Thursday 9 May 2013

الف نون اور الیکشن

2 comments
نون سیٹی بجاتا جیسے ہی گلی کا موڑ مڑا اسے الف اک سائیڈ پر کسی سند سافتہ نشئی کی طرح گلی میں تقریبا لیٹا دکھائی دیا۔ اس نے اپنی بے ڈھنگی اور بے تحاشہ لمبی ٹانگیں یوں پھیلا رکھی تھیں کہ راستہ آدھا بند ہوچکا تھا۔ اور اسکا سر اس کے شانوں پر ڈھلکا ہوا تھا۔ پہلی نظر میں تو نون کو گماں گزرا کہ شاید گماں کے گزرنے کے ساتھ ساتھ الف بھی گزر گیا۔ سیٹی رک گئی۔ ابرو اوپر چڑھائے۔۔ غور سے دیکھا۔۔ اور پھر اپنے منحوس خیال کو صحیح ثابت کرنے کو وہ بھاگا بھاگا الف کے پاس پہنچا۔ تین چار آوازیں دیں۔ پرالف کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ حالانکہ جوؤں کے معاملے میں وہ ہمیشہ سے خود کفیل تھا۔ پاؤں سے ٹھوکر لگانے پر بھی کچھ اثر نہ ہوا۔ اب نون نے اس کی اوپر والی جیب سے دس روپے نکالنے کی کوشش کی۔ جس پر الف فورا بولا۔۔۔
روپے مت نکال نون۔۔ مرا نہیں اداکاری کر رہا ہوں۔۔۔ ۔۔
نون اپنی چال ناکام جانے پر تلملا کر بولا۔۔۔ تو روپے کون نکال رہا تھا۔۔۔ اتنے سے تو اب پاپڑ بھی نہیں آتا۔۔۔ تیری تو قبر سے بھی کوئی کچھ نہیں چرا سکتا۔۔۔
الف اس پر مخصوص انداز میں اپنی ہنسی ہنسنے لگا۔۔۔ جسے نون نے دنیا کی بدترین ہنسی کا خطاب دے رکھا تھا۔۔۔
دونوں اٹھ کر گلی کے سرے کی طرف چل پڑے۔۔۔
راستے میں الف بولا۔۔ اداکاری دیکھی تو نے میری۔۔۔ کیسی کمال ہے۔۔
ہیں!!! کونسی اداکاری۔۔۔ نون حیران ہو کر بولا۔۔۔
اوئے مریں۔۔۔ یہ جو ابھی میں گلی میں لیٹا کر رہا تھا۔۔۔ الف غصے سے بولا
اس کو اداکاری نہیں ڈرامہ بازی کہتے ہیں۔۔۔ نون نے بلا توقف جواب دیا۔
یار تو نے دل توڑ دیا۔۔۔ الف بولا۔ تجھے معلوم ہے کہ میرے اندر اک سیاستدان کی تمام خوبیاں موجود ہے۔۔۔ میں اک ایسا لیڈر ہوں جس کی دنیا کو قدر نہیں ہے۔
اور تیرے گھر والوں کو بھی نہیں ہے۔۔۔ نون نے مطمئن انداز اضافہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ۔
الف کینہ توز نظروں سے نون کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ جس کے تیرے جیسے یار ہوں اس کو مرنے کے لیے بہانے کی کیا ضرورت ہے۔۔
تو پھر کیا ارادہ ہے تیرا۔۔ نون نے بھی کمینی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔۔۔
نہیں مروں گا۔۔۔ تیرے سر پر سوار رہوں گا۔۔۔ الف نے بھی جوابی کمینی مسکراہٹ سے حملہ کیا۔۔۔
جانتا تھا۔۔۔ میرے اتنے نصیب کہاں۔۔۔ نون نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا
اچھا میرے پاس اک بہترین خیال ہے۔۔ الف بولا
ہمیشہ کی طرح جو بعد میں بدترین ثابت ہوگا۔۔۔ نون نے متاثر ہوئے بغیر جواب دیا
یار اک تو تو شک بہت کرتا ہے۔۔۔ دیکھ پہلے جو گزر گیا گزر گیا۔۔۔ ۔ اسے بھول جا۔۔۔ ۔
کیسے بھول جاؤں۔۔ یارِ ماضی عذاب ہے یارب۔۔۔
یہ یار نہیں یاد ہے۔۔۔ الف نے تصحیح کرنے کی کوشش کی۔۔۔
