Tuesday 31 December 2013

کہروا

6 comments
حسب معمول صبح فجر کے وقت آنکھ کھلی۔ اذانوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اٹھ کر کھڑکی سے باہر جھانکنے کی کوشش کی۔ لیکن دھند کے باعث کچھ نظر نہیں آیا۔ نماز کے بعد چائے بنائی اور کپ پکڑ کر گھر سے باہر نکل آیا۔ آج 2013 کا آخری سورج طلوع ہونے والا ہے۔ میں اس سورج پر ایک الوداعی نگاہ ڈالنا چاہتا ہوں۔ کیوں؟ مجھے معلوم نہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے ڈوبتے سورج پر الوداعی نگاہ ڈالنا عادت تھی۔ اس سال اپنی روایت بدلنے کا سوچا۔ طلوع ہوتا سورج دیکھا جائے گا۔

سورج کو اس چیز سے کوئی سروکار نہیں کہ کون سا دن سال اور مہینہ ہے۔ وہ تو اپنی روش پر قائم ہے۔ مگر انسان جس کو ہر چیز کو ناپنے تولنے کی عادت ہے۔ اس نے وقت تولنے کو بھی باٹ ایجاد کر رکھے ہیں۔ یہ سال، گزشتہ سال، آنے والا سال۔ انسان جب بھی وقت کی بات کرتا ہے۔ ناپنے کے لیے اسی ترازو کا استعمال کرتا ہے۔ زمین نے اپنا ایک چکر سورج کے گرد مکمل کر لیا۔ 365 دن گزر گئے۔ اس حساب سے عطارد کا ایک سال 88 دن کا بنتا ہے۔ بقول مقبول عامر
کوئی پڑاو نہیں‌ وقت کے تسلسل میں 
یہ ماہ سال کی تقسیم تو خیالی ہے 

12 ستمبر کا ڈوبتا سورج محمد زین العابدین کی زندگی کا پیغام لے کر آیا۔ اور مغرب کے بعد عشاء سے پہلے نومولود میری گود میں تھا۔ میرا وارث خاموش تھا اور میری ماں رو رہی تھی۔ اس شام میں نے خوشی کے آنسو دیکھے۔ بہت خوبصورت شام تھی۔ ساری عمر یاد رہنے والی شام۔  دوسری بوجھل صبح 22نومبرکی تھی۔ میں سستی سے بستر میں لیٹا تھا۔ نماز کا وقت گزرتا جا رہا تھا۔ اور مجھے اٹھنا عذاب لگ رہا تھا۔ کہ ابو کا فون آیا۔ بیٹا تمہاری پھپھو کا انتقال ہوگیا ہے۔ ہر وقت دعائیں دینے والی مجسم محبت پھپھو دنیا سے کنارہ کر گئی تھی۔ میرے چاہنے والوں میں ایک کی کمی ہوگئی۔  تیسری خوبصورت شام پھر 28 دسمبر کی تھی۔ جب میرا بھانجا اس دنیا میں آیا۔ میں جن سے محبت کرتا ہوں۔ ان میں ایک کا اضافہ ہوگیا۔ جبکہ باقی محبتیں ہنوز اپنی جگہ برقرار۔ اپنی ماں کی بات یاد آرہی ہے کہ محبتیں رزق کی طرح بڑھتی گھٹتی ہیں۔ شاید ہمیں ان میں  کشادگی کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔

یہ سال میرے لیے صرف تین دن کا رہا۔ اس سال کے 362 دنوں کا میرے پاس کوئی حساب نہیں ہے۔ کیسے سورج طلوع ہوئے۔ غروب ہوئے۔ کتنی برساتیں برسیں۔ کچھ یاد نہیں۔ صرف تین دن ایسے ہیں جو میرے سامنے ہیں۔ مجھے یاد ہیں۔ بقیہ سب دن کہرے میں گم ہیں۔ بالکل اس سورج کی طرح جو مشرق سے طلوع تو ہو گیا ہے۔ لیکن کہرے میں گم ہے۔ اس طرح یہ سال کا ہندسہ  بھی کہرے میں گم ہونے والا ہے۔ کل کے سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی کہرا اور گہرا ہوجائے گا۔ اور محض تین دن اپنا نشان برقرار رکھ کر مجھے یہ احساس دلائیں گے کہ یہ سال بھی کبھی زندگی میں آیا تھا۔

