Showing posts with label رویے. Show all posts
Showing posts with label رویے. Show all posts

Monday, 19 February 2018

حل

2 comments
حل
پس منظر:
چند سال قبل فارغ التحصیل طلبا کے لیے حکومت کی طرف سے مختلف شعبہ ہائے جات میں مبتدی کے طور پر بھرتی کیے جانے کی پالیسی منظر عام پر آئی تھی۔ اس میں طلبا کو ماہانہ مشاہرہ دیا جاتا اور وہ پہلے سے کام کر رہے اداروں میں اپنے متعلقہ شعبے میں ایک سال کے لیے بطور مبتدی بھرتی کیے جاتے۔ جہاں ان کو عملی طور پر رہنمائی میسر ہوتی تھی۔ گزشتہ چند سال سے یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ اس پالیسی میں مالی بدعنوانی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ مستحق طلبا کی بجائے چند مفت خورے بھی اس میں شامل ہوجاتے۔ مزید یہ بھی سننے میں آیا کہ بڑی تعداد میں "جعلی مبتدیوں" کا اندراج کیا جاتا اور یوں ایک خطیر رقم بالا بالا ہی عالم بالا کو سدھار جاتی۔ اس مالی بدعنوانی کو روکنے کے لیے قوم کے خادم نے فوری اجلاس طلب کر لیا۔


منظر:
پالیسی بنانے والے قوم کے خادم کے سامنے سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ چند سال قبل فارغ التحصیل طلبا کے لیے مختلف شعبہ ہائے جات میں مبتدی بھرتی کرنے اور ان کو عملی ماحول سے روشناس کروانے کے لیے جو پالیسی وضع کی گئی تھی۔ اس کے متعلق بات کی جانے والی تھی۔


مکالمہ:
خادم: میرا یہ خیال ہے، بلکہ میں ایسا سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس منصوبے کو فوراً! سے پیشتر داخل دفتر کر دینا چاہیے۔ اور اس منصوبے کو لمحہ ضائع کیے بغیر بند کر دینا چاہیے۔ غضب دیکھو! ملک و قوم کے معماروں کی بھلائی کے لیے جو منصوبہ شروع کیا تھا۔ اس میں ہی مالی بدعنوانی کی خبریں ہیں۔
ایک رکن: سر! جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں۔ اس منصوبے سے بہت سے مستحق طلبا کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔
خادم: بالکل پہنچ رہا ہے اور یہی تو اس منصوبے کی روح تھی۔ اپنی انگلی "جالبانہ" انداز میں لہراتے ہوئے۔ مگر ان مالی بدعنوانیوں کا کیا کیا جائے۔ آگے کم مسائل ہیں جو ایک نیا محاذ بھی کھول لیا جائے۔
ایک اور رکن: سر! لیکن یہ تو مسئلے کا حل نہیں۔ ہمیں ان عناصر کی سرکوبی کرنی چاہیے نہ کہ اس منصوبے کو "پنج سالہ منصوبے" میں شامل کرنا چاہیے۔
خادم: قہقہہ لگاتے ہوئے۔ لئو دسو یار! اب ہم چٹھہ صاحب کو کہیں کہ مالی بدعنوانیاں مت کریں۔ یا پھر اپنے بٹ صاحب کو اس کام سے منع کریں۔یار شرم آتی ہے یاروں سے ایسی باتیں کرتے۔ چھوڑو یار، پروگرام ہی بند کرو۔ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔
اراکین مجلس بیک زباں ہو کر: واہ واہ۔ کیا دور اندیشی ہے۔
پیچھے پس منظر میں ہلکی سی دھن پر گیت چل رہا ہے۔
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
توہےمہرِ صبح نو
تیرے بعد رات ہے



