Tuesday 27 November 2012

قصہ اک شفٹنگ کا۔ راوی نیرنگ خیال

2 comments
اس قصے سے پہلے اپنے موٹا بھائی کا تعارف کروا دیتے ہیں کہ معاملہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ اگر پطرس کے مرزا ، اور شفیق الرحمان کے مقصود گھوڑے سے واقفیت ہے تو جان لیجیئے کہ ان دونوں کرداروں کو جمع کر کے انشاء کے استاد مرحوم سے تقسیم کیا جائے تو نتیجہ کے طور پر موٹا بھائی نکلیں گے۔جراثیم کے اتنے خلاف کہ روٹی کو بھی پکا پکا کر جراثیم جلا دیتے ہیں اور سالن میں چند قطرے ڈیٹول ملانا نہیں بھولتے۔ فرمانا یہ کہ صحت کے لیئے مفید ہے تبھی تو اتنی بڑی کمپنی ہر کام سے پہلے ڈیٹول ملانے کا کہتی ہے۔ ہر بات پر ضد کرنا اور خاص طور پر اگر کہیں انکے ساتھ کوئی خریداری پر چلے جاؤ تو ہر چیز کی قیمت خود ادا کریں گے۔ یہاں تک کہ اک دن میرے سامان کے ساتھ کسی اور کے سامان کا بل بھی ادا کرنے کے چکر میں تھے اور مجھ پر خفا ہو رہے کہ میاں اب ہم سے چھپا چھپا کر خریداری ہو رہی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ موٹا بھائی نے سامان شفٹ کرنا تھااور راقم نے اپنی خدمات پیش کر دیں کہ بھابھی کی غیر موجودگی میں ان کے آنے سے پہلے سارا قضیہ سمیٹتے ہیں۔ اسطرح آپ خلعت فاخرہ کے حقدار ٹھہریں گے۔ معصومیت سے کہنے لگے میاں کیو ں تماشہ بنواؤ گے۔ ہم خاندانی بلوچ ہیں زنانہ لباس میں مسخرے لگیں گے۔ اور یہ فاخرہ ہے کون۔ تم اسے کیسے جانتے ہو! ہم نے انکا سر پیٹ دیا۔ الغرض طے یہ پایا کہ دونوں ملکر سامان پیک کریں گے اور چونکہ اک گلی سے دوسری گلی تک جانا ہے اور سامان بھی بہت کم تو وقت نہیں لگے گا۔ بس دوپہر سے پہلے کام ختم۔ صبح آٹھ بجے کا وقت مقرر پایا کہ سامان لایا جائے گا اور اسکے بعد کہیں ناشتہ کی قسمت جگائی جائے گی۔
صبح آٹھ بجے جو موبائل اٹھایا کہ موٹا بھائی کو اٹھایا جائے تو سگنل ندارد۔ کوئی ۹بجے کے قریب نیٹ ورک نے انگڑائی لی اور اک میسج نے مجھ پر احسان کرتے ہوئے آؤٹ باکس سےسینٹ آئٹمز میں جانا گوارا کیا تو اب کی بار ادھر سے جواب ندارد۔ چاروناچار کوئی ۱۰بجے کے قریب ان کے گھر پہنچا ۔ تو فورا ہی دس منٹ میں دروازہ کھل گیا۔ دیکھا تو موٹا بھائی سر پر تولیہ لیئے کھڑے ہیں۔ میں سمجھا شائد سامان سارا سمٹ گیا ہے۔ جو منہ ہاتھ دھویا جا رہا ہے۔ مگر اندر پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ ہر چیز مرد کی زبان کی طرح اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے۔ میں نے کہا قبلہ کیا ارادہ ہے تو بےنیازی سے کہنے لگے کہ بس یارساری رات خواب میں بھی سامان ہی ڈھوتا رہا ہوں شائداسی تھکان کے سبب آنکھ دیر سے کھلی ہے۔ میں نے کہا شروع کریں تو فرمانے لگے ایسی بھی کیا جلدی۔ پہلے مجھے یہ سمجھاؤ کہ کونسی چیز کسطرح جائے گی۔ دست بستہ عرض کی کہ پہلے سامان باندھ لیا جائے پھر ترسیل سامان کا بھی سبب بنا لیا جائے گا۔ مجھ سے اتفاق تو نہ کیا پر ہاتھ ضرور بٹانے لگے۔
