Thursday 1 December 2016

قصہ دوسرے لیپ ٹاپ کا

3 comments
قصہ دوسرے لیپ ٹاپ کا
باب از عینیت پسندی

ذرائع سے معلوم ہوا کہ نیا لیپ ٹاپ چند دن میں دے دیا جائے گا۔ دو دن بعد ہارڈ وئیر کے شعبے سے ایک لڑکا سیاہ رنگ کا شاپر سا  اٹھائے ہمارے میز تک آ پہنچا۔قریب آنے پر پتا چلا کہ یہ بیگ نما کوئی چیز ہے۔ غور کرنے پر غلط فہمی دور ہوگئی۔ یہ ایک بیگ ہی تھا۔  ہم نے ایک نظر بیگ پر ڈالی۔ایک دریدہ دہن بیگ۔ جس کی ایک سائیڈ لقوہ زدہ لگ رہی تھی۔ لانے والا  کانوں سے پکڑ کر اس کا منہ سیدھا اور بند کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔  قبل اس کے بیگ کی دریدہ دہنی دیکھ کر ہم منہ پھٹ اور گستاخ ہونے کا الزام لگاتے، ٹوٹی زپ دیکھ کر اس کی معذوری سمجھ میں آگئی۔
"یہ کیا ہے؟"  ہم نے کھلے دہن سے اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔
"لیپ ٹاپ"۔ مختصر جواب ملا۔
"کس کا ہے؟" ہم نے دوبارہ سوال کیا۔
"اب تمہارا ہے۔" دوبارہ وہی جواب ملا۔ 
"پہلے کس کے پاس تھا۔ " ہم نے پھر پوچھا۔
"اس بات کو چھوڑو۔ بہت سے لوگوں کے پاس رہا ہے۔" اسی روکھے انداز میں دوبارہ جواب دیا گیا۔  
ہم خاموش ہوگئے۔ خود کو احساس ہوچلا  تھا کہ ہمارے سوالات  بکرا خریدنے  والے کے سوالات جیسے ہوگئے ہیں۔ 
 ہم نے لیپ ٹاپ کو دیکھے بغیر کہا۔ "اس کو اٹھائیں گے کیسے۔ دہن بندی کا کچھ سبب ہو سکتا ہے؟ " 
"فی الوقت یہی بیگ ہے۔ گزارہ کرو۔" ٹکا سا جواب ملا۔
سوئی دھاگہ مل جائے گا۔ ہم  شاید ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہ تھے۔ 
اب آنے والے کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔  یہ آئی ٹی فرم ہے۔ درزی کی دکان نہیں۔  
ہم نے ہنکارہ بھرا۔ اور لیپ ٹاپ کو باہر نکال لیا۔ کئی ایک جگہ زخموں کے گھاؤ تھے ۔ کچھ پرانے مالکین کے دیے تحفے بھی تھے جو اس نے اپنے ماتھے پر تمغوں کی صورت سجا رکھے تھے۔  پاور کا بٹن دبانے پر پہلی بار ہی سکرین روشن ہوگئی۔ دل خوشی سے بھر گیا۔ ہم نے کی بورڈ کی ساری اکائیاں دبا دبا کر دیکھیں۔ سب ہی چلتی تھیں۔ ہم نے اس کے بنائے جانے کی تفصیلات دیکھیں  تو اس کو اپنے پرانے والے سے ایک سال کم عمر پایا۔ ابھی  جانچ پڑتال میں مصروف تھے کہ اس کا سی ڈی روم خود ہی باہر آگیا۔ ہم نے سی ڈی روم بند کرنے  کی بجائے اس لڑکے کو دیکھا جو ابھی تک ہمارے پاس کھڑ ا تھا۔ 
"یہ نئی سہولت ہے۔ سی ڈی روم کھولنا نہیں پڑے گا۔ "اس نے ہماری نظروں کا مطلب سمجھتے ہوئے کہا۔ 
"لیکن میں سی ڈی روم استعمال نہیں کرتا۔" ہم نے اپنے آپ کو پرسکون رکھتے ہوئے کہا۔
"تو پھر اس کو بند کر دو۔" اس نے بےاعتنائی سے جواب دیا۔
گھر جا کر چلایا تو نہ چلا۔ بہت کوشش کی۔ لیکن کوئی بات نہ بنی۔ ایسے ہی بیٹری باہر نکالی تو دیکھا کہ اندر ایک پٹی سے ابھری ہے۔ اس کو دبایا  تو وہ کھٹک کی آواز کے ساتھ ہی نیچے ہو گئی۔ اب بیٹری لگا کر چلایا تو چل پڑا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد اتنا گرم ہو گیا کہ سکرین پر درجہ حرارت کا اطلاع نامہ کھل گیا۔ اور ساتھ ہی خود بخود بند بھی ہوگیا۔ یہ سہولت مجھے پسند آئی کہ گرم ہوجائے تو خودبخود بند ہوجائے۔ ابھی اٹھا کر دوسرے کمرے میں رکھنے جا رہا تھا کہ کوئی وزنی چیز پاؤں پر گرنے سے چیخ اٹھا۔ بیٹری زمین پر پڑی منہ چڑا رہی تھی۔ اس کا لاک خراب تھا۔ اٹھا کر چلو تو نیچے گر جاتی تھی۔ اب روز کا تماشا ہوگیا۔ بیٹری نکالو۔ پٹی دباؤ۔ پھر چلاؤ۔ سکرین کی ہر زوایے پر ریزولیشن  (Resolution)مختلف تھی۔  کچھ جگہ بالکل سفید ہوجاتی تھی۔ اور کچھ جگہ پر کچھ رنگ کم اور کچھ زیادہ ہوجاتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس پر بھی ہاتھ سیدھا ہوگیا۔ اب سکرین کھولتے ہی خوب بخود اس زوایے پر ہاتھ رک جاتے تھے۔ جس پر بہترین نظر آتا تھا۔ گرمی کا حل ایک عدد پنکھا لگا کر دور کر لیا گیا۔  سی ڈی روم والا معاملہ میرے لئے  کھیل سا بن گیا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ عادت اتنی پختہ ہوگئی کہ اوسطاً میں ہر بیس سیکنڈ بعد خود ہی سی ڈی روم پر ہاتھ مار دیا کرتا تھا۔ چاہے کھلا ہو یا نہ۔  پہلے میں صرف اس کا فین پیڈ چھوڑ کر جانے لگا۔ پھر چارجر اور ماؤس بھی دفتر پڑا رہنے لگا۔ بیگ تو پہلے دن سے ہی میں ذاتی استعمال کر رہا تھا۔ دفتری بیگ وہی پڑا تھا۔ اور آخر آخر یہ صورتحال ہو گئی  کہ لیپ ٹاپ بھی وہیں پڑا رہنے لگا۔ میں البتہ گھر آجایا کرتا تھا۔  ایک دن ایک عمر اور عہدے میں بڑے ساتھی نے روک لیا۔ یہ اٹاری تمہاری ہے۔ اٹاری! ہم نے استفہامیہ انداز میں پوچھا۔ ہاں یہ۔ اس نے میرے  شاندار لیپ ٹاپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس نے اپنے گستاخ جملوں سے اس بےجان چیز کو جو ٹھیس پہنچائی تھی  مجھے سر تا پا سلگا گئی تھی۔ درجہ حرارت بلند ہونے پر ایک لمحہ مجھے خود پر بھی لیپ ٹاپ ہونے کا گمان گزرا۔ 
یہ ایک لیپ ٹاپ ہے۔ اٹاری نہیں۔ ہم نے غصے سے کہا۔ 
اوہ اچھا! معذرت۔ میں سمجھا لیپ ٹاپ ایسے ہوتے ہیں۔ اس نے اپنے والے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
نیا نو دن۔ پرانا سو دن۔ ہم نے استہزائیہ انداز میں کہا۔ 
 دن اور سال کا فرق سمجھتے ہو۔ اس نے  بھی  زہریلی مسکراہٹ سے وار کیا۔ 
ہم بیٹھ گئے۔ بالکل اس امید وار کی طرح جس کو اپنی ہار کا یقین ہوجائے تو جیتنے والے کے حق میں نتائج سے پہلے ہی بیٹھ جاتا ہے۔
 خیر آپ کو کیا مسئلہ ہے اس سے۔ ہم نے  اس کے سوال کی وجہ جاننے کی کوشش کرنے کی کوشش کی۔
یہ یہاں کیوں چھوڑ جاتے ہو؟ اس نے پوچھا۔
مرضی ہماری۔ ہم نے ابرو اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
تم اس کو یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ یہ کمپنی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس کو تمہیں ساتھ گھر لے جانا ہوگا  اور اگلے دن لانا بھی ہوگا کہ  یہی اصول برائے شودران ہے۔  اس نے ہمیں سمجھاتے ہوئے کہا۔
اس کی اس بات سے  بےاختیار ہمیں آغا گل کے افسانے کی ایک سطر یاد آگئی۔ "شاب جی! آپ بھی شودر ہیں کیا مسلمانوں کے؟" اور ایک مسکراہٹ ہمارے چہرے پر پھیل گئی۔ 
مسکرا کیوں رہے ہو۔ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
"ہم ہنس دیے ہم چپ رہے"، اب ہم اس کو کیا بتاتے، ہمارے دل پر کیا بیت گئی ہے۔ 

