Wednesday 17 February 2016

سامنے دھری (لاتسکہ سپیشل) از قلم نیرنگ خیال

5 comments

غائب دماغی بھی" سامنے دھری "والی قبیل سے  ہی تعلق رکھتی ہے بلکہ یوں کہنامناسب ہے، "سامنے دھری "والے مقولے کی عملی شکل  غائب دماغی ہے۔ انسان جہاں موجود ہوتا ہے۔ وہاں موجود نہیں ہوتا۔ اور وہاں موجو د ہوتا ہے جہاں اسے موجود نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے کبھی    بہت سنجیدہ صورتحال جنم لیتی ہے تو کبھی بہت ہی مضحکہ خیز حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ غائب دماغی میں اگر ایک سے زیادہ شخص  شامل ہوجائیں تو صورتحال عموماً بہت ہی عجیب ہو جاتی ہے۔ ہمارے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بھی کچھ ایسا ہی ہے جس میں ہم دو افراد بیک وقت خود کو پروفیسر کے درجے پر فائز کر بیٹھے تھے۔  آخری لمحے  تک ہمیں یہ اندازہ نہیں ہوا کہ ہم  نے اصل میں کدھر جانا تھا اور ہم کدھر بیٹھے ہوئے ہیں۔ 
بہاولپور سے ہماری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ ہمارا ننھیال، وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں سب کا جمع ہونا، گپ بازی، کھیل  کود، الغرض کیا کیا  ہے جو  ہمیں اس شہر کی سرحد کو چھوتے ہی یاد آجاتا ہے۔  لیکن اس بار ہم   اپنے ننھیال  نہیں جا رہے تھے۔   اہلیہ کو اس کے میکے چھوڑنے کے بعد آزادی کا جو احساس کسی بھی مرد میں جاگتا ہےاس کا ادراک کوئی شادی شدہ مرد ہی کر سکتا ہے۔  شہرِ سسرال سے نکلتے  آدھی چیزیں تو بندے کو ویسے ہی بھول جاتی ہیں۔ اور باقی آدھی وہ دانستہ بھلا دیتا ہے۔ ہماری بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔ وہاں سے نکلے اور بہاولپور میں اپنے ایک قدیم    دوست کو فون کیا۔
راقم: کدھر ہے بھئی؟
دوست: بہاولپور میں ہوں۔
راقم:  میں آرہا ہوں۔
دوست: بھابھی اور بچے بھی ساتھ ہیں؟
راقم:  ایک فلک شگاف قہقہے کے ساتھ:نہیں۔ اکیلا ہی ہوں۔
دوست: آجا جلدی سے ۔ سیدھا میرے دفتر آجائیں۔  زور کی بھوک لگی ہے۔
اس کے دفتر پہنچتے ہی ملنے سے بھی قبل ہم نے بھوک کا نعرہ مستانہ بلند کر دیا۔ دوست نے کمال سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ بتا کھانا کہاں کھائے گا۔ ہم  ابھی اس کی فیاضانہ پیشکش پر غور ہی فرما رہے تھے کہ اس نے خود ہی ہماری مشکل آسان کر دی۔ فورسیزن کا پیزا بہت اچھا ہے۔ چل وہ کھاتے ہیں۔ مجھے بھی فور سیزن کھانا کھائے کافی عرصہ گزر چکا تھا لہذا کسی بھی قسم کے اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ ہم دونوں گاڑی میں بیٹھے اور فور سیزن کی طرف چل نکلے۔
پارکنگ میں گاڑی لگانے کے بعد ہم دونوں باتوں میں مگن اتر کر اندر کی طرف چل پڑے۔ داخلی دروازے  سے گزرتے ہی مجھے اجنبیت کا احساس سا ہوا۔
