Thursday 17 July 2014

ایک بہت پرانا دور تھا​

2 comments

ایک بہت پرانا دور تھا

ایک بہت پرانا دور تھا۔ اتنا پرانا کہ پرانے لوگ بھی اس کو پرانا کہتے تھے۔ ایسے ہی ایک دور میں دو دوست کہیں جا رہے تھے۔ اس دور کی خاص بات یہ بھی تھی کہ کہیں بھی جایا جا سکتا تھا۔ کوئی پوچھتا نہ تھا کہ کہیں سے کیا مراد ہے؟ آج کے دور کی طرح سوال جواب نہیں ہوتے تھے کہ کہیں بھی جاؤ تو بتا کر جاؤ ، کہاں جا رہے ہو۔ بس کہیں کا مقصد کہیں ہوتا تھا۔ ایسے جانے والے دوست کبھی تو چند دن میں لوٹ آیا کرتے تھے۔ اور کبھی مدتوں نہیں لوٹا کرتے تھے۔ بس راہ جانے والوں کو لوٹا کرتے تھے۔ اور اس رقم سے سرائے بنوا کر غریبوں کو مفت دعائیں اور امیروں کو روپے لے کر کھانا دیا کرتے تھے۔ یہ دو دوست بھی حالات سے ننگ، گھر والوں کے ہاتھوں تنگ کہیں کو چل پڑے۔ کہیں تو کوئی بھی جا سکتا تھا۔ اس کے لیے اسبابِ راہ و سواری وغیرہ کی کوئی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ یا اگر ہوتی تھی تو پرانے حکایت بیان کرنے والے اس کو اضافی سمجھتے تھے۔ سو ہم بھی طول نہیں کھینچتے۔
ہاں تو ہم تذکرہ کر رہے تھے ان دوستوں کا۔ جو کہیں نکل پڑے تھے۔ راہ میں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے وقت کٹ رہا تھا کہ مذاق کرتے کرتے دونوں سنجیدہ ہوگئے۔اورتاریخ شاہد ہے کہ جب جب لوگ سنجیدہ ہوئے ہیں۔ لڑے ہیں۔ سو اسی روایت کو قائم رکھنے کو یہ دونوں بھی لڑ پڑے۔ جب ایک نے دیکھا کہ دوسرا زبانی اس پر بھاری پڑ رہا ہے تو اس نے دوسرے کے منہ پر ایک شاندار قسم کا طمانچہ رسید کر دیا۔ گاؤں یا محلہ ہوتا تولڑائی خوب بڑھ جاتی تاوقتیکہ کوئی تیسرا آکر سمجھاتا، یا پھر فوراً کوئی بیچ بچاؤ کرانے آ پہنچتا۔لیکن وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا اور اس بات کا دونوں کو بخوبی ادراک تھا۔ لہذا دوسرے دوست نےجو صحت میں بھی کمزور تھا لڑ کر خود کو تھکانے اور مزید مار کھانے کی بجائے ریت پر لکھ دیا ۔ آج میرے کمینے، رذیل اور منحوس دوست نے میرے منہ پر تھپڑ مارا۔ باقی دل پر کیا لکھاکیا نہیں۔ اس کو پڑھنے یا جاننے کا راوی کے پاس کوئی وسیلہ نہیں۔ گرچہ کچھ پرانے حکایتی بیان کرتے ہیں کہ اس نے یہ بات دل پر پکی ووٹروں والی سیاہی سے لکھ لی تھی۔ لیکن محض ایک مبہم تاریخی حوالے کی وجہ سےہم کسی کے دل میں جھانکنے کا دعواٰ کرنا نہیں چاہتے۔
اس کے بعد دونوں آگے چل پڑے۔ کچھ دیر خاموش رہےلیکن کب تک خاموش رہتےکہ بات کرنے کو تیسرا تو کوئی تھا نہیں۔ سو انہوں نے سوچا کہ بجائے منہ خراب کر کے پڑے رہنے کے کیوں نہ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ وہ دوست جس نے تھپڑ مارا تھا۔اس نے کہا یار دیکھ! ارادہ تھپڑ مارنے کا نہیں تھا۔ لیکن تو ایک غصیلی بیگم کی طرح بےتکان بولے چلا جا رہا تھا اور تجھے تو یہ بھی معلوم ہے کہ تو زبان دراز ہے اور میں ہتھ چھٹ ہوں۔ اور ہاتھ قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ سو تجھےچپ کرانے کو ایک لگانی پڑی۔ اس بات پر دل میلا نہ کر۔ اپنے پاس تو کپڑے دھونے کو کوئی چیز نہیں۔ دل کہاں سے دھوتے پھریں گے۔ دوسرے دوست نے بظاہر ایک مسکان اور چند مغلّظات اس کے قصیدے میں پڑھ کر ظاہر کیا کہ وہ ناراض نہیں ہے۔