Saturday 12 November 2016

قصہ پہلے لیپ ٹاپ کا

6 comments
قصہ پہلے لیپ ٹاپ کا
باب از عینیت پسندی

حالات کی ضرورت  اور کمپنی کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ راوی کو ایک عدد لیپ ٹاپ سے نواز دینا چاہیے۔ یہ لیپ ٹاپ لے کر بھاگے گا نہیں۔ پورے گاؤں میں اعلان کروا دیا کہ کمپنی نے ہم پر اعتماد کی انتہا کر دی ہے۔ اب مجھے باقاعدہ ایک لیپ ٹاپ میسر ہوگا۔ ایک دو احباب نے حیرت سے پوچھا کہ تمہارے پاس تو ذاتی بھی ہے۔  میں نے تفاخر سے  کہا،  "اب دفتری بھی ہوگا"۔ چند ایک نے  مایوس کرنے یا نیچا دکھانے کی  غرض سے کہا کہ ان کے پاس تو پتا نہیں کتنے سالوں سے دفتری لیپ ٹاپ ہے۔ لیکن میں ایسی بے دست و پا کو کب خاطر میں لانے والا تھا۔ خدا خدا کر کے وہ دن آیا۔  مجھے لیپ ٹاپ دے دیا گیا۔ ایک بد ہئیت  سا بیگ  میری میز تک لایا گیا۔ ایسا ایک بیگ ہمارے گھر میں بھی تھا۔ امی اس میں گھر بھر کے  جوتے رکھا کرتی تھیں  مٹی سے بچے رہیں گے۔ 
"یہ کیا ہے؟" مین نے حیرت سے استفسار کیا۔
"لیپ ٹاپ ہے۔ اس کی بیٹری بہت اچھی ہے۔" لانے والے نے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔ 
لیپ ٹاپ دیکھا۔ یہ والا ماڈل میں نے زندگی میں پہلی بار ہی دیکھا تھا۔ کتنا پرانا ہے۔ میں نے دوبارہ سوال کیا۔ "زیادہ سے زیادہ سات سال۔" جواب ملا۔
"ہمم۔۔۔۔ سات سو بھی ہوتے تو ہم نے کیا کر لینا تھا۔ " میں نے  ایک گہرا سانس لیا۔
چلایا۔ تو واقعی چلتا تھا۔ کچھ دن استعمال کرنے پر پتا چلا کہ واقعی صرف بیٹری بہتر ہے۔ کبھی سکرین چلتے چلتے بند ہوجاتی  تو کبھی لیپ ٹاپ خود بخود ری سٹارٹ ہو جاتا۔ کی بورڈ کے ایک دو بٹن چھوڑ کر باقی سارے کام کرتے تھے۔  کچھ زور سے چلتے۔ اور کچھ نرمی کی زبان سمجھتے تھے۔ مجموعی طور پر ایک بہترین چیز  تھی۔ میں  اس کو آن کر کے سامنے تو رکھ لیتا۔ لیکن کام اپنے دوسرے ڈیسک ٹاپ  کمپیوٹر پر ہی کیا کرتا تھا۔ وہ لیپ ٹاپ عجیب و غریب آوازیں بھی نکالا کرتا تھا۔ اٹھانے پر برا مناتا  اور کھڑ کھڑ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتا۔  سوجاتا تو خراٹے لیتا۔ یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ ہر بار  سونے کے بعد وہ اٹھ بھی جائے یعنی گہری نیند لینے کا عادی تھا۔ اکثر سکرین  تاریک ہی رہتی تھی۔ ایسی صورتوں میں پاور کا بٹن دبا کر ایک ری سٹارٹ دینا پڑتا۔ رفتہ رفتہ میرا  ہاتھ سیدھا ہو گیا۔ اب میں  تاریک سکرین پر ہی ری سٹارٹ کی کمانڈ دے دیا کرتا تھا۔
ایک دن اس کے اندر سے کچھ عجیب و غریب آوازیں سنائی دیں۔ ایسی آوازیں لڑائی جھگڑے والے گھروں سے عموماً آیا کرتی ہیں۔ لیکن کسی کمپیوٹر سے ایسی آوازیں سننے کا میرا  پہلا ہی تجربہ تھا۔  اس کے بعد سب کچھ خاموش ہوگیا۔ بہت ہاتھ پاؤں مارے۔ آوازیں دیں۔ لیکن لگتا تھا اس نے اس فانی دنیا سے فنا کا راستہ اختیار کر لیا تھا۔ متعلقہ شعبے تک لے گیا۔ بہت دیر تک آئی سی یو میں رہا۔ پھر ایک نے آپریشن تھیٹر سے باہر آ کر افسردہ سی نظر مجھ پر ڈالی۔ میں نے اس کے چہرے پر لکھی مایوسی پڑھ لی تھی۔ کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہ تھی۔ میرے تمام سوالوں کا جواب اس کے چہرے پر تحریر تھا۔ دل بجھ گیا۔ اس لیپ ٹاپ سے مجھے انسیت سی ہو چلی تھی۔ 
"اس میں موجود ڈیٹا کا کیا ہوگا؟" میں نے  سوچوں کا رخ بدلنے کو بجھے دل سے سوال کیا۔
" وہ آپ کو نئے والے میں منتقل کر دیا جائے گا۔ " ایک سرد جواب ملا۔
 یہی ہوتا ہے۔ یہی دنیا کا اصول ہے۔ پرانی چیزیں پھینک دی جاتی ہیں۔ اور ان کی جگہ نئی لے لیتی ہیں۔ میں دنیا کی بےثباتی پر غور کرنے لگا۔ قبل اس کے میں فلسفی ہوجاتا۔ اور قنوطیت کی ساری حدیں پھلانگ جاتا۔ متعلقہ شعبے کے فرد نے میرے خیالات کا تسلسل توڑ دیا۔ "یہی چاہتے تھے نا تم! ایک نیا لیپ ٹاپ مل جائے۔ اس سے جان چھوٹ جائے۔ سمجھو جان چھوٹ گئی۔ اب جاؤ اور نئے کے لئے درخواست دے دو۔"  میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس شعبے سے نکل آیا۔ بوجھل دل سے یہ خبر اپنے افسران کو سنائی۔ اور دل کو تسلیاں دیتا ہوا واپس چلا آیا۔ 

Thursday 13 October 2016

ملک (ایک نابغہ شخصیت) پنجہ۔۔۔​ (قسط چہارم)

6 comments
پنجہ
پنجہ لڑانا ملک صاحب کا انوکھا شوق تھا۔ گاؤں کی زندگی میں ہم نے لوگوں کو کتے، مرغے اور پنجے لڑاتے دیکھا تھا لیکن وہ شہری بابو جو کتے اور مرغے پالنے اور پھر ان کو لڑانے کے شغل کو بار گردانتے ہیں، اپنی اس جبلت کی تسکین کے لیے پنجہ لڑا لیا کرتے تھے۔ ایسا نہیں کہ پنجہ لڑانے کے متعلق ہماری معلومات کم تھیں۔ بلکہ ہمارے ذہن میں پنجہ لڑانے کے تذکرے پر ایک مضبوط ہاتھ اور اس کے ساتھ جڑی ایک مضبوط کلائی رکھنے والا جوان آتا تھا۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ملک صاحب ان دونوں سے محروم تھے۔ آپ کا استخوانی ہاتھ ایسا تھا کہ لوگ ہاتھ ملاتے وقت احتیاط کرتے تھے کہ ہاتھ ہی ہاتھ میں نہ رہ جائے۔ کلائی کیا تھی ایک ڈیڑھ انچ کی باریک ہڈی پرمضبوطی سے کھال منڈھی تھی۔ ملک صاحب کا یہ فرمانا تھا کہ بھئی ڈیل ڈول کچھ نہیں ہوتا۔ یہ دل ہوتا ہے جس سے پنجہ لڑایا جاتا ہے۔ اور قریب سبھی مقابلوں کا انجام بھی یہی ہوتا تھا۔ ملک صاحب کا دل جیت جاتا اور پنجہ ہار جاتا تھا۔ کچھ بےتکلف احباب ایسے موقعوں پر ملک صاحب کو پنجے لڑانے کا چھوڑ کر چونچیں لڑانے کے مشورے بھی دیا کرتے تھے۔ ملک صاحب کی اعلیٰ ظرفی تھی وہ کبھی ان باتوں پر توجہ نہ دیتے اور ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے تھے۔

(جاری ہے۔)

