Friday 30 November 2012

کم علم کی بحث

11 comments
میں مسجد میں تحیۃ المسجد ادا کر رہا تھا۔ اس ذکر سے نمودونمائش ہرگز مقصود نہیں۔ کیوں کہ اگر یہی مقصد ہوتا تو میں تہجد، اشراق، چاشت، اوابین اور تحیتہ الوضو کا بھی لازمی ذکر کرتا۔ مگر الحمداللہ چونکہ طبیعت ریاکاری سے بالکل پاک ہے تو صرف واقعہ بیان کرنا مقصد ہے۔ ہاں کوئی اسے نیکی کی ترغیب سمجھے تو اپنی نیک نیتی کا صلہ پائے گا۔
ہاں تو میں بات کر رہا تھا کہ دوران نماز سگریٹ کی ناگوار بدبو نے مجھے بے چین کر کے رکھ دیا۔ عرصہ ہوا جب حج سے واپس آیا تو پکے سے توبہ کر چکا تھا۔ لیکن آج یہ بدبو دوبارہ اعصاب پر سوار ہو گئی۔ خشوع و خضوع قائم رکھنا تو دور کی بات تھی بدبو کی شدت سے نماز پوری کرنا بھی محال لگ رہا تھا۔ بس جلد از جلد سجدے ٹیکے کے یہ آدمی بناء نصیحت کہیں بےہدایتا ہی نہ نکل جائے۔ دوبارہ بتاتا چلوں کہ یہاں بھی اپنی نیکی کا ڈھنڈورا پیٹنا اور خود کا حاجی بتانا مقصود نہیں۔ ورنہ لوگ تو میرے سے کئی کرامات بھی منسوب کرتے ہیں۔ بس جی انکی دل شکنی کے ڈر سے انکار نہیں کیا کبھی کہ سچ ہیں یا غلط۔ ہمیشہ خاموش رہنا ہی پسند کیا اس ضمن میں۔ خیر سلام پھیر کر دیکھا تو قریب ہی ایک آدمی نماز ادا کر رہا تھا۔ سگریٹ نوشی کی کثرت سے اس کے ہونٹ سیاہ پڑ چکے تھے۔ میں نے سوچا یہ نماز سے فارغ ہو چکے تو اس سے بات کرونگا، شاید میری نصیحت سے اس پر کوئی مثبت اثر پڑ جائے۔ اور دل ہی دل میں اثر انگیز قسم کے جملے سوچنے لگا۔ اور اک مدلل گفتگو کا خاکہ ذہن میں ترتیب دینے لگا۔لیکن مجھے اس وقت اک کرب کا سامنا کرنا پڑا جب اس شخص کے ساتھ بیٹھے ایک نوجوان نے اسکی نماز سے فراغت پر مجھ سے پہلے ہی اس سے گفتگو کرنا شروع کی، اب میں نے اپنی نماز بھول بھال کر انکی گفتگو سننے کیلئے یکسوئی سے اس طرف کان لگا دیئے کہ دیکھیں یہ کم علم اور کم تجربہ کار کیا کر پائے گا۔ تو کچھ اس قسم کی بات چیت ہو رہی تھی:

نوجوان: السلام و علیکم، چچا آپ کون ہیں؟

وہ آدمی: چچا کہ خطاب پر اک برا سا منہ بناتے ہوئے۔ میں ۔۔۔ ۔۔ ہوں۔ (اسے ڈیش نہ پڑھا جائے۔ بلکہ اس جگہ نام سمجھا جائے)
نوجوان جو کم علمی کی بنیاد پر اسکے چہرے کے تاثرات پڑھنے سے قاصر تھا۔ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے۔
نوجوان: چچا، کیا آپ نے شيخ عبدا لحميد كشك کا نام سنا ہے؟
وہ آدمی: جی نہیں۔
نوجوان: اچھا تو آپ شيخ جاد الحق کو جانتے ہیں؟
وہ آدمی: جی نہیں انکا نام بھی آج ہی سن رہا ہوں۔
نوجوان تھوڑا مایوس ہوتے ہوئے: تو آپ شيخ محمد الغزالی کو بھی جانتے ہیں؟
وہ آدمی: امام غزالی کا نام تو سن رکھا ہے۔ لیکن شیخوں سے واقف نہیں۔ہمارے علاقے میں شیخ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
نوجوان چہ بچیں ہوتے ہوئے: آپ علماء کی کیسٹیں اور فتاویٰ جات سنتے ہیں؟
وہ آدمی: بچپن میں کیسٹیں ہوتیں تھیں سونک میگا ڈانس کے ایڈیشن آتے تھے۔ کیا یاد کروا دیا ظالم۔ لیکن علماء کو بس جمعے کے خطبے کے علاوہ سننے کا اتفاق نہیں ہوا۔ فتاوٰی سے بھی کوئی خاص رغبت نہیں۔ بس جو اچھا لگتا ہے کر لیتا ہوں۔ آجکل اک پریشانی ہے۔ تو اس سلسلے میں ذرا نمازوں کی پابندی جاری ہے۔ وگرنہ ہم کہاں اور مسجد کہاں۔ فصلی بٹیرا سمجھیئے ہمیں تو۔

اب مجھے دل ہی دل میں نوجوان پر غصہ آنے لگا۔ کہ یہ ادھر ادھر کی بیکار باتیں کر کے بندہ بھگا دے گا۔

نوجوان: آپ جانتے ہیں ناں یہ سارے شیوخ سگریٹ کو حرام کہتے ہیں، تو پھر آپ کیوں پیتے ہیں سگریٹ؟
وہ آدمی: (جو اب اس ساری گفتگو سے بیزاری سی محسوس کر رہا تھا) میں نے آپکو پہلے بھی بتایا میں شیخ نہیں۔ وہ اپنی برادری میں کیا کرتے ہیں کیا نہیں اس سے مجھے کچھ دلچسپی نہیں۔

نوجوان ذرا ضدی انداز میں: نہیں، سگریٹ حرام ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی تو یہی ہے ناں کہ (پلید چیزوں کو تم پر حرام کر دیا گیا ہے)۔ کیا کبھی سگریٹ شروع کرتے وقت آپ نے بسم اللہ پڑھی ہے یا سگریٹ ختم ہونے پر الحمدللہ کہی ہے؟
وہ آدمی: (تقریبا بھناتے ہوئے) میاں! تم مفتی ہو؟ اور پلید پاک کا فیصلہ کرنے والے تم کون ہو؟ اور ہر وہ چیز جس پر بسم اللہ یا الحمداللہ نہ پڑھی جائے تم اسے پلید کہو گے۔ احمق آدمی یہ کونسا معیار مقرر کر رکھا ہے تم نے۔ اور اسلام کی بات کرتے ہو تو مجھے یہ بتاؤ کہ پلید کا معیار اسلام نے کیا مقرر کر رکھا ہے۔ حلال حرام کی طرف تو میں بعد میں آؤں گا۔اور قرآن میں ایسا کوئی حکم نہیں
جس میں کہا گیا ہو کہ (ويحرم عليكم الدخان) اور ہم نے تم پر سگریٹ نوشی حرام قرار دی ہے۔

میرا اندیشہ یقین میں بدلنے لگا کہ یہ نوجوان اپنی احمقانہ باتوں سے معاملے بگاڑ دے گا۔

نوجوان بھی باقاعدہ جذباتی انداز میں تمام زمینی حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے: چچا یقین کیجیئے اسلام میں سگریٹ نوشی بالکل ویسے ہی حرام ہے جس طرح سیب حرام ہے۔
اس آدمی کا صبر کا پیمانہ لبریز ہی ہو چکا تھا، اسکے چہرے سے ظاہر تھا کہ وہ اس بات پر میری طرح یقین کر چکا ہے کہ یہ نوجوان پاگل ہے۔ اور گفتگو کرنے کے فن سے بالکل ہی فارغ۔ جھلاتے ہوئے خونخوار لہجے میں بولا اوئے لڑکے، تو ہوتا کون ہے کہ جس چیز کو چاہے حرام قرار دے اور جس چیز کو چاہے حلال قرار دیدے؟
وہ نوجوان نہایت ہی بپھرے لہجے میں بولا کہ پھر لایئے اک آیت جس میں لکھا ہو کہ (ويحل لکم التفاح) اور ہم نے تم پر سیب کو حلال کر دیا ہے۔
آدمی مسکراتے ہوئے بولا! تو تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ اللہ کے مقرب لوگ اور قرون اولی کے لوگ حرام کھاتے رہے اور انکو اس بات کا ادراک تک نہ تھا۔ دیکھو بیٹا جذباتیت یا کسی چیز سے نفرت اپنی جگہ مگر ہر چیز میں اسلام کو نہیں لاتے۔ اور یہ ضروری بھی نہیں کہ ہر چیز پر اسلام کو بنیاد بنا کر ہی بحث کی جائے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ تمہیں زندگی میں ابھی بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور اپنوں سے بڑوں سے بحث کے لیے جس مدلل انداز گفتگو اور علم کی ضرورت ہے۔ اس کی تم میں شدید کمی ہے۔

اس آدمی کی گفتگو نے نوجوان کو ششدر ہی کر کے رکھ دیا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ اب رویا کہ تب، مسجد میں اقامت کی آواز گونج اٹھی تھی اور لوگ جماعت کیلیئے کھڑے ہو رہے تھے۔ نماز کے بعد وہ آدمی میری طرف متوجہ ہوا اور بولا آپ جیسے نیک لوگوں کا ہی فیض ہے۔ آپکے اک شاگرد کے ساتھ مہینےمیں اک آدھی ملاقات ہو جاتی ہے تو بس یہی اثر ہے جو زباں میں ہے۔