تو یاد کی بات کون کر رہا۔۔ میں تو تیری بات کر رہا ہوں۔۔۔ نون نے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔
دیکھ یار۔۔۔ میری بات غور سے سن۔۔۔ ہم دونوں ہی اک دوسرے سے مخلص ہیں۔۔۔ سمجھ بات کو۔۔۔ الف نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔۔۔
تو اب تیرے خلوص کی خاطر ساری عمر جوتیاں کھاتا رہوں۔۔ نون چڑچڑے پن سے بولا۔۔۔
نہیں یار تو پہلے خیال تو سن لے۔ الف بولا۔۔ ناپسند آئے تو رد کردینا۔۔۔
اچھا سنا۔۔۔ نون نے الف کی گزری اور آنے والی تمام پشتوں پر احسان کرتے ہوئے۔۔ مابدولت ہمہ تن گوش ہیں۔۔
تجھے پتا ہے اک دو دن میں الیکشن ہونے والے ہیں۔۔ اور انتخابی مہمات اس وقت عروج پر ہیں۔۔
ہم م م م م م م م
اتنی لمبی ہمم کی ضرورت نہ تھی۔۔ الف چڑ کر بولا۔۔۔
کیا تو الیکشن سے پہلے اپنا خیال بیان کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔۔۔ نون اس کے چڑنے کو نظرانداز کر کے بولا۔۔۔
دیکھ وقت پر خیال نہیں آیا۔۔ ورنہ میں انتخابات کے لیے آزاد امیدوار اپنے کاغذات جمع کرا دیتا۔۔۔
اس بات پر نون چلتے چلتے رک گیا۔۔۔ سر سے پاؤں تک الف کو دیکھا۔۔۔ اور حیرت سے بھنویں اچکائیں۔۔
اس پر الف تلملا گیا۔ اور کہنے لگا۔۔ دیکھ یار۔۔ تجھے میری ذہنی حالت پر شک کرنے کا کوئی حق نہیں۔۔۔
میں شک کر بھی نہیں رہا۔۔ ۔
خیر۔۔ وقت گزر گیا۔۔ اب آگے؟ نون نے پوچھا۔۔۔
میرے پاس اک بہت زبردست خیال ہے۔۔ الف نے دوبارہ سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے۔۔
یہ بات ہم پچھلے دوگھنٹے سے کر رہے۔۔۔ نون تلملا اٹھا۔۔۔
تو اپنی زبان خاموش رکھے تو میں بات کروں۔۔ الف بھی جوابی تلملاہٹ کے ساتھ بولا
نون نے یوں ہونٹ بھینچ لیے جیسے اب قیامت تک نہ بولے گا۔۔۔
دیکھ یہ جتنے بھی سیاست دان ہیں۔ ان کو نعرے مارنے ، کارنر میٹنگز میں آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔
جواب میں نون نے صرف سر ہلایا۔۔۔
اگر ہم ایسے ہی کسی سیاستدان کے لیے اپنی خدمات مہیا کریں تو یقینا اچھی خاصی آمدن کا ذریعہ بن سکتا ہے۔۔۔
نون نے حیرانگی سے الف کو دیکھا
ایسے کیا دیکھ رہا ہے۔۔ الف نے کہا
میں سوچ رہا ہوں اتنی عقل کی بات اتنی کڑکی کے دور میں تیرے دماغ میں آئی کیسے۔۔۔
یار تو نے کبھی قدر نہیں کی ورنہ میرے زرخیز دماغ میں تو ایسے ایسے خیالات ہیں۔۔۔ کہ بس۔۔
اچھا بس بس۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن کس کے پاس جائیں۔۔۔ سوال یہ ہے۔۔۔ ۔ نون نے استعجابی انداز میں پوچھا
لو یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔۔۔ الف ہنس کر بولا
اپنا علاقے میں جو اس پارٹی کا نمائندہ ہے۔ اس سے بات کرتے ہیں۔۔۔ پڑھے لکھے لوگوں کی تو ان دنوں اشد ضرورت ہے۔۔۔
پڑھے لکھے!!! یاحیرت۔۔۔ نون کو دھچکا لگا۔۔۔ ۔ تیری طبیعت تو ٹھیک ہے یار۔۔۔ آج تو تو بالکل ہی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے۔۔۔
دیکھ یار اس کاروبار میں بڑا منافع ہے۔ تو حصہ دار بن رہا ہے یا میں اکیلا جاؤں۔ الف نے گویا دھمکی دی۔۔۔