Monday 3 October 2016

بیوقوف

5 comments
اکثر ایک فقرہ سننے کو ملتا ہے۔ "ہمارے دادا /نانا بہت بیوقوف آدمی تھے۔ ان کی اتنی جائیداد تھی۔ لیکن انہوں نے شہر  سے ساری بیچ دی۔ اور صرف گاؤں والی رکھ لی۔" یا پھر  "اس وقت ان کو شہر میں اتنی جائیداد مل رہی تھی۔ لیکن انہوں نے گاؤں چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ اس وقت آجاتے تو ہماری کروڑوں کی جائیداد ہوتی۔" اگراس وقت وہ دور اندیشی اور تھوڑی کاروبار کی فہم رکھتے۔ زمانے کے ساتھ بدلتے تو آج حالات کچھ اور ہوتے۔
یہ رونا ہے شور کو چھوڑ کر سکون کو ترجیح دینے کا۔ اگر یہ بیوقوفی ہے تو عقلمندی کیا ہے؟  ہمارے پاس بچا ہی کیا ہے! مروت، مہمان نوازی، رواداری، عمومی معاملات میں برداشت اور وسیع القلبی جیسی چیزیں  تو پہلے ہی سے جاں بلب ہیں۔ لے دے کر ایک بزرگوں کے بارے میں زبان کھولتے وقت تھوڑی شرم و حیا بچی تھی۔ وہ بھی گئی۔ کسی کا داد ""معاملہ فہمی و دور اندیشی" سے عاری  تھا تو کسی کا نانا۔کمال ہے بھئی۔ وہ بزرگ جو سکون کے قائل تھے۔ وہ جو تمہاری طرح کاروباری ذہنیت کے مالک نہ تھے۔ جن کے نزدیک سکون قلب و ضروریات زندگی کا مطلب اپنے ارد گرد کاٹھ کباڑ جمع کرنا نہ تھا۔ بلکہ رشتے کے خلوص اور محبتوں سے حظ اٹھانا تھا۔ وہ بیوقوف ٹھہرے۔ اور تم ٹکے ٹکے کی خاطر  بکنے والے۔ آہ! لیکن کیا کریں۔ سچے تو تم بھی ہو۔ تمہارا دین دھرم ہی پیسہ ہے جس کو بزرگوں نے لات مار دی تھی۔ پھر جس کے دین دھرم پر لات ماری جائے۔ وہ واویلا نہ کرے تو کیا کرے۔ واقعی! ان کو اتنا دور اندیش تو ہونا ہی چاہیے تھا کہ دنیا میں جانے سے قبل ان کے لیے راحت جاں کا سبب کر جاتے جن کے دن رات اسی فکر میں غلطاں  گزرتے ہیں کہ سیڑھی پر قدم رکھے بغیر کیسے منزل تک پہنچا جائے۔ ترس آتا ہے تمہاری ذہانت کو دیکھ کر اور اسلاف کی بیوقوفی کو دیکھ کر۔ وہ بھی اپنی قبروں میں حیرت سے تکتے ہوں گے۔ یہ تربیت تو ہماری نہ تھی۔ یہ لہجہ تو ہماری شان نہ تھا۔ کیا خبر اپنی قبروں میں پڑے یہ سب "دانشمندی" دیکھ کر ایک بار پھر سے مر گئے ہوں۔ 

Thursday 25 August 2016

ملک (ایک نابغہ شخصیت) جم۔۔۔۔ ورزش گاہ۔۔۔​ (قسط سوئم: حصہ دوم)

2 comments
جم۔۔۔۔ ورزش گاہ۔۔۔
حصہ دوم
ہم جب بھی ملک صاحب کے ساتھ کہیں جاتے تو اکثر بہت چوکنا  ہو کر بیٹھا کرتے تھے۔ کیوں کہ ملک صاحب دائیں کا اشارہ کرکے ہمیشہ بائیں کا لفظ استعمال کرتے۔ جنوب کا کہہ کر شمال کی طرف مڑ جاتے۔  اللہ تعالی کی طرف سے جو جی پی ایس  ڈیوائس لگی ہوئی آئی تھی وہ شاید ہم سے ملاقات سے قبل کام چھوڑ چکی تھی۔ لہذا جب ملک صاحب دائیں اشارہ کر کے کہتے اس طرف  تو تمام رمز شناس بائیں جانب ہی دیکھا کرتے تھے۔ ہم نے ان کو واللہ کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا ورنہ یہاں ہم لازما بتاتے کہ ملک صاحب کا مغرب کس طرف بنتا ہے۔ ایک مرتبہ ہم نے یوں ہی ازراہ تفنن پوچھ لیا۔ ملک صاحب آج جمعہ کس طرف پڑھا ہے تو برجستہ فرمایا کہ جس طرف سب نے منہ کر کے پڑھا ہے۔ ایک دن ایک مشہور سڑ ک کے اوپر کھڑے ہو کر ہم سے ایک گھنٹہ بحث کی کہ یہ وہ والی سڑک نہیں ہے جو کہ ہے۔ بلکہ یہ وہ والی سڑک ہے جو یہ نہیں ہے۔ آخر جب ہم نے تھک کر یہ کہا کہ جو سڑک کنارے بورڈ ہے اس پر لکھا نام پڑھ لیں تو تنک کر بولے کہ ایسا بورڈ تو اس سڑک کے دوسرے سرے پر بھی لگا ہے اور وہاں پر بھی یہی نام لکھا ہے۔ ہم نے ہار مان لی۔ اس دلیل کے بعد تو ہمارے پاس منطقی استدلال کی بھی کوئی وجہ نہ رہی تھی۔ خیر تو میں بات کر رہا تھا کہ ہم ملک صاحب کی کار میں بیٹھے دفتر سے نکلے۔ ابھی کچھ فرلانگ ہی کار چلی ہوگی کہ راستے میں ایک مارکیٹ آگئی۔ راستے میں کوئی بھی مارکیٹ آجائے تو ملک صاحب کار روک لیا کرتے تھے۔ اتر کر اِدھر  اُدھر دیکھتے اور پھر آگے جایا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوران ڈرائیونگ اِدھر اُدھر دیکھنا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن آج ملک صاحب نے نظریں سینکنے کی بجائے سامنے پھلوں کی دکان کا رخ کیا اور دو سیب خرید ڈالے۔ اس کے بعد گاڑی گھر کی طرف موڑ لی۔ گھر جا کر لباس تبدیل کیا۔ سیب  کا ملک شیک پیا۔ اس کے بعد کہا۔ اٹھو بھئی۔ جم جانے کا وقت ہو گیا ہے۔ ہم جو سوچ رہے تھے کہ آج شاید ملک صاحب ٹال مٹول کے چکر میں ہیں۔ خوش ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن یہ خوشی بھی زیادہ دیر نہ رہی جب ملک صاحب نے جم کے سامنے پہنچ کر اندر جانے کی بجائے ساتھ چائے سگریٹ کے سٹال  کا رخ کر لیا۔ وہاں سے ایک بوتل منرل واٹر خریدی۔ ہمارے استفسار پر انہوں نے وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میاں دوران ورزش ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لیے میں پانی کی بوتل ہمیشہ ساتھ رکھتا ہوں۔ اس سے ہمیں اتنا اندازہ تو بہرحال ہوگیا کہ ملک صاحب کم از کم اتنی ہل جل تو کر ہی لیتے ہیں کہ ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ ان کو لاحق ہے۔
جم کے اندر داخل ہونے کا راستہ ایسا تھا جیسے غلطی سے بن گیا ہو۔ دو دکانوں کے بیچ ایک نہ نظر آنے والا راستہ نیچے کی طرف جا رہا تھا۔ اور اس راستے کی لمبائی چوڑائی کو دیکھ کر ہمیں ان جاسوسی فلموں کے مناظر یاد آگئے جس میں اس طرح کی تنگ و تاریک گلیوں میں جرم کے بازار گرم ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ ملک صاحب کی "شر""آفت" پر ہمیں کوئی شبہ نہ تھا لہذا پریشان ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ دروازے سے گزرتے ہی خود کو ایک وسیع گودام نما ہال کے اندر کھڑے پایا جس میں ہر طرف جسمانی کسرت کی مشینیں  اور اوزار موجود تھے۔ ملک صاحب نے جاتے ہی  لگا تار دو چھلانگیں اس طرح ماریں کہ ہمیں جنگل کا وہ بادشاہ یاد آگیا جوکہا کرتا تھا۔ "کرنا میں نے کیا ہے۔ بس تم میری آنی جانی دیکھو"۔  اس کے بعد "PushUps"  لگانے شروع کر دیے۔ ملک صاحب کے پش اپس نکالنے کا انداز بہت حد تک تیراکی سے ملتا تھا۔ جس طرح ایک ماہر پیراک پیراکی کرتے ہوئے  بازو سے پانی ہٹا کر سر نیچے لے جاتا ہے۔ اور پھر اسی ترتیب سے واپس اوپر آ کر دوبارہ یہی عمل دہراتا ہے۔ ملک صاحب کے پش اپس نکالنے کا انداز بھی تقریبا سو نہیں تو ننانوے فیصد ایسا ہی تھا۔  البتہ اس میں فرق صرف یہ تھا کہ ملک صاحب کا صرف سر ہی نیچے آتا جاتا تھ جبکہ بقیہ جسم وہیں  کا وہیں جما رہتا تھا۔ اس کے بعد ملک صاحب نے  ایک ایک کلو کے باٹ اٹھا لیے۔ اور  بازوؤں کی مچھلیاں" پھڑکانے" لگے۔ اتنا  وزن اٹھاتے دیکھ کر تو سمندر کی مچھلیاں پھڑک جاتیں۔ "بائی سپ" کی خوب خبر لینے کے بعد ملک صاحب نے کاندھوں اور سینے کی  ورزش کی۔ کاندھوں والی ورزش تو کچھ ایسی تھی کہ جیسے پہلوان  اکھاڑے میں اترنے سے پہلے  ڈنڈ پیلتا ہے۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس کے ڈنڈ  پیلنے کا درمیانی وقفہ ہموار ہوتا  جبکہ  ملک صاحب کے ڈنڈ پیلنے کے درمیانی وقفے کا اگر گراف بنایا جاتا تو شاید بلند فشار خون رکھنے والے مریض کی ای سی جی جیسا بنتا۔
اس بےتحاشہ ورزش کے دوران انہوں نے آدھا لیٹر پانی کی بوتل بھی خالی کر دی۔ جم سے فارغ ہونے کے بعد ملک صاحب نے ہمیں بتایا کہ وہ روز اسی طرح کی ورزش کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم نے پوچھا کہ اگر ہم بھی اسی طرح ورزش کریں تو کیا ہمارا جسم بھی اتنا ہی دبلا اور پلپلا ہو جائے گا تو مسکرا دیے۔ ہم نے جب اپنا وار خالی جاتے دیکھا تو کہا کہ کل ہم نے اپنے دو دوستوں کو جب آپ کی جسمانی کسرتوں کے بارے میں بتایا تو وہ یقین نہیں کر رہے تھے۔ اس پر ملک صاحب  نے  استعجابیہ    انداز میں پوچھا۔ اچھا کیا  وہ کیا کہہ رہے تھے؟ ملک صاحب کے اس انداز معصومیت پر ہمیں پورا واقعہ ان کے گوش گزار کرنا پڑا۔
ہوا یوں کہ کل ہم دو دوستوں کے ساتھ تھے۔ باتوں باتوں میں کول مین اور آرنلڈ کا ذکر آگیا۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ باڈی بلڈر حضرات کا ذکر ہو اور ملک صاحب کا تذکرہ رہ جائے۔ سو ہم نے فوراً  کہا کہ باڈی بلڈنگ تو اپنے ملک صاحب بھی کرتے ہیں۔ اس پر بجائے وہ گستاخ یہ پوچھتے کہ کب سے کر رہے ہیں؟ اچھا! ہمیں تو پہلے ہی یقین تھا کہ ملک روز ورزش کرتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ گفتگو کچھ یوں آگے بڑھی۔
پہلا: "بکواس نہ کر! مذاق کر رہا ہے نا؟"
دوسرا: "واقعی؟  انہیں  دیکھ کر لگتا نہیں کبھی جم کے باہر سے بھی گزرے ہیں۔"
پہلا: "یہ بس ان کو بےعزت کرنے کے لیے ایسی ہانک رہا ہے۔"
دوسرا: "مذاق برطرف۔ تمہاری  کیا دشمنی ہے جو ان کے بارے میں ایسی افواہیں اڑا رہے ہو؟"
راقم: "بھئی! میں کیوں بےپر کی اڑاؤں گا۔ یہ بات درست ہے کہ ملک صاحب گزشتہ آٹھ برس سے کسرت کر رہے ہیں۔"
پہلا: ہاتھ جھٹک کر۔ "ابے چل! ہمیں الو سمجھا ہے۔ یا ہم نے کبھی آٹھ برس تک لگاتار باڈی بلڈنگ کرنے والے دیکھے نہیں ہیں۔"
دوسرا: "یار! دیکھ اگر تو جھوٹ بول رہا ہے تو میں سیدھا جا کر ملک صاحب کو کہہ دوں گا کہ آپ کے بارے میں اناپ شناپ بول رہا تھا۔"
راقم: "حد ہوگئی یار! تم لوگ اب خود ہی ملک سے پوچھ لینا۔"
ابھی ہم  مکالمہ سنا رہے تھے  کہ ملک صاحب نے ہاتھ اٹھا کر ہمیں بات کرنے سے روک دیا۔ فرمانے لگے۔ بس ! اب ان سے پنجہ لڑانا ہی پڑے گا۔ یہ لوگ ایسے نہیں مانیں گے۔