Thursday 19 December 2013

باکمال بزرگ - قسط چہارم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

2 comments
گزشتہ سے پیوستہ:

کچھ ثانیے یوں ہی گزرے تھے۔ کہ دوسرے بزرگ نے کہا۔  چل اب شرمانا چھوڑ۔ تجھے وہ دلارا یاد ہے۔ وہ جس کو سب زنگی کہتے تھے۔ یہ بات سن کر پہلے بزرگ ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ ان کو کھانسی لگ گئی۔  پہلے بزرگ نے کھانسنے کے درمیان  یوں ہاتھ ہلایا۔ جیسے کہہ رہے ہوں چھوڑ یار!  اور جب ذرا کھانسی تھمی تو انہوں نے واقعی یہی کہا۔ اور مزید اضافہ کرتے ہوئے  کہا۔ کہ یہ بچے یقین نہ کریں گے۔ اس پر ایک چوپال میں موجود ایک نوجوان بولا۔ جناب ہم کیوں یقین نہ کریں گے۔ آپ سنائیں۔ تو بزرگ کہنے لگے۔ یار پہلے تمہیں  اس دور کی خوراکوں کے بارے میں نہ بتا دوں۔ تو وہ نوجوان بچوں کی طرح مچلنے لگا کہ نہیں پہلے ہمیں دلارے کے متعلق بتایا  جائے۔  اس پر بزرگ نے تمام حاضرین پر نظر ڈالی۔ اور سب کے چہرے پر ایک مثبت تاثر دیکھ کر ہتھیار ڈالتے ہوئے کہنے لگے۔ اچھا چلو اب تم ضد کرتے ہو تو سناتا ہوں۔

نام تو اس کا بخشن تھا۔ مگر مشہور وہ پورے گاؤں میں دلارے  کے نام سے تھا۔ سیہ تاب تھا۔ اتنا کہ بسا اوقات تارکول کا گماں ہوتا۔ اور اکثر اوقات بھی تارکول کا ہی۔ یہ واقعہ ہمیں دلارے نے خود ہی سنایا تھا۔ اور اس کے بعد گاؤں کی چوپال میں اس  کا اتنا مذاق اڑایا گیا کہ اس نے یہ مشہور کر دیا کہ یہ محض مذاق کی بات تھی۔ اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ واقعہ دلارے کی زبانی ہی سنیے۔

میں کھیتوں میں ہل چلانے میں مصروف تھا۔ ہل چلاتے چلاتے سورج سر  پر آن پہنچا۔ محض اتفاق کی بات ہے۔ کہ میں نے قمیص اتار رکھی تھی۔ اتنی دیر میں میری والدہ کھانا لے کر آتی دکھائیں دیں۔ میں نے سوچا کہ اس سے پہلے والدہ مجھ تک پہنچیں۔ میں  کدال لے کر کھال کا راستہ کھول دوں۔ تاکہ میرے کھانے سے فراغت حاصل کرنے تک  ایک کھیت سیراب ہو سکے۔ میں کدال لے کر کھال  کھولنے لگا تو دیکھا کہ والدہ میرے پاس سے گزر کر آگے کو چلی جاتی ہیں۔ میں حیران ہوگیا۔ اور آواز دی کے بےبے کدھر۔ اس پر والدہ نے پیچھے مڑکر دیکھا۔ اور کہنے لگیں۔

اوئے دلاریا! اے توں ایں! میں سمجھی کٹا چرن ڈیا اے۔ (اوئے دلارے یہ تم ہو۔ میں سمجھی بھینسا چر رہا ہے۔)

اس پر چوپال فلک شگاف قہقہوں سے گونج اٹھا۔

جب ذرا قہقہوں کا طوفان تھما۔ تو بزرگ نے کہا۔۔۔ خیر یہ واقعہ تو برسبیل تذکرہ یوں ہی بیچ میں آگیا۔۔۔

(جاری ہے)

