کہا قبلہ جم جم آئیں۔۔۔ ۔ ہم دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھے ہیں۔۔ رات کو جب یہ دوسرا آدمی تشریف لایا تو ساتھ میں پہلا آدمی بھی تھا۔۔ گپ شپ لگائی گئی ۔ اس کے بعد پہلا آدمی اک نامعلوم منزل کی جانب رواں ہوگیا۔۔ اور ہم سے جاتے ہوئے کہہ گیا۔ کہ اگر میں اتنے دن تک واپس نہ آؤں توخبردار میرے پیچھے آنے کی غلطی نہ کرنا۔ بلکہ اس کے برعکس پوسٹر والے بزرگ کی خدمات حاصل کرنا۔دوسرے آدمی نے اس کی نصیحت پلے سے باندھ لی۔چونکہ میرے پاس پلہ نہ تھا۔۔ تو میں نے یہ نصیحت نیفے میں اڑس لی۔ اس کے بعد دوسرے آدمی کے ساتھ گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوا۔ جو تہجد کے قریب شیطان کی لوری کے ساتھ ختم ہوا۔ دوسرے دن جب سورج نکلا۔۔ تو دوسرا آدمی سویا ہوا تھا۔۔۔ اور ہمارے ساتھ یہ معاملہ تھا کہ
رات گئے سویا تھا لیکن​
تجھ سے پہلے جاگ اٹھا تھا​
سورج گرم ہوگیا۔ لیکن دوسرا آدمی سوتا رہا۔ سورج اور گرم ہوگیا۔۔ لیکن دوسرے آدمی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ اک رینگی تو دوسرے آدمی نے پرانی مزاج شناس ہونے کی رعایت دے کر نظرانداز کر دیا۔ اب سورج تپ گیا۔ اس پر دوسرا آدمی اٹھا بیٹھا۔ اور اٹھتے ہی اِدھر اُدھر کے منصوبے بنانے لگا۔ کہ یہ بھی کر لیں۔ وہ بھی کر لیں۔ اس سے بھی مل لیں۔ اس سے بھی مل لیں۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے چلو چلتے ہیں۔۔ یہ سننا تھا کہ کہنے لگے تھوڑی شام ہوجائے پھر نکلتے ہیں۔ اور فلم لگا کر بیٹھ گئے۔۔۔ میں تھوڑی دیر بیٹھا رہا۔۔۔ پھر لیٹ گیا۔۔ پھر سو گیا۔۔۔ پھر اٹھا تو دیکھا کہ دوسرا آدمی وہیں اسی حالت میں سکرین پر نظریں جمائے فلم پر فلم دیکھے جا رہا ہے۔ جیسے اس کی زندگی کا اس سے بڑا مقصد اور کوئی نہیں ہے۔ اب میں تیار ہوگیا۔ اور عرض کی کہ تیسرے آدمی جن سے شام کو ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ منتظر ہیں۔ لیکن دوسرا آدمی بیٹھا رہا۔۔۔ زمین جنبش نہ جنبش۔ گل محمد نہ جنبش۔۔۔ آخر تنگ آکر جب میں نے دھمکی دی کہ اب بھی اگر آپ نے ہلے تو میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا۔ یا پھر پروگرام ختم۔ اب کل جائیں گے۔ تو موصوف کے جسم میں ہلکی سے جنبش ہوئی جس سے پتا چلا کہ ابھی قوت سماعت باقی ہے۔ وہاں سے نکلے تو تیسرے آدمی کے دروازے پر آرکے۔ تیسرا آدمی محفل کی سب سے شفیق ترین ہستیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے ساتھ جب بھی بیٹھو۔ علم کے ساتھ ساتھ محبت اور شفقت سمیٹتے جاؤ۔ اب دوسرا آدمی نے عرض کی کہ سرکار چھت پر بیٹھا جائے گا۔۔۔ تیسرے آدمی کے گھر کی چھت پر سے نظارہ بڑا دلکش آتا ہے۔ سامنے مارگلہ کی پہاڑیاں اور پھر ان کے دامن میں موجود فیصل مسجد کے مینارے بھی نظر آتے ہیں۔ ہم وہاں بڑی دیر تک بیٹھے رہے۔ مختلف موضوعات زیر گفتگو رہے۔ جن میں راقم کی حثیت اک سامع سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ دوسرا اور تیسرا آدمی علم کی بوریاں بھر بھر کر انڈیلتے رہے۔ اور راقم اپنی اوقات کے مطابق جذب کرتا رہا۔ تیسرے آدمی کی پرتکلف مہمان نوازی کے بعد جب وہاں سے نکلے تو دوسرے آدمی نے نیند کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ اور گھر آکر دوبارہ سو گیا۔۔۔ محفلین وہ دوسرا آدمی ابھی تک سورہا ہے۔ راقم کو اجازت دیجئے کہ جا کر کچھ ناشتہ کا بندوبست کر سکے۔ اور اس دوسرے آدمی کو جگانے کی کوشش کر سکے، کامیابی یا ناکامی قسمت کی بات ہے۔۔۔۔ ۔