چند سالوں ہوٹل کتنا بدل گیا ہے۔ داخلی راہداری تو بالکل ہی بدل ڈالی ہے۔ میں نے دوست کو کہا۔
وہ بھی حیران سی نظروں سے ہال پر نظر ڈالتے ہوئے کہنے لگا کہ ہاں یار!  اندرسے  بھی بالکل بدل گیا ہے۔  ہال کی تقسیم بھی کر دی  گئی ہے۔ میں چند مہینے قبل آیا تھا۔ بڑی جلد ہی ان لوگوں نے نقشہ بدل ڈالا۔
بیرے نے ایک میز تک ہماری رہنمائی کی۔ اور مینو کارڈ ہمارے سامنے دھر دیا۔
یار یہ دیوار پر جو بڑا سا لاتسکہ لکھا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ میں نے اس کی توجہ ایک دیوار کی طرف کروائی۔
یہ تو مجھے علم نہیں۔ بڑا عجیب سا لفظ ہے۔ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
ہم دونوں مینو دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔ کون سا پیزا آرڈر کریں۔ یہ چکن تکہ یا پھر باربی کیو؟  دوست نے پوچھا۔
میرا خیال ہے کہ لاتسکہ سپیشل منگوایا جائے۔ باقی سب تو  پہلے بھی کھائے ہوئے ہیں۔  کچھ نیا ذائقہ بھی ہوجائے۔ میں نے کہا۔
پیزا آرڈر کرنے کے بعد ہم دونوں دوبارہ خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔ پرانے دنوں کی باتوں اور یادوں نے ہمیں ارد گرد کے ماحول سے یکسر لاتعلق کر دیا تھا۔  کھانے کے دوران میں نے غور کیا تو نیپکن اور ٹشو پر بھی لاتسکہ لکھا ہوا تھا۔ یاحیرت یہ کیا ماجرا ہے۔
کھانے کے بعد جب بل آیا تو اس پر بھی لاتسکہ لکھا ہوا تھا۔ ہم نے ایکدوسرے کو دیکھا۔ دوست کہنے لگا کہ یار انہوں نے تو بل تک کی پرنٹنگ بدل دی ہے۔ حد ہے۔
بل کی ادائیگی کے بعد اپنے تئیں جب ہم فور سیزن ہوٹل سے باہر نکل کر کار کی طرف بڑھے  تو مجھے ساتھ والے ہوٹل کے اوپر فور سیزن کا  بورڈ نظر آیا تو بےاختیار میرے سے نکلا۔ "اوئے فورسیزن کا بورڈ اُدھر کیوں لگا ہے؟"
اس پر ہم نے دونوں نے اکھٹے پلٹ کر دیکھا۔ جس ہوٹل سے ہم کھانا کھا کر نکلے تھے۔ اس پر لاتسکہ کا بورڈ جگمگا رہا تھا۔ 

Monday 8 February 2016

شاہ جی

0 comments
یہ ان بھلے دنوں کی بات ہے جب مولوی نے شہر اقتدار میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ دفتر میں مولوی کی نشست ملک صاحب  اور چوہدری کے ساتھ تھی۔   شاہ جی ان کے بالکل عقب والی کرسی پر  سویا کرتے تھے اور جب کبھی جاگ رہے ہوتے تو فرماتے تھے کہ یہ لوگ میرے عقب میں بیٹھتے ہیں۔ بات ان کی یوں بھی درست تھی کہ شاہ جی خود تو کم ہی بیٹھا کرتے تھے۔ زیادہ تر میز کو تکیہ بنائے فون کو کسی حسینہ کا ہاتھ سمجھ کر تھامے محو استراحت ہوتے تھے۔  آخر ہم سے رہا نہ گیا اور شاہ جی سے ایک دن پوچھ ہی بیٹھے کہ فون کو اتنی محبت سے پکڑ کر کیوں سوتے ہیں۔ کیا کسی کے لوٹ آنے کا امکان باقی ہے۔ اس پر شاہ جی نے صرف ہنسنے پر اکتفا کیا۔ یوں بھی ہمارے درمیان ایسی کوئی بےتکلفی نہ تھی کہ شاہ جی ہماری اس بات کا جواب دیتے یا جواباً ہم پر کوئی فقرہ کستے۔ اب یہ سوال اس لیے نہیں پوچھتے کہ بےتکلفی کے سبب شاہ جی اصل بات ہی نہ بتا دیں۔ پہلی چند ملاقاتوں میں ہم شاہ جی کو مکہ پلٹ حاجی سمجھتے رہے۔ وجہ  یہ  کہ  ہم نے  اتنا منڈھا ہوا سر حاجیوں اور عمرہ کر کے پلٹنے والوں کا ہی دیکھا تھا۔ لیکن  مہینوں بعد بھی بالوں کی طوالت میں اضافہ نہ ہوا تو ہم سمجھ گئے کہ یہ حاجی پلٹ   حلیہ ڈھونگ ہے۔ درحقیقت شاہ جی ایک پلٹے ہوئے حاجی تھے جس کا ادراک ہمیں   مدت کی آشنائی کے بعد ہوا۔ شاہ جی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی عادات کا  تذکرہ ہو تو سامع  فوراً کہتا ہے کہ بالکل ایسا ہی ایک دوست میرا بھی ہے۔  یہی وجہ تھی کہ جب  شاہ جی سے  تعارف ہوا تو ہم نے بھی یہی کہا کہ شاہ جی آپ جیسا ایک دوست ہمارا  بھی ہے۔
شاہ جی  کے قدوقامت  کی مثال عمران سیریز کے "جوانا" سے دی جا سکتی ہے۔ لحیم شحیم، جتنا لمبا، اتنا چوڑا۔ ایک دن اپنی دونو ں کلائیوں کو اکھٹا جوڑ کر فرمانے لگے آج میں نے ایک لڑکی  دیکھی  جس کی کمر قریباً  میری ان کلائیوں جتنی ہوگی۔ اس پر مولوی نے برجستہ کہا۔ شاہ جی مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کو موٹی عورتیں پسند ہیں۔مولوی کا   فرمانا اپنی جگہ بالکل بجا تھا ۔ شاہ جی کی کلائی کی گولائی ایک عام آدمی کی ران جتنی تھی۔ اس پر دونوں کلائیاں ملا لی جائیں تو   کمر کسی پنجابی ہیروئن ہی کی بنتی ہے۔  ہمارے ذہن میں مشہور زمانہ گانے کے بول رقص کرنے لگے۔ پٹ 28 کڑی دا، 87 ویٹ کڑی دا۔ مردوں سے بات کرتے وقت چشمہ اتار دیا کرتے تھے۔ اور صنف مخالف سے بات کرتے وقت چشمہ اتار کر شیشے صاف کر کے دوبارہ لگا لیتے تھے۔ پتا نہیں اس میں کیا رمز تھی۔  ہاں یہ بات ہمیں ضرور معلوم تھی کہ بغیر چشمے کے شاہ جی  کوئی ساڑھے تین سینٹی میٹر تک دیکھ لیتے ہیں۔ پاس کھڑا دوست ان کو دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن ہمالہ  پر کھڑے ہو کر کراچی ساحل پر  پھرتی لڑکیاں   دیکھ لیا کرتے تھے۔  ان کی اس دوربیں نگاہ اور حرکات کے سبب ہمیں  محسوس ہوتا کہ شفیق الرحمن کا کردار "شیطان" تحاریر کی دنیا سے نکل کر مجسم ہوگیا ہے۔
ایک دن   ہم، مولوی اور شاہ جی جب جمعہ نماز کے لیے نکلے تو راہ میں شاہ جی کو پتا نہیں کیا سوجھی۔ مولوی کو چھیڑتے ہوئے کہنے لگے کہ اگر یہ بڑا ساکھمبا آپ کے سر پر گر پڑے تو آپ اور  چھوٹے ہو کرکوہ قاف سے درآمد شدہ لگیں گے۔ اس پر ہم نے کہا کہ اگر یہی کھمبا آپ کے سر پر گر پڑے تو آپ چھوٹے ہو کر   عام انسان لگیں گے۔   شاہ جی نے  مسکراتے ہوئے  دستِ شفقت راقم کے کاندھے پر رکھا، جس کا اثر راقم  الحروف نے ایڑی تک محسوس کیا۔
