Monday 13 May 2013

خود احتسابی کیسے ہو!

0 comments
مراسلہ از دوست: میرے خیال میں خود احتسابی کا موقع ہر کسی کو ہی ملتا ہے۔ آپ نے ایک معصوم روح (بچے) سے فرعون بننے تک کا سفر بتا دیا، تو دیکھیں؛ فرعون کے پاس بھی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہدایت لے کر پہنچ گئے تھے۔ ہم لوگ تو فرعون سے بہت بہتر، ایک بہت عظیم امت کے اراکین ہیں۔ ہمیں تو جگہ جگہ ہدایت کے مواقع ملتے ہیں۔ ہاں، کچھ لوگوں کے دلوں پر مہر لگی ہو، تو وہ رب کا حکم! کوشش یہی کرنی چاہیے کہ خود احتسابی کی سولی پر سب سے پہلے خودی کو کھڑا کیا جائے۔ ہر عمل میں دیکھ لیا جائے کہ وہ ملک کے لیے نقصان دہ تو نہیں۔ جواب منفی ہو، تو سو بسم اللہ۔۔۔ ۔
آپ نے ایک آدمی کے بدلنے کی بات کی، تو ایک آدمی درحقیقت ایک خاندان کی اکائی ہوتا ہے، اور ایک خاندان معاشرے کی اکائی! یہی خوبصورتی ہے ہماری مشرقی تہذیب کی؛ یہاں خاندان معاشرے کی اکائی ہے۔ صرف میرا ہی بدل جانا، میرے ہونے والے خاندان کے بدل جانے اور پھر ایک معاشرے کے بدل جانے کے مترادف ہے۔

