Sunday 24 February 2013

بلہے نوںسمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں

3 comments
بلہے نوںسمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں

من لے بلھیا ساڈا کہنا، چھڈ دے پلا رائیاں
آل نبی اولاد علی نوں توں کیوں لیکاں لائیاں؟

جیہڑا سانوں سید سدّے دوزخ ملن سزائیاں
جو کوئی سانوں رائیں آکھے، بہشتی پینگاں پائیاں

رائیں، سائیں سبھنی تھائیں، رب دیاں بے پروائیاں
سوہنیاں پرے ہٹائیاں، تے کوجھیاں لے گل لائیاں

جے توں لوڑیں باغ بہاراں، چاکر ہو جا رائیاں
بلہے شاہ دی ذات کیہ پچھنی؟ شاکر ہو رضائیاں

Thursday 21 February 2013

بےحسی کی چادر

2 comments
صبح جب نیند سے جاگا تو معمول کے مطابق اک صبح تھی۔ جس میں سوائے دن اور تاریخ کے شائد معمولات میں کوئی اور زیادہ تغیر کا امکان نہیں تھا۔ مگر جیسے ہی اس نے گھر کے گیٹ سے نکلنے کے لیئے قدم اٹھایا۔ تو اسکی نظر اخبار پر پڑ گئی۔ پہلے صفحے پر کچھ لاشوں کا تذکرہ تھا۔ ہمیشہ کی طرح اس کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ بیٹھ کر پوری خبر پڑھتا۔ ماتم کرتا۔ یا سوچتا کہ اس بگڑتی صورتحال کو سنبھالنے میں اسکا کیا کردار ہو سکتا ہے۔ لمحہ بھر کو اس نے سرسری سا جائزہ لیا۔ اور پھر دفتر کے راستے پر نکل کھڑا ہوا۔ پر کچھ عجب سی بے چینی تھی آج۔ جو اس سے پہلے کبھی محسوس نہ ہوئی تھی۔

محلے سے نکلتے ہوئے کچرے کے اک ڈھیر پر اسے اک نشئ دکھائی دیا۔ جو شائد رات کا وہاں مدہوش پڑا تھا۔ اسکے بال بکھرے اور جسم گندگی سے اٹا ہوا تھا۔ اسے اک گھن کا احساس ہوا۔ کیسا آدمی ہے۔ کیسے کچرے کے ڈھیر پر مطمئن سویا پڑا ہے۔ جیسے دنیا میں اس سے آرام دہ بستر کوئی نہیں۔ اس کی ناک بند ہوگی۔ یا پھر یہ اس تعفن کا عادی ہو گیا ہے۔ موخرالذکر اسے قرین قیاس لگا۔ یہ اس گندگی کے اندر یوں رچ بس گیا ہے کہ اب اسکو تعفن محسوس نہیں ہوتا۔ جب وہ اس آدمی کے سامنے سے گزرا تو اس نے دیکھا کہ اس آدمی کی آنکھیں کھلی ہوئی اور جسم کسی بھی قسم کی حرکت سے عاری۔ اندر سے انسانیت نے پکارا۔ دیکھو کہیں گزر تو نہیں گیا۔ وہ ناک پر ہاتھ رکھ کر قریب گیا تو اس بدحال شخص کے چہرے پر اسے اک مسکراہٹ نظر آئی۔ جیسا کہہ رہا ہوں۔ صاحب بدبو برداشت نہیں ہوتی کیا۔ اس نے گندگی سے لتھڑے اس شخص کو کہا کہ یہ بدبو اب محسوس نہیں ہوتی تمہیں۔ تو وہ ہنس کر کہنے لگا۔ جی صاحب بالکل ایسے۔ جیسے آپ کو اپنے وجود سے اٹھنے والا تعفن محسوس نہیں ہوتا۔ اس کا خون کھول اٹھا۔ وہ روز نہانے کا عادی تھا۔ مہنگی خوشبو لگانا اسکے مزاج کا حصہ تھا۔ اور اس بدحال نشئی نے اس کے وجود سے اٹھنے والی مہکار کو تعفن کہہ دیا۔ قبل اسکے کہ وہ منہ کھولتا۔ وہ خستہ حال شخص اٹھ بیٹھا۔ اور کہنے لگا۔ کیا سوچ رہے ہو صاحب۔ لاشوں پر سوتے ہو روز۔ محض خبریں سمجھتے ہو کیا انکو۔ اتنا کچھ پڑھنے کے بعد فرحت و شاداں زندگی گزار رہے ہو۔ اس  بےحسی  سے پیدا ہونے والا تعفن اب تمہارے وجود سے بہت تیز اٹھ رہا ہے۔ جاؤ صاحب اپنے دفتر جاؤ۔ جہاں تم جیسے تمہارے منتظر ہیں۔ جن کے اپنے وجود تمہاری ہی طرح تعفن زدہ ہیں۔ اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ پر اس نے اس گندے شخص سے الجھنا مناسب نہ سمجھا۔ اور آگے کی طرف چل پڑا۔