شاہ جی کے قدو قامت کا اندازہ ان کے چہرے مہرے سے نہیں ہو پاتا تھا۔ اور اس کا وہ بہت ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔ ایک دن مجلسِ یاراں میں اپنی دلیری کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے۔
میں شمالی علاقہ جات سے واپس آرہا تھا۔  راستے میں ایک موٹر سائیکل والے نے انتہائی فضول انداز میں بائیک سڑک پر لہرایا جس کی وجہ سے گاڑی نے ہلکی سی تھپکی اس  موٹر سائیکل کو دے دی۔ میں نے دیکھا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے تو نہ گاڑی آہستہ کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی رکا۔ لیکن اس موٹر سائیکل سوار نے دیکھا کہ ایک "لڑکا بالا" گاڑی اڑائے لے جا رہا ہے سو فوراً  گاڑی کے پیچھے اپنا موٹر سائیکل لگا لیا۔شاہ جی کے منہ سے اپنے لیے "لڑکا بالا" کے الفاظ سن کر تمام سامعین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لیکن شاہ جی نے سب  کو نظرانداز کر کے اپنی بات جاری رکھی۔ لڑائی بھڑائی سے میں یوں بھاگتا ہوں جیسے سپین میں لوگ بھینسے کے آگے بھاگتے ہیں۔اب میں سوچ رہا تھا کہ اس سے جان کیسے چھڑاؤں۔ خیر آگے  ایک ہوٹل پر جب میں نے گاڑی روکی تو وہ فوراً میرے دروازے والی طرف آگیا۔ میں سکون سے نیچے اتر کر جب اس کے سامنے کھڑا ہوا تو اس کے چہرے کی رنگت ہی بدل گئی۔ اس غریب کو ایسی ہی مایوسی ہوئی جیسی کسی لڑکی کا نمبر سمجھ کر ملانے والے آوارہ اور بدقماش لڑکے کو لڑکے کی آواز سننے پر ہوتی ہے۔ اور وہ گھبرا کر کہتا ہے۔ "جی فلاں سے بات ہو سکتی ہے۔"اس کا سر بمشکل میرے سینے تک پہنچ رہا تھا۔ میں نے پوچھا۔ "جی فرمائیے!" تو اس کی زبان بھی لڑکھڑا گئی اور کہنے لگا کہ "دیکھیے! ہمارا بھی سڑک پر حق ہے۔"  میں نے کہا تم اتنی دور مجھے بس یہی بات بتانے آئے ہو تو وہ بےچارہ دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ آخر میں نے اس کو ایک عدد ہلکا سا دھکا دیا اور اندر کی جانب چلا آیا۔  شاہ جی نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ اس دن انہوں نے شکرانے کے کتنے نفل پڑھے تھے۔
کھیلوں کے بےحد شوقین تھے۔  اکثر ان کا نعرہ ہوتا تھا ۔"کھیڈاں نہ کھیڈن دا ں گے۔۔۔۔ " بقیہ  احباب علم و عمل کی محاورہ فہمی پر چھوڑ رہا ہوں۔ کئی ایک تو دبے دبے لفظوں میں کہہ بھی دیتے کہ آپ تو کھیل لیتے ہیں۔  انہی دنوں میں شاہ جی کو فوس بال (گڈویوں والا فٹبال) کھیلنے کا شوق ہوگیا۔  عالم یہ تھا کہ شاہ جی کے ہاتھ بال آجاتی تو اتنی زور سے شاٹ مارتے کہ بال مخالف سمت کی دیوار سے ٹکرا کر اپنے ہی گول میں  جا چھپتی تھی۔ کئی بار تو گیند نے باہر آنے سے انکار کر دیا کہ جناب یہ آدمی بہت زور سے مارتا ہے۔ دیکھنے والوں کا یہ بھی فرمانا تھا کہ ایک آدھے فٹبالر کی ٹانگ توڑ دی ہے۔ اگر وہ راڈ سے بندھے نہ ہوتے تو یقیناً باہر آجاتے۔ اس پر ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر ہو بندھے ہونے کی وجہ سے باہر نہیں آسکتے تھے تو دل میں گالیاں ضرور دیتے ہوں گے۔  اچھے کھلاڑی کو اپنا پارٹنر بناتے اور جیتنے کی صورت میں خود رقص ابلیسی فرماتے۔
