Thursday 31 January 2019

لمّی اُڈیک

2 comments
میری ایک چھوٹی جیہی پنجابی نظم


لمّی اُڈیک

دل دی سخت زمین اندر
خورے کنّے ورھیاں توں
کئی قسماں دیاں سدھراں دبیاں
اکّو سٹ اُڈیکن لگیاں
کتّھے وجّے، کجھ تے پُھٹّے

28 جنوری 2019
نیرنگ خیال

Monday 7 January 2019

ایں آلکسی بزور بازو نیست

1 comments
یوں توں جب ہم سست نہیں ہوتے تو تب ہم صرف سست ہوتے ہیں۔ لیکن کیا کیجیے، کہ جب ہم اپنے تئیں آلکسی کی کئی سیڑھیاں دیکھ کر وہیں پر ہمت ہار جاتے ہیں کہ اب اس رتبے پر کون جائے۔ وہیں ہمیں احمد بھائی کی کوئی ایسی حرکت نظر آتی ہے کہ ہم سوچتے رہ جاتے ہیں میاں۔۔۔ جس رتبہ پر یہ حضرت ہیں، بخدا میں زندگی بھر صرف سویا رہوں تو تب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ "ایں آلکسی بزور بازو نیست"۔ احمد بھائی کی کوچہ آلکساں سے والہانہ محبت تو دیکھیے۔ کہ شاعری میں بھی گردوپیش سے بےخبر نہیں۔ فرماتے ہیں۔ 
فسانہ پڑھتے پڑھتے اپنے آپ سے اُلجھ گیا 
عجیب کشمکش تھی میں کتاب رکھ کے سو گیا 

اے ساکنانِ کوچہ! اے منتظمین آلکسی! اے وکلاء پوستیان! دیکھو! ایک نظر ادھر تو دیکھو! ہائے۔ کبھی جو مدت بعد کتاب پڑھنے کی کوشش کی، تو دیکھیے کہ کیا بنی۔ یوں تو ہم ایسے علم کا دعوا نہیں کرتے کہ حضرت نے کون سی کتاب پڑھی ہوگی۔ مگر مصرعہ ثانی سے ظاہر ہے کہ کچھوے اور خرگوش کی کہانی ہوگی۔ اور چونکہ سخن میں حضور کی برق رفتاری کی ایک دنیا معترف ہے سو یقینی طور پر خود کو خرگوش ہی دیکھا ہوگا۔ میں نے اس شعر کو کئی بار پڑھا۔ اور سخن کی وسعت دیکھیے کہ ہر بار مجھ پر اس شعر کے نئے معانی کھلے۔ پہلے میں نے سوچا کہ شاعر موضوع میں بھٹک گیا ہے۔ اور فسانہ اپنے گردوپیش کا فسانہ لگ رہا ہے۔ ایسی بیزاری روزانہ کے فسانوں پر ہی ہوتی ہے۔ جیسے کوئی آدھی بات روک کر کہے۔۔۔ اوہ یار یہ مجھے پتا ہے۔ کوئی اور بات کرو۔ اور سونے سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے۔ پھر مجھے لگا کہ شاعر چونکہ ہمارا دوست ہے سو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی صفحے پر الجھ گیا ہو کہ یہ میں پہلے پڑھ چکا ہوں یا ابھی پڑھنا باقی ہے۔ جب دل و ذہن میں یہ فیصلہ کسی انجام کو نہ پہنچ سکا اور بات تکرار سے دل و ذہن میں ہاتھا پائی کا اندیشہ ہوا تو شاعر نے کہا۔ چھوڑو یار۔ کیوں لڑتے ہو۔ آؤ! بحر خواب میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ وہی لاشعور میں فیصلہ ہوگا کہ یہ صفحہ پڑھا ہے یا نہیں۔ اور پھر جب میں خود اس نتیجے پر پہنچا تو پہلو بدل کر رہ گیا۔ اللہ اللہ۔ ایسی تاثیر۔

