Wednesday 28 November 2012

انداز بیاں اور

0 comments
کہتے ہیں کسی ملک پر اک بادشاہ کی حکومت تھی۔ یاد رہے یہ ایس-ایچ –او بادشاہ نہ تھا۔ کیوں کہ ہمارے ہاں عام روایت ہے کہ ایس-ایچ-او بھی اپنے علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے۔ 
بادشاہ دن بھر امور مملکت میں مشغول رہتا عبادت گزار بھی تھا ایسا لوگ کہتے۔شکار کا بھی شوقین تھا۔ بندھے ہرن مارنے میں کمال مہارت تھی۔ ان تمام کارگزاریوں کے بعد رات کو تھک ہار کر سوتا۔ گہری نیند اتنی کہ سویا مویا والہ مقولہ اس کو دیکھ کر ہی بنا ہوگا۔ خواب اول تو آتے ہی نہ ہونگے اس قدر گہری نیند میں ؛اور اگر اک آدھا بھولا بھٹکا خواب آ بھی جاتا تو یاد کہاں رہتا تھا۔ اسی لیئے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا بھی دربار میں نہ رکھا کہ بلاوجہ خرچہ بڑھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ معاشیات پر بھی گہری نظر تھی۔ وگرنہ پہلے دور کے بادشاہ تو اپنا ذاتی خواب کی تعبیریں بتانے والا رکھتے تھے جو مزاج آشنا بھی ہوتا اور خوب موڑ توڑ کر تعبیریں بتایا کرتا ۔ انعاما خلعت فاخرہ پایا کرتا۔ اس بادشاہ نے اس روایت کو بھی ختم کیا اور صرف خلعت دینی شروع کی۔ 
خیر اصل قصے کی طرف آتے ہیں کہ اس بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اُس کے سارے دانت ٹوٹ کر گر پڑے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ خواب کا آخری حصہ ہے۔ بقیہ خواب بادشاہ کو یاد ہی نہ رہا۔ کہ دانت کیوں ٹوٹے کس نے توڑے؟ یاد رہتا تو صبح تعبیر بتانے والے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ ہاں توڑنے والے کی گردن جلاد کے حوالے کی جاتی۔ اور گستاخ اپنے کیئے کی سزا پاتا۔ 
بادشاہ کہ اس خواب دیکھنے کی خبر سنکر کام چور وزیروں نے مشورہ دیا کہ اس خوشی میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا جائے۔ اور بادشاہ کی طرف سے مثبت جواب پاتے ہی خوشی کہ شادیانے بجانے لگے۔ طے یہ پایا کہ امور مملکت کو کسی اور دن کے لیئے اٹھا رکھا جائے۔ آج صرف اور صرف اس خواب کی تعبیر ڈھونڈی جائے۔
بادشاہ نےخوابوں کی تعبیر و تفسیر بتانے والے ایک عالم کو بلوا کر اُسے اپنا خواب سُنایا۔
مفسر نے خواب سُن کر بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟ اصل میں مفسر پریشان ہو گیا کہ اس بےتکے اور بے ڈھنگے خواب کی کیا تعبیر بیان کرے۔ لہذا زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں گستاخی کر بیٹھا۔
بادشاہ کو غصہ تو بہت آیا مگر ضبط کر گیا اور مسکرا کر جواب دیا ؛ہاں، میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔

اب مفسر کو یقین ہو گیا تھا کہ بادشاہ عقل سے پیدل ہے اور کوئی سواری نہیں رکھتا اپنے پاس۔ پر مرتا کیا نہ کرتا بیٹھ گیا زمین پر اور لگا آڑھی ترچھی لکیریں کھینچنے۔ پانچ چھ کونوں والے سارے ستارے بنانے کیبعد سارا فرش کا بیڑہ غرق کرکے سراٹھایا۔ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھتے ہوئے بادشاہ سے کہا؛

