Saturday 2 December 2017

موسیا آداب داناں دیگر اند

3 comments
موسیا آداب داناں دیگر اند

زندگی ایک حیرت کدہ ہے ۔جہاں عجائب کی کمی نہیں۔ یہ دیکھنے والے کی آنکھ پر منحصر ہے کہ وہ کیا دیکھتا ہے۔ ایک منظر کسی کے لیے بار بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس جگہ پر وہی منظر کسی دوسرے کے لیے دلچسپی کا سامان ہو سکتا ہے۔ شوگران جاتے وقت ماسوائے برفیلے راستوں اور یخ بستہ ہواؤں کے اور کچھ ذہن میں نہ تھا۔ صبح سویرے آٹھ بجے جب واپسی کا سفر باندھا تو ذہن کے کسی گوشے میں  آنے والے تکلیف دہ حالات و واقعات کا ایک عکس تک نہ تھا۔ ہاں  جب مانسہرہ سے نکل کر ایبٹ آباد داخل ہونے سے پہلے راستے میں موٹر سائیکلوں پر نوجوان دین و ایمان کے جھنڈے اٹھائے ڈنڈے لہراتے نظر آئے تو توجہ اس طرف گئی۔ بےاختیار ساتھ والے سے پوچھا۔
وہ اسلام آباد دھرنا کہاں تک پہنچا؟
کوئی خبر نہیں۔ اس نے جواب دیا۔
مجھے خود اپنے بیوقوفانہ سوال پر حیرت ہوئی۔ نہ موبائل، نہ سگنل، نہ انٹرنیٹ، ظاہر ہے اس کے پاس بھی کیا خبریں ہوں گی۔ بہرحال شہر میں داخل ہوئے تو موبائل فون پر اطلاعات موصول ہونے لگیں۔ آپریشن شروع ہوگیا ہے۔ شیلنگ جاری ہے۔ ایسے میں انسان کا ذہن فطری طور پر سب سے پہلے منزل کی طرف جاتا ہے کہ جتنا جلد ہو سکتے منزل تک پہنچا جا سکے۔ کیوں کہ ایک تو انتشار اور پھر مذہبی انتشار، یہ ایک ایسی صف ہے جس میں محمود و ایاز کی تفریق نہیں۔ حسن ابدال سے موٹروے پر داخل ہوئے تو بظاہر کوئی مسئلہ نظر نہ آیا۔ ساڑھے چار کے قریب جب لاہور کے لیے ایم ٹو پر داخل ہونے لگے تو گاڑیوں کی ایک طویل قطار نظار آئی۔ داخلہ بند تھا۔ معلوم ہوا کہ ایک گروہ نے چکری پر موٹروے بند کر رکھی ہے۔ اور آنے جانے والی گاڑیوں پر پتھراؤ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں مشتعل گروہ کے پاس جانا تو کوئی عقلمندی کی بات نہ تھی۔ انتظار کرتے کرتے نصف رات ہوگئی۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ اب یہیں پر مزید رکا جائے۔ اور کچھ دیر میں موٹر وے کھل جائے گی۔ مشتعل ہجوم تھک ہار کر گھر کی راہ لے گا۔ تو ہم رات کے اندھیرے میں نکل جائیں گے۔ مگر یہ سب خیالات خیال ہی ثابت ہوئے۔
طے یہ پایا کہ حسن ابدال واپس جایا جائے جہاں ہمارے ساتھ کی باقی دو  کوسٹر  انتظار میں ہیں۔ اور ان کے ساتھ ملکر منصوبہ بنایا جائے۔ گو کہ میں اس منصوبے کا ظاہری و باطنی ہر حالت میں مخالف تھا مگر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ ہم وہاں سے نکل کر حسن ابدال آگئے۔ اور باقی افراد کے ساتھ چہلیں کرنے لگے۔ موٹر وے کا نہ کھلنا تھا نہ کھلی۔ رات  کوسٹر کی سیٹ پر کاٹی۔ صبح نکلتے نکلتے یار لوگوں نے پھر نو  بجا دیے۔ سب کچھ دوبارہ بند ہوچکا تھا۔ خبر ملی تھی کہ رات کسی لمحے موٹر وے کھلی رہی ہے۔ مگر اب وہ دوبارہ بند ہو چکی ہے۔ جی ٹی روڈ تو ظاہر ہے یوں بھی ایسے حالات میں مظاہرین کی رہائش گاہ کا  کام کیا کرتی تھی۔ فتح جنگ روڈ سے جانے کا ارادہ کیا۔ مگر وہ بھی بند تھا۔ ایسے میں خبر ملی  کہ ٹرین کا ٹریک کھلا ہے۔ اور وہاں سے جایا جا سکتا ہے۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ پاکستان میں ٹرین عام دنوں میں بھی ایک خطرہ مول لینے والی بات ہی ہے۔ اور پھر ایسے حالات میں۔ لیکن بظاہر کوئی اور صورت بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ سو چاروناچار ٹرین کی راہ تکنے لگے۔ عوام ایکسپریس صرف نام ہی کی نہیں ہر طرح سے عوامی ٹرین ہے۔ حسن ابدال کے چھوٹے سے سٹیشن پر جب ٹرین میں سوار ہونے کا مرحلہ آیا تو یہ ایک دشوار کام ثابت ہوا۔ کسی نہ کسی طرح ہم ٹرین میں سوار ہوگئے۔ اور دروازے کے اندر ہی ہم کو پاؤں ٹکانے کی جگہ بھی مل گئی۔ مگر اگلے سٹیشن سے لاتعداد مسافر اور سوار ہوئے۔ اور یوں ہمارا سانس لینا بھی محال ہوگیا۔ پنڈی تک یہ صورتحال تھی کہ میں صرف ایک پاؤں پر کھڑا تھا۔ اور دوسرا پاؤں دیوار کے ساتھ ہلکا سا ٹکا رکھا تھا۔ گرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
راولپنڈی سٹیشن سے ایک کثیر تعداد اور سوار ہوگئی۔ اور ہم لوگ یوں تھے جیسے مکئی کے دانے کسی جار میں بند کیے ہوں۔ کوئی ایک بھی نکلے تو اس کے پیچھے کئی لڑھک جائیں۔ ٹرین راولپنڈی سے چل تو پڑی اور محاورۃً نہیں حقیقتاً تل دھرنے کی جگہ باقی نہ رہی تھی۔ ہمیں یوسفی کا وہ معروف جملہ بےاختیار یاد آیا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ "اندرون لاہور کی کچھ گلیاں تو اتنی تنگ ہیں کہ ایک طرف سے مرد اور دوسری طرف سے عورت آجائے تو بیچ میں صرف نکاح کی صورت نکلتی ہے۔" یقینی طور پر یوسفی کا واسطہ ایسی صورتحال سے نہ پڑا ہوگا وگرنہ وہ ٹرین سے  اترنے والے ہر ایک کو ست رنگی جھنڈے اٹھانے کا مشورہ ضرور دیتے۔حالات یہ تھے کہ کسی سٹیشن پر ٹرین رکتی تو باہر سے اندر کسی نے خاک آنا تھا، اندر سے باہر جانا بھی معرکے سے کم نہ تھا۔اس معرکے میں وہی فتحیاب ہوتا جو دھکوں کے ساتھ ساتھ "دھرنے کی زبان" بھی استعمال کرنے میں ماہر ہوتا۔ ٹرین جہلم رک گئی۔ اور کافی دیر رکی رہی۔ سواریاں اتر کر دائیں بائیں دیکھنے لگیں۔ہم نے بھی جب اسٹیشن پر پاؤں رکھا تو احساس ہوا کہ دوسری ٹانگ ہنوز اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ شکرانے کا نعرہ مستانہ زبان سے بلند ہوا۔ اسٹیشن کی  انتظامیہ سے معلوم ہوا کہ تاحکم ثانی ٹرین یہیں رکی رہے گی۔ ہم اتر کر سامنے رکھے بینچ پر بیٹھ گئے۔ حالت یہ تھی کہ چائے پینے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ جو احباب ہمیں جانتے ہیں وہ ہمارے اس جملے سے ہماری حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ٹرین ایکا ایکی بغیر کوئی ہارن دیے چل پڑی۔بشمول ہمارے ایک خلقت دروازوں کی طرف لپکی۔  ٹرین پر سوار ہونا تیسری جنگ عظیم سے کم نہ تھا ۔  ٹرین پر سوار ہو کر ہمیں احساس ہوا  کہ اس طرح تو پانی بھی راستہ نہ بنا پایا ہوگا جس طرح ہم دروازے پر موجود دیوار انساں سے راستہ بنا کر نکلے ہیں۔ خود کو داد دی اور ان لمحات کو کوسا جب ہم  نے پیشہ سپہ سالاری پر شمارندی مہندس بننے کو ترجیح دی تھی۔ بلاشبہ دنیا کو ہم نے پیش قدمی کے لیے ایک بہترین حکمت عملی طے کرنے  والے سپہ سالار سے محروم کر دیا تھا۔ ہائے ہائے۔۔۔۔