از قلم نیرنگ خیال
7 جنوری 2019


Wednesday 2 January 2019

کچھ آگہی کی سبیلیں بھی، ہیں انتشار میں

0 comments
کچھ آگہی کی سبیلیں بھی، ہیں انتشار میں
عمر رسیدہ اور جہاندیدہ لوگوں کی باتیں سن کر میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ ان سب کو مصنف ہونا چاہیے۔ کتنا اچھا بولتے ہیں۔ دنیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے پاس خیالات و الفاظ کی کتنی فراوانی ہے۔ کتنی سہولت سے یہ واقعات بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ میں ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔ مجھے تو جو دو چار لفظ آتے ہیں، فوراً سے پیشتر نوک قلم کے حوالے کر دیتا ہوں۔ دنیا چیختی رہتی ہے کہ یہ زبان و بیان درست نہیں۔ میاں لکھنے کا یہ انداز درست نہیں۔ تم کب لکھنا سیکھو گے؟ لیکن میں سب سے بےپروا جو الٹا سیدھا دل میں آتا ہے لکھتا ہوں اور خوش ہوتا ہوں۔
لیکن ہر گزرتا دن مجھے چپ رہنا سکھانے لگا ہے۔ میں چاہ کر بھی نہیں لکھ پاتا۔ میں سوچ کر بھی نہیں بول پاتا۔ میرے الفاظ کے آگے خندق اور میری سوچ کے آگے خلا پیدا ہوگیا ہے۔ نیا سال پرانا سال۔۔۔ نئے دن پرانے دن۔۔۔ نئی باتیں پرانی باتیں۔۔۔ سب کتنا بےمعنی ہے۔ سب کتنا مبہم ہے۔ کوئی بات ، کوئی لمحہ، کوئی دن واضح نہیں ہے۔ کسی لفظ میں اثر نہیں ہے۔ کسی بات میں زندگی کی رمق نہیں ہے۔ میں جی رہا ہوں اس لیے کہ ربِ کائنات کی یہی رضا ہے۔ کوئی مر رہا ہے کیوں کہ کاتبِ تقدیر نے یہ لکھا ہے۔ خاموشی۔۔۔ سردی۔۔۔ پھر سر اٹھاتی بہار۔۔۔ گرماتے ہوئے دن۔۔ مختصر راتیں۔۔۔ پھر خزاں ۔۔۔ اور آخر میں سرد راتیں۔۔ خاموشی۔۔۔۔۔ غور سے دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ سال بھی انسانی زندگی گزار رہاہے۔ کسی سرد رات میں کہرے کے پیچھے چھپ کر آخری ہچکی لے گا اور ختم ہوجائے گا۔ اسی سرد رات کی کوکھ سے ایک نیا سال ابھرے گا۔ جب آنکھیں کھولے گا تو بہار لائے گا۔ جوانی میں گرم ہوگا۔ ادھیڑ عمری میں خزاں کے رنگوں سے دل بہلائے گا۔ اور پھر سرد راتوں میں خاموش ہوتا ہوا اپنی آخری ساعت کا انتظار کرے گا۔ کتنی مماثلت ہے اس دورانیے کی انسان کی زندگی سے۔کتنی زندہ لگتی ہے یہ تخیلاتی تقسیم۔ جیسے یہی تو ہے سب کچھ۔ اور ہم۔۔۔ ہم تو ہیں نہیں۔ ہم کہاں ہیں۔ کس برس میں ہیں۔ بہار میں ہیں کہ خزاں میں۔۔۔۔ سرگرم ہیں کہ سرد راتوں کے رحم و کرم پر۔ کون جانے۔۔۔ انسان اور بدلتی رتوں میں یہی فرق رہ گیا ہے کہ انسان نے ظاہری پہناوے کو اندرونی خوبصورتی پر فوقیت دے دی ہے۔ شاید اسی ظاہری تصنع کی نمود اور برجستگی کی موت کا نام ارتقا ہے۔

فطرت کا ساتھ مجھے ہمیشہ سے بھلا لگتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو مجھے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ جو میرے بکھرے حروف کو الفاظ کی شکل عطا کرتا ہے۔ یہ ہی وہ پانی ہے جس کی بدولت الفاظ جملوں کی فصل میں ڈھل جاتے ہیں۔ ذرا اس درخت کو دیکھو۔۔۔ میں ایک درخت سامنے کھڑا ہوں۔ بظاہر کتنا ہرابھرا۔۔۔ اور جڑیں دیکھو تو۔ دیمک چاٹ گئی ہے۔ تنا بالکل کھوکھلا ہو چکا ہے۔ کسی لمحے یہ درخت گر جائےگا۔ لیکن شاید یہ بھی انسانوں سے متاثر ہوگیا ہے۔ جب تک زندہ ہے ہرا بھرا نظر آنا چاہتا ہے۔ میں اس لمحے میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں کہ یہ دھوکا درخت خود کو دے رہا ہے کہ دیکھنے والوں کو۔ میں اس دوراہے کا بھی شکار ہوں کہ دھوکا دہی انسان سے فطرت سے سیکھی ہے یا اس کا خمیر ہے۔ اور یہ درخت کچھ خزاں رسیدہ پتوں کے ساتھ۔۔ کچھ سرخ پتے ہیں اس کے اور کچھ ہرے بھی۔ کتنے بھلے رنگ ہیں اس کے۔ پر یہ پتے سرخ کیوں ہیں۔ کیا درختوں پر بھی جذباتی رنگ نمایاں ہوتے ہیں۔ کیا جذبات کے اظہار کا طریقہ تمام حیات میں فطری طور پر ایک سا ہے؟ اس میں تنوع کیوں نہیں؟