از قلم نیرنگ خیال
19 فروری 2018


Tuesday, 4 July 2017

آپ نے آکر پشیمان تمنا کر دیا

4 comments
آپ نے آکر پشیمان تمنا کر دیا

پرانی بات ہے،  جب میری عمر کوئی دس سال کے قریب تھی۔ان دنوں    نیکی کا نشہ سا چڑھا رہتا تھا۔ یہ نیکی کا نشہ بھی عجیب تھا۔ فجر ہو کہ عشاء، کوشش ہوتی تھی کہ نماز مسجد میں پڑھی جائے اور اذان بھی خود دی جائے۔ کتنی ہی بار صرف اس لیے گھنٹہ پہلے مسجد پہنچ جاتا کہ اذان دوں گا۔ انہی دنوں مسجد میں ایک آدمی کا آنا شروع ہوا۔ اس کی شاید ایک آنکھ ضائع ہوچکی تھی۔ بہرحال اس کی آنکھ کے ساتھ کچھ مسئلہ تھا۔ اور مجھے اس سے بہت سارے مسائل تھے۔ ایک تو وہ مجھے  اذان نہیں دینے دیتا تھا۔ خود دیتا تھا۔ اور دوسرا جب نماز کے لیے صفیں باندھی جاتیں تو وہ ہم بچوں کو پچھلی صف میں کھڑا ہونے کا حکم دیتا۔ ہم جو اس مسجد کو اپنا سمجھا کرتے تھے۔ اس رویے سے بےحد شاکی تھے۔ اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھایا کرتے۔ پھر ایک دن کرنا یہ ہوا کہ امام صاحب کسی وجہ سے غائب تھے ، اور ان کے غائب ہونے کا ان موصوف نے فائدہ اٹھایا اور بھاگ کر امامت کی مسند پر جلوہ افروز ہوگئے۔ اس کے بعد تو یہ کھیل ہی بن گیا۔ امام صاحب کبھی نہ ہوتے یہ موصوف امامت کرواتے۔چونکہ یہ ہم بچوں کو شور کرنے پر ڈانٹتے اور نہ اذان دینے دیتے اور نہ ہی اگلی صف میں کھڑا ہونے دیتے تھے تو   وقت کے ساتھ  ہماری ان سے سرد جنگ بڑھتی چلی گئی۔ اچھا ایک دلچسپ بات جو میں نے نوٹ کی کہ جب موصوف امامت کرواتے تو رکوع و سجود میں جاتے وقت “اللہ اکبر” انتہائی گلوگیر سی آواز میں ادا کرتے گویا رو رہے ہیں۔

ایک دن ایسا ہوا کہ میں اذان دینے لگا تو اس شخص نے مجھے ہٹا دیا اور خود اذان دی۔ مجھے بہت برا لگا۔ تھوڑی دیر بعد جب جماعت کھڑی ہونے لگی تو  ہم سب بچوں کو پچھلی صف میں بھی کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا۔امام صاحب موجود نہیں تھے تو یہ صاحب بھاگ کر امامت کروانے کو بھی کھڑے ہوگئے۔ یوں تو مجھے شرارتی ہونے کا ایسا کوئی دعویٰ نہیں اور میں بڑا سیدھا اور شریف سا بچہ ہوتا تھا ۔تاہم ، ایک تو وہ یک چشم گُل دوسرا  ہم بالکل اور تیسرا ان کی روتی ہوئی آواز۔ ہمارے ذہن میں شیطان کا مجسم ہوجانا  کچھ اچھنبے کی بات نہ تھی۔  اب جو رکوع میں جانے لگے تو میں نے انتہائی روتے انداز میں بہ آواز بلند “اللہ اکبر” کا نعرہ بلند کر دیا۔ میرے ساتھ صف میں موجود بچے “کھی کھی کھی” کرنے لگے۔ میں نے رکوع سے دائیں بائیں دیکھا اور انہیں بلند آواز میں ہنسنے سے منع کیا۔ پھر سجدے کی باری آئی تو پھر یہی حرکت۔ عصر کی جماعت تھی۔ دوسری رکعت تک پہنچتے پہنچتے تمام نمازی حضرات بھی مسکرانے اور ہنسنے لگے۔ مسجد میں دبی دبی ہنسی گونجنے لگی۔ تیسری رکعت تک تو ہم باقاعدہ کھلکھلا کر ہنسنے لگے اور یوں ہی آوازیں لگانے لگے۔  ایسے بھی بچے نہیں تھے کہ یہ اندازہ نہ ہو کہ بعد از جماعت کیا ہوگا۔ سو تیسری رکعت سے جیسے ہی چوتھی کے لیے جماعت قیام میں کھڑی ہوئی۔ ہم تمام کے تمام بچے وہاں سے کھسک لیے اوراپنے اپنے  گھر آگئے۔ اس کے بعد کتنے ہی دن میں اس مسجد میں نہیں گیا۔ مسجد بدل لی۔ اور پھر کبھی جانا بھی ہوتا تو ابو کے ساتھ جاتا۔ یہ واقعہ میرے ذہن سے محو ہو ہی چلا تھا کہ ایف ایس سی کے دوران اسی مسجد میں جانا ہوا۔ جماعت کھڑی ہوچکی تھی۔ بھاگم بھاگ جو جماعت کے ساتھ ملا تو ایک مانوس سی روتی ہوئی آواز میں “اللہ اکبر”، “سمع اللہ لمن حمدہ” سنا۔ بےاختیار نماز میں ہی مسکراہٹ  نے آن گھیرا اور بقیہ نماز اسی واقعہ کی جزئیات یاد کرتے کرتے مکمل کی۔ چور آنکھوں سے حضرت کو دیکھا۔ اور پھر گھر آگیا۔ گھر والوں کو یہ قصہ سنایا۔ اور بہت لطف لیا۔

