شام ڈھلنے کے قریب تھی۔ سامنے ٹی وی پر ایک ہی چینل بہت دیر سے چل رہا تھا۔ ہم کبھی ٹی وی پر نگاہ ڈالتے تو کبھی چند گز دور پڑے ریموٹ پر۔ دل چاہ رہا تھا کہ اٹھ کر ریموٹ اٹھا لیں۔ لیکن اس سے ہماری سست طبع پر حرف آنے کا شدید امکان تھا۔اگرچہ گھر میں اور کوئی نہ تھا جو کہہ سکتا کہ اس نے خود اٹھ کر ریموٹ اٹھا یا ہے لیکن کراماً کاتبین کو صرف اس کام کے لئے جگانا مناسب خیال نہ کیا۔ اورخود کوبھی کیا جواب دیتے۔ کہ محض ایک ریموٹ اٹھانے کی خاطر ہی بستر سے جدائی اختیار کر لی۔ میاں کس بات پر خود کو امیرِ سستی کہتے ہو۔ کل یہی باتیں رہ جائیں گی۔ یہی مثالیں پیش کروں گے نوآموز پوستیوں کو۔ کیا منہ دکھاؤ گے باقی آلکسیوں کو۔ سستی کی معراج یہ ہے کہ یہ ریموٹ خود اٹھ کر تمہارے پاس آئے۔ ضمیر کی اس متواتر پکار سے سر میں بھی درد شروع ہوگیا تھا۔ لہذا سوچ کا محور ریموٹ سے بدل کر چائے کی طرف کیا۔ جو کہ موجودہ صورت میں کے- ٹو سر کرنے سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھا۔ شام کی چائے بنانے کا منصوبہ ابھی ذہن میں ہی تکمیل پا رہا تھا کہ چائے ابھی بنائی جائے یا کچھ دیر اور یونہی بستر سے محبت نبھائی جائےکہ دروازے پر دستک ہوئی۔
دروازہ کھلا ہے۔ ہم نے لیٹے لیٹے ہی اپنی لیٹی ہوئی آواز اٹھانے کی کوشش کی جو کسمساتی، رینگتی ہوئی باہر کھڑے شخص کے کانوں تک جا پہنچی۔ دستک دینے والا اندر آیا تو دیکھا کہ موٹا بھائی ہیں ۔ ہم نے فوراً لیٹے لیٹے مسکرا کر ان کا استقبال کیا۔ ہماری آلکسی بھلے معراج پر ہو لیکن اتنے بھی سست نہیں کہ چہرے کے تاثرات تک تبدیل نہ کر سکیں۔ مسکراتے ساتھ ہی ہم نے ان سے عرض کی کہ جب ہاتھ ملانے کو ادھر آئیں تو راستے سے ریموٹ اٹھاتے لائیں۔ ہماری سستی کا یہ عالم دیکھ کر انہوں نے ایک بھرپور جمائی لی۔ اور ریموٹ اٹھا کر سامنے صوفے پر تشریف فرما ہوگئے۔ کہنے لگے۔تم سے ہاتھ ملانے کی حسرت کبھی بھی نہیں تھی۔ اور ریموٹ کا بٹن دبانے سے عین ممکن ہے کہ تم میں چستی کی کوئی لہر دوڑ جائے۔ لہذا یہ کام میں خود ہی سرانجام دے لیتا ہوں۔ اور ہم جو موٹا بھائی کو فرشتہ و غیبی مدد اور پتا نہیں کون کون سے القابات سے نوازنے والے تھے۔' میر جعفر از بنگال صادق از دکن' کا مطلب پوچھنے لگے۔ موٹا بھائی ہماری اس گستاخی کو پس منظر کا شور گردانتے ہوئے ریموٹ کے بٹن دبا کر دیکھنے لگے کہ یہ کام بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ ہم نے ریموٹ کو بھلا کر واپس چائے کے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ خیال آیا۔ اگر موٹا بھائی بھی چائے پینے پر رضامند ہوجائیں تو لطف رہے گا۔
"آپ چائے پئیں گے؟" ہم نے اپنی ساری طاقت مسکرانے پر صرف کرتے ہوئے کہا۔
"نہیں! میں چائے نہیں بناؤں گا۔" موٹا بھائی نے پرسکون انداز میں جواب دیا۔
"عجب ہیں آپ! میاں ہم چائے پینے کا پوچھ رہے ہیں۔ اب گھر آئے مہمان سے کون چائے بنواتا ہے۔" ہم نے زبردستی حیرت اپنے اوپر طاری کرتے ہوئے کہا۔