اس بات سے میری یہ حیرانگی بھی جاتی رہی کہ یہ تو کبھی میری مجلس اور شاگردوں میں نہیں رہا تو یہ انداز بیاں اس کے اندر کہاں سے آگیا۔ بالکل میرے والا تو نہیں لیکن کچھ سیکھنے کی صلاحیت تھی اس آدمی میں۔ اور نوجوان پر تو مجھے ازحد غصہ آرہا تھا۔ اس سے تو بہتر تھا کہ صبر کرتا اور مجھے بات کرنے دیتا۔ یقیناً میں اسکو سمجھانے میں کامیاب ہو جاتا۔

Wednesday 28 November 2012

مظلوم غلام اور احمق دانا (شیخ سعدی کی روح سے معذرت کے ساتھ)

15 comments
ایک بادشاہ کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہا تھا۔ کشتی اس لیئے کہ کروز اور لانچ کا دور نہ تھا۔ آبدوز بھی ایجاد نہ ہوئی تھی۔ کچھ درباری اور چند غلام بھی ساتھ تھے۔ وہ ساتھ نہ ہوتے تو پروٹو کول کسطرح پورا ہوتا۔ سب کہتے کتنا غریب بادشاہ ہے۔ بغیر پروٹوکول کے پھرتا ہے۔ یہ سارے غلام ایسے تھے جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھے تھے اور شوق میں ساتھ چلے آئے تھے اور اب پچھتا رہے تھے۔ مگر اک ایسا تھا جو اپنا خوف نہ چھپا پا رہا تھا۔ اور ڈوب جانے کے خوف سے رو رہا تھا۔ موت برحق ہے والے مقولے پر اس کا ایمان بہت ناپختہ تھا۔ بادشاہ کو اس کی بھوں بھوں کر کے رونے کی آواز سے سخت الجھن ہو رہی تھی لیکن غلام پر منع کرنے اور ڈانٹنے ڈپٹنے کا بالکل اثر نہ ہوا اور وہ یونہی روتا رہا۔ بادشاہ سوچ رہا تھا کہ واپس جا کر اسکی گردن مار دینے کا حکم دے دے گا۔

کشتی میں ایک جہاندیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا ۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ اک مسافر کشتی تھی اور بادشاہ کو درباریوں نے مکمل کشتی کرائے پر لینے کی بجائے ضرورت کے مطابق ہی کرایہ ادا کر کے بقیہ رقم ڈکا ر لی تھی۔ کہ بادشاہ کو کونسا پتہ چلے گا۔ اور ملاح سے سازباز کر رکھی تھی کہ مسافر کو اپنا رشتےدار بتا دے اگر بادشاہ پوچھ بیٹھے۔دوسری مصلحت یہ بھی تھی کہ اگر اسکو بھی نکال دیتے تو حکایت آگے کیسے بڑھتی۔
اب دانا شخص نے فلمی انداز میں یکلخت کھڑے ہو کر کہا کہ اگر حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس خوفزدہ غلام کا ڈر دور کر دے؟ تو بادشاہ جو پہلے ہی شیخ سعدی کے دور کے عقلمندوں کو یاد کر رہاتھا خوش ہوگیا کہ لو آیا اک دانا۔ اور اجازت عطا فرمائی۔
دانشمند شخص نے اک نگاہ تکبرانہ سب بیوقوفوں مع بادشاہ پر ڈالی اور بقیہ غلاموں کو حکم دیا کہ اس والے غلام کو اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔ درحقیقت وہ اک اذیت پسند شخص تھا۔ وگرنہ غلام کی توجہ باتوں میں لگا کر بھی بٹائی جا سکتی تھی۔ مگر ان دنوں شائد اس قسم کے موضوعات پر تحقیق نہ ہوتی تھی۔ غلاموں نے حکم کی تعمیل کی اور رونے والے غلام کو اٹھا کر دریا کے اندر پھینک دیا ۔ جب وہ تین چار غوطے کھا چکا تو دانا شخص نے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکلا کر کشتی میں سوار کر لو. وہ غلام غوطے کھاتا کشتی سے دور جا چکا تھا۔ اب سب اک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ تیرنا تو کسی کو بھی نہیں آتا تھا۔ اب سب کی نظریں ملاح پر گڑ گئیں۔ مجبورا ملاح دل ہی دل میں بکتا جھکتا دریا میں چھلانگ لگا کر اسکو اوپر گھسیٹ لایا۔ اسکے پیٹ میں پانی بھی چلا گیا تھا۔ وہ بھی نکالا گیا۔ اب وہ غلام جو غوطے کھانے سے پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بڑی طرح رو رہا تھا بالکل خاموش اور پر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔بادشاہ جو یہ بیکار حرکت دیکھ کر بور ہو رہا تھا،قدرے غصہ ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھینکوا دیا تھا اور یہ بھی پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ کسی کو تیرنا آتا بھی ہے یا نہیں؟ لیکن دلچسپ امر جس نے تمہاری جان بچا لی وہ یہ ہے کہ یہ اب خاموش ہوگیاہے۔دانا شخص جو پہلے داد طلب نظروں سے بادشاہ کو دیکھ رہا تھا۔پریشان ہوگیا اور سوچنے لگا کہ اخلاقی سبق ایسا ہونا چاہیئے کہ اب اپنی جان بچ جائے۔ اور آخر کار اس نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب جب لگے غوطے تو عقل آگئی ٹھکانے۔ اور دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہوگئی تو یہ خاموش ہو گیا۔

حالانکہ غلام نے بعد میں اپنے دوستوں کو بتایا کہ میں اس وجہ سے چپ کر گیا کہ یہ آدمی پاگل ہے۔ اور تم لوگ احمق۔ اس بیوقوف کی اس حرکت سے اب میرا ڈر اور بڑھ گیا ہے۔

اخلاقی سبق: اگر آپ اپنے ڈر لوگوں کو بتائیں گے تو وہ نہ صرف آپ کو مزید ڈرائیں گے۔ بلکہ بعد میں آپکو اس میں اخلاقی سبق تلاشنے کا بھی کہیں گے۔ اور یہ کہ اگر کسی شخص نے کبھی کوئی مصیبت نہیں دیکھی تو اس کو اس مصیبت کا مزا چکھانا ضروری نہیں ہے۔ اس قسم کی حرکتوں سے اسکا دل بند ہو سکتا ہے۔ اور وہ مر بھی سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اس قسم کے کام کرتے وقت ساتھ موجود لوگوں کی صلاحیتوں سے آگاہی ضروری ہے۔ ورنہ یہ دانائی جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

حکایات کا بے جا استعمال

2 comments
ایک بچہ بہت بدتمیز اور غصے کا تیز تھا۔ اسے بات بے بات فوراً غصہ آجاتا ، وہ تمام عوامل جن کی وجہ سے وہ اسقدر بدتمیز اور غصیلہ تھا اگران کا ذمہ دار والدین کو ٹھہرایا جائے گا تو کہانی آگے نہ بڑھے گی حالانکہ سچ بات یہی ہے۔ خیر حکایت آگے بڑھانے کو ہم وجہ کو نظر انداز کرتے ہیں تا کہ لوگوں کو عبرت آموز حکایت پڑھنے کو ملے۔ اور دیکھیں کے بچے کے والدین کو احساس ہوا یا نہیں اپنی کوتاہیوں کا اور انہوں نے اس کے سدھار کے لیئے کوئی کوشش کی یا نہیں۔ اور اگر ایسی حکایات نہ بنے گیں تو لوگوں کا کیا بنے گا۔ وہ عبرت کیسے پکڑیں گے۔ آخر انہوں نے بھی تو سبق حاصل کرنا ہے۔

تو جناب ہوا یوں کہ والدین نے اس بچے پر کنٹرول کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے، کیوں کہ اب پانی سر سے گزر چکا تھا اور بچہ بھی ماں باپ کے حربوں کو خوب سمجھنے لگا تھا۔الٹا وہ انکو بتاتا کہ انسان کو اپنے بچوں کی تربیت یوں کرنی چاہیئے۔ اسکی ان حرکتوں کی وجہ سے گھر میں ماں باپ الگ طوفان بدتمیزی برپا کیئے رکھتے۔ باپ کہتا بالکل اپنے نانا جیسا ہے۔ اور ماں کہتی دادا پر گیا ہے۔ جبکہ اسکی پیدائش پر پورا خاندان کہہ رہا تھا کہ میرے پر گیا ہے ۔۔۔ میرے پر گیا ہے۔
ایک روز اس کے والد کو ایک ترکیب سوجھی ۔ اور انٹرنیٹ پر "بدتمیز بچے کا علاج" سرچ کیا تو اک حکایت مل گئی۔خوشی سے اچھل پڑا کے لو جی مل گیا علاج ۔ شام کو دفتر سے واپسی پر کیلوں کا ڈبہ لے آیا۔ اور انتظار کرنے لگا کہ بچہ غصے میں آئے تو عملی انداز میں بچے کی تربیت کا کام سر انجام دیا جائے۔

زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا ۔ بیٹے کے غصہ میں آتے ہی باپ نے خلاف توقع بڑی نرمی سے کہا کہ بیٹا وہاں میز سے کیلوں کا ڈبہ اٹھا لاؤ۔ بیٹا نے باپ کو حیرت سے دیکھا اور کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں جا کر اک ٹرے میں پانچ چھ کیلے رکھ لایا۔ باپ کا دماغ گھوم گیا۔ مگر بڑی نرمی سے دوبارہ سمجھایا بیٹا کیلے نہیں کیلیں۔