اچھا رک ناں۔۔۔ ہر بات پر لڑنا نہ شروع ہوجایا کر۔۔۔ چل چلتے ہیں اکھٹے۔۔۔
دونوں اک پارٹی کے مرکزی دفتر جاپہنچے۔۔۔ جو گزشتہ عرصہ میں صاحب اقتدار تھی۔ کیوں کہ دونوں کا خیال تھا کہ ان لوگوں نے کافی حرام جمع کیا ہوگا۔ جو وہ بےدریغ لٹائیں گے۔
گیٹ پر موجود چوکیدار نے دونوں کو روک لیا۔۔۔ کدھر جا رہے ہوں منہ اٹھا کر۔۔۔ ۔
دیکھو بھئی ان ٹیلنٹ زدہ نوجوانوں کو تم نہیں روک سکتے۔۔۔ نون نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا
اتنی دیر میں الف شان بےنیازی سے اندر داخل ہوچکا تھا۔ نون نے بھی چھلانگ لگائی اور اندر داخل ہوگیا۔
دونوں منتظم کے کمرے میں جا پہنچے۔
منتظم ان کی آمد کا سبب سن کر خوشی سے پھولا نہ سمایا کیوں کہ ان کے پاس کوئی بھی ایسا آدمی نہ تھا۔ جو اس سیاسی جماعت کے نام پر کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہوتا۔
اس منتظم نے کہا کہ اگر تم ہمارے لیے نعرے لگاؤ۔ اور اپنے محلے میں پارٹی کے لیے سیاسی تحریک چلاؤ تو ہم تم کو ہزار روپیہ یومیہ دیں گے۔ دو دن میں تم دو دو ہزار کما لوگے۔ یہ سن کر دونوں خوشی سے پھولے نہ سمائے۔
امیدوار کا نام بوٹا تھا۔ اور اسکا ٹیوب ویل لگانے کا کاروبار تھا سیاست سے پہلے۔۔۔ الف نے فورا نعرہ بتایا کہ دیکھیں جی
زیادہ پانی کا ایک ہی حل
بوٹا ٹیوب ویل بوٹا ٹیوب ویل
اس پر وہ منتظم بولا ہمیں دکان کی مشہوری نہیں کرانی۔۔ سیاسی نعرے بناؤ نوجوانو۔۔۔ ۔ اب جاؤ اور کل تمہیں وہاں پر ٹینٹ لگا کر ضروری بیج اور جھنڈے دے دیں گے۔ تاکہ سیاسی تحریک زور پکڑے۔
اس پر نون نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ کہ اگر آپ آدھی اجرت پہلے دے دیں۔ کیوں کہ ہماری مہم چلانے کے بعد جیت پکی ہے۔ اور پھر آپ نے پہچاننا بھی نہیں۔
اس پر وہ منتظم مسکرا کر بولا۔۔۔ بڑے ہشیار ہوتے جار ہے ہیں آج کے نوجوان۔۔۔
اور دونوں کواک اک دن کی اجرات ادا کردی۔۔
دونوں خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ جا کر سیدھا فضلو کے کھوکھے پر چائے کا حکم جاری کیا۔ اس نے کہا کہ پہلے پرانا حساب چکتا کرو۔۔۔
اس پر دونوں نے بے ساختہ قہقہہ لگایا۔۔ اورکہا۔۔۔ جا چائے سے پہلے پرانا حساب لا۔۔۔ ۔
فضلو حیران رہ گیا۔۔ وہ کاپی اٹھا کر لایا۔۔۔ کیوں کہ دونوں اک اک چائے کا کپ گنا کرتے تھے۔۔ پر آج تو تیور ہی دونوں کے اور تھے۔۔۔ لاپرواہی سے اسکو روپے تھمائے اور کہا جا دو دودھ پتی لے کر آ۔۔۔ خبردار جو پانی کا اک قطرہ بھی ڈالا۔۔۔
چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دونوں پر امارت کا نشہ چھایا ہوا تھا۔۔۔ اک اک چائے اور پی گئی۔
اسکے بعد دونوں ریل کی پٹریوں کے پاس آکر اپنے مخصوص ٹھکانے پر آکر بیٹھ گئے۔ اور کل کے دن کے لیے پروگرام ترتیب دینے لگے۔

