Wednesday 28 November 2012

حکایات کا بے جا استعمال

2 comments
ایک بچہ بہت بدتمیز اور غصے کا تیز تھا۔ اسے بات بے بات فوراً غصہ آجاتا ، وہ تمام عوامل جن کی وجہ سے وہ اسقدر بدتمیز اور غصیلہ تھا اگران کا ذمہ دار والدین کو ٹھہرایا جائے گا تو کہانی آگے نہ بڑھے گی حالانکہ سچ بات یہی ہے۔ خیر حکایت آگے بڑھانے کو ہم وجہ کو نظر انداز کرتے ہیں تا کہ لوگوں کو عبرت آموز حکایت پڑھنے کو ملے۔ اور دیکھیں کے بچے کے والدین کو احساس ہوا یا نہیں اپنی کوتاہیوں کا اور انہوں نے اس کے سدھار کے لیئے کوئی کوشش کی یا نہیں۔ اور اگر ایسی حکایات نہ بنے گیں تو لوگوں کا کیا بنے گا۔ وہ عبرت کیسے پکڑیں گے۔ آخر انہوں نے بھی تو سبق حاصل کرنا ہے۔

تو جناب ہوا یوں کہ والدین نے اس بچے پر کنٹرول کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے، کیوں کہ اب پانی سر سے گزر چکا تھا اور بچہ بھی ماں باپ کے حربوں کو خوب سمجھنے لگا تھا۔الٹا وہ انکو بتاتا کہ انسان کو اپنے بچوں کی تربیت یوں کرنی چاہیئے۔ اسکی ان حرکتوں کی وجہ سے گھر میں ماں باپ الگ طوفان بدتمیزی برپا کیئے رکھتے۔ باپ کہتا بالکل اپنے نانا جیسا ہے۔ اور ماں کہتی دادا پر گیا ہے۔ جبکہ اسکی پیدائش پر پورا خاندان کہہ رہا تھا کہ میرے پر گیا ہے ۔۔۔ میرے پر گیا ہے۔
ایک روز اس کے والد کو ایک ترکیب سوجھی ۔ اور انٹرنیٹ پر "بدتمیز بچے کا علاج" سرچ کیا تو اک حکایت مل گئی۔خوشی سے اچھل پڑا کے لو جی مل گیا علاج ۔ شام کو دفتر سے واپسی پر کیلوں کا ڈبہ لے آیا۔ اور انتظار کرنے لگا کہ بچہ غصے میں آئے تو عملی انداز میں بچے کی تربیت کا کام سر انجام دیا جائے۔

زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا ۔ بیٹے کے غصہ میں آتے ہی باپ نے خلاف توقع بڑی نرمی سے کہا کہ بیٹا وہاں میز سے کیلوں کا ڈبہ اٹھا لاؤ۔ بیٹا نے باپ کو حیرت سے دیکھا اور کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں جا کر اک ٹرے میں پانچ چھ کیلے رکھ لایا۔ باپ کا دماغ گھوم گیا۔ مگر بڑی نرمی سے دوبارہ سمجھایا بیٹا کیلے نہیں کیلیں۔

اب بیٹے کو گھر کے پچھلے حصے کے پاس لے جا کر کہا، بیٹے جب تمہیں غصہ آئے اس ڈبہ میں سے ایک کیل نکال کر یہاں دیوار میں ٹھونک دینا پہلے دن میں ہی لڑکے نے دیوار میں لاتعداد کیلیں ٹھونک ماریں۔ باپ کو بڑا غصہ آیا کہ حکایت میں ۳۷ تھیں۔ خیر دو دن گزرے ہونگے کہ بیٹے باپ کے سامنے پیش ہوا۔ باپ خوش ہو گیا کہ دوسرے حصے کو سنانے کا وقت آگیا ہے۔ مگر بیٹے کی یہ بات سنکر ساری خوشی خاک میں مل گئی۔
کیلوں کا ڈبہ ختم ہو گیا ہے
اگلے دن باپ اک اور ڈبہ لے آیا۔ مگر اک دن بعد ہی دوبارہ بیٹا سامنے کھڑا دیکھکر اسکا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا اور چیخ کر بولا تو کیا ڈبہ پھر ختم ہو گیا۔

نہیں پاپا۔ بیٹے نے جواب دیا۔ دیوار میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔
تو دوسری دیوار میں شروع ہو جاو جا کر۔ باپ نے بیچارگی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

