Tuesday, 17 February 2015

باکمال بزرگ - قسط ششم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

0 comments

ہم دوستوں کی مجلس میں ان بزدل ڈاکوؤں اور تایا جی کی دیدہ دلیلی کا بڑا تذکرہ رہا ۔ چند ایک احباب کا خیال تھا کہ بزرگ نے فقط زیب داستاں کے لیے بات بڑھا دی ہے۔ الغرض چاہے کسی کو یقین آیا یا نہیں لیکن سب بزرگ کے انداز گفتگو اور بیان کی چاشنی کے لطف میں کھوئے رہے۔ سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی جب کہرا سرِشام ہی کھیتوں کو اپنے دبیز آنچل میں چھپانے لگا تو ہم سب یار دوست دوبارہ چوپال کا رخ کرنے لگے۔ ایسی ہی ایک شام میں عشاء کے بعد جب سب ایک انگھیٹی جلا کر اس کے گرد بیٹھے ہاتھ تاپ رہے تھے، مجلس یاراں میں مونگ پھلی اور گپ شپ سے دل بہلایا جا رہا تھا کہ اتنے میں بزرگ بھی چوپال میں تشریف لے آئے۔ ہم جوانوں نے فورا ان کے لیے جگہ خالی کی اور ان کو گھیر لیا۔ باتیں چلنی شروع ہوئیں تو گردش زمانہ کے باعث گرانی کا موضوع بھی زیرگفتگو آگیا۔ اس پر بزرگ نے کہا کہ میاں! یہ گرانی اشیاء صرف تمہارے دور کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ ہر دور میں اس کا رونا رہا ہے۔ ہمارے اسلاف ہمیں کہا کرتے تھے کہ اب بہت مہنگائی ہو گئی ہے اور ہم یہ چیزیں ان ان قیمتوں میں خریدا کرتے تھے۔ اور ہماری حیرت دیدنی ہوا کرتی تھی بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے دور میں ضروریات زندگی کی قیمتیں سن کر تمہارے دیدہ حیراں قابل دید ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہے کہ ہمارے دنوں میں یوں نفسا نفسی کا عالم نہ تھا۔ بلکہ ایک دوسرے کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا تھا۔ اس پر دوسرے بزرگ کے چہرے پر بڑی شرارتی سی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ ایک نوجوان فوراً ان کی طرف متوجہ ہو کر بولا۔ لگتا ہے آپ کو اس رضاکارانہ کام سے جڑا کوئی دلچسپ واقعہ یادآگیا ہے۔ تو وہ بزرگ ہنس پڑے۔ اور اس کے بعد انہوں نے پہلے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ مجھے اس کے رضاکارانہ کام سے جڑا ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ یاد آگیا ہے۔ پہلے بزرگ نے خالی نظروں سے انہیں دیکھا تو بزرگ نے اشارہ دینے کو کہا۔ یاد کر! جب وہ گورکن کا کام رضاکارانہ طور پر شروع کیا تھا۔ اس پر پہلے بزرگ قہقہے لگا لگا کر ہنسنا شروع ہوگئے۔ ہم سب کا تجسس بہت بڑھ چلا تھا سو ساری باتیں پس انداز کر کے اس واقعے کو سنانے کیفرمائش شروع کر دی گئی۔اس پر آخرِکار ان بزرگ کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور وہ واقعہ سنانے پر آمادہ ہوگئے۔

یہ واقعہ جو میں تم کو سنانے جا رہا ہوں یہ ہمار ے مکتب کے دور کی یاد ہے۔ میں اور یہ (دوسرے بزرگ کی طرف اشارہ کر تے ہوئے) نہم کلاس کے طلباء تھے۔ پڑھائی میں ہم درمیانے درجے کے تھے لیکن شرارتوں میں ہم اول درجے کے شیطان مشہور تھے۔ ہم دوستوں نے اس شہرت کا تفصیلی جائزہ لیا اور سوچا کہ ایسا کون سا کام کیا جائے جس سے یہ ساری شہرت ہماری نیک نامی میں بدل جائے۔ اس پر ایک نے کہا کہ گاؤں میں جب بھی کوئی فوت ہوجاتا ہے۔ تو قبر کھودنے کا مرحلہ کافی مسئلہ بن جاتا ہے سو اسی سلسلے میں ہم چار دوستوں نے مل کر ایک رضاکارانہ جماعت کی بنیاد رکھی کہ گاؤں میں کوئی بھی فوت ہوگا تو اس کی قبر ہم جا کر کھود آیا کریں گے۔ جب بھی کسی کے فوت ہونے کا اعلان گاؤں کی مسجد سے ہوتا ہم چاروں دوست بیلچہ کدال لے کر قبرستان کا رخ کرتے اور قبر کھود دیا کرتے تھے۔ ہمارے اس کام کو بڑے چھوٹے ہر کسی نے بہت سراہا جب تک یہ واقعہ نہ ہوا تھا۔

ہمارے ریاضی کے استاد بہت محنت اور لگن کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے لیکن تھے بہت سخت گیر۔ کام نہ کرنے پررتی برابر رعایت نہ کرتے اور روئی کی طرح دھنک دیا کرتے تھے۔ تمام طلباء بشمول ہمارے ان سے ڈرتے تھے۔ اور مکتب کے باہر اگر کبھی ان سے سامنا ہوجاتا تو آنکھ بچا کر نکل جانے میں ہی عافیت سمجھا کرتے تھے۔ ایک دن میرا استاد محترم کے گھر کے باہر سے گزرنا ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کہرام سا مچا ہے۔ بہت سے لوگ گھر کے اندر آ جا رہے ہیں۔ میں نے ایک کو روک کر ماجرا پوچھا۔ تو اس نے کہا کہ استاد محترم کی طبیعت بہت خراب ہے۔ شاید ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے۔ یہاں تک رہتا تو بات ٹھیک تھی۔ لیکن اس ظالم نے مجھ سے یہ بھی کہہ دیا کہ میرا خیال ہے اب بچ نہیں پائیں گے۔ میں نے فوراً اپنی رضاکارانہ جماعت کو اکھٹا کیا اور جا کر قبرستان میں ایک قبر کھود ڈالی۔ ادھر جب ہم قبر کھودنے میں مصروف تھے گاؤں کے لوگ کچھ سواری کا بندوبست کر کے استاد محترم کو قریبی ہسپتال لے گئے۔ بروقت طبی امداد نے زندگی بچانے میں مدد کی اور استاد محترم کچھ وقت کے بعد گھر واپس لوٹ آئے۔ ہمارا حال پوچھو تو ایسے کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ پورے گاؤں میں یہ بات پھیل گئی کہ ان چاروں نے تو قبر بھی کھود دی ہے۔ اور وہ تجزیہ نگار عین موقع پر یوں اپنی بات سے پھر گیا جیسے الیکشن جیتنے کے بعد نو منتخب وزیر اعظم پھر جاتا ہے۔ اس کے بعد استاد محترم کافی عرصہ تک حیات رہے لیکن جتنا عرصہ بھی حیات رہے ہم کو ایسی منتقمانہ نگاہوں سے گھورتے رہے جیسے وہ ہماری قبر کھود کر اپنی منتقم حس کی تسکین کا سامان کرنا چاہتے ہوں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