"جو بھی ہے۔ میں چائے نہیں بناؤں گا۔" موٹا بھائی نے اسی لہجے میں جواب دیا۔
"حد ہوگئی! شرافت کا زمانہ ہی نہیں رہا۔ ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہیں کہ ہم چائے آپ سے بنوائیں گے۔" ہم نے موٹا بھائی پر آخری وار کرنے کی کوشش کی۔
"نہیں میاں! تم جو مرضی کہو۔ لیکن اس بغیر کسی گوشے والے دماغ کے ہی تم کئی بار مجھ سے چائے بنوا چکے ہو۔ اور آج میں فیصلہ کر کے آیا ہوں کہ چائے نہیں بناؤں گا۔" موٹا بھائی الزام تراشی پر اتر آئے تھے۔
"خودغرضی لوگوں کی رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہی ہے۔" ہم نے ایک خبروں کے چینل پر ایک خبر دیکھ کر تبصرہ کیا۔
"ہاں بالکل! اب تو لوگ چائے بنانے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔" موٹا بھائی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"آپ کے اس رویے سے ہماری میزبان طبع کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔" ہم نے جذباتی حملہ کرنے کی کوشش کی۔
"ایسے ہی سہی۔" موٹا بھائی انتہائی بےرخی سے بولے۔
صبح سے کمر کو بستر سے جوڑ کر ہم نے طاقت جمع کی تھی ساری کی ساری صرف کر کےاٹھے اور کچن کا رخ کیا۔
"چائے پئیں گے آپ؟" ہم نے وہاں سے آواز لگائی۔
"بتایا تو ہے نہیں بناؤں گا۔" موٹے بھائی کی مسکراتی آواز سنائی دی۔ غالباً انہیں اب تک اس بات پر یقین نہ آیا تھا کہ ہم واقعی چائے بنانے کی غرض سے باورچی خانے میں رونق افروز ہوچکے ہیں۔
ہم نے انتہائی تیزی اور پھرتی سے چائے بنائی۔ تاکہ بستر اور ہمارے درمیان ہجر کی گھڑیاں کم سے کم ہوں۔ موٹا بھائی کے سامنے ایک کپ دھرا اور دوسرا خود تھامے واپس اپنے بستر پر بیٹھنے ہی والے تھے کہ گھنٹی کی آواز نےہمارے چائے اور بستر کے درمیان کیدو کا کردار ادا کیا۔ باہر دیکھا تو محلے کا اکلوتا چوکیدار فضلوکھڑا تھا۔
"کیسے ہو فضلو؟ کافی دن غائب رہے؟" ہم نے اس سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
ٹھیک ہوں صاحب! بس وہ کچھ کھا لیا تھا بعد میں پتا چلا کہ وہ گلا ہوا ہے جس کی وجہ سے بہت بیمار رہا ہوں۔
فضلو کی عادت تھی کہ وہ اچھی بری ہر چیز بغیر پرواہ کئے کھا جاتا تھا۔ صاف نظر آرہا ہوتا تھا کہ چیز خراب ہے لیکن وہ پھر بھی نگل جاتا۔ اپنی اسی عادت کی وجہ سے اکثر و بیشتر بیمار رہتا تھا۔ بارہا سمجھانے پر بھی جب اس پر کوئی اثر نہ ہوا تو اہل محلہ نے سمجھانا چھوڑ دیا۔
ہم فضلو کو اس کی تنخواہ دے کر واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ موٹا بھائی ٹی وی پر چند لڑکیوں کو بڑے انہماک سے دیکھنے میں مصروف ہیں جو کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔
"تم کو کھانا بنانا آتا ہوگا؟ آخر کو ایک عمر تم نے گھر سے باہر گزاری ہے۔" موٹا بھائی نے لڑکیوں یا پھر کھانے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"جی نہیں۔" ہم نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
