حسب معمول صبح فجر کے وقت آنکھ کھلی۔ اذانوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اٹھ کر کھڑکی سے باہر جھانکنے کی کوشش کی۔ لیکن دھند کے باعث کچھ نظر نہیں آیا۔ نماز کے بعد چائے بنائی اور کپ پکڑ کر گھر سے باہر نکل آیا۔ آج 2013 کا آخری سورج طلوع ہونے والا ہے۔ میں اس سورج پر ایک الوداعی نگاہ ڈالنا چاہتا ہوں۔ کیوں؟ مجھے معلوم نہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے ڈوبتے سورج پر الوداعی نگاہ ڈالنا عادت تھی۔ اس سال اپنی روایت بدلنے کا سوچا۔ طلوع ہوتا سورج دیکھا جائے گا۔
سورج کو اس چیز سے کوئی سروکار نہیں کہ کون سا دن سال اور مہینہ ہے۔ وہ تو اپنی روش پر قائم ہے۔ مگر انسان جس کو ہر چیز کو ناپنے تولنے کی عادت ہے۔ اس نے وقت تولنے کو بھی باٹ ایجاد کر رکھے ہیں۔ یہ سال، گزشتہ سال، آنے والا سال۔ انسان جب بھی وقت کی بات کرتا ہے۔ ناپنے کے لیے اسی ترازو کا استعمال کرتا ہے۔ زمین نے اپنا ایک چکر سورج کے گرد مکمل کر لیا۔ 365 دن گزر گئے۔ اس حساب سے عطارد کا ایک سال 88 دن کا بنتا ہے۔ بقول مقبول عامر
کوئی پڑاو نہیں وقت کے تسلسل میں
یہ ماہ سال کی تقسیم تو خیالی ہے
12 ستمبر کا ڈوبتا سورج محمد زین العابدین کی زندگی کا پیغام لے کر آیا۔ اور مغرب کے بعد عشاء سے پہلے نومولود میری گود میں تھا۔ میرا وارث خاموش تھا اور میری ماں رو رہی تھی۔ اس شام میں نے خوشی کے آنسو دیکھے۔ بہت خوبصورت شام تھی۔ ساری عمر یاد رہنے والی شام۔ دوسری بوجھل صبح 22نومبرکی تھی۔ میں سستی سے بستر میں لیٹا تھا۔ نماز کا وقت گزرتا جا رہا تھا۔ اور مجھے اٹھنا عذاب لگ رہا تھا۔ کہ ابو کا فون آیا۔ بیٹا تمہاری پھپھو کا انتقال ہوگیا ہے۔ ہر وقت دعائیں دینے والی مجسم محبت پھپھو دنیا سے کنارہ کر گئی تھی۔ میرے چاہنے والوں میں ایک کی کمی ہوگئی۔ تیسری خوبصورت شام پھر 28 دسمبر کی تھی۔ جب میرا بھانجا اس دنیا میں آیا۔ میں جن سے محبت کرتا ہوں۔ ان میں ایک کا اضافہ ہوگیا۔ جبکہ باقی محبتیں ہنوز اپنی جگہ برقرار۔ اپنی ماں کی بات یاد آرہی ہے کہ محبتیں رزق کی طرح بڑھتی گھٹتی ہیں۔ شاید ہمیں ان میں کشادگی کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔
یہ سال میرے لیے صرف تین دن کا رہا۔ اس سال کے 362 دنوں کا میرے پاس کوئی حساب نہیں ہے۔ کیسے سورج طلوع ہوئے۔ غروب ہوئے۔ کتنی برساتیں برسیں۔ کچھ یاد نہیں۔ صرف تین دن ایسے ہیں جو میرے سامنے ہیں۔ مجھے یاد ہیں۔ بقیہ سب دن کہرے میں گم ہیں۔ بالکل اس سورج کی طرح جو مشرق سے طلوع تو ہو گیا ہے۔ لیکن کہرے میں گم ہے۔ اس طرح یہ سال کا ہندسہ بھی کہرے میں گم ہونے والا ہے۔ کل کے سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی کہرا اور گہرا ہوجائے گا۔ اور محض تین دن اپنا نشان برقرار رکھ کر مجھے یہ احساس دلائیں گے کہ یہ سال بھی کبھی زندگی میں آیا تھا۔
بہت خوبصورت بات ” محبتیں رزق کی طرح بڑھتی گھٹتی ہیں“۔ ماں اپنی نہائت سادہ سی زبان میں ایسی بات کہہ جاتی ہیں کہ بڑے فلسفی پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ اللہ آپ کی والدہ محترمہ کو سدا صحتمند اور خوش رکھے
آمین
افتخار احمد صاحب۔۔۔۔ آپ کی اس پذیرائی پر تہہ دل سے ممنون ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔۔۔
ہمیشہ کی طرح انوکھی اور یادگار تحریر
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں جب آپ میری عمر کو پہنچو گے تو آپ اپنی زندگی کے تجربات کو کیسا تحریر کرو گے
اللہ آپ کو ایمان اور تندرستی والی زندگی سے نوازے ۔ آمین
سب سے پہلے تو اس قدر منفرد انداز میں تعرنیف کرنے کا شکریہ نجیب بھائی۔۔۔۔ :)
پتا ہے میں نے ایک نظم لکھی۔ جس میں ایک بوڑھا آدمی اپنے جذبات بیان کرتا ہے۔ مگر پھر ناپختہ سمجھ کردوستوں کے ساتھ شئیر نہ کی۔۔۔۔ :)
زبردست لكها
Sarwataj.wordpress.com
آپ کا شکرگزار ہوں جناب :)