(جاری ہے۔)

Saturday 20 August 2016

نوحہ

3 comments
بنسری توڑ دی گڈریے نے
اور چپکے سے شہر جا کر
کارخانے میں نوکری کر لی

کچھ احباب نے مجھ سے پوچھا کہ اسلم کولسری نے یہاں ایسی کیا بات کی ہے کہ آپ نے اس کو اپنا صفحے کی تفصیلات میں رکھا ہوا ہے۔ ایک آدھے سے بڑھ  کر بات جب چند لوگوں نے کی تو میں نے سوچا کہ اپنے تئیں اس کی تھوڑی سی وضاحت کر دی جائے۔ یوں تو خاکم بدہن کسی قابل نہیں اور پھر" المعانی فی البطن الشاعر" کہہ کر بھی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن جو میں سمجھتا ہوں۔ اس کو کہنے میں کیا ہرج ہے، اساتذہ موجود ہیں۔ کہیں کوئی کمی کوتاہی ہوئی تو وہ نشاندہی کر کے اور درستی فرما کر سرفراز فرمائیں گے۔

یہ جس کا عنوان نوحہ ہے۔ حقیقت میں نوحہ ہی ہے۔ یہ سادگی سے تصنع کی طرف منتقلی کا نوحہ ہے۔ آزادی سے غلامی کی طرف جانے کا نوحہ ہے۔ نخلستان چھوڑ کر سراب کے پیچھے بھاگنے کا نوحہ ہے۔ مضبوط اقدار سے فرار کا نوحہ ہے۔ الغرض ایک مکمل معاشرے کا دوسرے معاشرے میں ڈھل جانے کا نوحہ ہے۔شاعر کو بہت سہولت حاصل ہوتی ہے۔ وہ بہت کم الفاظ میں بہت زیادہ کیفیات، رشتے اور وقت بلکہ صدیوں کا سفر سمیٹ جاتا ہے۔

انسان اصل میں کسی چیز کو جب توڑتا ہے تو وہ اس وقت،  جب وہ اس کے لیے بیکار ہوجاتی ہے۔ یہ ایک عام رویہ میرے مشاہدے میں ہے کہ ہم کسی چیز کو بیکار ہونے کے بعد اس کو اکثر یوں نہیں پھینک دیتے۔ بلکہ اس کو توڑ دیتے ہیں۔ کاغذ ہے تو اس کو پھینکنے سے پہلے پھاڑ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی کسی چھڑی کو پھینکتا ہے تو اس کو بھی پھینکنے سے پہلے توڑنا نہیں بھولتا۔ بانسری جو کہ ایک روایتی ثقافت کی امین ہے۔ اس سے کئی داستانیں منسوب ہیں۔ کئی قصے جڑے ہیں۔ کتنی ہیروں کے دلوں کے تار اس کی دھن سے کبھی چھڑا کرتے تھے۔ وہ اب متروک ٹھہری ہے۔ اب اس کی سریلی دھن کہیں سننے کو نہیں ملتی۔ اب قدم بانسری کی آواز سن کر رکتےنہیں ہیں۔ اب رات کے سناٹے میں کبھی کوئی سریلی دھنیں نہیں بکھیرتا ہے۔ گڈریا  سادگی کی علامت ہے۔ قناعت کی علامت ہے۔ تصنع سے پاک ہے۔ وہ اپنے دل کی دھڑکن، اپنی باتیں سروں کی صورت ہوا میں بکھیر دیتا ہے۔ سماعتیں ان سروں سے لطف لیتی ہیں۔ جتنی سندر بات اس کے من میں ہوتی ہے۔ اتنا سندر سر اس کی بانسری سے پھوٹتا ہے۔ لے پہچاننے والے جانتے ہیں کہ خوشی اور غم کے سر سب کیسے اس بانسری سے جنم لے کر ہوا میں بکھرتے چلے جاتے تھے۔ 
اور یہی سے اس نوحے کا ذکر ہوتا ہے جو کہ اوپر بیان ہوا ہے۔ اب ان سروں کو چھوڑ دیا ہے۔ وہ بانسری جس سے دل کی دھنیں ہوا میں بکھرتی تھیں۔ جن میں ایک تال میل ہوتا تھا۔ وہ ٹوٹ گئی ہے۔ بلکہ توڑ دی گئی ہے۔ وہ گڈریا جو کہ سادگی کی علامت تھا۔ جس میں تصنع نام کو نہ تھا۔ وہ بھی "چپکے" سے اس جگہ سے ہٹ گیا ہے۔ اس کوبھی چھپنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ کس سے چھپنے کی۔ اس معاشرے کی بدلتی قدروں نے اس کو احساس دلایا ہے کہ یہ اب دنیا تیری نہیں ہے۔ اگر جینا ہے رہنا ہے تو ان دھنوں کو  مشینوں کے شور سے بدلنا ہوگا۔ اس آزادی کو ساہوکار کے پاس گروی رکھنا ہوگا۔ اب سُر کی جگہ شور سننا ہوگا۔ اب دل کی آواز مشینوں کی آواز میں کہیں دب جائے گی۔ اب ہوا اس موسقیت سے محروم ہوجائے گی۔ اور یہی تو نوحہ ہے۔ جہاں بےساختگی چھین لی جائے۔ جہاں زمانے میں کامیابی کا تناسب تصنع و بناوٹ ہوجائے۔ رشتے کمزور ہو کر قریب المرگ ہوجائیں۔ چوپالین سنسان اور اقدار بےآبرو ہوجائے۔ تو پھر ایسے میں شام کے ڈھلتے سایوں میں گڈریے اپنے ریوڑ چھوڑ کر بانسری توڑ کر کارخانوں کے شور میں نہ دب جائیں تو کیا کریں۔ پورا معاشرہ اپنی مضبوط بنیادیں چھوڑ کر ریت پر بنی عمارتوں میں منتقل ہوجائے تو اس کو نوحہ نہ کہیں تو کیا کہیں۔ 

Monday 15 August 2016

ملک (ایک نابغہ شخصیت) جم۔۔۔۔ ورزش گاہ۔۔۔​ (قسط سوئم: حصہ اول)