"بنانا کیوں نہیں سیکھا۔" موٹا بھائی نے نظریں لڑکیوں سے ہٹانا گناہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔
"ہم صرف اچھا کھانا کھانے کے شوقین ہیں۔ اور چونکہ ہم کو اچھا کھانا بنانا نہیں آتا لہذا ہم اپنا بنایا کھا کر اچھا کھانے والی صلاحیت بھی کھونا نہیں چاہتے۔ " ہم نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
"میاں انسان گاتے گاتے گویا ہو ہی جاتا ہے۔ بناؤ گے تو آہستہ آہستہ بنانا آجائے گا۔" انہوں نے ٹی وی پرکھانا بناتی لڑکیوں میں سے ایک پر نظر جماتے ہوئے ناصحانہ انداز میں کہا۔
"ہم میں صبر کی شدید کمی ہے۔" ہم نے اس نوجوان کے انداز میں کہا۔ جو چند بزرگوں کے درمیان گھر گیاہواور جان بچانے کا راستہ ڈھونڈ رہا ہو۔
"ہمم! اچھا سنو میں سوچ رہا ہوں کہ شیف بنوں اور اس مقابلے میں حصہ لوں۔" موٹا بھائی نےہماری طرف متوجہ ہوئے بغیر کہا۔
"اگر آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال ہے کہ آپ کو ان لڑکیوں کی معرفت میں کام کرنے کا موقع ملے گا تو یقین کریں آپ بہت بھولے ہیں۔" ہم نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے ان پر جملہ چست کیا۔
"ان لڑکیوں کو کون دیکھتا ہے۔ میں کھانا بنانا سیکھوں گا اور اس مقابلے میں حصہ لے کر جیتوں گا۔" موٹا بھائی نے اپنی نظریں لڑکیوں پر گاڑے گاڑے جواب دیا۔
اس عزم پر ہم نے حیرانی سے اس جثہ رستم کو دیکھا جو کچھ بھی نیا سیکھنے کی عمر سے گزر چکا تھا۔
"آپ سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں!" ہم نے حیرت سے استفسار کیا۔
"ہاں! میں شیف بن کر رہوں گا۔ اور مقابلے میں حصہ بھی لازمی لوں گا۔" موٹا بھائی نےپلٹ کر ہم کویوں گھورتے ہوئے کہا۔ گویا اگر آج تک وہ شیف نہیں تھے تو ہمارا ہی قصور تھا۔
"لیکن جہاں تک اس خاکسار کا خیال ہے کہ آپ کچھ بھی بننے کی عمر سے گزر چکے ہیں۔ "
"ہنہہ! نہیں میاں! تم کو معلوم نہیں کہ میرے اندر کتنا ٹیلنٹ چھپا ہے۔ "
ہم نے ایک نظر دوبارہ ان کے ٹیلنٹ زدہ جثے پر ڈالی۔ اور انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔" مشکل ہے!"
غصہ سے دوبارہ لڑکیوں پر نظریں جما لیں۔ کہنے لگے۔" کیا مشکل ہے! کسی کے جسامت دیکھ کر تم اندازہ لگاؤ گے کہ وہ اچھا شیف ہے یا نہیں۔ "
"نہیں۔ میری معلومات ذرا کم ہیں۔ شیف کا کام کیا ہوتا ہے۔"
فخر سے گردن اکڑا کر کہنے لگے۔ "میاں! بڑے بڑے ہوٹلوں میں شیف ہی ہوتا ہے۔ "
"اس کو باورچی بھی کہہ سکتےہیں؟ "
ذرا غصہ سے پہلو بدلتے ہوئے۔" تم نے کبھی کسی بڑے ہوٹل میں کھانا نہیں کھایا؟"
"کھایا ہے۔" ہم نے جلدی جلدی ہوٹلوں کے نام گنوانے شروع کر دیے۔
"بس بس! آگیا یقین کہ تمہیں بھی کسی نے اندر گھسنے دے دیا ہوگا۔ خیر وہ کھانا جو تم کھا آئے ہو۔ وہ شیف بناتا ہے۔" فخر سے بولے۔
"اوہ! اچھا۔ وہ اتنا بیہودہ اور مہنگا کھانا شیف بناتا ہے۔ ویسے تو آپ بن سکتے ہیں۔ اگر ذائقہ شرط نہ ہو تو آپ میں بھی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ "
بھڑک کر بولے۔ " کھانا بنانا آرٹ ہے۔ "
"کل تک تو عشق بھی آپ کی نظر میں آرٹ تھا۔ لیکن اس عمر میں اچھا بنانا کہاں سے سیکھیں گے۔ اچھا تو ایک طرف برا بنانا بھی کچھ ایسا سہل نہیں۔ کیا مخلوق خدا کے ہاضمے پر تجربات کے لئے کسی ادارے سے کوئی مالی امداد ملی ہے۔ یا کسی امراض معدہ کے ڈاکٹر سے دوستی گانٹھ لی ہے۔ " موٹا بھائی کو مایوس کرنا ہماری گفتگو کا مقصد ہوچلا تھا۔
میری تمام تر گستاخیوں کو نظرانداز کر کے رازدارانہ انداز میں بولے۔ "باقاعدہ درس لینے کا ارادہ ہے۔ "
"کہاں سے؟" ہم نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا۔
انتہائی خوشی سے ایک بڑے ہوٹل کا نام بتاتے ہوئے۔ " میں نے فیس، کلاسز کے اجراء اور داخلہ کی شرائط بھی پتا کر لی ہیں۔"
"ہیں!! تو گھر کھانا بناتے کیا موت پڑتی ہے۔بچت بھی ہوگی اور بھابھی کا بھی بھلا ہوجائے گا۔ " ہم نے حیرت زدہ انداز میں کہا۔
"تم نہیں سمجھو گے۔ کتنے لوگوں کے لئے کتنا بنانا ہے۔ پیش کیسے کرنا ہے۔ یہ سب وہیں سکھایا جاتا ہے۔ " موٹا بھائی نے ہمیں دنیا کا آخری بیوقوف سمجھ کر سمجھانے کی کوشش کی۔
"تو آپ زیادہ لوگوں کے لئے کھانا بنانا چاہتے ہیں؟ ہوٹل کھولیں گے؟" ہمارے لہجے میں حقیقی حیرت عود کر آئی تھی۔
"نہیں۔ میں یہ مقابلہ جیت کر ملک کا بہترین شیف بنوں گا۔" وہ ہماری جہالت پر برہمی سے بولے۔
"کیا آپ اس عزت افزائی کے متحمل ہو سکتے ہیں جو مقابلے میں شریک لوگ برداشت کرتے ہیں۔ " ہماری حیرت کا سلسلہ جاری تھا۔
"ہاں! تنقید اگر مثبت ہو تو نکھار لاتی ہے۔" انہوں نے اپنا سر یوں ہلایا جیسے کسی ہانڈی میں ڈوئی ہلائی جا رہی ہو۔
"یہ کتابی باتیں ہیں۔ عملاً ان لوگوں کے چہروں پر اذیت کبھی محسوس نہیں کی آپ نے۔" ہم نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
"نہیں میاں۔ یہ تو سننے والے منحصر ہے کہ وہ تنقید کو مثبت لیتا ہے یا منفی۔ ظاہر ہے اصلاح کا عمل ضروری ہے۔ "
"ہمم۔۔۔بفرض محال آپ جیت گئے۔ اس کے بعد؟" ہم نے بھولپن سے پوچھا۔
"بفرض محال ہی کیوں؟ تمہیں کیوں لگتا ہے کہ میں نہیں جیت پاؤں گا۔" موٹا بھائی تیزی سے بولے۔
"چلیں جی یقیناً آپ جیت جائیں گے۔ اس کے بعد؟" ہم نے آگے کی منزل جاننے کو بحث سے بچنے کی کوشش کی۔
"اس کے بعد کسی بڑے ہوٹل میں ملازمت کروں گا۔" فخریہ انداز میں بولے۔
"یاحیرت! یعنی باورچی بن جائیں گے؟ " ہم نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا جو اب سائبریا سے درآمد شدہ لگ رہی تھی۔
"شیف میاں شیف! تمہیں معلوم ہے کبھی کسی ہوٹل میں جا کر کھانا بنانا تو کبھی کسی میں۔ کبھی کوئی گاڑی لینے آرہی ہے تو کبھی چھوڑنے۔ وقت پر وقت دیے جا رہا ہوں گا۔ اس وقت ممکن نہیں۔ آج اس وقت تک میسر ہوں۔ دولت کی ریل پیل۔ الغرض کتنے ہی فوائد ہیں جن کا تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ اور سب سے بڑا لطف مرکز توجہ ہونے کا۔ بئی واہ۔" انہوں نے خیالی پلاؤ کی دیگ میں زور زور سے چمچ ہلاتے ہوئے کہا۔
