تیمار داری ہماری معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی اقدار میں بہت اہم درجہ رکھتی ہے۔ بچپن میں جب ہمارے بڑے کسی کی تیمارداری کرنے کو جایا کرتے تھے تو کبھی ہمیں بھی ساتھ لے جاتے۔ ہماری حاضری اس پورے قصے میں ایک خاموش تماشائی سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔ مریض چاہے کوئی ہو، منظر عمومی طور پر ایک جیسا ہی ہوتا تھا۔ موسم کے مطابق اس میں چند ضروری تبدیلیاں ہوتی تھیں، باقی چیزیں یکسانیت کا ہی شکار ہوتی تھیں۔ مثال کے طور پر ہر منظر میں بیمار لیٹا ہوا ہوتا تھا۔آپ کہیں گے لیٹا ہی کیوں، بیٹھا ہوا کیوں نہیں؟ تو خدا لگتی یہی ہے کہ اوائل عمری میں ہم نے کبھی بیٹھا ہوا بیمار دیکھا ہی نہ تھا۔ یا شاید ہمارے ذہن میں یہ بات سما گئی تھی کہ جو اٹھ کر بیٹھا سکتا ہے وہ کاہے کا بیمار۔ سردیاں ہوتیں تو اس کی چارپائی کے نیچے ایک انگیٹھی دہک رہی ہوتی تھی۔ ایک آدھ آدمی اس کا سر یا پاؤں دبانے پر مامور ہوتا۔ گرمیاں ہوتیں تو پانی پٹی کا بندوبست ہوتا اور وہی خدمت پر مامور آدمی دبانے کا فریضہ چھوڑ کر پٹیاں کرنے پر مامو ر ہوتا تھا۔ مریض عمومی باتوں کے جوابات خود دیتا اور تشخیص کے متعلق جوابات کے لیے خدمت پر مامور آدمی کو زبان ہلانے کا اشارہ کر دیتا۔ درجہ حرارت چاہے سو ہی مشکل سے ہو مریض وقفے وقفے سے ہائے ہائے کے نعرے بلند کرتا رہتا۔ یہ ہائے ہائے بھی موسمی اثرات کے زیر اثر ہی ہوتی تھی۔ مثلاً اگر زکام یا کھانسی کا موسم ہے تو وقفے وقفے سے کھانسا جاتا رہے گا۔ ابکائی کو بہت اہمیت حاصل تھی تاہم اگر ابکائی کے لیے الٹا ہوجانے پر بھی ابکائی نہیں آتی تو خدمت پر مامور آدمی کا یہ بھی فریضہ ہوتا تھا کہ وہ کہتا رہے کچھ کھایا تو ہے نہیں دو دن سے، ابکائی کہاں آئے گی۔ یرقان کی صورت میں مریض آپ کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھے گا کہ آپ اس کی آنکھوں کا پیلا پن دیکھ سکیں۔ جبکہ ضعفِ معدہ کی شکایت کی صورت میں ایک ہاتھ مستقل طور پر پیٹ پر دھرا رہے گا۔ نیلی پیلی دوائیاں اکثر چارپائی پر سرہانے کے ساتھ ہی دھری ہوتی تھیں۔ کسی بھی تیمار دار کی آمد پر مریض یہ ضرور بتاتا تھا کہ فلاں دوا بےحد کڑوی ہے اور اس کے باعث اس کا حلق ایسا کڑوا ہے کہ شہد بھی کڑوا محسوس ہوتا ہے۔ تیمار دار بزرگ ہر بیماری کو معدے کی خرابی کا ہی شاخسانہ سمجھتے اور چند دیسی نسخے لازمی بتاتے جن کو اختیار کر کے معدے کی بیماریوں کو زیر زمین دفنایا جا سکتا تھا۔ یاد رہے کہ بیماری دفنانے کی بات ہو رہی ہے یہ الگ بات ہے کہ اکثر ایسے نسخے ہی ہوا کرتے تھے جن کا نتیجہ "مریض رہے نہ رہے مرض نہیں رہے گا" کی صورت ہی نکلتا تھا۔ ہماری دلچسپی بزرگوں کی دوسروں کے لیے تجویز کردہ دوائیوں کی بجائے ان کی اپنی دوائیوں میں ہوا کرتی تھی۔ کسی بزرگ کو حکیم نے خمیرہ گاؤ زبان صبح شام کھانے کی تاکید کی ہوتی تھی تو کوئی آلو بخارے کا شربت شکر گھول کر پیا کرتا تھا۔ کسی کے پاس گلقند سے گندھی ہوئی چاندی کے اوراق میں کوئی معجون ہوتی تو کوئی مزے دار قسم کی حریرہ جات کھا کر اپنی بیماری کو سکون پہنچایا کرتا تھا۔ اور ہم اکثر ان دوائیوں کی قزاقی اپنا فرض سمجھتے جن کی بزرگ اپنے مرض سے بھی زیادہ حفاظت کیا کرتے تھے۔ ہمیں وہ ساری باتیں یاد نہیں رہیں جو بڑے اور مریض آپس میں کیا کرتے تھے۔ وہ ہوا لشافی کے نعرے اور رندھی ہوئی آواز میں دعائیں، سب کچھ ذہن سے محو ہوتا گیا ، البتہ تیمار داری کا جذبہ جوں کا توں قائم رہا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ہم نے محسوس کیا کہ ایک تیمار دار ہمارے اندر ناصرف زندہ ہے بلکہ انتہائی شدت سے زندہ ہے۔ اگر کبھی کچھ عرصہ کسی کی تیمارداری نہ کرتے تو یوں محسوس ہوتا کہ نشہ ٹوٹ رہا ہے، روزوشب میں ایک کمی سی ہے۔ لیکن دنیا نے اپنے طور طریقے بدل لیے ہیں۔ رویوں میں تبدیلی آنے کے سبب تیمارداری کی روایت بھی اپنی اکھڑی سانسوں کے ساتھ اپنے وجود کو قائم رکھنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اوّل تو وہ بیماری کا بتانے اورتیمارداری کے لیے جانا ایک طرز کہن ٹھہرا تھا۔ تاہم اگرکبھی ہم تیمارداری کرنے پر تل ہی جاتے تو مریض ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ وہ مریض نہ رہے تھے جو ہر بات میں تین سے چار بار کھانس کر اپنا حال بتلایا کرتے تھے۔ کسی کا بازو بھی ٹوٹا ہوتا تو اپنے بازو ٹوٹنے کا قصہ بلغم زدہ آواز ہی میں سنایا کرتا تھا۔ بلکہ اس کے برعکس عموماً مریض بھلا چنگا ہوتا تھا۔ بلکہ اکثر اوقات تو اس کی صحت اور آواز کا کڑک پن ہمارے اپنے لئے بھی قابل رشک ہوا کرتا تھا۔ تیمارداری کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔ اکثر اوقات تو اللہ شفا دینے والا ہے کہہ کر ہی تیمارداری ختم ہو جایا کرتی ہے۔
ایسے میں وہ حکیم و ڈاکٹر سے ملاقات و مرض کی تشخیص کا مشکل مرحلہ سنے ہوئے بھی مدتیں گزر جاتیں ہیں۔ کہاں کوئی روایتی مریض ملے اور کہاں ہماری تیماردار حس کی تسکین کا کوئی وسیلہ بنے۔ اس چکر میں ہم نے ہر کسی سے حال و احوال دریافت کرنا شروع کیا۔ گلی میں سبزی بیچنے کے لئے آنے والے ریڑھی بان سے لے کر دفتر میں اعلی عہدیدار تک۔ لیکن ہر جگہ سے ایک ہی جواب اللہ کا کرم ہے یا پھر ہلکا سا گلا خراب تھا؛ اب بہتر ہوں کی صدائیں سن سن کر مایوسی اور تیماردار حس کی تشنگی بڑھتی چلی جاتی۔ ہائے وہ منظر وہ بیمار اور وہ تیماردار۔ کیسے مزے تھے ہمارے آباء کے۔
بچپن میں ہم اگر کبھی خاندان کی ایک بزرگ خاتون جو کہ جوڑوں کی مریضہ تھیں سے ان کا حال و احوال پوچھتے تو ان کا بیان اس قدر مفصل و جامع ہوا کرتا تھا کہ وہ اکثر اس درد سے گزرنے والی کیفیات اور پٹھوں کے درد سے دیگر عضلات کی کارگردگی متاثر ہونے کا بھی بیان فرمایا کرتی تھیں۔ لیکن وائے ستم ہائے روزگار کہ فکر معاش نے اس قدر دور لا کھڑا کیا مدتوں ان سے ملاقات نہ ہوتی اور تیماردار حس یوں ہی تشنہ رہتی ۔ بارہا دل کرتا کہ سب مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کرہفتہ بھر کی چھٹیاں لے کر ان کے پاس جایا جائے اور تیمارداری حس کو ابدی نیند سلا کر ہی واپس آیا جائے مگر گردش زمانہ کہاں کس کو اتنا وقت دیتی ہے۔ سو یہ حسرت بھی حسرت ہی رہی اور دوسری وجہ جو اس سفر میں حائل رہی وہ یہ کہ اگر اس سے بھی تیماردار حس کو افاقہ نہ ہوا تو آخری امید کی ڈوری بھی ٹوٹ جائے گی۔ سو یوں ہی جعلی قسم کے مریضوں کا حال پوچھ پوچھ کر اپنے اندر کے تیماردار کی تسکین کا سامان کرتے رہے۔
جعلی قسم سے مراد ہماری یہ نہیں کہ مریض خدانخواستہ جھوٹا ہوتا ہوگا بلکہ انداز مریضائی سے ہے۔ کسی کا حال پوچھنے جو گئے تو وہ ہٹا کٹا اپنے گھر کے لان میں بیٹھا موسمی پھلوں سے دل بہلا رہا ہوتا تھا۔ یا پھر ہمارے ساتھ ہی چائے نوش فرما لیتا جو کہ سراسر آدابِ مرض کے خلاف ہے۔
آواز میں کھنک کسی عام صحت مند سے زیادہ ہوا کرتی اور چہرے پر ایک بشاشت کا تاثر پایا جاتا جو کہ ہر صورت میں تیماردار کے لئے ناقابل قبول ہے۔ موسمی پھلوں کے ہم مخالف نہیں لیکن ہمارے ہاں دورانِ بیماری پرہیزی روایات کے مطابق بیمار عموماً سیب ہی سے دل بہلاتا تھا یا بہت لطف لیا تو گاجر کے جوس میں ایک آدھا کینو مالٹا ڈال کر پی لیا۔ لیکن یہاں تو اس روایت کا پاس رکھنے والے بھی نہیں رہ گئے۔ لاہور قیام کے دوران جب ہم کچھ احباب کے ساتھ رہائش رکھتے تھے تو انہی دنوں ایک دوست بیمار ہوگئے۔ دل کو تسلی ہوئی کہ اب ہائے ہائے کے نعرے لگیں گے۔ گرمیوں کے دن تھے سو موسم کے حوالے سے دارو پٹی کا سامان مکمل کرنے کا سوچا۔ ایسے میں وہ مریض موصوف انتہائی گرج دار آواز میں بولے کہ میرا خیال ہے کہ فلاں و فلاں و فلاں دوائی کھانے سے مجھے آرام آجائے گا۔ اس بات سے ہماری بڑی دل شکنی ہوئی۔ کہاں وہ حکیم و ڈاکٹر کے پاس جاتے، کہاں خود کو یہ حکیم جالینوس سمجھ بیٹھے ہیں۔ ابھی یہ دھچکا ہی کم نہ تھا کہ دوبارہ حکم دیا مجھے آم لا کر دیے جائیں۔ بس معاملہ ہماری برداشت سے بہت اوپر ہو چلا تھا۔ ہم نے کہا یہ کون سا مریض ہے جو سیب کی بجائے آم کی فرمائش کر رہا ہے۔ اس کی بیماری ہی جھوٹی ہے اور اس کی نیت خراب ہے۔ گو کہ نیتوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے لیکن ایسے موقعوں پر ہم نیتوں کا حال پرکھنے کا اپنا فن ضرور استعمال کیا کرتے تھے۔ اس واقعے سے تیماردار طبع کو کافی زک پہنچی اور مدتوں کسی کی تیمارداری کرنے کو دل نہ چاہا۔
بعض اوقات ایسا ہوتا کہ کسی دفتری ساتھی کی ناسازی طبیعت کے بارے میں علم ہوتا تو ہم فوراً فون کر لیتے۔ لیکن دوسری طرف سے ایک ہشاش بشاش آواز سن کر اپنی طبیعت کی ناسازی کا گمان ہوجاتا۔ ایسے میں ایک بار ایک دفتری ساتھی جب ہفتہ بھر دفتر سے غائب رہا تو دل کو یک گونہ اطمینان ہوا کہ شاید اب ہی وہ موقع ہے، اب تیمارداری بنتی ہے۔ سو اس کو فون کیا تو دوسری طرف سے ایک کھانستی اور بلغم زدہ آواز سنائی دی۔ حال پوچھنے پر جواب ملا مر رہا ہوں۔ لیکن ہائے تف ہے اس دنیا دار دل پر۔ جس نے اس کو ایک تماشا سمجھا اور اس کی بیماری کو ڈھونگ۔ ایسی آواز تو میں بھی نکال سکتا ہوں۔ ہم نے بیماری کی حقیقت جاننے کو حملہ کیا۔ اس پر وہ غضب ناک ہوگیا۔ لیکن آواز میں بلغم و کھانسی بدستور قائم رہی۔ بہت ہی پکا ڈرامہ باز تھا۔ واللہ اعلم ۔