7 comments
جم۔۔۔۔ ورزش گاہ۔۔۔
حصہ اوّل​

رفتہ رفتہ ہم ملک صاحب سے اورملک صاحب ہم پر کھلتے چلے گئے۔ ہم ان کی مجلس میں بیٹھتے لیکن زبان نہ کھولتے، کیوں کہ ہمارے پیش نظر علم حاصل کرنا ہوتا تھا۔ ملک صاحب اپنی ترنگ میں اس دن کے کھیل پر روشنی ڈالا کرتے تھے۔ اب قبل اس کے کوئی گستاخ پوچھے کہ "اس دن کے کھیل" سے کیا مراد ہے؟ تو ہم خود ہی بتلائے دیتے ہیں کہ ملک صاحب ہمہ کھیل قسم کے کھلاڑی تھے۔ لہذا جو کھیل ایک بار کھیلتے کئی دن تک اس کی دوبارہ باری نہ آتی۔ لیکن سبحان اللہ ذرا دسترس ملاحظہ کیجیے کہ مہارت میں کوئی فرق نہ آتا۔ سوائے کسرت کے جو باقاعدگی سے فرمایا کرتے تھے۔ ان کا خود فرمانا تھا کہ باڈی بلڈنگ میری سرشت میں شامل ہے۔ میں چاہ کر بھی اس کو چھوڑ نہیں سکتا۔ یوں تو ہم زندگی میں بہت کم ہی گستاخی پر مائل ہوئے ہیں، اور اگر کبھی ہوئے بھی ہیں تو کوشش ہمیشہ یہی کہ ہے کہ جوان کو پیر کا استاد نہ کیا جائے۔ بڑے بوڑھے ہمیں باادب بانصیب کہہ کر بہت سے کاموں سے روک گئے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس دن ہماری زبان لڑکھڑا ہی گئی۔ وجہ اس کی یہ نہ تھی کہ ہمیں کسی کے باڈی بلڈر ہونے پر اعتراض تھا۔ بلکہ ملک صاحب کا ڈیل ڈول ہمارے لیے حیرانی کا باعث تھا۔ کیوں کہ ملک صاحب ایک اوسط مقامی آدمی جتنی طوالت رکھتے تھے۔ جسم چھریرا، بازو اتنے سیدھے اور دبلے تھے کہ کسی بھی حسینہ کو ان پر رشک ہو سکتا تھا۔ چھاتی اتنی تھی کہ صاف پتا چل جاتا تھا کہ چھاتی ہے۔ لیکن کمر کے بارے میں وہی زبان زد عام بات کہ سنتے ہیں کہ تمہاری بھی کمر ہے کہاں کدھر ہے۔ 
" کیا آپ واقعی باڈی بلڈنگ کرتے ہیں؟ "
"کرتا کیا مطلب؟ بھائی میرا جم جائے بنا گزاراہ نہیں۔" ملک صاحب نے ہم کو یوں گھورا جیسے ہمارے سر پر سینگ اگ آئے ہوں۔
"نہیں !جم جانا اور بات ہے اور ورزش کرنا دوسری بات"۔ ہم نے اپنی بے تکی بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
ملک صاحب کچھ دیر تو ہم کو گھورتے رہے کہ شاید ہم ان سے یہ تمام باتیں ازراہِ تفنن کر رہے ہیں۔ اور ابھی ہم طالبان کی طرح اعلان کر دیں کہ "میں مذاق کر رہا تھا۔ وگرنہ کول مین کے بعد دنیا میں کوئی باڈی بلڈر آیا ہے تو وہ ملک صاحب ہیں۔" لیکن جب ہم نے اپنا انداز نہ بدلا اور سوالیہ نگاہوں سے ملک صاحب کو جوابی گھورنا جاری رکھا۔ تو انہوں نے ایک لمبا سانس کھینچا۔ ایسا سانس وہ عموماً تب کھینچا کرتے تھے جب انہوں نے اپنی ذات کے ان رازوں سے پردہ اٹھانا ہوتا تھا جو عام طور پر لوگوں کو معلوم ہی ہوتے تھے۔
"میں گزشتہ آٹھ برس سے باڈی بلڈنگ کر رہا ہوں۔ جم میں ہر آدمی مجھے دیکھ کر رشک کرتا ہے۔ خاص طور پر جب میں بائی سپ اور سینے کی ورزش کرتا ہوں تو کچھ لوگوں کی آنکھیں تو پھٹنے والی ہوجاتی ہیں۔ ایک دن بائی سپ ٹرائی سپ اور سینہ کی ورزش کرتا ہوں۔ اگلے دن پیٹ اور کاندھوں کی اور اگلے دن۔۔۔۔۔ " ملک صاحب نے فخریہ انداز میں ہماری معلومات میں شدید قسم کا اضافہ کرتے ہوئے ہمیں مکمل شیڈول سے بھی آگاہی دی۔
ہم نے حیرت سے ان کے بائی سپ کو دیکھا جو سائز میں کسی حسینہ کے بائی سپ جتنا تھا، اور پھر ان کے سینے کو دیکھا جو کسی بھی حسینہ جیسا نہ تھا۔ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا۔ مگر پھر بند کر لیا۔​
تمہیں یقین نہیں آرہا۔ چلو آج میرے ساتھ جم چلنا۔ تمہیں اپنے کمالات دکھائیں گے۔ اور شام کو ہم ملک صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھے جم کی طرف روانہ ہوئے۔

(جاری ہے)

Tuesday 19 July 2016

افسانچہ: تیری صبح کہہ رہی ہے۔۔۔۔

9 comments
تمام دوست خوش گپیوں میں مصروف تھے، لیکن وہ خاموش بت بنا بیٹھا خالی نظروں سے سب کو دیکھ رہا تھا۔ پیشانی پر سلوٹیں اور آنکھوں کے گرد حلقے بہت گہرے نظر آرہے تھے۔بار بار گردن کو دائیں بائیں ہلاتا جیسے درد کی وجہ سے پٹھوں کو آرام دینے کی کوشش کر رہا ہو۔ آنکھوں کی سرخی سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ گزشتہ کئی دن سے سو نہیں پایا۔  کافی دیر گزرنے کے بعد بھی جب برخلافِ طبیعت اس کی طرف سے کوئی جملہ کسی بھی موضوع پر سننے کو نہ ملا تو احباب اپنی گفتگو ترک کر کے اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ پہلے نے ایک گہری نگاہ اس کے سراپے پر ڈال کر پوچھا۔
یہ تمہاری آنکھوں کے گرد حلقے اتنے گہرے کیوں ہیں؟ کس کا غم سوہان روح بنا ہوا ہے؟ دوسرے نے سوال اٹھایا۔
بولو بھی!  کیا زبان گروی رکھ دی ہے؟ تیسرے نے جملہ چست کیا۔
خدا کے واسطے! اب یہ نہ کہہ دینا کہ تمہیں اس عمر کسی مٹیار سے عشق ہوگیا ہے.جبکہ تمہارا ایک پاؤں قبر میں اور دوسرا کیلے کے چھلکے پر ہے۔ ایک نے جھلا کر کہا۔
پھر سب چپ ہوگئے۔ اس نے سب پر ایک گہری نگاہ ڈالی۔ اور پھر آہستہ سے بولا۔
میں آجکل نائٹ شفٹ بھی کر رہا ہوں۔ 

