Sunday 6 July 2014

باکمال بزرگ - قسط پنجم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

6 comments
گزشتہ سے پیوستہ:

وہ خوراک والے قصے تو رہ ہی  گئے۔ ایک نوجوان ہاتھ ملتے ہوئے ملتمس ہوا۔ بھئی آج تو میں بہت تھک گیا ہوں۔ ویسے بھی رات شروع ہو گئی ہے۔ اس قصے کو کسی اور دن پر اٹھا  رکھو۔ چند دن گاؤں کے نوجوانوں کی زبان پر انہی لوگوں کے قصے تھے۔ اور ہر کوئی اپنے اپنے مزاج کے مطابق لطف اٹھا رہا تھا۔ کہ ایک دن راقم الحروف نے بزرگ کو دوبارہ چوپال میں چھاپ لیا۔ اور کہا کہ آج ادھورے قصے سنے بغیر ہم نہ جائیں گے۔ باقی سب نے بھی بھرپور تائید کی۔ اور بزرگ کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ چوپال سج گئی۔ بزرگ کے حقے کی چلم بھری گئی اور حقے کے دو چار کش لگانے کے بعد وہ کچھ یوں گویا ہوئے۔
بھئی بات یہ ہے کہ جب ہم چھوٹے تھے۔ تو کیا زندگی تھی۔ بہت ہی سادہ اور زبردست۔ آج کے دور کی طرح تصنع سے عبارت نہ تھی۔ ماں نے صبح اٹھ کر گھر میں جھاڑو دینا۔ پھر بھینسوں کا دودھ دوہنے کے بعد اپلے جلا کر ابلنا رکھ دینا۔ اور ساتھ ہی ساتھ جھاڑو سے بھی فارغ ہوجانا۔ اتنی دیر میں فجر کی اذانیں ہو جاتی تھیں۔ تو ہم بھی نماز پڑھنے کو اٹھا جایا کرتے تھے۔ نماز کے بعد وہیں مسجد میں ناظرہ پڑھتے۔ اور پھر گھر کو لوٹ آتے۔ خیر یہ سب باتیں تو چلتی رہیں گی میں تمہیں ایک مزے کی بات سناتا ہوں۔
خوش خوراکی میں ہمارا گاؤں بہت مشہور تھا۔ اللہ بخشے ہمارے تایا مرحوم کو ایک روٹی کا ایک نوالہ بنایا کرتے تھے۔ کبھی بہت ہوا تو دو کر لیے۔ اس وقت روٹی بھی بڑی بنتی تھی۔۔۔ یہ چھوٹے چھوتے توے نہ تھے۔ بلکہ ایک بڑی سی توی ہوا کرتی تھی۔ جس پر اکھٹی چار پانچ روٹیا ں پکائی جاتی تھیں۔  گھر کی خواتین تین اطراف میں بیٹھ جاتیں۔ اور اوپر روٹیاں بناتی چلی جاتیں۔ ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ تایا جی بڑے خوش خوراک تھے۔ دودھ کے بڑے شوقین تھے۔ روزانہ صبح کوئی سات آٹھ کلو دودھ پیا کرتے تھے۔ اور اس کے بعد ناشتہ کرتے۔ اکثر بلونے کے دوران ہی چاٹی  منہ کو لگا کر ساری لسی پی جاتے اورسارے  مکھن کے گولے بنا بنا کر کھاجاتے۔  اگر ان سے پہلے کوئی اور مکھن یا لسی پر ہاتھ صاف کر جاتا تو بڑا ناراض رہتے۔ پورا دن طبیعت پر بیزاری رہتی۔ دادی مرحوم ان کی خوراک کو ہاتھی کی خوراک سے تشبیہ دیا کرتی تھیں۔ کھانا بہت عجلت میں کھایا کرتے تھے۔ اور منہ میں لقمے پر لقمہ ڈالتے چلے جاتے۔ بعض اوقات تو اس طرح کھاتے کہ سانس لینے کا باقاعدہ وقت نکالنا پڑتا تھا۔ ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ تایا کے سامنے بکرے کے گوشت سے ایک کڑاہی بھری رکھی تھی۔ کھاتے کھاتے سانس اکھڑ گئی۔ تو اشارے سے مجھے کہنے لگے۔ جلدی جلدی پانی دے۔ میں نے بھی مٹکا اٹھا کر دے دیا۔ مٹکا منہ کو لگایا اور ایک ہی سانس میں خالی کر دیا۔ ان کے اس واقعے کے بعد میں نے خاندان میں مشہور کر دیا کہ تایا کھانا کم کھاتا ہے اور ریس زیادہ لگاتا ہے۔ان کو ایک بہت پرلطف واقعہ سناتا ہوں جو کچھ یوں ہے کہ ہماری دادی نے ان کو ایک بڑے گیلن میں دیسی گھی ڈال کر دیا۔ جو کہ انہوں نے دوسرے گاؤں اپنی خالہ کے گھر پہنچانا تھا۔ خالہ کا گاؤں کافی دور تھا۔ چنانچہ تایا مرحوم صبح سویرے گیلن اٹھا کر گھر سے نکل گئے۔ دوپہر کے قریب ہی واپس آگئے۔ اور آکر سو گئے۔ گھر والوں نے دیکھا تو گیلن خالی تھا۔ دادی نے پوچھا کہ کوئی بیس کلو گھی تھا۔ آخر گیا کہاں۔ کیا گر گیا۔ شام کو اٹھے تو یہی سوال جواب کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ تو تایا کہنے لگے کہ جب میں یہاں سے نکلا تو میں نے سوچا کہ یہ جو درختوں کا جھنڈ ہے۔ اس کے اندر سے راستہ مختصر ہے۔ یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ ابھی درمیان میں ہی پہنچا تھا کہ چند ڈاکو مجھے اپنی طرف آتے نظر آئے۔ میرے پاس اور تو کچھ تھا ہی نہیں۔ یہ گھی ہی تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ گھی ہی لے جائیں گے۔ سو وہیں گیلن کا ڈھکن ہٹایا اور سارا گھی پی گیا۔ یہ منظر دیکھ کر ڈاکو وہاں سے بگٹٹ بھاگ اٹھے۔ گیلن خالی کرنے کے بعد آگے جانے کی کوئی وجہ نہ رہتی تھی سو واپس آگیا۔ ہمارے خاندان میں ڈاکوؤں کا بڑا مذاق اڑایا جاتا رہا کہ گھی پیتا دیکھ کر بھاگ گئے۔

چوپال میں سب نوجوانوں کے منہ کھلے ہوئے تھے اور حیرت زدہ ایک دوسرے کو تک رہے تھے۔

(جاری ہے۔)

6 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