اب بیٹے کو گھر کے پچھلے حصے کے پاس لے جا کر کہا، بیٹے جب تمہیں غصہ آئے اس ڈبہ میں سے ایک کیل نکال کر یہاں دیوار میں ٹھونک دینا پہلے دن میں ہی لڑکے نے دیوار میں لاتعداد کیلیں ٹھونک ماریں۔ باپ کو بڑا غصہ آیا کہ حکایت میں ۳۷ تھیں۔ خیر دو دن گزرے ہونگے کہ بیٹے باپ کے سامنے پیش ہوا۔ باپ خوش ہو گیا کہ دوسرے حصے کو سنانے کا وقت آگیا ہے۔ مگر بیٹے کی یہ بات سنکر ساری خوشی خاک میں مل گئی۔
کیلوں کا ڈبہ ختم ہو گیا ہے
اگلے دن باپ اک اور ڈبہ لے آیا۔ مگر اک دن بعد ہی دوبارہ بیٹا سامنے کھڑا دیکھکر اسکا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا اور چیخ کر بولا تو کیا ڈبہ پھر ختم ہو گیا۔

نہیں پاپا۔ بیٹے نے جواب دیا۔ دیوار میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔
تو دوسری دیوار میں شروع ہو جاو جا کر۔ باپ نے بیچارگی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

پہلے ہفتے میں ہی بچہ سمجھ گیا کہ غصہ کنٹرول کرنا آسان ہے لیکن دیوار میں کیل ٹھونکنا خاصا مشکل کام ہے۔ کیوں کہ غصے میں اندھے ہو کر کیل ٹھونکنے سے اکثر ہاتھ پر بھی چوٹ لگ جاتی۔ اس نے یہ بات اپنے والد کو بتا ئی۔
والد جو سوچ رہا تھا کہ یہ حکایت تو میرے گلے پڑ گئی۔ پورا گھر کیلوں کیل ہوا ہوا ہے۔ اور ہر وقت جو ٹھک ٹھک کی آواز وہ الگ۔ خوش ہو گیا۔ کہ بچہ تیز جا رہا ہے۔ پھر خیال آیا کہ حکایت والے نے اضافی وقت احتیاط لکھا ہوگا۔


اب پارٹ ٹو کے مطابق 
کہا کہ جب تمہیں غصہ آئے اور تم اسے کنٹرول کرلو تو ایک کیل دیوار میں نکال دینا۔اس کام میں بیٹے کو بہت جلد احساس ہو گیا۔ کہ کیل نکالنا کوئی آسان کام نہیں۔ جب کوئی کیل نکالتا تو کیل اکثر سیدھا نہ نکلتا اور زور آزمائی کی وجہ سے سارا پلستر اکھڑ جاتا۔ اب اسے اس بات پر غصہ آتا کہ اک تو غصہ کنڑول کرو اور اوپر سے کیل نکالنے کی مشقت۔ اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ کسی کو چار گالیاں دے کر من کا بوجھ ہلکا کر لیا جائے۔ خیر لڑکے نے باپ کی ہدایت کے مطابق کا کیا اور بہت جلد دیوار سے ساری کیلیں جن کی تعداد کا کوئی حساب نہیں تھا ، نکال دیں۔

باپ جب بیٹے کو لے کر نصیحت کی غرض سے دیوار کے پاس پہنچا تو پوری دیوار میں جابجا سوراخ اکھڑا پلستر اوراینٹوں کے ٹوٹنے سے بد ہیئت دیوار کو دیکھکر غصے میں پاگل ہو گیا۔سوراخوں میں چیونیٹیوں نے گھر بنا رکھے تھے۔ ابھی کچھ مہینے پہلے ہی پینٹ کروایا تھا۔ اسکا بھی ناس ہو چکا تھا۔ بیٹا باپ کی حالت دیکھ کر کیل اور ہتھوڑی لے آیا۔ اور کہا ابا جی آپ کو بھی اس مشق کی اشد ضرورت ہے۔
باپ نے باپنے غصے پر قابو پا کر اس حکایت لکھنے والے کے اسلاف کی شان میں دل ہی دل میں بے بہا نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا، بیٹا تم نے اپنے غصہ کو کنٹرول کرکے بہت اچھا کیا لیکن اب اس دیوار کو غور سے دیکھو یہ پہلے جیسی نہیں رہی، اس میں یہ سوراخ کتنے برے لگ رہے ہیں۔ پینٹ پر خرچہ الگ ہوگا اب بیٹا۔ جبکہ ہلکی پھلکی مرمت کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم نے اسے بنوانا ہے۔ بالکل اسی طرح جب تم کسی پر چیختے چلاتے ہو تو اس کے دل پر بھی زخم بنتے چلے جاتے ہیں۔ بھلے تم بعد میں معافی مانگ لو مگر نشان وہیں رہے گا۔ اور اگر وہ بندہ کمینہ ہے تو اپنی باری پر بدلہ ضرور لے گا۔ اور پھر زخم در زخم کی اک داستاں شروع ہو جائے گی۔بیٹا باپ کی بات سمجھ گیا۔ اور اس نے اک سیاسی وعدہ بھی کیا کہ اب وہ سدھر گیا ہے۔ مگر اک سوال جو اسکے ننھے ذہن میں آیا وہ یہ کہ چھوٹے بھائی کے دل میں جو سوراخ ہے وہ ماں باپ کے جملوں کی وجہ سے ہے؟ ان کی غصیلہ پن اور بدزبانی کو روکنے کے لیئے کیا کرنا چاہیئے۔ اس سوال پر باپ پر وہی غصے کا موروثی دورہ پڑ گیا۔ اور وہ دیوار میں کیلیں ٹھونکنے لگا۔ جبکہ بیٹے نے کمرے کی را ہ لی۔

اخلاقی سبق: جب آپ کسی کو نصیحت کرو تو لازم ہے کہ وہ برائی آپ کے اپنے اندر نہ پائی جاتی ہو۔ باقی بھلے ہزار برائیاں ہوں۔ اور بچوں کی تربیت پنگوڑے سے کرنی چاہیئے نہ کہ جب کہیں سے حکایت ہاتھ آجائے تب۔

انداز بیاں اور

0 comments
کہتے ہیں کسی ملک پر اک بادشاہ کی حکومت تھی۔ یاد رہے یہ ایس-ایچ –او بادشاہ نہ تھا۔ کیوں کہ ہمارے ہاں عام روایت ہے کہ ایس-ایچ-او بھی اپنے علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے۔ 
بادشاہ دن بھر امور مملکت میں مشغول رہتا عبادت گزار بھی تھا ایسا لوگ کہتے۔شکار کا بھی شوقین تھا۔ بندھے ہرن مارنے میں کمال مہارت تھی۔ ان تمام کارگزاریوں کے بعد رات کو تھک ہار کر سوتا۔ گہری نیند اتنی کہ سویا مویا والہ مقولہ اس کو دیکھ کر ہی بنا ہوگا۔ خواب اول تو آتے ہی نہ ہونگے اس قدر گہری نیند میں ؛اور اگر اک آدھا بھولا بھٹکا خواب آ بھی جاتا تو یاد کہاں رہتا تھا۔ اسی لیئے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا بھی دربار میں نہ رکھا کہ بلاوجہ خرچہ بڑھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ معاشیات پر بھی گہری نظر تھی۔ وگرنہ پہلے دور کے بادشاہ تو اپنا ذاتی خواب کی تعبیریں بتانے والا رکھتے تھے جو مزاج آشنا بھی ہوتا اور خوب موڑ توڑ کر تعبیریں بتایا کرتا ۔ انعاما خلعت فاخرہ پایا کرتا۔ اس بادشاہ نے اس روایت کو بھی ختم کیا اور صرف خلعت دینی شروع کی۔ 
خیر اصل قصے کی طرف آتے ہیں کہ اس بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اُس کے سارے دانت ٹوٹ کر گر پڑے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ خواب کا آخری حصہ ہے۔ بقیہ خواب بادشاہ کو یاد ہی نہ رہا۔ کہ دانت کیوں ٹوٹے کس نے توڑے؟ یاد رہتا تو صبح تعبیر بتانے والے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ ہاں توڑنے والے کی گردن جلاد کے حوالے کی جاتی۔ اور گستاخ اپنے کیئے کی سزا پاتا۔ 
بادشاہ کہ اس خواب دیکھنے کی خبر سنکر کام چور وزیروں نے مشورہ دیا کہ اس خوشی میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا جائے۔ اور بادشاہ کی طرف سے مثبت جواب پاتے ہی خوشی کہ شادیانے بجانے لگے۔ طے یہ پایا کہ امور مملکت کو کسی اور دن کے لیئے اٹھا رکھا جائے۔ آج صرف اور صرف اس خواب کی تعبیر ڈھونڈی جائے۔
بادشاہ نےخوابوں کی تعبیر و تفسیر بتانے والے ایک عالم کو بلوا کر اُسے اپنا خواب سُنایا۔
مفسر نے خواب سُن کر بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟ اصل میں مفسر پریشان ہو گیا کہ اس بےتکے اور بے ڈھنگے خواب کی کیا تعبیر بیان کرے۔ لہذا زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں گستاخی کر بیٹھا۔
بادشاہ کو غصہ تو بہت آیا مگر ضبط کر گیا اور مسکرا کر جواب دیا ؛ہاں، میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔

اب مفسر کو یقین ہو گیا تھا کہ بادشاہ عقل سے پیدل ہے اور کوئی سواری نہیں رکھتا اپنے پاس۔ پر مرتا کیا نہ کرتا بیٹھ گیا زمین پر اور لگا آڑھی ترچھی لکیریں کھینچنے۔ پانچ چھ کونوں والے سارے ستارے بنانے کیبعد سارا فرش کا بیڑہ غرق کرکے سراٹھایا۔ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھتے ہوئے بادشاہ سے کہا؛