کچھ آگے اس نے گندگی کے اک ڈھیر پر بیٹھے چند کتوں کو دیکھا۔ اور سوچنے لگا کہ اللہ نے اسے اشرف المخلوقات بنا نے خوشحالی کی نعمت عطا  کرنے کے ساتھ ساتھ عقل اور فکر جیسی دولت سے نواز کر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ کہ وہ اس نشئی کی طرح گندگی کے ڈھیر پر نہیں بیٹھا۔ جو اسکے وجود کو تعفن زدہ کہہ رہا تھا۔ درحقیقت وہ تو اس بدبو سے بھی دور بھاگتا تھا جو اس ڈھیر سے اٹھتی تھی۔ کہ اسے گماں گزرا کتے اسے دیکھ کر منہ بنا رہے ہیں۔ پہلے تو اس نے اپنا وہم سمجھا۔ مگر پھر اس نے غور کیا تو دیکھا کہ کتوں نے اپنی ناک اس ڈھیر میں دبا لی ہے۔ وہ تھوڑاآگے گیا۔ تو اک کتے کی آواز اسے سنائی دی۔ جو دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ اف کسقدر تعفن اٹھتا ہے اس کے وجود سے۔ آگہی کے قبرستان میں خیالات کو بے گورو کفن چھوڑ دیتے ہیں یہ لوگ۔

کاغذ کی لاشیں۔کاغذ کی  لاشیں۔ کیا آواز ہے جو ہواؤں میں ہے۔ یہ کیسی گونج ہے جو ذہن سے چپک گئی ہے۔ بارہا سر جھٹکانے کے باوجود اس خیال سے آزادی نہیں مل رہی۔ ہر طرف اک ہی آواز ہے۔ کاغذ کی لاشیں۔بےحسی سے اٹھنے والاتعفن۔ وہ دفتر پہنچا تو معمولات سرانجام دینے میں بھی رکاوٹ کا سامنا۔ چائے کے وقفے میں کیفے میں موجود تمام لوگ اخباروں میں شہ سرخی پر لگی لاشوں کی باتیں کر نے لگے۔ اُس علاقے میں اتنے لوگ مر گئے۔ فلاں علاقے میں اتنے لوگ اڑا دیئے گئے۔ اس علاقے میں اتنے عرصہ سے قتل عام جاری ہے۔ اسکا ذہن جاگنے لگا۔ فضا میں بسی گونج اسے سمجھ آنے لگی تھی۔ وہ عرصہ سے ان لاشوں پر اٹھ بیٹھ رہا ہے۔ زندگی کے کسی لمحے میں اس نے نہیں سوچا کہ جب کوئی اپنا ناحق جدا ہوجاتا ہے۔ تو زندگی بنجر ہوجاتی ہے۔ مقصد حیات پر ایسی ضرب پڑتی ہے کہ جینا صرف عادت رہ جاتی ہے۔ وہ روز اخبارات میں لاشوں کی تعداد گنتا تھا۔ آج اتنے،  آج اتنے، کتنے اتنے اتنے جدا ہوئے جاتے ہیں۔ اس کے منہ سے اک حرف تسلی کا نہیں نکلا۔ چاہے خودکلامی کی صورت ہی نکلتا۔ کتنی سہاگنوں کے سہاگ چھن گئے۔کتنے بچے، جوان، بوڑھے عورتیں پلک جھپکنے میں خالق حقیقی سے جاملے۔  کتنے بچے ہنسنے کی عمر میں غم کلیجے سے لگائے مایوسی اور خاموشی کی اس دلدل میں اتر گئے کہ حالت زار بیان کو کرنے کو الفاظ کی حاجت بھی نہ رہی۔ کہانیاں خط پیشانی بنکر چمکنے لگیں۔ تو یہ اس بےحسی کا تعفن ہے جو اسکے وجود سے اٹھ رہا ہے۔ اس نے لاشوں کو ہمیشہ کاغذ کی لاشیں ہی گردانا تھا۔ تو کیا یہ حروف تلخیوں کے پیامبر ہیں۔ کیا یہ ہندسے حقائق کو بیان کرتے ہیں۔ اس نے اردگرد کیفے پر نظر دوڑائی۔ سب کے چہرے پر اک جیسی بےحسی تھی۔ساتھ موجود اک دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ چھوڑ یار۔ کن بیکار خبروں میں الجھا ہے۔ چائے جلدی ختم کر اور اوباشانہ انداز میں آنکھ مارتے ہوئے بولا، آج پھر بڑی بن سنور کر آئی ہے۔ دونوں بلند آواز میں ہنسنے لگے۔  اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی۔ اپنے وجود سے اٹھنے والاتعفن ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔  بےحسی کی چادر تو سب نے اوڑھ رکھی  تھی۔ لیکن باقی سب ابھی اس احساس سے عاری تھے۔انکو کرنے کو اور بہت باتیں تھیں۔ بہت قیمتی موضوع تھے۔ جو انکے الفا ظ و خیالات کا بہترین مصرف ہوسکتے تھے۔ یہ مرنے والے تو ویسے ہی مر چکے تھے۔  اسکا سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ وہ اٹھ کر باہر بھاگا۔ تازہ ہوا میں سانس لینے سے کچھ حواس بحال کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

