Tuesday 31 January 2017

شکریہ

6 comments
بڑے دنوں سے یہ بات میرے ذہن میں گردش کر رہی تھی کہ جب سے لاہور آیا ہوں دوستوں کے ساتھ  مل بیٹھنے کا وقت ہی نہیں مل رہا۔ چارلس ہنسن کی نظم "آراؤنڈ دا کارنر" بھی یاد آرہی تھی۔ معمولاتِ زندگی میں اب وقت کیسے نکالا جائے۔ کیسے ملا جائے سب سے۔ پھر یہ سوچ کر دل بہلا لیتا کہ شاید اب  بالمشافہ ملاقاتوں کا زمانہ بھی اٹھنے والا ہے۔ کوئی دور تھا  ہر وقت ساتھ ہوتے تھے۔ دن رات ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ کر اکتائے رہتے تھے۔ اور اب مہینوں ملاقات ہی نہیں ہوتی۔ بلکہ مہینوں کیا۔۔۔ کئی ایک  شکلیں تو  ذہن سے محو ہوئی جاتی ہیں۔ کیسا خوشنما دور تھا۔ کوئی فون کرتا تو کہتے ریسور رکھ۔ اور چند منٹ بعد اس کے گھر کے باہر کھڑے ہوتے۔ کیسا آسان تھا ملنا۔ یہ بھی خوف نہیں ہوتا تھا کہ اب بس وقت ختم ہونے والا ہے۔ اب اٹھ کر واپس بھی جانا ہے۔ کتنی ہی راتیں  یوں سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھے بیٹھے کاٹ دیا کرتے تھے۔ کیسا دلچسپ دور تھا۔

 آج جب فرقان مدتوں بعد ملنے آیا تو مجھے وہی دور دوبارہ یاد آگیا۔ کتنا مشکل ہے جب دیار غیر سے آدمی پلٹ کر آئے۔ اور پھر لاہور اس کا شہر بھی نہ ہو۔ اور وہ وقت نکال کر صرف اور صرف ملنے آئے۔ اپنے اس چند روزہ قیام میں ہمارے لیے وقت نکال کر لائے۔ بتلائے کہ نہیں دوست! ملاقاتوں کا دور ابھی گیا نہیں ہے۔ ابھی ہم ادھر ہی ہیں۔ ویسے ہی۔ کیا ہوا جو سنجیدگی نے ہمارے چہروں پر ڈیرہ جما لیا ہے۔ کیا ہوا جو مہینوں کے حساب سے ہم ایک دوسرے کو فون تک نہیں کرتے۔ مگر ہم ہیں۔ ادھر ہی اسی جگہ۔ ہوں گے جو وقت کی پکار پر تیز رفتار زندگی کے ساتھ آگے نکل گئے ہوں گے۔ مگر ہم پرانی قدروں   کے ہی گرویدہ  ہیں۔ ہمارے لیے آج بھی ملاقات کا مطلب جا کر ملنا ہی ہے۔ کچھ پل کچھ لمحے جو ساتھ گزر گئے۔ کتنی ہی انمٹ یادوں کا نشاں چھوڑ گئے۔ ذہن کے قبرستان سے   کیسے کیسے مناظر دوبارہ زندہ کر گئے۔ میں تمہاری ان محبتوں کے لیے بہت شکرگزار ہوں۔ سدا خوش رہو۔

Sunday 1 January 2017

عجب تعلق

9 comments
کچھ تعلق بہت عجیب ہوتے ہیں۔ ان کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ یہ یوں ہی بن جاتے ہیں۔ ان کہے، ان سنے۔ ان کی اپنی ایک چاشنی ہوتی ہے۔ آپ سامنے والا کا نام نہیں جانتے۔ وہ آپ کا کام نہیں جانتا۔ لیکن اس کے باوجود ایک آشنائی کی صورت قائم رہتی ہے۔ ایسے تعلقات گفتگو کے متقاضی نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کے درمیان ایک لگا بندھا سا  رشتہ ہوتا ہے۔ بہت ہی عمومی سا۔ میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جن کے نام مجھے نہیں آتے۔ ان کو یقینی طور پر میرا نام نہیں آتا ہوگا۔ لیکن ہمارے درمیان ایک  ان کہا دوستانہ سا موجود ہے۔