"اک دوست نے تبدیلی والی تحریر کے جواب میں یہ مراسلہ کیا تو میں نے اس کے جواب میں یہ اک لمبا مراسلہ دوبارہ لکھ مارا۔۔۔ بلاگ پر لگانے کا مقصد یہ تحریر گم نہ ہوجائے۔"
جوابی مراسلہ از احقر: خوداحتسابی کا موقع ملنا اور خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کتنی راتیں گزری ہیں زندگی کی جن میں آپ نے سونے سے قبل محاسبہ کیا ہے۔ کہ آج کیا برا کیا۔ کیا اچھا کیا۔ جھوٹ، کو مذاق اور بےایمانی کو بازار میں رائج قانون کا نام دے کر ہم نے کس کس گرہ سے دامن نہیں چھڑا رکھا۔ جہاں موقع ملا وہاں ہم نے کب کسی سے رعایت برتی۔ اور اب آجاتے ہیں فرعون والی بات کی طرف۔ ۔۔
فرعون اک تھا۔ اس کے پاس طاقت تھی۔ دولت تھی۔ اقتدار تھا۔۔ اس کے باوجود بھی وہ ہدایت پر نہ آیا۔۔ حالانکہ اللہ کا رسول اس کے ہدایت لے کر آیا۔ تو پھر سوچیئے۔۔۔ اک ایسا آدمی جس کے پاس نہ مال ہے، نہ طاقت کی انتہا، اور نہ اقتدار۔۔۔ وہ کس برتے پر یہ سب کر رہا ہے۔۔ جب کہ اس کے پاس سب سے مقرب نبی کی کتاب موجود ہے۔ "الفرقان"۔۔ جس کو وہ بچپن سے پڑھ رہا ہے۔۔۔ لیکن اک لفظ بھی اس کے دل کے اندر آگ نہیں جلا پا رہا۔۔ کیوں کہ جو تاثیر ان الفاظ سے اس کے وجود میں آنی چاہیے تھی۔۔ اس کا سارا رس مسجد کا خطیب چوس گیا۔ اب اس کے لیے وہ اک کتاب،، قسمیں اٹھانے، اور ثواب دارین حاصل کرنے کے لیے رہ گئی ہے۔ وہ بھول گیا کہ اس کے اندر فلسفہ حیات ہے۔
اور اب ذرا آجائیں۔۔ ہدایت کی طرف۔۔ کہ جی ہدایت کے موقع ملتے ہیں۔ مغرب نے تحقیق کے علم کی بنیاد رکھی۔۔ شک پر۔۔ شک کرو۔۔ پرکھو۔۔ جانچو۔۔۔ سمجھو۔۔ اور پھر اگر سمجھ میں آئے عمل کرو۔۔ دین نے کہا تجسس نہ کرو۔۔ ہم نے دین کی بات نہ مانی۔۔۔ ہم نے تجسس کیا۔۔ ہم نے شک کیا۔۔۔ اور ہر چیز کی تاویل تلاشنے لگے۔۔ یوں رفتہ رفتہ وہ علم ہم سے کھنچتا چلا گیا۔ شعلہ نوائی رہ گئی۔ عمل کی دولت چھن گئی۔ کیوں کہ علم پر اعتبار نہ رہا تو عمل بھی خاک کی چادر تان کر سو گیا۔۔۔ 
اب آجائیں ملک کے معاملات کی طرف۔۔۔ اک ایسا آدمی جو ہمیشہ اعلی نمبروں سے پاس ہوا۔۔۔ لیکن در بدر ٹھوکریں۔۔۔ داخلے کے لیے۔۔۔ آخر باپ نے سفارش ڈھونڈی اور داخلہ کرا دیا۔۔ اب جو تعلیم کا یہ دور شروع ہوا۔۔ جو شاندار عمارت وجود میں آنی تھی۔۔ اس کی بنیاد میں اک اینٹ سفارش کی لگ گئی۔ اس اینٹ نے اب اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ تعلیم کے بعد ملازمت کے حصول کی باری آئی۔ وہ ہزاروں اینٹیں بیکار گئی۔۔ کیوں کہ انہوں نے پہلے مطلوبہ نتائج نہ دیے تھے۔ تو اب کی بار بھی سفارش کی اینٹ اٹھا لی گئی۔ عملی زندگی کے دور کا سنگ بنیاد بھی اس اینٹ کی بدولت رکھ دیا۔ یا پھر رشوت دی۔ جب رشوت دے دی تو سوچا کہ یہ جو روپیہ میں نے دیا ہے۔۔ یہ واپس بھی تو لینا ہے۔ وہی دوڑ شروع ہوگئی۔ آخر اک بڑے مرتبے پر جا پہنچا۔۔۔ اب جن لوگوں نے اس وقت سفارش کی تھی۔ ان کے بچے آنا شروع ہوگئے۔ بقیہ زندگی ان کی سفارش کرتے گزر گئی۔ ریٹائر ہوگیا۔۔ مسجد میں اللہ اللہ کرنے لگا۔۔ نیک ہوگیا۔۔ ایسے میں ہمسائے سے اک بندہ اٹھا اور کہا کہ چلیے قبلہ میرے بیٹے کے لیے کوئی حوالہ فراہم کیجیے۔۔ اب پھر ادھر چل پڑا۔۔۔ تو وہ جو دو سال کی کمائی تھی۔۔ وہ بھی مٹی میں مل گئی۔۔۔ 
مجھے صرف یہ بتائیں کہ اس پورے عمل کے دوران بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اس کو خود احتسابی کا لفظ کس کس نصاب میں پڑھایا گیا۔ ملک کا فائدہ کیا ہے نقصان کیا۔۔۔ یہ اسے کہاں سکھایا گیا۔ دین کیا ہے دنیا کیا۔۔۔ فانی کیا ہے باقی کیا۔۔ اس کا درس اس کو کس معلم نے دیا۔۔۔ 
اک فرد اس طرح نہیں بدلتا جس طرح آپ نے کہہ دیا کہ بدل جائے تو خاندان بدل جائے۔۔ جب یہ ساری چیزیں نصاب کا حصہ ہی نہیں تو پھر کیا آسمان سے فرشتے اتریں گے جو فطرت کو بدل دیں گے۔۔۔ ۔ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔ تبدیلی اک نسل سے نہیں آتی۔۔۔ اپنی بیویوں کی تربیت کرو۔۔ اولاد کی تربیت کرو۔۔ ان کو اچھا برا بھلا سکھاؤ۔۔ وقتی فائدے پر نیکی کو ذبح کرنے کا ہنر مت سکھاؤ انہیں۔۔ پھر کہیں جا کر اس جوہڑ سے کائی ہٹے گی۔۔۔ یہ دریا جو سست روی میں سوکھ رہا پھر تبدیل ہو کر کسی روشن اور صاف سمندر کا حصہ بنے گا۔۔ اور اک صاف اور اجلی قوم جنم لے گی۔۔۔ ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