 کتنے لوگ آن کی آن میں لقمہ اجل بنتے جاتے ہیں۔ انکا کوئی قصور نہیں۔ انکو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ انکو فرشتہ اجل نے کیوں آدبوچا ہے۔ وہ تو اس مذہب کے پیروکار ہیں۔ جو رواداری اور حسن اخلاق کا مذہب ہے۔ جو محبت کا درس دیتا ہے۔ جو اس سچ سے بھی منع کرتا ہے جو کسی کی دل آزاری کا سبب بنے۔ پھر یہ لوگ جو بیٹھے ہیں۔ جو احساس سے عاری ہیں۔ کیا یہ اس مذہب کے پیروکار نہیں۔ اس کو اپنے مسلماں ہونے پر شبہ ہونے لگا۔ والدین نےکلمہ سکھایا تھا۔ قرآن کا ناظرہ بھی ختم کر لیا بچپن میں ہی۔ ماں روز رات کو کسی صحابی کا قصہ بھی سناتی تھی۔ اسلاف کی عظمت پر اسکو یوں ایمان تھا جیسے خدا پر۔ لیکن آج سارے عقائد ہیچ نظر آنے لگے۔ وہ آنکھیں بند کرکے سوچنے لگا۔ کہ انسانیت کا سبق کہاں پڑھا تھا۔ کس نے پڑھایا تھا۔ رواداری، مروت اور حسن اخلاق کونسے درس کا حصہ تھے۔ سر میں درد بڑھنے لگا۔ مگر حافظہ اس قسم کا کوئی بھی مضموں یاد کرنے سے قاصر رہا۔ تو انسانیت کا سبق میں نے کبھی نہیں پڑھا۔ تو پھر میں اتنا پریشان کیوں ہوں۔ یہ تو میرے نصاب میں ہی نہیں۔

مگر اسلام کے نصاب میں تو یہ اولیں ہے۔ تو کیا ہم اسلام کو کہیں چھوڑ آئے ہیں۔ کیا یہ وہ مذہب نہیں جس نے کالوں کو گوروں سے اوپر کر دیا تھا۔ جس نے صدیوں کی قائم کردہ منافرت کی دیواریں توڑ دیں تھیں۔وہ مذہب جو کہتا ہے کہ اک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔  میں کس مذہب کا پیروکار ہوں۔ اس خیال سے اسکا جسم پسینے میں بھیگنے لگا۔ سر درد سے پھٹنے کو تھا۔ احساس ندامت نے کچھ اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ وہ حرکت کرنے سے بھی خود کو  معذور سمجھ رہا تھا۔