Thursday 12 December 2013

باکمال بزرگ - قسط سوئم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

4 comments
گزشتہ سے پیوستہ:
شام کو چوپال میں اسی طاقت کے تذکرے تھے۔ کہ کیسے کیسے لوگ زیرزمین سو گئے۔ ایک بزرگ نے فرمایا۔۔۔ بیٹا یہ سب پرانی خوراکوں کا اثر ہے۔ مجھے دیکھو۔۔۔ تمام نوجوانوں نے ایک نظر بزرگ پر ڈالی۔ ہڈیاں ہی ہڈیاں۔۔۔ آنکھوں پر کوئی ساٹھ نمبر کا چشمہ اور ہاتھ رعشے کی وجہ سے مسلسل لرزاں۔۔۔ اس پر ایک نوجوان کو پھبتی سوجھی۔ اس نے کہا میں نے بھی پرانی خوراکیں کھا رکھی ہیں۔ ابھی ابھی پرسوں کا رکھا  کھانا کھا کر آرہا ہوں۔ اس پر بزرگ جلال میں آگئے۔۔ یوں بھی ایسی باتوں پر جلال میں آنا بنتا ہے۔  محض آدھا گھنٹا کے قریب کھانس کر انہوں نے اپنا گلا صاف کیا۔ اور اس کے بعد انہوں نے ایک تحقیرانہ نگاہ اس نابکار پر ڈالی۔ اور کہا۔۔۔ تمہارے لیے پرانی خوراکیں یہی ہیں۔۔ مگر ہماری پرانی خوراکیں بھی تازہ ہوتی تھیں۔ میں تمہیں اپنی جوانی کی بات سناؤ تو تم دنگ رہ جاؤ۔
اس پر راقم الحروف فورا ملتمس ہوا کہ قبلہ گاہی! گر آپ اس احقر کو ان  چشم کشا واقعات سے  آشنا فرمائیں۔ تو یہ سر احساس تشکر سے صدا خم رہے گا۔اس پر ایک اور بھی گویا ہوا کہ مجھے بھی دنگ ہوجانے کا شوق ہے۔ مدتیں بیتی کبھی دنگ نہ ہو سکا۔ آج یہ حسرت مکمل ہوتی نظر آتی ہے۔  بزرگ نے اس پر افروختہ افروز انداز میں کہا کہ ہمارے دور میں اسلاف کے سامنے زبان کھولنے کی تاب نہ تھی کسی میں۔ فرماں برداری کا یہ عالم تھا کہ جو اسلاف کہتے خاموشی سے کرتے۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے اپنے باپ کے سامنے کبھی زباں کھولی ہو۔ ایک دن والد صاحب مجھے کہنے لگے کہ یار کچھ بولو۔ مجھے پتا چلے کہ تم بولنا نہیں بھول گئے۔

اس سے پہلے میں تمہیں خوراکوں کے متعلق آگاہی  دوں۔ پہلے والدین اور بڑوں کی خدمت اور ادب سے متعلق یہ واقعہ سنو۔ چوپال میں موجود تمام لوگ ہمہ تن گوش ہوگئے۔ بزرگ نے اپنے ایک پرانے دوست (جو کہ خود بھی بزرگ تھے) کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا۔۔۔ اس کو تو یاد ہی ہوگا۔۔۔

ایک دن کی بات ہے کہ میں پورا دن کھیتوں میں کام کر کے تھکا ہارا گھر کو آیا۔ صبح صبح میں نے پانی دینے کو نہر سے بندھ توڑا تھا۔ اس کے بعد پھر وہ بندھ باندھا بھی۔ اس ایک کام میں پورا دن کیسے گزرا پتا ہی نہیں چلا۔ جب تھکن سے براحال ہوگیا۔ اور میں اس نہر کنارے لیٹا لیٹا تھک کر چور ہوگیا۔ تو اٹھا اور گھر کی راہ لی۔ کھانے کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ والد محترم نے جس چارپائی پر سونا ہے۔ اس کی نوار ڈھیلی ہوگئی ہے۔ ایک دوست نے چونک کر دیکھا تو ہنس کر کہنے لگے۔۔۔ میاں یہ سنسکرت والا نوار ہے نہ کہ عربی و فارسی والا۔ اور بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس سوچ سے کہ ساری رات والد بے آرام رہیں گے۔ تاک میں بیٹھ گیا کہ جیسے ہی والد اٹھیں تو میں فورا سے پہلے نوار کو کس دوں۔ تاکہ چارپائی پر آرام کیا جا سکے۔ مگر قدرت کو تو مجھ سے میری فرماں برداری اور محبت کا امتحان مقصود تھا۔ وہی امتحان جو ہر ولی سے لیا جاتا رہا ہے اور فرماں برداری کی اعلیٰ روایات کا مظہر رہا ہے۔

