Sunday 16 December 2012

آ مل یارا سار لے میری

5 comments
آ مل یارا سار لے میری
میری جان دُکھاں نے گھیری
اے میرے دوست میری خبر گیری کو آؤ کہ میری جان غموں کے درمیان گھری ہوئی ہے
انسان جب خود کو بے بس محسوس کرتا ہے تو ایسے میں اسے رب کائنات کے علاوہ کوئی غمگسار نظر نہیں آتا۔ وہ بے اختیار اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے۔ کہ اللہ اب غموں کے اس پہاڑ نے جینا مشکل کر دیا ہے۔ اور تیری ہی ذات واحد ہے جو مجھے ان سے چھٹکارا دلا سکتی ہے

اندر خواب وچھوڑا ہویا، خبر نہ پیندی تیری
سنجی، بن وچ لُٹی سائیاں، چور شنگ نے گھیری
میرے خواب و خیال پر جدائی نےقبضہ کر رکھا ہے۔ اور تمہاری کوئی خیر خبر نہیں
سنسان ویران جنگل میں مجھے لوٹا گیا اور چوروں، ڈاکؤوں نے مجھے گھیر رکھا ہے
انسان جب کسی بھی مہم پر نکلتا ہے تو انجان راستے پر بار بار اسے رہنمائی کے لیئے راستے کے لوگوں پر اعتبار کرنا پڑتا ہے۔ راستہ سمجھنا پڑتا ہے۔ مگر کچھ لوگ فریب منزل دے کر راہ سے بھٹکا دیتے ہیں۔ اور تمیز کرنا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے کہ اب کس پر اعتبار کیا جائے اور کس پر نہیں۔ کچھ رہنما تو اسقدر دھوکا دیتے ہیں کہ انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔ اور اسے نئے سرے سے قصد سفر باندھنا پڑتا ہے۔ یہ راستے کے مصائب مصائب نہیں آزمائشیں ہیں۔ تو جو ان آزمائشوں اور مصائب کے فرق کو سمجھ جاتا ہے۔ کامیابی کیطرف گامزن رہتا ہے۔

ملاں قاضی راہ بتاون، دین بھرم دے پھیرے
ایہہ تاں ٹھگ جگت دے جھیور، لاون جال چوفیرے
ملا اور قاضی مجھے ایسا راستہ بتاتے ہیں جو مجھے دین کے احکامات میں الجھائے جاتا ہے
یہ زمانے کے مشہور ٹھگ چڑی ماروں کی طرح چاروں طرف جال بننے میں مصروف ہیں
اب مسافر پر لازم ہے کہ وہ کھرے کھوٹے کو خوب سمجھے۔ ملا اک استعارہ ہے ان کے متعلق جو دین کے پیچیدہ مسائل کا درک نہیں رکھتے اور لکیر کے فقیر رہتے ہیں۔ ایسے لوگ مفہوم کو نت نئے کپڑے پہنا کر انسان کو عقائد کے گنجلک مسائل میں یوں الجھا دیتے ہیں کہ مقصد مطلق ذہن کے گوشوں سے رخصت ہو جاتا ہے۔ اور زندگی ان لوگوں کے بیان کردہ مسائل کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے میں ہی گذر جاتی ہے۔ بلہے شاہ نے ان ٹھگوں کو شکاریوں بلکہ چڑی ماروں سے تشبیہ دی ہے۔ جن کا کام بس جال لگا کر چڑیاں پکڑنا ہوتا ہے۔