پہلے ہفتے میں ہی بچہ سمجھ گیا کہ غصہ کنٹرول کرنا آسان ہے لیکن دیوار میں کیل ٹھونکنا خاصا مشکل کام ہے۔ کیوں کہ غصے میں اندھے ہو کر کیل ٹھونکنے سے اکثر ہاتھ پر بھی چوٹ لگ جاتی۔ اس نے یہ بات اپنے والد کو بتا ئی۔
والد جو سوچ رہا تھا کہ یہ حکایت تو میرے گلے پڑ گئی۔ پورا گھر کیلوں کیل ہوا ہوا ہے۔ اور ہر وقت جو ٹھک ٹھک کی آواز وہ الگ۔ خوش ہو گیا۔ کہ بچہ تیز جا رہا ہے۔ پھر خیال آیا کہ حکایت والے نے اضافی وقت احتیاط لکھا ہوگا۔


اب پارٹ ٹو کے مطابق 
کہا کہ جب تمہیں غصہ آئے اور تم اسے کنٹرول کرلو تو ایک کیل دیوار میں نکال دینا۔اس کام میں بیٹے کو بہت جلد احساس ہو گیا۔ کہ کیل نکالنا کوئی آسان کام نہیں۔ جب کوئی کیل نکالتا تو کیل اکثر سیدھا نہ نکلتا اور زور آزمائی کی وجہ سے سارا پلستر اکھڑ جاتا۔ اب اسے اس بات پر غصہ آتا کہ اک تو غصہ کنڑول کرو اور اوپر سے کیل نکالنے کی مشقت۔ اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ کسی کو چار گالیاں دے کر من کا بوجھ ہلکا کر لیا جائے۔ خیر لڑکے نے باپ کی ہدایت کے مطابق کا کیا اور بہت جلد دیوار سے ساری کیلیں جن کی تعداد کا کوئی حساب نہیں تھا ، نکال دیں۔

باپ جب بیٹے کو لے کر نصیحت کی غرض سے دیوار کے پاس پہنچا تو پوری دیوار میں جابجا سوراخ اکھڑا پلستر اوراینٹوں کے ٹوٹنے سے بد ہیئت دیوار کو دیکھکر غصے میں پاگل ہو گیا۔سوراخوں میں چیونیٹیوں نے گھر بنا رکھے تھے۔ ابھی کچھ مہینے پہلے ہی پینٹ کروایا تھا۔ اسکا بھی ناس ہو چکا تھا۔ بیٹا باپ کی حالت دیکھ کر کیل اور ہتھوڑی لے آیا۔ اور کہا ابا جی آپ کو بھی اس مشق کی اشد ضرورت ہے۔
باپ نے باپنے غصے پر قابو پا کر اس حکایت لکھنے والے کے اسلاف کی شان میں دل ہی دل میں بے بہا نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا، بیٹا تم نے اپنے غصہ کو کنٹرول کرکے بہت اچھا کیا لیکن اب اس دیوار کو غور سے دیکھو یہ پہلے جیسی نہیں رہی، اس میں یہ سوراخ کتنے برے لگ رہے ہیں۔ پینٹ پر خرچہ الگ ہوگا اب بیٹا۔ جبکہ ہلکی پھلکی مرمت کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم نے اسے بنوانا ہے۔ بالکل اسی طرح جب تم کسی پر چیختے چلاتے ہو تو اس کے دل پر بھی زخم بنتے چلے جاتے ہیں۔ بھلے تم بعد میں معافی مانگ لو مگر نشان وہیں رہے گا۔ اور اگر وہ بندہ کمینہ ہے تو اپنی باری پر بدلہ ضرور لے گا۔ اور پھر زخم در زخم کی اک داستاں شروع ہو جائے گی۔بیٹا باپ کی بات سمجھ گیا۔ اور اس نے اک سیاسی وعدہ بھی کیا کہ اب وہ سدھر گیا ہے۔ مگر اک سوال جو اسکے ننھے ذہن میں آیا وہ یہ کہ چھوٹے بھائی کے دل میں جو سوراخ ہے وہ ماں باپ کے جملوں کی وجہ سے ہے؟ ان کی غصیلہ پن اور بدزبانی کو روکنے کے لیئے کیا کرنا چاہیئے۔ اس سوال پر باپ پر وہی غصے کا موروثی دورہ پڑ گیا۔ اور وہ دیوار میں کیلیں ٹھونکنے لگا۔ جبکہ بیٹے نے کمرے کی را ہ لی۔

اخلاقی سبق: جب آپ کسی کو نصیحت کرو تو لازم ہے کہ وہ برائی آپ کے اپنے اندر نہ پائی جاتی ہو۔ باقی بھلے ہزار برائیاں ہوں۔ اور بچوں کی تربیت پنگوڑے سے کرنی چاہیئے نہ کہ جب کہیں سے حکایت ہاتھ آجائے تب۔

2 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