مکمل روداد پھر کسی دن سہی۔۔۔ ۔​
فرہنگ:
پہلا آدمی: فاتح الدین بشیر
دوسرا آدمی: عاطف بٹ
تیسرا آدمی: سر سید زبیر 

Sunday 12 January 2014

محفل بعنوان تذکرہ و تشہیرِ اردو

6 comments

محفل بعنوان تذکرہ و تشہیرِ اردو

مؤرخہ 8 ستمبر 2013

گزشتہ ہفتے کے کسی دن میں اپنے بستر پر دراز تھا کہ فون نے کانپنا شروع کر دیا۔ دیکھا تو اسلام آباد کے ایک نمبر سے کال تھی۔ اٹھایا۔۔ دوسری جانب سر سید زبیر تھے۔ فرمانے لگے کہ میرے ساتھ الف نظامی بھی تشریف رکھتے ہیں۔ گر مناسب ہو تو آئندہ اتوار 8 ستمبر کو مل بیٹھنے کے ایک پروگرام کو عملی شکل دی جائے۔ میں نے فورا اثبات میں سر ہلا دیا۔ لیکن دوسرے لمحے خیال آیا کہ یہ سر تو شاہ جی کی بصارت سے دور ہے۔ سو اپنی خوبصورت گھمبیر (احباب کو جلنے کی ضرورت نہیں) آواز سے ان کی سماعتوں میں زہر گھول دیا۔ مقام آئی-8 مرکز میں حبیبی ریستوران طے پایا۔ اور ہم نے دعوت نامہ کافی سارے احباب کو بھیج دیا۔ فرخ اور سعادت نے معذرت کر لی۔ بقیہ احباب تشریف لے آئے۔

اس سے پہلے کے میں روداد شروع کروں۔ ایک پرانی بات یہاں لکھنا چاہوں گا۔ یہ اس دن کی بات ہے جب اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں سر زبیر کے دفتر میں عاطف بٹ ، الف نظامی ، اور خاکسار بیٹھے ہوئے تھے۔ اور سرکار شاہ جی کے خرچ پر چائے کا دور چل رہا تھا۔ تو یونہی باتوں باتوں میں زبان کا تذکرہ آگیا۔
سر زبیر نے فرمایا کہ:
"دنیا میں سب سے بڑا رشتہ زبان کا رشتہ ہے"
اس سے مجھے احمد جاوید صاحب کی ایک بات یاد آگئی کہ :
"اپنی مادری زبان سے تعلق توڑنا اپنے ماں باپ کو عاق کرنا ہے"
جواُس دن تو اِس کم عقل کے ذہن میں نہ سمائی تھی۔مگر پھر سر کی اس بات سن کر سارے مطالب ذہن میں کھلتے چلے گئے۔
عبرانی کو دوبارہ زندہ کیا گیا۔
ہر زندہ قوم اپنی زبان کو اپنا تشخص سمجھتے ہوئے ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔ لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنی زندہ زبان کو منوں مٹی تلے دفنانے پر تلے ہیں۔ چاہے وہ پنجابی ہو یا اردو۔
بڑے لوگ بڑی بڑی باتیں کہہ دیتے ہیں۔ کیوں کہ وہ آگہی رکھتے ہیں۔ مگر ہم جیسے کج فہم جب تک ان الفاظ میں مستور معانی سمجھتے ہیں۔ یہ بڑے لوگ کوئی اور بات کر کے دوبارہ الجھا دیتے ہیں۔