والد صاحب وہیں پر سو گئے۔ اب معاملہ میری برداشت سے باہر ہوگیا۔ اور میں اٹھا اور چارپائی کے نیچے گھس کو چاروں ہاتھوں پاؤں پر گھوڑے کی صورت نیچے جھک کر بان کو سہارا دیا۔ تاکہ والد صاحب کی کمر سیدھی رہے۔۔۔ اب جو والد صاحب بائیں کروٹ لیتے تو میں بھی بائیں سرک جاتا۔ اور دائیں کروٹ لیتے تو دائیں سرک جاتا۔ محض اتفاق کی بات ہے کہ والد صاحب جو روانہ تہجد پڑھنے کے عادی تھے۔ اس دن ایسی سکون کی نیند سوئے۔ کہ فجر بھی بس قضا ہی ہوئی چاہتی تھی۔ جب بیداری سے اٹھ کر مجھے چارپائی کے نیچے یوں جھکا پایا۔ تو بےاختیار میرا ماتھا چوم لیا۔ اور کہنے لگے۔ ایسی پرسکون نیند تو واللہ۔۔۔۔ کبھی زندگی میں نہ آئی تھی۔ بڑے فخر سے اپنے دوستوں میں یہ قصہ بیان کیا کرتے۔ پھر بزرگ نے تھوڑا سا شرما کر کہا کہ مجھے خبر ملی کہ میری اس فرماں برداری اور ادب کے تذکرے گاؤں کی عورتوں میں چرخہ کاتتے بھی ہونے لگے۔ اس پر دوسرے بزرگ ہنس کر کہنے لگے ہاں۔۔۔۔ وہ چرخے والی بات بھی درست ہے۔۔۔۔ شام کو کھیتوں کے کنارے بانسری بجانا بھی تو نے اس کے بعد ہی سیکھا تھا۔۔۔۔۔ اس پر پہلے بزرگ ذرا مزید شرما گئے۔۔۔۔ 

سب نوجوان دنگ تھے۔ چوپال پر سکوت طاری۔۔۔۔

(جاری ہے)

Wednesday 11 December 2013

باکمال بزرگ - قسط دوم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

6 comments
راقم نے اس نابکار کو گھورا۔۔۔۔ اور بزرگ کے قدم چھونے کے لیے آگے بڑھا۔ جذب عقیدت سے سرشار تھی طبیعت ۔ بس یوں سمجھیے کہ "اے تن میرا چشمہ ہووے" والا مصرعہ اسی دن ہی سمجھ آیا۔

اب  جو بزرگ سے باہم گفتگو بڑھی۔۔۔ تو انہوں نے اپنے خاندان میں گزرے اک اور بزرگ کی شہ زوری کے واقعات سے پردہ اٹھایا۔۔۔ ذرا انہی بزرگ کی زبانی سنیے۔۔۔