اور یہ پتھر سے پھوٹتا پانی۔ تو کیا ہم ساری عمر چشمے کے لیے کسی بیرونی ضرب کے منتظر رہیں گے؟ کیا ان تمام پتھروں سے پانی پھوٹ سکتا ہے؟ یا کوئی کوئی پتھر ہی پانی جاری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا انسان بھی اپنی صلاحیتوں کو دنیا پر آشکار کرنے کے لیے کسی ضرب کا منتظر رہے؟ کوئی واقعہ کوئی حادثہ ، بےاحتیاطی میں لگی ٹھوکر یا نادانستگی میں لگی کوئی ضرب؟ اور جو پھر بھی پانی نہ پھوٹا تو؟ پھر بھی زمین بنجر رہ گئی تو؟ شاخ پر پھول نہ کھلا تو؟ شاید ان سب سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔ شاید ان سب سوالوں کا جواب "شاید" ہی ہے۔ اسی اضطراب میں ایک چھوٹا سا کنکر سامنے بہتے پانی میں پھینکتا ہوں۔ کچھ لہریں پیدا ہوتی کناروں کی طرف بڑھتی ہیں۔ پر جوں جوں اپنے مرکز سے دور ہوتی ہیں، مدہم ہوتی غائب ہونے لگتی ہیں۔ ایسے میں ایک لہر ختم ہونے سے پہلے سرگوشی کرتی ہے۔ نادان! ضرب تو ہر پل، ہر ماہ اور ہر سال لگ رہی ہے۔ گزرتے لمحے جو دنوں میں بدل رہے، دن جو ہفتوں سے مہینوں کا سفر کر رہے، مہینے جو سال کے لفافے میں لپٹ رہے، یہ سب ضربیں ہی تو ہیں۔ احساس پر۔ خیال پر۔ اگر پھر بھی ندامت آ نکھوں سے چشموں کی صورت نہیں بہہ رہی، اگر پھر بھی ذہن و دل کی زمیں پر نئی سوچ، نئے راستوں کے تعین کی فصل نہیں بیجی گئی، اگر پھر بھی شاخِ تخیل پر نئے عزم کے پھول نہیں کھل رہے۔ تو پھر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ضرب تو لگ رہی ہے مگر یہ پتھر کسی چشمے کا ماخذ بننے کا اہل نہیں۔ یہ مٹی بنجر ہے، فصل کا بار نہیں اٹھا سکتی۔ یہ شاخ اپنی اصل سے جدا ہوگئی ہے۔
سال بھی کتنی عجیب چیز ہے۔ دیکھا جائے تو ان لمحوں کا مجموعہ ہے جو کسی شمار میں نہیں۔ ان دنوں کا گوشوارہ ہے جن کا احتساب نہیں۔ یوں ہی سورج کی طرح طلوع ہوتا ہے، یوں ہی سورج کی طرح غروب ہورہا ہے۔ اور میں بےبسی سے اس بوڑھے سال کو دفناتے اس نومولود سال کا شور سن رہا ہوں۔ جبکہ میرے پاس کسی بوڑھے کا خوبصورت بیان نہیں ۔ کسی داستان گو کی زبان نہیں ۔ اس پر ستم یہ کہ محشر بدایونی کا یہ شعر مجھے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔
کچھ آگہی کی سبیلیں ہیں، انتشار میں بھی
کبھی کبھی نکل آیا کرو ، غبار میں بھی