 بچپن میں لائبریری کے لیے نکلا کرتا تھا۔چونکہ پیدل جانا ہوتا تھا تو شارٹ کٹ کے چکر میں   محلے کے بیچ سے گزرتی  گلیوں سے ہوتا لائبریری جاتا تھا۔ دو تین گلیاں گزرنے کے بعد ایک گھر کے باہرایک چھوٹا سا سٹال آتا تھا۔ اس سٹال پر ایک ہم عمر نے بسکٹ، ٹافیاں یا ضروریات زندگی کا کچھ سامان رکھا ہوتا تھا۔ میں اس دکان پر رکتا ،  رسیلی سپاری خریدتا  اور آگے لائبریری کی طرف نکل جاتا۔ شب و روز گزرتے چلے گئے۔ بڑا ہونے پر  بابا نے مجھے سائیکل دلا دی۔ یوں پیروں کی جگہ پیڈل نے لے لی۔ ۔ اُدھر  اس لڑکے نے اپنے گھر کی بیٹھک کو ہی دکان بنا لیا تھا۔  کچھ اور سامان بھی رکھ لیا تھا۔ میں جیسے ہی اس کی دکان کے سامنے پہنچتا، تو وہ بن کہے  ایک مخصوص رقم کی سپاری میرے سامنے دھر دیتا۔ ادھر میری مٹھی میں وہی رقم ہوتی جو میں نے اس کو دینی ہوتی تھی۔ میں کاؤنٹر پر رقم رکھ کر سپاری اٹھا کر آگے نکل پڑتا۔کالج کے بعد  صادق آباد چھوڑ دیا۔ وہ راستے، لائبریری سب کچھ پیچھے رہ گیا۔ لائبریری بند ہوگئی۔ کیسے اور کیوں بند ہوئی۔ یہ گفتگو  الگ سے طویل تحریر کی متقاضی ہے۔ تاہم ابھی کچھ دن قبل  گھر بیٹھا تھا کہ امی نے مجھے بازار سے کچھ لانے کا کہا۔ میں نے سوچا چلو پیدل ہی چلتے ہیں۔ بازار ان گلیوں سے بہت قریب تھا۔ اندازاً بھی پندرہ برس کے بعد میں انہی گلیوں سے گزرنے کا قصد کر رہا تھا۔  چلتے چلتے میں جب اس دکان کے سامنے پہنچا تو بےارادہ ہی رک گیا۔وہ چھوٹی سی دکان ایک جنرل سٹور بن چکی تھی۔  وہی لڑکا وہاں خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا۔ میری طرح وہ بھی موٹا ہو چکا تھا۔ عمرِ رواں کی دی ہوئی لکیریں اس کے ماتھے پر بھی ابھر آئی تھیں۔ مجھےدیکھ کر اس کے لبوں پر بےاختیار مسکراہٹ ابھر آئی۔ وہ کاؤنٹر سے باہر نکلا۔ بڑی گرمجوشی سے گلے ملا۔ اور پہلی بار میں نے شاید اس کی آواز سنی تھی۔ "کہاں چلے گئے تھے تم"؟ بس فکر روزگار کھینچ کر لے گئی تھی۔ میں نے جواب دیا۔ "موٹے ہوگئے ہو۔ " اس نے ہنس کر کہا۔ اور پھر اپنی توند پر ہاتھ پھیر کر اور بھی ہنسنے لگا۔ "سپاری اب بھی کھاتے ہو؟" " نہیں۔ دو سال قبل چھوڑ دی تھی۔ اس وقت  سونف کھاؤں گا ۔" میں نے کہا۔ اس نے سونف مجھے پکڑا دی۔ میں نے روپے دینے کی کوشش کی تو کہنے لگا۔ رہنے دو۔ میں نے زبردستی ادائیگی کی۔دعائیہ کلمات کا تبادلہ کیا اور بازار کی طرف چل پڑا۔

سال کے آخری دن سے تعلق بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آخری دن آتا ہے۔ میں اپنی عمر کی الماری سے بارہ مہینے نکال کر سامنے رکھ دیتا ہوں۔ وہ بدلے میں چند لمحے، کچھ پل، خوشی غمی کے مجھے تھما دیتا ہے۔ میں کہتا رہ جاتا ہوں۔ مجھے یہ یادیں نہیں چاہییں۔ یہ چھبن یہ نادانی لے جاؤ۔ اگر تم پلٹ کو تو یہ فیصلہ میں بدلنا چاہتا ہوں۔ وہ  مسکرا دیتا ہے۔میرا کاندھا تھپکتا ہے۔ آنے والے کے استقبال کا کہتا ہے اور آگے نکل پڑتا ہے۔ میں کتنی دیر تک اسے جاتا ہی دیکھتا رہ جاتا ہوں۔ اور پھر ان یادوں کو سمیٹ کر حافظے کی دراز میں رکھ دیتا ہوں۔ کتنے سال ہیں جوآخری دن بھی  مجھ سے ملنے ہی نہیں آئے۔ ان   کی درازیں خالی پڑی ہیں۔پھر مدتوں بعد جب کوئی سال مجھ سے ملنے آیا تھا۔ تو میں بھی کتنے تپاک سے اسے ملا تھا۔ کہاں رہ گئے تھے تم۔ ایسا ہی کچھ سوا ل میرا بھی تھا۔ اس کا جواب یاد نہیں۔شاید وہ ہنس پڑا تھا۔ میرے بیوقوفانہ سوال پر۔ کسی کسی دراز میں اب   کہیں کوئی ایک واقعہ ہے۔ کہیں کسی خوشی کے استعارے بھی ہیں۔   اب یہ  درازیں بھرنے لگی ہیں۔ امسال  ان یادوں کی درازوں میں دوائیوں اور تشخیصی نسخوں کا بھی اضافہ ہونے لگا ہے۔ سوال و جواب جو تشنہ تھے۔ ملاقاتیں جو ادھار تھیں۔ ارادے جو ادھورے رہ گئے ہیں۔ ان کہی باتیں جو کہیں دل  میں ہی رہ گئیں۔ اور کہی ہوئی جو بار سماعت ٹھہریں یا پھر شور میں سماعتوں تک نہ پہنچ سکیں۔ میں ان سب کو حیرت سے دیکھ رہا ہوں۔ کیا خبر کہ اگلے سال کی ادائیگی میں حیرت بھی ہوگی یا نہیں۔