بزرگ اپنے سامنے بیٹھے نوجوانوں کو  دیکھا۔۔ اور کہا۔۔۔ کیا جوانیاں تمہاری ہیں۔۔۔ نوجوانوں۔۔ بس ذرا آٹے کی بوری اٹھاتے ہو تو ہانپنے لگتے ہو۔۔۔  یہ پیچھے ڈیرے کی چھت دیکھ رہے ہو۔۔۔ یہ پرانے وقتوں میں بھی چھت ہی تھی۔ اس انکشاف پر اکثر نے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں۔ یوں بھی فوق العادہ انکشافات پر اظہار کو محاورات کی عملی شکل ضروری تھی۔ بزرگ نے کمال سخاوت سے اس حیرانی کو نظر انداز کرتے ہوئے متبسم لہجے میں بات جاری رکھی۔  میں اس وقت جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا۔۔۔ بس روز کی عادت بنی ہوئی تھی۔۔۔ کہ دو بوریاں بغل میں دبا کر سیڑھیاں چڑھ جایا کرتا تھا۔۔۔ اور اترتا تھا۔۔۔ یہ عمل تیس بار دہراتا۔۔۔ پھر جب جسم گرم ہوجاتا تو ڈنڈ پیلا کرتا تھا۔۔۔  اور مزے کی بات دیکھو کہ میں اپنے  ساتھیوں میں سب سے کمزور ہوا کرتا تھا۔۔۔ باقی سب میرا مذاق اڑاتے تھے۔۔۔ غضب خدا کا دیکھو کہ وہ لوگ بھی میرا مذاق اڑاتے تھے جنہیں محلے میں کبوتر کوئی نہ اڑانے دیتا تھا۔ خیر۔۔۔ اس دور باکمال میں ہمارے  محلے میں اک بزرگ ہوا کرتے تھے۔۔۔ سب ان کو سائیں بابا کہا کرتے  تھے۔۔۔ ہائے۔۔۔ کیا بزرگ تھے۔۔۔ اللہ جنت نصیب کرے۔۔۔ بھئی زندگی بھر کوئی شہ زور دیکھا ہے تو وہ ۔۔۔  واہ کیا طاقت دی تھی اللہ نے مرحوم کو۔۔۔۔ گڈا  (بیل کے پیچھے جوتنے والا ریڑھا) اٹھا لیا کرتے تھے۔۔۔ قربانی کے دن بیل کو اکیلے ہی پچھاڑ کر ذبح کر دیا کرتے تھے۔۔ گر کوئی ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا۔۔ تو بہت ڈانٹتے۔۔۔ کہتے تم نوجوان  لوگ کام خراب کرتے ہو۔۔۔۔  ہم نے جا کر سب سے عید ملنے کے بعد ابھی قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کی تیاری کر رہے ہونا۔۔۔ اور  ان کے گھر سے گوشت  پہنچ جایا کرتا تھا۔۔۔ واہ واہ۔۔۔  اوئے تم لوگوں نے وہ تو دیکھا ہوا ہے ناں۔۔۔ یہاں سے وہ والا شہر۔۔۔۔ جی جی بالکل۔۔ اک نواجوان فورا بولا۔۔ یہاں سے دو سو کلومیٹر دور ہے۔۔ اس پر بزرگ سرکھجاتے ہوئے بولے۔۔ ہاں بالکل۔۔۔لیکن ہمارے دور میں یہ فاصلے ناپنے کا سلسلہ نہ تھا۔۔۔  بس جہاں تھک جاتے رات کاٹ لیتے تھے۔۔۔  خیر  اس سے تھوڑا پہلے اک گاؤں آتا ہے۔۔۔ وہاں جانا تھا۔۔۔ پیدل ہی نکلنے لگے۔۔۔ گھر والوں نے بہت کہا کہ نہیں ،گرمیوں کے دن ہیں۔۔ پیدل نہ جاؤ۔۔ ایسا کرو۔۔۔۔ گڈا لے جاؤ۔۔ پہلے تو نہ مانو۔۔۔ پر جب اصرار بڑھا تو گڈے پر سوار ہو کر نکل گئے۔۔ واپسی پر آدھے سے زیادہ سفر طے کر چکے تھے۔۔۔ کہ گڈے کا اک پہیہ ٹوٹ گیا۔۔۔۔ طبیعت بڑی مکدر ہوئی۔۔۔  بہت سٹپٹائے۔۔ اور گڈا اٹھا کر کاندھے پر رکھا۔۔ ساتھ بیل کو ہانکتے ہوئے لے آئے۔۔۔ کہنے لگے۔۔۔ آئندہ پرائی چیز کا سہارا نہ لوں گا۔۔۔ بھائی اپنے پیروں سے بھلی چیز دنیا میں کوئی نہیں۔۔۔  اس واقعے پر سب نوجوانوں کے منہ حیرت سے کھل گئے۔۔۔ واہ کیا طاقت تھی۔۔۔ اللہ اللہ

(جاری ہے)

