Wednesday 2 July 2014

خاک نشیں کو پرواز کا تخیل بھی عجب ہے

2 comments
خاک نشیں کو پرواز کا تخیل بھی عجب ہے۔
علم کی بنیاد پیمانہ خالی رکھنے پر ہے۔ صاحب علم کے سامنے جوں جوں ادراک کی گرہیں کھلتی ہیں، اس کو اپنا پیمانہ اور بھی خالی نظر آنے لگتا ہے۔ ہوس بڑھتی ہے کہ مزید کچھ اس پیمانے میں ڈالا جائے۔ جوں جوں آگہی کے باب کھلتے ہیں اپنی کم علمی کھل کر سامنے آتی جاتی ہے۔ دل مزید کی تمنا کے لیے تڑپتا ہے۔ ایسے میں کسی بھی معاملے پر بلند پروازی اس کو عجب نظر آتی ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ آگہی کے فلک پر کتنے ہی ضیغم ہیں جو اس کو زیر کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ صاحب علم ان کی بلند پروازی کے مشاہدے میں غرق ہو جاتا ہے اور یوں علم اس کے اندر انکساری کو پروان چڑھاتا ہے۔ یہ انکساری خشیت اور الہی کی اطاعت لے کر آتی ہے۔ کہ علمی ذہن جب مظاہر کے مطالعہ میں غرق ہوتا ہے۔ تو اس کو اپنی ذات تنکا نظر آتی ہے۔ جبکہ کسی معاملے پر اپنی رائے حرف آخر ثابت کرنا تکبر کو جنم دیتا ہے۔ اور تکبر پستی ہے۔ جوں جوں انسان ہر معاملے کو محض اپنی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس کا پیمانہ بھرتا جاتا ہے۔ اور اس میں مزید کی گنجائش نہیں نکلتی۔ اسی بات کو مختصراً بیان کیا جائے تو وہ یہ کہ "خاک نشین کو پرواز کا تخیل بھی عجب ہے۔"
از قلم نیرنگِ خیال

2 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