آگے جاتے جاتے دونوں ایک دریا کنارے تک جا پہنچے۔ تھپڑ کھانے والا دوست طبیعت بحال کرنے کو دریا میں اتر گیا۔ بیوقوف آدمی تھا۔ جب تیرنا نہیں آتا۔ تو دریا میں اترنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن اتر گیا۔ ایک شوخ و چنچل لہر اس پر عاشق ہوگئی اور اس نے فورا سے پہلے اس کو آغوش میں آچھپایا یوں کہ وہ اس کے وجود میں یوں ڈوب جائے کہ اس کے سوا نہ کچھ دیکھ سکے اور نہ سوچ سکے۔ اور حقیقت میں نہ سانس لے سکے نہ آہ بھر سکے۔ عجب بیگم مزاج لہر تھی۔ وہ اس کی شوخی کی تاب نہ لا سکا۔ اور  اس کی آغوش میں ڈبکیاں لگانے لگا گویا فنا فی اللہر کی منازل طے کر رہا ہو۔دوسرے دوست نے جب اس کو ڈبکیاں کھاتے دیکھا۔ توایک نعرہ مارا۔ اوئے مریں نا۔ میں آیا۔ چھلانگ ماری اور اس کوسر کے بالوں سے پکڑ کر کنارے کی طرف کھینچنے۔ اور آخر کار اس کو باہر کھینچ لانے میں کامیاب ہوگیا۔
کچھ دیر بعد جب ڈوبتے دوست کے حواس درست ہوئے۔ تو اس نے ہتھوڑی اور کیل کی تلاش شروع کی۔ لیکن اس بیابان میں کیل ہتھوڑی کہاں سے آتی۔ آخر ایک گھوڑے کی نعل اس کے ہاتھ لگ گئی۔ اور اس نے اسی کی مدد سے ایک پتھر پر لکھ دیا۔ کہ آج میرے سب سے کمینے دوست نے میری جان بچائی۔ دل والی بات پر ہم دوبارہ کوئی بیان دینے سے خود کو معذور پاتے ہیں۔
پہلا ہتھ چھٹ دوست یہ حرکت دیکھ کر مسکرایا اور کہنے لگا کہ پہلی بار تو نے ریت پر لکھالیکن تیرے دل کاغبار ہلکا نہیں ہوا۔ بلکہ تو اب مجھے سب کے سامنے گالیوں سے نوازنے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے خیر! مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ دوسری بار تو نے پتھر پر لکھ دیا۔ لیکن اس بات کا تذکرہ تو سب کے سامنے بےعزت کرنے کے بعد گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کو کرے گا۔ یہ پرانی حکایتوں والی ڈرامہ بازی کر کے تو کیا ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔ یہ بات سن کر دوسرا دوست ہنسنے لگ پڑا۔ اور کہنے لگا کہ آہ! تو کتنا ٹھنڈا کمینہ ہے۔ یہ بات سن کر پہلا بھی ہنسنے لگ پڑا اور کہنے لگا کہ جب تجھے معلوم ہے کہ مجھے سب معلوم ہے تو بلاوجہ سائنسدان کیوں بن رہا ہے۔ اور وہ دونوں ہنسی خوشی "کہیں" کے راستے پر گامزن ہوگئے۔
اخلاقی سبق: یہ دو دوستوں کی روزمرہ بکواس کی داستان ہے۔ اس میں سے اخلاقی سبق ڈھونڈنا دورجدید کی اداکاراؤں کے جسم پر لباس ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ سو بلاوجہ زحمت مت کیجیے۔

2 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