Thursday 3 September 2015

ایک پرانی یاد (ماضی کے جھروکوں سے)

3 comments
راقم القصہ لاہور میں اپنے ۴ دوستوں سمیت اک کرائے کے فلیٹ پر رہتا تھا۔ ان دوستوں کیساتھ میں کوئی ۲۰۰۰ سے لیکر ۲۰۱۱ تک رہا ہوں۔ بے تکلف تو تھے ہی پر شرارتی بھی بہت تھے۔ یہ جو واقعہ ہے میں سنانے جا رہا ہوں کوئی ۲۰۰۳ کا ہوگا۔ کوئی بھی اس میں عبرت یا سبق تلاش کرنے کی غرض سے پڑھ رہا ہے تو یہی سے واپس ہو جائے کیوں کہ عبرت انگیز واقعات میرے ساتھ آج تک پیش نہیں آئے۔ 
لگے ہاتھوں اپنے دوستوں کا تعارف بھی کروا دیتا ہوں کہ واقعے میں آپ کو لطف آئے۔ اور سیاق و سباق سے آگاہی ہو۔ میں یعنی کہ میں اور میرے علاوہ ہمی، ماسٹر، شاہ جی اور نمو۔ جس فلیٹ میں ان دنوں آستانہ تھا وہ دو دکانوں پر بنا تھا۔ وہ دکانیں کمہاروں کی تھیں اور انکا مٹی کے برتنوں کا خاصہ بڑا کاروبار تھا۔ اوپر بھی اک فلیٹ تھا جو کہ ٹی-وی لائسنس بنانے والے انسپکٹر کے پاس تھا۔انکا نام تو سرفراز تھا۔ پر ہم انہیں وڈے شاہ جی کہتے تھے۔ کیوں کہ شاہ جی کے لقب پر ہمارے اک دوست کا قبضہ تھا۔ وڈے شاہ جی اسوقت کوئی ۵۰ کے قریب ہونگے عمر میں، اور انتہائی خوش مزاج آدمی تھے۔ ہمارا آستانہ ۲کمروں اور اک لاونج پر مشتمل تھا۔ لاونج اتنا کہ ۵آدمی اکھٹے کھڑے ہو جائیں۔ باقی دونوں کمروں میں ہم نے کارپٹ بچھا رکھا تھا۔ پر سوتے ہم اک کمرے میں تھے اور دوسرے میں ہم نے سارا سامان جمع کر رکھا تھا جو کسی کباڑ کا منظر پیش کرتا تھا۔ اب آتے ہیں قصے کی طرف
گرمیوں کی اک رات کا ذکر ہے۔ کوئی ڈھائی کے قریب کا وقت ہوگا۔ میں بےخبر سویا پڑا تھا۔ کہ مجھے احساس ہوا کسی نے میری قمیض میں برف ڈال دی ہے۔ ہڑ بڑا کر اٹھا تو دیکھا کہ ہمی نامی مخلوق کمپیوٹر پر بیٹھی الہ دین کھیل رہی ہے۔ ساتھ ہی بیرونی دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ دیکھا کہ ماسٹر لاونج میں کھڑا ہنس رہا ہے۔میں خاموشی سے واش روم میں گیا۔ وہاں سے اک جگ پانی بھرا اور لا کر ماسٹر پر الٹا دیا۔ ماسٹر نے کہا کہ برف تم پر نمو نے ڈالی ہے۔ اور اسکے بعد وہ اور شاہ جی باہر بھاگ گئے ہیں۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تو وہ دونوں فلیٹ کے نیچے کھڑے تھے۔ میں اک بالٹی پانی بھر کر لایا اور ان دونوں کے سروں پر الٹا دی۔ وہ دونوں بھی اوپر آگئے اور پانی کی جنگ شروع ہو گئی۔ہمی مطمئن ویڈیو گیم کھیلتا رہا۔ یہ ہم سے برداشت نہ ہوا اور ہم چاروں نے ملکر اسے اٹھایا اور لاونج میں لا کر خوب پانی اس پر پھینکا۔ صبح ۴بجے تک یہی تماشہ چلتا رہا۔ پانی ہماری سیڑھیوں سے بہتا ہوا نیچے کمہاروں کی دکان کے باہر جمع ہوگیا۔ جس سے ان کے باہر پڑے برتن خراب ہو گئے۔ پر ہم ان تمام باتوں سے بے خبر تھک کر میٹھی نیند سو گئے، جس میں روزگار کا کوئی غم نہ تھا۔ 