شانِ نزول ڈرامہ بازی والی بات کی یہ ہے کہ مشار الیہ ایک دن بیمار تھے۔ دفتری احباب کے توسط پتا چلا کہ آج تو بےحد بیمار ہیں۔ ہم حیران ہوگئے کیوں کہ ہر چیز ایک حد میں اچھی لگتی ہے، اور بےحد والی چیزو ں میں کہیں بھی بیماری کا تذکرہ ہم نے نہ سنا اور نہ کہیں کبھی پڑھا تھا۔ اسی شام کو ایک محفلِ یاراں کا بھی بندوبست تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ عشائیہ کے ساتھ پتے کھیلے جائیں گے، فلم دیکھی جائے گی اور دورِ جدید کا حقہ بھی دستیاب ہوگا۔ متعین مقام پر جب ہم پہنچے تو حیرت کا جھٹکا لگا کہ جن صاحب سے عشائیے کی میز پر سامنا ہوا وہ کوئی اور نہیں وہی "بےحد بیمار" تھے۔ بیماری پیشانی سے بہہ کر باہر برآمدے تک جا رہی تھی۔ کچھ دیر اور بہتی رہتی تو شاید ایک آدھا صحت مند بھی اس دھارے میں لڑھک جاتا۔ ہم نے مؤدبانہ عرض کی۔
سنتے تھے وہ جو آپ کی بیماری کیا ہوئی
کہنے لگے کہ بعدِ سحر کچھ سنبھل گئی
ہم نے کہا کہ کھائیے گا کیا جنابِ من
کہنے لگے منگائیے ، پرہیز کچھ نہیں
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس اذیت ناک جواب سے ہماری تیماردارانہ حس کو جو ٹھیس پہنچی ہوگی۔ ہمارا اعتبار دنیا کے ہر مریض سے اٹھ گیا تھا اور ہم نے سوچ لیا کہ اب کسی سے حال و احوال پوچھا نہ کریں گے، لیکن پھر وہی بات کہ " جس کو ہوبےحسی عزیز تیماردار کہلائے کیوں"۔
اسی قحطِ مریضاں کے پرآشوب دور میں جب ہمارے اندر کا تیماردار خود بیمار ہو کر اس حال میں آپہنچا تھا کہ "مریض ہو سچا یا جھوٹا" تو خبر ملی کے ایک عزیز دوست بےحد بیمار ہیں۔ گاؤں سے تعلق ہونے کی وجہ سے یقین واثق تھا کہ یہ بیمار اب بیماری سے جڑی روایات کی مکمل پاسداری کرے گا لیکن میلوں دور ہونے کی وجہ سے صرف نادیدہ تیماردای ہی ممکن تھی، سو خط کی طرح فون کو بھی آدھی تیمارداری پر محمول کیا۔ تیماردار حس کو جگایا۔ وہ تمام باتیں ذہن پر زور دے کر دہرائیں کہ اب ایسے ایسے کیا کیا بات ہوگی، کیا منظر ہوگا۔ ہمارا دوست ایک کمرے میں بستر پر ہائے وائے پکار رہا ہوگا۔ سردیاں ہیں تو ایک انگیٹھی بستر کے نیچے دہک رہی ہوگی یا پھر شاید کوئی گیس کا ہیٹر جل رہا ہوگا۔ سرہانے کچھ نیلی پیلی دوائیوں کا ہجوم لگا ہوگا، جن سے مریض کو شبہ رہتا ہے کہ ان دوائیوں کی وجہ سے وہ نہیں بخار تندرست ہو رہا ہے۔
ایک مکالمہ سا ذہن میں بنتا چلا گیا
راقم: السلام علیکم
رائے : وع لی کم ال سل ام
راقم: تمہاری بیماری کے بارے میں سُنا، کہو کیسی طبیعت ہے؟
رائے : مجھے شک تھا کہ تمہارا ہی فون ہوگا۔ بس کچھ نہ پوچھو، مر رہا ہوں۔
راقم: اوہ تمہاری آواز سے بیماری کی شدت کا اندازہ ہورہا ہے۔ بخارکیا ٹوٹنے میں نہیں آرہا۔