ایک دن مجھ گناہ گار سے فرمانے لگے کہ آئیں فوس بال کھیلتے ہیں۔ میں  ان کے ساتھ چل پڑا۔ جہاں شاہ جی ایک قدم اٹھاتے میں چار پانچ قدم اٹھاتا۔ لیکن بندہ بشر تھا۔ سو کوتاہی ہو گئی اور جب فوس بال کی میز تک پہنچا تو شاہ جی میرے سے ایک قدم آگے ہوگئے۔   وہاں پر ایک بہتر کھلاڑی پہلے سے کسی پارٹنر کی راہ تک رہا تھا۔ فوراً اس کے ساتھ ہاتھ ملا کر مجھے کہنے لگے۔ آپ نے دیر کر دی۔  محفل یاراں میں جب شاہ جی کی اس بےرخی کا تذکرہ کیا تو مولوی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔  ہم پریشان ہوگئے ۔ الہی خیر۔ اے مولوی! بتا تو سہی ماجرا کیا ہے۔ اے شخص تو رو کیوں رہا ہے۔ چشم فلک نے ایسا کون سا منظر دکھلا دیا  کہ آج سربزم تیری آنکھ چھلک گئی۔ اس پر وہ مرد بےقرار ، پیکر زہد و انکسار یوں گویا ہوا۔
تمہارا یہ واقعہ سن کر مجھے ایک شام کا قصہ یاد آگیا ہے۔ ہاں وہ شام ہی تھی۔ عام سی شام تھی لیکن پھر ایسی بات ہوئی کہ وہ شام بہت خاص بن گئی۔ آہ! اس کو یاد کر کر کے میرا کلیجہ چھلنی ہوا جاتا ہے۔ سنو اے نادان دوستو! تمہیں میں اپنی سادگی اور شاہ جی کی چالاکی کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔  یہ شخص جسے دنیا شاہ جی کے نام سے جانتی ہے میرے پاس آیا۔ میں ایک دفتری  کام میں  غرق تھا۔ اس پر آدھے سامعین کی آنکھوں میں حیرت عود کر آئی۔ مولوی نے مجلسی حیرانی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے بات جاری رکھی۔  اس نے مجھے کہا کہ آؤ نیچے جا کر فوس بال کھیلتے ہیں۔ میں اس قدر مصروف تھا کہ میں نے اسے اشارے سے منع کیا۔   لیکن اس نے میرے اشارے کو ایک طرف کرتے ہوئے کہا کہ خبردار! دفتر میں اس قسم کے اشارے کرنا اخلاقی گراوٹ کی نشانی ہے۔ میں خود بھی سوچ میں پڑ گیا کہ میں نے اشارہ کیا کیا ہے۔ اس نے  جب مجھے تذبذب کے عالم میں دیکھا تو کہنے لگا کہ آئیں۔ فوس بال کھیلنے سے طبیعت تروتازہ ہوجائے گی۔واپس آکر کام کر لیجیے گا۔ میں جو کافی دیر سے دفتری الجھن کا سرا ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا مجھے اس کی بات میں صداقت نظر آئی۔ میں اس کے ساتھ کھیلنے کی جگہ تک جا پہنچا۔ وہاں پہلے ہی  دو ٹیمیں آپس میں کھیل رہی تھیں۔ ہم ان کا کھیل دیکھنے لگے۔ باتوں باتوں میں شاہ جی نے تگڑی والی ٹیم کو چیلنچ مار دیا۔ اور کہنے لگے کہ اگر خدانخواستہ تم لوگ اس  ٹیم سے جیت گئے تو پھر ہم دیکھنا تمہارا کیا حشر کریں گے۔ میں شاہ جی کے اس چیلنچ پر حیران ہو رہا تھا کہ میری کھیلنے کی صلاحیت جاننے کے باوجود وہ اس ٹیم کو چیلنج کیسے دے رہے ہیں۔ اتنی دیر میں ایک اور اچھا کھلاڑی  وہاں آن پہنچا۔ تگڑی ٹیم کے جیتنے کے بعد جب میں نے شاہ جی کے ساتھ میز سنبھالنے کی کوشش کی تو یہ مجھے کہنے لگے کہ مولوی۔ یار ذرا چیلنج لگا ہوا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس اچھے کھلاڑی کے ساتھ کھیل لوں۔ شاہ  جی اس حرکت کا تگڑی ٹیم کو بھی اتنا دکھ ہوا کہ وہ اسی دکھ میں ہار گئے۔