لاہور  کے ابتدائی قیام کے دوران ایک دن بابا نے بتایا کہ یار وہ فلاں شخص فوت ہوگیا ہے۔ میرے ذہن میں وہ آدمی موجود نہ تھا تو بابا نے نشانی کے طور پر بتایا کہ یار وہ کبھی کبھار امامت بھی کرواتا تھا ا وراذان بھی دے دیا  کرتا تھا۔ یہ سننا تھا کہ  سر شرمندگی سے جھک گیا۔ تو وہ یک چشم گُل گزر گیا۔ احساس ندامت نے آن گھیرا۔ پہلی بار  سوچ بیدار ہوئی ، اس سے معافی ہی مانگ لیتا۔ وہ بچپن کی نادانی سمجھ کر معاف کر دیتا۔ موقع گنوا دیا تو نے۔ دل نے بہت ملامت کی۔ اب آپ احباب اگر یہ سمجھیں کہ میں اس بات سے سدھر گیا اور جا کر اس کی قبر پر معافیاں مانگنے لگا تو آپ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ بس تبدیلی یہ آئی کہ جب میں کسی کو یہ واقعہ سناتا تو آخر میں ایک سنجیدہ سی شکل بنا کر یہ بھی کہتا ، یار، اور آج وہ زندہ ہوتے تو میں ان سے معافی مانگ لیتا۔ اگرچہ کبھی کبھار مجھے لگتا کہ اس شرارت پرمجھے  کوئی ندامت نہیں ہے۔

گزشتہ سال چھوٹی عید کی بات جب ہم سب عید نماز کے لیے مسجد پہنچے۔ بابا امام سے عید ملے بغیر مسجد سے نہیں نکلتے سو اس دن ہم ایک خلقت سے بغلگیر ہوتے ہیں۔ یہ بغل گیر ہونے کا عمل بھی ایسا ہوتا ہے کہ پتا نہیں چلتا کس کس سے عید مل لی ہے۔ سب سے ملتے ملتے جب  محراب تک پہنچے تو امام صاحب سے عید ملنے سے  پہلے مجھے ایک شخص بڑی گرمجوشی سے عید ملا۔ میں نے  بزرگ کو دیکھا تو ان کی آنکھ کو کوئی مسئلہ تھا۔ وہ بڑی گرمجوشی سے مجھے کہنے لگے۔ کیسے ہو؟ اسلام آباد ہی ہوتے ہو؟ میں ان سے کہا جی، ابھی چند دن قبل لاہور منتقل ہوا ہوں۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔ مسجد سے نکلتے ہی میرا اور بابا کا مکالمہ کچھ یو ں ہوا۔

میں: بابا! یہ شخص تو فوت ہو چکا تھا؟
بابا: یہ کب کی بات ہے؟
میں: آپ نے مجھے بتایا تھا۔
بابا: تمہیں دھوکا ہوا ہے۔
میں: میں اتنے عرصے سے ہر کسی کو کہہ رہا ہوں کہ یہ فوت ہوچکا ہے۔ اور اگر یہ زندہ ہوتا تو میں اس سے معافی مانگ لیتا۔
بابا: عجیب آدمی ہو تم۔۔۔۔۔ (ہنستے ہوئے) ۔۔۔ پتا نہیں کس کی قبر میں کس کو لٹا رکھا ہے۔
  چھوٹے بھائیوں کا ایک مشترکہ فلک شگاف قہقہہ۔
اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ اب کسی کو واقعہ سناتے وقت کیسے کہوں گا، "یار! اگر آج وہ زندہ ہوتے تو میں ان سے معافی مانگ لیتا۔"