رائے : بس کہتے ہیں کہ بیماری سے گناہ جھڑتے ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ ٹنڈ درخت ہی رہ جائے گا اور سب گناہ جھڑ جائیں گے۔
راقم: گویا حاجی ہونے لگے ہو۔
رائے: ہائے کافر۔۔۔ مجھے یہاں فرشتے نظر آرہے ہیں۔ اور تجھے شوخیاں سوجھ رہیں ہیں۔ اللہ دشمن کو بھی تجھ سا دوست نہ دے۔
راقم: دل چھوٹا مت کر، اللہ شفا دینے والا ہے۔
رائے: اللہ ہی شفا دے تو دے، ڈاکٹروں حکیموں کے بس کی بات تو نہیں لگتی۔
راقم: تم گئے تھے ڈاکٹر کے پاس؟ کیا کہتا؟
رائے:میاں وہ تو خود دوراہے کا شکار ہے۔ کبھی کہتا ٹائیفائیڈ ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ نمونیا ہے۔ اب اللہ ہی جانے۔ کبھی کوئی دوائی تھما دیتا ہے تو کبھی کوئی۔ ایک یہی فقیر ذات ملی تھی اس کلموہے کو اپنے تجربات کے لئے۔
راقم: پریشان نہ ہو میں نماز جمعہ کے بعد واعظ کو خاص دعا کرنے کے لیے کہوں گا۔
رائے: ہاں ضرور۔ لیکن بڑی مسجد سے ہی دعا کروانا، وہ مینار والی سے۔ یہ چھوٹے محلے کی مسجد کا مولوی بھی چھوٹا ہے۔ جس دن سے دعا کا کہا ہے اور بیمار ہوگیا ہوں۔ لگتا ہے اس کےگناہ بھی میری بیماری سے ہی جھڑیں گے۔
لیکن ہائے حوادثِ زمانہ۔ ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہمارے دوست کو بھی شہر کی شہری ہوا نے تمام پرانی قدروں کا باغی بنا دیا تھا ۔ آواز تو ایک طرف اس کافر نے تو ہمیں ایسا مایوس کیا کہ گویا آداب مریضاں سے بھی ناواقف تھا۔ ہائے ہائے۔ دوڑو بیمار چال عزین بولٹ کی چل گیا۔
فون جو کیا تو دوسری طرف سے کراری سی آواز سنائی دی۔
وعلیکم السلام:
راقم: حیران ہو کر! تمہاری بیماری کے متعلق اطلاع ملی تھی۔
رائے ایک ہی سانس میں: ہاں وہ کچھ بیمار رہا تھا؛ اب ٹھیک ہوں، تو سنا کدھر موجیں مار رہا ہے۔
راقم: کیا تشخیص کیا ڈاکٹر نے؟
رائے: چند ٹیسٹ لکھ کر دیے اور پھر کہا ٹائیفائیڈ ہے، کچھ سٹیرائیڈز بھی لکھ کر دیے تھے۔ اب سب اللہ کا کرم ہے۔
راقم: کچھ نقاہت محسوس ہوئی یا پرہیز کر رہے ہیں؟
رائے : اوہ نہیں یار۔ میں تو یہاں گَلی میں لڑکوں کو گُلی ڈنڈا کھیلتے دیکھ رہا ہوں۔ اس کھیل کو دیکھنا بھی بہت صحت مندانہ اقدام ہے۔
ہمارے اندر کے تیماردار پر سکرات طاری ہو گئی۔
تمام تحریر بہترین ہے مگر نین بھائی کیا ابھی بھی کوئی چھٹی کا ارمان باقی ہے؟ ہاہا ہاہاہاہا- سمجھ تو آپ گئے ہوں گے-
واسلام واصف
ہاہاہاہااااا۔۔۔ چھٹی کون کافر کر رہا ہے۔۔۔ میں تو بیماروں کی بیماریاں بیان کر رہا ہوں۔۔۔ :ڈی
شکریہ واصف بھائی۔ باعث خوشی ہے یہ امر کہ تحریر معیار ذوق پر پوری اتری۔
umda tehreer hai baradar ;) Kashif Butt
بہت عمدہ
کاشف بشیر۔۔۔ بٹ صاااب۔۔ بہت شکریہ
رضوان صاحب۔ بلاگ پر خیر مقدم۔ اور پذیرائی پر تشکر بسیار
بہت خوب نین بھائی۔ پڑھ تو چکا تھا سیل پر، تبصرہ اب ادھار چکانے کو پیش ہے۔ بلکہ تبصرہ کاہے کا، تشکر، کہ مسکرانے کا سبب بن جاتے ہیں :)
شکریہ قیصرانی بھائی۔