"مصالحے بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ ہاتھ ہلکا رکھیں۔ "ہم نے دست بستہ عرض کی۔
"پورے ملک میں میرا نام ہوگا۔ عزت ہوگی۔" انہوں نے اسی کیفیت میں بات جاری رکھی۔
"تو کیا اب آپ کی عزت نہیں ہے۔" ہم نے بھی مسکراتے ہوئے جملہ کسا۔
"تم اس طرح کی باتوں سے مجھے مایوس نہیں کرسکتے۔اس وقت سے ڈرو جب تمہیں اپنے خاص مہمانوں کے لئے میری خدمات کی ضرورت ہوگی اور میرے پاس تمہاری بات سننے کا بھی وقت نہیں ہوگا۔" انہوں نے ہماری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے پرغرور لہجے میں کہا۔
"شادی بیاہ کا بھی بنا لیں گے؟ " ہم نے شرارت سے پوچھا۔
ہمارے لہجے کی شرارت نظر انداز کر کے فرمانے لگے۔ "ہاں! شادی بیاہ پر بھی پکا سکوں گا۔ "
"مطلب خاندان میں شادی پر نائی کا خرچہ نہیں ہوگا۔ " ہم نے اسی شرارتی انداز میں کہا۔
چراندے ہو کر کہنے لگے۔" کیا اول فول بک رہے ہو۔"
عرض کی۔" ہمارے تو شادی بیاہ کا کھانا نائی ہی بناتے ہیں۔" .
"تم لوگ جاہل ہو۔ اجڈ ہو۔ پرانے خیالات کے مالک ہو۔ " موٹا بھائی انتہائی برہمی سے بولے۔
"اگر نام بدل دیں۔ اور نائی یا باورچی کو شیف کہیں تو آپ کو اعتراض نہ ہوگا۔" ہم بھی شرارت پر تلے تھے۔
سخت غصہ سے ہونٹ بھینچ لئے۔ کوئی جواب نہیں۔
"اچھا چھوڑیں نائی کو۔ ہمارے لوگ ذرا پرانے خیالات کے مالک ہیں۔ اگر آپ کسی جگہ سج دھج کر جائیں۔ اور لوگ سوال کر بیٹھیں کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ تو کیا جواب دیں گے؟"
کہنے لگے۔ "تمہاری سب شیطانی سمجھ رہا ہوں۔ کہوں گا کہ فلاں بڑے ہوٹل میں بڑا شیف ہوں۔ " زور بڑے پر تھا۔
"مطلب اگلا سوال کہ شیف کیا ہوتا ہے کا جواب کیا دیں گے؟"
"کہہ دوں گا وہاں کھانا بناتا ہوں۔ "
"یعنی نائی ہوں۔ یا باورچی۔ "
"حد ہوگئی۔ تمہاری سوئی اس سے آگے کیوں نہیں بڑھتی۔ " بھڑک کر بولے۔ چائے کا کپ بھی واپس رکھ دیا۔ ختم جو ہوگئی تھی۔
"اصل میں بات یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک بار شادی پر سردار کے برابر کرسی پر نائی بیٹھ گیا تھا۔ تو سردار وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ کہ آئندہ کبھی ان کی شادی میں نہیں آؤں گا۔ میرے برابر میں نائی کو بٹھا دیا ہے۔ " ہم نے ان کی معلومات میں اضافہ کرنے کی غرض سے کہا۔
"تم کچھ بھی کہہ لو ۔ لیکن یہ میرا شوق ہے۔ اور اب سے جنون بھی" ان کا لہجہ اٹل تھا۔
"آپ کو کتنا یقین ہے کہ آپ ایک اچھے شیف بن سکتے ہیں۔ " ہم نے ان کے عزم کو دیکھ کر موضوع بدلنے کی نیت سے پوچھا۔
"لو ! کیسی بات کی۔ ابھی کل ہی میں نے کھانا بنایا تھا۔ فضلو چوکیدار کو کھلایا تھا۔ وہ تو بلے بلے کر رہا تھا۔ اور کہہ رہا تھا کہ آپ بہت اچھے کھانے بناتے ہیں۔ "
ہم اپنی سائبرین چائے کو حلق میں انڈیلنے لگے۔ بحث ختم ہوچکی تھی۔ ظاہر ہے اب فضلو کی مہر کے بعد تو نامور شیف بننے میں کوئی رکاوٹ ہی باقی نہیں رہی تھی۔
Haha 😂 phir shef bneny ka kya hua