Tuesday, 19 July 2016

افسانچہ: تیری صبح کہہ رہی ہے۔۔۔۔

9 comments
تمام دوست خوش گپیوں میں مصروف تھے، لیکن وہ خاموش بت بنا بیٹھا خالی نظروں سے سب کو دیکھ رہا تھا۔ پیشانی پر سلوٹیں اور آنکھوں کے گرد حلقے بہت گہرے نظر آرہے تھے۔بار بار گردن کو دائیں بائیں ہلاتا جیسے درد کی وجہ سے پٹھوں کو آرام دینے کی کوشش کر رہا ہو۔ آنکھوں کی سرخی سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ گزشتہ کئی دن سے سو نہیں پایا۔  کافی دیر گزرنے کے بعد بھی جب برخلافِ طبیعت اس کی طرف سے کوئی جملہ کسی بھی موضوع پر سننے کو نہ ملا تو احباب اپنی گفتگو ترک کر کے اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ پہلے نے ایک گہری نگاہ اس کے سراپے پر ڈال کر پوچھا۔
یہ تمہاری آنکھوں کے گرد حلقے اتنے گہرے کیوں ہیں؟ کس کا غم سوہان روح بنا ہوا ہے؟ دوسرے نے سوال اٹھایا۔
بولو بھی!  کیا زبان گروی رکھ دی ہے؟ تیسرے نے جملہ چست کیا۔
خدا کے واسطے! اب یہ نہ کہہ دینا کہ تمہیں اس عمر کسی مٹیار سے عشق ہوگیا ہے.جبکہ تمہارا ایک پاؤں قبر میں اور دوسرا کیلے کے چھلکے پر ہے۔ ایک نے جھلا کر کہا۔
پھر سب چپ ہوگئے۔ اس نے سب پر ایک گہری نگاہ ڈالی۔ اور پھر آہستہ سے بولا۔
میں آجکل نائٹ شفٹ بھی کر رہا ہوں۔ 

