Wednesday 28 November 2012

پلاسٹک کی پلیٹ

3 comments
پلاسٹک کی پلیٹ کسی کام کی نہیں ہے۔
----------------------------------------
یہ اس آدمی کے بچے کا قصہ ہےجس کے بڈھے باپ کے ساتھ کیئے گئے ناروا سلوک کی دل ہلا دینے والی داستاں آپ نے پڑھ رکھی ہوگی۔
باپ کی طرح وہ ہر طرح سے خوش حال تھا اور وجہ ورثہ میں ملنے والی بے بہا دولت تھی ۔
اس کی زندگی ہی میں اس کی ساری اولاد کی شادیاں ہوگئی تھیں۔ بالکل اپنے باپ کی طرح

بٹیاں شادی کے بعد سسرال جاکر بس گئیں کیوں کہ دستور یہی تھا۔ وگرنہ کسی اور کے گھر جا کر بَستیں تو بِستی کا مقام تھا۔ اور بیٹے بھی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے شادی کے بعد بیویو ں کو ساتھ لیکر الگ الگ مکانوں میں رہنے لگے۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے والے مقولےکےمصداق اب گھر میں صرف بوڑھے ماں باپ رہ گئے اور روایت کے مطابق ان کی خدمت کے لئے ایک ڈرائیور اور ایک نوکرانی گھر میں موجود تھی۔

وہ بیٹا جس نے دادا کے مرنے پر پلاسٹک کی پلیٹ سنبھال رکھی تھی سب سے بڑا تھا۔ کمینے نے پلیٹ بینک لاکر میں رکھوا چھوڑی تھی کہ اسی پلیٹ میں ہی کھانا دوں گا۔ اور بینک لاکر کا اتنا بل بھر رہا تھا کہ اس جیسی ہزاروں نئی پلیٹیں خرید لیتا، مگر ضد بھی آخر دنیا میں کسی چیز کا نام ہے۔ باپ نے اسے بارہا سمجھایا کہ سارا کرتوت تیری ماں کے ہیں پر بیٹے نے نہ ماننا تھا نہ مانا۔

بچوں کا معمول تھا کہ چھٹی کے دن زیادہ تر وقت اپنے والدین کے پاس ہی گزارتے۔ اس طرح بوڑھے والدین کو کوئی خاص تنہائی محسوس نہیں ہوتی تھی عام تنہائی کا ذکر اس افسانے میں اضافی ہے۔ بقیہ ہفتے کے دن وہ کن چیزوں سے دل بہلاتے تھے معلوم نہیں۔ 

اب بڈھا اپنی بیوی اور بڑا بیٹا اپنے ماں کی موت کا منتظر تھا تاکہ کہانی آگے بڑھ سکے۔ دونوں کی اپنی اپنی جگہ نیند حرام تھی۔ ادھر وہ بڑھیا جس نے اپنے سسر کو سکھ کا سانس نہ لینے دیا وہ اب اپنے کیئے پر شرمندہ تھی کیوں کہ سارا کیا دھرا اسی کا تھا۔ مگر پھر یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتی کہ میں نے تو پہلے ہی اس دنیا سے چلے جانا ہے۔

وقت چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔ اس بات کا اندازہ ان تینوں کے علاوہ کسی کو نہ تھا۔ چند برس تھے کہ گزرنے میں ہی نہیں آ رہے تھے۔ باقی بہن بھائیوں نے بھی بڑے بھائی کو سمجھایا کہ مفت میں ہلکان مت ہو۔ مگروہ کسی کی سننے پر آمادہ نہ تھا۔اسے بس اک ہی دھن تھی کہ باپ جب اسکے گھر آئے گا ماں مرنے کے بعد تو اسے پلاسٹک کی پلیٹ میں کھانا دوں گا۔ یہ سنکر سب ہنستے کہ کھانا تو دے گا آخر۔ کچھ نیا کر۔۔۔ ۔ اور خوب قہقہے لگاتے۔ ادھر بڑھیا ہنستی کے دیکھ میں نے تیرے باپ کے ساتھ کیا کیا اور تیرے بچے تیرے ساتھ کیا کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ مگر بڈھا اس بات پر اک مسکراہٹ دے کرچپ کر جاتا۔ جیسے اسے کسی کی پرواہ نہ ہو۔ اسکا یہ سکون دیکھ کر بڑا بیٹا اور جل بھن جاتا۔