کرم شرع دے دھرم بتاون، سنگل پاون پیریں
ذات مذہب ایہہ عشق نہ پچھدا، عشق شرع دا ویری
یہ شریعت میں موجود رعائیتوں کو ایمان کو جزو لازم بتا کر پیروں میں عقائد کی موٹی موٹی زنجیریں باندھ رہے ہیں
جبکہ عشق ذات اور مذہب سے بالاتر ہے اور اسکی شرع کے اس طریق سے دشمنی ہے
اسی تسلسل میں بات جاری ہے کہ یہ لوگ دین میں موجود رعائیتوں کو جزو لازم قرار دے کر معصوم اور انجان لوگوں کو یوں گھیر لیتے ہیں کہ وہ عقائد اور گناہ و ثواب کی زنجیروں میں پھنسے باقی کی زندگی نیکیاں گننے میں گزار دیتے ہیں۔ ان کے یہ جال اسقدر مضبوط اور کامل ہیں کہ اک بار پیروں میں پڑ جائیں تو ان سے نجات آسان نہیں۔ جبکہ اصل میں طریقت پر چلنے والے ان تمام باتوں سے بے نیاز ہیں۔ ان کو ذات، مسند کا لالچ نہیں ہوتا اور نہ وہ منصب پر فخر کرتے ہیں۔ انکے نزدیک کسی کی منصبیت اور علم وجہ تفاخر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناسمجھ لوگ اس طریق کو شرع کے متصادم سمجھتے ہیں۔

ندیوں پارملک سجن دا، لہر لوبھ نے گھیری
ستگوربیڑی پھڑی کھلوتے، تیں کیوں لائی دیری
محبوب کو ٹھکانہ ندی کے اس پار ہے جبکہ مجھے طمع و ہوس کی ہوا نے گھیر رکھا ہے
مرشد مجھے اس پار پہنچانے کے لیئے کوشاں ہے اور میں دیر کیئے جا رہا ہوں
محبوب کا ٹھکانہ ندی کے اس پار ہے سے مراد سرزمین پاک ہے اور درمیان میں سمندر حائل ہے۔ ہر مسلم کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حج کرے مگر یہ عمل ہمارے یہاں وہ زیادہ تر اسوقت سر انجام دیتا ہے جب اسکے بقیہ دنیاوی کام اسکی نظر میں ختم ہونے کو ہوتے ہیں۔ بابا بلہے شاہ نے میری نظر میں اسی طرف طنز کیا ہے کہ سب یہاں حرص و طمع کی لہر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی ڈھیل کو آخری حد تک استعمال میں لا رہے ہیں۔ اگر اس کیطرف سے پکڑ نہیں تو ضروری نہیں کہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا جائے۔

بلھا شاہ شوہ تینوں ملسی، دل نوں دے دلیری
پیتم پاس،تے ٹولنا کس نوں، بُھل گیوں شکر دوپہری
بلہے شاہ! مرشد تجھے لازمی ملے گا۔ تو بس ناامید نہ ہو اور اپنے حوصلے کو برقرار رکھ
جب محبوب پاس ہو تو پھر ڈھونڈنا کسے۔ کیوں روشن دوپہر میں پہچان نہیں پا رہے۔
بلہے شاہ تجھے ہدایت ضرور ملے گی۔ بس تجھے یقین کامل کی ضرورت ہے۔ یقین کامل ہی انسان کو اس منزل تک لے جا سکتا ہے۔ اللہ کی ذات پاک تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔اسے ڈھونڈنے کے لیئے نہ تو سفر کرنے ہیں نہ کہیں جانا ہے۔ پھر بھی انسان بھولا پھرتا ہے۔ بقول اشتیاق احمد صاحب (من چلے کا سودا) ! کہ بابو لوکا کدھر چلا گیا تھا۔ سفر تو منزلیں طے کرنے کے لیئے ہوتے ہیں۔ کہیں جانا تو ہے ہی نہیں۔ اسے تو یہاں دیکھنا ہے۔ شہ رگ کے پاس۔

نوٹ: یہ ترجمہ و تشریح میری سمجھ کے مطابق ہے۔ جس سے کسی کو بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ لہذا ہر آدمی اپنی سمجھ کے مطابق ترجمہ و تشریح کر سکتا ہے۔ یہ اشعار میری ملکیت ہرگز نہیں ہیں

5 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