Tuesday 25 July 2017

باکمال بزرگ - قسط ہفتم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

0 comments
گزشتہ سے پیوستہ:

شدید حبس کے موسم میں جب سانس لینا بھی دشوار ہوا تھا اور جسم سے پسینہ یوں خارج ہوتا تھا جیسے حکومت کے پانی کی ترسیل کے پائپ ہوں۔ جن میں چھوٹے چھوٹے جابجا سوراخوں کے سبب اتنا پانی پائپ کے اندر نہیں ہوتا جتنا باہر کی سطح پر ہوتا ہے اور اسی سبب  رسنے کی جگہ کا اندازہ لگانا بھی ناممکن رہتا ہے۔ ہمارا جسم بھی جب "لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشمہ" کی صورت اختیار کر گیا تو دوستوں کے ساتھ طے پایا کہ چل کر ٹیوب ویل پر نیم تلے پانی میں بیٹھا جائے۔ ایک دوست نے حقہ اٹھا لیا اور دوسرے نے آموں کا تھیلا۔

آموں کا تھیلا ٹیوب ویل کے سامنے بنی حودی میں پھینک دیا گیا تاکہ آم ٹھنڈے پانی سے نہا کر ٹھنڈے ہو رہیں۔ قمیصیں اتار کر نیم کی ٹہنیوں کے ساتھ ٹانک دی گئیں اور شلواریں کو گھٹنوں تک چڑھا کر جانگیے  بنا لیا گیا۔ پانی میں نہاتے اچھلتے کودتے، آم کھاتے ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ کب دونوں بزرگ اپنا حقہ اٹھائے ٹیوب ویل کے پاس ہی  پڑی چارپائی پر آبیٹھے۔ جب ہماری توجہ ان کی طرف گئی تو ہم نے حوض سے ہی ان کو بھی آم کھانے کی دعوت دی۔ انہوں نے شفقت اور پیار سے انکار کیا۔ اور آپس میں باتیں کرنے لگے۔ 

کچھ دیر بعد ہمیں ان بزرگوں کا قہقہہ سنائی دیا۔ ہم سب نے پلٹ کر دیکھا تو وہ دونوں بےاختیار ہنس رہے تھے۔ ہم سب نے بزرگوں کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ اور ہنسنے کی وجہ پوچھنے لگے۔ بزرگ فرمانے لگے۔ تم لوگوں کو نہاتا اور اٹکھیلیاں کرتا  دیکھ کر ہمیں اپنا ایک واقعہ یاد آگیا تھا۔ سو اس کو یاد کر کے ہنس رہے تھے۔ ہم نے عرض کی کہ یوں بھی مدت بیتی آپ نے کوئی پرانا واقعہ نہیں سنایا لہذا ہم کو بھی یہ واقعہ سنایا جائے۔ اس پر بزرگ نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور یوں گویا ہوئے۔

جس طرح آج تم لڑکے بالے یہاں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہو،اسی طرح یہ واقعہ بھی تب کا ہے جب ہم تمہاری عمر میں تھے۔ ہم چاروں،  میں، یہ (سامنے والے بزرگ کی طرف اشارہ کرکے)، زنگی اور فیضو(جسے ہم ڈھور کہا کرتے تھے) نہر سے نکلنے والے ایک چھوٹے کھال میں پاؤں ڈبوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ڈھور اپنے ابے کا حقہ چوری چھپے اٹھا لایا تھا  جب کہ زنگی کہیں سے کچھ مدک  چرا لایا تھا۔ مدک کو چلم پر دہکا کر حقے کے جو کش لگے تو   ملنگی ماحول بن گیا۔ جگہ ایسی چنی گئی جہاں سے ہم کسی کو نظر نہ آئیں لیکن کوئی بھی کھیتوں کا رخ کرے تو ہم باآسانی اسے دیکھ سکیں۔ طریقہ یہ طے پایا کہ ہر کوئی اپنے سامنے والی سمت کا خیال رکھے گا، تاکہ چاروں اطراف پر نظر رکھی جا سکے اور رنگے ہاتھوں پکڑے نہ جائیں۔ زمین و آسمان کی سمت کو ہم نے کاندھوں پر بیٹھے فرشتوں کے حوالے کر دیا کیوں کہ یہاں سے جو بھی آتا اس کو صرف وہی دیکھ پاتے۔ ہماری اتنی تاب کہاں تھی۔ چھوٹے چھوٹے قصوں سے شروع ہوئی یہ بیٹھک باقاعدہ بڑھک بازی تک جا پہنچی اور اب ہم چاروں مدک باز ایک جھوٹے قصوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