تو اب آتے ہیں ملاقات کی طرف۔ جب راقم الحروف وہاں پہنچا تو دیکھا کہ بھلکڑ اور امجد میانداد تھوڑا آگے آگے چلتے جا رہے ہیں۔ ان کا تعاقب شروع کیا کہ دیکھوں کدھر کو جاتے ہیں۔ تو وہ تھوڑا آگے جا کر کچھ احباب سے گلے ملنے ملانے لگے۔ وہاں پر الف نظامی ، سید زبیر ، خرم شہزاد خرم اور hackerspk پہلے سے موجود تھے۔ میری آمد کے بعد اب مزید کسی کا انتظار باقی نہ تھا۔ کچھ احباب پہلے ہی چائے سے دل بہلا چکے تھے۔ ہمارے لیے بھی چائے آگئی۔ اور باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

اس سے پہلے کہ بھانت بھانت کی بولیاں شروع ہوتیں۔ اور احباب شغل میلے کا سماں باندھتے۔ نعیم بھائی نے صدارت سنبھالتے ہوئے کہا کہ آج کی مجلس بےمقصد نہیں ہے۔ بلکہ ایک موضوع ہے۔ "اردو اور اس کی ترویج" اور تمام احباب اس کے متعلق اظہار خیال کریں۔ کس طرح ہم بہتری لا سکتے ہیں؟ اور وہ کیا دستور العمل ہو سکتا ہے؟ جس کو سامنے رکھ کر کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مثبت نتائج حاصل کیے جائیں۔ سید زبیر سر تو پہلے ہی سے رہنما ٹھہرائے جا چکے تھے۔ اس ضمن میں فکر استدلال کا منصب زوہیب نے سنبھال لیا۔ اور مشاورت کے منصب پر امجد میانداد فائز ہوگئے۔ خرم نے بھی فکر سے آراستہ ہوتے ہوئے کسی بھی بیان کردہ طریق کے اجزائے مشتملہ کو پرکھنے کی کرسی سنبھال لی۔ اور بھلکڑ وہیں پر فکر آلود مسکان لیے بظاہر متفرس نظر آنے لگا۔ جبکہ سامنے ناظرین کی قطار میں اکیلا مستغنی المزاج راقم الحروف مٹکاہٹ سے آشنا ہونے لگا۔

فکر تجربی سے مالامال سر زبیر نے انتہائی خوبصورت انداز میں موضوع پر بات کرنے سے احتراز کیا۔ جبکہ امجد میانداد، زوہیب اور خرم بھائی کی گزارشات اس ضمن میں بے انتہا اعلی و ارفع تھیں۔ بھلکڑ نے بھی بیچ میں کہیں کوئی لقمہ دیا۔ جبکہ اس خاکسار نے سوائے غیر متفق ہونے کے کوئی اور کام نہیں کیا۔

