ان صاحب کا تعارف لکھنے بیٹھوں تو صبح سے شام ہو جائے۔ بزرگ صورت جوان سیرت بہت دلچسپ آدمی ہیں۔ فرماتے مجھے دہرا فائدہ ہوتا ہے۔ بزرگوں کے سامنے چھوٹا اور جوانوں کے سامنے تجربہ کار کی حیثیت ہے۔ ہم نے جب عرض کیا کہ جملے میں جوانوں کے مقابلے بزرگ کا لفظ آنا چاہیے تو گرم ہوگئے۔غصے سے کہنے لگے ابھی تو میں کڑیل جوان ہوں۔ ہمارے لئے یہ لفظ نیا تھا۔ ہم نے اس سے پہلے اڑیل اور مریل جیسے الفاظ ہی سن رکھے تھے۔ شکریہ ادا کیا کہ اگر کبھی شاعر بنے اور ان قوافی کے ساتھ شعر کہنے کا ارادہ ہوا تو تین اشعار میں تو قوافی درست ہی رہیں گے۔ اس پر کہنے لگے غزل میں کم از کم بھی پانچ اشعار ہوتے ہیں اور دو اور ہم قافیہ الفاظ بتائے۔ ہم نے کہا سرکار! ادب کے نام پر کیا کیا پڑھ رکھا ہے؟ تو ہنسنے لگے۔ کہتے چھوڑو سب جوانی کی باتیں ہیں۔ ہم نے عرض کی یعنی ابھی ابھی کی باتیں ہیں۔ تو ناراض ہوگئے۔ اور کہنے لگے بزرگوں کی باتوں پر گرفت کرتے ہو۔ ہم نے کہاحضور اتنی جلدی تو گرگٹ رنگ نہیں بدلتا جتنی تیزی سے آپ جوان سے بزرگ اور بزرگ سے جوان ہوئے جاتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک معروف گانے کے بول آپ کو دیکھ کر لکھے گئے ہیں۔ تو کہنے لگے میاں! شرم کرو۔ ہم نے کبھی مجرا نہیں دیکھا۔ آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہماری یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ اگر دیکھا نہیں تو معلوم کیسے ہوا مجرے پر فلمایا گیا ہے۔
خیر یہ باتیں تو چلتی ہی رہیں گی لیکن موصوف کی زیادہ تر دلچسپی مچھلیوں میں دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ آج کے دور میں مچھلی اور اس کے شکار میں دلچسپی۔ بھئی جہاں لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کان کھجانے کو فرصت نہیں۔ اس کے لئے بھی الارم لگا رکھا ہے کہ کب کب کان کھجانا ہے۔ اس دور مصروف میں مچھلی کو تاڑنا ، پرکھنا اور پھر شکار کھیلنا کافی وقت لینے والا کھیل ہے۔ ہم نے جب اس بابت استفسار کیا تو ہنس کر کہنے لگے۔ میاں یہ شکاری اور شکار کا رشتہ بڑا دلچسپ ہوتا ہے ۔ تم اس کو نہیں سمجھ سکتے جب تک شکار کرنا نہ جان لو۔ ہم نے کہا کہ دانہ ڈال کر چڑیاں تو ہم بھی پکڑتے رہے ہیں تو ہنس پڑے۔ کہتے میاں چڑیا کی عمر اور گوشت دونوں بہت کم ہوتے ہیں۔ ہم نے وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ ہم دو پروں والی چڑیا یہ جو اڑتی پھرتی ہے اس کی بات کر رہے ہیں۔ اس پر بھی مسکراہٹ میں کمی نہ ہوئی تو ہم نے مزید وضاحت کرنے سے گریز کیا۔ کہ اتنی وضاحتیں دینے سے ہمیں خطاوار ہی نہ سمجھ لیا جائے۔
سنا ہے جوانی میں آپ بہت شکاری طبع آدمی تھے۔ ہم نے معلومات کی غرض سے پوچھا۔
نہیں بچہ! جوانی نہیں۔ بچپن سے۔ پتا ہے آٹھ سال کی عمر میں پہلا شکار کیا تھا۔
ہم حیران رہ گئے۔ آٹھ سال کی عمر میں؟ واقعی! ہم نے انگوٹھا بدنداں ہوتے ہوئے کہا۔
ہاں! اور پرلطف بات یہ کہ پہلا شکار ہی کامیاب رہا ورنہ میں بھی شاعر ہوتا۔مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔
لیکن شادی تو آپ نے بہت بعد میں کی تھی۔ ہمارا انداز استفہامیہ سا تھا۔
اس پر چونک اٹھے۔ کن خطوط پر سوچ رہے ہوں میاں! میں مچھلی کے شکار کی بات کر رہا ہوں۔
اوہ اچھا! ہم بھی اس انکشاف پر جوابی چونکے۔
موضوع پر واپس آتے ہوئے فرمانے لگے کہ مچھلی کو تاڑنا اور پرکھنا اضافی چیزیں ہیں۔ یہ شکاری کے بس میں نہیں ہوتیں۔ وہ عادت سے مجبور ہوتا ہے۔ اور اگر زیادہ دیر ہو جائے تو مچھلی کے نام پر کیکڑا پھنسنے پر بھی شکر بجا لاتا ہے۔ راقم نے عرض کی کہ اگر بس میں نہیں تو پھر شکار کیسے؟ کہنے لگے ارے بدھو! دیکھو! ایک ہوتی ہے کنڈی اور اس کے آگے لگانے کو بطور چارا کوئی کیچوا ہونا چاہیے۔ ہم نے عرض کی چارا تو ساگ ہونا چاہیے یا پھر پالک۔ کہنے لگے میاں! مچھلی پکڑنے اور پٹانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس کو ہم نے بیان سے زیادہ اعتراف سمجھا۔عرض کی کہ اگر کوئی مچھلی نہ پکڑ میں آئے۔ تو کہنے لگے پکڑ میں آئے نہ آئے، جس کے پاس کنڈی ہو وہ لگاتا ضرور ہے۔ میں تمہیں شکار اور مچھلیوں کے متعلق تھوڑی سی معلومات دیتا ہوں۔ پھر شکار پر چلیں گے۔ ہمارے اثبات میں سر ہلانے پر مچھلیات کی پٹاری کھولی گئی۔
اکثر مچھلیاں گوشت خور ہوتی ہیں۔ اسی مسلم فطرت کو سامنے رکھ کر ان کو حلال نہیں کرنا پڑتا۔ یعنی وہ حلال ہی ہوتی ہیں۔ کیا تمام مچھلیاں ہلال ہوتی ہیں۔ ہم نے ابرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔ تمام کا شکار تم نہیں کر سکتے۔ مچھلیوں کی بےتحاشہ اقسام ہیں۔سو جن کا شکار تم کر سکو۔ سمجھو وہی حلال ہوتی ہیں، لیکن ہم ان چند کا ہی تذکرہ کریں گے جو یہاں پکڑی جا سکتی ہیں۔ ڈولا مچھلی بغیر ڈولوں کے ہوتی ہیں۔ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا گیا۔
تو پھر اس کو ڈولا کیوں کہتے ہیں۔ ہم نے حیرت سے استفسار کیا۔
یار تم خود کو موسیٰ اور مجھے خضر مت سمجھو۔ اور بار بار سوال مت پوچھو، خاموشی سے پوری بات سنو۔
اس کو ڈولا اس لیے نہیں کہتے کہ اس کے بڑے بڑے ڈولے ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ڈولتی رہتی ہے۔ اگر تمہاری مچھلیوں سے سلام دعا نہیں ہے تو اس مچھلی سے بچا کرو۔ اگر یہ مچھلی کنڈی میں پھنس جائے تو بہتر ہے ڈوری توڑ کر کنڈی کا نقصان کر لیا کرو۔ لیکن اس مچھلی سے جتنا ممکن ہو دور رہو۔ اس کا شکار کبھی نہ کرو۔ اس میں گوشت زیادہ اور ٹھوس ہوتا ہے۔اور زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے ہی مفید رہتا ہے۔ ہم بغیر کچھ سمجھے اپنا سر دائیں بائیں پنڈولم کی طرح ہلاتے رہے۔
جبکہ اس کے مقابلے میں پری مچھلی اس بامسمیٰ ہوتی ہے لیکن اس مچھلی میں گوشت نہیں ہوتا۔ بس ذرا پھرتی اور چلبلی سی ہوتی ہے۔ بس کانٹے ہی کانٹے۔ یوں سمجھو کہ اگر ڈولا مچھلی تھیٹر کی ہیروئن ہے تو پری انڈین کرینہ۔ کترینہ کر لیں۔ ہم نے مچل کر کہا۔ اچھا چلو کترینہ ہی سہی۔ کیا یاد کرو گے۔ حاتم طائی کی قبر پر دعائے خیر کرتے ہوئے فرمانے لگے۔