از قلم نیرنگ خیال
خودکلامی
یکم جنوری 2019

Friday 28 September 2018

نہ قاصد سے بیاں ہو گی نہ قاصد سے بیاں ہو گا

4 comments
شمارندی آغوشیے  (لیپ ٹاپ) کے مسائل حل ہو چکے تھے۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر بہت خوبصورتی سے چل رہی تھی اور ہمیں  یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ زندگی اب ان بدرنگ، بدہیئت اور بدصورت  شمارندی آغوشیوں سے آگے نکل چکی ہے۔ لیکن ہماری یہ خوشی دیرپا ثابت نہ ہو سکی۔ نہیں نہیں آپ بالکل غلط سمجھے ہیں، اس بار تو ہمیں ذہنی اذیت سے دوچار کرنے کے لیےقدرت نے ایک اور ہی رنگ اختیار کیا تھا۔
روزانہ کی طرح دفتری معاملات نبٹانے کی خاطر برقی خطوط  کا مطالعہ جاری تھا کہ ایک منفرد سے برقی خط پر نظر ٹھہر گئی۔ عنوان تھا "موبائل فون"۔ اللہ یہ کیسا برقی خط ہے۔ باہر ہمارے افسر اعلی کا نام جگمگا رہا تھا۔ کانپتے ہاتھوں سے خط کھولا اور اندر لکھی عبارت پڑھنے کی کوشش کی۔ 
"کچھ ایسے برقی خطوط ہوتے ہیں جو فوری توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں ،اور جواب میں تاخیر سے نقصان ہو سکتا ہے۔ اس معاملے کے حل کے لیے آپ کو ایک عدد "موبائل فون" دیا جائے گا تاکہ آپ ایسے تمام برقی خطوط پر نظر رکھ سکیں۔ مزید یہ کہ آپ سے اس پر ہر وقت رابطہ رکھا جا سکے۔"
ہم نے جواب لکھنا شروع کیا۔ 
"نہیں ہمیں  نہیں چاہیے۔ ہم  دفتری اوقات سے الگ جو وقت گزارتےہیں،  اس میں زہر مت گھولا جائے۔ "
صفحہ  پھاڑ دیا۔ 
نیا جواب لکھا۔ " یہ ہماری  ضرورت نہیں ہے۔ ہم اسے لیکر کیا کریں گے۔ "
پھر صفحہ پھاڑ دیا اور نیا جواب لکھنے لگے۔ 
"ہمارا یہ خیال ہے کہ ہم  ایسے تمام خطوط پر یوں بھی نظر رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ  دفتری لیپ ٹاپ ہمیشہ ہی موجود رہتا ہے۔ سو ذاتی نمبر پر رابطہ کیا جائے تو جلد یا بدیر جواب دیا ہی جا سکتا ہے۔ "
پھریہ لکھا مٹا دیا ، گہری سانس لی۔ ایک گلاس پانی حلق میں انڈیلا اور اس کے بعد لکھا۔ 
" ہم  بھی شدت سے اس چیز کی کمی محسوس کر رہے تھے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ کمپنی ضروریات کے تقاضے پورے کرنے کی خاطر ہمیں یہ سہولت مہیا کر رہی ہے۔ اس سے یقینی طور پر مراسلت میں برق رفتاری آئے گی۔ آپ کا بہت شکریہ۔"
جواب بھیج کر پیشانی پر سوچ کی لکیریں ابھر آئیں۔ پریشانی یہ نہیں تھی کہ فون ملے گا۔ پریشانی یہ تھی کہ کیسا ملے گا۔ عمومی طور پر ہمارے ہاتھ کوئی نایاب سی چیز ہی آتی ہے۔ 
چند دن گزر گئے اور ہمارے ذہن سے یہ فون والا معاملہ محو ہوگیا۔ ایک دن کام کے دوران تھکاوٹ کا احساس ہوا۔ ذرا دیر کرسی کی پشت سے سر  ٹکا کر ٹانگیں دراز کر کے آنکھیں بند کیں۔ چند دقیقے بھی نہ گزرے ہوں گے کہ ہمیں اپنا نام سنائی دیا۔ آنکھیں کھولی ہی تھیں کہ بالکل سامنے "آئی ٹی  انتظامی امور" کے شعبے کا ایک نوجوان چہرے پر مسکراہٹ لیے کھڑا نظر آیا۔ 
کیسے ہو؟ ہم نے آغاز گفتگو کیا۔ 
اس کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔ ٹھیک ہوں۔ آپ کے لیے فون لایا ہوں۔ 
فون، کون سا فون؟ ہم نے چونکتے ہوئے پوچھا۔ 
دفتر کی طرف سے آپ کو فون دیا جا رہا ہے۔ وہی فون۔ وہ ہماری معلومات میں  کوئی اضافہ تو نہ کر سکا پر ہم کو وہ بھولا خط یاد آگیا۔ 
اوہ اچھا۔۔۔۔ ہاں میاں۔۔ دکھاؤ تو کیا لائے ہو۔ 
اس نے ہاتھ سامنے کیا تو اس پر  چاندی رنگ میں مستطیلی شکل کا ایک فون پڑا تھا۔ حیرت! ہم نے سنا ہے کمپنی سب کو "آئی فون" دیتی ہے۔ تو ہمارے ساتھ کیا معاملہ الٹ ہے؟ ہم نے حیرانی سے پوچھا۔ 
غور سے دیکھیے حضور! یہ آئی فون ہی ہے۔اور یہ رہا اس کا چارجر اور تار۔  اس نے پرسکون انداز میں سب  سامان میز پر دھرتے ہوئے کہا۔ 
اور ہاں۔ وہ میں ابھی آپ کو ایک برقی خط بھیجوں گا، اس پر تصدیق کر دیجیے گا کہ فون موصول ہوا۔ اس نے مڑتے ہوئے کہا۔ 
ابھی ہم میز پر پڑے اس فون کو میز پر پڑا پڑا ہی دیکھ رہے تھے کہ ایک دفتری ساتھی نے فون اٹھاتے ہوئے کہا۔