نوٹ: پتا نہیں اس کو افسانچہ بھی کہنا چاہیے کہ نہیں۔۔۔ خیر جو بھی ہے۔ 

Thursday 7 July 2016

ایک عادت

7 comments
کہتے سنتے آئے ہیں کہ پرانی عادتیں بھی پاؤں کی زنجیر ہوتی ہیں۔ انسان ان سے جان چھڑانے کی جتنی بھی کوشش کرے، صورت حال "چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی" والی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریٹائر بزرگ  گھر کے اندر اور بےروزگار نوجوان گھر کے  باہر ہر کسی کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ خیر ہمارا  بزرگ افراد اور بےروزگار نوجوان، دونوں سے بیک وقت محاذ آرائی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بلکہ شام کی مصروفیات پر گفتگو کا ارادہ ہے جن کے بارے میں ہم ہمیشہ سے ایک احساس کمتری کا شکار رہے ہیں۔ یہ احساس کمتری اور بھی بڑھ جاتا جب ہم لوگوں کو نصف نصف شب سردیوں کے چاند کی مانند آوارہ پھرتے دیکھتے۔اب  اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ گرمیوں کا چاند کیا آوارہ نہیں ہوتا۔ تو بھئی! ایک تو سردیوں کا چاند ذرا شاعرانہ سی اصطلاح ہے۔ اور بلاوجہ ایک رومانویت کا احساس ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف گرمیوں کا چاند ہم چولستانیوں کو چولستان کے گرمی یاد دلاتا ہے۔ اور جو گرمی وہاں پڑتی ہے اس میں تو چاند کی مت ماری گئی ہوتی ہے۔ رومانویت کا پہلو کیا خاک نکلے گا۔ بہرحال ہمیں  ماں باپ نے سرکس کے شیر کی طرح ایسا سدھایا کہ جس عمر میں ہمارے ہم عمر شب خون مارنے کے منصوبے بنایا کرتے تھے ہم اپنے بستر میں لیٹے خوداحتسابی جیسے قبل مسیح کے بیکار شغل سے دل بہلایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے شام کی بجائے صبح کی آوارہ گردی کو اپنا شعار بنایا۔ یہ الگ بات ہے کہ صبح  وقت ہمارا سامنا کبھی بھی کسی حسین و مہ جبیں سے نہ ہوا۔ اور اگر کبھی کوئی نظر آئی بھی ہوگی تو یقینی طور پر ایسی ہوگی کہ ہم کو صبح کا منظر ہی زیادہ بھلا معلوم ہوا ہوگا۔  یوں بھی بقول شفیق الرحمٰن عشق اتارنے کا مجرب نسخہ یہ ہے کہ لڑکی صبح کو دکھائی جائے۔  ہماری  خود ساختہ نیکی اور شرافت کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی  ہو سکتی ہے۔ یہ وجہ  ہمیں خود ابھی ابھی یہ  سطور  لکھتے ہوئے معلوم ہوئی ہے۔
قصہ مختصر بچپن میں   گھر سے زیادہ دور تک جانےکی اجازت نہیں ہوا کرتی تھی۔ مغرب کے بعد ماں کی بڑی سخت تاکید ہوا کرتی تھی کہ اگر باہر نکلنا بھی ہے تو گھر سے دور نہیں جانا۔ چھوٹے ہوتے ہم اس کو ماں کا پیار سمجھتے تھے۔ پھر پتا چلا کہ ماں  نفسیات داں ہے۔ اس  کو ڈر ہے مغرب کے بعد لوگ ہمیں1 دیکھ کر ڈر نہ جائیں سو احتیاطً اپنے پاس رہنے کا کہا کرتی تھی مبادا  لوگوں کی اس طرح کی باتوں سے بچے کی نفسیات پر برا اثر نہ پڑے۔صبح کو آج تک ہم سے کوئی نہیں ڈرا۔ یہ ہمارا ذاتی تجربہ ہے۔
  لیکن آج جب ہم مدتوں گھر کا رخ نہیں کرتے۔ تو کبھی گلی کوچوں سے گزرتے کسی دروازے  سے جھانکتی ماں کو دیکھتے ہیں۔ جو گلی میں کھیلتے اپنے بچے کو کہہ رہی ہوتی ہے کہ "مغرب ہوگئی۔ اب اندر آجاؤ۔" توماں کے بعد ہمارا خیال چوہدری کی طرف جاتا ہے۔ چوہدری بھی  آج بھی دن چڑھے دس بجے سے پہلے  اور غروب آفتاب کے بعد گھر سے باہر  نہیں   نکلتا۔ اگر کبھی دوستوں کے اصرار پر گھر سے نکلنا پڑ ہی جائے تو اپنے گھر کے سامنے بنے پارک سے آگے نہیں جاتا۔ہم چونکہ اپنی اس کمی کا علی الاعلان اعتراف کر چکے تھے اور تجدید بھی کرتے رہتے ہیں سو احباب نے ہمیں ہماری اس کمی سمیت قبول کر لیا ہے۔ بلکہ ہماری  اس خامی میں بہتری لانے کی  کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف   چوہدری صاحب اس بات کو ماننے سے بھی انکاری تھے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ دو لوگو ں کا آپ کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ایک وہ جو نہر کے دوسرے کنارے کھڑا ہو کر آپ کو گالی دے دے۔ دوسرا وہ جو منہ پر مکر جائے۔ چانچہ جب  بارہا بار  ثبوت فراہم کرنے کے بعد بھی چوہدری  کا کوا سفید ہی رہا تو احباب نے الجھنا چھوڑ دیا۔ ایک دن کچھ دفتری مصروفیات کے سبب تاخیر ہوگئی۔ واپسی پر  عشاء  کے قریب   ہم  چوہدری کے گھر کے باہر سے گزرے۔ لیکن انہی عادات کے سبب ان کے آرام میں مخل ہونا مناسب نہ سمجھا۔ اگلے دن باتوں باتوں میں چوہدری کو بتایاکہ کل اس طرح تمہارے گھر کے پاس سے گزرے تو چوہدری نے فوراً کہا۔ عجیب آدمی ہو تم۔ آجاتے۔ گھر کے باہر بیٹھ کر خوب گپیں مارتے۔ ہم دل ہی دل میں اپنے  گزشتہ شب کے  فیصلے کو خوب داد دی۔   رمضان میں افطاری پر احباب بلا لیں تو اس کے گھر کے گرد پانچ سو میٹر کے دائر میں ہوٹل  ہو تو ٹھیک ورنہ کوئی حیلہ بہانا کر کے ٹرخا دیا کرتا۔ اب اگر ہم یہ بات کہیں کہ جیسی شکل ہماری بچپن میں تھی ویسی چوہدری کی اب  ہے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ اس پر کبھی کوئی مولوی جیسا مزاج شناس یہ کہہ دیتا کہ اس کو ماں نہیں بھابھی کی طرف سے اجازت نہیں ہے تو چوہدری یوں شرما جاتا تھا جیسے کسی کنواری لڑکی کو اس کی سہیلیاں سہاگ کا جوڑا دکھا کر چھیڑ رہی ہوں۔ لیکن جو بات سمجھ سے بالاتر تھی وہ یہ کہ  سب کو بہلا کر کسی ایک دوست کے ساتھ خفیہ افطاری اپنے گھر کے سامنے بنے ہوٹل میں کر لیا کرتا  اور بعد میں چوپال میں دوستوں کو تصاویر دکھا کر کہتا۔ دیکھو! تم ناحق مجھ پر الزام لگاتے ہو۔ کل بھی افطاری باہر کی تھی۔ اکثر احباب اس مخصوص ہوٹل کےمیز و کرسیاں اور  ٹشو پیپر پر بنے مونو گرام تک  پہچانتے تھے۔ اس ضمن میں کئی سوالات بھی اٹھائے جا چکے تھے۔ کہ صرف کسی ایک دوست کے ساتھ ہی کیوں جایا جاتا ہے؟ شہر اقتدار میں  ہوٹل ختم ہوگئے ہیں؟ کسی اور جگہ افطاری نہ کرنے کی کیا وجوہات ہیں؟ لیکن پہلی بات یہ کہ چوہدری ان سب کو بیک جنبش لب ایک فلسفیانہ جملہ ادا کر کے ختم کردیتا کہ انسان اس دنیا میں سب کو خوش نہیں کر سکتا۔میں سونے کا بھی بن جاؤں تو بھی تمہارے اعتراضات ایسے ہی رہیں گے۔اور دوسری یہ کہ ہم بھی اپنی آئندہ زندگی کے کسی رمضان میں اس عزت کے حقدار ٹھہریں گے۔اب تو فہرست میں ہمارا نمبر بھی آیا ہی چاہتا ہوگا۔  یہ ایک ایسی سوچ ہے جو ہمیں چوہدری کے بارے میں کسی بھی قسم کے بیان جاری کرنے سے روک دیتی ہے۔ 

Monday 20 June 2016

ملک (ایک نابغہ شخصیت) ہونا آشنا ہمارا۔۔۔ اپنی بسیار خور طبع سے​ (قسط دوم)