بادشاہ سلامت، اسکی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپکے سارے گھر والے آپ کے سامنے مریں گے۔
بادشاہ کا چہرہ غیض و غضب کی شدت سے لال ہو گیا۔ وہ سمجھا کہ میں نے جو تخت کے لیئے اپنے بھائی مروائے تھے اسکی طرف اشارہ کر رہا یہ نابکار۔ دربانوں کو حکم دیا کہ اسمفسر کو فی الفور جیل میں ڈال دیں اسکا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا اور کسی دوسرے مفسر کا بندوبست کریں۔
دوسرے مفسر نے آ کردربانوں سے پہلے مفسر کا حال سنا پھر بادشاہ کا خواب سُنا ۔ قادرالکلام نہ تھا کہ بات میں رنگ بھر سکتا سو کُچھ ویسا ہی جواب دیا اور بادشاہ نے اُسے بھی جیل میں ڈلوا دیا۔
تیسرے مفسر کو بلوایا گیا، وزیروں نے بتا یا کہ یہ اس شہر میں آخری تعبیر بتانے والا ہے۔ ذرا ہتھ ہولا رکھنا۔ 
ادھر مفسر بھی کافی بادشاہوں کا مزاج آشنا تھا۔ کیوں کہ یہ اسکا آبائی پیشہ تھا۔ اور بادشاہ کے تیور دیکھ کر بات کرنا اس نے پنگوڑے میں ہی سیکھ لیا تھا۔ اور چرب زبانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔


بادشاہ نے اُسے اپنا خواب سُنا کر تعبیر جاننا چاہی۔
مفسر نے بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟
بادشاہ نےبرداشت سے کام لیتے ہوئے کہا؛ ہاں مُجھے یقین ہے میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔
اس مفسر نے فرش پر پہلے سے بنے نقش و نگار سے کام چلا لیا اوراک وزیر کی طرف مڑتے ہوئے کہا؛اوئے ادھر بیٹھے ہو۔ جاؤ بھاگ کر مٹھائی لاؤ۔ اور جشن کا اعلان کرا دو۔
پھر بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ جہاں پناہ آپکو مُبار ک ہو۔ بادشاہ جو حیرت کے ساتھ اسکی حرکتیں دیکھ رہا تھا؛کہنے لگا؛ کس بات کی مبارک؟
مفسر نے ادھر ادھر دیکھا اور ملکہ عالیہ کو موجود نہ پا کر بادشاہ کے کان میں جواب دیا؛ بادشاہ سلامت، آپکی بیوی آپ کے سامنے مرے گی۔
بادشاہ نے اندرونی مسرت چھپاتے ہوئے تعجب کے ساتھ مفسر سے پوچھا؛ کیا تمہیں یقین ہے ؟
مفسر نے جواب دیا؛ جی بادشاہ سلامت، میرا علم کامل ہے اس معاملے میں بادشاہ نے خوش ہو کر مفسر کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔ اور تعبیر کسی اور کا نہ بتانے کا وعدہ بھی لیا۔
اس بات کا یہی مطلب بنتا ہے کہ بادشاہ باقی سب کو تو مروا چکا تھا۔ صرف بیگم ہی زندہ تھی۔

اخلاقی سبق: مفہوم دونوں باتوں کا ایک ہی ہے لیکن بات کرنے کے انداز سے کتنا فرق آ گیا۔ پہلے عالم کے الفاظ کا چناو غلط ہونے کیوجہ سے اسکی کی ہوئی تعبیر سننے کو ناگوار گزری جس کیوجہ سے اس کو سزا ملی اور آخری عالم نے بھی کوئی تیر تو نہ مارا پر بادشاہ کی دکھتی رگ جاننے کے سبب انعام کا حقدار ٹھہرا۔
ہمیں بھی چاہیے کہ گر برے الفاظ استعمال کرنے ہی ہیں تو وہ استعمال کریں جو دوسرا سننا چاہتا ہے۔ 

فرہنگ: مفسر: خواب کی تعبیر بتانے والا۔ صرف اس کہانی کے لیئے۔ ویسے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں۔

سادہ منش امام

5 comments
سالوں پہلے کی بات ہے جب مولوی لوگوں کو بھی باہر کے ویزے مل جاتے تھے تب اک ایسا ہی بھولا بھٹکا مولوی لوگوں کی باتوں میں آ کر یہاں کی پیری جیسی رنگین مسند تیاگ کر لندن جیسے بے رونق اور بد عقیدہ شہر میں صرف اور صرف اسلام کی سرفرازی کے لیئے جا پہنچا۔ڈیوٹی پر آنے جانے کے لیئے عوامی بسوں کا استعمال معمول بن گیا کیوں کہ اب کوئی مرید تو تھا نہیں جو اپنی پجارو اسی کام کے لیئے وقف کر رکھتا۔ شروع میں یہ فضا دل کو راس نہ آئی مگر بیچ بیچ میں جب عوام کی چال چلن اور بازاروں کی رونق دیکھی تو رفتہ رفتہ دل کو یہ موسم راس آنے لگا۔


لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔ حضرت روز سوچتے کہ یار اتنا بڑا شہر اور صرف اک بس؟ مگر اک خدا ترس نے بتایا کہ وقت کی پابندی بھی کسی بلا کا نام ہے۔ امام صاحب کو بڑی حیرانگی ہوئی اور گھر والوں کو فون پر ہنس ہنس کر بتایا کہ یار لوگ بڑے وقت کے پابند ہیں اور اسے بلا سمجھتے ہیں۔ بیوقوف کہیں کے۔
ایک مرتبہ امام صاحب وقت سے پہلے سٹاپ پر پہنچ گئےتو دیکھا کہ واقعی دوسرا بس والا تھا۔ اس دن طوعاً کرہاً اس پر ہی سفر کیا اور اگلے دن اپنے یار کے ساتھ ہی سفر کرنے کی ٹھانی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ امام صاحب کا اسکے ساتھ صحیح یارانہ لگ گیا تھا۔ اور آپ کو وہ لندن کے نشیب و فراز سے ذرا اچھے طریق سے آگاہی دے رہا تھا۔

اگلے دن امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر اسی نشست پر جا کر بیٹھ گئے جس پر روز بیٹھا کرتے تھے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔
امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ ہو سکتا ہے ڈرائیور نےاپنی طرف سے نذرانہ پیش کیا ہو۔ اور حسب توفیق چندہ ملا کر ثواب دارین حاصل کرنا چاہتا ہو۔ یہ سوچ کر بے اختیار ہنسی آگئی کہ ویسے اتنےپیسے تو اپنے ملک میں کبھی نہیں لیئے کسی سے۔ اتنا کم ریٹ اس تو اپنا ملک ہی اچھا تھا۔ نذرانہ بھی پیش ہوتا تھا تو اسکا کوئی معیار تو تھا۔لوگ ہزاروں دیتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کرتےتھے۔

اسی کشمکش میں تھےکہ اک اور خیال نے آن گھیرا کہ کہیں کسی قسم کا امتحان تو مقصود نہیں۔ ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، اگر امتحان ہی لینا تھا تو اتنے کم پیسے؟یہ سوچناتھا کہ غصے سے پھڑکنے لگے۔ خیال آیا کہ بس ابھی سیٹ تلے تعویذ دباتا ہوں اور اسکا تو بیڑا پار کرتا ہوں۔ مگر پھر یاد آیا کہ مؤا کافر ہے۔ کیا اثر ہوگا۔ اور پہلا خیال ترک کر دیا۔
بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔ شائد آپکو معلوم نہیں کہ اتنے کم چندے ہمارے ہاں قبول کرنےکا رواج نہیں۔ نذرانہ میں تو ہزاروں پار کر دیتے پر جس دن سے آئے ہیں دیسی مرغے کو ترس رہے ہیں۔ اگر نذرانہ ہی پیش کرنا ہے تو کوئی بہتر چیز لائیے۔ اتنے کم پیسے نکلنے پر تو ڈاکوبھی درگت بنا دے گا۔ ایمان کی حفاظت خاک ہوگی۔
ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کے پاس آکر کالے بکرے کے صدقے کے بارے میں بنی باتوں کی حقیقت جاننا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس تو ویسے ہی دئیے تھے کہ کل آپکو کلیجی کی دکان پر بھاؤ تاؤ کرتے دیکھا تو سوچا کہ شائد پاؤ دستی کھانے سے جان میں جان آئے۔ آپکی توند روز بروز کم ہوتی جاتی ہے۔
امام صاحب کو جب جملے کی سمجھ آئی تو بس سے نیچے اتر چکے تھے۔ اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے،غصےسے تھر تھر کانپنے لگے۔ گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا جو پتہ نہیں اس وقت کہاں سے سڑک کے کنارے آگیا تھا۔ بس کے پیچھے بھی نہ بھاگ سکے۔وگرنہ اس گستاخ کا منہ توڑ دیتے۔ آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر رونے لگے اور کہنے لگے اپنے ملک ہوتا تو اس سے اتنا صدقہ خیرات کراتا کہ بقیہ زندگی یہ صدقے خیرات پر پلتا۔ نامراد میری کلیجی کا بھی مذاق اڑا رہا ہے یہاں۔ مؤا کافر جانتا نہیں کہ ہم کتنے بڑےگدی نشین ہیں۔
اور اسکے بعد۔۔.....
یاد رکھیئے کہ کچھ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں۔
صرف اتنا ہی ذہن میں رکھ کر، کہیں کوئی ہمارے روزمرہ معمولات کے تعاقب میں تو نہیں؟ اور اگر ہے تو ایسے شخص کو منہ توڑ جواب دینےکی ضرورت ہے۔