 ارے واہ!  یہ کیا چیز ہے؟
آپ کو کیا لگ رہا ہے؟ ہم  نے پوچھا۔
فون لگ رہا ہے۔ اس کے پیچھے ایک سیب بھی مٹ رہا ہے۔ آئی فون  ہے کیا؟
فون ہی ہے۔  واپس رکھو۔ ہم نے سنجیدگی سے کہا۔ "سیب بھی مٹ رہا ہے۔ بڑا آیا۔" ہم نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ 
اس کے جانے کے بعد ہم نے فون کو اٹھایا۔ تھا تو وہ فون ہی۔ اس پر پلاسٹک کا چڑھا کور بہت عجیب لگ رہا تھا۔ شکل پر جابجا زخموں کے نشان تھے۔ ایک طویل نشان پیشانی سے لیکر ٹانگ تک مطلب اوپر سے لیکر نیچے تک موجود تھا۔ یقینی طور پر یہ فون ، موبائل فونز کی دنیا کا بدمعاش رہا ہوگا۔  خیر چونکہ فون آچکا تھا،  سو اس پر برقی خطوط کی آمدورفت کے لیے قاصد بھی متعین کر دیا۔ 
 ایک دن   وہی نوجوان ہمیں   راہداری میں ملا جو دھوکے سے فون ہمیں دے گیا تھا۔ 
فون کیسا چل رہا ہے؟ اس نے پوچھا۔ ہم باوجود کوشش کے یہ اندازہ لگانے سے قاصر رہے یہ واقعتاً سنجیدگی سے پوچھ رہا ہے یا چسکے لے رہا ہے۔ 
اچھا چل رہا ہے۔ بڑا پیارا فون ہے۔ چھوٹا سا۔ ایسا آئی فون پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ کوئی "سپیشل ایڈیشن" لگتا ہے۔ ہماری بات سن کر وہ ہنسنے لگا۔ 
اچھا اس پر پلاسٹک کا کور کیوں چڑھایا ہے؟ ہم نے پوچھا۔ 
کون سا پلاسٹک کاکور؟ اس نے حیرانی سے پوچھا۔ ہم نے اس کو کور دکھایا۔ تو ہنسنے لگا۔ 
ہنس کیوں رہے ہو؟ 
اتار کر دیکھ لو۔ اس نے کہا۔ اگر فون بکھر جانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں کب کے اتار چکے ہوتے۔ ہم نے کہا۔ اس پر وہ پھر کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔  ہم خاموشی سے وہاں کھسک لیے۔
 دن گزرتے گئے۔ فون کو ہم یا تو گھر ہی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ یا پھر وہ دفتر بھول جاتے تھے۔ اس پر آنے والی کالز اکثر ہم سنتے ہی نہ تھے اور نہ ہی اس فون کا نمبر ہمیں یاد تھا۔سوشل میڈیا اس پر استعمال ہو سکتا تھا لیکن ہوتا نہیں تھا۔ ۔   وٹس ایپ، فیس بک، یوٹیوب اور وقت ضائع کرنے والے ایسے تمام دیگر پھندے آپ کے پاس ہوتے ہوئے بھی آپ ان کو استعمال نہیں کر سکتے کیوں کہ جتنی دیر میں کھل کر سامنے آئیں گے آپ یقینی طور پر لاہور سے اسلام آباد پہنچ چکے ہوں گے۔ برقی خطوط اس پر پڑھنا مشکل اور ان کا جواب لکھنا زبان دکنی میں جواب لکھنے سے زیادہ مشکل تھا۔  کئی بار ایسا ہوا کہ بیٹری ختم ہونے کی صورت میں وہ فون بند ہوجاتا اور ہم کو پتا ہی نہ چلتا کہ فون بند ہوچکا ہے۔ ہمارے اتنا خیال رکھنے کے باوجود اس فون کی صحت روز بروز گرنے لگی تھی۔ ہم نے آج تک کوئی فون "بُھرتے" نہیں دیکھتا تھا۔ مگر اس فون کے ساتھ معاملہ کچھ اور ہی تھا۔ سکرین ایک طرف سے کٹاؤ کے عمل کا شکار تھی اور اس کے چھوٹے چھوٹے ذرے پکڑنے پر انگلیوں پر لگے رہ جاتے تھے۔  برق بذریعہ تار فون میں منتقل ہو رہی ہو تو کال سننے کی صورت میں آپ کو ایک زبردست قسم کا جھٹکا لگے گا۔ سکرین کے اوپر سے بنا چھوئے بھی ہاتھ گزاریں تو سکرین بند ہوجاتی تھی۔  "پراکسمٹی سنسر" کا خیال سائنسدانوں کو شاید اسی فون سے آیا ہوگا۔
ہمارے ایک دوست کا فرمانا تھا کہ جو شخص اپنی زندگی میں مطمئن ہے اس کو یہ فون تھما دینا چاہیے۔ چیز کے دسترس میں ہونے کے باوجود بھی اس سے بےنیاز ہوجانا درویشی صفت ہے اور یہ فون یہی صفت انسان میں بیدار کرتا ہے  اس فون کے زندگی میں آنے سے برقی مواصلات سے ایک طرح کی بیزاری سی چھا گئی تھی ۔ اب حالت یہ تھی کہ ہم اپنا فون بھی کم کم ہی استعمال کرنے لگے تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ  جو لوگ بہت زیادہ فون استعمال کرنے کے عادی ہیں ان کو کم سے کم ہفتہ بھر کے لیے یہ فون دیا جانا چاہیے۔ بلکہ اگر آئندہ مستقبل میں "ادارہ بحالی برائے مریضگان سوشل میڈیا" کا وجود عمل میں لایا گیا تو یہ فون ابتدائی "تھراپی" میں  ایسے مریضوں کو سوشل میڈیا سے   بیزار کرنے میں کافی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ 

