Wednesday 20 November 2013

طمانچہ​

4 comments
طمانچہ​
(مرکزی خیال ماخوذ)
یہ ملک کے اک انتہائی پسماندہ علاقے میں شہر سے بہت دور دریا کے ساتھ ساتھ کچھ گاؤں تھے۔ کاروبار زندگی رواں رکھنے کو یہاں لوگ باہمی اتفاق سے کام چلاتے تھے۔ لوہار، نائی اور موچی کو اجرت فصلوں کی کٹائی پر فصل کی صورت دی جاتی تھی۔ کسی بھی باہمی ناچاقی یا لین دین کے تنازعہ پر سردار کا فیصلہ حتمی ہوتا تھا۔ انہی گاؤں کی سرحد کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں خانہ بدوشوں کی جھونپڑیاں تھیں۔ یہ خانہ بدوش ہمیشہ سر جھکا کر رکھتے۔ ہر قسم کی تذلیل کو خاموشی سے برداشت کرتے اور کبھی پلٹ کر جواب نہ دیتے۔ لیکن کل ایک ایسی انہونی ہو گئی تھی۔ جس نے سارے گاؤں کو حیران کر دیا تھا۔ خانہ بدوشوں کے اک لڑکے نے سردار کے بیٹے کو گالیاں دینے پر طمانچہ مار دیا تھا۔

گاؤں کے درمیانی میدان میں پورا گاؤں جمع تھا۔ خانہ بدوشوں کے اک لڑکے نے سردار کے بیٹے کو گالیاں دینے پر پیٹ دیا تھا۔ اتنی جرأت جہاں گاؤں کے لوگوں کے لیے حیران کن تھی۔ وہیں سردار کو اس بات کا بھی ڈر تھا کہ لوگ اس کو مثال بنا کر سرکشی پر نہ اتر آئیں۔ لہذا وہ مجرم کو عبرت ناک سزا دینا چاہتا تھا۔

جرم ثابت تھا۔ خانہ بدوشوں نے بہت معافی مانگی۔ لیکن سردار نے کوڑے لگانے کی سزا سنا دی۔ جب لڑکے کو کوڑے پڑنے لگے۔ تو لڑکے کی ماں برداشت نہ کر سکی۔ اور کھڑی ہو کر ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی۔

سردار! کبھی ہمارے خون کی بھی اتنی جرأت ہوئی ہے کہ ایسی گستاخی کا سوچ بھی سکے۔ آپ میرے بیٹے کو معاف کر دیجیے۔

میدان پر سناٹا چھا گیا۔ لوگ آہستہ آواز میں چہ مگوئیاں کرنے لگے۔ سردار کی پیشانی عرق آلود ہوگئی۔ اور وہ پنچایت سے اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔ سب لوگ گومگو کے عالم میں گھروں کو لوٹ گئے۔ جانے کل کا سورج کس طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

اگلی صبح گاؤں میں تین لاشیں اٹھیں۔ لڑکے اور اس کی ماں کو سردار کے بیٹوں نے قتل کر دیا تھا۔ اور سردار نے اس رات خود کشی کر لی تھی۔

4 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