 آگہی اس پر عذاب بنکر اتر آئی تھی۔ یہ لاشوں کا سلسلہ رک نہیں سکتا۔ کتنے افراد ہیں۔ جو اک بار آواز بلند کریں تو شہر کے شہر گونج اٹھیں۔  تو کیوں نہیں بولتے۔ شائد سارے ان لاشوں کو اصل نہیں سمجھتے۔ شائد سب اس تذکرے کو حروف کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ شائد یہ وہی ہندسے ہیں جو انڈے اور کینو گننے کے لیئے استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اب تو یہ ہندسے لاشوں سے پہلے لگ گئے تھے۔ اور لاشیں بھی انسانوں کی۔ اور اسکے بعد اک نبی کو ماننے والوں کی۔ اور اُس پر اِس کے ہم وطنوں کی۔ کتنے رشتے ہیں ان کاغذ پر چھپے ہندسوں  کے ساتھ۔ یہ جو روز پڑھتا ہوں۔ لوگ کہہ دیتے ہیں پتہ نہیں کون تھے۔ پر میرے تو بہت سے رشتے ہیں ان سے۔ کس کس رشتے سے انکار کروں گا۔ کیا جواب دوں گا اللہ کو۔ اگر ان لوگوں نے گریباں پکڑ لیا روز محشر۔ کہ تم بھی تو اپنے تھے۔ تم کیوں نہ بولے۔ ہمارے قتل کی خبر ملی۔ پر تم نے اپنا چائے کا کپ بھی نہ چھوڑا۔ اور چائے پینے کے دوران ساتھ موجود آدمی سے یہ کہہ دینا بہت سمجھا کہ جی ظلم ہورہا ہے۔ ہمارے ٹکڑے بکھرے رہے۔ اور تم ان کے اوپر لیٹے سوتے رہے۔ کیوں کہ ہمارا تم سے خون کا رشتہ نہ تھا۔ صرف اس لیئے۔ مگر جو بقیہ رشتے تھے۔ مذہب کا ، ہم وطنی کا، زبان کا،  وہ سارے بھی فراموش کر دیئے تم نے۔ کل جب تمہاری لاش اسی طرح بکھری ہوگی۔ تب بھی لوگ یہی کہہ کر گزر جائیں گے۔ پتہ نہیں کون تھا۔ افسوس کا مقام ہے جی۔  اس سوچ سے جسم خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزنے لگا۔

خیالات کے اس دریا میں بہتے اسے یقین ہوگیا کہ وہ اب توجہ سے کام نہ کر سکے گا۔ سو اس نے رخصت لی اور گھر کی طرف چل پڑا۔ واپسی اسی راستے سے گزرتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ کتے بہتر تھے۔ وہ توگندگی کے ڈھیر پر بیٹھے تھے۔اپنوں کی لاشوں پر نہیں۔ اور وہ بدحال نشئی۔ وہ کچرے کے ڈھیر پر بیٹھا تھا مگر ادراک جیسی قیمتی دولت سے مالامال تھا۔ وہ خود ان سب سے پست تھا۔ وہ تو لاشوں پر سوتا تھا۔ خبروں کے بستر پر آگہی کو تکیہ بنائے بے حسی کی چادر اوڑھے۔کوئی ایسا بہانہ ایسا خیال جو اسکے ذہن سے یہ بوجھ اتار پھینکے۔ مگر ذہن کسی بھی قسم کا مناسب جواب تراشنے سے قاصر تھا جو اس کی سوچوں کے اس دھارے کے آگے بندھ باندھ سکے۔ جو اسکو تسلی دے سکے۔ کہ اگر اس نے توجہ نہیں دی۔ تو کوئی وجہ ہوگی۔ اگر وہ ہنکارہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔ تو کوئی رمز پوشیدہ ہوگی۔

یکلخت اسے احساس ہوا کہ بے دھیانی میں چلتے ہوئے سامنے سے آنے والی کوئی گاڑی اس کے سر پر پہنچ چکی ہے۔ اس نے گھبرا کر چیخ ماری اور  اس کے ساتھ ہی اسکی آنکھ کھل گئی۔ وہ اپنے بستر پر لیٹا تھا، جسم پسینے میں شرابور تھا اور گھڑی صبح کے سات بجا رہی تھی۔ اچھا تو یہ سب خواب تھا۔ کچھ خواب کتنے ہولناک ہوتے ہیں۔اس نے تھوڑی دیر بیٹھ کر سانسیں برابر کیں۔ پھر سر کو جھٹکا دے کر کپڑے اٹھائے تا کہ دفتر جانے کی تیاری کر سکے۔ مگر نکلتے ہوئے اس نے دیکھا کہ گیٹ کے پاس پڑے کاغذ کے ٹکڑے پر ویسی ہی کوئی خبر تھی جو رات خواب میں دیکھی۔ اس کو زمین اپنے پاؤں کے نیچے سے سرکتی محسوس ہونے لگی۔