Tuesday 11 September 2018

خرگوش جادوگر

3 comments

خرگوش جادوگر
چنا اور منا بہت شرارتی بھائی تھے۔ یوں تو ان کی شرارتیں سب کو بھاتی تھیں مگر بعض دفعہ وہ ایسی شرارت بھی کر جاتے جس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا تھا۔ جیسے ایک دن کلاس میں گڑیا کی پینسل چھپا دی۔ جب معلم نے سب کو سبق لکھوایا تو گڑیا کے پاس پینسل نہ تھی۔ سزا کے طور پر معلم نے گڑیا کو کھڑا کر دیا۔ اور وہ رونے لگی۔ مگر یہ دونوں بہت خوش ہو رہے تھے۔ کبھی کسی کی کتاب چھپا دیتے۔ تو کبھی کسی کا لنچ نکال کر کھا جاتے۔ ان کے اساتذہ اور گھر والے ان کو بہت سمجھاتے کہ دیکھو بچو! شرارت ایسی ہو جس سے کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ دونوں یہ ساری باتیں ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے۔ کسی بھی سرزنش کا ان پر اثر نہ تھا۔ماں باپ کے سامنے توبہ کر لیتے۔ مگر اگلے ہی پل سے پھر وہی سب شروع۔
ان کے گھر کے پاس ایک جھیل تھی، جہاں دونوں اکثر شام کو کھیلنے جایا کرتے تھے۔ اس دن شام کو جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے وہاں ایک خرگوش کو دیکھا۔ جس کے ہاتھ میں دور بین تھی۔ دونوں گھبرا گئے اور چھپ کر خرگوش کو دیکھنے لگے۔ خرگوش جو اصل میں ایک جادوگر تھا وہاں ان کی موجودگی سے باخبر تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ دونوں بچے اس سے ڈر کر ابھی تک چھپے ہوئے ہیں تو وہ خود ہی چپکے سے اٹھ کر ان کے پیچھے پہنچ گیا۔ اور ان کو کہنے لگا۔ پیارے بچو! کیا بات ہے؟ تم مجھ سے گھبرا کیوں رہے ہو؟ خرگوش جادوگر کی شفقت اور پیار بھرے انداز نے دونوں کا خوف کم کرنے میں مدد کی۔ اور وہ خرگوش جادوگر سے باتیں کرنے لگے۔
چنا نے خرگوش جادوگر کی دوربین اٹھانے کی کوشش کی تو خرگوش جادوگر نے کہا، بیٹا! یہ عام دور بین نہیں ہے۔ یہ بہت خاص دور بین ہے۔ اس میں تم اپنی شرارتوں کا انجام دیکھ سکتے ہو۔ اور اپنا مستقبل بھی دیکھ سکتے ہو۔
منا نے خرگوش جادوگر سے کہا کہ وہ اس دوربین میں اپنی کچھ شرارتوں کا انجام دیکھنا چاہتا ہے۔
خرگوش جادوگر نے دور بین اس کے سامنے کر دی، تو انہوں نے دیکھا کہ گڑیا کو اس کی والدہ سے بہت زورکی ڈانٹ پڑ رہی ہے۔ اس کی والدہ کہہ رہی ہیں کہ تم روز پینسل گم کر کے آجاتی ہو۔ اب تم کو نئی پینسل نہیں ملے گی۔ تمہاری سزا یہی ہے کہ تمہیں روز معلم سے سزا ملے۔
اگلے منظر میں ببلو کو اس کی والدہ سے ڈانٹ پڑ رہی تھی ۔ یہ تیسرا لنچ باکس ہے جو تم نے اس مہینے گم کیا ہے۔ اب تم کو کل لنچ نہیں ملے گا۔ جب بھوکے رہو گے تو خود ہی حفاظت کرنے لگو گے۔
یہ مناظر دیکھ کر دونوں کے سر شرم سے جھک گئے۔ خرگوش جادوگر نے کہا بچو! کیا تم اپنا مستقبل دیکھنا چاہو گے۔
ان دونوں نے شرمندہ انداز میں اثبات میں سر ہلایا۔
خرگوش جادوگر نے دوربین پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور پھر ان کو منظر دیکھنے کا کہا۔
دونوں نے دیکھا کہ اسکول میں کوئی بھی ان کا دوست بننے پر تیار نہ تھا۔ سب ان کو آتا دیکھ کر وہاں سے کھسک جاتے۔ اساتذہ بھی ان کی شرارتوں سے تنگ آکر ایک رپورٹ گھر بھیجنے کی تیاری کر رہے تھے۔
خرگوش جادوگر نے سمجھایا کہ پیارے بچو! ابھی بھی وقت ہے۔ اپنی شرارتوں سے باز آجاؤ۔ ایسی شرارت جس میں کسی کا نقصان ہو اچھی نہیں ہوتی۔ اور پول کھلنے پر سب پر سے آپ کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ ان دونوں نے وعدہ کیا کہ وہ اب بہت اچھے بچے بن کر رہیں گے اور شرارت میں بھی کبھی کسی کا نقصان نہیں کریں گے۔
اگلے دن انہوں نے گڑیا کی سب پینسل اس کو واپس کر دی اور ببلو کا لنچ باکس بھی اس کو واپس کر دیا۔ اب وہ کلاس میں سب کے اچھے دوست بن چکے تھے اور اساتذہ کے پسندیدہ بچوں کی فہرست میں شامل تھے۔