پلاسٹک کی پلیٹ

3 comments
پلاسٹک کی پلیٹ کسی کام کی نہیں ہے۔
----------------------------------------
یہ اس آدمی کے بچے کا قصہ ہےجس کے بڈھے باپ کے ساتھ کیئے گئے ناروا سلوک کی دل ہلا دینے والی داستاں آپ نے پڑھ رکھی ہوگی۔
باپ کی طرح وہ ہر طرح سے خوش حال تھا اور وجہ ورثہ میں ملنے والی بے بہا دولت تھی ۔
اس کی زندگی ہی میں اس کی ساری اولاد کی شادیاں ہوگئی تھیں۔ بالکل اپنے باپ کی طرح

بٹیاں شادی کے بعد سسرال جاکر بس گئیں کیوں کہ دستور یہی تھا۔ وگرنہ کسی اور کے گھر جا کر بَستیں تو بِستی کا مقام تھا۔ اور بیٹے بھی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے شادی کے بعد بیویو ں کو ساتھ لیکر الگ الگ مکانوں میں رہنے لگے۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے والے مقولےکےمصداق اب گھر میں صرف بوڑھے ماں باپ رہ گئے اور روایت کے مطابق ان کی خدمت کے لئے ایک ڈرائیور اور ایک نوکرانی گھر میں موجود تھی۔

وہ بیٹا جس نے دادا کے مرنے پر پلاسٹک کی پلیٹ سنبھال رکھی تھی سب سے بڑا تھا۔ کمینے نے پلیٹ بینک لاکر میں رکھوا چھوڑی تھی کہ اسی پلیٹ میں ہی کھانا دوں گا۔ اور بینک لاکر کا اتنا بل بھر رہا تھا کہ اس جیسی ہزاروں نئی پلیٹیں خرید لیتا، مگر ضد بھی آخر دنیا میں کسی چیز کا نام ہے۔ باپ نے اسے بارہا سمجھایا کہ سارا کرتوت تیری ماں کے ہیں پر بیٹے نے نہ ماننا تھا نہ مانا۔

بچوں کا معمول تھا کہ چھٹی کے دن زیادہ تر وقت اپنے والدین کے پاس ہی گزارتے۔ اس طرح بوڑھے والدین کو کوئی خاص تنہائی محسوس نہیں ہوتی تھی عام تنہائی کا ذکر اس افسانے میں اضافی ہے۔ بقیہ ہفتے کے دن وہ کن چیزوں سے دل بہلاتے تھے معلوم نہیں۔ 

اب بڈھا اپنی بیوی اور بڑا بیٹا اپنے ماں کی موت کا منتظر تھا تاکہ کہانی آگے بڑھ سکے۔ دونوں کی اپنی اپنی جگہ نیند حرام تھی۔ ادھر وہ بڑھیا جس نے اپنے سسر کو سکھ کا سانس نہ لینے دیا وہ اب اپنے کیئے پر شرمندہ تھی کیوں کہ سارا کیا دھرا اسی کا تھا۔ مگر پھر یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتی کہ میں نے تو پہلے ہی اس دنیا سے چلے جانا ہے۔

وقت چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔ اس بات کا اندازہ ان تینوں کے علاوہ کسی کو نہ تھا۔ چند برس تھے کہ گزرنے میں ہی نہیں آ رہے تھے۔ باقی بہن بھائیوں نے بھی بڑے بھائی کو سمجھایا کہ مفت میں ہلکان مت ہو۔ مگروہ کسی کی سننے پر آمادہ نہ تھا۔اسے بس اک ہی دھن تھی کہ باپ جب اسکے گھر آئے گا ماں مرنے کے بعد تو اسے پلاسٹک کی پلیٹ میں کھانا دوں گا۔ یہ سنکر سب ہنستے کہ کھانا تو دے گا آخر۔ کچھ نیا کر۔۔۔ ۔ اور خوب قہقہے لگاتے۔ ادھر بڑھیا ہنستی کے دیکھ میں نے تیرے باپ کے ساتھ کیا کیا اور تیرے بچے تیرے ساتھ کیا کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ مگر بڈھا اس بات پر اک مسکراہٹ دے کرچپ کر جاتا۔ جیسے اسے کسی کی پرواہ نہ ہو۔ اسکا یہ سکون دیکھ کر بڑا بیٹا اور جل بھن جاتا۔

آخر وہ وقت آن پہنچا۔ موت سے کسی کو مفر نہیں۔ بڑھیا نے اک الوداعی نظر اپنے بوڑھے شوہر پر ڈالی جو آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیئے اس کے مرنے کا منتظر تھا۔ اور داعی اجل کو لبیک کہا۔ ماں کے مرنے کی خبر سنتے ہی بڑے بیٹے نے یاہووووووو کا نعرہ مستانہ لگایا۔ اور پھرافسردہ سی شکل بنا کر رونے لگا۔تمام خاندان سوگ منا رہا تھا۔ مگر ہر کسی کی زبان پر یہی تھا۔ کہ اب بڈھے کا کیا ہوگا۔ کیسے کرے گا زندگی کے دن پورے۔ بڑا بیٹا دوڑا دوڑا بینک گیا اور پلیٹ نکلوا لایا۔ چوم کر دھو کر طاق میں سجائی اور اپنے بچوں کو بتایا کہ دادا جی کے آتے ہی اس میں کھانا دیا جائے گا انکو۔ اسکی بیوی بھی بہت خوش تھی کہ مجھے کوئی ڈرامہ بازی نہیں کرنی پڑے گی اور ماحول پہلے سے بنا ہوا ہے۔ اب سارے اس انتظار میں کہ کب بڈھا آئے اور کہے کہ میں اب تنہا نہیں رہ سکتا۔

مگر وہ دن نہ آیا۔ آخر انتظار سے تنگ آکر بیٹا اپنے باپ کے گھر پہنچا تو پہلے تو دروانے پر لگا بورڈ دیکھ کر ہی ہکا بکا رہ گیا۔
رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو(یاد رہے بیٹے کا نام زاہد تھا)
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
اندر دیکھا کہ دنیا ہی بدلی ہوئی ہے۔ باپ کے تین دوست جو باپ جیسی ہی عادات و خصائل کے مالک تھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اک بہترین سا ہوم تھیٹر بہترین ساؤنڈ سسٹم کے ساتھ چل رہا تھا۔ تاش کی بازیاں لگی ہوئیں۔ داؤ پرلگی رقم بھی سامنے دھری تھی۔ جبکہ ملازم پینے پلانے کے بندوبست کر رہا تھا۔ بیٹے کو دیکھ کر سب نے اک قہقہ لگایا اور کہا کہ اوئے پلاسٹک کی پلیٹ کدھر ہے آملیٹ۔ دوسرے نے جملہ کسا کہ یار اُدھر آ رہے تھا نہ ہمارا یار، تو نے جلدی کی آنے میں۔ چل جا کر چھت والا کمرہ سیٹ کرا۔ تیسرا کہنے لگا عقل کا اندھا ہے تیرا بچہ اس کی چھت پر تو کوئی کمرہ ہی نہیں۔ اک ممٹی سی ہے۔ CDA والے تو اب اجازت ہی نہیں دیتے چھت پرکمرہ بنانے کی۔ یہ سنکر سب قہقہے لگانے لگے۔ اور لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ بیٹے کی رونی صورت دیکھ کر اک نے کہا کہ یار جا کچھ دن رہ آ اس کے گھر۔ اسکا جی ہلکا ہو جائے گا۔ ورنہ تاریخ بھی یہیں ختم ہو جائے گی۔ ویسے تو نے اتنے سال اسکو ذہنی اذیت میں رکھ کر اچھا نہیں کیا۔ باپ نے بیٹے کو پیار سے سمجھایا بیٹا ہمہ یاراں بہشت ہمہ یاراں دوزخ۔ یہ سنکر بیٹا وہاں سے بھاگااور گھر آکر پلیٹ پر کھڑا ہو کر کودنے لگا کہ کسی کام کی نہیں ہےپلاسٹک کی پلیٹ۔


کہتے ہیں کہ اسکا دماغی توازن کھو گیا تھا اور وہ سڑکوں پر پکارتا پھرتا تھا۔
پلاسٹک کی پلیٹ کسی کام کی نہیں ہے۔

اخلاقی سبق: انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر بیٹا باپ کے دوست دیکھ لیتا تو کبھی بھی اس قسم کے منصوبے نہ بناتا۔ اور نہ ہی پاگل ہوتا۔ اور سب سے ضروری بات تاریخ اتنی جلدی اپنے آپ کو نہیں دہراتی۔ وہ کوئی رٹا تھوڑی لگا رہی ہوتی۔