آخر وہ وقت آن پہنچا۔ موت سے کسی کو مفر نہیں۔ بڑھیا نے اک الوداعی نظر اپنے بوڑھے شوہر پر ڈالی جو آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیئے اس کے مرنے کا منتظر تھا۔ اور داعی اجل کو لبیک کہا۔ ماں کے مرنے کی خبر سنتے ہی بڑے بیٹے نے یاہووووووو کا نعرہ مستانہ لگایا۔ اور پھرافسردہ سی شکل بنا کر رونے لگا۔تمام خاندان سوگ منا رہا تھا۔ مگر ہر کسی کی زبان پر یہی تھا۔ کہ اب بڈھے کا کیا ہوگا۔ کیسے کرے گا زندگی کے دن پورے۔ بڑا بیٹا دوڑا دوڑا بینک گیا اور پلیٹ نکلوا لایا۔ چوم کر دھو کر طاق میں سجائی اور اپنے بچوں کو بتایا کہ دادا جی کے آتے ہی اس میں کھانا دیا جائے گا انکو۔ اسکی بیوی بھی بہت خوش تھی کہ مجھے کوئی ڈرامہ بازی نہیں کرنی پڑے گی اور ماحول پہلے سے بنا ہوا ہے۔ اب سارے اس انتظار میں کہ کب بڈھا آئے اور کہے کہ میں اب تنہا نہیں رہ سکتا۔

مگر وہ دن نہ آیا۔ آخر انتظار سے تنگ آکر بیٹا اپنے باپ کے گھر پہنچا تو پہلے تو دروانے پر لگا بورڈ دیکھ کر ہی ہکا بکا رہ گیا۔
رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو(یاد رہے بیٹے کا نام زاہد تھا)
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
اندر دیکھا کہ دنیا ہی بدلی ہوئی ہے۔ باپ کے تین دوست جو باپ جیسی ہی عادات و خصائل کے مالک تھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اک بہترین سا ہوم تھیٹر بہترین ساؤنڈ سسٹم کے ساتھ چل رہا تھا۔ تاش کی بازیاں لگی ہوئیں۔ داؤ پرلگی رقم بھی سامنے دھری تھی۔ جبکہ ملازم پینے پلانے کے بندوبست کر رہا تھا۔ بیٹے کو دیکھ کر سب نے اک قہقہ لگایا اور کہا کہ اوئے پلاسٹک کی پلیٹ کدھر ہے آملیٹ۔ دوسرے نے جملہ کسا کہ یار اُدھر آ رہے تھا نہ ہمارا یار، تو نے جلدی کی آنے میں۔ چل جا کر چھت والا کمرہ سیٹ کرا۔ تیسرا کہنے لگا عقل کا اندھا ہے تیرا بچہ اس کی چھت پر تو کوئی کمرہ ہی نہیں۔ اک ممٹی سی ہے۔ CDA والے تو اب اجازت ہی نہیں دیتے چھت پرکمرہ بنانے کی۔ یہ سنکر سب قہقہے لگانے لگے۔ اور لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ بیٹے کی رونی صورت دیکھ کر اک نے کہا کہ یار جا کچھ دن رہ آ اس کے گھر۔ اسکا جی ہلکا ہو جائے گا۔ ورنہ تاریخ بھی یہیں ختم ہو جائے گی۔ ویسے تو نے اتنے سال اسکو ذہنی اذیت میں رکھ کر اچھا نہیں کیا۔ باپ نے بیٹے کو پیار سے سمجھایا بیٹا ہمہ یاراں بہشت ہمہ یاراں دوزخ۔ یہ سنکر بیٹا وہاں سے بھاگااور گھر آکر پلیٹ پر کھڑا ہو کر کودنے لگا کہ کسی کام کی نہیں ہےپلاسٹک کی پلیٹ۔


کہتے ہیں کہ اسکا دماغی توازن کھو گیا تھا اور وہ سڑکوں پر پکارتا پھرتا تھا۔
پلاسٹک کی پلیٹ کسی کام کی نہیں ہے۔

اخلاقی سبق: انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر بیٹا باپ کے دوست دیکھ لیتا تو کبھی بھی اس قسم کے منصوبے نہ بناتا۔ اور نہ ہی پاگل ہوتا۔ اور سب سے ضروری بات تاریخ اتنی جلدی اپنے آپ کو نہیں دہراتی۔ وہ کوئی رٹا تھوڑی لگا رہی ہوتی۔

3 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