مولوی کا واقعہ ختم ہونے پر ہم نے دیکھا کہ وہاں اور بہت سارے لوگوں کی آنکھیں اشکبار تھیں۔پس منظر میں چلتی موسیقی کسی فلمی تھیم کی طرح ماحول پر اثرانداز ہورہی تھی۔
ایک ہم ہی نہیں
جسے دیکھو یہاں
وہی آنکھ ہے نم
ایک طرف سے ہلکی سی آواز آئی۔ ٹیبل ٹینس پر میرے ساتھ بھی یہی ہوا  جبکہ دوسری جانب سے یہی صدا بلئیرڈ کے نام سے سنائی دی اور پھر باقی آوازیں ہچکیوں میں دب گئیں۔   "؏ - بجھتا کہاں بھڑک گیا رونے سے سوز غم"  سب کے چہروں پر ایک ہی کہانی لکھی ہوئی تھی ۔ ادھر ہمارا وہ حال تھا کہ "میرا اس کا غم سانجھا تھا۔ میں اس کو کیسے بہلاتا"۔جبکہ  شاہ جی کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ رقصاں تھی۔

نوٹ: اس خاکے کے تمام کردار تخیلاتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی "سو فیصد" مشابہت محض اتفاقیہ ہوگی ۔

Wednesday 3 February 2016

چند مشورے، سافٹ وئیر کنفیگریشن ٹیم کی طرف سے

1 comments
قیصرانی بھائی نے ایک بار ایک تحریر کا ترجمہ کیا تھا جس میں نیٹ ورک ٹیم کی طرف سے بڑے ہی زبردست مشوروں سے نوازا گیا تھا۔ آج یوں ہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ اسی قسم کے چند مشورے ہم کو بھی کنفیگریشن ٹیم کی طرف سے  باقی کمپنی کو دینے چاہییں۔

چند مشورے، سافٹ وئیر کنفیگریشن ٹیم کی طرف سے

جب آپ اپنی بلڈ ڈیفینیشن (Build Definition)  ایک پراجیکٹ سے دوسرے پراجیکٹ پر منتقل کرنا چاہیں تو اس امر کو یقینی بنا لیں کہ وہاں کوئی بلڈ کنڑولر نہیں ہے۔ تاکہ جب آپ کی بلڈز نہ چل سکیں تو  آپ کے پاس مورد الزام ٹھہرانے کو پہلے سےہی  لوگوں کے نام ہوں۔
بلڈ جب بھی فیل ہوجائے کبھی لاگ نہ پڑھیں۔ ہم سے آکر پوچھ لیں۔ ہم بغیر لاگ فائل پڑھے سب جانتے ہوتے ہیں۔  
جب آپ کے پاس کسی دوسری ٹیم کا پراجیکٹ کمپائل نہ ہو تواس ٹیم سے رابطہ کرنے کی بجائے  فوراً ہمیں بتائیں۔ ہمیں تمام ٹیمز کے پراجیکٹس اور ان کی کمپائلیشن (Compilation)سے متعلق چیزیں ازبر ہوتی ہیں۔
جب آپ ہمیں بتائیں کہ بلڈ فیل ہو رہی ہے تو کبھی یہ نہ بتائیں کہ آپ نے کوڈ میں کیا چینجز کی ہیں۔ بلکہ یہی کہتے رہیں کہ کل تک تو چل رہا تھا اور میرے پاس تو اب بھی کمپائل ہو رہا ہے۔