نوٹ: پتا نہیں اس کو افسانچہ بھی کہنا چاہیے کہ نہیں۔۔۔ خیر جو بھی ہے۔ 

Wednesday, 17 February 2016

سامنے دھری (لاتسکہ سپیشل) از قلم نیرنگ خیال

5 comments

غائب دماغی بھی" سامنے دھری "والی قبیل سے  ہی تعلق رکھتی ہے بلکہ یوں کہنامناسب ہے، "سامنے دھری "والے مقولے کی عملی شکل  غائب دماغی ہے۔ انسان جہاں موجود ہوتا ہے۔ وہاں موجود نہیں ہوتا۔ اور وہاں موجو د ہوتا ہے جہاں اسے موجود نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے کبھی    بہت سنجیدہ صورتحال جنم لیتی ہے تو کبھی بہت ہی مضحکہ خیز حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ غائب دماغی میں اگر ایک سے زیادہ شخص  شامل ہوجائیں تو صورتحال عموماً بہت ہی عجیب ہو جاتی ہے۔ ہمارے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بھی کچھ ایسا ہی ہے جس میں ہم دو افراد بیک وقت خود کو پروفیسر کے درجے پر فائز کر بیٹھے تھے۔  آخری لمحے  تک ہمیں یہ اندازہ نہیں ہوا کہ ہم  نے اصل میں کدھر جانا تھا اور ہم کدھر بیٹھے ہوئے ہیں۔ 
بہاولپور سے ہماری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ ہمارا ننھیال، وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں سب کا جمع ہونا، گپ بازی، کھیل  کود، الغرض کیا کیا  ہے جو  ہمیں اس شہر کی سرحد کو چھوتے ہی یاد آجاتا ہے۔  لیکن اس بار ہم   اپنے ننھیال  نہیں جا رہے تھے۔   اہلیہ کو اس کے میکے چھوڑنے کے بعد آزادی کا جو احساس کسی بھی مرد میں جاگتا ہےاس کا ادراک کوئی شادی شدہ مرد ہی کر سکتا ہے۔  شہرِ سسرال سے نکلتے  آدھی چیزیں تو بندے کو ویسے ہی بھول جاتی ہیں۔ اور باقی آدھی وہ دانستہ بھلا دیتا ہے۔ ہماری بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔ وہاں سے نکلے اور بہاولپور میں اپنے ایک قدیم    دوست کو فون کیا۔
راقم: کدھر ہے بھئی؟
دوست: بہاولپور میں ہوں۔
راقم:  میں آرہا ہوں۔
دوست: بھابھی اور بچے بھی ساتھ ہیں؟
راقم:  ایک فلک شگاف قہقہے کے ساتھ:نہیں۔ اکیلا ہی ہوں۔
دوست: آجا جلدی سے ۔ سیدھا میرے دفتر آجائیں۔  زور کی بھوک لگی ہے۔
اس کے دفتر پہنچتے ہی ملنے سے بھی قبل ہم نے بھوک کا نعرہ مستانہ بلند کر دیا۔ دوست نے کمال سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ بتا کھانا کہاں کھائے گا۔ ہم  ابھی اس کی فیاضانہ پیشکش پر غور ہی فرما رہے تھے کہ اس نے خود ہی ہماری مشکل آسان کر دی۔ فورسیزن کا پیزا بہت اچھا ہے۔ چل وہ کھاتے ہیں۔ مجھے بھی فور سیزن کھانا کھائے کافی عرصہ گزر چکا تھا لہذا کسی بھی قسم کے اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ ہم دونوں گاڑی میں بیٹھے اور فور سیزن کی طرف چل نکلے۔
پارکنگ میں گاڑی لگانے کے بعد ہم دونوں باتوں میں مگن اتر کر اندر کی طرف چل پڑے۔ داخلی دروازے  سے گزرتے ہی مجھے اجنبیت کا احساس سا ہوا۔
چند سالوں ہوٹل کتنا بدل گیا ہے۔ داخلی راہداری تو بالکل ہی بدل ڈالی ہے۔ میں نے دوست کو کہا۔
وہ بھی حیران سی نظروں سے ہال پر نظر ڈالتے ہوئے کہنے لگا کہ ہاں یار!  اندرسے  بھی بالکل بدل گیا ہے۔  ہال کی تقسیم بھی کر دی  گئی ہے۔ میں چند مہینے قبل آیا تھا۔ بڑی جلد ہی ان لوگوں نے نقشہ بدل ڈالا۔
بیرے نے ایک میز تک ہماری رہنمائی کی۔ اور مینو کارڈ ہمارے سامنے دھر دیا۔
یار یہ دیوار پر جو بڑا سا لاتسکہ لکھا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ میں نے اس کی توجہ ایک دیوار کی طرف کروائی۔
یہ تو مجھے علم نہیں۔ بڑا عجیب سا لفظ ہے۔ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
ہم دونوں مینو دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔ کون سا پیزا آرڈر کریں۔ یہ چکن تکہ یا پھر باربی کیو؟  دوست نے پوچھا۔
میرا خیال ہے کہ لاتسکہ سپیشل منگوایا جائے۔ باقی سب تو  پہلے بھی کھائے ہوئے ہیں۔  کچھ نیا ذائقہ بھی ہوجائے۔ میں نے کہا۔
پیزا آرڈر کرنے کے بعد ہم دونوں دوبارہ خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔ پرانے دنوں کی باتوں اور یادوں نے ہمیں ارد گرد کے ماحول سے یکسر لاتعلق کر دیا تھا۔  کھانے کے دوران میں نے غور کیا تو نیپکن اور ٹشو پر بھی لاتسکہ لکھا ہوا تھا۔ یاحیرت یہ کیا ماجرا ہے۔
کھانے کے بعد جب بل آیا تو اس پر بھی لاتسکہ لکھا ہوا تھا۔ ہم نے ایکدوسرے کو دیکھا۔ دوست کہنے لگا کہ یار انہوں نے تو بل تک کی پرنٹنگ بدل دی ہے۔ حد ہے۔
بل کی ادائیگی کے بعد اپنے تئیں جب ہم فور سیزن ہوٹل سے باہر نکل کر کار کی طرف بڑھے  تو مجھے ساتھ والے ہوٹل کے اوپر فور سیزن کا  بورڈ نظر آیا تو بےاختیار میرے سے نکلا۔ "اوئے فورسیزن کا بورڈ اُدھر کیوں لگا ہے؟"
اس پر ہم نے دونوں نے اکھٹے پلٹ کر دیکھا۔ جس ہوٹل سے ہم کھانا کھا کر نکلے تھے۔ اس پر لاتسکہ کا بورڈ جگمگا رہا تھا۔ 

