Thursday 19 December 2013

باکمال بزرگ - قسط چہارم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

2 comments
گزشتہ سے پیوستہ:

کچھ ثانیے یوں ہی گزرے تھے۔ کہ دوسرے بزرگ نے کہا۔  چل اب شرمانا چھوڑ۔ تجھے وہ دلارا یاد ہے۔ وہ جس کو سب زنگی کہتے تھے۔ یہ بات سن کر پہلے بزرگ ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ ان کو کھانسی لگ گئی۔  پہلے بزرگ نے کھانسنے کے درمیان  یوں ہاتھ ہلایا۔ جیسے کہہ رہے ہوں چھوڑ یار!  اور جب ذرا کھانسی تھمی تو انہوں نے واقعی یہی کہا۔ اور مزید اضافہ کرتے ہوئے  کہا۔ کہ یہ بچے یقین نہ کریں گے۔ اس پر ایک چوپال میں موجود ایک نوجوان بولا۔ جناب ہم کیوں یقین نہ کریں گے۔ آپ سنائیں۔ تو بزرگ کہنے لگے۔ یار پہلے تمہیں  اس دور کی خوراکوں کے بارے میں نہ بتا دوں۔ تو وہ نوجوان بچوں کی طرح مچلنے لگا کہ نہیں پہلے ہمیں دلارے کے متعلق بتایا  جائے۔  اس پر بزرگ نے تمام حاضرین پر نظر ڈالی۔ اور سب کے چہرے پر ایک مثبت تاثر دیکھ کر ہتھیار ڈالتے ہوئے کہنے لگے۔ اچھا چلو اب تم ضد کرتے ہو تو سناتا ہوں۔

نام تو اس کا بخشن تھا۔ مگر مشہور وہ پورے گاؤں میں دلارے  کے نام سے تھا۔ سیہ تاب تھا۔ اتنا کہ بسا اوقات تارکول کا گماں ہوتا۔ اور اکثر اوقات بھی تارکول کا ہی۔ یہ واقعہ ہمیں دلارے نے خود ہی سنایا تھا۔ اور اس کے بعد گاؤں کی چوپال میں اس  کا اتنا مذاق اڑایا گیا کہ اس نے یہ مشہور کر دیا کہ یہ محض مذاق کی بات تھی۔ اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ واقعہ دلارے کی زبانی ہی سنیے۔

میں کھیتوں میں ہل چلانے میں مصروف تھا۔ ہل چلاتے چلاتے سورج سر  پر آن پہنچا۔ محض اتفاق کی بات ہے۔ کہ میں نے قمیص اتار رکھی تھی۔ اتنی دیر میں میری والدہ کھانا لے کر آتی دکھائیں دیں۔ میں نے سوچا کہ اس سے پہلے والدہ مجھ تک پہنچیں۔ میں  کدال لے کر کھال کا راستہ کھول دوں۔ تاکہ میرے کھانے سے فراغت حاصل کرنے تک  ایک کھیت سیراب ہو سکے۔ میں کدال لے کر کھال  کھولنے لگا تو دیکھا کہ والدہ میرے پاس سے گزر کر آگے کو چلی جاتی ہیں۔ میں حیران ہوگیا۔ اور آواز دی کے بےبے کدھر۔ اس پر والدہ نے پیچھے مڑکر دیکھا۔ اور کہنے لگیں۔

اوئے دلاریا! اے توں ایں! میں سمجھی کٹا چرن ڈیا اے۔ (اوئے دلارے یہ تم ہو۔ میں سمجھی بھینسا چر رہا ہے۔)

اس پر چوپال فلک شگاف قہقہوں سے گونج اٹھا۔

جب ذرا قہقہوں کا طوفان تھما۔ تو بزرگ نے کہا۔۔۔ خیر یہ واقعہ تو برسبیل تذکرہ یوں ہی بیچ میں آگیا۔۔۔

(جاری ہے)

2 comments:

  • 19 December 2013 at 22:24

    اور سب کے چہرے پر ایک مثبت تاثر دیکھ کر ہتھیار ڈالتے ہوئے کہنے لگے۔

    سب کے چہرے پر استفسار ثبت دیکھا تو جنزل نیازی کی طرح ہتھیار ڈال دئیے اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر آسمان کی طرف دیکھا اور گویا ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اتنا کہ بسا اوقات تارکول کا گماں ہوتا۔ اور اکثر اوقات بھی تارکول کا ہی۔

    بسا اوقات اور اکثر اوقات میں صرف فارسی اردو کا ہی فرق ہے یا کوئی اور بھی فرق ہے؟؟؟؟

    اتنا کہ بعض اوقات تارکول کا گماں ہوتا۔ اور اکثر اوقات بھی تارکول کا ہی۔

    اماں نے بھی اماں ہوتے ہوئے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ھاھاھاھاھاھاھاھاھا

  • 19 December 2013 at 22:45

    خوب۔۔۔۔ بسا اور اکثر کو اکھٹا جان کر استعمال کیا ہے۔۔۔۔ :) یہ فارسی اور اردو کے جھجنٹ میں نہیں پڑتے میاں ہم۔۔۔۔ :پی

    :)

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