Wednesday, 11 December 2013

باکمال بزرگ - قسط دوم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

6 comments
راقم نے اس نابکار کو گھورا۔۔۔۔ اور بزرگ کے قدم چھونے کے لیے آگے بڑھا۔ جذب عقیدت سے سرشار تھی طبیعت ۔ بس یوں سمجھیے کہ "اے تن میرا چشمہ ہووے" والا مصرعہ اسی دن ہی سمجھ آیا۔

اب  جو بزرگ سے باہم گفتگو بڑھی۔۔۔ تو انہوں نے اپنے خاندان میں گزرے اک اور بزرگ کی شہ زوری کے واقعات سے پردہ اٹھایا۔۔۔ ذرا انہی بزرگ کی زبانی سنیے۔۔۔

بزرگ اپنے سامنے بیٹھے نوجوانوں کو  دیکھا۔۔ اور کہا۔۔۔ کیا جوانیاں تمہاری ہیں۔۔۔ نوجوانوں۔۔ بس ذرا آٹے کی بوری اٹھاتے ہو تو ہانپنے لگتے ہو۔۔۔  یہ پیچھے ڈیرے کی چھت دیکھ رہے ہو۔۔۔ یہ پرانے وقتوں میں بھی چھت ہی تھی۔ اس انکشاف پر اکثر نے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں۔ یوں بھی فوق العادہ انکشافات پر اظہار کو محاورات کی عملی شکل ضروری تھی۔ بزرگ نے کمال سخاوت سے اس حیرانی کو نظر انداز کرتے ہوئے متبسم لہجے میں بات جاری رکھی۔  میں اس وقت جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا۔۔۔ بس روز کی عادت بنی ہوئی تھی۔۔۔ کہ دو بوریاں بغل میں دبا کر سیڑھیاں چڑھ جایا کرتا تھا۔۔۔ اور اترتا تھا۔۔۔ یہ عمل تیس بار دہراتا۔۔۔ پھر جب جسم گرم ہوجاتا تو ڈنڈ پیلا کرتا تھا۔۔۔  اور مزے کی بات دیکھو کہ میں اپنے  ساتھیوں میں سب سے کمزور ہوا کرتا تھا۔۔۔ باقی سب میرا مذاق اڑاتے تھے۔۔۔ غضب خدا کا دیکھو کہ وہ لوگ بھی میرا مذاق اڑاتے تھے جنہیں محلے میں کبوتر کوئی نہ اڑانے دیتا تھا۔ خیر۔۔۔ اس دور باکمال میں ہمارے  محلے میں اک بزرگ ہوا کرتے تھے۔۔۔ سب ان کو سائیں بابا کہا کرتے  تھے۔۔۔ ہائے۔۔۔ کیا بزرگ تھے۔۔۔ اللہ جنت نصیب کرے۔۔۔ بھئی زندگی بھر کوئی شہ زور دیکھا ہے تو وہ ۔۔۔  واہ کیا طاقت دی تھی اللہ نے مرحوم کو۔۔۔۔ گڈا  (بیل کے پیچھے جوتنے والا ریڑھا) اٹھا لیا کرتے تھے۔۔۔ قربانی کے دن بیل کو اکیلے ہی پچھاڑ کر ذبح کر دیا کرتے تھے۔۔ گر کوئی ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا۔۔ تو بہت ڈانٹتے۔۔۔ کہتے تم نوجوان  لوگ کام خراب کرتے ہو۔۔۔۔  ہم نے جا کر سب سے عید ملنے کے بعد ابھی قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کی تیاری کر رہے ہونا۔۔۔ اور  ان کے گھر سے گوشت  پہنچ جایا کرتا تھا۔۔۔ واہ واہ۔۔۔  اوئے تم لوگوں نے وہ تو دیکھا ہوا ہے ناں۔۔۔ یہاں سے وہ والا شہر۔۔۔۔ جی جی بالکل۔۔ اک نواجوان فورا بولا۔۔ یہاں سے دو سو کلومیٹر دور ہے۔۔ اس پر بزرگ سرکھجاتے ہوئے بولے۔۔ ہاں بالکل۔۔۔لیکن ہمارے دور میں یہ فاصلے ناپنے کا سلسلہ نہ تھا۔۔۔  بس جہاں تھک جاتے رات کاٹ لیتے تھے۔۔۔  خیر  اس سے تھوڑا پہلے اک گاؤں آتا ہے۔۔۔ وہاں جانا تھا۔۔۔ پیدل ہی نکلنے لگے۔۔۔ گھر والوں نے بہت کہا کہ نہیں ،گرمیوں کے دن ہیں۔۔ پیدل نہ جاؤ۔۔ ایسا کرو۔۔۔۔ گڈا لے جاؤ۔۔ پہلے تو نہ مانو۔۔۔ پر جب اصرار بڑھا تو گڈے پر سوار ہو کر نکل گئے۔۔ واپسی پر آدھے سے زیادہ سفر طے کر چکے تھے۔۔۔ کہ گڈے کا اک پہیہ ٹوٹ گیا۔۔۔۔ طبیعت بڑی مکدر ہوئی۔۔۔  بہت سٹپٹائے۔۔ اور گڈا اٹھا کر کاندھے پر رکھا۔۔ ساتھ بیل کو ہانکتے ہوئے لے آئے۔۔۔ کہنے لگے۔۔۔ آئندہ پرائی چیز کا سہارا نہ لوں گا۔۔۔ بھائی اپنے پیروں سے بھلی چیز دنیا میں کوئی نہیں۔۔۔  اس واقعے پر سب نوجوانوں کے منہ حیرت سے کھل گئے۔۔۔ واہ کیا طاقت تھی۔۔۔ اللہ اللہ