Tuesday, 3 November 2015

سامنے دھری

5 comments
بزرگ فرماتے ہیں کہ چھپی ہوئی تو سب ڈھونڈ لیتے ہیں۔ سامنے دھری اکثر نظر نہیں آتی۔ اس بات پر ہم بہت ہنسا کرتے تھے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی، "سامنے دھری نظر نہ آئے"، اندھے کو نظر نہ آتی ہو تو اور بات ہے۔ لیکن زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہم نے محسوس کیا کہ یہ بات کچھ ایسی بےمعنی نہیں۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ہم بےاختیار پکار اٹھتے۔ "اوہ! یہ پہلے کیوں نہ دیکھا۔ سامنے کی بات تھی۔" کبھی دل سے آواز آتی۔ "خاموش! اب سب کے سامنے اس بات کا تذکرہ کر کے خود کی عزت نہ کروا لینا۔ یہ تو کسی اندھے کو بھی نظر آجاتی۔"  زندگی ایسے کتنے ہی واقعات سے عبارت ہوتی چلی گئی جس میں ہم نے سامنے دھری کو کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا اور بعد میں خود کو ہی ہلکی سے چپت لگا کر سرزنش کر لی۔ اور کبھی  دائیں بائیں دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ کسی کو ہماری حماقت کا احساس تو نہیں ہوگیا۔ ایسے واقعات کے چند دن بعد تک ہمیں جو شخص مسکرا کر ملتا تو ہمارے دل  سے بےاختیار آواز آتی۔ " لگتا ہے اس کو ہماری حماقت کا پتا چل گیا  ہے۔  اسی لیے مسکرا رہا تھا۔ " اور کتنے ہی دن ہم اس مسکراہٹ میں طنز کا شائبہ ڈھونڈتے رہتے ۔  ایسے ہی لاتعداد واقعات میں سے ایک واقعہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

ملازمت کے دوران آٹو میٹڈ سسٹم میں ایک عجیب مسئلہ آگیا۔ دورانِ کوڈ کمپائلیشن اگر کوئی مسئلہ آجاتا تو ہمارے لکھے سکرپٹ  ای میل کرنے کی بجائے اجازت نامے کا رقعہ ہاتھ میں تھامے اس وقت تک انتظار کرتے رہتے تھے جب تک ہم آکر ان پر ماؤس کلک رنجہ نہ فرما دیتے۔  اس مسئلے کی وجہ سے روزانہ کا کام متاثر ہو رہا تھا۔ ٹیسٹنگ ٹیم انتظار میں رہتی کہ کب  ہم جناب دفتر میں قدم رکھیں اور اجازت نامے کو سرفراز فرمائیں۔ دفتر میں کچھ مصروفیات بھی ایسی تھیں کہ اس طرف مکمل توجہ کرنے سے قاصر تھے۔ نیٹ ورک ٹیم اور ٹیکنالوجی سپورٹ ٹیم کے لوگوں سے استدعا کی کہ کہ ہم نے اس سارے سسٹم میں مدتوں سے کوئی تبدیلی نہیں کی لہذا   کسی ونڈوز اپگریڈ کی وجہ سے یہ مسئلہ آنا شروع ہوگیا ہے  ۔ وہ بھی اپنے حصے کا سر پٹک چکے۔ سرور مشین ری سٹارٹ کر کر کے بھی معاملہ نہ سلجھا۔ وہ اطلاقیہ جس سے ہم ای میلز بھیجتے تھے۔ اس کی تنصیب کاری بھی دوبارہ کر لی لیکن  وہی  ڈھاک کے تین پات۔  ہم نے سرور کو  اپڈیٹس والی فہرست سے نکلوا دیا۔ تاکہکوئی اپڈیٹ  مزید معاملہ خراب نہ کردے اور  اس مسئلے کو مصروفیات کے اختتام پذیر ہونے تک  نہ کرنے والے کاموں کی فہرست کے حوالے کر دیا۔  متبادل حل کے طور پر کرنا یہ شروع کیا کہ بعد از نماز فجر گھر سے ہی مشین کنیکٹ کر کے دیکھ لیتے۔ اگر سکرپٹس اجازت نامے کے  منتظر ہوتے تو ہم اجازت  دے کر خود کو کوئی سرکاری افسر سمجھ لیتے۔ دن گزرتے رہے ہم نے اس مشق کو جاری رکھا۔ کمرشل ریلیز ہوجانے کے بعد جب ہماری مصروفیات میں خاطر خواہ کمی آگئی تو ہم نے سوچا کہ اب اس معاملے کو بھی سلجھا لینا چاہیے۔ 