ٹرین چلی ہی تھی کہ دوبارہ ٹھہر گئی۔ معلوم ہوا کہ لالہ موسیٰ کا اسٹیشن آگیا ہے۔ اسٹیشن پر اعلان جاری تھا کہ لاہور جانے والے مسافر اتر جائیں۔ ٹرین براستہ سرگودھا سیدھا خانیوال جائے گی۔ ٹرین سے اترے   اور سب سے پہلے چائے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ چائے پی کر احساس ہوا کہ کل رات سے بھوکے بھی ہیں۔ سو بھوکوں کی طرح  ایک نان پر ایک کباب رکھ کر نوش فرمایا گیا۔ اس کے بعدباقی احباب سے ملاقات پر معلوم ہوا  کہ اب چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر لاہور تک پہنچا جائے۔ اسٹیشن سے چند احباب کے ساتھ باہر نکلے اور ایک موٹرسائیکل رکشہ (چنگچی) کے ساتھ گجرات پہنچنے تک کے بارے میں بات کی۔ گجرات پہنچ کر جلوس سے گزر کر دوسری طرف پہنچے۔ جہاں سے اگلی منزل تک کے لیے کوئی اور سواری ڈھونڈنی تھی۔ جلسے میں اکثریت نوعمر لڑکوں کی تھی جن کی مسیں ابھی نہیں بھیگی تھیں۔ اور انہوں نے اپنے سے زیادہ بڑے ڈنڈے اٹھا رکھے تھے۔ تقریر کرتے ہوئے مولانا انتہائی  اخلاق سوز زبان میں حکومتی انتظامیہ کی شان بیان کر رہے تھے۔ وقفے وقفے سے "لبیک یا رسول اللہ" کے نعرے بھی جاری تھے۔ جلسے کے بیچوں بیچ کچھ لوگ "سیلفی" بنا رہے تھے۔ یہ منظر بےحد کربناک تھا۔گجرات سے ہمیں ایک ٹویاٹا گجرانوالہ تک لے آیا۔ گجرانوالہ پہنچ کر دوبارہ اک چنگچی  لیا۔ جو براستہ کامونکی اور مرید کے سے ہوتا ہوا ہم احباب کو امامیہ کالونی تک لے آیا۔ مرید کے اور کامونکی کے جلسے بھی ہم نے پیدل اتر کر پار کیے جبکہ رکشے والا کسی طرح سے گھما پھرا کر رکشہ جلوس کے دوسری طرف لے آیا۔
کامونکی کے جلسے میں ایک حضرت خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ "یہ چوہدری نسوار ، یہ پٹھانوں کی نسوار یہ مرنے لگا تھا کل۔ بکتر بند گاڑی والے بچا کر لے گئے اسے۔ کوئی بات نہیں۔ دوبارہ مار دیں گے۔"
مرید کے کے جلسے میں ایک حضرت جوش بیان میں "چند انتہائی اعلیٰ گالیوں" سے نوازنے کے بعد فرمانے لگے۔ ان "کتوں، خنریروں اور ڈیش ڈیش" نے عشاق رسول کو مذاق سمجھ رکھا ہے۔ پورا مجمع بہ آواز بلند چلایا۔ "لبیک یا رسول اللہ"۔ اللہ اکبر۔۔۔۔ مجھے لگا کہ یہ آزمائش مسلمانوں کی نہیں اسلام کی ہے۔ایک دلچسپ بات جس کا مشاہدہ میں نے کیا کہ لالہ موسیٰ سے لاہور تک کسی بھی جلسے اور جلوس کے پاس کوئی ایک پولیس والا بھی نہ تھا۔ یہ ایک بہت ہی عجیب بات تھی کیوں کہ میں نے جلوس کے دائیں بائیں پولیس کو ہمیشہ موجود پایا ہے چاہے ان  کی حثیت ایک تماشائی سے زیادہ نہ ہو۔ 
امامیہ کالونی سے دوبارہ ایک چنگچی پکڑا اور شاہدرہ موڑ تک آگئے۔ پل پیدل کراس کرنے کے بعد دوبارہ رکشہ لیا اور گھر پہنچے۔ یوں تقریباً چالیس گھنٹوں پر محیط یہ سفر اختتام پذیر ہوا۔ 

3 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