Tuesday 19 February 2013

خسارہ

2 comments
یہ شہر کے شور ہنگاموں سے کافی دور اک چھوٹا سا گاؤں تھا۔سالانہ پانی اور زرخیز زمین کی بدولت گاؤں کی پیداوار زیادہ تھی اور لوگ خوشحال تھے۔ گاؤں کے وسط میں گاؤں اکلوتی جامع مسجد زیر تعمیر تھی۔ دین کی راہ میں اکثر وسائل محدود ہی ہوتے ہیں۔ سو اسی بنیاد پر تعمیر کا کام بہت آہستہ آہستہ سر انجام پا رہا تھا۔ گاؤں کا بڑا وڈیرہ ہی تعمیر کا زیادہ خرچ اٹھا رہا تھا۔

گرمیوں کی اک دوپہر میں اک نئے ماڈل کی کار آکر رکی۔ اور اس میں سے اک خوش لباس آدمی اترا۔ اس نے اردگرد نگاہ دوڑائی۔ اجنبی آدمی دیکھ کر کچھ لوگ خبر گیری کو پہنچے۔ اس آدمی نے پانی کی درخواست کی۔ گاؤں کے وڈیرے نے اسے اپنے ڈیرے پر بٹھا لیا۔ اور اسکی ہر ممکنہ خدمت کی۔ اور گاؤں میں آمد کا سبب بھی پوچھا۔ اس آدمی نے کہا کہ میں ویزے لگوانے کا کام کرتا ہوں۔ اور کچھ گاؤں آگے اک اور گاؤں ہے۔ اور اسکے لوگوں کے لیئے بیرونی ممالک کے ویزے کا بندوبست کیا ہے۔ ابھی بس انکے پاس ہی جا رہا ہوں۔ آدھےلوگوں کا کام ہوگیا۔ اور بقیہ کا بھی جلد ہی کروا دوں گا۔ اس آدمی نے کچھ اس انداز میں اپنے کام اور نیکی کا نقشہ کھینچا کہ لوگوں کو گمان ہونے لگا کہ اس سے زیادہ ایماندار آدمی اس پیشے میں اور نہ ہوگا۔

یونہی باتوں باتوں میں اس آدمی نے پوچھا کہ میں پہلے بھی اک دوبار یہاں سے گزرا ہوں تو مسجد کی تعمیر میں کچھ اضافہ نہیں ہوا۔ گرمیوں کا موسم ہے۔ تو پنکھے بھی نہیں لگوا رکھے۔ اس پر گاؤں کے بڑوں نے حالات اور درپیش مسائل سے نبٹنے کے لیئے وسائل کے فقدان کے متعلق آگاہی دی۔ اس آدمی نے جیب سے ساٹھ ہزار روپیہ نکال کر گاؤں کے بڑوں کے ہاتھ پر رکھا۔ اور کہا کہ اللہ کے گھر کی تعمیر میں کسی قسم کی دیری اچھی بات نہیں۔ ہم لوگ اپنے سارے کام تو کر لیتے ہیں۔ پر جہاں معاملہ دین اور اللہ کے گھر کا آجائے۔ وہاں پر ہم ہمیشہ ہی قلیل وسائل کا رونا روتے ہیں۔ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ اور میری طرف سے یہ رقم ہدیہ سمجھ کر رکھیئے۔ اور مسجد کی تعمیر کا کام جلد مکمل کرائیے۔ پنکھے بھی لگوا دیجیئے۔ تاکہ نمازی حضرات کو زیادہ تنگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس نے کہا کہ میری زندگی میں کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ میں اللہ کے گھر پر خرچ کرنے میں کسی بھی قسم کی پس و پیش سے کام نہیں لیتا۔ یہ اک ایسا کاروبار ہے کہ جس میں مجھے کبھی نقصان نہیں ہوا۔ سب لوگ اسکے اس جذبہ پر حیران رہ گئے۔اور اسکے ایمان اور عقیدہ کی پختگی کی داد دینے لگے۔ وہ آدمی اپنی کار میں بیٹھا اور اپنی راہ لی۔