بادشاہ سلامت، اسکی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپکے سارے گھر والے آپ کے سامنے مریں گے۔
بادشاہ کا چہرہ غیض و غضب کی شدت سے لال ہو گیا۔ وہ سمجھا کہ میں نے جو تخت کے لیئے اپنے بھائی مروائے تھے اسکی طرف اشارہ کر رہا یہ نابکار۔ دربانوں کو حکم دیا کہ اسمفسر کو فی الفور جیل میں ڈال دیں اسکا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا اور کسی دوسرے مفسر کا بندوبست کریں۔
دوسرے مفسر نے آ کردربانوں سے پہلے مفسر کا حال سنا پھر بادشاہ کا خواب سُنا ۔ قادرالکلام نہ تھا کہ بات میں رنگ بھر سکتا سو کُچھ ویسا ہی جواب دیا اور بادشاہ نے اُسے بھی جیل میں ڈلوا دیا۔
تیسرے مفسر کو بلوایا گیا، وزیروں نے بتا یا کہ یہ اس شہر میں آخری تعبیر بتانے والا ہے۔ ذرا ہتھ ہولا رکھنا۔ 
ادھر مفسر بھی کافی بادشاہوں کا مزاج آشنا تھا۔ کیوں کہ یہ اسکا آبائی پیشہ تھا۔ اور بادشاہ کے تیور دیکھ کر بات کرنا اس نے پنگوڑے میں ہی سیکھ لیا تھا۔ اور چرب زبانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔


بادشاہ نے اُسے اپنا خواب سُنا کر تعبیر جاننا چاہی۔
مفسر نے بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟
بادشاہ نےبرداشت سے کام لیتے ہوئے کہا؛ ہاں مُجھے یقین ہے میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔
اس مفسر نے فرش پر پہلے سے بنے نقش و نگار سے کام چلا لیا اوراک وزیر کی طرف مڑتے ہوئے کہا؛اوئے ادھر بیٹھے ہو۔ جاؤ بھاگ کر مٹھائی لاؤ۔ اور جشن کا اعلان کرا دو۔
پھر بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ جہاں پناہ آپکو مُبار ک ہو۔ بادشاہ جو حیرت کے ساتھ اسکی حرکتیں دیکھ رہا تھا؛کہنے لگا؛ کس بات کی مبارک؟
مفسر نے ادھر ادھر دیکھا اور ملکہ عالیہ کو موجود نہ پا کر بادشاہ کے کان میں جواب دیا؛ بادشاہ سلامت، آپکی بیوی آپ کے سامنے مرے گی۔
بادشاہ نے اندرونی مسرت چھپاتے ہوئے تعجب کے ساتھ مفسر سے پوچھا؛ کیا تمہیں یقین ہے ؟
مفسر نے جواب دیا؛ جی بادشاہ سلامت، میرا علم کامل ہے اس معاملے میں بادشاہ نے خوش ہو کر مفسر کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔ اور تعبیر کسی اور کا نہ بتانے کا وعدہ بھی لیا۔
اس بات کا یہی مطلب بنتا ہے کہ بادشاہ باقی سب کو تو مروا چکا تھا۔ صرف بیگم ہی زندہ تھی۔

اخلاقی سبق: مفہوم دونوں باتوں کا ایک ہی ہے لیکن بات کرنے کے انداز سے کتنا فرق آ گیا۔ پہلے عالم کے الفاظ کا چناو غلط ہونے کیوجہ سے اسکی کی ہوئی تعبیر سننے کو ناگوار گزری جس کیوجہ سے اس کو سزا ملی اور آخری عالم نے بھی کوئی تیر تو نہ مارا پر بادشاہ کی دکھتی رگ جاننے کے سبب انعام کا حقدار ٹھہرا۔
ہمیں بھی چاہیے کہ گر برے الفاظ استعمال کرنے ہی ہیں تو وہ استعمال کریں جو دوسرا سننا چاہتا ہے۔ 

فرہنگ: مفسر: خواب کی تعبیر بتانے والا۔ صرف اس کہانی کے لیئے۔ ویسے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