جب بھی کوئی فائل پراجیکٹ میں ایڈ یا ڈیلیٹ کریں تو ہمیں بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں ہزاروں فائلز اور ان کا انسٹالر کے اندر ڈیسٹینیش(Destination) لوکیشن از خود پتا چل جاتی ہے۔ اور یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ آج آپ کس فائل کو ڈیلیٹ کرنے والے ہیں۔
جب بھی پروڈکٹ میں کوئی نیا پراجیکٹ ایڈ کریں تو کبھی اس کا بلڈ  آرڈر نہ بتائیں۔ ہم نام دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کب اور کس کے بعد یا کس سے پہلے کمپائل ہوگا۔
جب آپ کو بلڈ فیل ہونے کی لاگ فائلز ای میل  میں ملیں تو ان کو الگ فولڈر میں منتقل کر دیں یا ڈیلیٹ کریں۔ بلڈ سسٹم کبھی شغلاً بھی ایسی ای میلز کر دیتا ہے۔
جب ہم کبھی چھٹی پر ہوں تو فوراً  کمرشل پیچ (Patch)یا ہاٹ فکس (HotFix)پلان کر لیں۔ کیوں کہ ہم خود کام کرنے کی بجائے فون پر دوسروں کو زیادہ بہتر طریقے سے کام کروا سکتے ہیں۔
بلڈ سسٹم ہمیشہ انٹیلجنٹ ہوتا ہے۔ آپ نئے پراجیکٹ ایڈ کر دیں وہ خود بخود ان کو انسٹالر میں شامل کر کے ان کی کام(COM) اور ڈی کام (DCOM)کی سیٹنگز بھی کر دے گا۔ کسی کو اس بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
جب کوئی بلڈ ایمر جنسی میں چاہیے ہو تو اس  کے لیے ساری مینجمنٹ ای میل میں ڈال دیں۔ اس سے بلڈ سسٹم تیز کمپائل کر دیتا ہے۔
جب ڈیپلائمنٹ(Deployment) کے بعد آپ کے ورک فلوز فیل ہوجائیں تو ہمیں ای میل کر دیا کریں۔ انسٹالر کبھی آدھی فائلز بھی ڈیپلائے کر دیتا ہے۔
کبھی ان انسٹالیشن فیل ہوجائے تو ہمیں بلا لیا کریں۔ ہمیں ساری رجسٹری اینٹریز زبانی یاد ہوتی ہیں۔ اور مینوئل ان انسٹالیشن میں ہم کو ملکہ حاصل ہوتا ہے۔
اگر کبھی آپ کے این یو گیٹ(NUGet) سرورز کام نہ کر رہے ہوں تو ہمیں بتا دیا کریں۔ بعض دفعہ ہم نے نیٹ ورک کیبل پر پاؤں رکھا ہوتا ہے۔
ہم ڈی ایل ایل(DLL) یا ایگزی(EXE) کا نام دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ اس کی ڈیپن ڈینسی کیا ہوگی۔ اس معاملے میں آپ ہمیں کوئی معلومات نہ دیا کریں۔ بہت ہوا تو صرف یہ بتا دیا کریں کہ کچھ ری ڈسٹری بیوٹ ایبلز چاہیے ہوں گے۔  اس سے ہمارے اندر علم حاصل کرنے کی پیاس بڑھے گی۔ 
جب ہم آپ کو کہیں کہ ہم بلڈ میں آنے والے مسئلے دیکھ رہے ہیں تو فوراً برا سا منہ بنا کر کہیے کہ کیا صرف دیکھو گے ۔ فکس نہیں کرو گے۔ اس سے ہماری اخلاقی ہمت اور بندھے گی۔
اگر آپ دن کو کوئی نیا   پراجیکٹ یا  فائل بلڈ سسٹم میں  اینٹر کروانا بھول جائیں تو ہمیں آدھی رات کو جگا دیں۔یوں بھی دن سارا دفتر میں سوئے رہنے کے بعد ہم رات کو محلے کی چوکیداری کرتے ہیں۔
 نائٹلی(Nightly) بلڈز ہمارے حکم کی غلام ہوتی ہیں۔ ہم جب چاہے انہیں   بنا بگاڑ سکتے ہیں۔ لہذا  ان کو ری کمپائل کر کے پروڈکٹ دوبارہ دینے میں ہمیں پندرہ منٹ نہیں لگتے۔ یہ آٹھ دس گھنٹے والی باتیں سب ہوائی ہیں۔
