Thursday, 12 December 2013

باکمال بزرگ - قسط سوئم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

4 comments
گزشتہ سے پیوستہ:
شام کو چوپال میں اسی طاقت کے تذکرے تھے۔ کہ کیسے کیسے لوگ زیرزمین سو گئے۔ ایک بزرگ نے فرمایا۔۔۔ بیٹا یہ سب پرانی خوراکوں کا اثر ہے۔ مجھے دیکھو۔۔۔ تمام نوجوانوں نے ایک نظر بزرگ پر ڈالی۔ ہڈیاں ہی ہڈیاں۔۔۔ آنکھوں پر کوئی ساٹھ نمبر کا چشمہ اور ہاتھ رعشے کی وجہ سے مسلسل لرزاں۔۔۔ اس پر ایک نوجوان کو پھبتی سوجھی۔ اس نے کہا میں نے بھی پرانی خوراکیں کھا رکھی ہیں۔ ابھی ابھی پرسوں کا رکھا  کھانا کھا کر آرہا ہوں۔ اس پر بزرگ جلال میں آگئے۔۔ یوں بھی ایسی باتوں پر جلال میں آنا بنتا ہے۔  محض آدھا گھنٹا کے قریب کھانس کر انہوں نے اپنا گلا صاف کیا۔ اور اس کے بعد انہوں نے ایک تحقیرانہ نگاہ اس نابکار پر ڈالی۔ اور کہا۔۔۔ تمہارے لیے پرانی خوراکیں یہی ہیں۔۔ مگر ہماری پرانی خوراکیں بھی تازہ ہوتی تھیں۔ میں تمہیں اپنی جوانی کی بات سناؤ تو تم دنگ رہ جاؤ۔
اس پر راقم الحروف فورا ملتمس ہوا کہ قبلہ گاہی! گر آپ اس احقر کو ان  چشم کشا واقعات سے  آشنا فرمائیں۔ تو یہ سر احساس تشکر سے صدا خم رہے گا۔اس پر ایک اور بھی گویا ہوا کہ مجھے بھی دنگ ہوجانے کا شوق ہے۔ مدتیں بیتی کبھی دنگ نہ ہو سکا۔ آج یہ حسرت مکمل ہوتی نظر آتی ہے۔  بزرگ نے اس پر افروختہ افروز انداز میں کہا کہ ہمارے دور میں اسلاف کے سامنے زبان کھولنے کی تاب نہ تھی کسی میں۔ فرماں برداری کا یہ عالم تھا کہ جو اسلاف کہتے خاموشی سے کرتے۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے اپنے باپ کے سامنے کبھی زباں کھولی ہو۔ ایک دن والد صاحب مجھے کہنے لگے کہ یار کچھ بولو۔ مجھے پتا چلے کہ تم بولنا نہیں بھول گئے۔

اس سے پہلے میں تمہیں خوراکوں کے متعلق آگاہی  دوں۔ پہلے والدین اور بڑوں کی خدمت اور ادب سے متعلق یہ واقعہ سنو۔ چوپال میں موجود تمام لوگ ہمہ تن گوش ہوگئے۔ بزرگ نے اپنے ایک پرانے دوست (جو کہ خود بھی بزرگ تھے) کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا۔۔۔ اس کو تو یاد ہی ہوگا۔۔۔

ایک دن کی بات ہے کہ میں پورا دن کھیتوں میں کام کر کے تھکا ہارا گھر کو آیا۔ صبح صبح میں نے پانی دینے کو نہر سے بندھ توڑا تھا۔ اس کے بعد پھر وہ بندھ باندھا بھی۔ اس ایک کام میں پورا دن کیسے گزرا پتا ہی نہیں چلا۔ جب تھکن سے براحال ہوگیا۔ اور میں اس نہر کنارے لیٹا لیٹا تھک کر چور ہوگیا۔ تو اٹھا اور گھر کی راہ لی۔ کھانے کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ والد محترم نے جس چارپائی پر سونا ہے۔ اس کی نوار ڈھیلی ہوگئی ہے۔ ایک دوست نے چونک کر دیکھا تو ہنس کر کہنے لگے۔۔۔ میاں یہ سنسکرت والا نوار ہے نہ کہ عربی و فارسی والا۔ اور بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس سوچ سے کہ ساری رات والد بے آرام رہیں گے۔ تاک میں بیٹھ گیا کہ جیسے ہی والد اٹھیں تو میں فورا سے پہلے نوار کو کس دوں۔ تاکہ چارپائی پر آرام کیا جا سکے۔ مگر قدرت کو تو مجھ سے میری فرماں برداری اور محبت کا امتحان مقصود تھا۔ وہی امتحان جو ہر ولی سے لیا جاتا رہا ہے اور فرماں برداری کی اعلیٰ روایات کا مظہر رہا ہے۔