کبھی شادی میں اگر تم پہلے میٹھا زردہ پلیٹ میں ڈال لاؤ۔ تو ساتھ والا تمہیں ویسے ہی بار بار پوچھتا رہے گا۔ زردہ اچھا بنا ہوا ہے۔ گلفام مچھلی بھی بالکل زردے کی پلیٹ کی طرح توجہ کھینچتی ہے۔ پیلا سا رنگ ہوتا ہے۔ کچھ بدذوق اس کو یرقان زدہ بھی کہہ دیتے ہیں۔ چال ڈھال پنجابی ہیروئن والی سمجھو۔ تازہ پلی ہوئی۔ لیکن جب منہ مارو۔ میرا مطلب ہے پکا کر کھاؤ تو مزا نہیں آتا۔ بس ایویں عادت پوری کرنے والی بات ہے۔
ذرا سانس لینے کو رکے اور پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بولے۔ کالکی صرف نام کی کالکی نہیں ہوتی۔ پکی حبشن ہے۔ کالے رنگ پر تو بڑے گانے ہیں ہم نے کہا۔ تو فرمانے لگے او بئی تم نے پنجابی کی مثل سنی ہے۔ "منہ نہ متھا، جن پہاڑوں لتھا"۔ بالکل اس پر صادق آتی ہے۔ بدصورت ایسی کہ بڑے تو بڑے بچے بھی ڈر جائیں۔ اور ایسا نہیں کہ صرف ظاہر کالا ہے۔ باطن بھی سیاہ۔ کاٹو تو گوشت ایسا سیاہ نکلتا ہے کہ الاماں ولحفیظ۔ اور زہریلی ایسی ظالم کہ اول تو کوئی کھاتا نہیں۔ اگر بیچارہ بھوک کا مارا تھوڑا بہت کھا بھی لے تو کئی کئی دن بخار ہی نہیں اترتا۔یا حیرت! جیسا نقشہ آپ نے کھینچا ہے اس کے بعد اس کو کوئی کھاتا بھی ہوگا۔ ہم نے حیرانی سے سوال کیا۔ چھوڑو یار! دنیا میں کیا نہیں ہوتا، بھوک بڑی ظالم چیز ہے۔ ہم نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے اپنا کدو جیسا سر ہلا دیا۔
کھگّا اپنے پہلوانوں کی طرح ہوتی ہے۔ بات بے بات دوسری مچھلیوں سے لڑائی کرنے پر تیار۔ کچھ بھی مل جائے کھا لیتی ہے۔ لیکن ہوتی بہت سست ہے۔ سوائے لڑائی کے اور کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ اس کی شوخی و طراوت دیکھنی ہو تو کسی دوسری مچھلی سے لڑا کر دیکھو۔گوشت بہت ہی عجیب سا ذائقہ رکھتا ہے۔ اور اگر کھا لو تو سمجھو میٹھی لسی پی لی۔ بس سوئے رہو۔ اس کا گوشت کھا کر طبع پر جو سستی چھاتی ہے اس کا اثر مہینوں نہیں جاتا۔ لڑائی بھڑائی پر تیار رہنے کے باوجود یہ کنڈی لگ جانے پربلا چون و چرا کیے کھنچی چلی آتی ہے جیسے آدمی غلطی نہ ہونے کے باوجود عورت سے تھپڑ کھا کر سر جھکا کر پتلی گلی سے نکل جاتا ہے۔ اس لیئے اگر یہ کنڈی کے دائیں بائیں نظر آئے تو کنڈی وہاں سے اٹھا کر کہیں اور لگا لینی چاہیے۔
اس قدر عارفانہ معلومات ملنے پر مچھلیوں میں ہماری دلچسپی بھی بڑھ چلی تھی۔ ہم تو ایکوریم والی نمائشی مچھلیوں سے ہی واقف تھے جو کسی خاص یا عام کام نہیں آتی تھیں۔لہذا ہم نے فوراً مچھلی پیڈیا کے ساتھ شکار کا پروگرام بنا لیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے حصے میں کوئی پری یا گلفام آتی ہے یا ہم بھی کھگّا یا کالکی پکڑ کر واپسی کی راہ سدھارتے ہیں۔
اہم نوٹ: یہ کوئی خاکہ نہیں ہے۔
دوسرا اہم نوٹ: یہ تحریر 18 سال سے کم عمر لوگوں کے لیئے ہے۔ بڑی عمر کے لوگ اگر اس کو پڑھیں تو اپنی طرف سے معانی اخذ کرنے سے گریز کریں۔
تیسرا اہم نوٹ: بقیہ اگلے سال (اگلا سال آنے پر یہی سطر دوبارہ پڑھیں)
لڑکے نیرنگیاں جوبن پر ہیں
:)
شکریہ منصور بھائی۔۔۔۔ :)