آپ کبھی بچے بھی رہے ہوں گے۔ اور جب بچے ہوں گے تب آپ نے اپنے بزرگوں کے کارنامے بھی سنے ہوں گے۔۔ ایسے ایسے کارنامے کے عقل دنگ رہ جائے۔ بھئی کیا کمال دور تھا۔۔۔ کیسے کیسے بزرگ ہوا کرتے تھے۔ اس دور میں تو یہاں تک مشہور تھا کہ بزرگ ہو اور باکمال نہ ہو۔۔۔ سمجھو بزرگ ہی نہیں۔۔۔۔ ایسے ہی کچھ باکمال بزرگوں کی زندگیوں سے کچھ سبق آموز واقعات پیش خدمت ہیں۔
تو جناب یہ بزرگ تھے بہت زبردست۔۔۔ پیدل چلنے کے بہت شوقین تھے۔۔۔ پیدل چلنا۔۔ لاہور سے جو نکلنا تو امرتسر چلے جانا۔۔۔ پورے گھر والوں نے علاقے کی مساجد میں اعلان کروا کروا کر تھک جانا۔۔۔ مگر بزرگ کا کہاں پتا چلنا۔۔۔ وہ تو وہاں کوئی دوسرا خاندان کا بزرگ جو محض اتفاق سے پیدل ہی ہری مرچیں یا ٹماٹر خریدنے گیا ہوتا۔۔۔ ان کو بازار میں پھرتا دیکھ لیتا۔۔۔ اور ڈانٹ ڈپٹ کر واپس لے آتا۔۔۔ بس جی عجیب دور تھا ۔۔۔میلوں کا سفرآن کی آن میں طے کرلینا۔۔۔ اک بار کرنا ایسا ہوا۔۔۔ کہ لاہور سے فیصل آباد جانا تھا۔۔۔ اور حقہ بھی ساتھ تھا۔۔۔ لاری والے ٹھہرے بدتمیز اور گستاخ۔۔ کہنے لگے کہ حقہ لاری کے اندر نہ رکھنے دیں گے۔۔ بزرگ نے بارہا سمجھایا۔۔۔ کہ یار حقہ کے بغیر سفر نہ ہوگا۔۔۔ تو گستاخی کی ساری حدیں پار کر گئے۔۔۔ کہنے لگے چھت پر باندھ دیتے ہیں۔۔۔ اس پر جو بزرگ کو جلال آیا۔۔۔ تو بس سے اتر آئے۔۔۔ اور کہنے لگے۔۔۔ اب فیصل آباد میں ہی ملاقات ہوگی۔۔۔ بس والا ہر سٹاپ پر رکتے سواریاں اتارتے چڑھاتے جب فیصل آباد بس اڈے پر پہنچا۔۔۔ تو یہ بزرگ وہاں انتظامیہ کی چارپائی پر بیٹھے حقہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔۔ ڈرائیور کو دیکھ کر کہنے لگے۔۔ کیوں کاکا۔۔۔ بس اتنی ہی تھی رفتار۔۔۔۔ انتظامیہ نے جب بتایا۔۔۔ کہ بزرگ پیدل ہی آگئے تھے۔۔۔ اور کب کے آئے بیٹھے ہیں۔۔۔ تو حیرت سے اس کی آنکھیں کانوں تک پھیل گئیں۔۔۔ کہتے ہیں جھیل جیسی آنکھوں والا محاورہ اسی دن ہی ایجاد ہوا تھا۔۔ واللہ اعلم
اور یہ کتنے دن کا قصہ ہے۔۔۔ ایک گستاخ نے معصومیت سے سوال کیا۔۔۔۔
(جاری ہے)
گُڈ ۔۔۔
شکریہ عمر بھائی :)
گُڈ نین
شکریہ نومی۔۔۔ :)
یہ سب حقائق ہیں لیکن جدید ذہن کے شکوک کا کچھ نہیں کیا جاسکتا...:-P
ہاہاہاہاہااااااا۔۔۔۔۔ سچ کہا۔۔۔۔۔ تشکیک کیا ہے۔۔۔۔ :D
ایسے واقعات نہ صرف ہمارا خاندانی انتخابی نشان ہیں بلکہ خود فدوی بھی ایسے ہی ایک واقعے کا ہیرو (یعنی کہ مرکزی کردار) رہ چکا ہے
یہ تب کی بات ہے جب آتش جوان نہیں بلکہ شیطان تھا ۔ یعنی فدوی 5 ویں کلاس کا طالب علم تھا
بہاولپور سے گھر جانا تھا ، اور بس والوں نے بٹھایا نہیں
بس پھر خون تو پہلے ہی نقطہ کھولاؤ پر رہتا تھا ، اب تو کھلم کھلا للکار دیا گیا تھا۔
1 بجے بہاولپور سے نکلا اور مغرب کے وقت دھنوٹ میں جا پہنچا
34 کلومیٹر کا سفر پیدل ہی کر ڈالا تھا۔
ویسے یہ پڑھتے پڑھتے مجھے اپنی پسندیدہ ترین فلم "فارسٹ گم" یاد آ گئی
(ٹام ہینکس والی)
اچھا کاکا سلیس اردو میں موتمن کیا ہوتا ہے؟؟؟
ہاہاہاہاااااا۔۔۔۔ چلو اب اگلا بزرگ تمہیں ہی بنا دیں گے۔۔۔۔۔۔ :ڈی
مطلب کیا پتا ہو مجھے۔۔۔۔ میں نے تو بس استعمال کیا ہے۔۔۔۔ ہاہاہاہہااااااا