از قلم نیرنگ خیال

Wednesday 16 May 2018

ایجنڈا برائے سوشل میڈیا دوران رمضان

2 comments
ایجنڈا برائے سوشل میڈیا دوران رمضان


رمضان کریم کی آمد ہو چکی ہے۔ بازاروں میں رونق ہے۔ لوگ کھجوریں اور کپڑے خرید رہے ہیں۔ کسی بڑے شاپنگ مال میں کھڑے ہو کر "سیلفی" بھی لے رہے ہیں کہ روزے کی خریداری کرتے ہوئے۔ الحمداللہ۔
الحمداللہ کے بغیر جملہ ادھورا ہے۔ اس سے ایک نیکی کا "ٹچ" آجاتا ہے۔ مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔ اس بار میں نے بھی سوچا ہے کہ صبح فجر کے وقت مسجد کے باہر سیلفی لوں گا۔ عنوان دوں گا۔ اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوں میں۔ نہیں۔ یہ عنوان ٹھیک نہیں۔ یہ عنوان کیسا رہے گا۔ "اس کو کیا جانیں یہ دو رکعت کے امام"۔ واہ واہ۔ اقبال کی جے ہو۔ نہیں، یہ عنوان بھی ٹھیک نہیں۔ اس سے خود پرستی کی بو آتی ہے۔ تکبر اور میں۔ معاذاللہ۔ یہ خیال اگر میرے ذہن میں آگیا ہے تو کسی او رکے ذہن میں بھی آسکتا ہے۔ یہ عنوان نہیں رکھوں گا۔ اچھا کوئی اور سوچتا ہوں۔ پہلے دن سیلفی نہیں لینی۔ دوسرے تیسرے دن جب نمازیوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوگی۔ تب تصویر لوں گا۔ تاکہ پتا چلے اس منافق دنیا کو۔ ہم چند دن کے بیوپاری نہیں۔ پورا مہینہ ہی نماز چلائیں گے۔ ہاں عنوان آگیا ذہن میں۔ "ادھی لعنت دنیا تے، تے ادھی دنیا داراں ہو" واہ۔۔ دل اپنے اس عنوان پر جھوم اٹھا۔ یہ تو روحانیت اور تصوف کو بھی "ٹچ" کر رہا ہے۔ کیسا زبردست عنوان ہے۔ بس فائنل
اب باقی معاملات کی طرف بھی توجہ کروں۔ رمضان میں شاعری کیسی ہونی چاہیے۔ صرف مسلمان شعرا کی شاعری ہی ہونی چاہیے۔ ہاں یہ یہ یہ مسلک کا بھی نہ ہو۔ صرف صوفیانہ شاعری پر توجہ دوں تو؟ موضوعات اسلامی رہیں تو بہتر ہے۔ گوگل! اسلامی شاعری میں کیا کیا آتا ہے؟
حمد، نعت، منقبت، نوحے وغیرہ وغیرہ۔ نوحے تو محرم میں سنوں گا نا۔ یہ منقبت کیا ہوتی ہے۔ اس کو تلاش کرتا ہوں۔ نئی چیز ہوئی تو بلے بلے۔ اچھا تمہید کیسے باندھوں۔؟ ہاں!
ماہ مبارک کے مقدس دنوں میں آپ کے لیے ایک خوبصورت کلام لیکر حاضر ہوا ہوں۔ جس سے روح جھوم اٹھے گی۔ طبیعت شاداب ہوجائے گی۔ اور روزے کی ساری پیاس مٹ جائے گی۔ اللہ اللہ۔ واہ واہ۔۔۔ کیا ابتدائی سطر لکھی ہے۔ اس کے بعد تو کلام میں دم نہ بھی ہوا مارکیٹ میں "ہٹ" جائے گا۔ ہوہوہوہوہوہو
ہاں سب سے ضروری چیز۔ نماز کے اوقات میں سوشل میڈیا استعمال نہیں کرنا۔ مبادا کوئی سمجھے یہ نماز نہیں پڑھ رہا۔ ویسے میں کہہ دوں گا ہماری مسجد میں جلدی ہوجاتی ہے۔ تم ادھر کیا کر رہے ہو۔ ہاں جوابات تو سوچ کر رکھنے چاہیے نا۔ اچھا۔ اور سوچو! کیا کیا بات ہو سکتی ہے۔ نہیں ابھی میرے ذہن میں کچھ نہیں آرہا۔ اچھا فی البدیہہ دیکھیں گے۔تراویح کی تو خیر ہے۔ شکر ہے اس وقت میں اپنی ملازمت پر ہوتا ہوں۔ ورنہ تو ایک یا دو کیفیت ناموں خاطر۔۔۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ اللہ سب کو ریاکاری سے محفوظ رکھے۔