Tuesday 27 November 2012

انوکھا بیج

3 comments
زید گملے والی کہانی سے مالک بن بیٹھا اور سابقہ مالک کی طرح اس نے بھی شادی نہ کی اور نہ ہی اسکی کوئی اولاد ہوئی۔ دور اندیش ہوتا تو شادی کرتا، ملوکیت کو فروغ دیتا اور اس جھنجٹ سے جان چھڑاتا مگر بوڑھا ہونے پر وہی مسئلہ دوبارہ درپیش آگیا۔ سست تو ازل سے تھا۔ نئی ترکیب کہاں سوچتا سو پرانی والی میں ہی ترمیم کرلی۔ اور بیج تمام ڈائریکٹرز کے درمیان بانٹ دیا۔ خوبی قسمت دیکھیئے کہ تمام پرانے ڈائریکٹرز اپنے ساتھ ہونے والی ظلم کی داستا ں مشہور کر گئے تھے۔ تو تمام نئے اس کمینگی سے بخوبی آگاہ تھے۔
کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج کے سڑنے کی باتیں کرنے لگے سوائے جگے کے جو پریشان تھا ۔ وہ خاموش رہتا اور اپنی خِفت کو مٹانے کیلئے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا ۔ دراصل جگے نے پرانا گملا خرید کر اس میں پرانی مٹی ڈالی اور کھاد بھی نہ ڈالی۔ مگر پھر بھی بیج سے پودا اگ آیا جو اصل پریشانی کا سبب تھا۔
ایک ماہ بعد زید نے پھر سب ڈائریکٹرز کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا ۔ سب اجڑے اور سوکھے سڑے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر جگا جس کا بیج اُگا ہوا تھا وہ خوبصورت پودے کے ساتھ اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دُور والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا اور کہا کہ یہ نامراد پودا تو اگنے میں ہی نہیں آرہا۔ اور کسی دوشیزہ کے اخلاق کی مانند سڑتا رہا۔ اس اُمید سے کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے
سب کی تقاریر سننے کے بعد زید نے بھی حسب روایت کہا “ایک آدمی کم لگ رہا ہے” اور الفاظ کے چناؤ میں بھی تبدیلی نہ کی۔ اس پر جگا جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھُپا بیٹھا تھا کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا “جناب ۔ مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج اگ پڑا ”۔ اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے جگے کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ اک تو باقاعدہ لپٹ لپٹ کر رونے لگا۔ جگے نے اسے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں ہوتا رہتا ہے۔ 
چائے کے بعد زیدنے اعلان کیا کہ اس کے بعد جگا ادارے کا سربراہ ہو گا ۔ اس پر کئی حاضرین مجلس جو دوراندیش تھے اور پہلے سے سوچ رہے تھے کہ اس بار بھی کوئی گھٹیا پن تو لازمی ہوگا آرام سے بیٹھے رہے۔ بقیہ نے حیرانگی کا اظہار کیا۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے اک گملے کی وجہ سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیئے اور جگا ہی وہ آدمی ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانتدار بھی ہے ۔ میں نے آپ سب کو صحیح اور بہترین بیج دیئے تھے جن کا نہ اگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ سوائے جگے کے آپ سب نے بیج اگانے کی زحمت بھی نہ کی"۔

اخلاقی سبق: اے بندے ۔ مت بھول کہ جب تجھے کوئی بیج اور گملا دے تو اسے اک بار اگا کر تو دیکھ لے۔ تیرا کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے قسمت کھل جائے۔

آئی پیڈ-III

2 comments
ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔

سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے

اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟
...
ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے

شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے آئی-پیڈ-III لے دے، میں بھی ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے امی ابو کی عیاشی لگی ہوئی۔ چلو ابو کا ٹیبلٹ تو آفیشل ہے پر امی نے جو دھوم مچائی ہوئی وہ۔ میں آئی-پیڈ-III لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد بیٹھے رہیں گے۔ جب میں ٹیمپل-رن براوؤ کھیل رہا ہونگا تو سب کی نظر میری اچیومنٹس پر ہوگی۔ میں دی-کرس اور مشینیریم جیسی ذہنی گیمز کھیلوں گا تو سب دوست مجھ سے جلیں گے۔ میں تمام گھر والوں کی توجہ کا مرکز بنا رہوں گا۔ بہن بھائی جہاں بھی گیم میں اٹکیں گے تو مجھ ہی پکارا جائے گا۔دوست احباب پائریٹڈ گیمز کے لیئے میرے پیچھے پیچھے پھریں گے۔ ہر کوئی پوچھے گا مجھ سے کہ یہ جیل بریک کیسے ہوگا۔ امی جب ون ٹچ ڈرائنگ جیسی بچگانہ گیمز پر دو دو گھنٹے اٹکی رہیں گی تو میں دل کھول کر مذاق اڑاؤں گا۔

اور تو اورابو کی توجہ کا بھی ایسے ہی مرکز بن جاؤں گا جیسے کوئی بلیک بیری۔جتنے بھی تھکے ہونگے مجھے کہیں گے کہ میری ٹیبلٹ پر بھی یہ والی گیمز کر دو نہ۔ الغرض سب کو خوب ذلیل کر کے دل کی بھڑاس نکالوں گا۔

اے خدا میں نے تجھ سے زیادہ نہیں مانگا بس یہ مانگا ہے کہ مجھے اس نوکیا 1210کی جگہ آئی-پیڈ-III لے دے۔

ٹیچر کے شوہر نے افسوسناک انداز سے بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا “ اے خدایا کتنا کمینہ بچہ ہے۔ اور اپنے ماں باپ کے پیسے کا کیسے اجاڑا کرنا چاہتا ہے۔

ٹیچر نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ مضمون “ہمارے اپنے بچے“ کا لکھا ہوا ہے.

ماسٹر

2 comments
قد کے معاملے میں انشاء کے قول کی مثال کہ ٹانگیں زمیں تک پہنچ جائیں اور دیکھنے میں یوسفی کے اس قول کی زندہ تصویر کہ کبھی کسی بڑے آدمی کا سایہ تک نہیں پڑنے پایا۔مگر آدمی بہت خاص۔ یوں سمجھیئے کہ ارسطو ، بقراط اور سقراط جن مضامین میں کمزور تھے یہ حضرت ان میں ید طولی رکھتے تھے۔ ایک بار اک جاہل مطلق کواسکا مطلب سمجھانے بیٹھے تو فرمانے لگے کہ بھائی قانون کے لمبے ہاتھوں والی بات ہی سمجھو۔ اس تشریح پر ہم کافی دیر تک سر دھنتے رہے۔ آخرخود ہی تنگ آ کر کہنے لگے کہ میاں بس کچھ احباب سمجھ رہے ہیں تم لوگوں نے بوٹی پی رکھی ہے۔
پہلی ملاقات میں ہی میں انکا معتقد ہوگیا۔ اور ۶۰ گز پگڑی پیش کر دی۔ فرمانے لگے کہ ہماری غریب قامتی کا اس سے زیادہ مذاق آج تک کسی نے نہیں اڑایا۔ ناراض ہو گئے۔راقم نے اس گستاخی کےازالہ کے لیئے پگڑی واپس لینی چاہی تو باقاعدہ ناراض ہو گئے۔اک دن وجد میں آکر فرمانے لگے میاں تم دنیا کے واحد خوش نصیب آدمی ہو جو پہلی بار میں ہی معتقد ہوئے ورنہ لوگ اس کام میں برسوں لگا دیتے۔
نظریات بہت ہٹے ہوئے۔ اکثر راہ راست سے ۔ اک بار کہنے لگے کہ ہم اس سے ہٹ کر چلتے ہیں جو راستہ عام ہو جائے۔ اور اسکی عملی تصویر یوں پیش کی کہ ہمیں ساتھ لے کر جو اقبال پارک کے لیئے نکلے تو پورا لاہور پھروا دیا۔ واپسی پر اک گستاخ نے اسقدر طویل راستے سے بچنے کے لیئے اک راہگیر سے راستہ پوچھا تو وہ یوں بتانے کھڑا ہو گیا گویا راستہ بتانے کے لیئے ترسا ہوا ہو۔ کہنے لگا بھائی یہاںسامنے سے بس پر بیٹھیئے اور سیدھے جا پہنچیئے۔ہمارا ایمان تو متزلزل نہ ہوا مگر اس حرکت سے اک بنا بنایا مرید جاتا رہا۔ کئی سال بعد جب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو بہت رویااور معافی مانگی۔ ماسٹر نے اسے کھلے دل سےمعاف کر دیا مگر راستوں کے بارے رہنمائی فرمانے سے انکاری ہو گئے۔سنا ہے کہ وہ راہ چلتے چلتے راستہ بھول جاتا تھا۔ واللہ اعلم
دوستوں کی محفل میں بیٹھنے سے گریز کرتے۔ کم مرتبہ لوگ اکثر شان میں گستاخی کر دیتے مگر ماسٹر کی پیشانی پر کبھی بل نہ آیا۔ ہمیشہ کھلے دل سے سب سنا۔ بسا اوقات جب راقم کی محبت جاگتی اور وہ جواب دینےکی کوشش کرتا تو منع کردیتے۔کہتے انکی زبان درازی کی بجائے تمہاری تصریحات تکلیف دیتی ہیں۔ ایسی ہی اک محفل میں اک بار اک گستاخ رانجھے کی قربانیوں کا تذکرہ بڑے زوروشور سے کر رہا تھا۔ کچھ دیر سنتے رہے ۔ آخر کان پھڑکنے لگے اور پھر خود بھی۔ برداشت نہ ہوا اور اسے خوب جھاڑ پلائی۔ فرمانے لگے جھوٹے تھے سب ۔ کام چور تھا رانجھا۔ بھینسیں بھی نہیں چراتا تھا الٹا مالکوں کی ہی لڑکی پر ڈورے ڈالنے لگا۔ انہوں نے نکال دیا تو جوگی بن کر مانگ مانگ کھانے لگا۔ کام پھر نہ کیا۔ مہینوال اتنا کمینہ تھا کہ دریا کنارے بیٹھا رہتا اور کبھی تیر کر ادھر آنے کی ہمت نہ کی۔ سوہنی جب ڈوب کر مر رہی تھی تو دوسرے کنارے بیٹھا دیکھتا رہا۔ اور پھر کسی اور تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اک بخت برگشتہ نے لقمہ دیا کہ اس نے بھی سنا ہے چھلانگ لگا دی تھی تو سیخ پا ہو کر کہنے لگے۔ کہاں چھلانگ لگا دی تھی۔ ڈٹھے کھوہ میں؟ یہ نظارہ چشم فلک نے تو نہیں دیکھا۔ پنوں کو تو ہمیشہ ہی گالیاں دیتے۔ فرماتے تھے کہ وہاںوقت گزاری کے لیئے سسی سے گپیں مار رہا تھا کہ پیچھے گاوں سے یار لوگ آدھمکے اوئے چل یارا واپس۔ نکل کھڑا ہوا کہ ہم تو پردیسی ہیں بھائی۔ مجنوں کا ذکر جن الفاظ میں کرتے راقم الحروف ان کو کسی بھی طرح کے اشاعتی جملے میں بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اور مرزا پر تو خاص شفقت فرماتے۔
بےنیازی اس قدر تھی کہ اکثر نیازی انہیں اپنا دشمن خیال کرتے۔ درویشی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ گماں ہے کہ فرشتے تو ابھی اور کوٹ رہے تھے پر موصوف دنیا میں رونق افروز ہو گئے۔ غائب ہوتے تو کئی کئی دن پتہ نہ ملتا۔ مگر رمز شناس خوب سمجھتے تھے کہ کہاں ملیں گے اور جا دبوچتے تھے۔ گرچہ آپ ایسے موقعوں پر پہچاننے سے انکاری ہو جاتے تھے مگر احباب کا بھی آزمودہ نسخہ تھا کہ چند قطرے عرق لیموں یادداشت واپس لانے کا بہترین حل ہے۔ زمانہ تو اور بھی خرافات پر تہمت نصیب گردانتا ، مگر لوگ کہتے ہیں تو کیا سچ کہتے ہونگے کہ مصداق ہم نے ہمیشہ نظریں پھیر لیں۔ اسی معاشرے کو سدھارنے کے لیئے کچھ عرصہ شعبہ تدریس سے بھی منسلک رہے۔ مگر جلد ہی مایوس ہو گئے ؛ کہنے لگے کہ یہ قوم نہیں ترقی کر سکتی جب تک پڑی لکڑی اٹھانے کی عادت نہیں جاتی۔ اور بات پرنسپل کا سر پھٹنے پر ختم ہوگئی۔ عینی شاہدین کی خرافات گوئی کے باوصف بھی راقم الحروف کی عقیدت میں کوئی کمی نہ آئی۔ اور ثابت قدمی سے شاگردی جاری رکھی۔
شاعری سے بھی شغف تھا۔ مگر عشق مجازی کو بنیاد قرار دیتے تھے۔ مدت گزر جانے پر بھی بنیاد میں ہی مستغرق پا کر حفظ مراتب کو مدنظر رکھ کر جی کڑا کے عرض گزاری کہ قبلہ کچھ بنیاد پر اب تعمیر بھی کیجیئے۔ یہ بنیاد در بنیاد تو اب بلندی میں کے-ٹو کو بھی مات کر رہی۔ تو خلاؤں میں گھورنے لگے۔ پھر سامنے دیکھ کر کہا کہ شیفتہ کی بھی کیا خوب غزل ہے۔ میں نے فورا نگاہوں کے تعاقب میں دیکھاتو عرض کرنا پڑی کہ یہ شیفتہ کی نہیں ، خلاق اعظم کی غزل ہے۔ تو بے اختیار سر دھننے لگے اور فرمایا یہ قافیہ ردیف دنیاوی شاعروں سے ممکن ہی کہاں تھا۔ علم عروض پر کمال دسترس تھی اور وجہ گاؤں کے تمام پٹواریوں سے یارانہ بتاتے تھے۔
منہ کا ذائقہ بدلنے کو ملازمت بھی کرتے تھے۔ مگر سال کا زیادہ حصہ موزوں ملازمت تلاشنے میں گزارتے۔ ۶سال گزرنے پر بھی مبتدی کے عہدے سے آگے نہ بڑھے۔ تو اک زباں دراز نے کہا ابھی تک ابجد خواں؟ اس پر تحمل اور بے نیازی دیکھنے لائق تھی۔ کمال سکون سے فرمانے لگے۔ کہ پہلے اس شعبہ میں رنگروٹ تھے۔ پھر اس شعبہ میں، پھر اس میں۔ اور آج کل اس میں مبتدی ہیں۔ اکثر لوگ جب کچھ عرصہ بعد ملتے تو پوچھتے کہ آجکل کس شعبہ کو مشق ستم بنا رکھا ہے۔ ایسے میں ماسٹر کے آنکھوں میں اک عجیب سی چمک آجاتی۔ اور چہرہ نور پورہ کی مثال پیش کرنے لگتا۔
ماسٹر کی زندگی کو صفحہ قرطاس پر ابھارنے کے لیئے بھی اک زندگی چاہیئے۔ انشاءاللہ اگلے کسی مضموں میں مخطوطات ماسٹر کا احاطہ کیا جائے گا۔