ایک بار پھر نئے جذبے سے ہم  نے آغاز کیا۔ سب سے پہلے گزشتہ مہینوں میں آنے والی تمام اپڈیٹس کی تفصیلات پڑھیں۔ اطلاقیہ دوبارہ انسٹال کیا۔ جب اس کو چلانے کی خاطر رن کرنے لگے تو ایکا ایکی خیال آیا کہ کیوں نہ  "Elevated Privileges" کے ساتھ چلایا جائے۔ سو فوراً  بطور ایڈمنسٹریٹر چلایا۔ مسئلہ سلجھ چکا تھا۔ اگرچہ ہم اس بھید سے بخوبی آشنا تھے کہ  مائیکروسافٹ  آپریٹنگ سسٹم بھی پاکستانی معاشرت کی طرح افسر شاہی کا شکار ہے  لیکن اس کے باوجود یہ سامنے دھری ہم کو مہینوں تک نظر نہ آئی۔ 

Wednesday, 30 September 2015

تماشائی

6 comments
چند دن پہلے کی بات ہے  شہر سے باہر جاتی سڑک پر  ایک کار سے کتا ٹکر گیا۔کار والا بغیررکے نکلتا چلا گیا۔  کتا شدید زخمی حالت میں سڑک پر کراہ رہا تھا۔  ہم  جائے حادثہ سے کچھ فاصلے پر تھے۔ قبل اس کے ہم کتے تک پہنچتے۔ دو لڑکے موٹر سائیکل پر اس کے پاس رکے۔ جیب سے موبائل نکالا  اور مرتے کتے کی ویڈیو بنانے لگے۔ ایک آدھے منٹ کی ویڈیو بنانے کے بعد وہ دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھے اور یہ جا وہ جا۔ ہم  کتے کے پاس پہنچے تو وہ مر چکا تھا۔ میں نے اور میرے دو ست نے کتے کو گھسیٹ کر ایک طرف کیا۔ دو چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کی مدد سے  ایک گڑھا کھودا۔  اس میں کتے کو دفنا کر ہم دونوں پاس کے کھال پر بیٹھ کر ہاتھ پاؤں دھونے لگے۔ بات کچھ  ایسی  خاص نہ تھی کہ ذہن سے چپک جاتی۔

اس واقعے کے ایک یا دو دن بعد ایک واقف کار سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں معاشرے میں بڑھتی بےحسی  بھی زیرِ موضوع آگئی۔ ان کا فرمانا تھا کہ لوگ اب ظالم ہوگئے ہیں۔ ان کے اندر انسانیت نام کو نہیں رہی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جیب سے موبائل نکالا۔ اور واٹس ایپ پر مجھے ایک مرتے کتے کی ویڈیو دکھانے لگے۔ کتا تکلیف سے آوازیں نکال رہا تھا۔ اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ ہل سکتا۔ رفتہ رفتہ اس کی آوازیں مدہم ہوتی چلی گئیں۔ یہ ویڈیو ایک منٹ کی بھی نہ تھی۔ 

"دیکھا آپ نے جنااااب!"  انہوں نے مجھے سوچ میں گم پا کر کہا۔" کیسے وہ ظالم کار والا اس کو ٹکر مار کر نکلتا بنا۔ اس نے رکنے کی بھی زحمت نہیں کی۔"