ہفتہ کے بعد اس آدمی کا چکر لگا۔ اس نے ویسے ہی حال احوال لیا گاؤں والوں کا۔ تھوڑی گپ شپ کی۔ مسجد کی تعمیر کا جائزہ لیا۔ اور پوچھا کہ اب مزید کتنی لاگت آسکتی ہے اس کی تعمیر پر۔ اسکے بعد کچھ رقم اور اسی مد میں منتظمین کے ہاتھ پر رکھی۔ اور دوبارہ ملاقات کا وعدہ کرکے نکل گیا۔

اس کچھ عرصہ میں اسکی فیاضی اور خوش گفتاری کے باعث گاؤں میں لوگ اس سے کافی متاثر نظر آتے تھے۔ گاؤں کے کئی لڑکوں نے بھی باہر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اور وڈیرے سے درخواست کی کہ وہ اس ضمن میں کل خرچہ کہ متعلق اس شخص سے استفسار کریں۔

اگلی بار اسکی آمد پر گاؤں کے بزرگوں نے اس سے اس سلسلہ میں گفتگو کی۔اس شخص نے سب کو سمجھایا کہ اس پر کافی زیادہ خرچہ ہوتا ہے۔ اور قریب قریب بھی ابتدائی مراحل مکمل کرنے پر اک لاکھ کے قریب خرچہ آئے گا۔ اپنا گاؤں زمین اور خاندان ہے۔ کیا ضرورت ہے ملک چھوڑ کر جانے کی۔ آپ سب کو سمجھائیں۔ اس نے کہا کہ اگلا چکر میرا آخری ہوگا۔ اسکی وجہ اک تو یہ ہے کہ میرا کام اب ختم ہونے کو ہے۔ ان لوگو ں کو ویزے دے کر میں اپنی ذمہ داری سے احسن طریقے سے عہدہ برآ ہوجاؤں گا۔ اسکے بعد اس نے مسجد کے انتظامات کرنے والے مہتمم کو چالیس ہزار اور دیئے اور کہا کہ مسجد میں قالین کا مناسب بندوبست کروا دیں۔یہ گھر جتنا خوبصورت ہو اتنا میں سمجھوں گا کہ محنت ٹھکانے لگی۔

گاؤں کے وہ لوگ جو باہر جانے کے معاملے میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے تھے۔ انہوں نے کسی طور روپے کا بندوبست کیا۔ اور اسکے اگلے چکر کا انتظار کرنے لگے۔
اگلے چکر پر اس نے مسجد میں آکر دو نفل شکرانے کے ادا کیئے۔ اور بڑی خوشی سے گاؤں کے بڑوں کو بتایا کہ اسکو سرخروئی حاصل ہوئی ہے۔ اور اس نے جتنی درخواستیں جمع کرائیں تھیں۔ ساری منظور ہوگئیں۔ اسکے بعد وہ ان لوگوں کو ان کی امانتیں بھی لوٹا آیا ہے۔ اور خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہے۔ گاؤں کے بزرگوں نے ان نوجوانوں کی بابت بتایا جو باہر جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اور رقم کا انتظام بھی کیئے بیٹھے ہیں۔ اس نے اک بار پھر سب کو سمجھایا کہ دیکھو سب کچھ اس ملک میں ہی ہے۔ اور اپنے خاندان سے بہتر نعمت کچھ نہیں۔ مگر ان لوگوں کی بحث کے آگے آخر اس نے ہتھیار ڈال کرحامی بھر لی۔ دس کے قریب لوگوں نے اسے اپنے کاغذات اور رقم تھمائی۔ اس نے بار بار بڑے عاجزانہ انداز میں لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر لوگوں نے اس کو کہا کہ نہیں براہ مہربانی آپ ہمارے لیئے درخواست جمع کرادیں۔ دس لاکھ کے قریب رقم لے کر وہ اس گاؤں سے نکلا۔

اس رات گاؤں کے نوجوان باہر کے ملک کے سپنے دیکھتے سو گئے۔ اور اسکی گاڑی کبھی بھی واپس نہ آنے کے لیئے وہاں سے جا رہی تھی۔ باہر بڑی شاہراہ پر وہ نمبر پلیٹ بدلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ واقعی اللہ اپنے وعدے کے مطابق اک کے دس دیتا ہے۔ بے شک اس کاروبار میں خسارے کا کوئی اندیشہ نہیں۔