3 comments
ہونا آشنا ہمارا۔۔۔ اپنی بسیار خور طبع سے
یہ ایک روشن صبح تھی۔ ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آج قدرت ہم پر ہماری ہی بسیار خوری کا راز آشکار کر دے گی۔ عرفانِ ذات کا یہ مرحلہ اس قدر آسانی سے طے پا جائے گا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔ بے شک کاررواں کے درمیان آپ کی ذات کی کسی خامی کا یوں بیان کردینا کہ ماسوائے آپ کے کسی اور کو اس کی ہوا تک نہ لگے کسی ولی کامل ہی کا کام ہے۔ جمعہ کا مبارک دن اس کام کے لیے یوں بھی مناسب ہی تھا۔  ہم رند سرشت لہو و لعب میں ڈوبے دنیاوی وسائل کی فکر میں کھوئے تھے کہ ہمارے کانوں میں ملک صاحب کی شگفتہ آواز  نے رس گھول دیا۔
" آپ نے نماز جمعہ کے بعد کھانے کا کچھ مناسب انتظام کیا ہے؟" یہ ان بھلے دنوں کی یاد ہے جب ملک صاحب ہمیں اور ہم ان کو آپ آپ کر کے پکارا کرتے تھے۔
"جی! ابھی تک کچھ نہیں۔ آج کام کچھ زیادہ ہے۔ میں جمعہ پڑھ کر واپس آجاؤں گا۔" ہم نے تفصیلی جواب دینا ضروری خیال کرتے ہوئے کہا۔
"اوہ اچھا! ایسا ہے کہ میں جمعہ کے بعد کچھ احباب کے ساتھ باہر کھانا کھانے جاؤں گا۔ اگر آپ کچھ منگوانا چاہیں تو میں بخوشی لے آؤں گا۔" ملک صاحب نے ہم کو معلومات دینے  کے ساتھ ساتھ اپنی مہربان صفت سے بھی آشنا کرواتے ہوئے کہا۔
"زبردست! " ہمارے دل نے خوشی سے قلابازی لگائی۔ "آپ کھانا کھانے کدھر جا رہے ہیں؟ " ہماری بھوک صرف کھانے پر جانے کا نام سن کر چمک اٹھی تھی۔
"ہم سب کا پراٹھا رول کھانے کا  ارادہ ہے۔" ملک صاحب نے اپنے اور اپنے غائبانہ احباب کے منصوبے سے آگاہی دی۔
ہمیں بےاختیار لاہور یاد آگیا۔ لبرٹی کے مشہور پراٹھا رول۔ منہ میں پانی بھر آیا۔ فوراً جی میں آیا کہ کہیں تین پراٹھے رول میرے لیے بھی لے آئیے گا، لیکن ملک صاحب کی کرینہ کپور جیسی صحت دیکھ کر ہمیں خیال آیا کہ کہیں یہ تین پراٹھا رول کو خود پر طنز نہ سمجھ لیں اور وہاں پر کوئی پانچ چھے پراٹھے رول کھا کر ادھ  موئے ہو جائیں، تو کیوں نہ صرف دو ہی کہہ دیا جائے۔ سو دل پر پتھر رکھ کر کہا کہ "دو پراٹھا رول میرے لیے بھی لے آئیے گا۔"
"دو!" ملک صاحب نے زیر لب دہرایا۔ اور پھر ہمارے جثے پر نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ "آپ کے لیے دو زیادہ ہوجائیں گے۔ ایک جمبو رول لے آؤں گا۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے وہ کتنا بڑا ہوتا ہے۔ میرے جیسا بسیار خور بھی بمشکل ایک ہی کھا پاتا ہے۔ "
ملک صاحب کا اپنی ذات کے لیے بسیار خور کالفظ استعمال کرنا دیکھ کر ایک بار تو ہمارا دل بھر آیا۔ عین ممکن تھا کہ ہم اٹھ کر کسی قریبی ستون سے لپٹ جاتے اور دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیتے ۔ بہرحال  کسی طرح ہم نے اپنے دل پر قابو پا ہی  لیا۔
"ٹھیک ہے جیسے آپ کو مناسب لگے۔" ہم نے شکرگزار انداز میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
جمعہ کی نماز کے بعد ہم دوبارہ آ کر کام میں جٹ گئے۔ لیکن ہائے یہ اشتہا۔ بار بار ذہن میں پراٹھے رول گھومنے لگیں۔  جوں جوں ہماری اشتہا بڑھتی گئی وقت کی نبض اور سست چلنے لگی۔ ہم بے چینی سے   اٹھ کر دوسرے کمروں کا چکر لگاتے اور کبھی واپس آ کر کام میں دھیان لگانے کی کوشش کرنے لگتے۔ وقت دیکھا تو چار بجنے والے  تھے۔ آخر   مایوس ہو کر ہم نے  جب اپنے پیٹ کا آخری تسلی دے دی کہ اب شام کو ہوٹل واپس جا کر کھانا ملے گا تو ملک صاحب کی آمد ہوگئی۔ اپنی مخصوص شگفتہ مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے کہا کہ آئیں چلیں کیفے چلتے ہیں۔ یہ ملک صاحب کا بڑا پن تھا۔ اگرچہ وہ کھانا کھا آئے تھے لیکن مروت میں ہمارے ساتھ بیٹھنے پر بھی ازخود  رضامند  تھے کہ کہیں ہم بوریت کا شکار نہ ہوجائیں۔  کیفے میں کرسی سنبھالتے ہی ہم نے بےچینی سے لفافہ کھولا جس میں ایک بوتل اور ایک جمبو سائز پراٹھا رول ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ لیکن لفافہ کھلنے پر ہمارے ارمانوں پر یوں اوس پڑ گئی ۔   کریم رول کے سائز کا کچھ ایک ریپر میں لپٹا تھا اور اس کے ساتھ ایک  چھوٹی سی کیچپ کی پڑیا اور ایک بوتل۔ ہم نے جمبو سائز پراٹھا رول اٹھایا  جائزہ لیا اور پھر اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔ شاید ہمارے ہاتھ کچھ بڑے ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے یہ پراٹھا رول چھوٹا لگ رہا ہے۔ لیکن جب کوئی بھی چیز ایسی نہ ملی جس پر الزام دھرا جائے تو ہم نے ملک صاحب کی طرف دیکھا۔ جو چہرے پر ایک سنجیدگی سجائے  ہمیں یوں دیکھ رہے تھے گویا ہم اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔  
"آپ نے جمبو سائز کا فرمایا تھا۔ " آخر ہم سے ضبط نہ ہو سکا۔
"جی یہی تو جمبو سائز ہے۔ اففف ! ایک کھا لے آدمی تو پھٹنے والا ہو جاتا ہے۔" ملک صاحب ہماری دلی کیفیات سے بےخبر اپنا تجربہ بیان کر رہے تھے اور ہم دل ہی دل میں خود کو موٹو، پیٹو اور پتا نہیں کن کن القابات سے نواز رہے تھے ۔

Friday 17 June 2016

ملک (ایک نابغہ شخصیت)

5 comments
ملک (ایک نابغہ شخصیت)
تعارف:
====
السلام علیکم! "ہمارا نام لے کر" آپ ہی ہیں؟
وعلیکم السلام! جی میں ہی ہوں۔ ہم نے حیرانی سے اس نوجوان کو دیکھا جو ہماری میز کے پاس کھڑا  ہمارے علاوہ ہر طرف دیکھ رہا تھا۔
ملک : "میرا نام ملک ہے۔" آنے والے نے  ہماری طرف متوجہ ہو کر کہا۔
راقم: "اوہ! آپ ہیں۔ کیسے ہیں آپ؟"  کل آپ کا تذکرہ ہوا تھا۔  ہم نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ کھڑے ہو کرمصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ انہوں نے بھی ایک استخوانی پنجہ آگے بڑھا دیا۔   یہ ہماری ملک صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔
ملک کے لفظ سے ہمیں ہمیشہ ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ کالج کا پہلا دن تھا ۔ کلاس میں مستقبل کے سب مہندسین ایک دوسرے کو اجنبی اجنبی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ہر مدرس آتا کلاس سے اپنا تعارف کرواتا۔ طلباء کا تعارف سنتا۔ یوں یہ تعارفی دن اپنے اختتام کی طرف گامزن تھا کہ اردو کے پروفیسر صاحب کی کلاس میں آمد ہوئی۔ انہوں نے اپنا تعارف کروایا  اور اس کے بعد تمام لڑکوں سے کہا کہ باری باری اپنا تعارف کرواتے جائیں۔ ایک لڑکے نے کھڑے  ہو کر اپنا نام "ملک" کے لاحقے کے ساتھ بتایا۔ تو پروفیسر صاحب فوراً اس کی طرف منہ کر کے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں بولے۔ "پتر! ملک کوئی ذات نئیں ہندی، سیدھی طرح  دس، تیلی ایں کہ اعوان ایں؟"۔ اس پر پوری کلاس میں ایک فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا۔
یہاں بطور سند یہ بتانا چاہوں گا کہ راقم نے ملک صاحب سے کبھی یہ سوال نہیں کیا  ۔ یوں بھی "اعوان" گیارھویں صدی میں وجود میں آئے تھے۔ اس سے قبل  یہ کیا  کہلاتے تھے۔ اس پر مؤرخ خاموش ہے۔ اور جب مؤرخ خاموش ہوجائے تو دورِ جدید کے فتنہ سازوں کو ایسے نکات پر بحث نہیں کرنی چاہیے جن کے جوابات کے لیے  ان لوگوں سے تصدیق درکار ہو جو کسی بھی تصدیق و تردید  سے قبل  عیسیٰ سے مسیحائی چاہیں۔

ہمہ جہت شخصیت:
=========
یوں تو ہم نے شاید ہی کبھی زندگی میں جسمانی کھیلوں کے میدان میں کوئی کارہائے نمایاں سرانجام دیا ہو، لیکن خدا  گواہ ہے کہ ہم ان لوگوں کا دل سے احترام کرتے ہیں جو ایسے کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کام پر اکساتے ہیں۔ زندگی بھر ہم نے جس کو بھی دیکھا کسی ایک ہی کھیل میں مستعد پایا۔ جو  کوئی کرکٹ کا کھلاڑی ہے تو اس کا علم  و عمل بھی کرکٹ کی حد تک ہی محدود ہے۔ فٹ بال کا کھلاڑی یا شوقین کسی اور کھیل کے بارے میں معلومات رکھنا اپنی ہتک سمجھتا  ہے تو ٹینس کا کھلاڑی ٹینس کو دنیا کا سب سے مشکل کھیل سمجھتا ہے۔ جسمانی کسرت کے شوقین لوگوں کے آگے اس سے بڑھ کر اور کوئی چیز ہی نہیں اور باقی سب  کو وہ وقت کا ضیاع گردانتے ہیں۔  ہمارا بھی اول دن سے اس بات پر پختہ یقین تھا کہ کھلاڑی وہی ہے جو کسی ایک کھیل پر مکمل دسترس رکھتا ہے لیکن انسانوں  کے  غوروفکر اور تدبر کی صلاحیت کو جلا بخشنے کے لیے قدرت اپنے کرشمے دکھاتی رہتی ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو انسان کی سوچ میں یکسانیت آجائے۔ ہمارے اس خیال سے بھی شاید قدرت کو اختلاف تھا سو وسائل ایسے پیدا ہوئے کہ ہماری ملاقات ملک صاحب سے ہوگئی۔  صرف ملک صاحب کی  ذات بابرکات  سے ہی بےشمار کرامات منسوب نہ تھیں بلکہ زیادہ تر لوگوں کا فرمانا تھا کہ وہ خود ایک معجز نما ہیں۔
لیکن ان کے ذات نے ہمیں کن کن پہلوؤں سے متاثر کیا وہ ہم یقینی طور پر بیان کرنے میں فخر محسوس کریں گے۔ بلاشبہ آج اگر  ہم کھیلوں کے بغیر ایک صحتمند زندگی گزار رہے ہیں تو یہ ملک صاحب ہی کی نظر کرم کی کرامت ہے۔
"انسان بھی عجیب چیز ہے۔ جن خوبیوں  کو وہ خود اپنے اندر دیکھنا چاہتا ہے وہی کسی غیر میں نظر آ جائیں تو مرید ہو جاتا ہے۔  " ملک صاحب نے آئینے کے سامنے بیٹھے عکس کو گھورتے ہوئے کہا۔ ہم نے ایک نظر آئینے پر اور دوسری ملک صاحب پر ڈالی۔ "بے شک پس آئینہ ایسی ہی شخصیت ہے کہ مرید ہوا جائے"۔ ہم نے تائیدی انداز میں سر ہلاتے ہوئے اضافہ کیا۔