اگلی مژدہ صبح نشاط کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی لائی۔ دونوں تیار ہو کر گامے دہی والے کی دکان کے سامنے پہنچ گئے ۔ الف نے اپنا مخصوص مچھر مارکہ پرفیوم لگا رکھا تھا۔ شلوار قمیص کے ساتھ اک عدد واسکٹ بھی پہن رکھی تھی۔ جس پر نون کو شبہ تھا کہ اس کے داد نے کسی مرے انگریز سے اتروائی تھی۔ اور ادھر نون نے بھی اک اعلی نسل کا لنڈے کا ٹراؤزر جس کے بارے میں اسکا دعویٰ تھا کہ گورا صرف اک بار پہن کر ہی مر گیا تھا۔ اور یہ بکنے کے لیے برطانیہ سے سیدھا ادھر پاکستان آپہنچا۔۔ جبکہ الف کے تعصبانہ خیالات کچھ اور تھے۔ اور اس کے ساتھ اک ٹی شرٹ جو کئی جگہ سے پھٹ چکی تھی اور مختلف رنگوں میں سلوا کر فیشن کے نام پر پہن رکھی تھی۔ ساتھ میں اپنا پسندیدہ اگر بتی کی خوشبو والا سپرے کر رکھا تھا۔ دولت کی فراوانی کے سبب دونوں نے لسی کے وڈے گلاس آرڈر کیے۔ اور اک دوسرے پر فاتحانہ نظر ڈالتے بینچ پر براجمان ہوگئے۔
ان تمام تکلفات کے بعد دونوں مرکزی دفتر پہنچے۔ وہاں سے منتظم نے جھنڈے، بیجز اور منشور کے پرچہ جات ان کے حوالے کیے۔ ان کے لیے ٹینٹ لگوا دیے۔ اور کہا کہ شام کو بوٹا صاحب خود تمہارے اس ٹینٹ میں آئیں گے۔ تم اتنی دیر لوگوں کو جمع کرو۔ اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس پارٹی کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرو۔
دونوں بڑی خوشی خوشی اپنے محلے میں لگے پارٹی کے شامیانے میں آکر بیٹھ گئے۔ اور سارا نظم و نسق سنبھال لیا۔
ایسے میں الف بولا۔۔۔ یار تو نے اک بات نوٹ کی۔۔۔
وہ کیا۔۔ نون نے پوچھا
وہ یہ کہ ابھی تک کچھ برا نہیں ہوا۔۔۔
تو ہے ہی منحوس۔۔۔ کبھی اچھی بات منہ سے نہ نکالیں۔۔۔ ۔
اتنے میں دو محلے کے بزرگ وہاں سے گزرے۔ دونوں نے بھاگ کر ان کو بلایا۔ اور پارٹی کا منشور سمجھانا شروع کیا۔ لیکن انہوں نے بجائے کوئی بات سننے کے گالیاں دینی شروع کردیں۔۔۔
الف اور نون نے اک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اور کان لپیٹ کر واپس شامیانے کے نیچے آکر بیٹھ گئے۔۔
اس کے بعد تو جیسے تماشہ ہی شروع ہوگیا۔ جو بھی وہاں سے گزرتا۔۔ جاننے والا نہ جاننے والا۔۔۔ کچھ مغلظات بک کر جاتا۔۔۔
دونوں پریشان تھے کہ آخر ان کا کیا قصور ہے۔
پورا دن انہوں نے سب سے گالیاں کھاتے گزار دیا۔۔ گرچہ یہ کوئی پہلی بار نہ تھا۔۔۔ لیکن پھر بھی دوسروں کے کیے دھرے پر گالیاں کھانے کا یہ پہلا ہی تجربہ تھا۔۔۔
دیکھ یار یہ بوٹا تو بہت ہی نامراد ہے۔۔۔ نون آخر غصے سے بولا۔۔
کیوں ! الف نے یوں پوچھا جیسے کوئی بڑی عجیب بات کردی ہو۔۔۔
دیکھ یار۔۔۔ اس نے پانچ سال خوب لوٹا۔۔۔ اور اب لوگ گالیاں ہمیں دے رہے ہیں۔۔ یہاں بیٹھنے کی وجہ سے۔۔۔ میں تو کہتا ہوں نکلتے ہیں۔ شام میں آجائیں گے۔ گھوم پھر کر۔۔۔
تو ہم اس کو ووٹ نہ دیں گے۔۔ الف نے کہا۔۔۔ لیکن اس وقت تو ہم دونوں روزی کما رہے ہیں۔۔ اور رزق کو لات مارنا مناسب نہیں۔۔۔
ہمم م م م م ۔۔۔ ۔ لیکن اتنی مزدوری نہیں ملنی جتنے کی گالیاں پڑ رہی ہیں۔۔ نون نے دکھ سے کہا