خط! اک دوست کے نام

2 comments
ریاض میں مقیم عمرے پر جانے والے اک دوست کے نام

السلام و علیکم!
میاں کیسے ہو؟ آخری اطلاعات تک تو بالکل ٹھیک تھے۔ مگر آخری خط سے ذہنی طبیعت رواں نہیں لگتی۔ یہ چوکور ڈبہ بھی بھئی کمال کی چیز ہے۔ کہاں ہم گھنٹوں خطابت میں سر کھپاتے۔ ورق کے انتخاب پر دماغ و دل مناظرے کرتے۔ پھر قاصد کے نخرے الگ۔ مگر میاں یہ موٹا بھائی نے تو اس سے روشناس کرا کر کمال کر دیا ہے۔ اک جھاڑو سا پکڑ کر ساری لائنوں پر پھیر دو تو بس خطاطی اور۔ ایسا برق رفتا ر خطاط تو کبھی نہ دیکھا تھا نہ سنا ۔ اور قاصد کی برق رفتاری تو دیکھنے لائق۔ ادھر مراسلہ لکھا ادھر ویسے چوکور ڈبے میں پہنچا۔ اور مزہ یہ کہ رازداری شرط۔ بھئی بہت خوب۔ اللہ بھلا کرے ہمارےموٹے بھائی کا۔ اس چیز کا استعمال سکھا کر سیدھا جنت والے پلاٹ سے ۱۰ مرلہ زمین کے حقدار ٹھہرے۔
میاں وہ مکہ کا کیا چکر ہے ؟ ہم نے تو یہاں صوفیاء کی شاعری میں ہمیشہ یہی پڑھا کہ
مکے دے وال اوہی جاندے کم جنہاں دے ٹوٹی
اب اس مصرعہ کی روشنی میں دیکھیں تو تمہیں اچھا بھلا شریف پاتے ہیں۔ پھر ادھر جانا چہ معنی دارد؟ اور اوپر سے تمہاری عمر ہی کیا ہے۔ کؤے سے تو کوئی ۴ سال چھوٹے ہی رہے ہوگے تم۔ اس بھری جوانی میں دیدار کعبہ! نہ میاں نہ۔۔۔ دیکھو ایسا نہ کرنا۔ یہ نہ ہو وہاں جا کر کوئی نیک ہونے کی کوئی دعا مانگ بیٹھو۔ اور وہ ذات بےنیاز تمہیں خالی ہاتھ نہ لوٹائے۔ جب یہ جوانی ڈھلے گی تو توبہ بھی کر لینا۔غم نہ کر عمر پڑی ہے ابھی۔ سنا ہے زیارات کا بھی ارادہ کر رکھا ہے۔ تمہیں وہاں مال مڈی جمع کرنے بھیجا ہے کہ سیر و سیاحت کرنے۔ زیارات کا اتنا ہی شوق تھا۔ تو یہاں بتاتے۔ صرف ملتان اور اچ شریف میں ہی تمہیں اتنی زیارات دکھا دیتے کہ سوچ ہے تمہاری۔ ابلیس بھی تمہاری اس حرکت سے سخت پریشاں ہے۔ اور یہی شعر پڑھتا پھرتا ہے
یہ عمرے پر جانے کا کیا تذکرہ ہے
تمہارے سوا کوئی اپنا نہیں ہے
اچھا اب جا ہی رہے ہو تو دل کو درد سے نہ بھر لینا۔ جیسے گئے ہو ویسے ہی واپس آنا۔ میں نے سنا ہے کہ وہاں جا کر طبیعت بڑی نیکی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ بڑے بڑے ہل جاتے ہیں۔ اور کچھ ظالم تو خوف خدا سے رو دھو بھی لیتے ہیں۔ اپنے محلے کے حاجی صاحب کو دیکھتا ہوں تو اور بھی رونا آتا ہے۔ کیسے آزاد مرد تھے۔ کبھی تو دختر انگور کے عشق میں مجذوب ہو کر صرف زیر جامہ میں ہی سڑکوں پر نکل آتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ میاں پردہ دیکھنے والے کی آنکھ کا ہوتا ہے۔ مگر اب دیکھو توانگور سے بھی شرماتے ہیں۔ ہر وقت چہرے پر اک رقت طاری رہتی ہے۔ ظلم یہ کہ لوگ اسکو نیکی پر محمول کرتے ہیں۔ لو بھئی یہ کون سی نیکی ہے کہ اچھا بھلا ہنستا کھیلتا آدمی روتا پھرے اور لوگ اسے حاجی صاحب حاجی صاحب کہیں۔ بس یار دل کانپتا ہے آشیاں کو آشیاں کہتے۔ تم ننھی جان، خدا نخواستہ اس طرح الجھ گئے تو ہم ۔۔۔ ۔شش شش میرے منہ میں خاک۔۔ ویسے بھی تمہارے چہرے پر نورانیت بڑی عجیب سی لگے گی۔
اچھا سنو! میرے لیئے تبرکات میں کھجور لے آنا۔ تجھے پتہ یہی وہ تبرک ہے جس پر مجھے سب سے زیادہ خوشی ہوتی۔ یہ اپنے محلے کے ہی باؤ جی جب گئے تھے۔ تو میرے لیئے جائے نماز اٹھا لائے۔ کہنے لگے میاں میں اسے ادھر بچھا کر نماز پڑھا کرتا تھا۔ میں نے کہا قبلہ آپ نے پڑھی۔ پر مجھےکیا فائدہ۔ مجھے تو کھجور لا دیتے۔ ڈر کے مارے اس پر نماز نہیں پڑھتا کہ کہیں اثرانداز نہ ہو جائے۔ آخر کو احتیاط بہتر ہے۔
اب آخر میں نصیحت بھی سنتے جاؤ۔ اگر کوئی دلگداز واقعات سنانے شروع کرے تو فورا دل کو ادھر ادھر مائل کرنے کی کوشش کرنا۔ ان لوگوں میں عیب ڈھونڈنا تا کہ اندر کی نیکی کو حاوی ہونے کا موقع نہ ملے۔ اور کبھی کبھی تو ٹھیک ہے مگر کثرت سے ایسی جگہوں پر نہ جانا۔ آگے ہی کل کے خط میں تم نے یہ بات لکھ کر ڈرا دیا ہے کہ نمازوں میں باقاعدگی آگئی ہے۔ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔

قصہ اک شفٹنگ کا۔ راوی نیرنگ خیال

2 comments
اس قصے سے پہلے اپنے موٹا بھائی کا تعارف کروا دیتے ہیں کہ معاملہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ اگر پطرس کے مرزا ، اور شفیق الرحمان کے مقصود گھوڑے سے واقفیت ہے تو جان لیجیئے کہ ان دونوں کرداروں کو جمع کر کے انشاء کے استاد مرحوم سے تقسیم کیا جائے تو نتیجہ کے طور پر موٹا بھائی نکلیں گے۔جراثیم کے اتنے خلاف کہ روٹی کو بھی پکا پکا کر جراثیم جلا دیتے ہیں اور سالن میں چند قطرے ڈیٹول ملانا نہیں بھولتے۔ فرمانا یہ کہ صحت کے لیئے مفید ہے تبھی تو اتنی بڑی کمپنی ہر کام سے پہلے ڈیٹول ملانے کا کہتی ہے۔ ہر بات پر ضد کرنا اور خاص طور پر اگر کہیں انکے ساتھ کوئی خریداری پر چلے جاؤ تو ہر چیز کی قیمت خود ادا کریں گے۔ یہاں تک کہ اک دن میرے سامان کے ساتھ کسی اور کے سامان کا بل بھی ادا کرنے کے چکر میں تھے اور مجھ پر خفا ہو رہے کہ میاں اب ہم سے چھپا چھپا کر خریداری ہو رہی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ موٹا بھائی نے سامان شفٹ کرنا تھااور راقم نے اپنی خدمات پیش کر دیں کہ بھابھی کی غیر موجودگی میں ان کے آنے سے پہلے سارا قضیہ سمیٹتے ہیں۔ اسطرح آپ خلعت فاخرہ کے حقدار ٹھہریں گے۔ معصومیت سے کہنے لگے میاں کیو ں تماشہ بنواؤ گے۔ ہم خاندانی بلوچ ہیں زنانہ لباس میں مسخرے لگیں گے۔ اور یہ فاخرہ ہے کون۔ تم اسے کیسے جانتے ہو! ہم نے انکا سر پیٹ دیا۔ الغرض طے یہ پایا کہ دونوں ملکر سامان پیک کریں گے اور چونکہ اک گلی سے دوسری گلی تک جانا ہے اور سامان بھی بہت کم تو وقت نہیں لگے گا۔ بس دوپہر سے پہلے کام ختم۔ صبح آٹھ بجے کا وقت مقرر پایا کہ سامان لایا جائے گا اور اسکے بعد کہیں ناشتہ کی قسمت جگائی جائے گی۔
صبح آٹھ بجے جو موبائل اٹھایا کہ موٹا بھائی کو اٹھایا جائے تو سگنل ندارد۔ کوئی ۹بجے کے قریب نیٹ ورک نے انگڑائی لی اور اک میسج نے مجھ پر احسان کرتے ہوئے آؤٹ باکس سےسینٹ آئٹمز میں جانا گوارا کیا تو اب کی بار ادھر سے جواب ندارد۔ چاروناچار کوئی ۱۰بجے کے قریب ان کے گھر پہنچا ۔ تو فورا ہی دس منٹ میں دروازہ کھل گیا۔ دیکھا تو موٹا بھائی سر پر تولیہ لیئے کھڑے ہیں۔ میں سمجھا شائد سامان سارا سمٹ گیا ہے۔ جو منہ ہاتھ دھویا جا رہا ہے۔ مگر اندر پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ ہر چیز مرد کی زبان کی طرح اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے۔ میں نے کہا قبلہ کیا ارادہ ہے تو بےنیازی سے کہنے لگے کہ بس یارساری رات خواب میں بھی سامان ہی ڈھوتا رہا ہوں شائداسی تھکان کے سبب آنکھ دیر سے کھلی ہے۔ میں نے کہا شروع کریں تو فرمانے لگے ایسی بھی کیا جلدی۔ پہلے مجھے یہ سمجھاؤ کہ کونسی چیز کسطرح جائے گی۔ دست بستہ عرض کی کہ پہلے سامان باندھ لیا جائے پھر ترسیل سامان کا بھی سبب بنا لیا جائے گا۔ مجھ سے اتفاق تو نہ کیا پر ہاتھ ضرور بٹانے لگے۔
کام کی تقسیم یوں ہوئی کہ میں قالین اور دیگر متعلقہ سامان پر اور صاحب کپڑے پیک کرنے پر۔ اب جو غالیچہ، قالین اور تکیے سمیٹ کر دیکھا تو یہ ابھی بمشکل ۳ یا ۴ سوٹ بیگ میں رکھ پائے تھے۔ اللہ اللہ کر کے اک بیگ بند کیا اور کہا کہ یار چائے نہ پی لی جائے۔ جب سورج نصف النہار سے ذرا ڈولا تو ہم کپڑوں کی پیکنگ سے فارغ ہو چکے تھے۔ اب فیصلہ کیا کہ کچھ سامان نئے گھر پہنچا کر ناشتہ کیا جائے اور پھر بقیہ کام!
جب ہم دماغ بھر کر برنچ کر چکے تو حکم نازل کیا کہ بقیہ سامان کسی گاڑی میں لایا جائے گا۔ اک پک اپ والے کو بلا کر اور اسے مکان دکھا نمبر لیا گیااور فون پر الہ دین کے جن کیطرح حاضر ہونے کا وعدہ لے کر واپس پہنچے۔
میں نے کہا کہ میں برتنوں پر توجہ دیتا ہوں آپ کاغذات، کتب اور ضروری سامان پر نظر کرم کیجئے۔ کہنے لگے نہ میاں تم اکیلے نہ تنگ ہو یہ کام تو پانچ منٹ میں ہو جائیں گے۔ پہلے میں تمہارا ہاتھ بٹاتا ہوں کہ وہ کام ذرا لمبا لگتا ہے۔ کوئی بھی چیز نہ ملنے پر میں نے برتن اک ٹب اور بالٹی میں ڈال لیئے۔ اب جو کمرے میں جا کر دیکھتا ہوں تو موصوف کچھ خالی پلاسٹک کی بوتلیں اک بڑے خوبصورت سے بیگ میں بھر رہے۔ میرے اعتراض پر وہ خالی بوتلیں یہ کہہ کر نکال دیں کہ میاں ناراضگی والی کیا بات ہے اس میں۔ عصر کے قریب جو ہم نے پک اپ والے کو فون کیا کہ کدھر ہو ہم سراپا انتظار ہیں تو وہ بیچارہ حیران ہی رہ گیا۔ غالبا وہ بھول گیا تھا کہ آج کسی سے کچھ وعدہ بھی کیا تھا۔
اب سامان گاڑی میں رکھنا جو شروع کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ موٹا بھائی پانچ بڑے بڑے گتے کےکارٹن اٹھائے آ رہے ہیں۔ میں نے بھاگ کر جو مدد کی کوشش کی تو منع کر دیا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ سارے خالی تھے اوربھابھی نے شفٹنگ کے لیئے رکھے تھے۔ کہ سامان خراب نہ ہو۔ اور ہمارے موٹا بھائی سمجھے کہ کارٹن خراب نہیں کرنے سو مجھے ہوابھی نہ لگنے دی کہ میں گستاخ کہیں کوئی سامان نہ باندھ دوں ان میں۔ فرماں برداری کا یہ منظر مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں خوب ہنسا۔ مجھ سے نظریں بچا کر اک کارٹن اور گاڑی میں رکھنے لگے۔ جو دیکھتا ہوں تو وہی خالی پلاسٹک کی محبوب بوتلیں ہیں۔
اور جب ہم سامان گلی چھ سے گلی نمبر پانچ میں منتقل کر چکے تو دوستو مغرب سے تھوڑا سا وقت اوپر ہوا تھا۔ قسم لے لیجئے ابھی عشاء کی کوئی اذان نہ ہوئی تھی۔
آج صبح اک دلخراش منظر دیکھا۔ وہ خالی کارٹن جو موٹا بھائی نے بچا رکھے تھے۔ باہر گلی کی نکڑ پر دھرے تھے کہ کوڑے والا اٹھا لے گا۔ اور موٹا بھائی اک مطمئن مسکراہٹ کیساتھ گھر میں داخل ہو رہے تھے۔بیشک یہ طمانیت دنیا تجنے کیبعد ہی نصیب ہوتی ہے۔