چند نکات جو زیر بحث رہے۔ وہ پیش خدمت ہیں۔
  • دنیا ؛ خصوصا اسپین میں جتنی کتب کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ ایک سال میں ہوتا ہے، اتنا ہمارے ملک میں گزشتہ پانچ سے زائد دہائیوں میں نہیں ہوا۔ اگر اردو کو عام کرنا ہے توزیادہ سے زیادہ کتب کا اردو میں ترجمہ کر کے انہیں عام کرنا پڑے گا۔
  • کیا ہی بہترہوا گر ہمارا نصاب مکمل طور پر اردو میں ڈھال دیا جائے۔ اس سے نہ صرف بچوں میں سمجھنے کی صلاحیت بڑھ جائے گی۔ بلکہ اردوکے وہ الفاظ جو اب متروک ہوئے جاتے ہیں۔ ان کو بھی نئی زندگی مل جائے گی۔
  • کمپیوٹر پر یونیکوڈ میں اردو زبان کی ترویج کے لیے پاک اردو انسٹالر کے ربط کو اپنے برقی خطوط کے دستخطوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے بھی برقیہ(ای میل) پڑھنے والے احباب کو سہولت مل سکتی ہے۔ اور وہ براہ راست اُس ربط پر جا کر اپنے کمپیوٹر پر اردو کی تنصیب کر سکتے ہیں۔
  • فیس بک پر اردو کی ترویج کے لیے صارفین کو پیغامات بھیجے جائیں۔ اور انہیں اس بات کا شعور دیا جائے کہ وہ رومن کی بجائے براہِ راست اردو زبان میں لکھنے کو شعار بنائیں۔
  • نٹرنیٹ پر مختلف فورمز میں کمپیوٹر پر اردو لکھنے پڑھنے کے شعور کو عام کرنے کے لیے کام کیا جائے۔
  • فیس بک پر مختلف صفحات کے منتظمین کو پیغامات ارسال کیے جائیں کہ وہ اپنے صفحات پر اردو تنصیب کے عمل کے بارے میں رہنما ہدایات لکھیں۔ خود بھی اردو کتابت کو فروغ دیں، اور اپنے صفحے کے قارئین کو بھی اسی بات پر اکسائیں۔
  • اردو کی کتابیں صوتی صورت میں انٹرنیٹ پر فراہم کی جائیں۔ اور اس ضمن میں پہلے سے کام کرتے ہوئے احباب سے بھی رابطہ کیا جائے۔
  • اسلامی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ لکھ کر انٹر نیٹ پر مہیا کیا جائے۔ کہ مذہب میں لوگوں کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔ بقیہ کچھ اور پہلو بھی ہیں۔ جن میں عوام کی دلچسپی بیاں سے باہر ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر پر اردو کا اطلاق معانی نہیں رکھتا۔۔۔
  • ادارہ فروغ زبان و ادب کی بابت سید زبیر صاحب صراحت سے بیان فرمائیں گے۔
  • جامعات میں کمپیوٹر پر اردو کتابت کی ترویج کے لیے ورکشاپس منعقد کروائی جائیں۔ اس سلسلے میں پہلا قدم زوہیب اٹھا چکے ہیں۔
  • ایسے تمام منصوبے جو "اگر "سے شروع ہوں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔ (فرموداتِ نیرنگ خیال)
  • اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں پلاسٹک کی تھیلیوں کی بجائے کپڑے سے بنے تھیلوں کے فروغ کے لیے بھی کام کیا جائے۔ ( ؏- بات سے بات یاد آتی ہے)

دورانِ گفتگو بنا ء باتوں کا سلسلہ منقطع کیے وہاں چائے کے کھوکھے سے اٹھ کر ہم لوگ حبیبی ریستوران کے اندر آبیٹھے ۔ اور کھانا لانے کا حکم صادر فرمایا۔ ساتھ میں یہ موضوع بھی چلتا رہا۔ ہلکی پھلکی گپ شپ اور نوک جھونک تو خاصہ ہوتی ہے۔ جب بھی احباب دنیا سے چند لمحے چرا کر یوں مل بیٹھتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد احباب نے ایک دوسرے سے اجازت چاہی۔ آسمان پر بادل چھا چکے تھے۔ اور ہر کوئی اسی فکر میں غلطاں تھا کہ بارش شروع ہونے سے پہلے گھر کو پہنچ جائے۔ میں جب گھر پہنچا تو بارش زور پکڑ چکی تھی۔ کچھ دیر بارش میں نہانے کے بعد اندر آگیا۔ اور یہ تحریر لکھنے لگا کہ مبادا جزیات ذہن سے محو ہی نہ ہو جائیں۔ یوں ایک خوبصورت دوپہر انجام پذیر ہوئی۔ لیکن وہ تمام کام جو آج اس مجلس میں ہم نے سوچے اور لکھے۔ انشاءاللہ ان پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ اور اردو زبان کی کتابت کو محض رسائل سے نکال کر عمومی زندگی میں کمپیوٹر پر رواج دینے کے لیے ہر ممکنہ حد تک کوشش کی جائے گی۔ انشاءاللہ