کونسا پہلی بار پڑ رہی ہے۔۔ اور پھر ہم اس کام کی اجرت بھی وصول کرچکے ہیں۔ الف نے اپنی مخصوص ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
آج تجھے بڑی ایمانداری کا سبق یاد آرہا ہے۔۔ اور پھر دونوں ہنسنے لگے۔۔
شام کو بوٹا وہاں کافی لوگوں کو ساتھ لے کر آیا۔ اور ان دونوں کی محنت کو خوب سراہا۔۔ لوگوں سے ملا۔۔ اور وہ تمام لوگ جو صبح سے ان کو گالیاں دے رہے تھے۔ اس کے سامنے خاموش ہوگئے۔ بلکہ الٹا اس سے مطالبات کرنے لگے کہ یہ کام ہوجائے وہ ہوجائے تو اچھا ہے۔۔۔
الف نے نون کے کان میں کہا۔۔۔ تو دیکھ رہا ہے۔۔ منافقت کیسے لوگوں کی رگ رگ میں ہے۔ اس لیے ہم دونوں بھائی اس معاشرے میں ذلیل ہیں۔
ہاں ہار۔۔ الف نے بھی اپنا متیرے جیسا سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔ واقعی۔۔۔ اب کوئی دے سہی مجھے گالی اس کے جانے کے بعد۔۔۔ ۔
بوٹا کے جانے کے بعد نون اور الف کینہ توز نظروں سے محلے کے لوگوں کوگھورنے لگے۔
کہ یکایک الف کو خیال آیا کہ انہوں نے جس پارٹی کو ووٹ دینا ہے۔ اس کا لیڈر بھی تقریر کے لیے قریبی پنڈال میں جلسہ کر رہا ہے۔۔
وہ دونوں وہاں سے نکل کر سیدھا پنڈال پہنچے اور تقریر سننے لگے۔ ایسے میں اس لیڈر کے ساتھیوں کی نظر ان دونوں پر پڑ گئی۔۔ اور انہوں نے شور مچا دیا کہ یہ بوٹا کے جاسوس یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔ یہ سننا تھا کہ دونوں کے کان کھڑے ہوگئے۔۔ پرانی ماریں کھا کھا کر دونوں کو ہجوم کے ارادوں کا اندازہ ہو رہا تھا۔ چند لڑکے ان کی طرف بھاگے۔ مگر اس بار دو دونوں بجلی کی سی سرعت سے وہاں سے نکل لیے۔ اور سرپٹ اپنے مخصوص ٹھکانے کی طرف دوڑنے لگے۔ لڑکے کچھ دیر تک تو ان کے پیچھے آئے۔ لیکن پھر پلٹ گئے۔
ریل کی پٹریوں کے کنارے پہنچ کر دونوں نے پیچھے دیکھا۔۔ کسی کو نہ پا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اور سانس برابر کرنے لگے۔۔ پہلی بار وہ کسی ہجوم سے پٹے بغیر بچ نکلنے میں کامیا ب ہوئے تھے۔
دونوں نے وہاں بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ روپے کے لیے کسی سیاسی مہم کا ساتھ نہ دیں گے۔ بوٹا امیدوار کے مرکزی دفتر جا کر منتظم کو جتنی گالیاں سنی تھی پورا دن ساری بتائیں۔ اور کہا کہ اب اور گالیاں سننے کا حوصلہ نہیں۔۔۔ اس نے روپے بڑھانے کا لالچ دیا۔۔ لیکن دونوں اس کو سلام کر کے اپنے گھر کا راستہ ناپنے لگے۔
واپسی پر الف نے نون کو سوچ میں گم دیکھ کر کہا۔۔۔ ۔ تو بھی وہی سوچ رہا ہے جو میں سوچ رہا ہوں۔۔۔
ہاں۔۔۔ نون نے سر ہلاتے ہوئے کہا
پہلی بار ایمانداری سے کوئی کام کیا تھا۔۔۔ وہ بھی راس نہ آیا۔۔۔ اس لیے کہ پہلے ہم ایمانداروں کے ساتھ بےایمانی کرتے تھے۔ اور اب بےایمانوں کے ساتھ ایمانداری کی کوشش کر رہے تھے۔
اور دونوں اک پھیکی ہنسی ہنس کر سر جھکا کر چلنے لگے۔

2 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