Friday 6 September 2013

یوم دفاع از قلمِ نیرنگ خیال

4 comments
قوموں کی داستان عروج و زوال سے مزین ہے۔ چاہے یہ قومی تشخص کی بنیاد مذہب پر ہو یا جغرافیائی حدود پر۔ پاکستان خوش قسمتی سے وہ خطہ ہے کہ جو دونوں دولتوں سے مالا مال ہے۔ خیر تذکرہ اس وقت عروج و زوال کا ہے۔ تو ہر قوم کی تاریخ میں وقت کچھ ایسی گھڑیاں ضرور لاتا ہے۔ جب ذاتی مفاد، جان و مال ملکی و اجتماعی مفادات کے آگے ہیچ ہوجاتے ہیں۔ ان آزمائش کی گھڑیوں میں جب قوم اپنے فرض سے آنکھیں چراتی ہیں۔ کڑیل جوان میدان جنگ کی بجائے گھر میں چھپنے کو ترجیح دیں۔ تو ایسی قوموں کے مقدر میں آنے والا لمحات کا سورج خوشی و مسرت نہیں بلکہ اپنوں کی لاشوں کے ساتھ ساتھ غلامی کی نہ ٹوٹنے والی زنجیر لے کر آتا ہے۔ اور پھر بسا اوقات اُس طوق کو اتارنے میں صدیاں بھی  کم پڑ جاتی ہیں۔ 

ایسی ہی ایک گھڑی 6 ستمبر 1965 کو پاکستان کی تاریخ میں بھی آئی تھی۔ لیکن سلام ہیں اس قوم کو۔۔۔ جس نے اپنے فرائض سے آنکھیں نہیں چرائیں۔ ان نوجوانوں کو جن کے لیے ملکی سلامتی ان کی اپنی جان و مال سے کہیں زیادہ تھی۔ سلام ہے۔ ان شہیدوں کو سلام ہے جنہوں نے اپنے جسموں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ کر شہادت کا رتبہ پایا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ صریح موت ہے۔ لیکن ڈر کا ان کے عمل سے شائبہ تک نہ تھا۔ ان ماؤں کو جنہوں نے ملکی سلامتی کو اپنے بیٹوں سے زیادہ جانا۔۔۔ ان بیویوں کو جنہوں نے سہاگوں کی لاشوں پر نوحہ نہ کیا۔ بلکہ فخر سے سر اٹھا کر کہا کہ میرا شوہر شہید ہے۔ 

6 ستمبر کا دن پاکستان کا یوم دفاع وہ جرأت اور بہادری کی تاریخ رقم ہوئی جو رہتی دنیا تک درخشاں رہے گی۔
میں ان تمام شہیدوں، غازیوں دلیروں اور بہادروں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اور اس دن کی تجدید کرتے ہوئے  یہ مصمم ارادہ کرتا ہوں کہ میں اپنے ملک میں لسانی و صوبائی و دیگر ہر قسم کے تعصب کو آخری حد تک ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس ملک کی بقاء ہی میری بقاء ہے۔ اور میں اپنے تئیں جو بن پڑا اس ملک کی بھلائی کے لیے کروں گا۔ آمین یا رب العالمین

Thursday 5 September 2013

صحرا فطرت

5 comments
کچھ منتشر خیالات۔۔۔
صحرا سحر سے بھرا ہے۔۔ ۔۔ گر کسی نے رات کو صحرا میں قیام کیا ہے۔ تو وہ صحرا کی دلنشیں راتوں کے گیت گاتا نظر آئے گا۔ اور گر کسی کا واسطہ محض نخلستان سے پڑا ہے۔ تو وہ آپ کو کھجور کے درختوں اور میٹھے پانی کے چشموں کے گن گاتا نظر آئے گا۔ صحرا کی دھوپ کا شکار آپ کو صحرا کی تپش، جلن اور دور دور تک سایہ نہ ہونے کی شکایت کرتا ملے گا۔۔۔ وہ سراب کے متعلق بھی آپ کو بتائے گا۔ اور پیاس کی شدت کا بیان بھی اسی کے لبوں سے جاری ہوگا۔

کچھ لوگ صحرا کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی ذات اپنی تمام تر خوبصورتیوں اور خوبیوں کے باوجود ہر اک کے لیے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ لوگ انہیں شبِ صحرا کی مانند سمجھ لیتے ہیں۔ جہاں ٹھنڈک، خاموشی اور خوبصورتی ہے۔ دلفریب مناظر ہیں۔ اور دل کو موہ لینے والا سکون۔ کچھ لوگ انہیں نخلستان سمجھ لیتے ہیں۔ جہاں کھجوراور پانی کی فراوانی ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں سایہ ڈھونڈنے کو وہاں آ بیٹھتے ہیں۔ سکون اور نعمتوں کی فراوانی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ اور کچھ لوگوں نے ان کو ہر رنگ میں یکتا دیکھا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ بظاہر نخلستان دکھائی دینے والا۔۔ رات کے صحرا کی مانند پرسکون و دلفریب حقیقت میں کس قدر جھلسا ہے۔ کیسے کیسے غم کے سورج ہیں جو آگ برسا رہے ہیں۔ کیسے بکھرے ارادوں کی شکست کا طوفان ہے۔ جو شخصیت کے ٹیلوں کو تہہ وبالا کیے جا رہا ہے۔

صحرا فطرتوں کی اک اور خوبی اوج کمال پر ہوتی ہے۔ جتنا مرضی غبار آئے۔ طوفاں اٹھے۔ ان کی سرحد پر بس ہلکے ہلکے آثار ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ کبھی یہ اپنے گردو غبار اور طوفان سے بیرون ذات کچھ نقصان نہیں دیتے۔ سمندر فطرت لوگوں کے بالکل برعکس۔ سمندر میں جب طوفان آتا ہے۔ تو اپنی سرحد توڑ کر نکل آتا ہے۔ باہر کے ماحول کو ڈبو دیتا ہے۔ اور جب واپس جاتا ہے۔ تو اپنے ساتھ لائے غم اور خوشیوں کا باعث بننے والوں کو باہر ہی چھوڑ جاتا ہے۔ پرواہ نہیں کرتا۔۔۔ کہ انکا کیاہوگا۔۔ صحرا فطرت اپنے غم اور خوشی کا باعث چیزوں کا اپنی ذات سے باہر نہیں جانے دیتے۔ وہ اس معاملے میں بہت احتیاط پسند ہوتے ہیں۔ سمندر فطرت کی طرح بے پرواہ نہیں۔