(جاری ہے)

6 comments:

  • 11 December 2013 at 21:19

    ذوالقرنین۔
    اُڑ کر فیصل آباد پہنچنے والی بات ٹھیک ہے کہ نہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم سے تیس پینتیس سال پہلے کے لوگ وزنی کام آسانی سے کر لیا کرتے تھے۔ اگر یقین نہ آئے تو اپنی قریبی غلہ منڈی میں ٹرکوں پر مال چڑھاتے اتارتے مزدوروں کو دیکھیں، جن کی صحت قابل رحم ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود سو کلو کی بوری اٹھانا ان کے لیے عام بات ہے۔
    اب سے پینتیس سال بعد آپ نئی نسل کو بتائیں گے کہ ٹائر پنکچر ہونے پر میں موٹر سائکل کو گھسیٹتا ہوا دو تین کلومیٹر دور پنکچر شاپ تک چلا جاتا تھا، تو اُن کے منہ کھلے کے کھلے رہ جائیں گے۔

  • 11 December 2013 at 22:33

    محترم جوانی پٹا! سب سے پہلے تو بلاگ پر تشریف آوری پر آپ کا خیر مقدم ہے۔ جناب خاکسار بذات خود ایک زمیندار گھرانے کا فرد ہے۔ اور بوریاں بھی اٹھاتا رہا ہے اپنی زمینوں پر ہی۔۔۔ :) اس مضموں سے ہرگز کسی کی تحقیر مقصود نہیں ہے۔ محض جملوں سے حظ اٹھانا مقصد ہے۔
    والسلام
    خیر اندیش

  • 12 December 2013 at 04:03
  • 12 December 2013 at 21:30
  • 18 December 2013 at 16:57

    غضب خدا کا دیکھو کہ وہ لوگ بھی میرا مذاق اڑاتے تھے جنہیں محلے میں کبوتر کوئی نہ اڑانے دیتا تھا۔ خی

    hahahahahaha tu cheeez bari ha mast mast

    اک نواجوان فورا بولا۔

    اگر یہ واقعی ٹائپنگ کی غلطی نہیں تو زبردست
    نواجوان ہاہاہاہاہا کمال کی اصطلاح کاڈھی ہے یارا

    یار اگر برا نہ مناؤ تو میں کہوں گا اب تم یونس بٹ کا رنگ پکڑتے جا رہے ہو
    بندے دا پتر بن تے دوبارہ اپنے اصل رستے پر آ۔۔۔۔ اور اگر مائنڈ کرنا ہے تو بہت زبردست تحریر ہے مگر انداز بیاں اور چٹخارے کےمزے آئے اور داغ کو یاد کرتا رہا

  • 18 December 2013 at 21:02

    یہ تحاریر منہ کا ذائقہ بدلنے کو ہیں۔۔۔ اس لیے چل رہا ہے سلسلہ۔۔۔۔ :)

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