(جاری ہے)

Friday 10 June 2016

کاہلی پر اشعار

0 comments
اس موضوع میں کاہلی پر اشعار پیش کیے جائیں گے۔ تمام آلکسیوں سے حسب توفیق حصہ ملانے کی درخواست ہے۔۔۔۔

پہلے پہل کاہلی کا تذکرہ اساتذہ کی زباں سے۔۔۔

میر تقی میر۔۔۔ موضوع کے لحاظ سے تھکی تھکی میر نہ پڑھا جائے۔۔۔ اپنی مثنوی شکار نامہ میں فرماتے ہیں۔۔۔۔
میری بھی خاطر نشاں کچھ تو کیا چاہیے
میؔر نہیں پیر تم کاہلی اللہ رے
(مثنوی)

اس کے بعد غالب کا ذکر ہی بنتا ہے۔۔۔۔ او ریہ ممکن نہیں کہ غالب نے کاہلی کا ذکر نہ کیا ہو۔۔۔
کیا ہے ترکِ دنیا کاہلی سے
ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے

پر افشاں ہوگئے شعلے ہزاروں
رہے ہم داغ اپنی کاہلی سے
(غیر مطبوعہ)

اب جو اسماعیل میرٹھی نے کاہلی کی یوں تعریفیں دیکھیں۔ تو پتا نہیں پرانے بزرگوں کی طرح کیا سوجھی۔ فورا پکارے۔۔۔۔
کرو گے بھلا کاہلی تم کہاں تک
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
صبح کی آمد (نظم)

اسماعیل میرٹھی کی پکار انور شعور پر کافی گراں گزری۔ پہلے پہل تو انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونسی ہوں گی۔ مگر آخر بےبس ہو کر اپنی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہنے لگے۔
کہاں تک کاہلی کے طعن سنتا
تھکن سے چور ہو کر گر پڑا ہوں
غزل

انور شعور بلاشبہ ان چند زیرک شعرا میں سے تھے جو جانتے تھے کہ کاہلی اور آلکسی ایک بار امانت ہے۔ اور کس و ناکس اس کا بار نہیں اٹھا سکتا۔ اسی موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کسی اور ترنگ میں کہا کہ
تساہل ایک مشکل لفظ ہے اس لفظ کےمعنی
کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں کسی سے پوچھ لوں گا میں

عہد حاضر کے محققین کیسے اس موضوع سے آنکھیں پھیر سکتے تھے۔ سو احمد جاوید صاحب نے بھی فی زمانہ رائج کاہلی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ
وہ کاہلی ہے کہ دل کی طرف سے غافل ہیں
خود اپنے گھر کا بھی ہم سے نہ انتظام ہوا

مزاحیہ شاعر اس قیمتی موضوع کو کیسے خالی جانے دے سکتے تھے۔ سو احمق پھپھوندی نے بھی اندرونی کاہلی اور خون کی گردش کے حسین تضاد پر روشنی ڈالی۔۔۔۔ (شاید شاعر کہنا چاہتا ہے کہ آلکسی کا خون بھی منجمد ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم)
نکما کر دیا ہے کاہلی نے گو ہمیں لیکن
رگوں میں ہے ہماری خون ابھی تک دوڑتا پھرتا

یوں تو یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ ہر شاعر کو اس پر لازماً شعر کیا پورا پورا دیوان کہنا چاہیے۔ تاہم اکثریت ایسی آلکس تھی / ہے کہ انہوں نے اس پر بھی شعر نہ کہا۔ اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ بوجہ سستی۔

Sunday 17 April 2016

دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں

4 comments
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
 
گزشتہ دنوں لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ یوں تو ہر کچھ عرصہ کے بعد لاہور کا چکر لگتا رہتا تھا اور ہے۔ لیکن اس بار پنجاب یونیورسٹی جانا تھا۔ میں جامعہ پنجاب کا طالبعلم تو کبھی نہیں رہا لیکن لاہور شہر کے اندر بسے اس شہر سے ہمیشہ سے ایک عقیدت رہی ہے۔ درمیان سے بہتی نہر کے ایک طرف تو جامعہ کے شعبہ جات ہیں۔ جبکہ دوسرے کنارے کے ساتھ ساتھ ہاسٹلز کی ایک قطار ہے۔ ان ہاسٹلز کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے بنے میدان تھے۔
 ان میدانوں کے ایک سرے پر کچھ تعمیر کا کام ہو رہا تھا۔  میں پہلی نگاہ میں یہ سمجھا کہ جامعہ کی طرف کوئی سپورٹس کمپلیکس بنانے کا ارادہ ہوگا  جس کی تکمیل کے لیے یہ کام کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب ان پر میں نے شادی ہال کے جگمگاتے بورڈز دیکھے تو مجھے شدید دکھ اور کرب کا سامنا کرنا پڑا۔ تو اب جامعہ اپنی آمدن کے لیے شادی ہال چلائے گی۔ ایک طرف طلباء کو تعلیم دے گی اور دوسری طرف کاروبار چمکایا جائے گا۔ بلاشبہ لاہور جیسے شہر میں بڑا شادی ہال بنانا  ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ لیکن کیا اب پنجاب حکومت اس قدر تنگدست ہوچکی ہے کہ جامعہ کو اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے کاروبار چلانے پڑیں گے۔ غیر سرکاری تعلیمی اداروں نے تو پہلے ہی  تعلیم کو کاروبار بنا کر دیوالیہ نکال دیا ہے۔ ان کے لیے طالبعلم ایک صارف ہے۔ اور استاد ایک کاروبار بڑھانے والا سیلز مین۔
لاہور کے اکھڑی سڑکیں، نئے نئے نقشے یقینی طور پر ظاہری ترقی کی علامت ہیں۔ لیکن وہ قوم جس کے حکمران دلالی کو اپنی وراثت اور لوٹ کھسوٹ کو اپنا فرض سمجھتے ہوں۔ وہ قوم جو ہر آنے والے لٹیرے کو رہنما سمجھ کر خود کی ہی نیلامی میں شریک ہوتی ہو۔ اس قوم کو کیا  کھلی سڑکیں ، بڑی کاریں اور ظاہری چمک دمک  کی ضرورت ہے یا تعلیم اور شعور کی۔ یقینی طور پر شعور کی۔ من حیث القوم بنا کسی علمی مقام تک پہنچے اور شعور کی بنیادی منازل طے کیے بغیر ایسی ترقی کا خواب بھی ذہنی عیاشی کے علاوہ کچھ نہیں۔  ایسی علم گاہوں کی شدید کمی ہے جو قوم کی ذہنی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ جن کی مدد سے نوجوان طبقہ  اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے لیے نئے آسمان پیدا کر سکے۔  سڑکوں او رظاہری شان و شوکت پر اربوں روپیہ لگانے والوں کے پاس کیا اس قدر رقم بھی نہیں کہ صوبے کی سب سے بڑی جامعہ کے اخراجات  ہی پورے کر دیے جائیں۔ طلباء کے کھیلوں کے میدان پر بنائے گئے ان شادی ہالوں کی جگہ ان کے لیے  ذہنی بالیدگی کی فضا قائم کی جاتی۔
میں یہ سوچتا ہوں کہ کیا آج اگر میں اٹھارہ برس کا ایک لڑکا ہوتا جو جامعہ داخلے کے لیے آتا۔ اور جامعہ کو اس قسم کے کاروبار کرتے دیکھتا۔ تو شاید میں اپنے گاؤں واپس  لوٹ جاتا۔ وہ رقم جو میں نے اپنی تعلیم پر خرچ کرنی تھی۔ وہ میں اسی  طرز کے کسی بڑے پلاٹ پر تنبو قناطیں کھڑی کرنے پر لگا دیتا۔ چھوٹے پیمانے سے شروع کرتا۔ اور شاید کامیاب بھی رہتا۔لیکن جب میں اپنے گردونواح پر نظر ڈالتا ہوں۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ سب سے آہستہ رفتار والی لائن میں جانے پر بھی پیچھے سے کوئی گاڑی والا آپ کو بار بار لائٹس مارتا ہے۔ جب کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کا شیشہ نیچے ہوتا ہے۔ اور ان کے اندر سے ایک جوس کا ڈبہ یا کوئی   خالی بوتل اور بسکٹوں کو خالی ڈبہ باہر اچھال کر شیشہ واپس اوپر کر لیا جاتا ہے۔ جب پولیس والا کمتر کا چالان اور ظاہری شان رکھنے والے کو جانے دیتا ہے۔ جب سفارشی عہدے پر ہوتا ہے۔ اور علم اپنی علمیت کا بوجھ اٹھائے در در کے چکر لگاتا ہے۔ تو پھر میں سوچنے لگتا ہوں کہ جامعہ کا فیصلہ درست ہے۔ اس ذہنی بدکار اور بیکار قوم کو تعلیم اور کھیلوں کے میدان کی نہیں شادی ہالوں کی ہی ضرورت ہے۔