"آپ کو کس نے بتایا کہ اس کو کار نے ٹکر ماری ہے؟" اگرچہ میں اس سوال کا جواب جانتا تھا لیکن پھر بھی  پتا نہیں کیوں میں نے پوچھ لیا۔ 

"میرے چھوٹے بھائی نے مجھے بتایا ہے۔ یہ ویڈیو اسی نے بنائی ہے۔" انہوں نے فخریہ انداز میں جواب دیا۔

"کار والے نے جان بوجھ کر ٹکر نہیں ماری تھی۔ کتے اکثر سڑک پر گاڑیوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ میں نے اسلام آباد میں خنزیروں کو بھی گاڑیوں سے ٹکرا کر مرتے دیکھا ہے۔ لیکن میری نظر میں زیادہ بےحس وہ لڑکے تھے  جو وہاں مرتے کتے کی ویڈیو بناتے رہے۔ اور مرنے کے بعد اس کی لاش  کو سڑک کے ایک طرف بھی نہ کیا اور اپنی راہ لیتے بنے۔ " میں نے اپنی سوچ ان کے سامنے بیان کرنے کی حماقت کردی۔

اوہ جاؤ  بھئی! انہوں نے انتہائی ترش لہجے میں کہا۔ لیکن اس کے آگے وہ کچھ بول نہیں پائے چند ثانیے بعد اٹھ کر چل دیے۔  مجھے   خدا حافظ کہنے کی زحمت بھی نہیں کی۔

اکثر سوشل میڈیا چینلز جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل پلس وغیرہ پر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ  "دیکھیں اصل چہرہ"، "یہ ہیں ہمارے معاشرے کے مکروہ چہرے "، "انسانیت کے نام پر دھبہ"  یا ان سے ملتے جلتے عنوانات کے ساتھ ویڈیوز شئیر کرتے ہیں۔ ان ویڈیوز میں عموماً بااثر افراد اپنے ملازمین یا دست نگر لوگوں پر ظلم و تشدد کرتے پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ویڈیو بنانے والے میں اتنا دم تو ہے کہ وہ اس کو یوٹیوب، فیس بک و دیگر چینلز پر اپلوڈ کر سکتا ہے۔ لیکن ویڈیو بنانے کے دوران وہ کبھی بھی کسی معاملے میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ چاہے کتنے ہی ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں۔ مظلوم مرتا مر جائے۔ لیکن اس ویڈیو بنانے والے کے ہاتھ نہیں کانپتے۔ دوران ویڈیو کیمرہ کی ہلکی سی لرزش بھی نظر نہیں آتی۔ وہ کبھی مظلوم کی داد رسی کی کوشش نہیں کرتا۔  کوشش تو ایک طرف پوری ویڈیو میں  اس کی طرف سے شاید ہی کوئی لفظ بھی اس کے خلاف نکلتا ہو۔ مزید  مشاہدہ یہ بھی ہے کہ یہ ویڈیوز چھپ کر نہیں بنائی جاتیں۔ کیوں کہ زیادہ تر ایسی ویڈیوز میں  کیمرے کا زاویہ ایک نہیں ہوتا۔ ہر زوایے سے گھوم پھر مظلوموں کی آہ و بکا ریکارڈ کی جاتی ہے۔ تاکہ وہ پتھر دل جو فیس بک، یوٹیوب یا ایسے دیگر چینلز پر اس ویڈیو کو دیکھیں۔ ان کے دل پگھل جائیں۔ اور وہ بھی عملی طور پر لعن طعن کرکے ایک صحت مندذہن رکھنے  کا ثبوت دے سکیں۔  کیا "خود نمائی" اور "لائکس" کے چکر میں ہم انسانیت کی بنیادی اقدار بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ 

بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر آگ کا درخت ہوتا تو شعلہ اس کا پھل ہوتا  ۔  "ظلم کی توفیق ہے ہر ظالم کی وراثت" کے مصداق ہر ظالم ظلم میں تو مصروف ہے۔ لیکن یہ جو بالکل ایک نئی طرز کی نسل دریافت ہوئی ہے۔ یہ کن میں شمار ہوتی ہے۔ یہ جو ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کر کے درد سمیٹتے ہیں۔ یہ کس کے طرفدار ہیں۔ ظالم کے یا مظلوم کے؟  میرا ذاتی خیال ہے کہ اب یہاں پر ایک تیسری درجہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