والد صاحب وہیں پر سو گئے۔ اب معاملہ میری برداشت سے باہر ہوگیا۔ اور میں اٹھا اور چارپائی کے نیچے گھس کو چاروں ہاتھوں پاؤں پر گھوڑے کی صورت نیچے جھک کر بان کو سہارا دیا۔ تاکہ والد صاحب کی کمر سیدھی رہے۔۔۔ اب جو والد صاحب بائیں کروٹ لیتے تو میں بھی بائیں سرک جاتا۔ اور دائیں کروٹ لیتے تو دائیں سرک جاتا۔ محض اتفاق کی بات ہے کہ والد صاحب جو روانہ تہجد پڑھنے کے عادی تھے۔ اس دن ایسی سکون کی نیند سوئے۔ کہ فجر بھی بس قضا ہی ہوئی چاہتی تھی۔ جب بیداری سے اٹھ کر مجھے چارپائی کے نیچے یوں جھکا پایا۔ تو بےاختیار میرا ماتھا چوم لیا۔ اور کہنے لگے۔ ایسی پرسکون نیند تو واللہ۔۔۔۔ کبھی زندگی میں نہ آئی تھی۔ بڑے فخر سے اپنے دوستوں میں یہ قصہ بیان کیا کرتے۔ پھر بزرگ نے تھوڑا سا شرما کر کہا کہ مجھے خبر ملی کہ میری اس فرماں برداری اور ادب کے تذکرے گاؤں کی عورتوں میں چرخہ کاتتے بھی ہونے لگے۔ اس پر دوسرے بزرگ ہنس کر کہنے لگے ہاں۔۔۔۔ وہ چرخے والی بات بھی درست ہے۔۔۔۔ شام کو کھیتوں کے کنارے بانسری بجانا بھی تو نے اس کے بعد ہی سیکھا تھا۔۔۔۔۔ اس پر پہلے بزرگ ذرا مزید شرما گئے۔۔۔۔ 

سب نوجوان دنگ تھے۔ چوپال پر سکوت طاری۔۔۔۔

(جاری ہے)

4 comments:

  • 13 December 2013 at 00:07

    :) یہ اچھی طرح سے میرے دوست نے کیا، واقعی میں ایک اچھی کہانی ہے. مستقبل کے لئے مبارک

  • 13 December 2013 at 02:19

    شکریہ نومی۔۔۔ ویسے یہ مستقبل کی مبارک کچھ شر پر تو مبنی نہیں۔۔۔۔۔ :D

  • 18 December 2013 at 17:10

    یٹا یہ سب پرانی خوراکوں کا اثر ہے۔ مجھے دیکھو۔۔۔ تمام نوجوانوں نے ایک نظر بزرگ پر ڈالی۔ ہڈیاں ہی ہڈیاں۔۔۔ آنکھوں پر کوئی ساٹھ نمبر کا چشمہ اور ہاتھ رعشے کی وجہ سے مسلسل لرزاں۔۔۔ ا

    محض آدھا گھنٹا کے قریب کھانس کر انہوں نے اپنا گلا صاف کیا

    افروختہ افروز???????....


    والد صاحب وہیں پر سو گئے۔ اب معاملہ میری برداشت سے باہر ہوگیا۔ اور میں اٹھا اور چارپائی کے نیچے گھس کو چاروں ہاتھوں پاؤں پر گھوڑے کی صورت نیچے جھک کر بان کو سہارا دیا۔ تاکہ والد صاحب کی کمر سیدھی رہے۔۔۔ اب جو والد صاحب بائیں کروٹ لیتے تو میں بھی بائیں سرک جاتا۔ اور دائیں کروٹ لیتے تو دائیں سرک جاتا۔ محض اتفاق کی بات ہے کہ ابو جو روانہ تہجد پڑھنے کے عادی تھے۔ اس دن ایسی سکون کی نیند سوئے۔ کہ فجر بھی بس قضا ہی ہوئی چاہتی تھی۔

    یہ سارا پیرا گراف پڑھتے پڑھتے جب اچانک "ابو" کا لفظ آتا ہے تو ماضی کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے
    جیسے مرزا غالب فلم میں ایک عمارت کا برآمدہ چھت سے پھٹ کر ہل رہا تھا
    جیسے بے بی ڈیز آؤٹ میں بچہ سکرین کے سامنے کارڈر پر بیٹھا تھا اور عوام الو بنی ہوئی تھی کہ بچہ اتنی بلندی پر اففففففففففففففف
    یار بندے دا پتر زبان پر قابو رکھ
    ایسی غلطیاں ایسی محسوس ہوتی ہے جیسے مزے سے بریانی کھاتے کھاتے اچانک کرچ کے ساتھ داڑھ میں ککرا آ جائے


    ۔ پھر بزرگ نے تھوڑا سا شرما کر کہا کہ مجھے خبر ملی کہ میری اس فرماں برداری اور ادب کے تذکرے گاؤں کی عورتوں میں چرخہ کاتتے بھی ہونے لگے۔

    ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا مگر اتنا بھی نہیں

  • 18 December 2013 at 21:05

    اس کو میں نے اپنے پاس درست کر لیا تھا۔ بلاگ پر رہ گیا۔۔۔۔ شکریہ یارا۔۔۔۔ :)

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