مجھے صبح اٹھنے کی بیماری ہے اور اٹھتے ہی چائے پینے کی۔ میں ۹ بجے کے قریب دوسری بار اپنے لیئے چائے بنا رہا تھا کہ دروازہ کسی نے یوں پیٹا جیسے توڑ ڈالے گا۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے کمہاروں کا سردار یعنی کے گرو کمہار کو کھڑا پایا۔ انتہائی اکھڑ لہجے میں اس نے پوچھا۔
"اوئے بالکے۔ شاہ جی کتھے نیں" اب اسکی مراد وڈے شاہ جی سے تھی۔
میں نے تقریباً اسی انداز میں جواب دیا 
"مینوں کی پتہ۔ میں کوئی اناں دا ملازم آں"
اور ٹھاہ دروازہ بند کر دیا۔ خوشی ہوئی کہ کیسا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ کہ دروازہ اسی انداز میں پھر کھڑکا۔ اب میں نے منہ پر انتہائی غصہ لا کر دروازہ کھولا اور اس سے پہلے وہ کچھ بولتا کہا۔ ہن کی ائے۔ اس نے بھی اپنی ہٹ نہ چھوڑی اور اسی انداز میں بیان داغا کہ 
"جداں ای شاہ جی آن۔ اناں نوں کئیں کی مینوں ملن" (جیسے ہی شاہ جی آئیں ان کو کہنا مجھ سے ملیں۔)
میں نے کہا اچھا۔
کوئی آدھے گھنٹے کے بعد دروازے پر بڑی نرم سی دستک ہوئی۔ میں نے دروازی کھولا تو وڈے شاہ جی تھے۔ پسینے میں ڈوبے ہوئے۔ پیشانی پر سلوٹیں۔ میں نے کہا شاہ جی اند ر تشریف لائیں اور چائے کا پوچھا۔ ان نے عجب بے بسی سے میری طرف دیکھا اور کہا ہاں بیٹا۔ ہم دونوں چائے بنا کر اپنے کباڑ روم میں آگئے۔ تھوڑی دیر بعدوڈے شاہ جی نے ڈرتے ہوئے انداز میں پوچھا۔ نین بیٹا۔ رات کو سیڑھیاں دھوتے رہے ہو۔ میں یہ سنکر بڑا خوش ہوا اور ذوق و شوق سے رات کی کارستانی سنانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد نوٹس کیاکہ وڈے شاہ جی اس قصے سے لطف اندوز نہیں ہو رہے تو کہا شاہ جی خیر اے۔ میں سمجھا کہ اس شور ہنگامے سے انکی نیند خراب ہوئی ہے۔ اور انکو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اپنے تئیں میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ شاہ جی آئندہ ہم ایسے شور ہنگامہ برپا نہ کریں گے۔ اس پر شاہ جی تڑپ کر بولے۔ نہ یار تم جو مرضی کرو۔ بس مجھے بتا دیا کرو۔ اور پھر انہوں نے مجھے کمہاروں نے جو ان سے سلوک کیا وہ سنایا۔ کہنے لگے بیٹا انہوں نے میری عمر کا لحاظ کیا۔ ورنہ توآج میں اک آدھی بازو کے بغیر آتا۔ 
کمہار اصل میں یہ سمجھے کہ پانی شاہ جی کیطرف سے آ یا ہے۔ بیوقوف اگر سیڑھیاں ہی دیکھ لیتے تو جان جاتے۔ آج بھی ہم سوچتے ہیں کہ شاہ جی اگر ہمارا نام لے دیتے تو سامان کے ساتھ ہم تو سڑک پر ہوتے ہی پر جو دھنائی ہوتی وہ الگ۔

یہ عرصہ قبل اردو محفل پر لکھی تھی۔ آج یاد آنے پر ادھر بھی پیش کر دی۔ 

3 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