پروجیکٹس میں تھرڈ پارٹی کمپونینٹ(Component) بدلتے وقت ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلڈ سسٹم پر ہر طرح کے تھرڈ پارٹی کمپونینٹس ہر وقت میسر ہوتے ہیں۔
جب بلڈ ایک بار فیل ہوجائے تو بنا کوڈ چھیڑے دوبارہ بلڈ  چلا دیں۔ بعض دفعہ بلڈ سسٹم دوبارہ کمانڈ دینے پر ایرر خود ہی فکس کر دیتا ہے۔
جب کبھی ورژن کنڑول سسٹم میں کسی برانچ پر رائٹس کے لیے ای میل کریں کبھی برانچ کا نام نہ لکھیں۔ ہمیں ازخود پتا ہوتا ہے کہ آپ آج کل کس برانچ پر کام کر رہے ہیں۔
پروڈکٹ آرکیٹیکٹس کی دی گئی گائیڈ لائنز کو کبھی بھول کر بھی ہاتھ نہ لگائیے۔ یہ صرف انٹرن و نومولود ڈویلپرز کے لیے ہوتی ہیں۔
اگر کسی اور کا کوڈ آپ کے کام میں مداخلت کر رہا ہو۔ تو اس کو کمنٹ کر دیں۔ ہم بلڈ سسٹم پر از خود ایسا کوڈ ڈٹیکٹ کر کے ان کمنٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
" جب ہم آپ کو کسی تکنیکی تفصیل "جیسے   انسٹالر کا مختلف آپریٹنگ سسٹمز پر برتاؤ"سے آگاہ کریں تو فوراً جماہی لے کر کہیے "یار یہ سب بکواس ہے۔ مجھے ککھ پلے نہیں پڑ رہا"۔ ہم آپ کو کیسے بتائیں کہ ہماری محنت کو جب بکواس کہا جائے تو ہمیں کتنی دلی خوشی ہوتی ہے۔"
جب  کسی پراجیکٹ میں ریفرنس ایڈ کرنا ہو تو ہمیں حکم دیجیے۔ مائیکرو سافٹ کمپنی کا حکم ہے کہ اتنا مشکل کام صرف وہی افراد کر سکتے ہیں جن کے پاس کوڈنگ سٹینڈرڈز کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری ہو۔
جب انسٹالر میں کوئی ڈویلپمنٹ کرنی ہو تو یوزر (User)سٹوری میں انسٹالر اپگریڈ لکھ کر ہمیں اسائن کر دیجیے۔ ہمیں از خود پتا ہوتا ہے کہ کیا اپگریڈ کرنا ہے۔
نیٹ ورک میں کوئی مسئلہ ہو تو ہمیں بتا دیجیے۔ ہم لوگ پارٹ ٹائم نیٹ ورک کا  کام بھی کرتے ہیں۔
جب کوئی پیچ (Patch)ڈیپلائے کرنا ہو تو کبھی اس کے ساتھ دی گئی گائیڈ لائن نہ پڑھیں۔ اور کوئی بھی ایرر آنے پر ہمیں ای میل کر دیں۔ اس کو ڈیپلائے کرنے کے  ضروری نکات ہم آپ کو اس ای میل میں بتا دیں گے۔
کسی بھی قسم کا ایرر آنے پر اس کی تفصیلات نہ لکھیں۔ بلکہ لکھ دیں انسٹالر ایرر۔ ہمیں پتا ہوتا ہے کہ کس وقت کس طرح کا ایرر آتا ہے اور اس کو فکس کرنے کی صلاحیت قدرتی طور پر ہمارے اندر ہوتی ہے۔
اگر کبھی آپ نے ورژننگ (Versioning) پر کوئی چھوٹا موٹا بلاگ پڑھ لیا ہے تو ظاہر ہے اس کے سامنے ہماری ساری علمی قابلیت اور تجربہ ہیچ ہے۔
کلائنٹ سائیڈ پر ڈیپلائے منٹ ایرر کے ذمہ دار صرف ہم ہوتے ہیں۔ ٹیسٹنگ ٹیم بیچاری کو تو ان ایررز کا پتا ہی نہیں ہوتا۔ لہذا  ہمارے کام کی کوالٹی پر سوال اٹھائیے۔
کون سی بلڈ کمرشل ہے یہ ہم سے کبھی نہ پوچھیں۔ بلکہ جو دل کر ے اٹھا کر اپلوڈ کر دیں۔ اس سے ہمیں دلی خوشی ہوگی۔
جب بلڈ سے متعلق کوئی چیز پوچھنی ہو تو اس کا نام یاد نہ رکھیں۔ بار بار یہی کہتے رہیں کہ وہ کیا بات تھی جو میں نے پوچھنی تھی۔