انہی بڑھک بازیوں میں سب کی توجہ اطراف سے بالکل ہٹ گئی اور ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ کب ڈھور کا باپ ہمارے سروں پر آن پہنچا۔ زمین تو پھٹی نہیں تھی ورنہ ہم لازمی باخبر ہوتے۔ شاید آسمان سے نازل ہوا  لیکن ان فرشتوں کا کیا کریں کہ یہ آج تک نہیں بتاتے وہ کہاں سے آیا تھا۔ بہرحال قصہ مختصر ہمیں ہوش تب آیا جب ڈھور کو چند گالیوں کے ساتھ اوپر تلے پانچ چھے اعلیٰ قسم کے تھپڑ پڑے۔ اُس دن ڈھور کو پتا نہیں کیا ہوا، وہ پہلے بھی ہمارے سامنے کئی بار پٹا تھا لیکن شاید آج اس کی انا آڑے آگئی اور وہ اپنے باپ سے الجھ پڑا اور کہتا اب میں یہاں نہیں رہوں گا، میں شہر چلا جاؤں گا۔ یہ دھمکی ڈھور پہلے بھی کئی بار اپنے باپ کو دے چکا تھا، مگر اس دن وہ  لاری  اڈےکی طرف چل پڑا۔ اس کا ابا اس کے پیچھے اور ہم اس کے ابے کے پیچھے پیچھے ہولئے۔ ہمیں یہ ڈر تھا کہ ڈھور  کا ابا کہیں لاٹھی سے اس کی ٹھکائی نہ شروع کر دے۔ جب اڈے پر پہنچے تو وہاں شہر جانے کے لئےلاری  تیار تھی۔ ڈھور ایک طرف ہو کر کھڑا ہوگیا۔ جب اس نے دیکھا کہ باپ پیچھے پیچھے آرہا ہے،  تو بس کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگیا مگر بس میں سوار نہ ہوا۔ ڈھور کا ابا اس کے پیچھے پہنچا تو وہ جیبیں ٹٹولنے کی اداکاری کرنے لگا۔ ہم بھی پاس پہنچ چکے تھے۔ ڈھور کی نظر جب ہم پر پڑی تو اور بھی مچل اٹھا اور  اپنے باپ سے یوں مخاطب ہوا۔
ڈھور: میں گھر کائی نہ ویساں (میں اب گھر نہیں جاؤں گا۔ )
اس کا باپ بہت پرسکون انداز میں: کتھاں ویسیں؟ (کہاں جاؤں گے؟)
ڈھورابرو اچکاتے ہوئے: شہر ویساں۔ (میں شہر جاؤں گا۔)
ڈھور کا باپ اسی پرسکون انداز میں: پیسے ہن ؟ (پیسے ہیں تمہارے پاس)
ڈھور سر نیچے جھکا کر: نہ سئیں، پیسے کائی نئیں (نہیں سائیں! پیسے نہیں ہیں۔ )
اس کے باپ نے  جیب میں ہاتھ ڈال کر مڑے تڑے کچھ نوٹ نکالے اور اس کو تھما کر کہنے لگا۔ ایہو گھن پیسے، تے ترے  مہینے گھر کائی نئیں آونا ورنہ لتاں بھن ڈے ساں۔ (یہ لو پیسے، اور تین مہینے گھر نہیں آنا، ورنہ ٹانگیں توڑ دوں گا۔)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