اچھا قرآن پڑھتے ہوئے بھی ایک تصویر ہونی چاہیے۔ پر خود تو ایسی نمود سے نفرت ہے۔ خاندان کے کسی فرد کو ایسے بین السطور ترغیب دوں گا۔ ہو سکتا ہے وہ خود ہی ایسی کوئی تصویر کھینچ لیں۔ امی ابو ساتھ بھی ایک تصویر تو ہونی چاہیے۔ افطاری کی تصویر نہیں لگاؤں گا۔ اس سے نمائش کی بو آتی ہے۔ کیا بندہ شوہدوں کی طرح سب کو بتائے کیا کیا کھایا ہے۔ یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہوتی ہے۔ ویسے کبھی باتوں میں یا تبصروں میں بات ہوجائےتو الگ بات ہے۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ کسی بھی خریداری پر جا کر میں وہاں کی تصاویر نہیں لگاؤں گا۔ ورنہ باقیوں اور مجھ میں فرق کیا رہے گا۔
اللہ ہم سب کو اس رمضان نیک کام کرنے اور دوسروں کو ان کی ترغیب دینے کی توفیق دے۔ آمین


خود کلامی از نیرنگ خیال
16 مئی 2018

Wednesday 7 March 2018

وزیراعظم (ایک آنکھوں دیکھا کانوں سنا مکالمہ)

0 comments
وزیراعظم
(ایک آنکھوں دیکھا کانوں سنا مکالمہ(
آج ایک بیگ خریدنے کی نیت سے ٹاؤن شپ بازار جانا ہوا۔ مختلف دکانوں سے ہوتا ہوا ایک دکان میں داخل ہوا۔ دکان میں پہلے سے ایک خاتون دو لڑکیوں سمیت موجود تھی۔ میں خاموشی سے دکاندار کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ دکاندار ان خواتین سے بحث میں مصروف تھا۔ جو گفتگو  میں نے سنی ،  پیش خدمت ہے۔
لڑکی: یہ بیگ کتنے کا ہے؟
دکاندار: یہ سات سو کا ہے۔
خاتون: سات سو؟ زیادہ سے زیادہ دو ڈھائی سو کا بیگ لگتا ہے۔ 
دکاندار: نہیں ! یہ بیگ سات سو کا ہی ہے۔
لڑکی: یہ بیگ ہمیں تین سو میں دے دو۔
دکاندار: نہیں بی بی! یہ سات سے کم نہیں ہوگا۔ 
دوسری لڑکی: ہم نے پہلے بھی تمہاری دکان سے ایک بیگ ڈھائی سو کا لیا تھا۔ وہ سارا خراب ہوگیا۔ 
دکاندار: کب لیا تھا؟
لڑکی: گزشتہ سال
دکاندار: اوہ بی بی! گزشتہ سال کا تو وزیراعظم اس سال تک نہیں چلا۔ تم بیگ چلانے کی بات کرتی ہو۔ 

نیرنگ خیال
7 مارچ 2018