باکمال بزرگ - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

10 comments
آپ کبھی بچے بھی رہے ہوں گے۔ اور جب بچے ہوں گے تب آپ نے اپنے بزرگوں کے کارنامے بھی سنے ہوں گے۔۔ ایسے ایسے کارنامے کے عقل دنگ رہ جائے۔ بھئی کیا کمال دور تھا۔۔۔ کیسے کیسے بزرگ ہوا کرتے تھے۔  اس دور میں تو یہاں تک مشہور تھا کہ بزرگ ہو اور باکمال نہ ہو۔۔۔ سمجھو بزرگ ہی نہیں۔۔۔۔ ایسے ہی کچھ باکمال بزرگوں کی زندگیوں سے کچھ سبق آموز واقعات پیش خدمت ہیں۔

تو جناب یہ بزرگ تھے بہت زبردست۔۔۔ پیدل چلنے کے بہت شوقین تھے۔۔۔ پیدل چلنا۔۔ لاہور سے جو نکلنا تو امرتسر چلے جانا۔۔۔ پورے گھر والوں نے علاقے کی مساجد میں اعلان کروا کروا کر تھک جانا۔۔۔ مگر بزرگ کا کہاں پتا چلنا۔۔۔ وہ تو وہاں کوئی دوسرا  خاندان کا بزرگ جو محض اتفاق سے پیدل ہی ہری مرچیں یا ٹماٹر خریدنے گیا ہوتا۔۔۔ ان کو بازار میں پھرتا دیکھ لیتا۔۔۔ اور ڈانٹ ڈپٹ کر واپس لے آتا۔۔۔ بس جی عجیب دور تھا ۔۔۔میلوں  کا سفرآن کی آن میں طے کرلینا۔۔۔ اک بار کرنا ایسا ہوا۔۔۔ کہ لاہور سے فیصل آباد جانا تھا۔۔۔ اور حقہ بھی ساتھ تھا۔۔۔ لاری والے ٹھہرے بدتمیز اور گستاخ۔۔ کہنے لگے کہ حقہ لاری کے اندر نہ رکھنے دیں گے۔۔ بزرگ نے بارہا سمجھایا۔۔۔ کہ یار حقہ کے بغیر سفر نہ ہوگا۔۔۔ تو گستاخی کی ساری حدیں پار کر گئے۔۔۔ کہنے لگے چھت پر باندھ دیتے ہیں۔۔۔ اس پر جو بزرگ کو جلال آیا۔۔۔ تو بس سے اتر آئے۔۔۔ اور کہنے لگے۔۔۔ اب فیصل آباد میں ہی ملاقات ہوگی۔۔۔ بس والا ہر سٹاپ پر رکتے سواریاں اتارتے چڑھاتے جب فیصل آباد بس اڈے پر پہنچا۔۔۔ تو یہ بزرگ وہاں انتظامیہ کی چارپائی پر بیٹھے حقہ سے لطف  اندوز  ہو رہے تھے۔۔۔ ڈرائیور کو دیکھ کر کہنے لگے۔۔ کیوں کاکا۔۔۔ بس اتنی ہی تھی رفتار۔۔۔۔ انتظامیہ نے جب بتایا۔۔۔ کہ بزرگ پیدل ہی آگئے تھے۔۔۔ اور کب کے آئے بیٹھے ہیں۔۔۔ تو حیرت سے اس کی آنکھیں کانوں تک پھیل گئیں۔۔۔ کہتے ہیں جھیل جیسی آنکھوں والا محاورہ اسی دن ہی ایجاد ہوا تھا۔۔ واللہ اعلم

اور یہ کتنے دن کا قصہ ہے۔۔۔ ایک گستاخ نے معصومیت سے سوال کیا۔۔۔۔

(جاری ہے)

Monday 2 December 2013

دسمبر پر ایک غزل کی فکاہیہ تشریح

15 comments
ہمارے حال پر رویا دسمبر​
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر​
شاعر دسمبر کی اوس کو بھی اغیار کی طعنہ زنی سمجھ رہا ہے۔ کتابی باتوں نے شاعر کا دماغ اتنا خراب کر دیا ہے کہ وہ یہ بھی بھول بیٹھا ہے کہ ساون دسمبر میں نہیں آتا۔ اصل میں شاعر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے انکی کوئی وجہ تلاش کرنے کے چکر میں ہے۔ اب اور کوئی نہ ملا تو یہ الزام اس نے مہینے کے سر منڈھ دیا۔

گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو​
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر​
کوئی اللہ کا بندہ پوچھے کہ جہاں سارا سال گزرا وہاں ان اکتیس دنوں کو کیا بیماری ہے۔ مگر نہ جی۔ اصل میں شاعر نے یہاں استعارے سے کام لیا ہے۔ کہ اپنے گھر والوں کے سامنے شادی کا ذکر کس طرح کرے۔ سو اس نے دسمبر کا کاندھا استعمال کرنے میں رتی بھر رعایت نہیں کی۔

بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا​
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر​
اسی موضوع کو شاعر نے جاری رکھا ہے۔ جب پہلے شعر پر کوئی ردعمل نہ ہوا اور گھر والوں کی طرف سے کسی قسم کی پذیرائی حاصل نہ ہوئی۔ تو شاعر کا لہجہ ذرا بیباک ہو گیا۔ اور اس نے کھلے الفاظ میں وصل کی تمنا ظاہر کرنی شروع کر دی۔ شاعر کو اخلاقی سدھار کی اشد ضرورت ہے۔

وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن​
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر​
یہاں ہر شاعر نے اپنی نام نہاد محبت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اگر اسے محبوب سے الفت ہوتی تو اسے وقت اور دن یاد ہونا چاہئے تھا۔ مگر شاعر کو تو عشرہ بھی یاد نہیں۔ کہ شروع تھا درمیان یا پھر آخر۔۔۔ ۔ اس کو صرف مہینہ یاد ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محبوب شاعر کی نسیانی سے تنگ تھا۔ اوریہی وجہ بنی اس کے چھوڑ کر جانے کی۔ شعر کے الفاظ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ شاعر کو بھی کوئی دکھ نہیں ہے۔

یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے​
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر​
اب شاعر نے یکدم پلٹی کھائی ہے۔ اور محبوب کے ذکر سے سیدھا غم روزگار پر آ پہنچا ہے۔ شاعر کسی ہوٹل میں پیاز کاٹنے کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ اور انکی وجہ سے جو آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے اس کو بھی دسمبر کے سر تھوپ دیا۔ حالانکہ دسمبر اک خوشیوں بھرا مہینہ ہے۔ اور خاص طور پر مغربی ممالک کے لیئے خوشیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ مگر اسے شاعر کی مغرب بیزاری کہیں یا پھر دسمبر سے چڑ کے اس نے پورے دسمبر کو ہی نوحہ کناں قرار دے دیا ہے۔

جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی​
مری تنہائی اور میرا دسمبر​
شاعر اک فضول خرچ آدمی ہے یا پھر بے روزگار۔ کہ اس کے پاس تنہائی کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں۔ اوپر سے اس نے اس کڑکی کے دور میں جب کچھ اور ہاتھ آتا نہ دیکھا تو دسمبر کو ہی اپنی ملکیت قرار دے دیا۔ دسمبر نے یقینا اس دعوے پر اچھے بھلے ناشائستہ لہجے میں اظہار خیال کیا ہوگا۔ واللہ اعلم
اک اور وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ شاعر اک بدزبان آدمی تھا۔ اور اسی وجہ سے کوئی بھی اس سے ملنا یا بات کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ اب تنہائی میں بیٹھا اکیلے میں باتیں کرتے ہوئے دسمبر کو کہنے لگا کہ یار تم تو میرے ہو۔ سنا ہے دسمبر نے اسکا دل رکھنے کو حامی بھر لی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دسمبر نے صاف انکار کر دیا تھا۔ خیر ہم اندر کی تفصیلات میں نہیں جاتے۔

دراصل میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ دسمبر کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟؟؟؟

دسمبر کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ شاعر کے ساتھ ہے جس نے دسمبر کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اور آخر میں اسے اک تھپکی بھی دے کہ
"تو تو یار ہے اپنا۔ فکر مت کر۔۔۔ ۔"
غیر تصدیقی ذرائع سے یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ دسمبر اس کے خلاف احتجاج کرے گا۔ اور قانونی چارہ جوئی کے لیئے بھی کوئی دعوی دائر کرے گا۔