کام کی تقسیم یوں ہوئی کہ میں قالین اور دیگر متعلقہ سامان پر اور صاحب کپڑے پیک کرنے پر۔ اب جو غالیچہ، قالین اور تکیے سمیٹ کر دیکھا تو یہ ابھی بمشکل ۳ یا ۴ سوٹ بیگ میں رکھ پائے تھے۔ اللہ اللہ کر کے اک بیگ بند کیا اور کہا کہ یار چائے نہ پی لی جائے۔ جب سورج نصف النہار سے ذرا ڈولا تو ہم کپڑوں کی پیکنگ سے فارغ ہو چکے تھے۔ اب فیصلہ کیا کہ کچھ سامان نئے گھر پہنچا کر ناشتہ کیا جائے اور پھر بقیہ کام!
جب ہم دماغ بھر کر برنچ کر چکے تو حکم نازل کیا کہ بقیہ سامان کسی گاڑی میں لایا جائے گا۔ اک پک اپ والے کو بلا کر اور اسے مکان دکھا نمبر لیا گیااور فون پر الہ دین کے جن کیطرح حاضر ہونے کا وعدہ لے کر واپس پہنچے۔
میں نے کہا کہ میں برتنوں پر توجہ دیتا ہوں آپ کاغذات، کتب اور ضروری سامان پر نظر کرم کیجئے۔ کہنے لگے نہ میاں تم اکیلے نہ تنگ ہو یہ کام تو پانچ منٹ میں ہو جائیں گے۔ پہلے میں تمہارا ہاتھ بٹاتا ہوں کہ وہ کام ذرا لمبا لگتا ہے۔ کوئی بھی چیز نہ ملنے پر میں نے برتن اک ٹب اور بالٹی میں ڈال لیئے۔ اب جو کمرے میں جا کر دیکھتا ہوں تو موصوف کچھ خالی پلاسٹک کی بوتلیں اک بڑے خوبصورت سے بیگ میں بھر رہے۔ میرے اعتراض پر وہ خالی بوتلیں یہ کہہ کر نکال دیں کہ میاں ناراضگی والی کیا بات ہے اس میں۔ عصر کے قریب جو ہم نے پک اپ والے کو فون کیا کہ کدھر ہو ہم سراپا انتظار ہیں تو وہ بیچارہ حیران ہی رہ گیا۔ غالبا وہ بھول گیا تھا کہ آج کسی سے کچھ وعدہ بھی کیا تھا۔
اب سامان گاڑی میں رکھنا جو شروع کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ موٹا بھائی پانچ بڑے بڑے گتے کےکارٹن اٹھائے آ رہے ہیں۔ میں نے بھاگ کر جو مدد کی کوشش کی تو منع کر دیا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ سارے خالی تھے اوربھابھی نے شفٹنگ کے لیئے رکھے تھے۔ کہ سامان خراب نہ ہو۔ اور ہمارے موٹا بھائی سمجھے کہ کارٹن خراب نہیں کرنے سو مجھے ہوابھی نہ لگنے دی کہ میں گستاخ کہیں کوئی سامان نہ باندھ دوں ان میں۔ فرماں برداری کا یہ منظر مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں خوب ہنسا۔ مجھ سے نظریں بچا کر اک کارٹن اور گاڑی میں رکھنے لگے۔ جو دیکھتا ہوں تو وہی خالی پلاسٹک کی محبوب بوتلیں ہیں۔
اور جب ہم سامان گلی چھ سے گلی نمبر پانچ میں منتقل کر چکے تو دوستو مغرب سے تھوڑا سا وقت اوپر ہوا تھا۔ قسم لے لیجئے ابھی عشاء کی کوئی اذان نہ ہوئی تھی۔
آج صبح اک دلخراش منظر دیکھا۔ وہ خالی کارٹن جو موٹا بھائی نے بچا رکھے تھے۔ باہر گلی کی نکڑ پر دھرے تھے کہ کوڑے والا اٹھا لے گا۔ اور موٹا بھائی اک مطمئن مسکراہٹ کیساتھ گھر میں داخل ہو رہے تھے۔بیشک یہ طمانیت دنیا تجنے کیبعد ہی نصیب ہوتی ہے۔

2 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